دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الزّلزَلة

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

 پہلی آیت میں  قیامت کے دن زمین کے ہلاۓ جانے کا ذکر ہوا ہے اور اس سلسلہ میں  لفظ زلزال آیا ہے جس کی مناسبت سے اس سورہ کا نام الزلزال  ہے۔

 

 

 

زمانۂ نزول

 

 مکی ہے ور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت کے ابتدائی مرحلہ میں  نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

 قیامت کے دن نسان کا اٹھ کھڑا ہونا ہے تاکہ اس کے اعمال کا پورا کچا چٹھا اس کے سامنے رکھا جاۓ۔

 

نظم کلام

 

  آیت ۱ تا ۳ میں  زمین کی اس کیفیت کا ذکر ہے جو قیامت کے دن اس پر طاری ہو گی اور جس کو دیکھ کر انسان ششدر رہ جاۓ گا۔

 

آیت ۴ اور ۵ میں  بتایا گیا ہے کہ اس روز زمین بول پڑے گی اور اپنی داستان سناۓ گی تا کہ انسان اس کی پیٹھ پر جو کچھ کرتا رہا ہے اس کی تاریخی شہادت  سامنے آ جاۓ۔

 

آیت ۶ تا ۸ میں  بتایا گیا ہے کہ اس روز لوگ مختلف گروہوں  کی شکل میں  ، اعمال کی پیشی کے لیے نکل پڑیں  گے اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی بھلائی یا برائی ایسی نہیں  ہو گی جواس کے سامنے نہ آ جاۓ۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا دی جاۓ گی ۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی ۲ *

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے ! ۳ *

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز وہ اپنی خبریں  سناۓ گی ۴ *

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ تمہارے رب نے اس کو حکم دیا ہو گا ۵ *

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز لوگ مختلف گروہوں  کی شکل میں  نکلیں  گے تاکہ انہیں  ان کے اعمال دکھا دیے جائیں  ۶ *

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ ۷ *۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کے دوسرے مرحلہ کا ذکر ہے جب کہ تمام مرے ہوۓ انسان زندہ ہو کر نکل پڑیں  گے جیسا کہ آگے کے مضمون سے واضح ہے۔

 

اس روز پورا کرہ ارض اس شدت کے ساتھ ہلایا جاۓ گا کہ اس ہلاۓ جانے کا صحیح تصور بھی نہیں  کیا جا سکتا۔ زمین پر جتنے بھی زلزلے آۓ ہوں ، قیامت کا زلزلہ اتنا عظیم ہو گا کہ بڑے ے بڑا زلزلہ بھی اس کے مقابلہ میں  کچھ نہ ہو گا۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد مردے ہیں  جن کو زمین قیامت کے دن اگل دے گی۔ گویا مردے زمین کے لیے بوجھ ہیں  جن سے وہ خالی ہوا چاہتی ہے۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم مٹی میں  جو مل جاتا ہے وہ فنا نہیں  ہو جاتا بلکہ یہ امانت بن کر زمین کے پاس رہتا ہے خواہ کیمیائی طور پر (Chemically) اس نے کسی بھی مادہ کی شکل اختیار کر لی ہو اور یہ امانت اپنی اصل شکل میں  قیامت کے دن زمین حاضر کر دے گی یعنی انسانی جسم کے اعضاء کیمیائی تغیرات سے گزرنے کے بعد اپنی اصل ہیئت میں  پھر ظاہر ہو جائیں  گے۔

 

بوجھ باہر نکالنے کے مفہوم میں  وہ شہادتیں  بھی شامل ہیں  جو زمین میں  مدفون ہیں۔

 

(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انشقاق نوٹ ۴)

