تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الاٴحقاف

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس قرآن کریم کو اس نے اپنے بندے اور اپنے سچے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرمایا ہے اور بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی بڑی عزت والا ہے جو کبھی کم نہ ہو گی۔ اور ایسی زبردست حکمت والا ہے جس کا کوئی قول کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں پھر ارشاد فرماتا ہے کہ آسمان و زمین وغیرہ تمام چیزیں اس نے عبث اور باطل پیدا نہیں کیں بلکہ سراسر حق کے ساتھ اور بہترین تدبیر کے ساتھ بنائی ہیں اور ان سب کے لئے وقت مقرر ہے جو نہ گھٹے نہ بڑھے۔ اس رسول سے اس کتاب سے اور اللہ کے ڈراوے کی اور نشانیوں سے جو بد باطن لوگ بے پرواہی اور لا ابالی کرتے ہیں انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے کس قدر خود اپنا ہی نقصان کیا۔ پھر فرماتا ہے ذرا ان مشرکین سے پوچھو تو کہ اللہ کے سوا جن کے نام تم جپتے ہو جنہیں تم پکارتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو ذرا مجھے بھی تو ان کی طاقت قدرت دکھاؤ بتاؤ تو زمین کے کس ٹکڑے کو خود انہوں نے بنایا ہے ؟ یا ثابت تو کرو کہ آسمانوں میں ان کی شرکت کتنی ہے اور کہاں ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ آسمان ہوں یا زمینیں ہوں یا اور چیزیں ہوں ان سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ بجز اس کے کسی کو ایک ذرے کا بھی اختیار نہیں تمام ملک کا مالک وہی ہے وہ ہر چیز پر کامل تصرف اور قبضہ رکھنے والا ہے تم اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو ؟ کیوں اس کے سوا دوسروں کو اپنی مصیبتوں میں پکارتے ہو ؟ تمہیں یہ تعلیم کس نے دی ؟ کس نے یہ شرک تمہیں سکھایا ؟ دراصل کسی بھلے اور سمجھدار شخص کی یہ تعلیم نہیں ہو سکتی۔ نہ اللہ نے یہ تعلیم دی ہے اگر تم اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پر کوئی آسمانی دلیل رکھتے ہو تو اچھا اس کتاب کو تو جانے دو اور کوئی آسمانی صحیفہ ہی پیش کر دو۔ اچھا نہ سہی اپنے مسلک پر کوئی دلیل علم ہی قائم کرو لیکن یہ تو جب ہو سکتا ہے کہ تمہارا یہ فعل صحیح بھی ہو اس باطل فعل پر تو نہ تو تم کوئی نقلی دلیل پیش کرسکتے ہو نہ عقلی ایک قرأت میں (او ائرۃ من علم) یعنی کوئی صحیح علم کی نقل اگلوں سے ہی پیش کرو حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیش کرو جو علم کی نقل کرے۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس امر کی کوئی بھی دلیل لے آؤ مسند احمد میں ہے اس سے مراد علمی تحریر ہے راوی کہتے ہیں میرا تو خیال ہے یہ حدیث مرفوع ہے۔ حضرت ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں مراد بقیہ علم ہے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کسی مخفی دلیل کو ہی پیش کر دو ان اور بزرگوں سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے اگلی تحریریں ہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کوئی خاص علم ، اور یہ سب اقوال قریب قریب ہم معنی ہیں۔ مراد وہی ہے جو ہم نے شروع میں بیان کر دی امام ابن جریر نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے پھر فرماتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ کردہ نہیں جو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پکارے اور اس سے حاجتیں طلب کرے جن حاجتوں کو پورا کرنے کی ان میں طاقت ہی نہیں بلکہ وہ تو اس سے بھی بے خبر ہیں نہ کسی چیز کو لے دے سکتے ہیں اس لئے کہ وہ تو پتھر ہیں جمادات میں سے ہیں۔ قیامت کے دن جب سب لوگ اکھٹے کئے جائیں گے تو یہ معبود ان باطل اپنے عابدوں کے دشمن بن جائیں گے اور اس بات سے کہ یہ لوگ ان کی پوجا کرتے تھے صاف انکار کر جائیں گے جیسے اللہ عز و جل کا اور جگہ ارشاد ہے (واتخذو من دون اللہ الھتہ) الخ ، یعنی ان لوگوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کی عزت کا باعث بنیں۔ واقعہ ایسا نہیں بلکہ وہ تو ان کی عبادت کا انکار کر جائیں گے اور ان کے پورے مخالف ہو جائیں گے یعنی جب کہ یہ ان کے پورے محتاج ہوں گے اس وقت وہ ان سے منہ پھیر لیں گے۔ حضرت خلیل نے اپنی امت سے فرمایا تھا (انما اتخذتم من دون اللہ او ثانا) الخ ، یعنی تم نے اللہ کے سوا بتوں سے جو تعلقات قائم کر لئے ہیں اس کا نتیجہ قیامت کے دن دیکھ لو گے جب کہ تم ایک دوسرے سے انکار کر جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے اور تمہاری جگہ جہنم مقرر اور متعین ہو جائے گی اور تم اپنا مددگار کسی کو نہ پاؤ گے۔

 

۷

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا اظہار بے بسی

مشرکوں کی سرکشی اور ان کا کفر بیان ہو رہا ہے کہ جب انہیں اللہ کی ظاہر و باطن واضح اور صاف آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے تکذیب و افترا ، ضلالت و کفر گویا ان کا شیوہ ہو گیا ہے۔ جادو کہہ کر ہی بس نہیں کرتے بلکہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اسے تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے گھڑ لیا ہے۔ پس نبی کی زبانی اللہ جواب دلواتا ہے کہ اگر میں نے ہی اس قرآن کو بنایا ہے اور میں اس کا سچا نبی نہیں تو یقیناً وہ مجھے میرے اس جھوٹ اور بہتان پر سخت تر عذاب کرے گا اور پھر تم کیا سارے جہان میں کوئی ایسا نہیں جو مجھے اس کے عذابوں سے چھڑا سکے۔ جیسے اور جگہ ہے (قل انی لن یجیر نی من اللہ احدا) الخ ، یعنی تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کے ہاتھ سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ اس کے سوا کہیں اور مجھے پناہ کی جگہ مل سکے گی لیکن میں اللہ کی تبلیغ اور اس کی رسالت کو بجا لاتا ہوں۔ اور جگہ ہے (ولو تقول علینا) الخ ، یعنی اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا، تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی بھی اسے نہ بچا سکتا پھر کفار کو دھمکایا جا رہا ہے کہ تمہاری گفتگو کا پورا علم اس علیم اللہ کو ہے وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اس کی دھمکی کے بعد انہیں توبہ اور انابت کی رغبت دلائی جا رہی ہے اور فرماتا ہے وہ غفور و رحیم ہے اگر تم اس کی طرف رجوع کرو اپنے کرتوت سے باز آؤ تو وہ بھی تمہیں بخش دے گا اور تم پر رحم کرے گا۔ سورہ فرقان میں بھی اسی مضمون کی آیت ہے۔ فرمان ہے (وقالو اساطیر الاولین اکتتبھا) الخ ، یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھ لی ہیں اور صبح شام لکھائی جا رہی ہیں تو کہہ دے کہ اسے اس اللہ نے اتارا ہے جو ہر پوشیدہ جو جانتا ہے خواہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو وہ غفور ورحیم ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں دنیا میں کوئی پہلا نبی تو نہیں۔ مجھ سے پہلے بھی تو دنیا میں لوگوں کی طرف رسول آتے رہے پھر میرے آنے سے تمہیں اس قدر اچنبھا کیوں ہو ا؟ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ بقول حضرت ابن عباس اس آیت کے بعد آیت (لیغفر لک اللہ) الخ ، اتری ہے۔ اسی طرح حضرت عکرمہ ، حضرت حسن ، حضرت قتادہ بھی اسے منسوخ بتاتے ہیں۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آیت بخشش اتری جس میں فرمایا گیا تاکہ اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ بخشے تو ایک صحابی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ تو اللہ نے بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرنے والا ہے پس وہ ہمارے ساتھ کیا کرنے والا ہے ؟ اس پر آیت (لید خل المومنین والمومنات جنت تجری من تحتھا الانھار) اتری یعنی تاکہ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں صحیح حدیث سے بھی یہ تو ثابت ہے کہ مومنوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو مبارک ہو فرمائیے ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری حضرت ضحاک اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا حکم دیا جاؤ اور کس چیز سے روک دیا جاؤں؟ امام حسن بصری کا قول ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ آخرت کا انجام تو مجھے قطعاً معلوم ہے کہ میں جنت میں جاؤں گا ہاں دنیوی حال معلمو نہیں کہ اگلے بعض انبیاء کی طرح قتل کیا جاؤں یا اپنی زندگی کے دن پورے کر کے اللہ کے ہاں جاؤں ؟ اور اسی طرح میں نہیں کہہ سکتا کہ تمہیں دھنسایا جائے یا تم پر پتھر برسائے جائیں امام ابن جریر اسی کو معتبر کہتے ہیں اور فی الواقع ہے بھی یہ ٹھیک۔ آپ بالیقین جانتے تھے کہ آپ اور آپ کے پیرو جنت میں ہی جائیں گے اور دنیا کی حالت کے انجام سے آپ بے خبر تھے کہ انجام کار آپ کا اور آپ کے مخالفین قریش کا کیا حال ہو گا ؟ آیا وہ ایمان لائیں گے یا کفر پر ہی رہیں گے اور عذاب کئے جائیں گے یا بالکل ہی ہلاک کر دئیے جائیں گے لیکن جو حدیث مسند احمد میں ہے حضرت ام العلاء فرماتی ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی تھی کہ جس وقت مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی انصاریوں میں تقسیم ہو رہے تھے اس وقت ہمارے حصہ میں حضرت عثمان بن مظعون آئے آپ ہمارے ہاں بیمار ہوئے اور فوت بھی ہو گئے جب ہم آپ کو کفن پہنا چکے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی تشریف لا چکے تو میرے منہ سے نکل گیا اے ابوالسائب اللہ تجھ پر رحم کرے میری تو تجھ پر گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناً تیرا اکرام ہی کرے گا۔ اس پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ یقیناً اس کا اکرام ہی کرے گا۔ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں مجھے کچھ نہیں معلوم پس آپ نے فرمایا سنوان کے پاس تو ان کے رب کی طرف کا یقین آ پہنچا اور مجھے ان کیلئے بھلائی اور خیر کی امید ہے قسم ہے اللہ کے باوجود رسول ہونے کے میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ اس پر میں نے کہا اللہ کی قسم اب اس کے بعد میں کسی کی برات نہیں کروں گی اور مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا لیکن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عثمان بن مظعون کی ایک نہر بہہ رہی ہے میں نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ ان کے اعمال ہیں یہ حدیث بخاری میں ہے مسلم میں نہیں اور اس کی ایک سند میں ہے میں نہیں جانتا باوجود یکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ دل کو تو کچھ ایسا لگتا ہے کہ یہی الفاظ موقعہ کے لحاظ سے ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی یہ جملہ ہے کہ مجھے اس بات سے بڑا صدمہ ہو ا۔ الغرض یہ حدیث اور اسی کی ہم معنی اور حدیثیں دلالت ہیں اس امر پر کہ کسی معین شخص کے جنتی ہونے کا قطعی علم کسی کو نہیں نہ کسی کو ایسی بات زبان سے کہنی چاہیے۔ بجز ان بزرگوں کے جن کے نام لے کر شارع علیہ السلام نے انہیں جنتی کہا ہے جیسے عشرہ مبشرہ اور حضرت ابن سلام اور عمیصا اور بلال اور سراقہ اور عبد اللہ بن عمرو بن حرام جو حضرت جابر کے والد ہیں اور وہ ستر قاری جو بیرمعونہ کی جنگ میں شہید کئے گئے اور زید بن حارثہ اور جعفر اور ابن رواحہ اور ان جیسے اور بزرگ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ پھر فرماتا ہے نبی تم کہہ دو کہ میں تو صرف اس وحی کا مطیع ہوں جو اللہ کی جناب سے میری جانب آئے اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں کہ کھول کھول کر ہر شخص کو آگاہ کر رہا ہوں ہر عقلمند میرے منصب سے باخبر ہے۔ واللہ اعلم۔

 

