تفسیر مدنی

سورة صٓ

(سورۃ ص ۔ سورہ نمبر ۳۸ ۔ تعداد آیات ۸۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     صٓ قسم ہے اس قرآن ذکر والے کی

۲۔۔۔     (اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں) مگر جو لوگ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر وہ تکبر اور ضد (و عناد کی دلدل) میں پڑے ہیں

۳۔۔۔     ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا پھر (شامت آنے پر) انہوں نے بہت کچھ چیخ و پکار کی مگر وہ وقت بچے (اور خلاصی پانے) کا نہیں تھا

۴۔۔۔     اور ان لوگوں کو تعجب ہو رہا ہے اس بات پر کہ ان کے پاس ایک خبردار کرنے والا آ گیا خود انہی میں سے اور کافروں نے کہا یہ تو ایک جادوگر ہے بڑا جھوٹا

۵۔۔۔     کیا اس نے ان سارے خداؤں کی جگہ ایک ہی خدا بنا ڈالا؟ یہ تو واقعی ایک بڑی ہی عجیب بات ہے

۶۔۔۔     اور اٹھ کر چل دئیے ان کے سردار (یہ کہتے ہوئے) کہ چلو اور ڈٹے رہو تم لوگ اپنے معبودوں (کی پوجا پاٹ) پر بلاشبہ یہ ایک ایسی بات ہے جس کے پیچھے کوئی اور ہی غرض کار فرما ہے

۷۔۔۔     یہ بات تو ہم نے پچھلے دین میں بھی نہیں سنی یہ تو محض ایک من گھڑت بات ہے

۸۔۔۔     کیا ہم سب میں سے یہ ذکر بس انہی پر اتارا جانا تھا (سو ان لوگوں کا یہ کہنا کسی اتباع کی نیت سے نہ تھا) بلکہ (اصل میں) ان کو تو سرے سے میرے ذکر ہی میں شک ہے (اور وہ کسی دلیل کی بناء پر نہیں) بلکہ اس لئے کہ انہوں نے ابھی تک مزہ نہیں چکھا میرے عذاب کا

۹۔۔۔     کیا ان کے پاس آپ کے رب کی رحمت کے خزانے ہیں ؟ جو کہ سب پر غالب سب کو دینے والا ہے

۱۰۔۔۔     یا ان کے لئے بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین اور اس (ساری کائنات) کی جو کہ ان دونوں کے درمیان میں ہے ؟ تو ان کو چاہیے کہ یہ چڑھ جائیں (آسمان میں) رسیاں تان کر

۱۱۔۔۔     یہ تو ایک ایسا حقیر سا جتھا ہے جس نے شکست کھانی ہے اسی مقام پر (یعنی مکہ میں) منجملہ ان لشکروں کے (جو حق کے منکر اور دشمن رہے ہیں)

۱۲۔۔۔     جھٹلایا ان سے پہلے (حق اور حقیقت کو) قوم نوح عاد اور فرعون میخوں والے نے

۱۳۔۔۔     اور ثمود قوم لوط اور ایکہ والوں نے بھی یہی ہیں وہ جھتے

۱۴۔۔۔     ان میں سے ہر ایک نے جھٹلایا (اپنے تکبر و سرکشی کی بناء پر) میرے رسولوں کو سو آخرکار (ان میں سے ہر ایک پر) چسپاں ہو کر رہا میرا عذاب

۱۵۔۔۔     یہ لوگ تو اب (اپنے آخری انجام کے لئے) ایک ہی مرتبہ کی ایسی ہولناک آواز کی انتظار میں ہیں جس میں دم لینے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہو گی

۱۶۔۔۔     اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب جلد ہی بھیج دے ہمارے لئے ہمارے حصے کا عذاب یوم حساب سے پہلے

۱۷۔۔۔     (لہٰذا) آپ صبر ہی سے کام لیتے رہیں ایسے (ہٹ دھرم) لوگوں کی ان باتوں پر جو یہ (حق کے خلاف) بناتے ہیں اور یاد کرو ہمارے ایک خاص بندے داؤد (اور ان کی سبق آموز زندگی) کو جو کہ بری قوتوں والے تھے بے شک وہ ہمیشہ رجوع رہنے والا شخص تھا (اپنے رب کے حضور

۱۸۔۔۔     بلاشبہ ہم نے مسخر کر دیا تھا ان کے ساتھ پہاڑوں (جیسی اپنی سخت مخلوق) کو جو (ان کے ساتھ مل کر) تسبیح کرتے تھے صبح و شام (یعنی ہر وقت)

۱۹۔۔۔     اور پرندوں کو بھی جو سمٹ آتے تھے یہ سب اسی (اللہ) کی طرف رجوع کرنے والے تھے

۲۰۔۔۔     اور ہم نے مضبوط کر دیا تھا ان کی بادشاہی کو اور ان کو نواز دیا تھا حکمت (کی دولت) اور فیصلہ کن بات (کے ملکے) سے

۲۱۔۔۔     اور کیا تمہارے پاس خبر پہنچی مقدمے کے ان دو فریقوں کی جو کہ دیوار پھلانگ کر گھس آئے تھے ان کے عبادت خانے میں ؟

۲۲۔۔۔     جب کہ وہ پہنچ گئے داؤد کے پاس (ان کے خلوت خانے میں) تو آپ گھبرا اٹھے ان (کے اس طرح آنے) کی وجہ سے جس پر انہوں نے کہا ڈریئے نہیں ہم دو فریق مقدمہ ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے پس آپ ہمارے درمیان فیصلہ کر دیجئے حق کے ساتھ اور بے انصافی نہ کیجئے گا اور ہمیں راہنمائی کر دیں سیدھی راہ کی

۲۳۔۔۔     (پھر ایک نے صورت مقدمہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ) یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی دنبی ہے اب یہ کہتا ہے کہ تو وہ بھی میرے حوالے کر دے اور اس نے مجھے دبا لیا گفتگو میں

۲۴۔۔۔     داؤد نے کہا کہ بے شک اس شخص نے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملا لینے کا مطالبہ کر کے تجھ پر ظلم کیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ زیادہ تر شریک لوگ ایک دوسرے پر زیادتیاں ہی کرتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان رکھتے ہیں اور وہ (ایمان کے مطابق) نیک کام بھی کرتے ہیں مگر ایسے لوگ تو بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور (یہ بات کرتے کرتے فوراً) داؤد کو خیال آیا کہ یہ تو ہماری طرف سے اس کی آزمائش تھی سو اس پر وہ اپنے رب سے معافی مانگنے لگے سجدے میں گر پڑے اور توبہ کی

