اللہ تعالیٰ قیامت کی نزد یکی کی خبر دے رہا ہے اور گو یا کہ وہ قائم ہو چکی۔ اس لئے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے لوگوں کا حساب قریب آ چکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اور آیت میں ہے قیامت آ چکی۔ چاند پھٹ گیا۔ پھر فرمایا اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو۔ ہ کی ضمیر کا مر جع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آ جاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی ناگہاں ان کی غفلت میں۔ یہ عذابو کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیر ہوئے ہے۔ ضحاک رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ اللہ فرائض اور حدود نازل ہو چکے۔ امام ابن جریر نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیونکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے۔ جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے یستعجل بھا الذین لا یو منون بھا الخ بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایما ندار ان سے لر زاں و ترساں ہیں کیونکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عذاب الٰہی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہے فرماتے ہیں قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہو گا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منا دی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دو سرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی ؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو ! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی۔ پھر وہ ہوئے ہو گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہو جائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہو گا ابھی پانی بھی پلا نہ پا یا ہو گا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آ جائے گی ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجا نہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے۔
روح سے مراد یہاں وحی ہے جیسے آیت وکذلک او حینا الیک روحا من امر نا الخ ہم نے اسی طرح تیری طرف اپنے حکم سے وحی نازل فرمائی حالانکہ تجھے تو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کی ماہیت کیا ہے ؟ ہاں ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا اپنے بندوں میں سے راستہ دکھا دیا۔ یہاں فرمان ہے کہ ہم نے جن بندوں کو چاہیں پیغمبری عطا فرماتے ہیں ہمیں ہی اس کا پورا علم ہے کہ اس کے لائق کون ؟ ہم ہی فرشتوں میں سے بھی اس اعلیٰ منصب کے فرشتے چھانٹ لیتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔ اللہ اپنی وحی اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا اتارتا ہے تاکہ ملاقات کے دن سے ہوشیار کر دیں جس دن سب کے سب اللہ کے سا منے ہوں گے کوئی چیز اس سے مخفی نہ ہو گی۔ اس دن ملک کس کا ہو گا ؟ صرف اللہ واحد وقہار کا۔ یہ اس لئے کہ وہ لوگوں میں وحدانیت رب کا اعلان کر دیں اور پارسائی سے دور مشرکوں کو ڈرائیں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ مجھ سے ڈرتے رہا کریں۔
عالم علوی اور سفلی کا خالق اللہ کریم ہی ہے۔ بلند آسمان اور پھیلی ہوئی زمین مع تمام مخلوق کے اسی کی پید اکی ہوئی ہے اور یہ سب بطور حق ہے نہ بطور عبث۔ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہو گی۔ وہ تمام دوسرے معبودوں اور مشرکوں سے بری اور بے زار ہے۔ واحد ہے، لا شریک ہے، اکیلا ہی خالق کل ہے۔ اسی لئے اکیلا ہی سزا وار عبادت ہے۔ انسان حقیر و ذلیل لیکن خالق کا انتہائی نا فرمان ہے۔
اس نے انسان کا سلسلہ نطفے سے جاری رکھا ہے جو ایک پانی ہے۔ حقیر و ذلیل یہ جب ٹھیک ٹھاک بنا دیا جاتا ہے تو اکڑفوں میں آ جاتا ہے رب سے جھگڑنے لگتا ہے رسولوں کی مخالفت پر تل جاتا ہے۔ بندہ تھا چاہئے تو تھا کہ بندگی میں لگا رہتا لیکن یہ تو زندگی کرنے لگا۔ اور آیت میں ہے اللہ نے انسان کو پانی سے بنایا اس کا نسب اور سسرال قائم کیا۔ اللہ قادر ہے رب کے سوا یہ ان کی پوجا کرنے لگے ہیں جو بے نفع اور بے ضرر ہیں کافر کچھ اللہ سے پوشیدہ نہیں۔ سورہ یاسین میں فرمایا کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تو بڑا ہی جھگڑالو نکلا۔ ہم پر بھی باتیں بنا نے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا کہنے لگا کہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تم ان سے کہہ دو کہ انہیں وہ خالق اکبر پیدا کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا وہ تو ہر طرح کی مخلوق کی پیدائش کا پورا عالم ہے۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوک کر فرمایا کہ جناب باری فرماتا ہے کہ اے انسان تو مجھے کیا عاجز کر سکتا ہے میں نے تو تجھے اس تھوک جیسی چیز سے پیدا کیا ہے جب تو زندگی پا گیا تنومند ہو گیا لباس مکان مل گیا تو لگا سمیٹنے اور میری راہ سے روکنے ؟ اور جب دم گلے میں اٹکا تو تو کہنے لگا کہ اب میں صدقہ کرتا ہو، اللہ کی راہ میں دیتا ہوں۔ بس اب صدقہ خیرات کا وقت نکل گیا۔
جو چوپائے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور انسان ان سے مختلف فائدے اٹھا رہا ہے اس نعمت کو رب العالمین فرما رہا ہے جیسے اونٹ گائے بکری۔ جس کا مفصل بیان سورہ انعام کی آیت میں آٹھ قسموں سے کیا ہے۔ ان کے بال اون صوف وغیرہ کا گرم لباس اور جڑاول بنتی ہے دودھ پیتے ہیں گوشت کھاتے ہیں۔ شام کو جب وہ چر چگ کر واپس آتے ہیں، بھری ہوئی کوکھوں والے، بھرے ہوئے تھنوں والے، اونچی کوہانوں والے، کتنے بھلے معلوم ہو تے ہیں اور جب چراگاہ کی طرف جاتے ہیں کیسے پیارے معلوم ہو تے ہیں پھر تمہارے بھاری بھاری بوجھ ایک شہر سے دو سرے شہر تک اپنی کمر پر لاد کر لے جاتے ہیں کہ تمہارا وہاں پہنچنا بغیر آدھی جان کئے مشکل تھا۔ حج و عمرہ کے، جہاد کے، تجارت کے اور ایسے ہی اور سفر انہیں پر ہو تے ہیں تمہیں لے جاتے ہیں تمہارے بوجھ ڈھو تے ہیں۔ جیسے آیت وان لکم الانعام لعبرۃ الخ میں ہے کہ یہ چوپائے جانور بھی تمہاری عبرت کا باعث ہیں ان کے پیٹ ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور ان سے بہت سے فائدے پہنچاتے ہیں ان کا گوشت بھی تم کھاتے ہو ان پر سواریاں بھی کر تے ہو۔ سمندر کی سواری کے لئے کشتیاں ہم نے بنا دی ہیں۔ اور آیت میں ہے اللہ الذی جعل لکم الا نعامالخ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں کہ تم ان پر سواری کرو انہیں کھاؤ نفع اٹھاؤدلی حاجتیں پوری کرو اور تمہیں کشتیوں پر بھی سوار کرایا اور بہت سی نشانیاں دکھائیں پس تم ہمارے کس کس نشان کا انکار کرو گے؟ یہاں بھی اپنی یہ نعمتیں جتا کر فرمایا کہ تمہارا وہ رب جس کا مطیع بنا دیا ہے وہ تم پر بہت ہی شفقت و رحمت والا ہے جیسے سورہ یاسین میں فرمایا کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے ان کیلئے اپنے ہاتھوں چوپائے بنائے اور انہیں انکا مالک بنا دیا اور انیں انکا مطیع بنا دیا کہ بعض کو کھائیں بعض پر سوار ہو اور آیت میں والا نعام ما تر کبون الخ، اس اللہ نے تمہارے لئے کشتیاں بنا دیں اور چوپائے پیدا کر دیئے کہ تم ان پر سوار ہو کر اپنے رب کا فضل وشکر اور کہو وہ پاک ہے جس نے انہیں ہمارا ماتحت کر دیا حالا نکہ ہم میں یہ طاقت نہ تھی ہم مانتے ہیں کہ ہم اسی کی جانب لوٹیں گے۔ دف کے معنی کپڑا اور منافع سے مراد کھانا پینا، نسل حاصل کرنا، سواری کرنا، گوشت کھانا، دودھ پینا ہے۔