۱۰

تابع قرآن جنتیوں کے حالات

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ ان مشرکین کافرین سے کہو کہ اگر یہ قرآن سچ مچ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور پھر بھی تم اس کا انکار کر رہے ہو تو بتاؤ تمہارا کیا حال ہو گا ؟ وہ اللہ جس نے مجھے حق کے ساتھ تمہاری طرف یہ پاک کتاب دے کر بھیجا ہے وہ تمہیں کیسی کچھ سزائیں کرے گا ؟ تم اس کا انکار کرتے ہو اسے جھوٹا بتاتے ہو حالانکہ اس کی سچائی اور شہادت وہ کتابیں بھی دے رہی ہیں جو اس سے پہلے وقتاً فوقتاً اگلے انبیاء پر نازل ہوتی رہیں اور بنی اسرائیل کے جس شخص نے اس کی سچائی کی گواہی دی اس نے حقیقت کو پہچان کر اسے مانا اور اس پر ایمان لایا۔ لیکن تم نے اس کی اتباع سے جی چرایا اور تکبر کیا یہ بھی مطلب بیان ہو گیا ہے کہ اس شاہد نے اپنے نبی پر اور اس کی کتاب پر یقین کر لیا لیکن تم نے اپنے نبی اور اپنی کتاب کے ساتھ کفر کیا اللہ تعالیٰ ظالم گروہ کو ہدایت نہیں کرتا۔ (شاھد) کا لفظ اسم جنس ہے اور یہ اپنے معنی کے لحاظ سے حضرت عبد اللہ بن سلام وغیرہ سب کو شامل ہے یہ یاد رہے کہ یہ آیت مکہ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام کے اسلام سے پہلے کی ہے اسی جیسی آیت یہ بھی ہے (واذا تتلیٰ علیھم قالو ا امنا بہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمین) یعنی جب ان پر تلاوت کی جاتی ہے تو اقرار کر تے ہیں کہ یہ ہمارے رب کی جانب سے سراسر برحق ہے ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں اور فرمان ہے (ان الذین اوتوا العلم من قبلہ) الخ ، یعنی جن لوگوں کو اس سے پہلے علم عطا فرمایا گیا ہے ان پر جب تلاوت کی جاتی ہے تو وہ بلا پس و پیش سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبان سے کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے اس کے وعدے یقیناً سچے اور ہو کر رہنے والے ہیں۔ مسروق اور شعبی فرماتے ہیں یہاں اس آیت سے مراد حضرت عبد اللہ بن سلام نہیں اس لئے آیت مکہ میں اترتی ہے اور آپ مدینہ کی ہجرت کے بعد اسلام قبول کرتے ہیں حضرت سعد فرماتے ہیں کسی شخص کے بارے میں جو زندہ ہو اور زمین پر چل پھر رہا ہو میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی اس کا جنتی ہونا نہیں سنا بجز حضرت عبد اللہ بن سلام کے انہی کے بارے میں آیت (وشھد شاھد من بنی اسرائیل) الخ ، نازل ہوئی ہے (بخاری و مسلم وغیرہ) حضرت عبد اللہ بن عباس اور مجاہد ، ضحاک ، قتادہ ، عکرمہ ، یوسف بن عبد اللہ بن سلام ، ہلال بن بشار، سدی ، ثوری ، مالک بن انس، ابن زبیر رحمہم اللہ کا قول ہے کہ اس سے مراد حضرت ابن سلام ہیں۔ یہ کفار کہا کرتے ہیں کہ اگر قرآن بہتری کی چیز ہوتی تو ہم جیسے شریف انسان جو اللہ کے مقبول بندے ہیں ان پر بھلا یہ نیچے درجے کے لوگ جیسے بلال ، عمار، صہیب، خباب اور انہی جیسے اور گرے پڑے لونڈی غلام کیسے سبقت کر جاتے۔ پھر تو اللہ سب سے پہلے ہمیں ہی نوازتا ہے۔ حالانکہ قول بالبداہت باطل ہے اللہ تبار و تعالیٰ فرماتا ہے (وکذالک فتنا بعضھم ببعض) یعنی ہم نے اسی طرح بعض کو بعض کے ساتھ فتنے میں ڈالا تاکہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے انہی پر اللہ نے اپنا احسان کیا ؟ یعنی انہیں تعجب معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کیسے ہدایت پا گئے؟ اگر یہ چیز بھلی ہوتی تو ہم اس کی طرف لپک کر جاتے پس یہ خیال ان کا تو خام تھا لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ نیک سمجھ والے سلامت روی والے ہمیشہ بھلائی کی طرف سبقت کرتے ہیں۔ اسی لئے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ جو قول و فعل صحابہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اس لئے کہ اگر اس میں بہتری ہوتی تو وہ پاک جماعت جو کسی چیز میں پیچھے رہنے والی نہ تھی وہ اسے ترک نہ کرتی۔ چونکہ اپنی بدقسمتی کے باعث یہ گروہ قرآن پر ایمان نہیں لایا اس لئے یہ اپنی خجالت دفع کرنے کو قرآن کی اہانت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تو پرانے لوگوں کی پرانی غلط باتیں ہیں یہ کہہ کر وہ قرآن اور قرآن والوں کو طعنہ دیتے ہیں۔ یعنی تکبر ہے جس کی بابت حدیث میں ہے کہ تکبر حق کو ہٹا دینے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے پھر اللہ تبار و تعالیٰ فرماتا ہے اس سے پہلے حضرت موسیٰ پر نازل شدہ کتاب توراۃ امام و رحمت تھی اور یہ کتاب یعنی قرآن مجید اپنے سے پہلے کی تمام کتابوں کو منزل من اللہ اور سچی کتابیں مانتا ہے۔ یہ عربی فصیح اور بلیغ زبان میں نہایت واضح کتاب ہے۔ اس میں کفار کے لئے ڈراوا ہے اور ایمانداروں کے لئے بشارت ہے اس کے بعد کی آیت کی پوری تفسیر سورہ حم السجدہ میں گزر چکی ہے ان پر خوف نہ ہو گا یعنی آئندہ اور یہ غم نہ کھائیں گے یعنی چھوڑی ہوئی چیزوں کا یہ ہمیشہ جنت میں رہنے والے جنتی ہیں ان کے پاکیزہ اعمال تھے ہی ایسے کہ رحمت رحیم کرم کریم کی بدلیاں ان پر جھوم جھوم کر موسلا دھار بارش برسائیں ، واللہ اعلم۔

 

۱۵

والدین سے بہترین سلوک کرو

اس سے پہلے چونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کے اخلاص کا اور اس پر استقامت کرنے کا حکم ہوا تھا اس لئے یہاں ماں باپ کے حقوق کی بجا آوری کا حکم ہو رہا ہے۔ اسی مضمون کی اور بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں جیسے فرمایا (وقضیٰ ربک ان لا تعبدو االا ایاہ وا بالوالدین احسانا) یعنی تیرا رب یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔ اور آیت میں ہے (ان اشکر لی والوالدیک الی المصیر) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے انسان کو حکم کیا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ان سے تواضع سے پیش آؤ۔ ابو داؤد طیالسی میں حدیث کہ حضرت سعد کی والدہ نے آپ سے کہا کہ کیا ماں باپ کی اطاعت کا حکم اللہ نہیں ؟ سن میں نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک تو اللہ کے ساتھ کفر نہ کر حضرت سعد کے انکار پر اس نے یہی کیا کہ کھانا پینا چھوڑ دیا یہاں تک کہ لکڑی سے اس کا منہ کھول کر جبراً پانی وغیرہ چھوا دیتے اس پر یہ آیت اتری یہ حدیث مسلم شریف وغیرہ میں بھی ہے ماں نے حالت حمل میں کیسی کچھ تکلیفیں برداشت کی ہیں ؟ اسی طرح بچہ ہونے کے وقت کیسی کیسی مصیبتوں کا وہ شکار بنی ہے ؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس آیت سے اور اس کے ساتھ سورہ لقمان کی آیت (وفصالہ فی عامین) اور اللہ عز و جل کا فرمان(والوالدات یرضعن اولا دھن حولین کاملین لمن ارادا ان یتم الرضا عتہ) یعنی مائیں اپنے بچوں کو دو سال کامل دودھ پلائیں ان کے لئے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیں ملا کر استدلال کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ یہ استدلال بہت قوی اور بالکل صحیح ہے۔ حضرت عثمان اور صحابہ کرام کی جماعت نے بھی اس کی تائید کی ہے حضرت معمر بن عبد اللہ جہنی فرماتے ہیں کہ ہمارے قبیلے کے ایک شخص نے جہنیہ کی ایک عورت سے نکاح کیا چھ مہینے پورے ہوتے ہی اسے بچہ تولد ہوا اس کے خاوند نے حضرت عثمان سے ذکر کیا آپ نے اس عورت کے پاس آدمی بھیجا وہ تیار ہو کر آنے لگی تو ان کی بہن نے گریہ و زاری شروع کر دی اس بیوی صاحبہ نے اپنی بہن کو تسکین دی اور فرمایا کیوں روتی ہو اللہ کی قسم اس کی مخلوق میں سے کسی سے میں نہیں ملی میں نے کبھی کوئی برا فعل نہیں کیا تو دیکھو کہ اللہ کا فیصلہ میرے بارے میں کیا ہوتا ہے۔ جب حضرت عثمان کے پاس یہ آئیں تو آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔ جب حضرت علی کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے خلیفۃ المسلمین سے دریافت کیا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اس عورت کو نکاح کے چھ مہینے کے بعد بچہ ہوا ہے جو ناممکن ہے۔ یہ سن کر علی مرتضیٰ نے فرمایا کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا ؟ فرمایا ہاں پڑھا ہے فرمایا کیا یہ آیت نہیں پڑھی (وحملہ وفصالہ ثلثون شھرا) اور ساتھ ہی یہ آیت بھی (حولین کاملین) پس مدت حمل اور مدت دودھ پلائی دونوں کے مل کر تیس مہینے اور اس میں سے جب دودھ پلائی کی کل مدت دوسال کے چوبیس وضع کر دئے جائیں تو باقی چھ مہینے رہ جاتے ہیں تو قرآن کریم سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے اور اس بیوی صاحبہ کو بھی اتنی ہی مدت میں بچہ ہوا پھر اس پر زنا کا الزام کیسے قائم کر رہے ہیں ؟ حضرت عثمان نے فرمایا واللہ یہ بات بہت ٹھیک ہے افسوس میرا خیال ہے میں اس طرف نہیں گیا جاؤ اس عورت کو لے آؤ پس لوگوں نے اس عورت کو اس حال پر پایا کہ اسے فراغت ہو چکی تھی۔ حضرت معمر فرماتے ہیں واللہ ایک کوا دوسرے کوے سے اور ایک انڈا دوسرے انڈے سے بھی اتنا مشابہ نہیں ہوتا جتنا اس عورت کا یہ بچہ اپنے باپ سے مشابہ تھا خود اس کے والد نے بھی اسے دیکھ کر کہا اللہ کی قسم اس بچے کے بارے میں مجھے اب کوئی شک نہیں رہا اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک ناسور کے ساتھ مبتلا کیا جو اس کے چہرے پر تھا وہ ہی اسے گھلاتا رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا (ابن ابی حاتم) یہ روایت دوسری سند سے (فانا اول العابدین) کی تفسیر میں ہم نے وارد کی ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب کسی عورت کو نو مہینے میں بچہ ہو تو اس کی دودھ پلائی کی مدت اکیس ماہ کافی ہیں اور جب سات مہینے میں ہو تو مدت رضاعت تئیس ماہ اور جب چھ ماہ میں بچہ ہو جائے تو مدت رضاعت دو سال کامل اس لئے کہ اللہ عز و جل کا فرمان ہے کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔ جب وہ اپنی پوری قوت کے زمانے کو پہنچا یعنی قوی ہو گیا جوانی کی عمر میں پہنچ گیا مردوں میں جو حالت ہوتی ہے عموماً پھر باقی عمر وہی حالت رہتی ہے۔ حضرت مسروق سے پوچھا گیا کہ انسان اب اپنے گناہوں پر پکڑا جاتا ہے ؟ تو فرمایا جب تو چالیس سال کا ہو جائے تو اپنے بچاؤ مہیا کر لے۔ ابو یعلی موصلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے۔ اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے۔ یہ حدیث دوسری سند سے مسند احمد میں بھی ہے۔ بنو امیہ کے دمشقی گورنر حجاج بن عبد اللہ حلیمی فرماتے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں تو میں نے نافرمانیوں اور گناہوں کو لوگوں کی شرم و حیا سے چھوڑا تھا اس کے بعد گناہوں کے چھوڑنے کا باعث خود ذات اللہ سے حیا تھی۔ عرب شاعر کہتا ہے بچپنے میں ناسمجھی کی حالت میں تو جو کچھ ہو گیا ہو گیا لیکن جس وقت بڑھاپے نے منہ دکھایا تو سر کی سفیدی نے خود ہی برائیوں سے کہہ دیا کہ اب تم کوچ کر جاؤ۔ پھر اس کی دعا کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے کہا میرے پروردگار میرے دل میں ڈال کہ تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام فرمائی اور میں وہ اعمال کروں جن سے تو مستقبل میں خوش ہو جائے اور میری اولاد میں میرے لئے اصلاح کر دے یعنی میری نسل اور میرے پیچھے والوں میں۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میرا اقرار ہے کہ میں فرمانبرداروں میں ہوں۔ اس میں ارشاد ہے کہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر انسان کو پختہ دل سے اللہ کی طرف توبہ کرنی چاہیے اور نئے سرے سے اللہ کی طرف رجوع و رغبت کر کے اس پر جم جانا چاہیے ابو داؤد میں ہے کہ صحابہ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم التحیات میں پڑھنے کے لئے اس دعا کی تعلیم کیا کرتے تھے (اللھم الف بین قلوبنا واصلح ذات بیننا و اھدنا سبل السلام ونجنا من الظلمات الی النور وجنبنا الفواحش ما ظھر منھا وما بطن وبارک لنا فی اسماعنا اوبصارنا وقلوبنا وازواجنا وذریاتنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم واجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بھا علیک قابلیھا واتمھا علینا) یعنی اے اللہ ہمارے دلوں میں الفت ڈال اور ہمارے آپس میں اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہیں دکھا اور ہمیں اندھیروں سے بچا کر نور کی طرف نجات دے اور ہمیں ہر برائی سے بچا لے خواہ وہ ظاہر ہو خواہ چھپی ہوئی ہو اور ہمیں ہمارے کانوں میں اور آنکھوں میں اور دلوں میں اور بیوی بچوں میں برکت دے اور ہم پر رجوع فرما یقیناً تو رجوع فرمانے والا مہربان ہے اے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار اور ان کے باعث اپنا ثنا خواں اور نعمتوں کا اقراری بنا اور اپنی بھرپور نعمتیں ہمیں عطا فرما۔ پھر فرماتا ہے یہ جن کا بیان گزرا جو اللہ کی طرف توبہ کرنے والے اس کی جانب میں جھکنے والے اور جو نیکیاں چھوٹ جائیں انہیں کثرت استغفار سے پا لینے والے ہی وہ ہیں جن کی اکثر لغزشیں ہم معاف فرما دیتے ہیں اور ان کے تھوڑے نیک اعمال کے بدلے ہم انہیں جنتی بنا دیتے ہیں ان کا یہی حکم ہے جیسے کہ وعدہ کیا اور فرمایا یہ وہ سچا وعدہ ہے جو ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم بروایت روح الامین علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں انسان کی نیکیاں اور بدیاں لائی جائیں گی۔ اور ایک کو ایک کے بدلے میں کیا جائے گا پس اگر ایک نیکی بھی بچ رہی تو اللہ تعالیٰ اسی کے عوض اسے جنت میں پہنچا دے گا۔ راوی حدیث نے اپنے استاد سے پوچھا اگر تمام نیکیاں ہی برائیوں کے بدلے میں چلی جائیں تو؟ آپ نے فرمایا ان کی برائیوں سے اللہ رب العزت تجاوز فرما لیتا ہے دوسری سند میں یہ بفرمان اللہ عز و جل مروی ہے۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند بہت پختہ ہے حضرت یوسف بن سعد فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی کے پاس تھا اور اس وقت حضرت عمار ، حضرت صعیصعہ ، حضرت اشتر، حضرت محمد بن ابوبکر بھی تھے۔ بعض لوگوں نے حضرت عثمان کا ذکر نکالا اور کچھ گستاخی کی۔ حضرت علی اس وقت تخت پر بیٹھے ہوئے تھے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ حاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا کہ آپ کے سامنے تو آپ کی اس بحث کا صحیح محاکمہ کرنے والے موجود ہی ہیں چنانچہ سب لوگوں نے حضرت علی سے سوال کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا حضرت عثمان ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ عز و جل فرماتا ہے (اولئک الذین نتقبل عنھم) الخ ، قسم اللہ کی یہ لوگ جن کا ذکر اس آیت میں ہے حضرت عثمان ہیں اور ان کے ساتھی تین مرتبہ یہی فرمایا۔ راوی یوسف کہتے ہیں میں نے محمد بن حاطب سے پوچھا سچ کہو تمہیں اللہ کی قسم تم نے خود حضرت علی کی زبانی یہ سنا ہے ؟ فرمایا ہاں قسم اللہ کی میں نے خود حضرت علی سے یہ سنا ہے۔