۲۵۔۔۔     سو ہم نے ان کو معاف کر دیا ان کا وہ قصور اور یقیناً ہمارے یہاں تو ان کے لئے ایک خاص مرتبہ بھی ہے اور عمدہ ٹھکانا بھی

۲۶۔۔۔     (ہم نے ان سے کہا) اے داؤد! بلاشبہ ہم نے آپ کو خلیفہ بنا دیا ہے اپنی زمین میں لہٰذا آپ فیصلہ کیا کریں لوگوں کے درمیان حق (و انصاف) کے ساتھ اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں بہکا دے گی اللہ کی راہ سے بے شک جو لوگ بھٹک جاتے ہیں اللہ کی راہ سے (والعیاذ باللہ تو) ان کیلئے ایک بڑا ہی سخت عذاب ہے اس بناء پر کہ انہوں نے بھلا دیا حساب کے اس ہولناک دن کو

۲۷۔۔۔     اور ہم نہیں پیدا کیا آسمان و زمین اور ان دونوں کے درمیان کی اس حکمتوں بھری کائنات کو بیکار (و بے مقصد) یہ گمان (باطل اور زعم فاسد) تو ان لوگوں کا ہے جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر سو بڑی ہی خرابی اور ہلاکت ہے ایسے کافروں کے لیے دوزخ (کے عذاب) سے

۲۸۔۔۔     کیا ہم ان لوگوں کو جنہوں نے ایمان لا کر نیک کام کئے ہوں گے ان کی طرح کر دیں گے جو فساد مچانے والے ہیں ہماری زمین میں یا ہم پرہیزگاروں کو کر دیں گے بدکاروں کی طرح؟

۲۹۔۔۔     یہ ایک عظیم الشان اور برکتوں بھری کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف (اے پیغمبر !) تاکہ یہ لوگ غور و فکر سے کام لیں اس کی آیتوں میں اور تاکہ یہ سبق لیں (اور نصیحت حاصل کریں) عقل سلیم رکھنے والے

۳۰۔۔۔     اور ہم ہی نے عطا کیا داؤد کو سلیمان جیسا بیٹا وہ بڑا ہی اچھا بندہ تھا بے شک وہ ہمیشہ رجوع رہنے والا تھا (اپنے رب کے حضور)

۳۱۔۔۔     (چنانچہ ان کا وہ واقعہ یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ان کے سامنے شام کے وقت پیش کیا گیا اصیل اور تیز رو عمدہ گھوڑوں کو تو

۳۲۔۔۔     آپ نے کہا کہ میں نے دوست رکھا مال کی محبت کو اپنے رب کی یاد سے یہاں تک کہ وہ چھپ گیا اوٹ کے پیچھے

۳۳۔۔۔     (پھر آپ نے کہا) واپس لاؤ ان کو میرے پاس پھر آپ ہاتھ پھیرنے لگے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر

۳۴۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے آزمائش میں ڈالا سلیمان کو (ایک اور موقع پر) اور ہم نے ڈال دیا ان کی کرسی پر ایک دھڑ پھر انہوں نے رجوع کیا (اپنے رب کے حضور)

۳۵۔۔۔     عرض کیا اے میرے رب میری بخشش فرما دے اور عطا فرما دے مجھے (اپنے کرم سے) ایسی بادشاہی جو میرے بعد کسی کے بھی لائق نہ ہو بے شک تو ہی ہے (اے میرے مالک !) بخشنے والا سب کو اور سب کچھ

۳۶۔۔۔     سو ہم نے ہوا کو بھی ان کا ایسا تابع کر دیا کہ وہ ان کے حکم کے مطابق چلتی تھی بڑی (سہولت اور) نرمی کے ساتھ جہاں بھی ان کو پہنچنا ہوتا

۳۷۔۔۔     اور جنوں کو بھی (ان کے تابع کر دیا تھا) یعنی ہر معمار اور غوطہ خور کو

۳۸۔۔۔     اور دوسروں کو بھی جو جکڑے ہوتے تھے زنجیروں میں

۳۹۔۔۔     (اور یہ سب کچھ دے کر ہم نے ان سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ) یہ ہماری بخشش ہے اب (تمہاری مرضی کہ) تم احسان کرو یا روک رکھو بغیر کسی حساب کے

۴۰۔۔۔     اور (اس بے مثال دنیاوی ساز و سامان کے علاوہ) ان کے لئے ہمارے یہاں ایک خاص مرتبہ بھی ہے اور عمدہ ٹھکانا بھی

۴۱۔۔۔     اور ہمارے بندے ایوب کا بھی ذکر کرو جب کہ انہوں نے پکارا اپنے رب کو (اور عرض کیا) کہ مجھے مبتلا کر دیا شیطان نے ایک سخت قسم کی تکلیف اور عذاب میں

۴۲۔۔۔     (اس پر ہم نے ان سے کہا کہ تم) اپنا پاؤں مارو زمین پر (اور لو) یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے کو اور پینے کو

۴۳۔۔۔     اور ہم نے ان کو ان کا کنبہ بھی عطا کیا اور ان ہی کے برابر ان کے ساتھ اور بھی اپنی خاص رحمت سے اور ایک عظیم الشان نصیحت (اور یاد دہانی) کے طور پر عقل سلیم رکھنے والوں کیلئے

۴۴۔۔۔     اور (ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ) لے لو اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا (سو) تنکوں کا پھر مارو اس سے (اپنی بیوی کو) اور مت توڑو تم اپنی قسم کو بے شک ہم نے ان کو صابر پایا وہ بڑے ہی اچھے بندے تھے بے شک وہ ہمیشہ رجوع رہنے والے تھے (اپنے رب کے حضور)

۴۵۔۔۔     اور ہمارے بندوں ابراہیم اسحاق اور یعقوب کا بھی ذکر کرو جو کہ بڑی قوتوں والے اور دیدہ ور تھے

۴۶۔۔۔     بلاشبہ ہم نے ان سب کو برگزیدہ کیا تھا ایک خاص صفت یعنی اس گھر کی یاد کے ساتھ

۴۷۔۔۔     اور بلاشبہ یہ سب کے سب ہمارے یہاں برگزیدہ نیک بندوں میں سے تھے

۴۸۔۔۔     اور اسماعیل الیسع اور ذوالکفل کو بھی یاد کرو یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے

۴۹۔۔۔     یہ ایک عظیم الشان ذکر (اور یاد دہانی) ہے اور بے شک پرہیزگاروں کیلئے ایک بڑا ہی عمدہ ٹھکانا ہے

۵۰۔۔۔     یعنی ہمیشہ رہنے کی ایسی عظیم الشان جنتیں جن کے دروازے ان (کے استقبال) کے لئے پہلے سے ہی کھول کر رکھے گئے ہوں گے