اپنی ایک اور نعمت بیان فرما رہا ہے کہ زینت کے لئے اور سواری کے لئے اس نے گھوڑے خچر اور گدھے پیدا کئے ہیں بڑا مقصد ان جانوروں کی پید ائش سے انسان کا ہی فائدہ ہے۔ انہیں اور چوپایوں پر فضیلت دی اور علیٰحدہ ذکر کیا اس وجہ سے بعض علماء نے گھوڑے کے گوشت کی حرمت کی دلیل اس آیت سے لی ہے۔ جیسے امام ابوحنیفہ اور ان کی موافقت کرنے والے فقہا کہتے ہیں کہ خچر اور گدھے کے ساتھ گھوڑے کا ذکر ہے اور پہلے کے دونوں جانور حرام ہیں اس لئے یہ بھی حرام ہوا۔ چنانچہ خچر اور گدھے کی حرمت احادیث میں آئی ہے اور اکثر علماء کا مذہب بھی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان تینوں کی حرمت آئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے کی آیت میں چوپایوں کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انہیں تو کھاتے ہو پس یہ تو ہوئے کھانے کے جانور اور ان تینوں کا بیان کر کے فرمایا کہ ان پر تم سواری کر تے ہو پس یہ ہوئے کے جانور۔ مسند کی حدیث میں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے گھوڑوں کے خچروں کے اور گدھوں کے گوشت کو منع فرمایا ہے لیکن اس کے راویوں میں ایک راوی صالح ابن یحییٰ بن مقدام ہیں جن میں کلام ہے۔ مسند کی اور حدیث میں مقدام بن معدی کرب سے منقول ہے کہ ہم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ صائقہ کی جنگ میں تھے، میرے پاس میرے ساتھی گوشت لائے، مجھ سے ایک پتھر مانگا میں نے دیا۔ انہوں نے فرمایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ غز وہ خیبر میں تھے لوگوں نے یہودیوں کے کھیتوں پر جلدی کر دی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے حکم دیا کہ لوگوں میں ندا کر دوں کہ نماز کے لئے آ جائیں اور مسلمانوں کے سوا کوئی نہ آئے پھر فرمایا کہ اے لوگو تم نے یہودیوں کے باغات میں گھسنے کی جلدی کی سنو معاہدہ کا مال بغیر حق کے حلال نہیں اور پا لتو گدھوں کے اور گھوڑوں کے اور خچروں کے گوشت اور ہر ایک کچلیوں والا درندہ اور ہر ایک پنجے سے شکار کھلینے والا پر ندہ حرام ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی مما نعت یہود کے باغات سے شاید اس وقت تھی جب ان سے معاہدہ ہو گیا۔ پس اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو بے شک گھوڑے کی حرمت کے بارے میں تو نص تھی لیکن اس میں بخاری و مسلم کی حدیث کے مقا بلے کی قوت نہیں جس میں حضرت ابن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پا لتو گدھوں کے گوشت کو منع فرما دیا اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دی۔ اور حدیث میں ہے کہ ہم نے خیبر والے دن گھوڑے اور خچر اور گدھے ذبح کئے تو ہمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خچر اور گدھے کے گوشت سے تو منع کر دیا لیکن گھوڑے کے گوشت سے نہیں روکا۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت اسماء بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے مدینے میں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھا یا۔ پس یہ سب سے بڑی سب سے قوی اور سب سے زیادہ ثبوت والی حدیث ہے اور یہی مذ ہب جمہور علماء کا ہے۔ مالک،شا فعی، احمد، ان کے سب ساتھی اور اکثر سلف و کلف یہی کہتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ ابن عباس رحی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے گھوڑوں میں وحشت اور جنگلی پن تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت اسما عیل علیہ السلام کے لئے اسے مطیع کر دیا۔ وہب نے اسرائیلی روایتوں میں بیان کیا ہے کہ جنو بی ہوا سے گھوڑے پیدا ہو تے ہیں۔ واللہ اعلم۔ ان تینوں جانوروں پر سواری لینے کا جو از تو قرآن کے لفظوں ثابت ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک خچر ہد یے میں دیا گیا تھا جس پر آپ سواری کر تے تھے ہاں یہ آپ نے منع فرمایا ہے کہ گھوڑوں کو گدھیوں سے ملا یا جا ئے۔ یہ مما نعت اس لئے ہے کہ نسل منقطع نہ ہو جا ئے۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم گھوڑے اور گدھی کے ملاپ سے خچر لیں اور آپ اس پر سوار ہوں آپ نے فرمایا یہ کام وہ کر تے ہیں جو علم سے کورے ہیں۔
دنیوی راہیں طے کرنے کے اسباب بیان فرما کر اب دینی راہ چلنے کے اسباب بیان فرماتا ہے۔ محسو سات سے معنو یات کی طرف رجوع کرتا ہے قرآن میں اکثر بیانات اس قسم کے موجود ہیں سفر حج کے تو شہ کا ذکر کر کے تقوے کے توشے کا جو آخرت میں کام دے بیان ہوا ہے ظاہری لباس کا ذکر فرما کر لباس تقوی کی اچھائی بیان کی ہے اسی طرح یہاں حیوانات سے دنیا کے کٹھن راستے اور دراز سفر طے ہو کا بیان فرما کر آخرت کے راستے دینی راہیں بیان فرمائیں کہ سچا راستہ اللہ سے ملا نے والا ہے رب کی سیدھی راہ و ہی ہے اسی پر چلو دوسرے راستوں نہ چلو ورنہ بہک جاؤ گے اور سیدھی راہ سے الگ ہو جاؤ گے۔ فرمایا میری طرف پہنچنے کی سیدھی راہ یہی ہے جو میں نے بتائی ہے طریق جو اللہ سے ملا نے والا ہے اللہ نے ظاہر کر دیا ہے اور وہ دین اسلام ہے جسے اللہ نے واضح کر دیا ہے اور ساتھ ہی دو سرے راستوں کی گمر رہی بھی بیان فرما دی ہے۔ پس سچا راستہ ایک ہی ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے باقی اور راہیں غلط راہیں ہیں، حق سے الگ تھلگ ہیں، لوگوں کی اپنی ایجاد ہیں جیسے یہودیت نصرانیت مجوسیت وغیرہ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہدآیت رب کے قبضے کی چیز ہے اگر چاہے تو روئے زمین کے لوگوں کو نیک راہ پر لگا دے زمین کے تمام با شندے مومن بن جائیں سب لوگ ایک ہی دین کے عامل ہو جائیں لیکن یہ اختلاف باقی ہی رہے گا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ اسی کے لئے انہیں پیدا کیا ہے تیرے رب کی بات پوری ہو کر ہی رہے گی کہ جنت دوزخ انسان سے بھر جائے۔