 

۱۷

اس دنیا کے طالب آخرت سے محروم ہوں گے

چونکہ اوپر ان لوگوں کا حال بیان ہوا تھا جو اپنے ماں باپ کے حق میں نیک دعائیں کرتے ہیں اور ان کی خدمتیں کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے اخروی درجات کا اور وہاں نجات پانے اور اپنے رب کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کا ذکر ہوا تھا۔ اس لئے اس کے بعد ان بدبختوں کا بیان ہو رہا ہے جو اپنے ماں باپ کے نافرمان ہیں انہیں باتیں سناتے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن کے حق میں نازل ہوئی ہے جیسے کہ عوفی بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں جس کی صحت میں بھی کلام ہے اور جو قول نہایت کمزور ہے اس لئے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر تو مسلمان ہو گئے تھے اور بہت اچھے اسلام والوں میں سے تھے بلکہ اپنے زمانے کے بہترین لوگوں میں سے تھے بعض اور مفسرین کا بھی یہ قول ہے لیکن ٹھیک یہی ہے کہ یہ آیت عام ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ مروان نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین کو یزید کے بارے میں ایک اچھی رائے سمجھائی ہے اگر وہ انہیں اپنے بعد بطور خلیفہ کے نامزد کر جائیں تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بھی تو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا ہے اس پر حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر بول اٹھے کہ کیا ہرقل کے دستور پر اور نصرانیوں کے قانون پر عمل کرنا چاہتے ہو ؟ قسم ہے اللہ کی نہ تو خلیفہ اول نے اپنی اولاد میں سے کسی کو خلافت کے لئے منتخب کیا نہ اپنے کنبے قبیلے والوں سے کسی کو نامزد کیا اور معاویہ نے جو اسے کیا وہ صرف ان کی عزت افزائی اور ان کے بچوں پر رحم کھا کر کیا یہ سن کر مروان کہنے لگا کہ تو وہی نہیں جس نے اپنے والدین کو اف کہا تھا ؟ تو عبدالرحمن نے فرمایا کیا تو ایک ملعون شخص کی اولاد میں سے نہیں ؟ تیرے باپ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت کی تھی۔ حضرت صدیقہ نے یہ سن کر مروان سے کہا تو نے حضرت عبدالرحمن سے جو کہا وہ بالکل جھوٹ ہے وہ آیت ان کے بارے میں نہیں بلکہ وہ فلاں بن فلاں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر مروان جلدی ہی منبر سے اتر کر آپ کے حجرے کے دروازے پر آیا اور کچھ باتیں کر کے لوٹ گیا بخاری میں یہ حدیث دوسری سند سے اور الفاظ کے ساتھ ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے مروان حجاز کا امیر بنایا گیا تھا اس میں یہ بھی ہے کہ مروان نے حضرت عبدالرحمن کو گرفتار کر لینے کا حکم اپنے سپاہیوں کو دیا لیکن یہ دوڑ کر اپنی ہمشیرہ صاحبہ ام المومنین حضرت عائشہ کے حجرے میں چلے گئے اس وجہ سے انہیں کوئی پکڑ نہ سکا۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت صدیقہ کبریٰ نے پردہ میں سے ہی فرمایا کہ ہمارے بارے میں بجز میری پاک دامنی کی آیتوں کے اور کوئی آیت نہیں اتری۔ نسائی کی روایت میں ہے کہ اس خطبے سے مقصود یزید کی طرف سے بیعت حاصل کرنا تھا حضرت عائشہ کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ مروان اپنے قول میں جھوٹا ہے جس کے بارے میں یہ آیت اتری ہے مجھے بخوبی معلوم ہے لیکن میں اس وقت اسے ظاہر کرنا نہیں چاہتی لیکن ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مروان کے باپ کو ملعون کہا ہے اور مروان اس کی پشت میں تھا پس یہ اس اللہ تعالیٰ کی لعنت کا بقیہ ہے۔ یہ جہاں اپنے ماں باپ کی بے ادبی کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی بے ادبی سے بھی نہیں چوکتا مرنے کے بعد کی زندگی کو جھٹلاتا ہے اور اپنے ماں باپ سے کہتا ہے کہ تم مجھے اس دوسری زندگی سے کیا ڈراتے ہو مجھ سے پہلے سینکڑوں زمانے گزر گئے لاکھوں کروڑوں انسان مرے میں تو کسی کو دوبارہ زندہ ہوتے نہیں دیکھا ان میں سے ایک بھی تو لوٹ کر خبر دینے نہیں آیا۔ ماں باپ بیچارے اس سے تنگ آ کر جناب باری سے اس کی ہدایت چاہتے ہیں اس بارگاہ میں اپنی فریاد پہنچاتے ہیں اور پھر اس سے کہتے ہیں کہ بدنصیب ابھی کچھ نہیں بگڑا اب بھی مسلمان بن جا لیکن یہ مغرور پھر جواب دیتا ہے کہ جسے تم ماننے کو کہتے ہو میں تو اسے ایک دیرینہ قصہ سے زیادہ وقعت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ اپنے جیسے گذشتہ جنات اور انسانوں کے زمرے میں داخل ہو گئے جنہوں نے خود اپنا نقصان بھی کیا اور اپنے والوں کو بھی برباد کیا اللہ تعالیٰ کے فرمان میں یہاں لفظ (اولئک) ہے حالانکہ اس سے پہلے لفظ(والذی) ہے اس سے بھی ہماری تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے کہ مراد اس سے عام ہے جو بھی ایسا ہو یعنی ماں باپ کا بے ادب اور قیامت کا مکر اس کے لئے یہی حکم ہے چنانچہ حضرت حسن اور حضرت قتادہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کافر فاجر ماں باپ کا نافرمان اور مر کر جی اٹھنے کا منکر ہے ، ابن عساکر کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ چار شخصوں پر اللہ عز و جل نے اپنے عرش پر سے لعنت کی ہے اور اس پر فرشتوں نے آمین کہی ہے جو کسی مسکین کو بہکائے اور کہے کہ آؤ تجھے کچھ دوں گا اور جب وہ آئے تو کہہ دے کہ میرے پاس تو کچھ نہیں اور جو ماعون سے سب حاضر ہے حالانکہ اس کے آگے کچھ نہ ہو۔ اور وہ لوگو جو کسی کو اس کے اس سوال کے جواب میں فلاں کا مکان کونسا ہے ؟ کسی دوسرے کا مکان بتا دیں اور وہ جو اپنے ماں باپ کو مارے یہاں تک کہ تنگ آ جائیں اور چیخ و پکار کرنے لگیں۔ پھر فرماتا ہے ہر ایک کے لئے اس کی برائی کے مطابق سزا ہے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بلکہ اس سے بھی کم کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں جہنم کے درجے نیچے ہیں اور جنت کے درجے اونچے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ جب جہنمی جہنم پر لا کھڑے کئے جائیں گے انہیں بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ تم اپنی نیکیاں دنیا میں ہی وصول کر چکے ان سے فائدہ وہیں اٹھا لیا ، حضرت عمر بن خطاب نے بہت زیادہ مرغوب اور لطیف غذا سے اسی آیت کو پیش نظر رکھ کر اجتناب کر لیا تھا اور فرماتے تھے مجھے خوف ہے کہیں میں بھی ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤں جنہیں اللہ تعالیٰ ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ یہ فرمائے گا۔ حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دنیا میں کی ہوئی اپنی نیکیاں قیامت کے دن گم پائیں گے اور ان سے یہی کہا جائے گا۔ پھر فرماتا ہے آج انہیں ذلت کے عذابوں کی سزا دی جائے گی ان کے تکبر اور ان کے فسق کی وجہ سے جیسا عمل ویسا ہی بدلہ ملا۔ دنیا میں یہ ناز و نعمت سے اپنی جانوں کو پالنے والے اور نخوت و بڑائی سے اتباع حق کو چھوڑنے والے اور برائیوں اور نافرمانیوں میں ہمہ تن مشغول رہنے والے تھے تو آج قیامت کے دن انہیں اہانت اور رسوائی والے عذاب اور سخت دردناک سزائیں اور ہائے وائے اور افسوس و حسرت کے ساتھ جہنم کے نیچے کے طبقوں میں جگہ ملے گی اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں ان سب باتوں سے محفوظ رکھے۔

 

