ترمذی شریف میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم مجھے پڑھائیے آپ نے فرمایا الروالی تین سورتیں پڑھو تو اس نے کہا بوڑھا ہو گیا حافظہ کمزور ہو گیا زبان موٹی ہو گئی تو آپ نے فرمایا اچھا حم والی سورتیں پڑھا کرو اس نے پھر وہی عذر بیان کیا آپ نے فرمایا یسبح والی تین سورتیں پڑھ لیا کرو اس نے پھر وہی عذر بیان کیا اور درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مجھے تو کوئی جامع سورت کا سبق دے دیجئے تو آپ نے اسے یہ سورت پڑھائی جب پڑھا چکے تو وہ کہنے لگا اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے کہ میں کبھی اس پر زیادتی نہ کروں گا پھر وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو آپ نے فرمایا اس مرد نے فلاح پالی یہ نجات کو پہنچ گیا۔ پھر فرمایا ذرا اسے بلاؤ وہ حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا مجھے بقر عید کا حکم کیا گیا ہے اس دن کو اللہ تعالیٰ نے اس امت کی عید کا دن بنایا ہے تو اس شخص نے کہا کہ اگر میرے پاس قربانی کا جانور نہ ہو اور کسی شخص نے مجھے دودھ پینے کے لیے کوئی جانور تحفۃً دے رکھا ہو تو کیا میں اس کو ذبح کر ڈالوں؟ فرمایا نہیں پھر تو اپنے بال کتروا، ناخن کٹوا مونچھیں پست کرا زیر ناف کے بال صاف کر اللہ تعالیٰ عز و جل کے نزدیک تیری پوری قربانی یہی ہے یہ حدیث مسند احمد ابو داؤد نسائی میں بھی ہے ترمذی شریف کی اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں جو شخص اس سورت کو پڑھے اسے نصف قرآن پڑھنے کا ثواب ملتا ہے یہ حدیث غریب ہے اور روایت میں ہے اذا زلزلت، آدھے قرآن کے برابر ہے اور قل ھو اللّٰہ تہائی قرآن کے برابر ہے اور قل یا ایھالاکافرون چوتھائی قرآن کے برابر یہ حدیث بھی غریب ہے اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابیوں میں سے ایک سے فرمایا کیا تم نے نکاح کر لیا اس نے کہا نہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس اتنا ہے ہی نہیں جو میں اپنا نکاح کر سکوں آپ نے فرمایا قل ہو اللہ تیرے ساتھ نہیں؟ اس نے کہا ہاں یہ تو ہے فرمایا تہائی قرآن یہ ہوا اذا جآء نہیں ؟ کہا وہ بھی ہے فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا فرمایا قل یایھاالکافرون یاد نہیں؟ کہا ہاں۔ فرمایا چوتھائی قرآن کے برابر یہ ہے جا اب نکاح کر لے یہ حدیث حسن ہے یہ تینوں حدیثیں صرف ترمذی میں ہیں۔
زمین اپنے نیچے سے اوپر تک کپکپانے لگے گی اور جتنے مردے اس میں ہیں سب نکال پھینکے گی۔ جیسے اور جگہ ہے یآایھا الناس اتقوا ربکم ان زلزلتہ الساعتہ شی عظیم لوگو اپنے رب سے ڈرو یقین مانو کہ قیامت کا زلزلہ اس دن کا بھونچال بڑی چیز ہے اور جگہ ارشاد ہے واذا الارض مدت والقت ما فیھا وتخلت جبکہ زمین کھینچ کھانچ کر برابر ہموار کر دی جائے گی اور اس میں جو کچھ ہے وہ اسے باہر ڈال دے گی اور بالکل خالی ہو جائے گی صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو اگل دے گی سونا چاندی مل ستونوں کے باہر نکل پڑے گا قاتل اسے دیکھ کر افسوس کرتا ہوا کہے گا کہ ہائے اسی مال کے لیے میں نے فلاں کو قتل کیا تھا آج یہ یوں ادھر ادھر بکھر رہا ہے کوئی آنکھ بھر کر دیکھتا بھی نہیں اسی طرح صلہ رحمی توڑنے والا بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں آ کر رشتہ داروں سے میں سلوک نہیں کرتا تھا چور بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں میں نے ہاتھ کٹوا دئیے تھے غرض وہ مال یونہی بکرا پھرے گا کوئی نہیں لے گا انسان اس وقت ہلکا بکا رہ جائے گا اور کہے گا یہ تو ہلنے جلنے والی نہ تھی بلکہ ٹھہری ہوئی بوجھل اور جمی ہوئی تھی اسے کیا ہو گیا کہ یوں بید کی طرح تھرانے لگی اور ساتھ ہی جب دیکھے گا کہ تمام پہلی پچھلی لاشیں بھی زمین نے اگل دیں تو اور حیران و پریشان ہو جائے گا کہ آخر اسے کیا ہو گیا ہے؟ پس زمین بالکل بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب لوگ اس قہار اللہ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے زمین کھلے طور پر صاف صاف گواہی دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں زیادتی اس شخص پر کی ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا جانتے بھی ہو کہ زمین کی بیان کردہ خبریں کیا ہوں گی لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے تو آپ نے فرمایا جو جو اعمال بنی آدم نے زمین پر کیے ہیں وہ تمام وہ ظاہر کر دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں نیکی یا بدی فلاں جگہ فلاں وقت کی ہے۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں معجم طبرانی میں ہے کہ آپ نے فرمایا زمین سے بچو یہ تمہاری ماں ہے جو شخص جو نیکی بدی اس پر کرتا ہے یہ سب کھول کھول کر بیان کر دے گی یہاں وحی سے مراد حکم دینا ہے اوحی اور اس کے ہم معنی افعال کا صلہ حرف لام بھی آتا ہے الی بھی مطلب یہ ہے کہ اللہ اسے فرمائے گا کہ بتا اور وہ بتاتی جائے گی اس دن لوگ حساب کی جگہ سے مختلف قسموں کی جماعتیں بن بن کر لوٹیں گے کوئی بد ہو گا کوئی نیک کوئی جنتی بنا ہو گا کوئی جہنمی یہ معنی بھی ہیں کہ یہاں سے جو الگ الگ ہوں گے تو پھر اجتماع نہ ہو گا یہ اس لیے کہ وہ اپنے اعمال کو جان لیں اور بھلائی برائی کا بدلہ پا لیں گے اسی لیے آخر میں بھی بیان فرما دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ گھوڑوں والے تین قسم کے ہیں ایک اجر پانے والا ایک پردہ پوشی والا اور ایک بوجھ اور گناہ والا اجر والا تو وہ ہے جو گھوڑا پالتا ہے جہاد کی نیت سے اگر اس کے گھوڑے کی اگاڑی پچھاڑی ڈھیلی ہو گئی اور یہ ادھر ادھر سے چرتا رہا تو یہ بھی گھوڑے والے کے لیے اجر کا باعث ہے اور اگر اس کی رسی ٹوٹ گئی اور یہ ادھر ادھر چلا گیا تو اس کے نشان قدم اور لید کا بھی اسے ثواب ملتا ہے اگر یہ کسی نہر پر جا کر پانی پی لے چاہے پلانے کا ارادہ نہ ہو تو بھی ثواب مل جاتا یہ گھوڑا تو اس کے لیے سراسر اجر و ثواب ہے دوسرا وہ شخص جس نے اس لیے پال رکھا ہے کہ دوسروں سے بے پرواہ رہے اور کسی سے سوال کی ضرورت نہ ہو لیکن اللہ کا حق نہ تو خود اس بار میں بھولتا ہے نہ اس کی سواری میں پس یہ اس کے لیے پردہ ہے تیسرا وہ شخص ہے جس نے فخر و ریا کاری اور ظلم و ستم کے لیے پال رکھا ہے پس یہ اس کے ذمہ بوجھ اور اس پر گناہ کا بر ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا کہ گدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے آپ نے فرمایا مجھ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے سوائے تنہا اور جامع آیت کے اور کچھ نازل نہیں ہوا کہ ذرہ برابر نیکی یا بدی ہر شخص دیکھ لے گا (مسلم) حضرت صعصعہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی یہ آیت سن کر کہہ دیا تھا کہ صرف یہی آیت کافی ہے اور زیادہ اگر نہ بھی سنوں تو کوئی ضرورت نہیں (مسند احمد ونسائی) صحیح بخاری شریف میں بروایت حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ آگ سے بچو اگرچہ آدھی کھجور کا صدقہ ہی ہو اسی طرح صحیح حدیث میں ہے کہ نیکی کے کام کو ہلکا نہ سمجھو گو اتنا ہی کام ہو کہ تو اپنے ڈول میں سے ذرا سا پانی کسی پیاسے کو پلوا دے یا اپنے کسی مسلمان بھائی سے کشادہ روئی اور خندہ پیشانی سے ملاقات کر لے دوسر یایک صحیح حدیث میں ہے کہ سائل کو کچھ نہ کچھ دے دو گو جلا ہوا کھر ہی ہو مسند احمد کی حدیث میں ہے اے عائشہ گناہوں کو حقیر نہ سمجھو یاد رکھو کہ ان کا بھی حساب لینے والا ہے ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت اتری تو حضرت صدیق نے کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا اور پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا میں ایک ایک ذرے برابر