چوپائے اور دو سرے جانوروں کی پیدا ئش کا احسان بیان فرما کر مزید احسانوں کا ذکر فرماتا ہے کہ اوپر سے پانی وہی برساتا ہے جس سے تم فائدہ اٹھاتے ہو اور تمہارے فائدے کے جانور بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں میٹھا صاف شفاف خوش گوار اچھے ذا ئقے کا پانی تمہارے پینے کے کام آتا ہے اس کا احسان نہ ہو تو وہ کھاری اور کڑوا بنا دے اسی آب با راں سے درخت اگتے ہیں اور وہ درخت تمہارے جانوروں کا چارہ بنتے ہیں۔ سوم کے معنی چر نے کے ہیں اسی وجہ سے اہل سائمہ چر نے والے اونٹوں کو کہتے ہیں۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے سو رج نکلنے سے پہلے چرانے کو منع فرمایا۔ پھر اس کی قدرت دیکھو کہ ایک ہی پانی سے مختلف مزے کے، مختلف شکل و صورت کے، مختلف خو شبو کے طرح طرح کے پھل پھول وہ تمہارے لئے پیدا کرتا ہے پس یہ سب نشانیاں ایک شخص کو اللہ کی و حدا نیت جاننے کے لئے کافی ہیں اسی کا بیان اور آیتوں میں اس طرح ہوا ہے کہ آسمان و زمین کا خالق، با دلوں سے پانی برسا نے والا، ان سے ہرے بھرے باغات پیدا کرنے والا، جن کے پیدا کرنے سے تم عاجز تھے اللہ ہی ہے اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں پھر بھی لوگ حق سے ادھر ادھر ہو رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنی اور نعمتیں یاد دلاتا ہے کہ دن رات برابر تمہارے فائدے کے لئے آتے جاتے ہیں۔ سورج چاند گردش میں ہیں، ستارے چمک چمک کر تمہیں رو شنی پہنچا رہے ہیں، ہر ایک ایسا صحیح اندازہ اللہ نے مقرر کر رکھا ہے جس سے وہ نہ ادھر ادھر ہوں نہ تمہیں کوئی نقصان ہو۔ ہر ایک رب کی قدرت میں اور اس کے غلبے تلے ہے۔ اس نے چھ دن میں آسمان زمین پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا دن رات برابر پے درپے آتے رہتے ہیں سورج چاند ستارے اس کے حکم سے کام میں لگے ہوئے ہیں خلق وامر کا مالک وہی ہے وہ رب العالمین بڑی برکتوں والا ہے۔ جو سوچ سمجھ رکھتا ہو اس کے لئے تو اس میں اللہ کی قدرت و سلطنت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ ان آسمانی چیزوں کے بعد اب تم زمینی چیزیں دیکھو کہ حیوان، کان، نباتات، جمادات، وغیرہ مختلف رنگ روپ کی چیزیں بے شمار فوائد کی چیزیں اسی نے تمہارے لئے زمین پر پیدا کر رکھی ہیں۔ جو لوگ اللہ کی نعمتوں کو سوچیں اور قدر کریں ان کے لئے تو یہ زبردست نشان ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی اور مہربانی جتاتا ہے کہ سمندر پر دریا پر بھی اس نے تمہیں قابض کر دیا باوجود اپنی گہرائی کے اور اپنی موجوں کے وہ تمہارا تابع ہے، تمہاری کشتیاں اس میں چلتی ہیں۔ اسی طرح اس میں سے مچھلیاں نکال کر ان لولو اور جواہر اس نے تمہارے لئے اس میں پیدا کئے ہیں جنہیں تم سہولت سے نکال لیتے ہو اور بطور زیور کے اپنے کام میں لیتے ہو پھر اس کشتیاں ہواؤں کو ہٹاتی پانی کو چیرتی اپنے سینوں کے بل تیرتی چلی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کشی میں سوار ہوئے انہی کو کشتی بنانا اللہ عالم نے سکھایا پھر لوگ برابر بناتے چلے آئے اور ان پر دریا کے لمبے لمبے سفر طے ہو نے لگے اس پار کی چیزیں اس پار اور اس پار کی اس پار آنے جانے لگیں۔ اسی کا بیان اس میں ہے کہ تم اللہ کا فضل یعنی اپنی روزی تجارت کے ذریعہ ڈھونڈو اور اس کی نعمت و احسان کا شکر مانو اور قدر دانی کرو۔ مسند بزار میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مغربی دریا سے کہا کہ میں اپنے بندوں کو تجھ میں سوار کرنے والا ہوں تو ان کے ساتھ کیا کرے گا ؟ اس نے کہا ڈبو دوں گا فرمایا تیری تیزی تیرے کناروں پر ہے اور انہیں میں اپنے ہاتھ پر انہیں اٹھاؤں گا اور جس طرح ماں اپنے بچے کی خبر گیری کرتی ہے میں ان کی کرتا رہوں گا پس اسے اللہ تعالیٰ نے زیور بھی دئیے اور شکار بھی۔ اس حدیث کا راوی صرف عبد الرحمن بن عبد اللہ ہے اور وہ منکر الحدیث ہے۔ عبد اللہ بن ابی عمر و سے بھی یہ روایت مر فو عاً مروی ہے۔ اس کے بعد زمین کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس کے ٹھہرانے اور ہلنے جلنے سے بچا نے کے لئے اس پر مضبوط اور وزنی پہاڑ جما دیئے کہ اس کے ہلنے کی وجہ سے اس پر رہنے والوں کی زندگی دشوار نہ ہو جائے۔ جیسے فرمان ہے والجبال ارساھا حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ ہل رہی تھی یہاں تک کہ فرشتوں نے کہا اس پر تو کوئی ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ صبح دیکھتے ہیں کہ پہاڑ اس پر گاڑ دئیے گئے ہیں اور اس کا ہلنا موقوف ہو گیا پس فرشتوں کو یہ بھی نہ معلوم ہو سکا کہ پہاڑ کس چیز سے پیدا کئے گئے۔ قیس بن عبادہ سے بھی یہی مروی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ زمین نے کہا تو مجھ پر بنی آدم کو بساتا ہے جو میری پیٹھ پر گناہ کریں گے اور خباثت پھیلائیں گے وہ کانپنے لگی پس اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کو اس پر جما دیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو اور بعض کو دیکھتے ہی نہیں ہو۔ یہ بھی اس کا کرم ہے کہ اس نے نہریں چشمے اور دریا چاروں طرف بہا دئیے۔ کوئی تیز ہے کوئی سست، کوئی لمبا ہے کوئی مختصر، کبھی کم پانی ہے کبھی زیادہ، کبھی بالکل سوکھا پڑا ہے۔ پہاڑوں پر، جنگلوں میں، ریت میں، پتھروں میں برابر یہ چشمے بہتے رہتے ہیں اور ریل پیل کر دیتے ہیں یہ سب اس کا فضل و کرم، لطف و رحم ہے۔ نہ اس کے سوا کوئی پروردگار نہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت، وہی رب ہے، وہی معبود ہے۔ اسی نے راستے بنا دیئے ہیں خشکی میں، تری میں، پہاڑ میں، بستی میں، اجاڑ میں ہر جگہ اس کے فضل و کرم سے راستے موجود ہیں کہ ادھر سے ادھر لوگ جا آ سکیں کوئی تنگ راستہ ہے کوئی وسیع کوئی آ سان کوئی سخت۔ اور بھی علامتیں اس نے مقرر کر دیں جیسے پہاڑ ہیں ٹیلے ہیں وغیرہ وغیر ہ۔ جن سے تری خشکی کے رہرو و مسافر راہ معلوم کر لیتے ہیں۔ اور بھٹکے ہوئے سیدھے رستے لگ جاتے ہیں۔ ستارے بھی رہنمائی کے لئے ہیں رات کے اندھیرے میں انہی سے راستہ اور سمت معلوم ہوتی ہے مالک سے مروی ہے کہ نجوم سے مراد پہاڑ ہیں۔ پھر اپنی عظمت و کبریائی کا بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ لائق عبادت اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ اللہ کے سوا جن جن کی لوگ عبادت کر تے ہیں وہ محض بے بس ہیں، کوئ چیز کے پیدا کرنے کی انہیں طاقت نہیں اور اللہ تعالیٰ سب کا خالق ہے، ظاہر ہے کہ خالق اور غیر خالق یکساں نہیں، پھر دونوں کی عبادت کرنا کس قدر ستم ہے؟ اتنا بھی بے ہوش ہو جانا شایان انسانیت نہیں۔