۲۱

قوم عاد کی تباہی کے اسباب

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تسلی کے لئے اللہ تبار و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے تو آپ اگلے انبیاء کے واقعات یاد کر لیجئے کہ ان کی قوم نے بھی ان کی تکذیب کی عادیوں کے بھائی سے مراد حضرت ہود پیغمبر ہیں علیہ السلام و الصلوٰۃ۔ انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عاد اولیٰ کی طرف بھیجا تھا جو احقاف میں رہتے تھے احقاف جمع ہے حقف کی اور حقف کہتے ہیں ریت کے پہاڑ کو۔ مطلق پہاڑ اور غار اور حضر موت کی وادی جس کا نام برہوت ہے جہاں کفار کی روحیں ڈالی جاتی ہیں یہ مطلب بھی احقاف کا بیان کیا گیا ہے قتادہ کا قول ہے کہ یمن میں سمندر کے کنارے ریت کے ٹیلوں میں ایک جگہ تھی جس کا نام شہر تھا یہاں یہ لوگ آباد تھے امام ابن ماجہ نے باب باندھا ہے کہ جب دعا مانگے تو اپنے نفس سے شروع کرے اس میں ایک حدیث لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہم پر اور عادیوں کے بھائی پر رحم کرے پھر فرماتا ہے کہ اللہ عز و جل نے ان کے اردگرد کے شہروں میں بھی اپنے رسول مبعوث فرمائے تھے۔ جیسے اور آیت میں ہے (فجعلنا ھا نکالا لما بین یدیھا وما خلفھا) اور جیسے اللہ جل وعلا کا فرمان ہے (فان اعرضوا فقل انذرتکم صاعقۃ) الخ ، پھر فرماتا ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم موحد بن جاؤ ورنہ تمہیں اس بڑے بھاری دن میں عذاب ہو گا۔ جس پر قوم نے کہا کیا تو ہمیں ہمارے معبودوں سے روک رہا ہے ؟ جا جس عذاب سے تو ہمیں ڈرا رہا ہے وہ لے آ۔ یہ تو اپنے ذہن میں اسے محال جانتے تھے تو جرات کر کے جلد طلب کیا۔ جیسے کہ اور آیت میں ہے (یستعجل بھا الذین لا یومنون بھا) یعنی ایمان نہ لانے والے ہمارے عذابوں کے جلد آنے کی خواہش کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں ان کے پیغمبر نے کہا کہ اللہ ہی کو بہتر علم ہے اگر وہ تمہیں اسی لائق جانے گا تو تم پر عذاب بھیج دے گا۔ میرا منصب تو صرف اتنا ہی ہے کہ میں اپنے رب کی رسالت تمہیں پہنچا دوں لیکن میں جانتا ہوں کہ تم بالکل بے عقل اور بے وقوف لوگ ہو اب اللہ کا عذاب آگیا انہوں نے دیکھا کہ ایک کالا ابر ان کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے چونکہ خشک سالی تھی گرمی سخت تھی یہ خوشیاں منانے لگے کہ اچھا ہوا ابر چڑھا ہے اور اسی طرف رخ ہے اب بارش برسے گی۔ دراصل ابر کی صورت میں یہ وہ قہر الہی تھا جس کے آنے کی وہ جلدی مچا رہے تھے اس میں وہ عذاب تھا جسے حضرت ہود سے یہ طلب کر رہے تھے وہ عذاب ان کی بستیوں کی تمام ان چیزوں کو بھی جن کی بربادی ہونے والی تھی تہس نہس کرتا ہوا آیا اور اسی کا اسے اللہ کا حکم تھا جیسے اور آیت میں ہے (ما تذرمن شئی اتت علیہ الا جعلتہ کالرمیم) یعنی جس چیز پر وہ گزر جاتی تھی اسے چور اچورا کر دیتی تھی۔ پس سب کے سب ہلاک و تباہ ہو گئے ایک بھی نہ بچ سکا۔ پھر فرماتا ہے ہم اسی طرح ان کا فیصلہ کرتے ہیں جو ہمارے رسولوں کو جھٹلائیں اور ہمارے احکام کی خلاف ورزی کریں ایک بہت ہی غریب حدیث میں ان کا جو قصہ آیا ہے وہ بھی سن لیجئے۔ حضرت حارث کہتے ہیں میں علا بن حضرمی کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں جا رہا تھا ربذہ میں مجھے بنو تمیم کی ایک بڑھیا ملی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی مجھ سے کہنے لگی اے اللہ کے بندے میرا ایک کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے کیا تو مجھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچا دے گا ؟ میں نے اقرار کیا اور انہیں اپنی سواری پر بٹھا لیا اور مدینہ شریف پہنچا میں نے دیکھا کہ مسجد شریف لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے سیاہ رنگ جھنڈا لہرا رہا ہے اور حضرت بلال تلوار لٹکائے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کھڑے ہیں میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ تو لوگوں نے مجھ سے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم عمر بن عاص کو کسی طرف بھیجنا چاہتے ہیں میں ایک طرف بیٹھ گیا جب آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی منزل یا اپنے خیمے میں تشریف لے گئے تو میں بھی گیا اجازت طلب کی اور اجازت ملنے پر آپ کی خدمت میں باریاب ہوا اسلام علیک کی تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اور بنو تمیم کے درمیان کچھ رنجش تھی ؟ میں نے کہا ہاں اور ہم ان پر غالب رہے تھے اور اب میرے اس سفر میں بنو تمیم کی ایک نادار بڑھیا راستے میں مجھے ملی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اسے اپنے ساتھ آپ کی خدمت میں پہنچاؤں چنانچہ میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں اور وہ دروازہ پر منتظر ہے آپ نے فرمایا اسے بھی اندر بلا لو چنانچہ وہ آ گئیں میں نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کر سکتے ہیں تو اسے کر دیجئے اس پر بڑھیا کو حمیت لاحق ہوئی اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بول اٹھی کہ پھر یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کا مضطر کہاں قرار کرے گا ؟ میں نے کہا سبحان اللہ میری تو وہی مثل ہوئی کہ “اپنے پاؤں میں آپ ہی کلہاڑی ماری”مجھے کیا خبر تھی کہ یہ میری ہی دشمنی کرے گی ؟ ورنہ میں اسے لاتا ہی کیوں ؟ اللہ کی پناہ واللہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی مثل عادیوں کے قاصد کے ہو جاؤں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ عادیوں کے قاصد کا واقعہ کیا ہے ؟ باوجود یکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس واقعہ سے بہ نسبت میرے بہت زیادہ واقف تھے لیکن آپ کے فرمان پر میں نے وہ قصہ بیان کیا کہ عادیوں کی بستیوں میں جب سخت قحط سالی ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک قاصد قیل نامی روانہ کیا ، یہ راستے میں معاویہ بن بکر کے ہاں آ کر ٹھہرا اور شراب پینے لگا اور اس کی دونوں کنیزوں کا گانا سننے میں جن کا نام جرادہ تھا اس قدر مشغول ہوا کہ مہینہ بھر تک یہیں پڑا رہا پھر چلا اور جبال مہرہ میں جا کر اس نے دعا کی کہ اللہ تو خوب جانتا ہے میں کسی مریض کی دوا کے لئے یا کسی قیدی کا فدیہ ادا کرنے کے لئے تو آیا نہیں الٰہی عادیوں کو وہ پلا جو تو نے انہیں پلانے والا ہے چنانچہ چند سیاہ رنگ بادل اٹھے اور ان میں سے ایک آواز آئی کہ ان میں سے جسے تو چاہے پسند کر لے چنانچہ اس نے سخت سیاہ بادل کو پسند کر لیا اسی وقت ان میں سے ایک آواز آئی کہ اسے راکھ اور خاک بنانے والا کر دے تاکہ عادیوں میں سے کوئی باقی نہ رہے۔ کہا اور مجھے جہاں تک علم ہوا ہے یہی ہے کہ ہواؤں کے مخزن میں سے صرف پہلے ہی سوراخ سے ہوا چھوڑی گئی تھی جیسے میری اس انگوٹھی کا حلقہ اسی سے سب ہلاک ہو گئے۔ ابو وائل کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک نقل ہے عرب میں دستور تھا کہ جب کسی قاصد کو بھیجتے تو کہہ دیتے کہ عادیوں کے قاصد کی طرح نہ کرنا۔ یہ روایت ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے۔ جیسے کہ سورہ اعراف کی تفسیر میں گزرا مسند احمد میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی کھل کھلا کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے مسوڑھے نظر آئیں۔ آپ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے اور جب ابر اٹھتا اور آندھی چلتی تو آپ کے چہرے سے فکر کے آثار نمودار ہو جاتے۔ چنانچہ ایک روز میں نے آپ سے کہا یارسول اللہ لوگ تو ابر و بار کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب بارش برسے گی لیکن آپ کی اس کے بالکل برعکس حالت ہو جاتی ہے؟ آپ نے فرمایا عائشہ میں اس بات سے کہ کہیں اس میں عذاب ہو کیسے مطمئن ہو جاؤں ؟ ایک قوم ہوا ہی سے ہلاک کی گئی ایک قوم نے عذاب کے بادل کو دیکھ کہا تھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔ صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کبھی آسمان کے کسی کنارے سے ابر اٹھتا ہوا دیکھتے تو اپنے تمام کام چھوڑ دیتے اگر چہ نماز میں ہوں اور یہ دعا پڑھتے (اللھم انی اعوذبک من شرما فیہ) اللہ میں تجھ سے اس برائی سے پناہ چاہتا ہوں جو اس میں ہے۔ پس اگر کھل جاتا تو اللہ عز و جل کی حمد کرتے اور اگر برس جاتا تو یہ دعا پڑھتے (اللھم صیبا نافعا) اے اللہ اسے نفع دینے والا اور برسنے والا بنا دے۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جب ہوائیں چلتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا پڑھتے (اللھم انی اسأالک خیر ھا وخیر ما فیھا وخیر ما ارسلت بہ واعوذبک من شرھا فا فیھا وشر ما ارسلت بہ) یا اللہ میں تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس کے یہ ساتھ لے کر آئی ہے اس کی بھلائی طلب کرتا ہوں  اور تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں۔ اور جب ابر اٹھتا تو آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا کبھی اندر کبھی باہر آتے کبھی جاتے۔ جب بارش ہو جاتی تو آپ کی یہ فکر مندی دور ہو جاتی۔ حضرت عائشہ نے اسے سمجھ لیا اور آپ سے ایک بار سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ عائشہ خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں یہ اسی طرح نہ ہو جس طرح قوم ہود نے اپنی طرف بادل بڑھتا دیکھ کر خوشی سے کہا تھا کہ یہ ابر ہمیں سیراب کرے گا۔ سورہ اعراف میں عادیوں کی ہلاکت کا اور حضرت ہود کا پورا واقعہ گزر چکا ہے اس لئے ہم اسے یہاں نہیں دوہراتے (مللہ الحمد والمنہ) طبرانی کی مرفوع حدیث میں ہے کہ عادیوں پر اتنی ہی ہوا کھولی گئی تھی جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے یہ ہوا پہلے دیہات والوں اور بادیہ نشینوں پر آئی وہاں سے شہری لوگوں پر آئی جسے دیکھ کر یہ کہنے لگے کہ یہ ابر جو ہماری طرف بڑھا چلا آ رہا ہے یہ ضرور ہم پر بارش برسائے گا لیکن یہ جنگلی لوگ تھے جو ان شہریوں پر گرا دئیے گئے اور سب ہلاک ہو گئے ہوا کے خزانچیوں پر ہوا کی سرکشی اس وقت اتنی تھی کہ دروازوں کے سوراخوں سے وہ نکلی جا رہی تھی واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

 

۲۶

مغضوب شدہ قوموں کی نشاندہی

ارشاد ہوتا ہے کہ اگلی امتوں کو جو اسباب دنیوی مال و اولاد وغیرہ ہماری طرف سے دئیے گئے تھے ویسے تو تمہیں اب تک مہیا بھی نہیں ان کے بھی کان آنکھیں اور دل تھے لیکن جس وقت انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور ہمارے عذابوں کا مذاق اڑایا تو بالاخر ان کے ظاہری اسباب انہیں کچھ کام نہ آئے اور وہ سزائیں ان پر برس پڑیں جن کی یہ ہمیشہ ہنسی کرتے رہے تھے۔ پس تمہیں انکی طرح نہ ہونا چاہیے ایسا نہ ہو کہ انکے سے عذاب تم پر بھی آ جائیں اور تم بھی ان کی طرح جڑ سے کاٹ دئیے جاؤ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے اے اہل مکہ تم اپنے آس پاس ہی ایک نظر ڈالو اور دیکھو کہ کس قدر قومیں نیست و نابود کر دی گئی ہیں اور کس طرح انہوں نے اپنے کرتوت بدلے پائے ہیں احقاف جو یمن کے پاس ہے حضر موت کے علاقہ میں ہے یہاں کے بسنے والے عادیوں کے انجام پر نظر ڈالو تمہارے اور شام کے درمیان ثمودیوں کا جو حشر ہوا اسے دیکھو اہل یمن اور اہل مدین کی قوم سبا کے نتیجہ پر غور کرو تم تو اکثر غزوات اور تجارت وغیرہ کے لئے وہاں سے آتے جاتے رہتے ہو ، بحیرہ قوم لوط سے عبرت حاصل کرو وہ بھی تمہارے راستے میں ہی پڑتا ہے پھر فرماتا ہے ہم نے اپنی نشانیوں اور آیتوں سے خوب واضح کر دیا ہے تاکہ لوگ برائیوں سے بھلائیوں کی طرف لوٹ آئیں۔ پھر فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا جن جن معبودان باطل کی پرستش شروع کر رکھی تھی گو اس میں ان کا اپنا خیال تھا کہ اس کی وجہ سے ہم قرب الٰہی حاصل کریں گے ، لیکن کیا ہمارے عذابوں کے وقت جبکہ ان کو ان کی مدد کی پوری ضرورت تھی انہوں نے ان کی کسی طرح مدد کی ؟ ہرگز نہیں بلکہ ان کی احتیاج اور مصیبت کے وقت وہ گم ہو گئے ان سے بھاگ گئے ان کا پتہ بھی نہ چلا الغرض ان کا پوجنا صریح غلطی تھی غرض جھوٹ تھا اور صاف افترا اور فضول بہتان تھا کہ یہ انہیں معبود سمجھ رہے تھے پس ان کی عبادت کرنے میں اور ان پر اعتماد کرنے میں یہ دھوکے میں اور نقصان میں ہی رہے ، واللہ اعلم۔

 

