حضرت جابر سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی آیت یا ایھا المدثر نازل ہوئی ہے، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی اقرا باسم کی آیتیں ہیں جیسے اسی سورت کی تفسیر کے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ یحییٰ بن ابوکثیر فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے سوال کیا کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی کونسی آیتیں نازل ہوئیں؟ تو فرمایا یا ایھا المدثر میں نے کہا لوگ تو اقرا باسم بتاتے ہیں فرمایا میں نے حضرت جابر سے پوچھا تھا انہوں نے وہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا اور میں نے بھی وہی کہا جو تم نے مجھے کہا اس کے جاب میں حضرت جابر نے فرمایا کہ میں تو تم سے وہی کہتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں حرا میں اللہ کی یاد سے جب فارغ ہوا اور اترا تو میں نے سنا کہ گویا مجھے کوئی آواز دے رہا ہے میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھا کر اوپر کو دیکھا تو آواز دینے الا نظر آیا۔ میں خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا اور کہا مجھے چدر اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو انہوں نے ایسا ہی کیا اور یا ایھا المدثر کی آیتیں اتریں (بخاری) صحیح بخاری مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے وحی کے رک جانے کی حدیث بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایک متربہ میں چلا جا رہا تھا کہ ناگہاں آسمان کی طرف سے مجھے آواز سنائی دی۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ جو فرشتہ میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں مارے ڈر اور گھبراہٹ کے زمین کی طرف جھک گیا اور گھر آتے ہی کہا کہ مجھے کپڑوں سے ڈھانک دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے کپڑے اوڑھا دیئے اور سورہ مدثر کی فاھجر تک کی آیتیں اتریں، ابو سلمہ فرماتے ہیں رجز سے مراد بت ہیں۔ پھر وحی برابر تابڑ توڑ گرما گرمی سے آنے لگی، یہ لفظ بخاری کے ہیں اور یہی سیاق محفوظ ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی وحی آئی تھی کیونکہ آپ کا فرمان موجود ہے کہ یہ وہی تھا جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام جبکہ غار میں سورہ اقراء کی آیتیں مالھم یعلم تک پڑھا گئے تھے، پھر اس کے بعد وحی کچھ زمانہ تک نہ آئی پھر جو اس کی آمد شروع ہوئی اس میں سبسے پہلے وحی سورہ مدثر کیابتدائی آیتیں تھیں اور اس طرح ان دونوں احدایث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے کہ دراصل سب سے پہلے وحی تو اقراء کی آیتیں ہیں پھر وحی کے رک جانے کے بعد کی اس سے پہلی وحی اس سورت کی آیتیں ہیں اس کی تائید مسند احمد وغیرہ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ہے کہ وحی رک جانے کے بعد کی پہلی وحی اس کی ابتدائی آیتیں ہیں، طبرانی میں اس سورت کا شان نزول یہ مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے قریشیوں کی دعوت کی جب سب کھا پی چکے تو کہنے لگا بتاؤ تم اس شخص کی بابت کیا کہتے ہو؟ تو بعض نے کا جادوگر ہے بعض نے کہا نہیں ہے، بعض نے کہا کاہن ہے کسی نے کہا کاہن نہیں ہے، بعض نے کہا شاعر ہے بعض نے کہا شاعر نہیں ہے، بعض نے کہا اس کا یہ کلام یعنی قرآن منقول جادو ہے چنانچہ اس پر اجماع ہو گیا کہ اسے منقول جادو کہا جائے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو جب یہ اطلاع پہنچی تو غمگین ہوئے اور سر پر کپڑا ڈال لیا اور کپڑا اوڑھ بھی لیا جس پر یہ آیتیں فاصبر تک اتریں۔ پھر فرمایا ہے کہ کھڑے ہو جاؤ، یعنی عزم اور قومی ارادے کے ساتھ کمربستہ اور تیار ہو جاؤ اور لوگوں کو ہماری ذات سے، جہنم سے، اور ان کے بداعمال کی سزا سے ڈرا۔ ان کو آگاہ کر دو ان سے غفلت کو دور کر دو، پہلی وحی سے نبوۃ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ممتاز کیا گیا اور اس وحی سے آپ رسول بنئے گئے اور اپنے رب ہی کی تعظیم کرو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو یعنی معصیت، بدعہدی، وعدہ شکنی وغیرہ سے بچتے رہو، جیسے کہ شاعر کے شعر میں ہے کہ بحمد اللہ میں فسق و فجور کے لباس سے اور غدر کے رومال سے عاری ہوں، عربی محاورے میں یہ برابر آتا ہے کہ کپڑے پاک رکھو یعنی گناہ چھوڑ دو، اعمال کی اصلاح کر لو، یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ دراصل آپ نہ تو کاہن ہیں نہ جادوگر ہیں یہ لوگ کچھ ہی کہا کریں آپ پرواہ بھی نہ کریں، عربی محاورے میں جو معصیت آلود، بد عہد ہو اسے میلے اور گندے کپڑوں والا اور جو عصمت ماب، پابند وعدہ ہو اسے پاک کپڑوں والا کہتے ہیں، شاعر کہتا ہے۔
یعنی انسان جبکہ سیہ کاریوں سے الگ ہے تو ہر کپڑے میں وہ حسین ہے اور یہ مطلب بھی ہے کہ غیر ضروری لباس نہ پہنو اپنے کپوڑں کو معصیت آلود نہ کرو۔ کپڑے پاک صاف رکھو، میلوں کو دھو ڈالا کرو، مشرکوں کی طرح اپنا لباس ناپاک نہ رکھو۔ دراصل یہ سب مطالب ٹھیک ہیں یہ بھی وہ بھی۔ سات ہی دل بھی پاک ہو دل پر بھی کپڑے کا اطلاق کلام عرب میں پایا جاتا ہے جیسے امراء القیس کے شعر میں ہے اور حضرت سعید بن جبیر سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اپنے دل کو اور اپنی نیت کو صاف رکھو، محمد بن کعبقرظی اور حسن سے یہ بھی مروی ہے کہ اپنے اخلاق کو اچھا رکھو۔ گندگی کو چھوڑ دو یعنی بتوں کو اور اللہ کی نافرمانی چھوڑ دو، جیسے اور جگہ فرمان ہے یا ایھا النبی اتق اللہ ولا تطع الکافرین والمنافقین اے نبی اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی نہ مانو، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام سے فرمایا تھا اے ہارون میرے بعد میری قوم میں تم میری جانشینی کرو اصلاح کے درپے رہو اور مفسدوں کی راہ اختیار نہ کرو۔ پھر فرماتا ہے عطیہ دے کر زیادتی کے خواہاں نہ رہو، ابن مسعود کی قرات میں ان تستکثر ہے، یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اپنے نیک امال کا احسان اللہ پر رکھتے ہوئے حد سے زیادہ تنگ نہ کرو اور یہ بھی کیا گیا ہے کہ طلب خیر میں غفلت نہ برتو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی نبوت کا بار احسان لوگوں پر رکھ کر اس کے عوض دنیا طلبی نہ کرو، یہ چار قول ہوئے، لیکن اول اولیٰ ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے ان کی ایذا پر جو راہ اللہ میں تجھے پہنچے تو رب کی رضامندی کی خاطر صبر و ضبط کر، اللہ تعالیٰ نے جو تجھے منصب دیا ہے اس پر لگارہ اور جمارہ۔ ناقور سے مراد صور ہے، مسند احمد ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں کیسے راحت سے رہوں؟ حالانکہ صور والے فرشتے نے اپنے منہ میں صور لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے ہوئے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہو اور وہ صور پھنک دے، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پھر ہمیں کیا ارشاد ہوتا ہے؟ فرمایا کہو حسبنا اللہ ونعم الوکیل علی اللہ توکلنا پس صور کے پھونکے جانے کا ذکر کر کے یہ فرما کر جب صور پھونکا جائے گا پھر فرماتا ہے کہ وہ دن اور وہ وقت کافروں پر بڑا سخت ہو گا جو کسی طرح آسان نہ ہو گا، جیسے اور جگہ خود کفار کا قول مروی ہے کہ یقول الکافرون ھذا یوم عسر یہ آج کا دن تو بے حد گراں بار اور سخت مشکل کا دن ہے، حضرت زرارہ بن اوفی رحمۃ اللہ علیہ جو بصرے کے قاضی تھے وہ ایک مرتبہ اپنے مقتدیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اسی سورت کی تلاوت تھی جب اس آیت پر پہنچے تو بے ساختہ زور کی ایک چیخ منہ سے نکل گئی اور گر پڑے لوگوں نے دیکھا روح پرواز ہو چکی تھی، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔
جس خبیث شخص نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا اور قرآن کو انسانی قول کہا اس کی سزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے، پہلے جو نعمتیں اس پر انعام ہوئی ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ تن تنہا خالی ہاتھ دنیا میں آیا تھا مال اولاد دیا اور کچھ اس کے پاس نہ تھا پھر اللہ نے اسے مالدار بنا دیا، ہزاروں لاکھوں دینار زر زمین وغیرہ عنایت فرمائی اور باعتبار بعض اقوال کے تیرہ اور بعض اور اقوال کے دس لڑکے دیئے جو سب کے سب اس کے پاس بیٹھے رہتے تھے نوکر چاکر لونڈی غلام کام کاج کرتے رہتے اور یہ مزے سے اپنی زندگی اپنی اولاد کی ساتھ گزارتا، غرض دھن دولت لونڈی غلام بال بچے آرام آسائش ہر طرح کی مہیا تھی، پھر بھی خواہش نفس پوری نہیں ہوتی تھی اور چاہتا تھا کہ اللہ اور بڑھا دے، حالانکہ ایسا اب نہ ہو گا، یہ ہمارے احکامات کے علم کے بعد بھی کفر اور سرکشی کرتا ہے اسے صعود پر چڑھایا جائے گا، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں کافر گرایا جائے گا چالیس سال تک اندر ہی اندر جاتا رہے گا لیکن پھر بھی تہ تک نہ پہنچے گا اور صعود جہنم کے ایک ناری پہاڑ کا نام ہے جس پر کافر کو چڑھایا جائے گا ستر سال تک تو چڑھتا ہی رہے گا پھر وہاں سے نیچے گرا دیا جائے گا ستر سال تک نیچے لڑھکتا رہے گا اور اسی ابدی سزا میں گرفتار رہے گا، یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے غریب کہتے ہیں، ساتھ ہی یہ حدیث منکر ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ صعود جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو آگ کا ہے اسے مجبور کیا جائے گا اس پر چڑھے ہاتھ رکھتے ہی رکھتے ہی راکھ ہو جائے گا اور اٹھاتے ہی بدستور ویسا ہی ہو جائے گا اسی طرح پاؤں بھی، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جہنم کی ایک چٹان کا نام ہے جس پر کافر اپنے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، سدی کہتے ہیں یہ پتھر بڑا پھسلنا ہے، مجاہد کہتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم اسے مشقت والا عذاب دیں گے، قتادہ فرماتے ہیں ایسا عذاب جس میں اور جس سے کبھی بھی راحت نہ ہو، امام جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اس تکلیف دہ عذاب سے اس لئے قریب کر دیا کہ وہ ایمان سے بہت دور تھا وہ سوچ سوچ کر خود ساختہ دنیا میں رہتا تھا کہ وہ قرآن کی مانند کہے اور بات بنائے پھر اس پر افسوس کیا جاتا ہے اور محاورہ عرب کے مطابق اس کی ہلاکت کے کلمے کہے جاتے ہیں کہ یہ غارت کر دیا جائے یہ برباد کر دیا جائے کتنا بد کلام، بری سوچ، کتنی بے حیائی سے جھوٹ بات گھڑ لی، اور بار بار غور و فکر کے بعد پیشانی پر بل ڈال کر، منہ بگاڑ کر، حق سے ہٹ کر بھلائی سے منہ موڑ کر اطاعت اللہ سے منہ پھیر کر، دل کڑا کر کے کہہ دیا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سے پہلے لوگوں کا جادو کا منتر نقل کر لیا کرتے ہیں اور اسی کو سنا رہے ہیں یہ کلام اللہ کا نہیں بلکہ انسانی قول ہے اور جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے، اس ملعون کا نام ولید بن مغیرہ مخزومی تھا، قریش کا سردار تھا، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ یہ ولید پلید حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور خواہش ظاہر کی کہ آپ کچھ قرآن سنائیں حضرت صدیق اکبر نے چند آیتیں پڑھ سنائیں جو اس کے دل میں گھر کر گئیں جب یہاں سے نکلا اور کفار قریش کے مجمع میں پہنچا تو کہنے لگا لوگو! تعجب کی بات ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو قرآن پڑھتے ہیں اللہ کی قسم نہ تو وہ شعر ہے نہ جادو کا منتر ہے نہ مجنونانہ بڑ ہے بلکہ واللہ وہ تو خاص اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے اس میں کوئی شک نہیں، قریشیوں نے یہ سن کر سر پکڑ لیا اور کہنے لگے اگر یہ مسلمان ہو گیا تو بس پھر قریش میں سے ایک بھی بغیر اسلام لائے باقی نہ رہے گا، ابوجہل کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے کہا گھبراؤ نہیں دیکھو میں ایک ترکیب سے اسے اسلام سے پھیر دوں گا یہ کہتے ہی اپنے ذہن میں ایک ترکیب سوچ کر یہ ولید کے گھر پہنچا اور کہنے لگا آپ کی قوم نے آپ کے لئے چندہ کر کے بہت سا مال جمع کر لیا ہے اور وہ آپ کو صدقہ میں دینے والے ہیں، اس