پھر اپنی نعمتوں کی فراوانی اور کثرت بیان فرماتا ہے کہ تمہاری گنتی میں بھی نہیں آ سکتیں، اتنی نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں یہ بھی تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ میری نعمتوں کی گنتی کر سکو، اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرماتا رہتا ہے اگر اپنی تمام تر نعمتوں کا شکر بھی تم سب طلب کرے تو تمہارے بس کا نہیں۔ اگر ان نعمتوں کے بدلے تم سے چاہے تو تمہاری طاقت سے خارج ہے سنو اگر وہ تم سب کو عذاب کرے تو بھی وہ ظالم نہیں لیکن وہ غفور و رحیم اللہ تمہاری برا ئیوں کو معاف فرما دیتا ہے، تمہاری تقصیروں سے تجاوز کر لیتا ہے۔ توبہ، رجوع، اطاعت اور طلب رضامندی کے ساتھ جو گناہ ہو جائیں ان سے چشم پوشی کر لیتا ہے۔ بڑا ہی رحیم ہے، توبہ کے بعد عذاب نہیں کرتا۔
چھپا کھلا سب کچھ اللہ جانتا ہے، دونوں اس پر یکساں ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ قیامت کے دن دے گا نیکوں کو جزا بدوں کو سزا۔ جن معبود ان باطل سے لوگ اپنی حاجتیں طلب کر تے ہیں وہ کسی چیز کے خالق نہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ جیسے کہ خلیل الرحمن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اتعبدون ما تنحتون واللہ خلقکم وما تعملون تم انہیں پوجتے ہو جنہیں خود بناتے ہو۔ درحقیقت تمہارا اور تمہارے کاموں کا خالق صرف اللہ سبحا نہ و تعالیٰ ہے۔ بلکہ تمہارے معبود جو اللہ کے سوا جمادات، بے روح چیزیں، سنتے سیکھتے اور شعور نہیں رکھتے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ قیامت کب ہو گی؟ تو ان سے نفع کی امید اور ثواب کی توقع کیسے رکھتے ہو ؟ یہ امید تو اس اللہ سے ہونی چاہئے جو ہر چیز کا عالم اور تمام کائنات کا خالق ہے۔
اللہ ہی معبود برحق ہے، اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، وہ واحد ہے، احد ہے، فرد ہے، صمد ہے۔ کافروں کے دل بھلی بات سے انکار کر تے ہیں وہ اس حق کلمے کو سن کر سخت حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ واحد کا ذکر سن کر ان کے دل مر جھا جاتے ہیں۔ ہاں اوروں کا ذکر ہو تو کھل جاتے ہیں یہ اللہ کی عبادت سے مغرور ہیں۔ نہ ان کے دل میں ایمان نہ عبادت کے عادی۔ ایسے لوگ ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چھپے کھلے کا عالم ہے ہر عمل پر جزا اور سزا دے گا وہ مغرور لوگوں سے بے زار ہے۔
ان منکرین قرآن سے جب سوال کیا جائے کہ کلام اللہ میں کیا نازل ہوا تو اصل جواب سے ہٹ کر بک دیتے ہیں کہ سوائے گزرے ہوئے افسانوں کے کیا رکھا ہے؟ وہی لکھ لئے ہیں اور صبح شام دوہرا رہے ہیں پس رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر افترا با ندھتے ہیں کبھی کچھ کہتے ہیں کہتے ہیں کبھی اس کے خلاف اور کچھ کہنے لگتے ہیں۔ دراصل کسی بات پر جم ہی نہیں سکتے اور یہ بہت بری دلیل ہے ان کے تمام اقو ال کے باطل ہو نے کی۔ ہر ایک جو حق سے ہٹ جائے وہ یونہی مارا مارا بہکا بہکا پھرتا ہے کبھی حضور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو جادوگر کہتے، کبھی شاعر، کبھی کاھن، کبھی مجنون۔ پھر ان کے بڈھے گرو ولید بن مغیرہ کخزومی نے انہیں بڑے غور و خوض کے بعد کہا کہ سب مل کر اس کلام کو موثر جادو کہا کرو۔ ان کے اس قول کا نتیجہ بد ہو گا اور ہم نے انہیں اس راہ پر اس لئے لگا دیا ہے کہ یہ اپنے پورے گناہوں کے ساتھ ان کے بھی کچھ گناہ اپنے اوپر لا دیں جو ان کے مقلد ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے ہدآیت کی دعوت دینے والے کو اپنے اجر کے ساتھ اپنے متبع لوگوں کا اجر بھی ملتا ہے لیکن ان کے اجر کم نہیں ہو تے اور برائی کی طرف بلا نے والوں کو ان کی ماننے والوں کے گناہ بھی ملتے ہیں لیکن ماننے والوں کے گناہ کم ہو کر نہیں۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے الیحملن اثقا لھم واثقا لا مع اثقا لھم الخ یہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ہی ساتھ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے افترا کا سو ال ان سے قیامت کے دن ہو نا ضروری ہے۔ پس ماننے والوں کے بوجھ گو ان کی گر دنو پر ہیں لیکن وہ بھی ہلکے نہیں ہوں گے۔
بعض تو کہتے ہیں اس مکار سے مراد نمرود ہے جس نے بالا خانہ تیار کیا تھا۔ سب سے پہلے سب سے بڑی سرکشی اسی نے زمین میں کی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کرنے کو ایک مچھر بھیجا جو اس کے نتھنے میں گھس گیا اور چار سو سال تک اس کا بھیجا چاٹتا رہا، اس مدت میں اسے اس وقت قدرے سکون معلوم ہوتا تھا جب اس کے سر پر ہتھوڑے مارے جائیں، خوب فساد پھیلا یا تھا۔ بعض کہتے ہیں اس کے سر پر ہتھوڑے پڑ تے رہتے تھے۔ اس نے چار سو سال تک سلطنت بھی کی تھی اور خوب فساد پھیلا یا تھا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد بخت نصر ہے یہ بھی بڑا مکار تھا لیکن اللہ کو کوئی کیانقصان پہنچا سکتا ہے؟ گو اس کا مکر پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے سر کا دینے والا ہو۔ بعض کہتے ہیں یہ تو کافروں اور مشرکوں نے اللہ کے ساتھ جو غیروں کی عبادت کی ان کے عمل کی بربادی کی مثال ہے جیسے حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا تھا ومکرومکرا کبارا ان کافروں نے بڑا ہی مکر کیا، ہر حیلے سے لوگوں کو گمراہ کیا، ہر وسیلے سے انہیں شرک پر آمادہ کیا۔ چنانچہ ان کے چیلے قیامت کے دن ان سے کہیں گے کہ تمہارا رات دن کا مکر کہ ہم سے کفر و شرک کے لیے کہنا، الخ۔ ان کی عما رت کی جڑ اور بنیاد سے عذاب الٰہی آیا یعنی بالکل ہی کھودیا اصل سے کاٹ دیا جیسے فرمان ہے جب لڑائی کی آگ بھڑ کا نا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔ اور فرمان ہے ان کے پاس اللہ ایسی جگہ سے آیا جہاں کا انہیں خیال بھی نہ تھا، ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ یہ اپنے ہاتھوں اپنے مکا نات تباہ کرنے لگے اور دوسری جانب سے مومنوں کے ہاتھوں مٹے، عقل مند و ! عبرت حاصل کرو۔ یہاں فرمایا کہ اللہ کا عذاب ان کی عمارت کی بنیاد سے آ گیا اور ان پر اوپر سے چھت آ پڑی اور نا دانستہ جگہ سے ان پر عذاب اتر آیا۔