۵۱۔۔۔     ان میں وہ تکئے لگائے (نہایت آرام و سکون کے ساتھ) بیٹھے ہوں گے (اور اپنی مرضی و خواہش کے مطابق) طلب کر رہے ہوں گے طرح طرح کے بکثرت پھل اور قسما قسم کے مشروبات

۵۲۔۔۔     اور ان کے پاس نگاہوں کو نیچی رکھنے والی ہم عمر عورتیں بھی ہوں گی

۵۳۔۔۔     یہ ہیں وہ نعمتیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے حساب کے دن دئیے جانے کا

۵۴۔۔۔     بے شک یہ ہماری وہ بخشش (و عطاء) ہے جس نے کبھی ختم نہیں ہونا

۵۵۔۔۔     یہ (تو ہوا انجام پرہیزگاروں کا) اور سرکشوں کے لئے یقیناً بڑا ہی برا ٹھکانا ہے

۵۶۔۔۔     یعنی جہنم (اور اس کی ہولناکیاں) جہاں ان کو بہر حال داخل ہونا ہو گا سو بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ

۵۷۔۔۔     یہ ہے (انجام ایسے بدبختوں کا) سو وہ چکھتے رہیں مزہ (اپنے کئے کرائے کا) یعنی کھولتا ہوا پانی اور بہتی ہوئی پیپ

۵۸۔۔۔     اور اسی طرح کی اور بھی کئی قسم کی (تکلیف دہ) چیزیں

۵۹۔۔۔     (وہ اپنے پیروؤں کو جہنم کی طرف آتا دیکھ کر آپس میں کہیں گے کہ لو) یہ ایک اور لشکر ہے جو تمہارے ساتھ گھسنے چلا آ رہا ہے ان پر خدا کی مار انہوں نے بھی اب گھسنا ہے اس آگ میں

۶۰۔۔۔     وہ ان کو جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ خدا کی مار تم پر ہو تم ہی نے تو سامان کیا ہے ہمارے لئے اس انجام کا سو بڑا ہی برا ٹھکانا ہو گا وہ

۶۱۔۔۔     (پھر وہ چیلے کہیں گے کہ) اے ہمارے رب جس نے ہمیں اس انجام سے دوچار کیا اس کو تو آج دوگنا عذاب دے (دوزخ کی) اس ہولناک آگ کا

۶۲۔۔۔     اور دوزخی آپس میں کہیں گے کہ کیا بات ہے ہم (یہاں پر) کچھ ایسے لوگوں کو نہیں دیکھ رہے جن کو ہم (دنیا میں) برا سمجھا کرتے تھے

۶۳۔۔۔     کیا ہم یونہی (ناحق طور پر) ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے یا (ان کی یہاں موجودگی کے باوجود) ہماری نگاہیں ان سے پھر گئی ہیں ؟

۶۴۔۔۔     بلاشبہ یہ بات یعنی دوزخیوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا قطعی طور پر حق (اور سچ) ہے

۶۵۔۔۔     کہو (ان سے اے پیغمبر) کہ میں تو صرف ایک خبردار کرنے والا ہوں اور کوئی بھی معبود نہیں سوائے اللہ کے جو کہ یکتا (اور) سب پر غالب ہے

۶۶۔۔۔     جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان تمام چیزوں کا جو کہ ان دونوں کے درمیان ہیں نہایت زبردست انتہائی (درگزر اور) معاف کرنے والا

۶۷۔۔۔     کہو (کہ لوگو! تم مانو یا نہ مانو) یہ بہر حال ایک بہت بڑی خبر ہے

۶۸۔۔۔     جس سے تم لوگ (اس لا پرواہی کے ساتھ) منہ موڑے ہوئے ہو

۶۹۔۔۔     (نیز ان سے یہ بھی کہہ دو کہ) مجھے تو عالم بالا کے بارے میں کچھ بھی خبر نہ تھی جب کہ ان کا آپس میں جھگڑا ہو رہا تھا

۷۰۔۔۔     میری طرف تو (ان باتوں کی) و حی کی جاتی ہے میں تو بس ایک خبردار کرنے والا ہوں کھول کر

۷۱۔۔۔     (چنانچہ وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان بنانے والا ہوں مٹی (گارے) سے

۷۲۔۔۔     پھر جب میں اس کو پورے طور پر بنا چکوں اور اس میں پھونک دوں اپنی روح میں سے تو تم سب گر جانا اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے

۷۳۔۔۔     سو (اس حکم کے مطابق) فرشتے سجدے میں گر گئے سب کے سب ایک ساتھ

۷۴۔۔۔     مگر ابلیس کہ اس نے گھمنڈ کیا اپنی (من گھڑت اور جھوٹی) بڑائی کا اور (وہ علم الہیٰ میں) تھا ہی کافروں میں سے

۷۵۔۔۔     حق تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس تجھے کس چیز نے روکا اس بات سے کہ تو سجدہ کرے اس (عظیم الشان ہستی) کے آگے جس کو میں نے خود بنایا اپنے دونوں ہاتھوں سے ؟ (کیا تو یونہی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہو گیا یا تو (واقع میں کوئی) بڑے درجہ والوں میں سے ہے ؟

۷۶۔۔۔     اس نے جواب میں کہ میں اس سے بہتر ہوں مجھے تو آپ نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی (گارے) سے

۷۷۔۔۔     حکم ہوا کہ پس تو نکل جا یہاں سے کہ تو قطعی طور پر راندہ درگاہ ہو گیا

۷۸۔۔۔     اور تجھ پر میری لعنت ہے قیامت کے دن تک

۷۹۔۔۔     اس نے کہا اے میرے رب پھر مجھے مہلت دے اس دن تک کہ ان سب کو دوبارہ اٹھایا جائے گا

۸۰۔۔۔     ارشاد ہوا جا تجھے مہلت ہے

۸۱۔۔۔     اس دن تک جس کا وقت معلوم ہے (مجھے)

۸۲۔۔۔     اس نے کہا تیری عزت کی قسم میں گمراہ کر کے رہوں گا ان سب کو

۸۳۔۔۔     بجز تیرے ان خاص بندوں کے جن کو تو نے چن لیا ہو گا

۸۴۔۔۔     فرمایا پس حق بات یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں

۸۵۔۔۔     کہ میں بھی ضرور بھر کے رہوں گا جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے جو تیری پیروی کریں گے سب سے

۸۶۔۔۔     (ان سے) کہو کہ میں (تبلیغ حق کے) اس کام پر تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی میں کوئی تکلف (اور بناوٹ) کرنے والے لوگوں میں سے ہوں

