پہلی آیات کے لفظ المُزّمِّل کو اس سُورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ یہ صرف نام ہے اس کے مضامین کا عنوان نہیں ہے۔
اس سورۃ کے دو رکوع دو الگ زمانوں میں نازل ہوئے ہیں۔
پہلا رکُوع بالاتفاق مکّی ہے۔ اس کے مضامین اور احادیث کی روایات دونوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ مکّی زندگی کے کس دور میں نازل ہوا ہے، اِس کا جواب ہمیں روایات سے تو نہیں ملتا، لیکن اِس رکوع کے مضامین کی داخلی شہادت اِس کا زمانہ متعین کرنے میں بڑی مدد دیتی ہے:
اوّلاً، اِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کریں تا کہ آپ کے اندر نبوّت کے بارِ عظیم کو اٹھانے اوراس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی قوت پیدا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم حضورؐ کی نبوت کے ابتدائی دور ہی میں نازل ہوا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس منصب کے لیے آپ کی تربیت کی جا رہی تھی۔
ثانیاً، اِس میں حکم دیا گیا ہے کہ نمازِ تہّجد میں آدھی آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔ یہ ارشاد خود بخود اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اُس وقت قرآن مجید کا کم از کم اتنا حصّہ نازل ہو چکا تھا کہ اس کی طویل قرأت کی جا سکے۔
ثالثاً ، اِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخالفین کی زیادیتوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے اور کفّارِ مکّہ کو عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رکوع اُس زمانے میں نازل ہوا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کی عَلانیہ تبلیغ شروع کر چکے تھے اور مکّہ میں آپ کی مخالفت زور پکڑ چکی تھی۔
دوسرے رکوع کے متعلق اگرچہ بہت سے مفسّرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ بھی مکہ ہی میں نازل ہوا ہے، لیکن بعض دوسرے مفسرین نے اسے مدنی قرار دیا ہے، اور اس رکوع کے مضامین سے اِسی خیال کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس میں قتال فی سبیل اللہ کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ مکہ میں اس کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا تھا، اور اس میں فرض زکوٰۃ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے، اور یہ بات ثابت ہے کہ زکوٰۃ ایک مخصوص شرح اور نصاب کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔
پہلی سات آیات میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ جس کارِ عظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کی ذمّہ داریاں سنبھالنے کے لیے آپ اپنے آپ کو تیار کریں، اور اُس کی عملی صورت یہ بتائی گئی ہے کہ راتوں کو اُٹھ کر آپ آدھی آدھی رات، یا اس سے کچھ کم و بیش نماز پڑھا کریں۔
آیت ۸ سے ۱۴ تک حضورؐ کو تلقین کی گئی ہے کہ سب سے کٹ کر اُس خدا کے ہو رہیں جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ اپنے سارے معاملات اُسی کے سُپرد کر کے مطمئن ہو جائیں۔ مخالفین جو باتیں آپ کے خلاف بنا رہے ہیں انر صبر کریں، اُن کے منہ نہ لگیں اور ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں کہ وہی اُن سے نمٹ لے گا۔
اس کے بعد آیات ۱۴ سے ۱۹ تک مکّہ کے اُن لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کر رہے تھے، مُتَنَبِّہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اُسی طرح تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف بھیجا تھا، پھر دیکھ لو کہ جب فرعون نے اللہ کے رسول کی بات نہ مانی تو وہ کس انجام سے دو چار ہوا۔ اگر فرض کر لو کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ آیا تو قیامت کے روز تم کفر کی سزا سے کیسے بچ نکلو گے؟
یہ پہلے رکوع کے مضامین ہیں۔ دوسرا رکوع حضرت سعید بن جُبیَر کی روایت کے مطابق اُس کے دس سال بعد نازل ہوا اور اس میں نمازِ تہجّد کے متعلق اُس ابتدائی حکم کے اندر تخفیف کر دی گئی جو پہلے رکوع کے آغاز میں دیا گیا تھا ۔ اب یہ حکم دیا گیا کہ جہاں تک تہجّد کی نماز کا تعلق ہے وہ تو جتنی بآسانی پڑھی جا سکے پڑھ لیا کرو، لیکن مسلمانوں کو اصل اہتمام جس چیز کا کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ پنجوقتہ فرض نماز پُوری پا بندی کے ساتھ قائم رکھیں، فریضہ زکوٰۃ ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خلوصِ نیت کے ساتھ صرف کریں۔ آخر میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ جو بھلائی کے کام تم دنیا میں انجام دو گے وہ ضائع نہیں جائیں گے بلکہ اُن کی حیثیت اُس سامان کی سی ہے جو ایک مسافر اپنی مستقل قیام گاہ پر پہلے سے بھیج دیتا ہے۔ اللہ کے ہاں پہنچ کر تم وہ سب کچھ موجود پاؤ گے جو دنیا میں تم نے آگے روانہ کیا ہے ، اور پیشگی سامان نہ صرف یہ کہ اُس سامان سے بہت بہتر ہے جو تمہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے، بلکہ اللہ کے ہاں تمہیں اپنے بھیجے ہوئے اصل مال سے بڑھ کر بہت بڑا اجر بھی ملے گا۔