۲۹

طائف سے واپسی پر جنات نے کلام الٰہی سنا ، شیطان بوکھلایا

مسند امام احمد میں حضرت زبیر سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ یہ واقعہ نخلہ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت نماز عشاء ادا کر رہے تھے ، یہ سب جنات سمٹ کر آپ کے اردگرد بھیڑ کی شکل میں کھڑے ہو گئے ابن عباس کی روایت میں ہے کہ یہ جنات (نصیبین) کے تھے تعداد میں سات تھے کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت ابن عباس مروی ہے کہ نہ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جنات کو سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا نہ آپ نے انہیں دیکھا آپ تو اپنے صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار جا رہے تھے ادھر یہ ہوا تھا شیا طین کے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان روک ہو گئی تھی اور ان پر شعلے برسنے شروع ہو گئے تھے۔ شیاطین نے آ کر اپنی قوم کو یہ خبر دی تو انہوں نے کہا کوئی نہ کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہے جاؤ تلاش کرو پس یہ نکل کھڑے ہوئے ان میں کی جو جماعت عرب کی طرف متوجہ ہوئی تھی وہ جب یہاں پہنچی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سوق عکاظ کی طرف جاتے ہوئے نخلہ میں اپنے اصحاب کی نماز پڑھا رہے تھے ان کے کانوں میں جب آپ کی تلاوت کی آواز پہنچی تو یہ ٹھہر گئے اور کان لگا کر بغور سننے لگے ا س کے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے تمہارا آسمانوں تک پہنچنا موقوف کر دیا گیا ہے یہاں سے فورا ہی واپس لوٹ کر اپنی قوم کے پاس پہنچے اور ان سے کہنے لگے ہم نے عجیب قرآن سنا جو نیکی کا رہبر ہے ہم تو اس پر ایمان لا چکے اور اقرار کرتے ہیں کہ اب ناممکن ہے کہ اللہ کے ساتھ ہم کسی اور کو شریک کریں۔ اس واقعہ کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کو سورہ جن میں دی ، یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے۔ مسند میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جنات وحی الٰہی سنا کرتے تھے ایک کلمہ جب ان کے کان میں پڑ جاتا تو وہ اس میں دس ملا لیا کرتے پس وہ ایک تو حق نکلتا باقی سب باطل نکلتے اور اس سے پہلے ان پر تارے پھینکے نہیں جاتے تھے۔ پس جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو ان پر شعلہ باری ہونے لگی یہ اپنے بیٹھنے کی جگہ پہنچتے اور ان پر شعلہ گرتا اور یہ ٹھہر نہ سکتے انہوں نے آ کر ابلیس سے یہ شکایت کی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز پڑھتے ہوئے پایا اور جا کر اسے خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو آسمان محفوظ کر دیا گیا اور تمہارا جانا بند ہو ا۔ یہ روایت ترمذی اور نسائی میں بھی ہے۔ حسن بصری کا قول بھی یہی ہے کہ اس واقعہ کی خبر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ تھی جب آپ پر وحی آئی تب آپ نے یہ معلوم کیا۔ سیرت ابن اسحاق میں محمد بن کعب کا ایک لمبا بیان منقول ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا طائف جانا انہیں اسلام کی دعوت دینا ان کا انکار کرنا وغیرہ پورا واقعہ بیان ہے۔ حضرت حسن نے اس دعا کا بھی ذکر کیا ہے جو آپ نے اس تنگی کے وقت کی تھی جو یہ ہے (اللھم الیک اشکوا ضعف قوتی وقلتہ حیلتی وھوانی علی الناس یا ارحم الراحمین انت الرحم الراحمین وانت رب المستضعفین وانت ربی الی من تکلنی الی عدو بعید یتجھمنی ام الی صدیق قریب ملکتہ امری ان لم یکن بک غضب علی فلا ابالی غیر ان عافیتک اوسع لی اعوذ بنور وجھک الذی اشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ امر الدنیا والاخر ۃ ان ینزل بی غضبک او یحل بی سخطک ولک العتبیٰ حتی ترضیٰ ولا حول ولا قوۃ الا بک) یعنی اپنی کمزوری اور بے سروسامانی اور کسمپرسی کی شکایت صرف تیرے سامنے کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین تو دراصل سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہے اور کمزوروں کا رب تو ہی ہے میرا پالنہار بھی تو ہی ہے تو مجھے کس کو سونپ رہا ہے کسی دوری والے دشمن کو جو مجھے عاجز کر دے یا کسی قرب والے دوست کو جسے تو نے میرے بارے اختیار دے رکھا ہو اگر تیری کوئی خفگی مجھ پر نہ ہو تو مجھے اس درد دکھ کی کوئی پرواہ نہیں لیکن تاہم اگر تو مجھے عافیت کے ساتھ ہی رکھ تو وہ میرے لئے بہت ہی راحت رساں ہے میں تیرے چہرے کے اس نور کے باعث جس کی وجہ سے تمام اندھیریاں جگمگا اٹھی ہیں اور دین و دنیا کے تمام امور کی اصلاح کا مدار اسی پر ہے تجھ سے اس بات کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ مجھ پر تیرا عتاب اور تیرا غصہ نازل ہو یا تیری ناراضگی مجھ پر آ جائے ، مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کی طاقت تیری ہی مدد سے ہے۔ اسی سفر کی واپسی میں آپ نے نخلہ میں رات گزاری اور اسی رات قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے (نصیبین) کے جنوں نے آپ کو سنا یہ ہے تو صحیح لیکن اس میں قول تامل طلب ہے اس لئے کہ جنات کا کلام اللہ شریف سننے کا واقعہ وحی شروع ہونے کا زمانے کا ہے جیسے کہ ابن عباس کی اوپر بیان کردہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے اور آپ کا طائف جانا اپنے چچا ابو طالب کے انتقال کے بعد ہوا ہے جو ہجرت کے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے جیسے کہ سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں ہے واللہ اعلم۔ ابن ابی شیبہ میں ان جنات کی گنتی نو کی ہے جن میں سے ایک کا نام زویعہ ہے۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں پس یہ روایت اور اس سے پہلے کی حضرت ابن عباس کی روایت کا اقتضاء یہ ہے کہ اس مرتبہ جو جن آئے تھے ان کی موجودگی کا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو علم نہ تھا یہ تو آپ کی بے خبری میں ہی آپ کی زبانی قرآن سن کرواپس لوٹ گئے اس کے بعد بطور وفد فوجیں کی فوجیں اور جتھے کے جتھے ان کے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جیسے کہ اس ذکر کے احادیث و آثار اپنی جگہ آ رہے ہیں انشاء اللہ ، بخاری و مسلم میں ہے حضرت عبدالرحمن نے حضرت مسروق سے پوچھا کہ جس رات جنات نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے قرآن سنا تھا اس رات کس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کا ذکر کیا تھا ؟ تو فرمایا مجھ سے تیرے والد حضرت ابن مسعود نے کہا ہے ان کی آگاہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک درخت نے دی تھی تو ممکن ہے کہ یہ خبر پہلی دفعہ کی ہو اور اثبات کو ہم نفی پر مقدم مان لیں۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ جب وہ سن رہے تھے آپ کو تو کوئی خبر نہ تھی یہاں تک کہ اس درخت نے آپ کو ان کے اجتماع کی خبر دی واللہ اعلم۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ اس کے بعد والے کئی واقعات میں سے ایک ہو واللہ اعلم۔ امام حافظ بیہقی فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ تو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنوں کو دیکھا نہ خاص ان کے سنانے کے لئے قرآن پڑھا ہاں البتہ اس کے بعد جن آپ کے پاس آئے اور آپ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اللہ عز و جل کی طرف بلایا جیسے کہ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے۔ اس کی روایتیں سنئے۔ حضرت علقمہ حضرت ابن مسعود سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم میں سے کوئی اس رات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ موجود تھا ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کوئی نہ تھا آپ رات بھر ہم سے غائب رہے اور ہمیں رہ رہ کر بار بار یہی خیال گزرا کرتا تھا کہ شاید کسی دشمن نے آپ کو دھوکا دے دیا اللہ نہ کرے آپ کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو وہ رات ہماری بڑی بری طرح کٹی صبح صادق سے کچھ ہی پہلے ہم نے دیکھا کہ آپ غار حرا سے واپس آ رہے ہیں پس ہم نے رات کی اپنی ساری کیفیت بیان کر دی ہے۔ تو آپ نے فرمایا میرے پاس جنات کا قاصد آیا تھا جس کے ساتھ جا کر میں نے انہیں قرآن سنایا چنانچہ آپ ہمیں لے کر گئے اور ان کے نشانات اور ان کی آگ کے نشانات ہمیں دکھائے۔ شعبی کہتے ہیں انہوں نے آپ سے توشہ طلب کیا تو عامر کہتے ہیں یعنی مکے میں اور یہ جن جزیرے کے تھے تو آپ نے فرمایا ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ گوشت والی ہو کر پڑے گی ، اور لید اور گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ بنے گا پس اے مسلمانو! ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کرو یہ تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہیں دوسری روایت میں ہے کہ اس رات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ پا کر ہم بہت ہی گھبرائے تھے اور تمام وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کر آئے تھے اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آج رات میں جنات کو قرآن سناتا رہا اور جنوں میں ہی اسی شغل میں رات گزاری۔ ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا تم میں سے جو چاہے آج کی رات جنات سے دلچسپی لینے والا میرے ساتھ رہے۔ پس میں موجود ہو گیا آپ مجھے لے کر چلے جب مکہ شریف کے اونچے حصے میں پہنچے تو آپ نے اپنے پاؤں سے ایک خط کھینچ دیا اور مجھ سے فرمایا بس یہیں بیٹھے رہو پھر آپ چلے اور ایک جگہ پر کھڑے ہو کر آپ نے قرأت شروع کی پھر تو اس قدر جماعت آپ کے اردگرد ٹھٹ لگا کر کھڑی ہو گئی کہ میں تو آپ کی قرأت سننے سے بھی رہ گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ جس طرح ابر کے ٹکڑے پھٹتے ہیں اس طرح وہ ادھر ادھر جانے لگے اور یہاں تک کہ اب بہت تھوڑے باقی رہ گئے پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم صبح کے وقت فارغ ہوئے اور آپ وہاں سے دور نکل گئے اور حاجت سے فارغ ہو کر میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے وہ باقی کے کہاں ہیں ؟ میں نے کہا وہ یہ ہیں پس آپ نے انہیں ہڈی اور لید دی۔ پھر آپ نے مسلمانوں کو ان دونوں چیزوں سے استنجا کرنے سے منع فرما دیا اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود کو بٹھایا تھا وہاں بٹھا کر فرما دیا تھا کہ خبردار یہاں سے نکلنا نہیں ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کے وقت آ کر ان سے دریافت کیا کہ کیا تم سو گئے تھے ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم میں نے تو کئی مرتبہ چاہا کہ لوگوں سے فریاد کروں لیکن میں نے سن لیا کہ آپ انہیں اپنی لکڑی سے دھمکا رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ بیٹھ جاؤ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم یہاں سے باہر نکلتے تو مجھے خوف تھا کہ ان میں کے بعض تمہیں اچک نہ لے جائیں ، پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اچھا تم نے کچھ دیکھا بھی ؟ میں نے کہا ہاں لوگ تھے سیاہ انجان خوفناک سفید کپڑے پہنے ہوئے آپ نے فرمایا یہ (نصیبین) کے جن تھے انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا پس میں نے ہڈی اور لید گوبر دیا میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس سے انہیں کیا فائدہ ؟ آپ نے فرمایا ہر ہڈی ان کے ہاتھ لگتے ہی ایسی ہو جائے گی جیسی اس وقت تھی جب کھائی گئی تھی یعنی گوشت والی ہو کر انہیں ملے گی اور لید میں بھی وہی دانے پائیں گے جو اس روز تھے جب وہ دانے کھائے گئے تھے پس ہم میں سے کوئی شخص بیت الخلا سے نکل کر ہڈی لید اور گوبر سے استنجا نہ کرے اس روایت کی دوسری سند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پندرہ جنات جو آپس میں چچازاد اور پھوپھی زاد بھائی ہیں آج رات مجھ سے قرآن سننے کیلئے آنے والے ہیں۔ اس میں ہڈی اور لید کے ساتھ کوئلے کا لفظ بھی ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں دن نکلے میں اسی جگہ گیا تو دیکھا کہ وہ کوئی ساٹھ اونٹ بیٹھنے کی جگہ ہے اور روایت میں ہے کہ جب جنات کا اژدحام ہو گیا تو ان کے سردار ان نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں انہیں ادھر ادھر کر کے آپ کو اس تکلیف سے بچا لیتا ہوں تو آپ نے فرمایا اللہ سے زیادہ مجھے کوئی بچانے والا نہیں۔ آپ فرماتے ہیں جنات والی رات میں مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم پانی تو نہیں البتہ ایک ڈولچی نبیذ ہے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عمدہ کھجوریں اور پاکیزہ پانی (ابو داؤد، ترمذی ، ابن ماجہ) مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے اس سے وضو کراؤ چنانچہ اپنے وضو کیا اور فرمایا یہ تو پینے کی اور پاک چیز ہے ، جب آپ لوٹ کر آئے تو سانس چڑھ رہا تھا میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا میرے پاس میرے انتقال کی خبر آئی ہے۔ یہی حدیث قدرے زیادتی کے ساتھ حافظ ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے اس میں ہے کہ میں نے یہ سن کر کہا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کر جائیے آپ نے کہا کس کو ؟ میں نے کہا ابوبکر کو۔ اس پر آپ خاموش ہو گئے چلتے چلتے پھر کچھ دیر بعد یہی حالت طاری ہوئی۔ میں نے وہی سوال کیا آپ نے وہی جواب دیا۔ میں نے خلیفہ مقرر کرنے کو کہا آپ نے پوچھا کسے ؟ میں نے کہا عمر کو (رضی اللہ عنہ) اس پر آپ خاموش ہو گئے کچھ دور چلنے کے بعد پھر چلنے کے بعد پھر یہی حالت اور یہی سوال جواب ہوئے اب کی مرتبہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب کا نام پیش کیا تو آپ فرمانے لگے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر یہ لوگ ان کی اطاعت کریں تو سب جنت میں چلے جائیں گے لیکن یہ حدیث بالکل ہی غریب ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ محفوظ نہ ہو اور اگر صحت تسلیم کر لی جائے تو اس واقعہ کو مدینہ کا واقعہ ماننا پڑے گا۔ وہاں بھی آپ کے پاس جنوں کے وفود آئے تھے جیسے کہ ہم عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ بیان کریں گے اس لئے کہ آپ کا آخری وقت فتح مکہ کے بعد تھا جب کہ دین الٰہی میں انسانوں اور جنوں کی فوجیں داخل ہو گئیں اور سورہ (اذا جاء) الخ ، اتر چکی جس میں آپ کو خبر انتقال دی گئی تھی۔ جیسے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کی اس پر موافقت ہے جو حدیثیں ہم اسی سورت کی تفسیر میں لائیں گے ان شاء اللہ واللہ اعلم۔ مندرجہ بالا حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس کی سند بھی غریب ہے اور سیاق بھی غریب ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ جنات جزیرہ موصل کے تھے ان کی تعداد بارہ ہزار کی تھی ابن مسعود اس خط کشیدہ کی جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن جنات کے کھجوروں کے درختوں کے برابر کے قد و قامت وغیرہ دیکھ کر ڈر گئے اور بھاگ جانا چاہا لیکن فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم یاد آگیا کہ اس حد سے باہر نہ نکلنا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اگر تم اس حد سے باہر آ جاتے تو قیامت تک ہماری تمہاری ملاقات نہ ہو سکتی اور روایت میں ہے کہ جنات کی یہ جماعت جن کا ذکر آیت(و اذصرفنا) الخ ، میں ہے نینویٰ کی تھی آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ انہیں قرآن سناؤں تم میں سے میرے ساتھ کون چلے گا ؟ اس ہر سب خاموش ہو گئے دوبارہ پوچھا پھر خاموشی رہی تیسری مرتبہ دریافت کیا تو قبیلہ ہذیل کے شخص حضرت ابن مسعود تیار ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم انہیں ساتھ لے کر حجون کی گھاٹی میں گئے۔ ایک لکیر کھینچ کر انہیں یہاں بٹھا دیا اور آپ آگے بڑھ گئے۔ یہ دیکھنے لگے کہ گدھوں کی طرح کے زمین کے قریب اڑتے ہوئے کچھ جانور آ رہے ہیں تھوڑی دیر بعد بڑا غل غپاڑہ سنائی دینے لگا یہاں تک کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر ڈر لگنے لگا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آئے تو میں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ شور و غل کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا ان کے ایک مقتول کا قصہ تھا جس میں یہ مختلف تھے ان کے درمیان صحیح فیصلہ کر دیا گیا یہ واقعات صاف ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے قصداً جا کر جنات کو قرآن سنایا انہیں اسلام کی دعوت دی اور جن مسائل کی اس وقت انہیں ضرورت تھی وہ سب بتا دئیے۔ ہاں پہلی مرتبہ جب جنات نے آپ کی زبانی قرآن سنا اس وقت آپ کو نہ معلوم تھا نہ آپ نے انہیں سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا جیسے کہ ابن عباس فرماتے ہیں اس کے بعد وہ وفود کی صورت میں آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم عمداً تشریف لے گئے اور انہیں قرآن سنایا۔ حضرت ابن مسعود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اس وقت نہ تھے جبکہ آپ نے ان سے بات چیت کی انہیں اسلام کی دعوت دی البتہ کچھ فاصلہ پر دور بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے ساتھ اس واقعہ میں سوائے حضرت ابن مسعود کے اور کوئی نہ تھا اور دوسری تطبیق ان روایات میں جن میں ہے کہ آپ کے ساتھ ابن مسعود اور جن میں ہے کہ نہ تھے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلی دفعہ نہ تھے دوسری مرتبہ تھے۔ واللہ اعلم ، یہ بھی مروی ہے کہ نخلہ میں جن جنوں نے آپ سے ملاقات کی تھی وہ نینویٰ کے تھے اور مکہ شریف میں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے وہ (نصیبین) کے تھے۔ اور یہ جو روایتوں میں آیا ہے کہ ہم نے وہ رات بہت بری بسر کی اس سے مراد ابن مسعود کے سوا اور صحابہ ہیں جنہیں اس بات کا علم نہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جنات کو قرآن سنانے گئے ہیں۔ لیکن یہ تاویل ہے ذرا دور کی واللہ اعلم۔ بیہقی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حاجت اور وضو کے لئے آپ کے ساتھ حضرت ابوہریرہ پانی کی ڈولچی لئے ہوئے جایا کرتے تھے ایک دن یہ پیچھے پیچھے پہنچے آپ نے پوچھا کون ہے ؟ جواب دیا کہ میں ابوہریرہ ہوں فرمایا میرے استنجے کے لئے پتھر لاؤ لیکن ہڈی اور لید نہ لانا میں اپنی جھولی میں پتھر بھر لایا اور آپ کے پاس رکھ دئیے جب آپ فارغ ہو چکے اور چلنے لگے میں بھی آپ کے پیچھے چلا اور پوچھا حضور کیا وجہ ہے جو آپ نے ہڈی اور لید سے منع فرما دیا ؟ آپ نے جواب دیا میرے پاس (نصیبین) کے جنوں کا وفد آیا تھا اور انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا تو میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ جس لید اور ہڈی پر گزریں اسے طعام پائیں۔ صحیح بخاری میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے پس یہ حدیث اور اس سے پہلے کی حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ جنات کا وفد آپ کے پاس اس کے بعد بھی آیا تھا اب ہم ان احادیث کو بیان کرتے ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ جنات آپکے پاس کئی دفعہ حاضر ہوئے۔ ابن عباس سے جو روایت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے اس کے سوا بھی آپ سے دوسری سند سے مروی ہے ابن جریر میں ہے آپ فرماتے ہیں یہ سات جن تھے (نصیبین) کے رہنے والے انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی طرف سے قاصد بنا کر جنات کی طرف بھیجا تھا مجاہد کہتے ہیں یہ جنات تعداد میں سات تھے (نصیبین) کے تھے ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین کو اہل حران سے کہا اور چار کو اہل (نصیبین) سے ان کے نام یہ ہیں۔ حسی ، حسا، منسی، ساحر، ناصر، الاردوبیان، الاحتم۔ ابو حمزہ شمالی فرماتے ہیں انہیں بنو شیصیان کہتے ہیں یہ قبیلہ جنات کے اور قبیلوں سے تعداد میں بہت زیادہ تھا اور یہ ان میں نصب کے بھی شریف مانے جاتے تھے اور عموماً یہ ابلیس کے لشکروں میں سے تھے ابن مسعود فرماتے ہیں یہ نو تھے ان میں سے ایک کا نام ردیعہ تھا اصل نخلہ سے آئے تھے۔ بعض حضرات سے مروی ہے کہ یہ پندرہ تھے اور ایک روایت میں ہے کہ ساٹھ اونٹوں پر آئے تھے اور ان کے سردار کا نام وردان تھا اور کہا گیا ہے کہ تین سو تھے اور یہ بھی مروی ہے کہ بارہ ہزار تھے ان سب میں تطبیق یہ ہے کہ چونکہ وفود کئی ایک آئے تھے ممکن ہے کہ کسی میں چھ سات نو ہی ہوں کسی میں زیادہ کسی میں اس سے بھی زیادہ۔ اس پر دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ روایت بھی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جس چیز کی نسبت جب کبھی کہتے کہ میرے خیال میں یہ اس طرح ہو گی تو وہ عموماً اسی طرح نکلتی ایک مرتبہ آپ بیٹھے ہوئے تھے جو ایک حسین شخص گزرا آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا اگر میرا گمان غلط نہ ہو تو یہ شخص اپنے جاہلیت کے زمانہ میں ان لوگوں کا کاہن تھا جانا ذرا اسے لے آنا جب وہ آگیا تو آپ نے اپنا یہ خیال اس پر ظاہر فرمایا وہ کہنے لگا مسلمانوں میں اس ذہانت و فطانت کا کوئی شخص آج تک میری نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت عمر نے فرمایا اب میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو اپنی کوئی صحیح اور سچی خبر سنا ، اس نے کہا بہت اچھا سنئے میں جاہلیت کے زمانہ میں ان کا کاہن تھا میرے پاس میرا جن جو سب سے زیادہ تعجب خیز خبر لایا وہ سنئے۔ میں ایک مرتبہ بازار جا رہا تھا جو وہ آگیا اور سخت گھبراہٹ میں تھا اور کہنے لگا کیا تو نے جنوں کی بربادی مایوسی اور انکے پھیلنے کے بعد سمٹ جانا اور ان کی درگت نہیں دیکھی؟ حضرت عمر فرمانے لگے یہ سچا ہے میں ایک مرتبہ ان کے بتوں کے پاس سویا ہوا تھا ایک شخص نے وہاں ایک بچھڑا چڑھایا کہ ناگہاں ایک سخت پر زور آواز آئی ایسی کی اتنی بلند اور کرخت آواز میں نے کبھی نہیں سنی اس نے کہا اے جلیح نجات دینے والا امر آ چکا ایک شخص ہے جو فصیح زبان سے لا الہ الا اللہ کی منادی کر رہا ہے۔ سب لوگ تو مارے ڈر کے بھاگ گئے لیکن میں وہیں بیٹھا رہا کہ دیکھوں آخر یہ کیا ہے؟ کہ دوبارہ پھر اسی طرح وہی آواز سنائی دی اور اس نے وہی کہا پس کچھ ہی دن گزرے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کی آوازیں ہمارے کانوں میں پڑنے لگیں۔ اس روایت سے ظاہر الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت فاروق نے یہ آوازیں اس ذبح شدہ بچھڑے سے سنیں اور ایک ضعیف روایت میں صریح طور پر یہ آ بھی گیا ہے لیکن باقی اور روایتیں یہ بتلا رہی ہیں کہ اسی کاہن نے اپنے دیکھنے سننے کا ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا واللہ اعلم ، امام بیہقی نے یہی کہا ہے اور یہی کچھ اچھا معلوم ہوتا ہے اس شخص کا نام سواد بن قارب تھا جو شخص اس واقعہ کی پوری تفصیل دیکھنا چاہتا ہو وہ میری کتاب سیرۃ عمر دیکھ لے ، (وللہ الحمد السنہ)۔ امام بیہقی فرماتے ہیں ممکن ہے یہی وہ کاہن ہو جس کا ذکر بغیر نام کے صحیح حدیث میں ہے حضرت عمر بن خطاب منبر نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک مرتبہ خطبہ سنا رہے تھے اسی میں پوچھا کیا سواد بن قارب یہاں موجود ہیں لیکن اس پورے سال تک کسی نے ہاں نہیں کہی اگلے سال آپ نے پھر پوچھا تو حضرت برائ نے کہا سواد بن قارب کون ہے ؟ اس سے کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کے اسلام لانے کا قصہ عجیب و غریب ہے ابھی یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں جو حضرت سواد بن قارب آ گئے حضرت عمر نے ان سے کہا سواد اپنے اسلام کا ابتدائی قصہ سناؤ آپ نے فرمایا سنئے میں ہند گیا ہوا تھا میرا ساتھی جن ایک رات میرے پاس آیا میں اس وقت سویا ہوا تھا مجھے اس نے جگا دیا اور کہنے لگا اٹھ اور اگر کچھ عقل و ہوش ہیں تو سن لے سمجھ لے اور سوچ لے قبیلہ لوی بن غالب میں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہو چکے ہیں میں جنات کی حس اور ان کے بوریہ بستر باندھنے پر تعجب کر رہا ہوں اگر تو طالب ہدایت ہے تو فورا ً مکے کی طرف کوچ کر۔ سمجھ لے کہ بہتر اور بدتر جن یکساں نہیں جا جلدی جا اور بنو ہاشم کے اس دلارے کے منور مکھڑے پر نظریں تو ڈال لے مجھے پھر غنودگی سی آ گئی تو اس نے دوبارہ جگایا اور کہنے لگا اے سواد بن قارب اللہ عز و جل نے اپنا رسول بھیج دیا ہے تم ان کی خدمت میں پہنچو اور ہدایت اور بھلائی سمیٹ لو دوسری رات پھر آیا اور مجھے جگا کر کہنے لگا مجھے جنات کے جستجو کرنے اور جلد جلد پالان اور جھولیں کسنے پر تعجب معلوم ہوتا ہے اگر تو بھی ہدایت کا طالب ہے تو مکے کا قصد کر۔ سمجھ لے کہ اس کے دونوں قدم اس کی دموں کی طرح نہیں تو اٹھ اور جلدی جلدی بنو ہاشم کے اس پسندیدہ شخص کی خدمت میں پہنچ اور اپنی آنکھیں اس کے دیدار سے منور کر۔ تیسری رات پھر آیا اور کہنے لگا مجھے جنات کے باخبر ہو جانے اور ان کے قافلوں کے فورا تیار ہو جانے پر تعجب آ رہا ہے وہ سب طلب ہدایت کے لئے مکہ کی طرف دوڑے جا رہے ہیں ان میں کے برے بھلوں کی برابری نہیں کر سکتے تو بھی اٹھ اور اس بنو ہاشم کے چیدہ شخص کی طرف چل کھڑا ہو۔ مومن جنات کافروں کی طرح نہیں تین راتوں تک برابر یہی سنتے رہنے کے بعد میرے دل میں بھی دفعتہً اسلام کا ولولہ اٹھا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وقعت اور محبت سے دل پر ہو گیا میں نے اپنی سانڈنی پر کجاوہ کسا اور بغیر کسی جگہ قیام کئے سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت شہر مکہ میں تھے اور لوگ آپ کے آس پاس ایسے تھے جیسے گھوڑے پر ایال۔ مجھے دیکھتے ہی یکبارگی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سواد بن قارب کو مرحبا ہو آؤ ہمیں معلوم ہے کہ کیسے اور کس لئے اور کس کے کہنے سننے سے آ رہے ہو ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں نے کچھ اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو پیش کروں ؟ آپ نے فرمایا سواد شوق سے کہو تو حضرت سواد نے وہ اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ ہے کہ میرے پاس میرا جن میرے سو جانے کے بعد رات کو آیا اور اس نے مجھے ایک سچی خبر پہنچائی تین راتیں برابر وہ میرے پاس آتا رہا اور ہر رات کہتا رہا کہ لوی بن غالب میں اللہ کے رسول مبعوث ہو چکے ہیں ، میں نے بھی سفر کی تیاری کر لی اور جلد جلد راہ طے کرتا یہاں پہنچ ہی گیا اب میری گواہی ہے کہ بجز اللہ کے اور کوئی رب نہیں اور آپ اللہ کے امانتدار رسول ہیں آپ سے شفاعت کا آسرا سب سے زیادہ ہے اے بہترین بزرگوں اور پاک لوگوں کی اولاد اے تمام رسولوں سے بہتر رسول جو حکم آسمانی آپ ہمیں پہنچائیں گے وہ کتنا ہی مشکل اور طبیعت کے خلاف کیوں نہ ہو ناممکن کہ ہم اسے ٹال دیں آپ قیامت کے دن ضرور میرے سفارشی بننا کیونکہ وہاں بجز آپ کے سواد بن قارب کا سفارشی اور کون ہو گا ؟ اس پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم بہت ہنسے اور فرمانے لگے سواد تم نے فلاح پالی۔ حضرت عمر نے یہ واقعہ سن کر پوچھا کیا وہ جن اب بھی تیرے پاس آتا ہے اس نے کہ جب سے میں نے قرآن پڑھا وہ نہیں آتا اور اللہ کا بڑا شکر ہے کہ ا س کے عوض میں نے رب کی پاک کتاب پائی۔ اور اب جس حدیث کو ہم حافظ ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ سے نقل کرتے ہیں اس میں بھی اس کا بیان ہے کہ مدینہ شریف میں بھی جنات کا وفد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں باریاب ہوا تھا۔ حضرت عمرو بن غیلان ثقفی ، حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پاس جا کر ان سے دریافت کرتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ جس رات جنات کا وفد حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہوا تھا اس رات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ آپ بھی تھے ؟ جواب دیا کہ ہاں ٹھیک ہے میں نے کہا ذرا واقعہ تو سنائیے۔ فرمایا صفہ والے مساکین صحابہ کو لوگ اپنے اپنے ساتھ شام کا کھانا کھلانے لے گئے اور میں یونہی رہ گیا میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ہوا پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا ابن مسعود فرمایا تمہیں کوئی نہیں لے گیا کہ تم بھی کھا لیتے ؟ میں نے جواب دیا نہیں کوئی نہیں لے گیا فرمایا اچھا میرے ساتھ چلو شاہد کچھ مل جائے تو دے دوں گا میں ساتھ ہو لیا آپ حضرت ام سلمہ کے حجرے میں گئے میں باہر ہی ٹھہر گیا تھوڑی دیر میں اندر سے ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ہم نے اپنے گھر میں کوئی چیز نہیں پائی تم اپنی خواب گاہ میں چلے جاؤ۔ میں واپس مسجد میں آگیا اور مسجد میں کنکریوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر کر کے اس پر سر رکھ کر اپنا کپڑا لپیٹ کر سو گیا تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی جو وہی لونڈی پھر آئیں اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو یاد فرما رہے ہیں ساتھ ہو لیا اور مجھے امید پیدا ہو گئی کہ اب تو کھانا ضرور ملے گا جب میں اپنی جگہ پہنچا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم گھر سے باہر تشریف لائے آپ کے ہاتھ میں کھجور کے درخت کی ایک چھڑی تھی جسے میرے سینے پر رکھ کر فرمانے لگے جہاں میں جا رہا ہوں کیا تم بھی میرے ساتھ چلو گے؟ میں نے کہا جو اللہ نے چاہا ہو تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوئے پھر آپ چلے اور میں بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا تھوڑی دیر میں بقیع غرقد چا پہنچے پھر قریب قریب وہی بیان ہے جو اوپر کی روایتوں میں گزر چکا ہے اس کی سند غریب ہے اور اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔ دلائل نبوت میں حافظ ابو نعیم فرماتے ہیں کہ مدینہ کی مسجد میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی نماز ادا کی اور لوٹ کر لوگوں سے کہا آج رات کو جنات کے وفد کی طرف تم میں سے کون میرے ساتھ چلے گا ؟ کسی نے جواب نہ دیا تین مرتبہ فرمان پر بھی کوئی نہ بولا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس سے گزرے اور میرا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے چلے مدینہ کی پہاڑوں سے بہت آگے نکل کر صاف چٹیل میدان میں پہنچ گئے اب نیزوں کے برابر لانبے لانبے قد کے آدمی نیچے نیچے کپڑے ہوئے آنے شروع ہوئے ہیں۔ میں تو انہیں دیکھ کر مارے ڈر کے کانپنے لگا پھر اور واقعہ مثل حدیث ابن مسعود کے بیان کیا۔ یہ حدیث بھی غریب ہے واللہ اعلم۔ اسی کتاب میں ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ کے ساتھی حج کو جا رہے تھے راستے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ سانپ راستے میں لوٹ رہا ہے اور اس میں سے مشک کی خوشبو اڑ رہی ہے ، ابراہیم کہتے ہیں میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم تو سب جاؤ میں یہاں ٹھہر جاتا ہوں دیکھوں تو اس سانپ کا کیا ہوتا ہے ؟ چنانچہ وہ چل دئیے اور میں ٹھہر گیا تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی جو وہ سانپ مر گیا میں نے ایک سفید کپڑا لے کر اس میں لپیٹ کر راستے کے ایک طرف دفن کر دیا اور رات کے کھانے کے وقت اپنے قافلے میں پہنچ گیا اللہ کی قسم میں بیٹھا ہوا تھا جو چار عورتیں مغرب کی طرف آئیں ان میں سے ایک نے پوچھا عمرو کو کس نے دفن کیا ؟ ہم نے کہا کون عمرو؟ اس نے کہا تم میں سے کسی نے ایک سانپ کو دفن کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں میں نے دفن کیا ہے کہنے لگی قسم ہے اللہ کی تم نے بڑے روزے دار بڑے پختہ نمازی کو دفن کیا ہے جو تمہارے نبی کو مانتا تھا اور جس نے آپ کے نبی ہونے سے چار سو سال پیشتر آسمان سے آپ کی صفت سنی تھی ابراہیم کہتے ہیں اس پر ہم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر حج سے فارغ ہو کر جب ہم فاروق اعظم کی خدمت میں پہنچے اور میں نے آپ کو یہ سارا واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا اس عورت نے سچ کہا۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ مجھ پر ایمان لایا تھا میری نبوت کے چار سو سال پہلے یہ حدیث بھی غریب ہے واللہ اعلم۔ ایک روایت میں ہے کہ دفن کفن کرنے والے حضرت صفوان بن معطل تھے کہتے ہیں کہ یہ صاحب جو یہاں دفن کئے گئے یہ ان نو جنات میں سے ایک ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس قرآن سننے کے لئے وفد بن کر آئے تھے ان کا انتقال ان سب سے اخیر میں ہو ا۔ ابو نعیم میں ایک روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عثمان ذوالنورین کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے امیر المومنین میں ایک جنگل میں تھا میں نے دیکھا کہ دو سانپ آپس میں خوب لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مار ڈالا۔ اب میں انہیں چھوڑ کر جہاں معرکہ ہوا تھا وہاں گیا تو بہت سے سانپ قتل کئے ہوئے پڑے ہیں اور بعض سے اسلام کی خوشبو آ رہی ہے پس میں نے ایک ایک کو سونگھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک زرد رنگ کے دبلے پتلے سانپ سے مجھے اسلام کی خوشبو آنے لگی ، میں نے اپنے عمامے میں لپیٹ کر اسے دفنا دیا اب میں چلا جا رہا تھا جو میں نے ایک آواز سنی کہ اے اللہ کے بندے تجھے اللہ کی طرف سے ہدایت دی گئی۔ یہ دونوں سانپ جنات کے قبیلہ بنو شیعبان اور بنو قیس میں سے تھے۔ ان دونوں میں جنگ ہوئی اور پھر جس قدر قتل ہوئے وہ تم نے خود دیکھ لئے انہی میں ایک شہید جنہیں تم نے دفن کیا وہ تھے جنہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی وحی الٰہی سنی تھی۔ حضرت عثمان اس قصے کو سن کر فرمانے لگے اے شخص اگر تو سچا ہے تو اس میں شک نہیں کہ تو نے عجب واقعہ دیکھا اور اگر تو جھوٹا ہے تو جھوٹ کا بوجھ تجھ پر ہے۔ اب آیت کی تفسیر سنئے ارشاد ہے کہ جب ہم نے تیری طرف جنات کیا ایک گروہ کو پھیرا جو قرآن سن رہا تھا جب وہ حاضر ہو گئے اور تلاوت شروع ہونے کو تھی تو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو یہ ادب سکھایا کہ خاموشی سے سنو۔ ان کا ایک اور ادب بھی حدیث میں آیا ہے ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کے سامنے سورہ رحمان کی تلاوت کی پھر فرمایا کیا بات ہے ؟ جو تم سب خاموش ہی رہے تم سے تو بہت اچھے جواب دینے والے جنات ثابت ہوئے جب بھی میرے منہ سے انہوں نے آیت (فبای الاء ربکما تکذبان) سنی انہوں نے جواب میں کہا (ولا بشء من الائک او نعمک ربنا نکذب فلک الحمد) پھر فرماتا ہے جب فراغت حاصل کی گئی (قضی) کے معنی ان آیتوں میں بھی یہی ہیں (فا ذا قضیت الصلوٰۃ) اور (فقضا ھن سبع السموات) اور (فاذا قضیتم منا سککم) وہ اپنی قوم کو دھمکانے اور انہیں آگاہ کرنے کے لئے واپس ان کی طرف چلے جیسے اللہ عز و جل و علا کا فرمان ہے (لیتفقھو افی الدین) الخ ، یعنی وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب واپس اپنی قوم کے پاس پہنچیں تو انہیں بھی ہوشیار کر دیں بہت ممکن ہے کہ وہ بچاؤ اختیار کر لیں۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جنات میں بھی اللہ کی باتوں کو پہنچانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن ان میں سے رسول نہیں بنائے گئے یہ بات بلا شک ثابت ہے کہ جنوں میں پیغمبر نہیں ہیں۔ فرمان باری ہے (وما ارسلنک قبلک الا رجالا) الخ ، یعنی ہم نے تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے وہ سب بستیوں کے رہنے والے انسان ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنی وحی بھیجا کر تے تھے اور آیت میں ہے (وما ارسلنا قبلک من المرسلین الا انھم لیا کلون الطعام ویمشون فی الاسواق) یعنی تجھ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔ ابراہیم خلیل اللہ کی نسبت قرآن میں ہے (وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتابٌ) یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوۃ اور کتاب رکھ دی پس آپ کے بعد جتنے بھی نبی آئے وہ آپ ہی کے خاندان اور آپ ہی کی نسل میں سے ہوئے ہیں۔ لیکن سورہ انعام کی آیت (یا معشر الجن والانس ال یاتکم رسل منکم) یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ اس کا مطلب اور اس سے مراد یہ دونوں جنس ہیں پس اس کا مصداق ایک جنس ہی ہو سکتی ہے جیسے فرمان (یخرج منھما اللو لوء والمرجان) یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے حالانکہ دراصل ایک میں سے ہی نکلتا ہے۔ 