قیامت کے دن کی رسوائی اور فضیحت ابھی باقی ہے، اس وقت چھپا ہوا سب کھل جائے گا، اندر کا سب باہر آ جائے گا۔ سارا معاملہ طشت ازبام ہو جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ہر غدار کے لئے اس کے پاس ہی جھنڈا گاڑ دیا جائے گا جو اس کے غدر کے مطابق ہو گا اور مشہور کر دیا جائے گا کہ فلاں کا یہ غدر ہے جو فلاں کا لڑکا تھا۔ اسی طرح ان لوگوں کو بھی میدان محشر میں سب کے سامنے رسوا کیا جائے گا۔ ان سے ان کا پروردگار ڈانٹ ڈپٹ کر دریافت فرمائے گا کہ جن کی حمایت میں تم میرے بندوں سے الجھتے رہتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟ تمہاری مدد کیوں نہیں کر تے ؟ آج بے یا رو مددگار کیوں ہو ؟ یہ چپ ہو جائیں گے، کیا جواب دیں ؟ لا چار ہو جائیں گے، کون سی جھوٹی دلیل پیش کریں ؟ اس وقت علماء کرام جو دنیا اور آخرت میں اللہ کے اور مخلوق کے پاس عزت رکھتے ہیں جواب دیں گے کہ رسوائی اور عذاب آج کافروں کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان کے معبود ان باطل ان سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
مشرکین کی جانکنی کے وقت کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جب فرشتے ان کی جا لینے کے لئے آتے ہیں، تو یہ اس وقت سننے عمل کرنے اور مان لینے کا اقرار کر تے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے کرتوت چھپاتے ہوئے اپنی بے گناہی بیان کر تے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کر اپنا مشرک نہ ہو نا بیان کریں گے۔ جس طرح دنیا میں اپنی بے گناہی پر لوگوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے تھے۔ انہیں جواب ملے گا کہ جھوٹے ہو، بد اعما لیاں جی کھول کر کہ چکے ہو، اللہ غا فل نہیں جو باتوں میں آ جائے ہر ایک عمل اس پر روشن ہے۔ اب اپنے کر تو توں کا خمیا زہ بھگتو اور جہنم کے دروازوں سے جا کر ہمیشہ اسی بری جگہ میں پڑے رہو۔ مقام برا، مکان برا، ذلت اور سوائی والا، اللہ کی آیتوں سے تکبر کرنے کا اور اس کے رسولوں کی اتباع سے جی چرانے کا یہی بدلہ ہے۔ مر تے ہی ان کی رو حیں جہنم رسید ہو جائیں اور جسموں پر قبروں میں جہنم کی گرمی اور اس کی لپک آنے لگی۔ قیامت کے دن رو حیں جسموں سے مل کر نار جہنم میں گئیں اب نہ موت نہ تخفیف۔ جیسے فرمان باری ہے النار یعرضون رلیھا غدو او عشیا الخ یہ دوزخ کی آگ کے سامنے ہر صبح شام لائے جاتے ہیں۔ قیامت کے قائم ہو تے ہی اے آل فرعون تم سخت تر عذاب میں چلے جاؤ۔
بروں کے حالات بیان فرما کر نیکوں کے حالات جو ان کے بالکل برعکس ہیں۔ بیان فرما رہا ہے برے لوگوں کا جواب تو یہ تھا کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب صرف گزرے لوگوں کے فسا نے کی نقل ہے لیکن یہ نیک لوگ جواب دیتے ہیں کہ وہ سر اسر برکت اور رحمت ہے جو بھی اسے مانے اور اس پر عمل کرے وہ برکت و رحمت سے مالا مال ہو جائے۔ پھر خبر دیتا ہے کہ میں اپنے رسولوں سے وعدہ کر چکا ہوں کہ نیکوں کو دونوں جہان کی خوشی حاصل ہو گی۔ جیسے فرمان ہے کہ جو شخص نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو خواہ عورت۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے بڑی پاک زندگی عطا فرمائیں گے اور اس کے بہترین اعمال کا بدلہ بھی ضرور دیں گے، دونوں جہان میں وہ جزا پائے گا۔ یاد رہے کہ دار آخر ت، دار دنیا سے بہت ہی افضل واحسن ہے۔ وہاں کی جزا نہایت اعلیٰ اور دائمی ہے جیسے قارون کے مال کی تمنا کرنے والوں سے علماء کر ام نے فرمایا تھا کہ ثواب الٰہی بہتر ہے، الخ قرآن فرماتا ہے وما عند اللہ خیر للا برار اللہ کے پاس کی چیزیں نیک کاروں کے لئے بہت اعلیٰ ہیں۔ پھر فرماتا ہے دار آخرت متقیوں کے لئے بہت ہی اچھا ہے۔
جنت عدن بدل ہے دارا لمتقین کا یعنی ان کے لئے آخرت میں جنت عدن ہے جہاں وہ رہیں گے جس کے درختوں اور محلوں کے نیچے سے برابر چشمے ہر وقت جاری ہیں، جو چاہیں گے پائیں گے۔ آنکھوں کی ہر ٹھنڈک موجود ہو گی اور وہ بھی ہمیشگی والی۔ حدیث میں ہے اہل جنت بیٹھے ہوں گے، سر پر ابر اٹھے گا اور جو خواہش یہ کریں گے وہ ان کو عطا کرے گا یہاں تک کہ کوئی کہے گا اس کو ہم عمر کنواریاں ملیں تو یہ بھی ہو گا۔ پر ہیز گار تقویٰ شعار لوگوں کے بدلے اللہ ایسے ہی دیتا ہے جو ایمان دار ہوں، ڈرنے والے ہوں اور نیک عمل ہو ں۔ ان کے انتقال کے وقت یہ شرک کی گندگی سے پاک ہو تے ہی فرشتے آتے ہیں، سلام کر تے ہیں، جنت کی خوشخبری سناتے ہیں۔ جیسے فرمان عالی شان ہے ان الذین قالو ا ربنا اللہ الخ جن لوگوں نے اللہ کو رب مانا، پھر اس ہر جمے رہے، ان کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں تم کوئی غم نہ کر و، جنت کی خوشخبری سنو، جس کا تم سے وعدہ تھا، ہم دنیا آخرت میں تمہارے والی ہیں، جو تم چاہو گے پاؤ گے جو مانگو گے ملے گا۔ تم تو اللہ غفور و رحیم کے مہمان ہو۔ اس مضمون کی حدیثیں ہم آیت یثبت اللہ الذین امنو ا با لقول الثا بت الخ کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکوں کو ڈانٹتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں تو ان فرشتوں کا انتظار ہے جو ان کی روح قبض کرنے کے لئے آئیں گے تا قیامت کا انتظار ہے اور اس کے افعال و احو ال کا۔ ان جیسے ان سے پہلے کے مشرکین کا بھی یہی وطیرہ رہا یہاں تک کہ ان پر عذاب الٰہی آ پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نے اپنی حجت پوری کر کے، ان کے عذر ختم کر کے، کتا بیں اتار کر، و بال میں گھر گئے۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنا بگاڑ لیا۔ اسی لئے ان سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے رہے۔
مشرکوں کی الٹی سوچ دیکھئے گناہ کریں، شرک پر اڑیں، حلال کو حرام کریں، جیسے جانوروں کو اپنے معبودوں کے نام سے منسوب کرنا اور تقدیر کو حجت بنائیں اور کہیں کہ اگر اللہ کو ہمارے اور ہمارے بڑوں کے یہ کام برے لگتے تو ہمیں اسی وقت سزا ملتی۔ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہمارا دستور نہیں، ہمیں تمہارے یہ کام سخت نا پسند ہیں اور ان کی نا پسندیدگی کا اظہار ہم اپنے سچے پیغمبروں کی زبانی کر چکے۔ سخت تاکیدی طور پر تمہیں ان سے روک چکے، ہر بستی، ہر جماعت، ہر شہر میں اپنے پیغام بھیجے، سب نے اپنا فرض ادا کیا۔ بند گان رب میں اس کے احکام کی تبلیغ صاف کر دی۔