نے کہا واہ کیا مزے کی بات ہے مجھے ان کے چندوں اور صدقوں کی کیا ضرورت ہے دنیا جانتی ہے کہ ان سب میں مجھ سے زیادہ مال و اولاد والا کوئی نہیں ابوجہل نے کہا یہ تو ٹھیک ہے لیکن لوگوں میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ جو ابوبکر کے پاس آتے جاتے ہیں وہ صرف اس لئے کہ ان سے کچھ حاصل وصول ہو، ولید کہنے لگا اوہو میرے خاندان میں میری نسبت یہ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں مجھے مطلق معلوم نہ تھا اچھا اب قسم اللہ کی نہ میں ابوبکر کے پاس جاؤں نہ عمر کے پاس نہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں یعنی ذرنی سے لاتذر تک۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس نے کہا تھا قرآن کے بارے میں بہت کچھ غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ شعر تو نہیں اس میں حلاوت ہے، اس میں چمک ہے، یہ غالب ہے مغلوب نہیں لیکن ہے یقیناً جادو۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ ابن جریر میں ہے کہ ولید حضور علیہ السلام کے پاس آیا تھا اور قرآن سن کر اس کا دل نرم پڑ گیا تھا اور پورا اثر ہو چکا تھا جب ابوجہل کو یہ معلوم ہوا تو دوڑا بھاگا آیا اور اس ڈر سے کہ کہیں یہ کھلم کھلا مسلمان نہ ہو جائے اس بھڑکانے کے لئے جھوٹ موٹ کہنے لگا کہ چچا آپ کی قوم آپ کے لئے مال جمع کرنا چاہتی ہے پوچھا کیوں؟ کہا اس لئے کہ آپ کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آپ کا جانا چھڑوائیں کیونکہ آپ وہاں مال حاصل کرنے کی غرض سے ہی جاتے آتے ہیں اس نے غصہ میں آ کر کہا میری قوم کو معلم نہیں کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں؟ ابوجہل نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن اس وقت تو لوگوں کا یہ خیال پختہ ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے مال حاصل کرنے کی غضر سے آپ اسی کے ہو گئے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں کے دلوں سے اٹھ جائے تو آپ اس کے بارے میں کچھ سخت الفاظ کہیں تاکہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ آپ اس کے مخالف ہیں اور آپ کو اس سے کوئی طمع نہیں، اس نے کہا بھئی بات تو یہ ہے کہ اس نے جو قرآن مجھے سنایا ہے قسم ہے اللہ کی نہ وہ شعر ہے نہ قصیدہ ہے اور نہ رجز ہے، نہ جنات کا قول اور نہ ان کے اشعار ہیں۔ تمہیں خوب معلوم ہے کہ جنات اور انسان کا کلام مجھے خوب یاد ہے میں خود نامی شاعر ہوں کلام کے حسن و قبح سے خوب واقف ہوں لیکن اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام اس میں سے کچھ بھی نہیں اللہ جانتا ہے اس میں عجب حلاوت مٹھاس لذت شیفتتگی اور دلیری ہے وہ تمام کلاموں کا سردار ہے اس کے سامنے اور کوئی کلام جچتا نہیں وہ سب پر چھا جاتا ہے اس میں کشش بلندی اور جذب ہے اب تم ہی بتاؤ کہ میں اس کلام کی نسبت کیا کہوں؟ ابوجہل نے کہا سنو جب تک تم اسے برائی کے ساتھ یاد نہ کرو گے تمہاری قوم کی خیالات تمہاری نسبت صاف نہیں ہوں گے، اس نے کہا اچھا تو مجھے مہلت دو میں سوچ کر اس کی نسبت کوئی ایسا کلمہ کہہ دوں گا چنانچہ سوچ سوچ کر قومی حمیت اور ناک رکھنے کی خاطر اس نے کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے جسے وہ نقل کرتا ہے اس پر ذرنی سے تسعتہ یحشر تک کی آیتیں اتریں۔ سدی کہتے ہیں کہ دارالندوہ میں بیٹھ کر ان سب لوگوں نے مشورہ کیا کہ موسم حج پر چاروں طرف سے لوگ آئیں گے تو بتاؤ انہیں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت کیا کہیں؟ کوئی ایسی تجویز کرو کہ سب بہ یک زبان وہی بات کہیں تاکہ عرب بھر میں اور پھر ہر جگہ بھی وہی مشہور ہو جائے تو اب کسی نے شاعر کہا کسی نے جادوگر کہا کسی نے کاہن اور نجومی کہا کسی نے مجنون اور دیوانہ کہا ولید بیٹھا سوچتا رہا اور غور و فکر کر کے دیکھ بھال کر تیوری چڑھا اور منہ بنا کر کہنے لگا جادوگروں کا قول ہے جسے یہ نقل کر رہا ہے، قرآن کریم میں اور جگہ ہے انظر کیف ضربوا لک الامثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا یعنی ذرا دیکھ تو سہی تیری کیسی کیسی مثالیں گھڑتے ہیں لیکن بہک بہک کر رہ جاتے ہیں اور کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ اب اس کی سزا کا ذکر ہو رہا ہے کہ میں انہیں جہنم کی آگ میں غرق کر دوں گا جو زبردست خوفناک عذاب کی آگ ہے جو گوشت پوست کو رگ پٹھوں کو کھا جاتی ہے پھر یہ سب تازہ پیدا کئے جاتے ہیں اور پھر زندہ کئے جاتے ہیں نہ موت آئے نہ راحت والی زندگی لے، کھال ادھیڑ دینے الی وہ آگ ہے ایک ہی لپک میں جسم کو رات سے زیادہ سیاہ کر دیتی وہ جسم و جلد کو بھون بھلس دیتی ہے، انیس انیس داروغے اس پر مقرر ہیں جو نہ تھکیں نہ رحم کریں، حضرت برار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ چند یہودیوں نے صحابہ سے یہ واقعہ بیان کیا اسی وقت آیت علیھا تسعتہ عشر نازل ہوئی آپ نے صحابہ کو سنا دی اور کہا ذرا انہیں میرے پاس تو لاؤ میں بھی ان سے پوچھوں کہ جنت کی مٹی کیا ہے؟ سنو وہ سفید میدہ کی طرح ہے، پھر یہودی آپ کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا کہ جہنم کے داروغوں کی تعداد کتنی ہے آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دو دفعہ جھکائیں دوسری دفعہ میں انگوٹھا روک لیا یعنی انیس۔ پھر فرمایا تم بتلاؤ کے جنت کی مٹی کیا ہے؟ انہوں نے ابن سلام سے کہا آپ ہی کہئے ابن سلام نے کہا گویا وہ سفید روٹی ہے آپ نے فرمایا یاد رکھو یہ سفید روٹی وہ جو خلاص میدے کی ہو (ابن ابی حاتم) مسند بزار میں ہے کہ جس شخص نے حضور کو صحابہ کے لاجواب ہونے کی خبر دی تھی اس نے آ کر کہا تھا کہا آج تو آپ کے اصحاب ہار گئے پوچھا کیسے؟ اس نے کہا ان سے جواب نہ بن پڑا اور کہنا پڑا کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھ لیں آپ نے فرمایا ھبلا وہ ہارے ہوئے کیسے کہے جا سکتے ہیں؟ جن سے جو بات پوچھی جاتی ہے اگر وہ نہیں جاتے تو کہتے ہیں کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ کر جواب دیں گے۔ ان یہودیوں کو دشمنان الٰہی کو ذرا میرے پاس تو لاؤ ہاں انہوں نے اپنے نبی سے اللہ کو دیکھنے کا سوال کیا تھا اور ان پر عذاب بھیجا گیا تھا۔ اب یہود بلوائے گئے جواب دیا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سوال پر یہ بڑے چکرائے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عذاب دینے پر اور جہنم کی نگہبانی پر ہم نے فرشتے ہی مقرر کئے ہیں جو سخت بے رحم اور سخت کلامی کرنے والے ہیں اس میں مشرکین قریش کی تردید ہے انہیں جس وقت جہنم کے داروغوں کی گنتی بتلائی گئی تو ابوجہل نے کہا اے قریشیوں یہ اگر انیس ہیں تو زیادہ سے زیادہ ایک سو نوے ہم مل کر انہی ہرا دیں گے اس پر کہا جاتا ہے کہ وہ فرشتے ہیں انسان نہیں انہیں نہ تم ہرا سکو نہ تھکا سکو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابوالاشدین جس کا نام کلدہ بن اسید بن خلف تھا اس نے اس گنتی کو سن کر کہا کہ قریشیو تم سب مل کر ان میں سے دو کو روک لینا باقی سترہ کو میں کافی ہوں، یہ بڑا مغرور شخص تھا اور ساتھ ہی بڑا قوی تھا یہ گائے کے چمڑے پر کھڑا ہو جاتا پھر دس طاقتور شخص مل کر اسے اس کے پیروں تلے سے نکالنا چاہتے کھال کے ٹکڑے اڑ جاتے لیکن اس کے قدم جنبش بھی نہ کھاتے، یہی شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آ کر کہا تھا کہ آپ مجھ سے کشتی لڑیں اگر آپ نے مجھے گرا دیا تو میں آپ کی نبوت کو مان لوں گا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے کشتی کی اور کئی بار گرایا لیکن اسے ایمان لانا نصیب نہ ہوا، امام ابن اسحاق نے کشتی والا واقعہ رکانہ بن عبد یزید بن ہاشم بن عبدالمطلب کا بتایا ہے، میں کہتا ہوں ان دونوں میں کچھ تفاوت نہیں (ممکن ہے اس سے اور اس سے دونوں سے کشتی ہوئی ہو) واللہ اعلم۔ پھر فرمایا کہ اس گنتی کا ذکر تھا ہی امتحان کے لئے، ایک طرف کافروں کا کفر کھل گیا، دوسری جانب اہل کتاب کا یقین کامل ہو گیا، کہ اس رسول کی رسالت حق ہے کیونکہ خود ان کی کتاب میں بھی یہی گنتی ہے، تیسری طرف ایماندار اپنے ایمان میں مزید توانا ہو گئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کی تصدیق کی اور ایمان بڑھایا، اہل کتاب اور مسلمانوں کو کوئی شک شبہ نہ رہا بیمار دل اور منافق چیخ اٹھے کہ بھلا بتاؤ کہ اسے یہاں ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی ہی باتیں بہت سے لوگوں کے ایمان کی مضبوطی کا سبب بن جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کے شبہ والے دل اور ڈانوا ڈول ہو جاتے ہیں اللہ کے یہ سب کام حکمت سے اور اسرار سے ہیں، تیرے رب کے لشکروں کی گنتی اور ان کی صحیح تعداد اور ان کی کثرت کا کسی کو علم نہیں وہی خوب جانتا ہے یہ نہ سمجھ لیا کہ بس انیس ہی ہیں، جیسے یونانی فلسفیوں اور ان کے ہم خیال لوگوں نے اپنی جہالت و ضلالت کی وجہ سے سمجھ لیا کہ اس سے مراد عقول عشرہ اور نفوس تسعہ ہیں حالانکہ یہ مجرد ان کا دعویٰ ہے جس پر دلیل قائم کرنے سے وہ بالکل عاجز ہیں افسوس کہ آیت کے اول پر تو ان کی نظریں ہیں لیکن آخری حصہ کے ساتھ وہ کفر کر رہے ہیں جہاں صاف الفاظ موجود ہیں کہ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر صرف انیس کے کیا معنی؟ بخاری و مسلم کی معراج والی حدیث میں ثابت ہو چکا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت المعمور کا صوف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ساتویں آسمان پر ہے اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں اسی طرح دوسرے روز دوسرے ستر ہزار فرشتے اسی طرح ہمیشہ تک لیکن فرشتوں کی تعداد اس قدر کثیر ہے کہ جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی، مسند احمد میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے آسمان چرچرا رہے ہیں اور انہیں چرچرانے کا حق ہے۔ ایک انگلی ٹکانے کی جگہ ایسی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں نہ پڑا ہو۔ اگر تم وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تم بہت کم ہنستے، بہت زیادہ روتے اور بستروں پر اپنی بیویوں کے ساتھ لذت نہ پاسکتے بلکہ فریاد و زاری کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل کھڑے ہوتے۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے بے ساختہ یہ نکل جاتا کاش کہ میں کئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور حضرت ابوذر سے موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے، طبرانی میں ہے ساتوں آسمانوں میں قدم رکھنے کی بالشت بھریا ہتھیلی جتنی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ قیام کی یا رکوع کی یا سجدے کی حالت میں نہ ہو پھر بھی یہ سب کل قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہمیں جس قدر تیری عبادت کرنی چاہئے تھی اس قدر ہم سے ادا نہیں ہو سکتی، البتہ ہم نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب الصلوٰۃ میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے ایک مرتبہ صحابہ سے سوال کیا کہ کیا جو میں سن رہا ہوں تم بھی سن رہے ہو؟ انہوں نے جواب میں کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں تو کچھ سنائی نہیں دیتا، آپ نے فرمایا آسمانوں کا چر چر بولنا میں سن رہا ہوں اور وہ اس چرچراہٹ پر ملامت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر اس قدر فرشتے ہیں کہ ایک بالشت بھر جگہ خالی نہیں کہیں کوئی رکوع میں ہے اور کہیں کوئی سجدے میں، دوسری روایت میں ہے آسمان دنیا میں ایک قدم رکھنے کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں سجدے میں یا قیام میں کوئی فرشتہ نہ ہو، اسی لۓ فرشتوں کا یہ قول قرآن کریم میں موجود ہے۔ وما منا الا لہ مقام معلوم وانا لنحن الصافون وانا لنحن المسبحون یعنی ہم میں سے ہر ایک کے لئے مقرر جگہ ہے اور ہم صفیں باندھنے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے والے ہیں، اس حدیث کا مرفوع ہونا بہت ہی غریب ہے، دوسری روایت میں یہ قول حضرت ابن مسعود کا بیان کیا گیا ہے، ایک اور سند سے یہ روایت حضرت ابن علاء بن سعد سے بھی مرفوعاً مروی ہے یہ صحابی فتح مکہ میں اور اس کے بعد کے جہادوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ، لیکن سنداً یہ بھی غریب ہے ایک اور بہت ہی غریب بلکہ سخت منکر حدیث میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے نماز کھڑی ہوئی تھی اور تین شخص بیٹھے ہوئے تھے جن میں کا ایک ابوحجش لیثی تھا آپ نے فرمایا اٹھو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاؤ تو وہ شخص تو کھڑے ہو گئے لیکن ابو حجش کہنے لگا اگر کوئی ایسا شخص آئے جو طاقت و قوت میں مجھ سے زیادہ ہو اور مجھ سے کشتی لڑے اور مجھے گرا دے پھر میرا من مٹی میں ملا دے تو تو میں اٹھوں گا ورنہ بس اٹھ چکا، حضرت عمر نے فرمایا اور کون آئے گا آ جا میں تیار ہوں چنانچہ کشتی ہونے لگی اور میں نے اسے پچھاڑا پھر اس کے منہ کو مٹی میں مل دیا اور اتنے میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ گئے اور اسے میرے ہاتھ سے چھڑا دیا، میں بڑا بگڑا اور اسی غصہ کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا ابو حفص آج کیا بات ہے؟ میں نے کل واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا اگر عمر اس سے خوش ہوتا تو اس پر رحم کرتا اللہ کی قسم میرے نزدیک تو اس خبیث کا سراتار لیتا تو اچھا تھا، یہ سنتے ہی حضرت عمر یونہی وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی طرف لپکے۔ خاصی دور نکل چکے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں آواز دی اور فرمایا بیٹھو سن تو لو کہ اللہ ابو حجش کی نماز سے بالکل بے نیاز ہے آسمان دنیا میں خشوع و خضوع والے بے شمار فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں پڑے ہوئے ہیں جو قیامت کو سجدے سے سر اٹھائیں گے اور یہ کہتے ہوئے حاضر ہوں گے کہ اب بھی ہمارے رب ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا، اسی طرح دوسرے آسمان میں بھی یہی حال ہے، حضرت عمر نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کی تسبیح کیا ہے؟ فرمایا آسمان دنیا کے فرشتے تو کہتے ہیں سبحان ذی الملک والملکوت اور دوسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں سبحان ذی العزۃ واجلبروت اور تیسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں سبحان الحی الذی لا یموت عمر تو بھی اپنی نماز میں اسے کہا کرو حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے پہلے جو پڑھنا آپ نے سکھایا ہے اور جس کے پڑھنے کو فرمایا ہے اس کا کیا ہو گا کہا کبھی یہ کہو کبھی وہ پڑھو پہلے جو پڑھنے کو آپ نے فرمایا تھا وہ یہ تھا اعوذ بعفوک من عقابک واعوذ برضاک من سخطک واعوذ بک منک جل وجھک یعنی اللہ تیرے ہی پناہ پکڑتا ہوں اور تیرا چہرہ جلال والا ہے اور احاق مروزی جو راوی حدیث ہے اس سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اور امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ بھی انہیں ثقہ راویوں میں گنتے ہیں لیکن حضرت امام ابو داؤد امام نسائی امام عقیلی اور امام دار قطنی انہیں ضعی کہتے ہیں، امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں تھے تو یہ سچے مگر نابینا ہو گئے تھے اور کبھی کبھی تلقین قبول کر لیا کرتے تھے ہاں ان کی کاتبوں کی روایت صحیح ہیں۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ مضطرب ہیں اور ان کے استاد عبدالملک بن قدامہ ابوقتادہ جمعی میں بھی کلام ہے، تعجب ہے کہ امام محمد بن نصر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی اس حدیث کو کیسے روایت کر دیا؟ اور نہ تو اس پر کلام کیا نہ اس کے حال کو معلوم کرایا، نہ اس کے بعض راویوں کے ضعف کو بیان کیا۔ ہاں اتنا تو کیا ہے کہ اسے دوسری سند سے مرسلاً روایت کر دیا ہے اور مرسل کی دو سندیں لائے ہیں ایک حضرت سعید بن جبیر دوسری حضرت حسن بصری سے، پھر ایک اور روایت لائے ہیں کہ حضرت عدی بن ارطاۃ نے مدائن کی جامع مسجد میں اپنے خطبہ میں فرمایا کہ میں نے ایک صحابی سے سنا ہے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے بہت سے ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت خوف اللہ سے کپکپاتے رہتے ہیں ان کے آنسو گرتے رہتے ہیں اور وہ ان فرشتوں پر ٹپکتے ہیں جو نماز میں مشغول ہیں اور ان میں ایسے فرشتے بھی ہیں جو ابتداء دنیا سے رکوع میں ہی ہیں اور بعض سجدے میں ہی ہیں قیامت کے دن اپنی پیٹھ اور اپنا سر اٹھائیں گے اور نہایت عاجزی سے جناب باری تعالیٰ میں عرض کریں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا۔ اس حدیث کی اسناد میں کوئی حرج نہیں۔ پھر فرماتا ہے یہ آگ جس کا وصف تم سن چکے یہ لوگوں کے لئے سراسر باعث عبرت و نصیحت ہے۔ پھر چاند کی رات کے جانے کی صبح کے روشن ہونے کی قسمیں کھا کر فرماتا ہے کہ وہ آگ ایک زبردست اور بہت بڑی چیز ہے، جو اس ڈراوے کو قبول کر کے حق کی راہ لگنا چاہے لگ جائے۔ جو چاہے اس کے باوجود حق کو پیٹھ ہی دکھاتا رہے، اس سے دور بھاگتا رہے، یا اسے رد کرتا رہے۔
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال میں قیامت کے دن جکڑا بندھا ہو گا لیکن جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ آیا وہ جنت کے بالا خانوں میں چین سے بیٹھ ہوئے جہنمیوں کو بدترین عذابوں میں دیکھ کر ان سے پوچھیں گے کہ تم یہاں کیسے پہنچ گئے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نے نہ تو رب کی عبادت کی نہ مخلوق کے ساتھ احسان کیا بغیر علم کے جو زبان پر آیا بکتے رہے جہاں کسی کو اعتراض کرتے سنا ہم بھی ساتھ ہو گئے اور باتیں بنانے لگ گئے اور قیامت کے دن کی تکذیب ہی کرتے رہے یہاں تک کہ موت آ گئی، یقین کے معنی موت کے اس آیت میں بھی ہیں واعبدربک حتی یاتیک الیقین یعنی موت کے وقت تک اللہ کی عبادت میں لگا رہ اور حضرت عثمان بن مطون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کی نسبت حدیث میں بھی یقین کا لفظ آیا ہے، اب اللہ مالک الملک فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی کی سفارش اور شفاعت نفع نہ دے گی اس لئے کہ شفاعت وہاں نافع ہو جاتی ہے جہاں محل شفاعت ہو لیکن جن کا دم ہی کفر پر نکلا ہو ان کے لئے شفاعت کہاں؟ وہ ہمیشہ کے لئے ہاویہ میں گئے۔ پھر فرمایا کیا بات ہے کہ کونسی وجہ ہے کہ یہ کافر تیری نصیحت اور دعوت سے منہ پھیر رہے ہیں اور قرآن و حدیث سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے جنگلی گدھے شکاری شیر سے، فارسی زبان میں جسے شیر کہتے ہیں اسے عربی میں اسد کہتے ہیں اور حبشی زبان میں قسورہ کہتے ہیں اور نبطی زبان میں رویا۔ پھر فرماتا ہے یہ مشرکین تو چاہتے ہیں کہ ان میں کے ہر شخص پر علیدہ علیحدہ کتاب اترے جیسے اور جگہ ان کا مقولہ ہے حتی نوتی مثل ما اوتی رسل اللہ الخ، یعنی جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ وہ نہ دیئے جائیں جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ رسالت کے قابل کون ہے؟ اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ ہم بغیر عمل کے چھٹکارا دیئے جائیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دراصل وجہ یہ ہے کہ انہیں آرت کا خوف ہی نہیں کیونکہ انہیں اس کا یقین نہیں اس پر ایمان نہیں بلکہ اسے جھٹلاتے ہیں تو پھر ڈرتے کیوں؟ پھر فرمایا سچی بات تو یہ ہے کہ یہ قرآن محض نصیحت و موغطت ہے جو چاہے عبرت حاصل کر لے اور نصیحت پکڑ لے، جیسے فرمان ہے وماتشاؤن الا ان یشاء اللہ یعنی تمہاری چاہتیں اللہ کی چاہت کی تابع ہیں۔ پھر فرمایا اسی کی ذات اس قابل ہے کہ اس سے خوف کھایا جائے اور وہی ایسا ہے کہ ہر رجوع کرنے والے کی توبہ قبول فرمائے، مسند احمد میں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ تمہارا رب فرماتا ہے میں اس کا حقدار ہوں کہ مجھے سے ڈرا جائے اور میرے ساتھ دوسرا معبود نہ ٹھہرایا جائے جو میرے ساتھ شریک بنانے سے بچ گیا تو وہ میری بخشش کا مستحق ہو گیا، ابن ماجہ اور نسائی اور ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن غریب کہتے ہیں، سہیل اس کا راوی قوی نہیں اللہ تعالیٰ کے احسان سے سورہ مدثر کی تفسیر بھی ختم ہوئی، فالحمد اللہ