ایمان دار جنوں کی آخری منزل

اب بیان ہو رہا ہے جنات کے اس وعظ کا جو انہوں نے اپنی قوم میں کیا۔ فرمایا کہ ہم نے اس کتاب کو سنا ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے حضرت عیسیٰ کی کتاب انجیل کا ذکر اس لئے چھوڑ دیا کہ وہ دراصل توراۃ پوری کرنے والی تھی۔ اس میں زیادہ تر وعظ کے اور دل کو نرم کرنے کے بیانات تھے حرام حلال کے مسائل بہت کم تھے پس اصل چیز توراۃ ہی رہی اسی لئے ان مسلم جنات نے اسی کا ذکر کیا اور اسی بات کو پیش نظر رکھ کر حضرت ورقہ بن نوفل نے جس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی حضرت جبرئیل کے اول دفعہ آنے کا حال سنا تو کہا تھا کہ واہ واہ یہی تو وہ مبارک وجود اللہ کے بھیدی کا ہے جو حضرت موسیٰ کے پاس آیا کرتے تھے کاش کہ میں اور کچھ زمانہ زندہ رہتا ، الخ ، پھر قرآن کی اور صف بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے تمام آسمانی کتابوں کو سچا بتلاتا ہے وہ اعتقادی مسائل اور اخباری مسائل میں حق کی جانب رہبری کرتا ہے اور اعمال میں راہ راست دکھاتا ہے۔ قرآن میں دو چیزیں ہیں یا خبر یا طلب پس اس کی خبر سچی اور اس کی طلب عدل والی۔ جیسے فرمان ہے (وتمت کلمتہ ربک صدقا وعدلا) یعنی تیرے رب کا کلمہ سچائی اور عدل کے لحاظ سے بالکل پورا ہی ہے اور آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے (ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق) وہ اللہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور حق دین کے ساتھ بھیجا ہے پس ہدایت نفع دینے والا علم ہے اور دین حق نیک عمل ہے یہی مقصد کا جنات کا تھا۔ پھر کہتے ہیں اے ہماری قوم اللہ کے داعی کی دعوت پر لبیک کہو۔ اس میں دلالت ہے اس امر کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جن و انس کی دونوں جماعتوں کی طرف اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لئے کہ آپ نے جنات کو اللہ کی طرف دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن کریم کی وہ سورت پڑھی جس میں ان دونوں جماعتوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان کے نام احکام جاری فرمائے ہیں اور وعدہ وعید بیان کیا ہے یعنی سورہ الرحمن۔ پھر فرماتے ہیں ایسا کرنے سے وہ تمہارے بعض گناہ بخش دے گا۔ لیکن یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے جب لفظ من کو زائدہ نہ مانیں ، چنانچہ ایک قول مفسرین کا یہ بھی ہے اور قاعدے کے مطابق اثبات کے موقعہ پر لفظ من بہت ہی کم زائد آتا ہے اور اگر زائد مان لیا جائے تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور تمہیں اپنے المناک عذاب سے وہ چھٹکارا پا لیں گے یہی ان کی نیک اعمالیوں کا بدلہ ہے اور اگر اس سے زیادہ مرتبہ بھی انہیں ملنے والا ہوتا تو اس مقام پر یہ مومن جن اسے ضرور بیان کر دیتے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ مومن جن جنت میں نہیں جائیں گے اس لئے کہ وہ ابلیس کی اولاد سے ہیں اور اولاد ابلیس جنت میں نہیں جائے گی۔ لیکن حق یہ ہے کہ مومن جن مثل ایماندار انسانوں کے ہیں اور وہ جنت میں جگہ پائیں گے جیسا کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے بعض لوگوں نے اس پر اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ (لم یطمثھن انس قبلھم ولا جان) یعنی حوران بہشتی کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان کا ہاتھ لگا نہ کسی جن کا۔ لیکن اس استدلال میں نظر ہے اس سے بہت بہتر استدلال تو اللہ عز و جل کے اس فرمان سے ہے (ولمن خاف مقام ربہ جنتان فبای الاء ربکما تکذبان) یعنی جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لئے دو دو جنتیں ہیں پھر اے جنو اور انسانو تم اپنے پروردگار کی کونسی نعمت کو جھٹلاتے ہو؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسانوں اور جنوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ ان کے نیک کار کا بدلہ جنت ہے اور اس آیت کو سن کر مسلمان انسانوں سے بہت زیادہ شکر گزار ہیں ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ ان کے سامنے ان پر وہ احسان جتایا جائے جو اصل انہیں ملنے کا نہیں اور بھی ہماری ایک دلیل سنئے جب کافر جنات کو جہنم میں ڈالا جائے گا جو مقام عدل ہے تو مومن جنات کو جنت میں کیوں نہ لے جایا جائے جو مقام فضلے بلکہ یہ بہت زیادہ لائق اور بطور اولیٰ ہونے کے قابل ہے اور اس پر وہ آیتیں بھی دلیل ہیں جن میں عام طور پر ایمانداروں کو جنت کو خوشخبری دی گئی ہے مثلاً (ان الذین امنوا وعملو ا الصالحات کانت لھم جنت الفردوس نزلا) وغیرہ وغیرہ یعنی ایمان داروں کا مہمان خانہ یقیناً جنت فردوس ہے۔ الحمد اللہ میں نے اس مسئلہ کو بہت کچھ وضاحت کے ساتھ اپنی ایک مستقل تصنیف میں بیان کر دیا ہے اور سنئے جنت کا تو یہ حال ہے کہ ایمانداروں کے کل کے داخل ہو جانے کے بعد بھی اس میں بے حدو حساب جگہ بچ رہے گی۔ اور پھر ایک نئی مخلوق پیدا کر کے انہیں اس میں آباد کیا جائے گا۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایماندار اور نیک عمل والے جنات جنت میں نہ بھیجے جائیں اور سنئے یہاں دو باتیں بیان کی گئی ہیں گناہوں کی بخشش اور عذابوں سے رہائی اور جب یہ دونوں چیزیں ہیں تو یقیناً یہ مستلزم ہیں دخول جنت کو۔ اس لئے کہ آخرت میں یا جنت ہے یا جہنم پس جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا وہ قطعاً جنت میں جانا چاہیے اور کوئی نص صریح یا ظاہر اس بات کے بیان میں وارد نہیں ہوئی کہ مومن جن باوجود دوزخ سے بچ جانے کے جنت میں نہیں جائیں گے اگر کوئی اس قسم کی صاف دلیل ہو تو بے شک ہم اس کے ماننے کے لئے تیار ہیں واللہ اعلم۔ نوح علیہ السلام کو دیکھئے اپنی قوم سے فرماتے ہیں اللہ تمہارے گناہوں کو (بوجہ ایمان لانے کے) بخش دے گا اور ایک وقت مقرر تک تمہیں مہلت دے گا۔ تو یہاں بھی دخول جنت کا ذکر نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آ تاکہ حضرت نوح کی قوم کے مسلمان جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ بالا تفاق وہ سب جنتی ہیں پس اسی طرح یہاں بھی سمجھ لیجئے اب چند اور اقوال بھی اس مسئلہ میں سن لیجئے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ بیچ جنت میں تو یہ پہنچیں گے نہیں البتہ کناروں پر ادھر ادھر رہیں گے بعض لوگ کہتے ہیں جنت میں تو وہ ہوں گے لیکن دنیا کے بالکل برعکس انسان انہیں دیکھیں گے اور یہ انسانوں کو دیکھ نہیں سکیں گے بعض لوگوں کا قول ہے کہ وہ جنت میں کھائیں پئیں گے نہیں صرف تسبیح و تحمید و تقدیس کا طعام ہو گا جیسے فرشتے اس لئے کہ یہ بھی انہی کی جنس سے ہیں۔ لیکن ان تمام اقوال میں نظر ہے اور سب بے دلیل ہیں پھر مومن واعظ فرماتے ہیں کہ جو اللہ کے داعی کی دعوت کو قبول نہ کرے گا وہ زمین میں اللہ تعالیٰ کو ہرا نہیں سکتا بلکہ قدرت اللہ اس پر شامل اور اسے گھیرے ہوئے ہے اس کے عذابوں سے انہیں کوئی بچا نہیں سکتا یہ کھلے بہکاوے میں ہیں خیال فرمائیے کہ تبلیغ کا یہ طریقہ کتنا پیارا اور کس قدر موثر ہے ، رغبت بھی دلائی اور دھمکایا بھی اسی لئے ان میں سے اکثر ٹھیک ہو گئے اور قافلے کے قافلے اور فوجیں بن کر کئی کئی بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں باریاب ہوئے اور اسلام قبول کیا جیسے کہ پہلے مفصلاً ہم نے بیان کر دیا ہے جس پر ہم

 

۳۳

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے جو مرنے کے بعد جینے کے منکر ہیں اور قیامت کے دن جسموں سمیت جی اٹھنے کو محال جانتے ہیں یہ نہیں دیکھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کل آسمانوں اور تمام زمینوں کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش نے اسے کچھ نہ تھکایا بلکہ صرف ہو جا کے کہنے سے ہی ہو گئیں کون تھا جو اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتا یا مخالفت کرتا بلکہ حکم برداری سے راضی خوشی ڈرے دبتے سب موجود ہو گئے ، کیا اتنی کامل قدرت و قوت والا مردوں کے زندہ کر دینے کی سکت نہیں رکھتا ؟ چنانچہ دوسری آیت میں ہے (لخلق السموات والارض اکبر من خلق الناس ولکن اکثر الناس لایعلمون) یعنی انسانوں کی پیدائش سے تو بہت بھاری اور مشکل اور بہت بڑی اہم پیدائش آسمان و زمین کی ہے لیکن اکثر لوگ بے سمجھ ہیں۔ جب زمین و آسمان کو اس نے پیدا کر دیا تو انسان کا پیدا کر دینا خواہ ابتداً ہو خواہ دوبارہ ہو اس پر کیا مشکل ہے ؟ اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ ہاں وہ ہر شے پر قادر ہے اور انہی میں سے موت کے بعد زندہ کرتا ہے کہ اس پر بھی وہ صحیح طور پر قادر ہے پھر اللہ جل و علا کافروں کو دھمکاتا ہے کہ قیامت والے دن جہنم میں ڈالے جائیں گے اس سے پہلے جہنم کے کنارے پر انہیں کھڑا کر کے ایک مرتبہ پھر لاجواب اور بے حجت کیا جائے گا اور کہا جائے گا کیوں جی ہمارے وعدے اور یہ دوزخ کے عذاب اب تو صحیح نکلے یا اب بھی شک و شبہ اور انکار و تکذیب ہے ؟ یہ جادو تو نہیں تمہاری آنکھیں تو اندھی نہیں ہو گئیں ؟ جو دیکھ رہے ہو صحیح دیکھ رہے ہو یا درحقیقت صحیح نہیں ؟ اب سوائے اقرار کے کچھ نہ بن پڑے گا جواب دیں گے کہ ہاں ہاں سب حق ہے جو کہا گیا تھا وہی نکلا قسم اللہ کی اب ہمیں رتی برابر بھی شک نہیں اللہ فرمائے گا اب دو گھڑی پہلے کے کفر کا مزہ چکھو پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو تسلی دے رہا ہے کہ آپ کی قوم نے اگر آپ کو جھٹلایا آپ کی قدر نہ کی آپ کی مخالفت کی ایذارسانی کے درپے ہوئے تو یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہی ہے ؟ اگلے اولوالعزم پیغمبروں کو یاد کرو کہ کیسی کیسی ایذائیں ، مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں اور کن کن زبردست مخالفوں کی مخالفت کو صبر سے برداشت کیا ان رسولوں کے نام یہ ہیں نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، اور خاتم الانبیاء اللھم صلی علیھم اجمعین۔ انبیاء کے بیان میں ان کے نام خصوصیت سے سورہ احزاب اور سورہ شوریٰ میں مذکور ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اولوالعزم رسول سے مراد سب پیغمبر ہوں تو (من الرسل) کا (من) بیان جنس کے لئے ہو گا واللہ اعلم ، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روزہ رکھا پھر بھوکے ہی رہے پھر روزہ رکھا پھر بھوکے ہی رہے اور پھر روزہ رکھا پھر فرمانے لگے عائشہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لائق تو دنیا ہے ہی نہیں۔ عائشہ دنیا کی بلاؤں اور مصیبتوں پر صبر کرنے اور دنیا کی خواہش کی چیزوں سے اپنے تئیں بچائے رکھنے کا حکم اولوالعزم رسول کئے گئے اور وہی تکلیف مجھے بھی دی گئی ہے جو ان عالی ہمت رسولوں کو دی گئی تھی۔ قسم اللہ کی میں بھی انہی کی طرح اپنی طاقت بھر صبر وسہار سے ہی کام لوں گا اللہ کی قوت کے بھروسے سے پر یہ بات زبان سے نکال رہا ہوں۔ پھر فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہ لوگ عذابوں میں مبتلا کئے جائیں اس کی جلدی نہ کرو۔ جیسے اور آیت میں ہے (فذرنی والمکذبین) الخ، یعنی کافروں کو مہلت دو ، انہیں تھوڑی دیر چھوڑ دو پھر فرماتا ہے جس دن یہ ان چیزوں کا مشاہدہ کر لیں گے جن کے وعدے آج دئیے جاتے ہیں اس دن انہیں معلوم ہونے لگے گا کہ دنیا میں صرف دن کا کچھ ہی حصہ گزارا ہے اور آیت میں ہے (کانھم یوم یرونھا لم یلبثو ا الاعشیۃ او ضحاھا) یعنی جس دن یہ قیامت کو دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہو گا کہ گویا دنیا میں صرف ایک صبح یا ایک شام ہی گزاری تھی (ویوم یحشرھم کان لم یلبثو ا الا ساعتہ من النھار) یعنی جس دن ہم انہیں جمع کریں گے تو یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ گویا دن کی ایک ساعت ہی دنیا میں رہے تھے پھر فرمایا پہنچا دینا ہے۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ دنیا کا ٹھہرنا صرف ہماری طرف سے ہماری باتوں کے پہنچا دینے کے لئے تھا دوسرے یہ کہ یہ قرآن صرف پہنچا دینے کیلئے ہے یہ کھلی تبلیغ ہے پھر فرماتا ہے سوائے فاسقوں کے اور کسی کو ہلاکی نہیں۔ یہ اللہ جل و علا کا عدل ہے کہ جو خود ہلاک ہوا اسے ہی وہ ہلاک کرتا ہے عذاب اسی کو ہوتے ہیں جو خود اپنے ہاتھوں اپنے لئے عذاب مہیا کرے اور اپنے آپ کو مستحق عذاب کر دے واللہ اعلم۔