۸۷۔۔۔     وہ تو محض ایک نصیحت ہے تمام جہان والوں کے لئے

۸۸۔۔۔     اور تم لوگوں کو اس کی حقیقت خود ہی معلوم ہو جائے گی کچھ ہی عرصہ کے بعد

تفسیر

۱۔۔  سو قرآن کے ذی الذکر (ذکر والے) ہونے کی یہ صفت ایک عظیم الشان صفت ہے سو یہ قرآن ذی الذکر لوگوں کو تذکیر و یاد دہانی کراتا ہے ان کے خالق و مالک کی عظمت شان اور اس کی وحدانیت و یکتائی کی۔ اس کے حقوق و اختیارات اور اس کی صفات کی۔ نیز یہ لوگوں کو تذکیر و یاد دہانی کراتا ہے ان کے مقصد حیات اور ان کے مآل و انجام کی۔ اور ان تمام حقائق کی جو انسان کی فطرت کے اندر ودیعت و پیوست ہیں، مگر وہ ان کو بھولا ہوا ہے۔ نیز یہ تذکیر و یاد دہانی کراتا ہے لوگوں کو یوم حساب و جزاء کی نیز یہ تذکیر و یاد دہانی کراتا ہے۔ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کی شان و رحمت نقمت کی۔ اور اس ضمن میں یہ ان عظیم الشان مظاہر کو بیان کرتا ہے جو دنیا میں بڑے بڑے واقعات کی صورت میں ظہور پذیر ہوئے ہیں، کہ ان کے اندر تذکیر و یاد دہانی کے بڑے دلائل ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل و فکر، اور تفکر و تدبر، سے کام لیتے ہیں۔ سو قرآن حکیم ان سب باتوں کی تذکیر و یاد دہانی کراتا ہے، کہ یہ تمام اس حقیقت کی شاہد ہیں کہ منکرین کو جن باتوں کی تذکیر و یاد دہانی کرائی جا رہی ہے وہ سراسر حق و صدق اور قطعی طور پر ناقابل انکار ہیں۔ اگر یہ منکر لوگ ان کو نہیں مان رہے، تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ قرآن کے بارے میں کسی طرح کے کسی شک وریب کی کوئی گنجائش ہے۔ بلکہ ان کے اس انکار کا اصل سبب ان لوگوں کا کبر و غرور، ان کی انانیت و ہٹ دھرمی۔ اور ان کی اتباع ہویٰ، اور خواہش پرستی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،

۱۴۔۔    سو تاریخ کے اس حوالے سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ تمام قومیں جو تاریخ کی بڑی نامی گرامی اور اپنے دور کی بڑی مشہور و معروف اور ترقی یافتہ قومیں تھیں۔ ان کا کیا حشر ہوا۔ چنانچہ ان کا جرم بھی واضح فرما دیا گیا، اور ان کا انجام بھی۔ سو ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کی تکذیب کی، جس کے نتیجے میں آخرکار ان کو صفحہ ہستی ہی سے مٹا دیا گیا۔ اور اس طور پر کہ اب یہ قصہ پارینہ اور تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئیں۔ پس اس سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انکار و تکذیب حق کا جرم اتنا ہولناک اور اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے۔ ایسے بدبختوں کو ڈھیل جتنی بھی ملے وہ بہر حال ایک ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے آخرکار اپنے وقت پر بہر حال ختم ہو جانا ہوتا ہے، پس اس میں دورِ حاضر کے منکرین کے لئے بڑا درس عبرت ہے کہ وہ اپنی روش کفر و تکذیب سے باز آ جائیں ورنہ ان کا حشر و انجام بھی وہی ہو گا جو کل کے ان منکروں کا ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بے لاگ اور سب کے لئے یکساں اور ایک برابر ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۱۷۔۔  ذَالْاَیْد میں اَیْد جمع ہے ید کی جس کے اصل اور لغوی معنی تو ہاتھ ہی کے آتے ہیں۔ لیکن کنایہ اور استعارہ کی زبان میں اس کا اطلاق قوت و طاقت وغیرہ کے کنائی معنوں پر بھی ہوتا ہے، خود ہمارے یہاں کے عرف اور محاورے میں بھی کھلے ہاتھوں والا، لمبے ہاتھوں والا، اور کشادہ دست، وغیرہ کے استعمال مشہور و معروف ہیں۔ سو حضرت داؤد کے لئے ذَالْاَیْد (ہاتھوں والے) سے مراد ان کی وہ عظیم الشان قوتیں ہیں جن سے قدرت کی فیاضیوں نے آنجناب کو بطورِ خاص نوازا تھا، چنانچہ آپ جسمانی قوت کے اعتبار سے بھی ایک خاص اور امتیازی شان کے مالک تھے۔ جس کا مظاہرہ آپ نے میدانِ جنگ میں جالوت جیسے کڑیل اور خوفناک دشمن کے مقابلے میں کیا تھا۔ اسی طرح آپ سیاسی اور فوجی اعتبار سے بھی بڑی قوت کے مالک تھے، جس کی بناء پر آپ نے اپنے گرد و بیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک بڑی مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی، اسی طرح اخلاقی قوت کے اعتبار سے بھی آپ ایک منفرد اور امتیازی شان کے مالک تھے، جس کے نتیجے میں آپ نے بادشاہی میں فقیری کی، ایک عدیم النظیر مثال قائم فرمائی۔ اور صحیح حدیث حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم نے آنجناب کو اَعْبَدالْبَشَر (سب سے بڑے عبادت گزار بندے) قرار دیا۔ مگر ان تمام قوتوں، عظمتوں، اور امتیازی شانوں، کے باوجود آنجناب کا حال یہ تھا کہ کسی قسم کے کبر و غرور کا آپ میں کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔ بلکہ آپ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنے خالق و مالک کے حضور جھکے رہنے والے (اَوّاب) تھے، علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ سو اسی بناء پر یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کر کے آپ کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنے مخالفین و معاندین کی دلآزار اور دکھ دہ باتوں پر صبر و برداشت ہی سے کام لیں، اور اس ضمن میں ہمارے خاص بندے داؤد کو یاد کریں جو بڑی قوتوں والے تھے، کہ انہوں نے بڑی دولت و حشمت اور حکومت و سطوت سے سرفراز ہونے کے باوجود ہمیشہ عجز و انکسار ہی سے کام لیا، اور کبر و غرور کے کسی شائبے کو اپنے اندر نہ پیدا ہونے دیا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم جیسے کمزوری کو بھی ان عمدہ صفات و خصال میں آنجناب کی توفیق بخشے آمین، وانہ سبحانہ و تعالیٰ سمیع قریب مجیب، وعلی مایشاء قدیر، جَلَّ جلالُہٗ وَعَمَّ نُوالُہ،