کا بدلہ دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے صدیق دنیا میں جو جو تکلیفیں تمہیں پہنچی ہیں یہ تو اس میں آ گئیں اور نیکیاں تمہارے لیے اللہ کے ہاں ذخیرہ بنی ہوئی ہیں اور ان سب کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن تمہیں دیا جائے گا ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سورت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں نازل ہوئی تھی آپ اسے سن کر بہت روئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا مجھے یہ سورت رلا رہی ہے آپ نے فرمایا اگر تم خطا اور گناہ نہ کرتے کہ تمہیں بخشا جائے اور معاف کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کسی اور امت کو پیدا کرتا جو خطا اور گناہ کرتے اور اللہ انہیں بخشتا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ آیت سن کر پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کیا مجھے اپنے سب اعمال دیکھنے پڑیں گے آپ نے فرمایا ہاں پوچھا بڑے بڑے فرمایا ہاں پوچھا اور چھوٹے چھوٹے بھی فرمایا ہاں میں نے کہا ہائے افسوس! آپ نے فرمایا ابو سعید خوش ہو جاؤ نیکی تو دس گنے سے لے کر سات سوگنے تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک اللہ جسے چاہے دے گا ہاں گناہ اسی کے مثل ہوں گے یا اللہ تعالیٰ اسے بھی بخش دے گا سنو کسی شخص کو صرف اس کے اعمال نجات نہ دے سکیں گے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کیا آپ کو بھی نہیں؟ فرمایا نہ مجھے ہی مگر یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے اس کے راویوں میں ایک ابن لہیعہ ہیں یہ روایت صرف انہی سے مروی ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب آیت ویطعمون الطعام علی حبہ الخ نازل ہوئی یعنی مال کی محبت کے باوجود مسکین یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں تو لوگ یہ سمجھ گئے کہ اگر ہم تھوڑی سی چیز راہ اللہ دیں گے تو کوئی وثاب نہ ملے گا مسکین ان کے دروازے پر آتا لیکن ایک آدھ کھجور یا روٹی کا ٹکڑا وغیرہ دینے کو حقارت خیال کر کے یونہی لوٹا دیتے تھے کہ اگر دیں تو کوئی اچھی محبوب و مرغوب چیز دیں ادھر تو اس خیال کی ایک جماعت تھی دوسری جماعت وہ تھی جنہیں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں پر ہماری پکڑ نہ ہو گی مثلاً کبھی کوئی جھوٹ بات کہہ دی کبھی ادھر ادھر نظریں ڈال لیں کبھی غیبت کر لی وغیرہ جہنم کی وعید تو کبیرہ گناہوں پر ہے تو یہ آیت فمن یعمل نازل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ چھوٹی سی نیکی کو حقیر نہ سمجھو یہ بڑی ہو کر ملے گی اور تھوڑے سے گناہ کو بھی بے جان نہ سمجھو کہیں تھوڑا تھوڑا مل کر بہت نہ بن جائے ذرہ کے معنی چھوٹی چیونٹی کے ہیں یعنی نیکیوں اور برائیوں کو چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اپنے نامہ اعمال میں دیکھ لے گا بدی تو ایک ہی لکھی جاتی ہے نیکی ایک کے بدلے دس بلکہ جس کے لیے اللہ چاہے اس سے بھی بہت زیادہ بلکہ ان نیکیوں کے بدلے برائیاں بھی معاف ہو جاتی ہیں ایک ایک کے بدل دس دس بدیاں معاف ہو جاتی ہیں پھر یہ بھی ہے کہ جس کی نیکی برائی سے ایک ذرے کے برابر بڑھ گئی وہ جنتی ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں گناہوں کو ہلکا نہ سمجھا کرو یہ سب جمع ہو کر آدمی کو ہلاک کر ڈالتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان برائیوں کی مثال باین کی کہ جیسے کچھ لوگ کسی جگہ اترے پھر ایک ایک دو دو لکڑیاں چن لائے تو لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائے گا پھر اگر انہیں سلگایا جائے تو اس وقت اس آگ پر جو چاہیں پکا سکتے ہیں (اسی طرح تھوڑے تھوڑے گناہ بہت زیادہ ہو کر آگ کا کام کرتے ہیں اور انسان کو جلا دیتے ہیں) سورۃ اذازلزلت کی تفسیر ختم ہوئی، فالحمد اللہ ۔