سب سے کہہ دیا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا دوسرے کو نہ پوجو، سب سے پہلے جب شرک کا ظہور زمین پر ہوا اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو خلعت نبوت دے کر بھیجا اور سب سے آخر ختم المرسلین کا لقب دے کر رحمۃ اللعالمین کو اپنا نبی بنایا، جن وانس کے لئے زمین کے اس کو نے سے اس کو نے تک تھی جیسے فرمان ہے وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نو حی الیہ انہ لا الہ الا انا فا عبدون یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں پس تم صرف ہی عبادت کرو۔ ایک اور آیت میں ہے تو اپنے سے پہلے کے رسولوں سے پوچھ لے کہ کیا ہم نے ان کے لئے سو ائے اپنے اور معبود مقرر کئے تھے، جن کی وہ عبادت کر تے ہوں ؟ یہاں بھی فرمایا ہر امت کے رسولوں کی دعوت توحید کی تعلیم اور شرک سے بے زاری ہی رہی۔ پس مشرکین کو اپنے شرک پر، اللہ کی چاہت، اس کی شریعت سے معلوم ہوتی ہے اور وہ ابتدا ہی سے شرک کی بیخ کنی اور توحید کی مضبوطی کی ہے۔ تمام رسولوں کی زبانی اس نے یہی پیغام بھیجا۔ ہاں انہیں شرک کر تے ہوئے چھوڑ دینا یہ اور بات ہے جو قابل حجت نہیں۔ اللہ نے جہنم اور جہنمی بھی تو بنائے ہیں۔ شیطان کافر سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اپنے بندوں سے ان کے کفر پر راضی نہیں۔ اس میں بھی اس کی حکمت تامہ اور حجت بالغہ ہے پھر فرماتا ہے کہ رسولوں کے آ گاہ کر دینے کے بعد دنیاوی سزائیں بھی کافروں اور مشرکوں پر آئیں۔ بعض کو ہدایت بھی ہو ئی، بعض اپنی گمراہی میں ہی بہکتے رہے۔ تم رسولوں کے مخالفین کا، اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کا انجام زمین میں چل پھر کر خود دیکھ لو گذشتہ واقعات کا جنہیں علم ہے ان سے دریافت کر لو کہ کس طرح عذاب الٰہی نے مشرکوں کو غارت کیا۔ اس وقت کے کافروں کے لئے ان کافروں میں مثالیں اور عبرت موجود ہے۔ دیکھ لو اللہ کے انکار کا نتیجہ کتنا مہلک ہو ا؟
پھر اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ گو آپ ان کی ہدایت کے کیسے ہی حریص ہوں لیکن بے فائدہ ہے۔ رب ان کی گمر اہیوں کی وجہ سے انہیں در رحمت سے دور ڈال چکا ہے۔ جیسے فرمان ہے ومن یرد اللہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیا جسے اللہ ہی فتنے میں ڈالنا چاہے تو اسے کچھ بھی تو نفع نہیں پہنچا سکتا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا اگر اللہ کا ارادہ تمہیں بہکا نے کا ہے تو میری نصیحت اور خیر خواہی تمہارے لئے محض بے سود ہے۔ اس آیت میں بھی فرماتا ہے کہ جسے للہ تعالیٰ بہکا وے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ وہ دن بدن اپنی سرکشی اور بہکا وے میں بڑھتے رہتے ہیں۔ فرمان ہے ان الذین حقت علیھم کلمۃ وبک لا یو منون الخ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہو نے کا۔ گو تمام نشانیاں ان کے پاس آ جائیں یہاں تک کہ عذاب الیم کا منہ دیکھ لیں۔ پس اللہ یعنی اس کی شان، کا امر۔ اس لئے کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہو تا۔ پس فرماتا ہے کہ وہ اپنے گمراہ کئے ہوئے کو راہ نہیں دکھاتا۔ نہ کوئی اور اس کی رہبری کر سکتا ہے نہ کوئی اس کی مدد کے لئے اٹھ سکتا ہے کہ عذاب الٰہی سے بچا سکے۔ خلق و امر اللہ ہی کا ہے وہ رب العالمین ہے، اس کی ذات با برکت ہے، وہی سچا معبود ہے۔
کیونکہ کافر قیامت کے قائل نہیں اس لئے دو سروں کو بھی اس عقیدے ہٹا نے کے لئے وہ پوری کوشش کر تے ہیں ایمان فروشی کر کے اللہ کی تاکیدی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ نہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اللہ کا یہ وعدہ برحق ہے لیکن اکثر لوگ بوجہ اپنی جہالت اور لا علمی کے رسو لوں کے خلاف کر تے ہیں، اللہ کی باتوں کو نہیں مانتے اور کفر کے گڑھے میں گر تے ہیں۔ پھر قیامت کے آنے اور جسموں کے دو با رہ زندہ ہو نے کی بعض حکمتیں ظاہر فرماتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ دنیوی اختلافات میں حق کیا تھا وہ ظاہر ہو جائے، بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا ملے۔ کافروں کا اپنے عقیدے، اپنے قول، اپنی قسم میں جھوٹا ہو نا کھل جائے۔ اس وقت سب دیکھ لیں گے کہ انہیں دھکے دے کر جہنم میں جھونکا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ جہنم جس کا تم انکار کر تے رہے اب بتاؤ یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو ؟ اس میں اب پڑ رہو۔ صبر سے رہو یا ہائے وائے کرو، سب برابر ہے، اعمال کا بدلہ بھگتنا ضروری ہے۔
پھر اپنی بے اندازہ قدرت کا بیان فرماتا ہے کہ جو وہ چاہے اس پر قادر ہے کوئی بات اسے عاجز نہیں کر سکتی، کوئی چیز اس کے اختیار سے خارج نہیں، وہ جو کرنا چاہے فرما دیتا ہے کہ ہو جا اسی وقت وہ کام ہو جاتا ہے۔ قیامت بھی اس کے فرمان کا عمل ہے جیسے فرمایا ایک آنکھ جھپکنے میں اس کا کہا ہو جائے گا تم سب کا پیدا کرنا اور مر نے کے بعد زندہ کر دینا اس پر ایسا ہی ہے جیسے ایک کو اسھر کہا ہو جا ادھر ہو گیا۔ اس کو دو با رہ کہنے یا تاکید کرنے کی بھی ضرورت نہیں اس کے ارادہ سے مراد جدا نہیں۔ کوئی نہیں جو اس کے خلاف کر سکے، اس کے حکم کے خلاف زبان ہلا سکے۔ وہ واحد و قہار ہے، وہ عظمتوں اور عز توں والا ہے، سلطنت اور جبروت والا ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی معبود نہ حاکم نہ رب نہ قادر۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ابن آ دم مجھے گالیاں دیتا ہے اسے ایسا نہیں چاہئے تھا۔ وہ مجھے جھٹلا رہا ہے حالانکہ یہ بھی اسے لائق نہ تھا۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ سخت قسمیں کھا کر کہتا ہے کہ اللہ مردوں کو پھر زندہ نہ کرے گا میں کہتا ہوں یقیناً زندہ ہوں گے۔ یہ برحق وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ کہتا ہے اللہ تین میں کا تیسرا ہے حالانکہ میں احد ہوں، میں اللہ ہوں، میں صمد ہوں، جس کا ہم جنس کوئی اور نہیں۔ ابن ابی حاتم میں تو حدیث موقو فاً مروی ہے۔ بخاری و مسلم میں دو سرے لفظوں کے ساتھ مر فوعاً رو ایت بھی آئی ہے۔
جو لوگ اللہ کی راہ میں ترک وطن کر کے، دوست، احباب، رشتے دار، کنبے تجارت کو اللہ کے نام پر ترک کر کے دین ربانی کی پاسبانی میں ہجرت کر جاتے ہیں ان کے اجر بیان ہو رہے ہیں کہ دونوں جہان میں یہ اللہ کے ہاں معزز و محترم ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ سبب نزول اس کا مہاجرین حبش ہوں جو مکے میں مشرکین کی سخت ایذائیں سہنے کے بعد ہجرت کر کے حبش چلے گئے کہ آزادی سے دین حق پر عامل رہیں۔ ان کے بہترین لوگ یہ تھے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی تھیں اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی تھے اور حضرت ابوسلمہ بن عبد الا سد رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ۔ قریب قریب اسی آدمی تھے مرد بھی عورتیں بھی جو سب صدیق اور صدیقہ تھے اللہ ان سب سے خوش ہو اور انہیں بھی خوش رکھے۔ پس اللہ تعالیٰ ایسے سچے لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ انہیں وہ اچھی جگہ عنایت فرمائے گا۔ جیسے مدینہ اور پاک روزی، مال کا بھی بدلہ ملا اور وطن کا بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے خوف سے جیسی چیز کو چھوڑے اللہ تعالیٰ اسی جیسی بلکہ اس سے کہیں بہتر، پاک اور حلال چیز اسے عطا فرماتا ہے۔ ان غریب الوطن مہاجرین کو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم و بادشاہ کر دیا اور دنیا پر ان کو سلطنت عطا کی۔ ابھی آخرت کا اجر و ثواب باقی ہے۔ پس ہجرت سے جان چرانے والے مہاجرین کے ثواب سے واقف ہو تے تو ہجرت میں سبقت کر تے۔ اللہ تعالیٰ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے خوش ہو کہ آپ جب کبھی کسی مہاجر کو اس کا حصہ غنیمت وغیرہ دیتے تو فرماتے لو اللہ تمہیں برکت دے یہ تو دنیا کا اللہ کا وعدہ ہے اور ابھی اجر آخرت جو بہت عظیم الشان ہے، باقی ہے۔ پھر اسی آیت مبارک کی تلاوت کر تے۔ ان پاکباز لوگوں کا اور وصف بیان فرماتا ہے کہ جو تکلیفیں اللہ کی راہ میں انہیں پہنچتی ہیں یہ انہیں جھیل لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر جو انہیں توکل ہے، اس، اس میں کبھی فرق نہیں آتا، اسی لئے دونوں جہان کی بھلائیاں یہ لوگ اپنے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول بنا کر بھیجا تو عرب نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ کی شان اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ وہ کسی انسان کو اپنا رسول بنائے جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ فرماتا ہے اکان للناس عجبا الخ، کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب معلوم ہوا کہ ہم نے کسی انسان کی طرف اپنی وحی نازل فرمائی کہ وہ لوگوں کو آ گاہ کر دے۔ اور فرمایا ہم نے تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے سبھی انسان تھے جن پر ہماری وحی آتی تھی۔ تم پہلی آسمانی کتاب والوں سے پوچھ لو کہ وہ انسان تھے یا فرشتے ؟ اگر وہ بھی انسان ہوں تو پھر اپنے اس قول سے باز آؤ ہاں اگر ثابت ہو کہ سلسلہ نبوت فرشتوں میں ہی رہا تو بے شک اس نبی کا انکار کر تے ہوئے تم اچھے لگو گے۔ اور آیت میں من اھل القری کا لفظ بھی فرمایا یعنی وہ رسول بھی زمین کے باشندے تھے، آ سمان کی مخلوق نہ تھے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مراد اہل ذکر سے اہل کتاب ہیں۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اور اعمش رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ذکر سے مراد قرآن ہے جیسے انا نحن نزلنا الذکر الخ میں ہے یہ قول بجائے خود ٹھیک ہے لیکن اس آیت میں ذکر سے مراد قرآن لینا درست نہیں کیونکہ قرآن کے تو وہ لوگ منکر تھے۔ پھر قرآن والوں سے پوچھ کر ان کی تشفی کیسے ہو سکتی تھی ؟ اسی طرح ابو جعفر باقر رحی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم اہل ذکر ہیں یعنی یہ امت یہ قول بھی اپنی جگہ ہے۔ درست ہے فی الواقع یہ امت تمام اگلی امتوں سے زیادہ علم والی ہے اور اہل بیت کے علماء اور علماء سے بدر جہا بڑھ کر ہیں۔ جب کہ وہ سنت مستقیمہ پر ثابت قدم ہوں۔ جیسے علی ابن عباس، حسن، حسین، محمدن حنفیہ، علی بن حیسن زین العا بدین، علی بن اللہ بن عباس ابو جعفر باقر، محمد بن علی بن حسین اور ان کے صاحبزادے جعفر اور ان جیسے اور بزرگ حضرات۔ اللہ کی رحمت و رضا انہیں حاصل ہو۔ جو کہ اللہ کی رسی کو مضبوط تھا مے ہوئے اور صراط مستقیم پر قدم جمائے ہوئے اور ہر حقدار کے حق بجائے والے اور ہر ایک کو اس کی سچی جگہ اتار نے والے، ہر ایک کی قدر و عزت کرنے والے تھے اور خود وہ اللہ کے تمام نیک بندوں کے دلوں میں اپنی مقبولیت رکھتے ہیں۔ یہ بے شک صحیح تو ہے لیکن اس آیت میں یہ مراد نہیں۔ یہاں بیان ہو رہا ہے کہ آپ بھی انسان ہیں اور آپ سے پہلے بھی انبیاء بنی آ دم میں سے ہو تے رہے۔ جیسے فرمان ہے قل سبحان ربی ھل کنت الا بشر ا رسو لا الخ کہہ دیکہ میرا رب پاک ہے میں صرف ایک انسان ہوں جو اللہ کا رسول ہوں۔ لوگ محض یہ بہا نہ کر کے رسولوں کا انکار کر بیٹھے کہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اپنی رسالت دے۔ اور آیت میں ہے تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سبھی کھانے پینے اور با زاروں میں چلنے پھر نے والے تھے۔ اور آیت میں ہے ہم نے ان کے جسم ایسے نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانے پینے سے بے نیاز ہوں یا یہ کہ مر نے والے ہی نہ ہوں۔ اور جگہ ارشاد ہے قل ماکنت بدعا من الر سال میں کوئ شروع کا اور پہلا اور نیا رسول تو نہیں ؟ ایک اور آیت میں ہے میں تم جیسا انسان ہوں میری جانب وحی اتاری جاتی ہے الخ پس یہاں بھی ارشاد ہو کہ پہلی کتا بو ں والوں سے پوچھ لو کہ نبی انسان ہو تے تھے یا غیر انسان ؟
پھر یہاں فرماتا ہے کہ رسول کو وہ دلیلیں دے کر حجتیں عطا فرما کر بھیجتا ہے کتا بیں ان پر نازل فرماتا ہے صحیفے انہیں عطا فرماتا ہے۔ زبر سے مراد کتا بیں ہیں جیسے قرآن میں اور جگہ ہے وَ کُلُّ کُتُبنَا فِی الزَّبُور ۔ ہم نے زبور میں لکھ دیا۔ پھر فرماتا ہے ہم نے تیری طرف ذکر نازل کیا یعنی قرآن، اس لئے کہ چونکہ تو اس کے معنی مطلب سے اچھی طرح واقف ہے، اسے لوگوں کو سمجھا بجھا دے۔حقیقتاً اے نبیؐ آپ ہی اس پر سب سے زیادہ حریص ہیں، اور آپ ہی اس کے سب سے بڑے عالم ہیں اور آپ ہی اس کے سب سے زیادہ عامل ہیں۔ اس لئے کہ آپؐ افضل الخلائق ہیں، اولاد آدم کے سردار ہیں،۔ جو اجمال اس کتاب میں ہے، اس کی تفصیل آپ کے ذمے ہے۔ لوگوں پر جو مشکل ہو، آپؐ اسے سمجھا دیں تاکہ وہ سوچیں ،سمجھیں ، راہ پائیں، اور پھر نجات اور دونوں جہان کی بھلائی حاصل کریں۔
اللہ تعالیٰ خالق کائنات اور مالک ارض و سماوات اپنے حلم کا باوجود علم کے باوجود اور اپنی مہربانی کا باوجود غصے کے بیان فرماتا ہے کہ وہ اگر چاہے اپنے گنہگار بد کردار بندوں کو زمین میں دھنسا سکتا ہے۔ بے خبری میں ان پر عذاب لا سکتا ہے لیکن اپنی غایت مہربانی سے درگزر کئے ہوئے ہے جیسے سورہ تبارک میں فرمایا اللہ جو آسمان میں ہے کیا تم اس کے غضب سے نہیں ڈرتے ؟ کہ کہیں زمین کو دلدل بنا کر تمہیں اس میں دھنسا نہ دے کہ وہ تمہیں ہچکو لے ہی لگاتی رہا کرے کیا تمہیں آسمانوں والے اللہ سے ڈر نہیں لگتا کہ کہیں وہ تم پر آسمان سے پتھر نہ برسا دے۔ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے کہ میرا ڈرانا کیسا تھا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے مکار، بد کردار لوگوں کو ان کے چلتے پھرتے، آتے، کھاتے، کماتے ہی پکڑ لے۔ سفر حضر رات دن جس وقت چاہے، پکڑ لے جیسے فرمان ہے افا من اھل القری الخ، کیا بستی والے اس سے نڈر ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس ہمارا عذاب رات میں ان کے سو تے سلاتے ہی آ جائے۔ یا دن چڑھے ان کے کھیل کود کے وقت ہی آ جائے۔ اللہ کو کوئی شخص اور کوئی کام عاجز نہیں کر سکتا وہ ہارنے والا، تھکنے والا اور ناکام ہو نے والا نہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ باوجود ڈر خوف کے انہیں پکڑ لے تو دونوں عتاب ایک ساتھ ہو جائیں ڈر اور پھر پکڑ۔ ایک کو اچانک موت آ جائے دوسرا ڈرے اور پھر مرے۔ لیکن رب العلی، رب کائنات بڑا ہی رؤف و رحیم ہے اس لئے جلدی نہیں پکڑتا۔ بخاری و مسلم میں ہے خلاف طبع باتیں سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ لوگ اس کی اولاد ٹھہر تے ہیں اور وہ انہیں رزق و عافیت عنایت فرماتا ہے۔ بخاری مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب پکڑ نازل فرماتا ہے پھر اچانک تباہ ہو جاتا ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت و کذلک اخذ ربک الخ، پڑھی۔ اور آیت میں ہے وکا ین من قر یۃ الخ بہت سی بستیاں ہیں جنہیں میں نے کچھ مہلت دی لیکن آخر ان کے ظلم کی بنا پر انہیں گرفتار کر لیا۔ لوٹنا تو میری ہی جانب ہے۔