۲۴۔۔    سو حضرت داؤد کو جب تنبیہ ہوا کہ یہ قدرت کی طرف سے ان کی ایک آزمائش تھی تو وہ فوراً اپنے رب سے بخشش کی دعا مانگنے لگے۔ اور رکوع کرتے ہوئے اس کے حضور سجدے میں گر پڑے خَرَّ رَاکِعًا میں جیسا کہ حضرات اہل علم نے تصریح فرمائی ہے رکوع اور سجدہ دونوں مراد ہیں رکوع کا ذکر تو اس میں تصریح کے ساتھ موجود ہے اور خَرَّ کا لفظ سجدے پر دلیل ہے، اور اَنَاب سے مراد ہے دل کا رجوع۔ رکوع و سجود تو رب تعالیٰ کے حضور انابت و رجوع کے ظاہری افعال اور حسی مظاہر ہیں، ان کے اندر اصل روح دل کی انابت سے پیدا ہوتی ہے اسی لئے یہاں پر رکوع وسجود کے ذکر کے بعد وَاَنَاب کی تصریح سے اس حقیقت کو ظاہر اور واضح فرمایا گیا ہے۔ سو فَغَفَرْلَنَا لَہ ذَالِکَ کی تصریح سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت داؤد کے اس تنبیہ اور استغفار کے بعد ان کی اس غلطی کو معاف فرما دیا گیا، اور چونکہ ہر سچی توبہ سے بندے کی قدر و منزلت اس کے رب کے یہاں اور بڑھ جاتی ہے اور ہر رجوع الی اللہ سے اس کو اپنے رب سے مزید قرب نصیب ہوتا ہے اس لئے یہاں پر حضرت داؤد کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے یہاں انکے مراتب میں مزید اضافہ ہوا۔ وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید،

۲۶۔۔  سو اس سے حضرت داؤد پر عنایات خداوندی کا ذکر بھی فرما دیا گیا۔ اور ان عنایات کے تقاضے کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ سو آں جناب کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کو اللہ کی زمین میں جو اختیار اور اقتدار ملا ہے، یہ سب اسی کا بخشا ہوا ہے، اسی نے آپ کو اپنی اس زمین میں اپنا خلیفہ اور نائب بنایا ہے پس اس کی اس عنایت اور اس کی بخشی ہوئی اس خلافت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے اس اختیار و اقتدار کو اس کی مرضی کے مطابق استعمال کریں لہٰذا لوگوں کے درمیان حق اور عدل کے مطابق ہی فیصلہ کرو۔ اور کبھی خواہش کی پیروی نہیں کرنا، کہ وہ تم کو حق اور عدل کی راہ سے ہٹا دے گی۔ اور اللہ کی راہ سے ہٹنا بہت بڑے خسارے کا باعث ہے۔ کیونکہ جو لوگ راہ راست سے ہٹ کر خواہشات کی پیروی کریں گے، اور خواہشات نفس کی پیروی میں گھر کروہ آخرت کے یوم حساب کو بھلا دیں گے۔ ان کے لئے بڑا ہی سخت عذاب ہے۔ والعیاذُ باللہ۔ واضح رہے کہ یہاں پر حضرت داؤد کو خطاب کر کے جو ہدایت دی گئی ہے یہی ہدایت دنیا کے تمام حکمرانوں بلکہ جملہ انسانوں کے لئے ہے۔ کہ جو کچھ اختیار و اقتدار کسی کو ملتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کے دیئے بخشے سے ملتا ہے اور اس کے بارے میں ہر ایک انسان سے قیامت کے روز پوچھ ہو گی۔ اور اس کو وہاں جواب دینا ہو گا، کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے بخشے اختیار و اقتدار کو اس نے حضرت واہب مطلق جَلَّ جلالُہٗ کی مرضی کے مطابق استعمال کیا تھا، یا اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں؟ پھر جنہوں نے اپنے خالق و مالک کی مرضی اور اس کی رضا و خوشنودی کو مقدم رکھا ہو گا۔ اور رب کے اس امتحان میں وہ کامیاب ہو گئے تو ان کے لئے آخرت کی ابَدی اور حقیقی بادشاہی سے سرفرازی ہو گی۔ اور اس کے برعکس جنہوں نے آخرت کے یوم حساب کو بھلا کر اپنی خواہشات ہی کو اپنا معبود بنایا ہو گا۔ اور انہی کے تقاضوں کو انہوں نے اپنے پیش نظر رکھا ہو گا۔ ان کے لئے ان کی آخرت فراموشی کے اس جرم کے نتیجے میں بڑا ہی سخت عذاب ہو گا، والعیاذُ باللہ العظیم، سو راستے دو ہیں۔ ایک اتباع ہُدیٰ یعنی اپنے خالق و مالک کی طرف سے ملنے والی ہدایت کی اتباع و پیروی کا راستہ، جس کا نتیجہ و ثمرہ جنت کی سدا بہار نعمتوں سے بہرہ مندی و لطف اندوز ہی اور وہاں کی اَبَدی اور حقیقی بادشاہی سے سرفرازی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دوسرا راستہ اتباع ہویٰ یعنی خواہشات نفس کی پیروی کا راستہ ہے جو کہ حیوانات اور وحوش کا راستہ ہے۔ اور انسان کا انسانیت کے منصۂ شرف سے گر کر حیوانات اور وحوش کی سطح پر آ جانا۔ اور عقل و فکر کی روشنی کو اپنے خالق و مالک کی معرفت کے اصل اور حقیقی مقصد سے موڑ کر بطن و فرج کی خواہشات کی تکمیل میں لگا دینا، خساروں کا خسارہ اور ہلاکتوں کی ہلاکت ہے۔ اور ایسوں کے لئے ان کی آخرت فراموشی کے نتیجے میں بڑا سخت عذاب، اور انتہائی بُرا انجام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں۔ اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے۔ اور غفلت و لاپرواہی سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین یاربَّ العالمین