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان قبر سے نکلتے ہی بد حواسی کے عالم میں  پکار اٹھے گا کہ زمین کو یہ کیا ہو گیا ہے کہ وہ جھٹکے پر جھٹکے لے رہی ہے اور ایک زبردست حادثہ سے دو چار ہے۔ زمین کی یہ حالت دیکھ کر انسان اول تو حیران و پریشان ہو گا اس کے  بعد اس پر یہ بات ظاہر ہو گی کہ یہ قیامت کا دن ہے۔ البتہ جو لوگ اپنے ایمان میں  مخلص ہیں  ان پر قیامت کی کوئی گھبراہٹ طاری نہیں  ہو گی۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین اپنی ساری سرگزشت سناۓ گی کہ انسان نے جسے زمین میں  خلیفہ بنایا گیا تھا اس پر کس طرح کے تصریفات کیے۔ کون زمین کے خالق کے آگے سجدہ ریز ہوا اور کون بھومی پوجا کرتا رہا، کس نے دھرتی پر مسجد بنائی اور کس نے مندر ، کس نے رفاہِ عامہ کے ادارے قائم کیے اور کس نے سینما گھر ، کس نے دینی اجتماعات منعقد کیے اور کس نے ناچ رنگ کی مجلسیں  سجائیں۔ کون انسانیت کے امن و امان کے لیے دوڑ دھوپ کرتا رہا اور کون بستیوں  کو اجاڑنے کے لیے بم برساتا رہا، کون اصلاح کا کام کرتا رہا اور کس نے فسادات برپا کیے ، جنگیں  کن لوگوں  نے لڑیں ، کب لڑیں  ، کس میدان میں  لڑیں  اور کن اغراض کے لیے لڑیں۔ غرض زمین گزرے ہوۓ تمام واقعات اس طرح سناۓ گی جیسے ہر واقعہ جو زمین پر رونما ہوا تھا ٹیپ کر لیا گیا تھا اور قیامت کے دن یہ پورا ریکارڈ انسان کو سنایا جاۓ گا تاکہ وہ زمین پر جو کچھ کرتا رہا اس کا ثبوت فراہم ہو اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی اور پوچھا جانتے ہو زمین کیا خبریں  سناۓ گی ؟ لوگوں  نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا وہ ہر بندے اور بندی کے بارے میں  گواہی دے گی کہ اس نے یہ اور یہ کام فلاں  اور فلاں  دن اس کی پیٹھ پر کیے تھے۔ (ترمذی ابواب تفسیر القرآن)

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوال ذہن میں  پیدا ہو سکتا ہے کہ زمین تو جمادات میں  سے ہے پھر وہ انسانی اعمال کی سرگزشت کس طرح سناۓ گی ؟ اس کا جواب اس آیت میں  دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بول پڑے گی۔ قرآن میں  دوسرے مقام پر یہ صراحت ہے کہ قیامت کے دن مجرموں  کی کھالیں  بھی اس کے خلاف گواہی دیں  گی اور وہ جب تعجب سے پوچھیں  گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں  گواہی دی تو کھالیں  جواب دیں  گی کہ جس خدا نے ہر چیز کو گویائی بخشی اس نے ہمیں  بھی گویا کر دیا (حٰم سجدہ : ۲۱)

 

گویا جو چیزیں  ہمارے تجربہ میں  غیر ناطق ہیں  ان کے ناطق ہونے کا مشاہدہ ہم قیامت کے دن کریں گے اور جو ہستی مٹی سے انسان بنا کر کھڑا کر سکتی ہے اس کے لیے مٹی میں  گویائی کی صفت پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ جب ہم اپنی صداۓ بازگشت گنبدوں  سے اسی دنیا میں  سن سکتے ہیں  تو قیامت کے دن جب کہ ایک نیا نظام قائم ہو گا اپنی ان باتوں  کی جو دنیا میں  کرتے رہے ہیں  صداۓ بازگشت سننا کیوں  ناممکن ہے ؟ اور ٹیلیویژن ، ٹیپ ریکارڈر اور فوٹو گرافی جیسی ایجادات کے اس دور میں  تو یہ بات محتاجِ دلیل نہ رہی کہ انسان کی تمام حرکات و سکنات ذرہ ذرہ پر ثبت ہو رہی ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن لوگ زمین کے مختلف گوشوں  سے مختلف حالت میں  گروہوں  کی شکل میں  نکلیں  گے تاکہ میدان حشر میں  جمع ہو جائیں  اور وہاں  انہیں  ان کے اعمال دکھا دیے  جائیں۔ قیامت تک جتنے انسان بھی پیدا ہوۓ اور مرے خواہ کوئی زمین میں  دفن ہوا ہو یا سمندر میں  غرق ہوا ہو ، کسی کی لاش جلا  دی گئی ہو یا فضا میں  تحلیل ہو گئی ہو قیامت کے دن سب کے سب زمین سے نکل پڑیں  گے تاکہ وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں  اس کا نتیجہ ان کے سامنے آۓ۔ ’’ تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیے جائیں ‘‘ سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کے سامنے اس کی عملی زندگی کے مناظر پیش کیے جائیں  گے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن ہر شخص کو جو اس کی قولی و عملی زندگی کا مشاہدہ کرایا جاۓ گا تو وہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور چھوٹی سے چھوٹی بدی کو دیکھ لے گا۔ رہا جزا و سزا کا معاملہ تو وہ انصاف کے تقاضوں  کو پورا کرتے ہوۓ ان قاعدوں  کے مطابق ہو گا جن کی صراحت قرآن میں  دوسرے مقامات پر کی گئی ہے مثلاً یہ کہ جن کے پلڑے بھاری ہوں  گے وہ کامیاب ہوں  گے یا یہ کہ کافروں  کے اعمال بے وزن قرار پائیں  گے یا یہ کہ شرک ناقابل معافی گناہ ہے اور کافروں  کے لیے ابدی جہنم کی سزا ہے وغیرہ۔

٭٭٭٭٭