1: ان الفاظ کے ساتھ حضور ؐ کو مخاطب کرنے اور پھر یہ حکم دینے سے کہ آپ اٹھیں اور راتوں کو عبادت کے لیے کھڑے رہا کریں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت یا تو آپ سو چکے تھے یا سونے کے لیے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تھے۔ اِس موقع پر آپ کو اے نبی ؐ، یا اے رسول کہہ کر خطاب کرنے کے بجائے ’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ کہہ کر پکارنا ایک لطیف اندازِ خطاب ہے جس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اب وہ دَور گزر گیا جب آپ آرام سے پا ؤ ں پھیلا کر سوتے تھے۔ اب آپ پر ایک کارِ عظیم کا بوجھ ڈال دی گیا ہے جس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔
2: اِس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ رات نماز میں کھڑے رہ کر گزار و اور اس کا کم حصّہ سونے میں صرف کرو۔ دوسرا یہ کہ پوری رات نماز میں گزار دینے کا مطالبہ تم سے نہیں ہے بلکہ آرام بھی کرو اور رات کا ایک قلیل حصّہ عبادت میں بھی صرف کرو۔ لیکن آگے کے مضمون سے پہلا مطلب ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی کی تائید سورہ دہر کی آیت ۲۶ سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلا ً طَوِیْلاً، ’رات کو اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو اور رات کا طویل حصّہ اُس کی تسبیح کرنے ہوئے گزارو‘۔
3: یہ اُس مقدارِ وقت کی تشریح ہے جسے عبادت میں گزارنے کا حکم دی گیا تھا۔ اِس میں آپ ؐ کی اختیار دیا گیا کہ خواہ آدھی رات نما ز میں صرف کریں، یا اس سے کچھ کم کر دیں، یا اس سے کچھ زیادہ۔ لیکن اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قابلِ ترجیح آدھی رات ہے، کیونکہ اُسی کو معیار قرار دے کر کمی و بیشی کا اختیار دیا گیا ہے۔
4: یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تا کہ ذہن پُوری طرح کلام الہیٰ کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات تشکّر سے لبریز ہو جائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبُّر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرأ ت کا طریقہ حضرت اَنَس ؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتا یا کہ آپ اللہ، رحمان اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے(بخاری)۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضور ؑ ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن پڑھ کر رُک جاتے، پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رُک کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے (مسند احمد۔ ابو داؤ۔ترمذی)۔دوسری ایک روایت میں حضرت ام سلمہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضور ؐ ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے( ترمذی۔نسائی)۔ حضرت حْذیفہ بن یَمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضور ؐ کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپ کی قرأت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے(مسلم، نسائی)۔ حضرت ابو ذر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضور ؐ اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُم عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِر لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ۔ (اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تُو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی(مسند احمد ، بخاری)۔
5: مطلب یہ ہے کہ تم کو رات کی نماز کا یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ ایک بھاری کلام ہم تم پر نازل کر رہے ہیں جس کا بارا ٹھانے کے لیے تم میں اُس کے تحمّل کی طاقت پیدا ہونی ضروری ہے، اور یہ طاقت تمہیں اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ راتوں کو اپنا آرام چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھو اور آدھی آدھی رات یا کچھ کم و بیش عبادت میں گزارا کرو۔ قرآن کو بھاری کلام اس بنا پر بھی کہا گیا ہے کہ اس کے احکام پر عمل کرنا ، اس کی تعلیم کا نمونہ بن کر دکھانا، اس کی دعوت کو لے کر ساری دنیا کے مقابلے میں اٹھنا، اور اس کے مطابق عقائد و افکار، اخلاق و آداب اور تہذیب و تمدن کے پورے نظام میں انقلاب بر پا کر دینا ایک ایسا کام ہے جس سے بڑھ کر کسی بھاری کام کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس بنا پر بھی اس کو بھا ری کلام کہا گیا ہے کہ اس کے نزول کا تحّمّل بڑا دشوار کام ہے۔ حضرت زید ؓ بن ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی اِس حالت میں نازل ہوئی کہ آپ اپنا زانو میرے زانو پر رکھے ہوئے بیٹھے تھے۔ میرے زانو پر اس وقت ایسا بوجھ پڑا کہ معلوم ہوتا تھا اَب ٹوٹ جائے گا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نےسخت سردی کے زمانے میں حضور ؐ پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے، آپ کی پیشانی سے اُس وقت پسینہ ٹپکنے لگتا تھا( بخاری، مسلم، مالک، ترمِذی، نسَائی)۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ جب کبھی آپ پر اس حالت میں وحی نازل ہوتی کہ آپ اونٹنی پر بیٹھے ہوں تو اونٹنی اپنا سینہ زمین پر ٹکا دیتی تھی اور اس وقت تک حرکت نہ کر سکتی تھی جب تک نزولِ وحی کا سلسلہ ختم نہ ہو جاتا(مسند احمد، حاکم،ابن جریر)۔
6: اصل میں لفظ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ استعمال کیا گیا ہے جس کے متعلق مفسّرین اور اہل لغت کے چار مختلف اقوال ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ناشئہ ہے، یعنی وہ شخص جو رات کو اٹھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رات کے اوقات ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں رات کو اٹھنا۔ اور چوتھا قول یہ ہے کہ اس لفظ کا اطلاق محض رات کو اٹھنے پر نہیں ہوتا بلکہ سو کر اُٹھنے پر ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اور مجاہد ؒ نے اِسی چوتھے قول کو اختیار کیا ہے۔
7: اصل میں لفظ اَشَدُّ وَطْأً استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی سوعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اسے ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ رات کو عبادت کے لیے اٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اُس وقت آرام کا مطالبہ کرتا ہے ، اس لیے یہ فعل ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کے دبانے اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ اِس طریقے سے جو شخص اپنے آپ پر قابو پا لے اور اپنے جسم و ذہن پر تسلّط حاصل کر کے اپنی اِس طاقت کو خدا کی راہ میں استعمال کرنے پر قادر ہو جائے وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ دینِ حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کام کر سکتا ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کے اِن اوقات میں بندے اور خدا کے درمیان کوئی دوسراحائل نہیں ہوتا اور اس حالت میں آدمی جو کچھ زبان سے کہتا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کار گر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ کر عبادت کے لیے اٹھے گا وہ لا محالہ اخلاص ہی کی بنا پر ایسا کرے گا، اس میں ریا کاری کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ چوتھا مطلب یہ ہے کہ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی بہ نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے اس لیے اس کا التزام کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے ، وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو زیادہ استقامت کے ساتھ برداشت کر سکتا ہے۔
8: اصل میں اَقْوَمُ قِیْلاً ارشاد ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’قول کو زیادہ راست اور درست بناتا ہے‘۔ لیکن مدعا یہ ہے کہ اُس وقت انسان قرآن کو زیادہ سکون و اطمینان اور توجہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھ سکتا ہے۔ ابن عباس ؓ اس کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ اجد ران یفقہ فی القرآن، یعنی ’وہ اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ آدمی قرآن میں غور د خوض کرے‘(ابو داؤد)۔
9: دن کے اوقات کی مصروفیتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ ارشاد کہ ’اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو‘ خود بخود یہ مفہوم ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں ہر طرح کے کام کرتے ہوئے بھی اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو اور کسی نہ کسی شکل میں اس کا ذکر کرتے رہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم،الاحزاب، حاشیہ۶۳)۔
10: ان الفاظ کے ساتھ حضور ؐ کو مخاطب کرنے اور پھر یہ حکم دینے سے کہ آپ اٹھیں اور راتوں کو عبادت کے لیے کھڑے رہا کریں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت یا تو آپ سو چکے تھے یا سونے کے لیے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تھے۔ اِس موقع پر آپ کو اے نبی ؐ، یا اے رسول کہہ کر خطاب کرنے کے بجائے ’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ کہہ کر پکارنا ایک لطیف اندازِ خطاب ہے جس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اب وہ دَور گزر گیا جب آپ آرام سے پا ؤ ں پھیلا کر سوتے تھے۔ اب آپ پر ایک کارِ عظیم کا بوجھ ڈال دی گیا ہے جس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔
11: الگ ہو جا ؤ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے مقاطعہ کر کے اپنی تبلیغ بند کر دو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ نہ لگو، ان کی بیہودگیوں کو بالکل نظر انداز کر دو، اور ان کی کسی بد تمیزی کا جواب نہ دو۔ پھر یہ احتراز بھی کسی غم اور غصّے اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ نہ ہو، بلکہ اُس طرح کا احتراز ہو جو طرح ایک شریف آدمی کسی بازاری آدمی کی گالی سُن کر اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور دل پر مَیل تک نہیں آنے دیتا ۔ اس سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طرزِ عمل کچھ اس سے مختلف تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو یہ ہدایت فرمائی۔ اصل میں تو آپ پہلے ہی سے اِسی طریقے پر عمل فرما رہے تھے، لیکن قرآن میں یہ ہدایت اس لیے دی گئی کہ کفار کو بتا دیا جائے کہ تم جو حرکتیں کر رہے ہو ان کا جواب نہ دینے کی وجہ کمزوری نہیں ہے بلکہ اللہ نے ایسی باتوں کے جواب میں اپنے رسول کو یہی شریفانہ طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔
12: اِن الفاظ میں صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ مکّہ میں دراصل جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جھُٹلا رہے تھے اور طرح طرح کے فریب دے کر اور تعصبات اُبھار کر عوام کو آپ کی مخالفت پر آمادہ کر رہے تھے وہ قوم کے کھاتے پیتے، پیٹ بھرے، خوشحال لوگ تھے، کیونکہ انہی کے مفاد پر اسلام کی اِس دعوتِ اصلاح کی زد پڑ رہی تھی۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ ہمیشہ یہی گروہ اصلاح کی راہ روکنے کے لیے سنگِ گراں بن کر کھڑا ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف، آیات۶۰۔۶۶۔۸۸۔المومنون،۳۳۔ سبا،۳۴۔۳۵۔ الزُّخْرُف،۲۳۔
13: جہنم میں بھاری بیڑیاں مجرموں کے پا ؤ ں میں اس لیے نہیں ڈالی جائیں گی کہ وہ بھاگ نہ سکیں، بلکہ ا س لیے ڈالی جائیں گی کہ وہ اٹھ نہ سکیں۔ یہ فرار سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ عذاب کے لیے ہونگی۔
14: چونکہ اُس وقت پہاڑوں کے اجزاء کو باندھ کر رکھنے والی کشش ختم ہو جائے گی، اس لیے پہلے تو وہ باریک بھُربھری ریت کے ٹیلے بن جائیں گے، پھر جو زلزلہ زمین کو ہلا رہا ہو گا اس کی وجہ سے یہ ریت بکھر جائے گی اور ساری زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ اسی آخری کیفیت کو سُورہ طٰہٰ آیات۱۰۵ تا ۱۰۷ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ اِن پہاڑوں کا کیا بنے گا۔ کہو، میرا رب اِن کو دھُول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بَل اور سَلوَٹ نہ دیکھو گے‘۔
15: اب مکّہ کے اُن کفار کو خطاب کیا جا رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جھُٹلا رہے تھے اور آپ کی مخالفت میں سر گرم تھے۔
16: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوں پر گواہ بنا کر بھیجنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ دنیا میں اُن کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق کی شہادت دیں، اور یہ بھی کہ آخرت میں جب اللہ تعالیٰ کی عدالت برپا ہو گی اُس وقت آپ یہ گواہی دیں کہ میں نے اِن لوگوں کے سامنے حق پیش کر دیا تھا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۱۴۴۔ النساء، حاشیہ۶۴۔جلد دوم، النحل، آیات۸۴، ۸۹۔جلد چہارم، الاحزاب،حاشیہ۸۲۔جلد پنجم، الفتح، حاشیہ۱۴)۔
17: یعنی اوّل تو تمہیں ڈرنا چاہیے کہ اگر ہمارے بھیجے ہوئے رسول کی بات تم نے نہ مانی تو وہ بُرا انجام تمہیں دُنیا ہی میں دیکھنا ہوگا جو فرعون اس سے پہلے اِسی جرم کے نتیجے میں دیکھ چکا ہے۔ لیکن اگر فرض کر و کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ بھی بھیجا گیا تو روزِ قیامت کے عذاب سے کیسے بچ نکلو گے؟
18: یہ آیت جس کے اندر نمازِ تہجّد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے ، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے مُسند احمد ، مسلم اور ابو داؤد میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سا ل کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا۔ دوسری روایت حضرت عائشہ ؓ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے ۸ مہینہ بعد آیا تھا، اور ایک تیسری روایت جو ابن ابی حاتم نے انہی سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے بیان کیے گئے ہیں۔ ابو داؤد، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک سال کی مدّت نقل کی ہے۔ لیکن حضرت سعید بن جُبَیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے(ابن جریر و ابن ابی حاتم)۔ ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے ، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اُس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضور ؐ کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفّار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا۔ اس بنا پر لا محالہ اِن دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے۔