۲۷۔۔    حضرت داؤد کی سرگزشت کے خاتمے کے بعد اس ارشاد سے عام لوگوں کی طرف التفات فرمایا گیا ہے، اور اس سے آخرت کے یوم حساب کی ضرورت کو واضح فرما دیا گیا، یعنی یہ کہ آخرت کے یوم حساب کا آنا اس لئے ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے رب کے یہاں پیش ہو کر اس امر کی جوابدہی کرے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے بخشے اختیار کو اس نے صحیح استعمال کیا تھا یا غلط؟ اگر صحیح اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے مطابق استعمال کیا تھا، تو اس کے صلے اور بدلے میں وہ جنت کی سدا بہار نعمتوں اور وہاں کی نعیم مقیم سے سرفراز و فیضیاب ہو، اور اس کے برعکس اگر اس نے اللہ تعالیٰ کے دیئے بخشے اختیار کو غلط اور رب کی ناراضگی کی راہ میں صرف کیا تھا تو وہ اس کی سزا پائے، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، جو کہ تقاضائے عقل و نقل ہے، اور یہ بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں، اور یہ سب کچھ آخرت کے اس یوم حساب ہی میں ممکن ہو گا، جس کی وسعتیں نا پیدا کنار ہوں گی، اور جس کے وقوع اور قیام کا اصل مقصد ہی یہ ہو گا کہ عدل و انصاف قائم ہو اور ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ ملے کیونکہ اس دنیا میں ایسا نہ ہوتا ہے اور نہ ہو سکتا ہے، ایک تو اس لئے کہ دنیا اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے دارالجزاء ہے ہی نہیں، بلکہ یہ دارالعمل اور دارالامتحان ہے، جبکہ دارالجزاء آخرت کا وہ جہاں ہی ہے جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، کہ اس کی وسعتیں لامحدود اور نا پیدا کنار ہیں اور دوسرے اس لئے کہ دنیا ہی اس کے ظرف محدود میں اس کی وسعت و گنجائش ہی نہیں کہ اس میں کسی کو اس کے عمل کا پورا، اور قرار واقعی صلہ اور بدلہ مل سکے، اس لئے یہاں پر نیک و بد اور متقین و فجار سب باہم ملے جلے رہتے ہیں، پس آخرت کا وہ یوم حساب اگر نہ آئے تو دنیا کا وجود عبث اور بیکار ہو کر رہ جاتا ہے، جو کہ حضرت خالق حکم کی حکمت اور اس کی صفت عدل و انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے، اور ایسا کہنا اور ماننا کافروں کا کام ہے، جس سے ان کا زاویہ نگاہ ہی غلط، اور ان کا سرمایہ حیات ہی بیکار ہو کر رہ گیا، جس کے نتیجے میں انہوں نے آخرکار آتش دوزخ کا عذاب بھگتنا ہو گا، سو بڑی ہی خرابی اور ہلاکت ہے کافروں کے لئے دوزخ کی اس انتہائی ہولناک آگ کی بناء پر، والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عقیدہ آخرت ایک ایسا انقلاب آفریں عقیدہ ہے کہ اس سے انسان کی دنیا بھی سنورتی ہے، اور آخرت بھی بنتی ہے، جبکہ اس سے محرومی دنیا و آخرت دونوں کی ہلاکت و تباہی کا باعث ہے، کہ ایسے لوگ نہ اپنی منزل اور اس کے تقاضوں سے آگاہ ہوتے ہیں، اور نہ ہی ان کو دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفراز کرنے والی راہِ راست کا کوئی اتا پتا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ایسے لوگ اندھے اور اُوندھے بن کر اپنے ہولناک انجام کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں جس سے رہائی اور گلو خلاصی کے لئے پھر ان کے لئے کوئی صورت ممکن نہیں رہی، اور یہی ہے خساروں کا خسارہ، والعیاذ باللہ العظیم

۳۸۔۔    سو اس سے تصریح فرما دی گئی کہ حضرت سلیمان کے لئے ہوا کو مسخر کرنے کے ساتھ ساتھ جنوں کو بھی ان کے کنٹرول میں کر دیا گیا تھا۔ جن سے وہ طرح طرح کے تعمیری کام لیتے تھے۔ کچھ بنّاء اور کاری گر ہوتے، جو آنجناب کے حکم و ارشاد کے مطابق طرح طرح کے قومی کام کرتے۔ اور کچھ غوطہ خوری کر کے سمندر سے طرح طرح کی قیمتی چیزیں نکال لاتے۔ شیاطین کے لفظ سے۔ یہاں پر مراد جن ہیں۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان شریر جنوں ہی کو مسخر کر کے ان سے اس طرح کے مختلف اصلاحی اور تعمیری کام لیتے تھے۔ صالحین سے آپ تعرض نہیں کرتے تھے۔ جبکہ جنوں کی ایک اور پارٹی کو ریزرو فورس کی حیثیت سے زنجیروں میں جکڑ کر رکھا تھا، تاکہ ضرورت کے موقع پر ان سے آپ مختلف کام لے سکیں۔ اور وہ ہمہ وقت آپ کے پاس موجود ومیسر رہیں۔

۴۴۔۔  سو حضرت ایوب کی ابتلاء و آزمائش کا دور ختم ہوا۔ اس ابتلاء و آزمائش میں وہ کامیاب ہوئے۔ اور نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ کامیابی کے اعلیٰ معیار سے سرفراز ہوئے۔ اور آپ کو اپنے رب کی طرف سے ایسے عظیم الشان اور بے مثال اعزازات ملے کہ بیشک ہم نے ان کو صابر پایا ۔وہ بڑے ہی اچھے بندے تھے اور بیشک وہ ہمیشہ رجوع رہنے والے تھے اپنے رب کی طرف چنانچہ اس کے بعد آنجناب کے لئے نوازشات کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جسمانی آزاروں سے نجات دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو پھر اہل و عیال سے نواز دیا۔ اور انہی کے برابر خدم و حشم بھی عطا کئے۔ کیونکہ ابتلاء و آزمائش کے دور میں آپ کے اہل و اولاد، اور اقرباء و رشتہ داروں، میں سے کچھ بچھڑ گئے تھے۔ اور کچھ وفات پا گئے تھے۔ خدم و حشم اور غلام بھی سب تتر بتر ہو گئے تھے۔ آزمائش کا دور ختم ہونے کے بعد بچھڑے ہوئے اعزہ و اقارب پھر مجتمع ہو گئے۔ جو وفات پا چکے تھے ان کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے اور عنایت فرما دیئے۔ اور مال و دولت کے ساتھ ساتھ خدم و حشم بھی ان کو پھر مل گئے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ سب کچھ ہم نے اپنی خاص رحمت کی بناء پر کیا۔ اور اس لئے کہ تاکہ عقل سلیم رکھنے والوں کے لئے ایک عظیم الشان نصیحت اور یاد دہانی ہو۔ کہ اللہ اپنے بندوں کی وفاداری کا امتحان کرتا ہے، اور اس کے یہاں سے کامیابی انہی کو نصیب ہوتی ہے جو امتحان میں مستقیم اور ثابت قدم رہتے ہیں، اور یہ کہ اس امتحان کے لئے ایک حد مقرر ہوتی ہے جس سے وہ آگے نہیں بڑھتا، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع و انابت۔ اور اس کی طرف توجہ ایسے امتحانات میں وسیلہ ظفر بنتی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید، بِکُلِّ حَالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ۔ یہاں پر حضرت ایوب کی شان عبدیت کا یہ پہلو بھی ملاحظہ ہو کہ آپ نے اپنے رب کو پکار کر اس کے حضور اپنی جو دعاء و درخواست پیش کی وہ صرف یہ تھی کہ اے میرے رب مجھے شیطان نے بڑا دکھ اور عذاب پہنچایا یعنی اپنے رب کے حضور صرف اپنے دکھ اور تکلیف کو پیش کر دیا اور بس، آگے اس بارے نہ کوئی درخواست پیش کی، اور نہ مطالبہ بلکہ معاملے کو اپنے رب کے حوالے کر دیا کہ وہ جو چاہے کرے، علیہ الصلوٰۃ والسلام سو اس سے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی شان تسلیم و رضا کا نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے، پس ان کی ہر کیفیت اور شان اعلیٰ درجے کی اور بے مثال ہوتی ہے،

۴۹۔۔    سو مذکورہ بالا انبیاء کرام کے ذکر اور ان کے خاص خاص واقعات سنانے کے بعد اس سے اس بارے خلاصہ بحث کو سامنے رکھ دیا گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ایک عظیم الشان ذکر اور یاد دہانی ہے۔ یعنی یہ محض ماضی کے قصے نہیں، بلکہ ان میں عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں۔ جس سے انسان کے لئے حق و ہدایت کی راہ روشن ہوتی ہے اور اس کی دنیا بھی بنتی ہے اور آخرت بھی اور یہ بہر حال ایک اہم اور بنیادی حقیقت ہے کہ متقی اور پرہیزگار لوگوں کے لئے ایک بڑا ہی عمدہ ٹھکانا ہے، ایسا عمدہ اور اتنا بڑا کہ اس دنیا میں اس کا پورا احاطہ و ادراک بھی کسی کے بس میں نہیں، سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں فوز و فلاح اور نجات و نجاح کا مدار و انحصار تقویٰ و پرہیزگاری پر ہے، اور تقویٰ و پرہیزگاری کا اصل مفہوم و مطلب ہے بچنا، یعنی ہر اس چیز سے بچنا، اور دور رہنا، جو رب کی ناراضگی کا باعث ہو، جس سے سب سے پہلے کفر و شرک اور الحاد و بے دینی سے بچنا ہے اس کے بعد ہر قسم کے گناہ اور معصیت سے بچنا، اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

۵۴۔۔  سو ان خوش نصیبوں کی خوشیوں کو دو بالا کرنے کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہیں وہ نعمتیں جن کا وعدہ تم لوگوں سے یوم حساب میں دیئے جانے کے لئے کیا جاتا تھا سو اب وہ حاضر ہیں۔ اللہ نے اپنے وعدہ پورا فرما لیا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی دی اور بخشی ہوئی وہ نعمتیں ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ ان میں برابر اضافہ ہی ہوتا رہے گا، اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے، آمین ثم آمین

۵۸۔۔  سو اہل جنت کو ملنے والی نعمتوں، نوازشوں، اور عنایتوں، کے ذکر و بیان کے بعد اب اس سے ان ظالموں اور سرکشوں کے انجام کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے، جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے اور اس کو اپنانے سے انکار کیا تھا۔ سو اس بارے تصریح فرما دی گئی کہ ان کو وہاں پر پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا، اور بہتی ہوئی پیپ۔ اور اسی طرح کی اور ایسی بُری اور نفرت انگیز چیزیں جو اس قدر نفرت انگیز، اور دلآزار ہوں گی کہ وہ ذکر کے لائق نہیں۔ سو ان سے کہا جائے گا کہ ان کو چکھیں اور اس کا مزہ پائیں چکھنے کے لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دوزخیوں کے لئے ابتدائی مہمانی ہو گی جو ان کو نزل یعنی ابتدائی مہمانی کے طور پر ملے گی۔ اصل عذاب کا دور اس کے بعد شروع ہو گا۔ جس کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے، والعیاذ باللہ جل وعلا وسبحانہ و تعالیٰ،

۵۹۔۔  اوپر کی آیت میں وارد لفظ طاغین اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے کفر کے لیڈروں اور سرغنوں کا حال بیان فرمایا گیا ہے، اور اب اس سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان کے پیروؤں کی بھیڑ کو بھی ان کے سامنے لایا جائے گا۔ اور ان کو بتایا جائے گا کہ انہوں نے بھی تمہارے ساتھ دوزخ میں پڑنا ہے۔ تاکہ جس طرح تم لوگ دنیا میں اپنے کفر و طغیان میں اکٹھے تھے۔ اسی طرح آج اس کے نتیجہ و انجام میں بھی اکٹھے رہو۔ تو اس پر وہ فوراً کہیں گے کہ ناس ہو ان کا کہ انہوں نے بھی یہیں گھسنا ہے۔ یہ دفع ہوں انہوں نے ہمارے لئے اور تنگی پیدا کر دی، اس کے جواب میں ان کے پیرو غصے میں بپھر کر ان سے کہیں گے کہ نہیں بلکہ تم ہی دفع ہوؤ، اور ناس تمہارا ہو، کہ تم ہی لوگوں نے ہمیں اس انجام سے دوچار کیا، پھر بطور یاس و حسرت ان کی زبان سے یہ جملہ نکلے گا فَبِئْسَ الْقَرَارُ، یعنی بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے جس سے تم لوگوں نے ہمیں دوچار کیا، مگر اس یاس و حسرت کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا، بلکہ ان کو اپنے کئے کرائے کا وہ انجام بہر حال بھگتنا ہو گا، والعیاذُ باللہ العظیم

۶۴۔۔    یعنی دوزخیوں کے جس باہمی جھگڑے اور تو تکار کا ذکر اوپر ہوا ہے اس کو یونہی کوئی فرضی اور خیالی بات نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک قطعی امر ہے جس نے اپنے وقت پر بہر حال واقع ہو کر رہنا ہے۔ جس سے کسی مفر اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی پس جو لوگ آج حق کی مخالفت میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار، اور باہم لیڈر اور پیرو بنے ہوئے ہیں وہ جو کچھ کریں اس نتیجہ و انجام کو سامنے رکھ کر کریں کہ اس سے ان کو بہر حال دوچار ہونا ہے، تاکہ ایسے لوگ پھر نہ کہیں کہ ہمیں خبر نہ ہوئی تھی۔