19: اگرچہ ابتدائی حکم آدھی رات یا اس کے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں، اس لیے کبھی دو تہائی رات تک عبادت میں گزر جاتی تھی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ایک تہائی رہ جاتی تھی۔
20: ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کو خطاب کیا گیا تھا، اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی، لیکن مسلمانوں میں اُس وقت حضور ؐ کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر اکثر صحابہ کرام بھی اِس نماز کا اہتمام کرتے تھے۔
21: چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآن کی طویل قرأت ہی سے ہوتا ہے، اس لیے فرمایا کہ تہجّد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی۔ اس ارشاد کے الفاظ اگر چہ بظاہر حکم کے ہیں، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجّد فرض نہیں بلکہ نفل ہے۔ حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اس نے پوچھا، کیا اس کے سوا کبھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے ؟ جواب میں ارشاد ہوا ’الّا یہ کہ تم اپنی خوشی سے کچھ پڑھو‘(بخاری و مسلم)۔ اس آیت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قر أ ت بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے، اسی طرح یہاں قرآن کی قرأت کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے ۔ اِس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نماز تہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہارت، جسم کا پاک ہونا ، وضو کرنا ، اور ستر چھپانا واجب نہیں ہے اور اس میں قیام و تعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں۔
22: جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
23: یہاں اللہ تعالیٰ نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ اِن دونوں کاموں کو نماز تہجّد سے معانی یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مامن جالبٍ یجلبُ طعامًا الیٰ بلد من بلدٍ ان المسْلمین فیبیعہ لِسِعْرِ یو مہٖ الا کانت منزلتہٗ عند اللہ ثم قر أ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اٰ خرون یضربون فی الارض....’جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلّہ لے کر آیا اور اُس روز کے بھا ؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہوگا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہی آیت پڑھی‘(ابن مَرْدُوْیَہ)۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یا تینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احبّ الی من ان یا تینی و انا بین شِعبتَی جبل التمس من فضل اللہ و قر أ ھٰذا الاٰ یتہ۔’جہاد فی سبیل اللہ کے بعد اگر کسی حالت میں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی‘(بَیْہَقی فی شُعَب الایمان)۔
24: مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنجوقتہ فرض نماز اور فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہے۔
25: ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو ، یا بندگانِ خدا کی مدد ہو، یا رفاہِ عام ہو، یا دوسرے بھلائی کے کام۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے متعدد مقامات پر کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۲۶۷۔ المائدہ، حاشیہ۳۳۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ۱۶۔
26: ‘مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا وہ تمہارے لیے اُس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا ہی میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پو چھا ایکم مالہ احب الیہ من مال وارثہ؟’تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے؟‘ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔فرمایا اعملو ا ما تقولون۔’سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو‘۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا حال واقعی یہی ہے۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا: انما مال احد کم ما قدّم ومال وارثہٖ ما اخّر۔’تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لیے بھیج دیا ۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے‘۔(بخاری۔نسائی۔ مُسند احمد ابویَعلیٰ)