۷۰۔۔  یعنی جو کچھ میں تم لوگوں کو سنا اور بتا رہا ہوں یہ نہ سمجھنا کہ یہ اپنی طرف سے سنا اور بتا رہا ہوں۔ یا تم لوگوں کو یونہی مرعوب کرنے کے لئے دوزخیوں کی تو تکار کا کوئی افسانہ سنا رہا ہوں، نہیں ایسی کوئی بات نہیں، بلکہ یہ سب عالم بالا کے حقائق ہیں جو تمہیں سنائے جا رہے ہیں، اور جن کے جاننے کا کوئی ذریعہ میرے لئے ممکن نہیں تھا سوائے وحی خداوندی کے سو اس سب سے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے آگہی بخشی ہے جس کی بناء پر میں کھول کر ان سب حقائق کو تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اور آنے والے اس انتہائی ہولناک دن کی ہولناکی سے تم لوگوں کو آگاہ کر رہا ہوں۔ تاکہ تم لوگ اس غفلت سے باز آ جاؤ جس میں تم پڑے ہوئے ہو۔ تاکہ اس طرح تم ہمیشہ کے اس ہولناک انجام سے بچ جاؤ، جو تمہیں پیش آنے والا ہے۔ سو اصل مقصد خود تم ہی لوگوں کا بھلا اور تمہاری خیر خواہی ہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ تم لوگ آنکھ کھولنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے والعیاذُ باللہ العظیم

۷۴۔۔  سو اس کا وہ مخفی کفر اس موقع پر سامنے آگیا۔ اور سب کے لئے آشکارا ہو گیا۔ سو اس سے ایک بات تو یہ واضح ہوئی کہ استکبار یعنی اپنی بڑائی کا گھمنڈ محرومیوں کی محرومی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ جو لوگ استکبار کے باعث حق سے منہ موڑتے اور اس کا انکار کرتے ہیں ان کا شجرہ نسب ابلیس سے ملتا ہے۔ وہ حضرت آدم کو سجدہ کرنے کے حکم سے منہ موڑ کر ملعون ہوا۔ اور ایسے لوگ جو اس کے طریقے پر چلتے ہیں وہ دین حق سے منہ موڑ کر اس کے پیروکار بنتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں یہ نور حق سے محروم ہو کر ہمیشہ کے ہولناک خسارے میں مبتلا ہوتے ہیں، والعیاذُ باللہ

۷۸۔۔  سو ابلیس جب حکم خداوندی سے اعراض و رُوگردانی کے نتیجے میں۔ اور اپنے استکبار و گھمنڈ کی بناء پر، ملعون و مطرود قرار پایا، تو اللہ تعالیٰ نے اس ملعون کو حکم فرمایا کہ تو یہاں سے نکل جا۔ کیونکہ جنت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا مرکز اور ان کا مظہر ہے اس لئے اس میں وہی لوگ رہ سکتے ہیں جو اس کی رحمت کے اہل اور اس کے مستحق ہوں۔ پس کسی ملعون کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو جنت سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اور اس سے فرمایا کہ تجھ پر میری لعنت ہے قیامت کے دن تک کیلئے۔ جس کے بعد تجھے اپنے اس جرم کی ہمیشہ ہمیشہ سزا بھگتنی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، سو اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ (میں اس سے بہتر ہوں) کی یہ ابلیسی منطق جو استکبار یعنی اپنی بڑائی کے زعم اور گھمنڈ کی عکاس و آئینہ دار ہوتی ہے، انسان کی محرومی اور اس کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے، جو اس کے گلے میں لعنت کا طوق ڈالتی ہے، حضرات انبیاء و رسل کی قدسی صفت ہستیوں کے مقابلے میں، اور ان کی دعوت حق و ہدایت کے جواب میں، منکرین و مکذبین نے ہمیشہ اسی طرح کی ابلیسی منطق سے کام لیا یہاں تک کہ وہ آخرکار فی النار والسقر ہو گئے، والعیاذُ باللہ العظیم

۸۱۔۔    یعنی بارگاہ خداوندی سے ملعون قرار پانے کے بعد ابلیس نے سمجھا کہ اب شاید اس کی مہلت عمل کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اور اولاد آدم کے خلاف زور آزمائی کا موقع اب نہیں مل سکے گا اس کو اس لئے اس نے حق تعالیٰ کے حضور درخواست پیش کی کہ اس کو اس دن تک زندہ رہنے اور کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے۔ جس دن کہ لوگوں کو ان کے اعمال کے حساب کے لئے اٹھایا جائے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ مہلت دے دی۔

۸۵۔۔  سو ابلیس نے جس غرور اور طنطنہ کے ساتھ اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لئے بارگاہ ایزدی میں اپنا چیلنج پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب اور اس کے رد میں پورے جلال اور کمال بے نیازی کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اب تو اس بارے میری یہ حق بات بھی سن لے۔ اور میں ہمیشہ حق ہی کہتا ہوں۔ کہ میں تجھ سے۔ اور ان تمام لوگوں سے جو تیری پیروی کریں گے جہنم کو بھر دوں گا۔ سو اس سے منکرین حق اور ان کے پیروکاروں کے لئے یہ درس عبرت و بصیرت ہے کہ یہ لوگ اگر دیدہ بینا اور گوش شنوا رکھتے ہیں، تو اس حکایت کے آئینے میں اپنا حشر و انجام خود دیکھ اور سن لیں۔

۸۸۔۔  سورہ خاتمہ سورت کی ان آیات کریمات میں ایک تو پیغمبر کی شان بے غرضی اور بے لوثی کو واضح فرما دیا گیا، سو آپ کو حکم و ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ نہ تو میں تم لوگوں سے اس کام پر کسی طرح کا کوئی صلہ مانگتا ہوں، اور نہ ہی میں اس بارے میں کسی طرح کے تکلف اور بناوٹ سے کام لیتا ہوں، اور دوسری اہم بات ان میں یہ ہے کہ ان میں قرآن حکیم کی عظمت شان کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ ایک عظیم الشان نصیحت اور یاد دہانی ہے سب جہان والوں کے لئے پس اس کو اپنانے میں سراسر خود ان لوگوں ہی کا بھلا ہے۔ جبکہ اس سے اعراض و رُوگردانی میں خود انہی کا نقصان اور ہولناک خسارہ ہے۔ اور تیسری اہم بات ان میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ جس بات کی خبر یہ قرآن دے رہا ہے وہ عنقریب تمہارے سامنے خود ظاہر اور واضح ہو جائے گی۔ تب تم لوگ اس کو خود دیکھ اور جان لو گے۔ مگر اس وقت تمہارے لئے سنبھلنے اور اصلاح احوال کا کوئی موقع نہیں ہو گا۔ سوائے آتش یاس و حسرت میں اضافے اور اس کی ہولناک جلن کے، جو کہ خساروں کا خسارہ اور ہمیشہ کا عذاب ہو گا۔ والعیاذ باللہ العظیم وبہٰذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ ص و الحمدللہ