اللہ تعالیٰ ذو الجلال و الاکرام کی عظمت و جلالت کبریائی اور بے ہمتائی کا خیال کیجئے کہ ساری مخلوق عرش سے فرش تک اس کے سامنے مطیع اور غلام۔ جمادات و حیوانات، انسان اور جنات، فرشتے اور کل کائنات، اس کی فرماں بردار، ہر چیز صبح شام اس کے سامنے ہر طرح سے اپنی عاجزی اور بے کسی کا ثبوت پیش کرنے والی، جھک جھک کر اس کے سامنے سجدے کرنے والی۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سو رج ڈھلتے ہی تمام چیزیں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑتی ہیں ہر ایک رب العالمین کے سامنے ذلیل وپست ہے، عاجز و بے بس ہے۔ پہاڑ وغیرہ کا سجدہ ان کا سایہ ہے، سمندر کی موجیں اس کی نماز ہے۔ انہیں گویا ذوی العقول سمجھ کر سجدے کی نسبت ان کی طرف کی۔ اور فرمایا زمین و آسمان کے کل جاندار اس کے سامنے سجدے میں ہیں۔ جیسے فرمان ہے وللہ یسجد من فی السمو ات والارض طوعاً وکرھاً الخ خوشی نا خوشی ہر چیز رب العالمین کے سامنے سر بسجود ہے، ان کے سائے صبح و شام سجدہ کر تے ہیں۔ فرشتے بھی باوجود اپنی قدر و منزلت کے اللہ کے سامنے پست ہیں، اس کی عبادت سے تنگ نہیں آ سکتے اللہ تعالیٰ جل و علا سے کانپتے اور لرزتے رہتے ہیں اور جو حکم ہے اس کی بجا آ وری میں مشغول ہیں نہ نا فرمانی کر تے ہیں نہ سستی کر تے ہیں۔
اللہ واحد کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، وہ لا شریک ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہے، مالک ہے، پالنہار ہے۔ اسی کی خالص عبادت دائمی اور واجب ہے۔ اس کے سو دوسروں کی عبادت کے طریقے نہ اختیار کرنے چاہئیں۔ آسمان و زمین کی تمام مخلوق خوشی یا نا خوشی اس کی ماتحت ہے۔ سب کو لوٹایا جانا اسی کی طرف ہے، خلوص کے ساتھ اسی کی عبادت کرو۔ اسکے ساتھ دو سروں کو شریک کرنے سے بچو۔ دین خالص صرف اللہ ہی کا ہے آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک وہی تنہا ہے۔ نفع نقصان اسی کے اختیار میں ہے، جو کچھ نعمتیں بندوں کے ہاتھ میں ہیں سب اسی کی طرف سے ہیں، رزق نعمتیں عافیت تصرف اسی کی طرف سے ہے، اسی کے فضل واحسان بدن پر ہیں۔ اور اب بھی ان نعمتوں کے پالنے کے بعد بھی تم اس کے ویسے ہی محتاج ہو مصیبتیں اب بھی سر پر منڈ لا رہی ہیں۔ سختی کے وقت وہی یاد آتا ہے اور گڑ گڑا کر پوری عاجزی کے ساتھ کٹھن وقت میں اسی کی طرف جھکتے ہو۔ خود مشرکین مکہ کا بھی یہی حال تھا کہ جب سمندر میں گھر جاتے باد مخالف کے جھو نکے کشتی کو پتے کی طرح ہچکو لے دینے لگتے تو اپنے ٹھا کروں، دیو تاؤں، بتوں، فقیروں، ولیوں، نبیوں سب کو بھول جاتے اور خالص اللہ سے لو لگا کر خلوص دل سے اس سے بچاؤ اور نجات طلب کر تے۔ لیکن کنارے پر کشتی کے پار لگتے ہی اپنے پرانے الہٰ سب یاد آ جاتے اور معبود حقیقی کے ساتھ پھر ان کی پوجا پاٹ ہو نے لگتی۔ اس سے بڑھ کر بھی نا شکری کفر اور نعمتوں کی فراموشی اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہاں بھی فرمایا کہ مطلب نکل جاتے ہی بہت سے لوگ آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ لیکفروا کا لام لام عاقبت ہے اور لام تعلیل بھی کہا گیا ہے یعنی ہم نے یہ خسلت ان کی اس لئے کر دی ہے کہ وہ اللہ کی نعمت پر پردے ڈالیں اور اس کا انکار کریں حالانکہ دراصل نعمتوں کا دینے والا، مصیبتوں کا دفع کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ پھر انہیں ڈراتا ہے کہ اچھا دنیا میں تو اپنا کام چلا لو، معمولی سا فائدہ یہاں کا اٹھا لو لیکن اس کا انجام ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا۔
مشرکوں کی بے عقلی اور بے ڈھنگی بیان ہو رہی ہے کہ دینے والا اللہ ہے سب کچھ اسی کا دیا ہوا اور یہ اس میں سے اپنے جھوٹے معبودوں کے نام ہو جائے جن کا صحیح علم بھی انہیں نہیں پھر اس میں سختی ایسی کریں کہ اللہ کے نام کا تو چاہے ان کے معبودوں کے ہو جائے لیکن ان کے معبودوں کے نام کیا گیا اللہ کے نام نہ ہو سکے ایسے لوگوں سے ضرور باز پرس ہو گی اور اس افترا کا بدلہ انہیں پورا پورا ملے گا۔ جہنم کی آگ ہو گی اور یہ ہوں گے۔ پھر ان کی دوسری بے انصافی اور حماقت بیان ہو رہی ہے کہ اللہ کے مقرب غلام فرشتے ان کے نزدیک اللہ کی بیٹیاں ہیں یہ خطا کر کے پھر ان کی عبادت کر تے ہیں جو خطا پر خطا ہے۔ یہاں تین جرم ان سے سرزد ہوئے اول تو اللہ کے لئے اولاد ٹھہرانا جو اس سے یکسر پاک ہے، پھر اولاد میں سے بھی وہ قسم اسے دینا جسے خود اپنے لئے بھی پسند نہیں کر تے یعنی لڑکیاں۔ کیا ہی الٹی بات ہے کہ اپنے لئے اولاد ہو ؟ پھر اولاد بھی وہ جو ان کے نزدیک نہایت ردی اور ذلیل چیز ہے۔ کیا حماقت ہے کہ انہیں تو اللہ لڑکے دے اور اپنے لئے لڑکیاں رکھے ؟ اللہ اس سے بلکہ اولاد سے پاک ہے۔ انہیں جب خبر ملے کہ ان کے ہاں لڑکی ہوئی تو مارے ندامت و شرم کے منہ کالا پڑ جائے، زبان بند ہو جائے، غم سے کمر جھک جائے۔ زہر کے گھونٹ پی کر خاموش ہو جائے۔ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرے۔ اسی سوچ میں رہے کہ اب کیا کروں اگر لڑکی کو زندہ چھوڑتا ہوں تو بڑی رسوائی ہے نہ وہ وارث بنے نہ کوئی چیز سمجھی جائے لڑکے کو اس پر ترجیح دی جائے غرض زندہ رکھے تو نہایت ذلت سے۔ ورنہ صاف بات ہے کہ جیتے جی گڑھا کھودا اور دبا دی۔ یہ حالت تو اپنی ہے پھر اللہ کے لئے یہی چیز ثابت کر تے ہیں۔ کیسے برے فیصلے کر تے ہیں ؟ کتنی بے حیائی کی تقسیم کر تے ہیں اللہ کے لئے جو بیٹی ثابت کریں اسے اپنے لئے سخت تر باعث توہین و تذلیل سمجھیں۔ اصل یہ ہے کہ بری مثال اور نقصان انہی کافروں کے لئے ہے اللہ کے لئے کمال ہے۔ وہ عز یز و حکیم ہے اور ذوالجلال والاکرام ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حلم و کرم لطف و رحم کا بیان ہو رہا ہے کہ بندوں کے گناہ دیکھتا ہے اور پھر بھی انہیں مہلت دیتا ہے اگر فوراً ہی پکڑے تو آج زمین پر کوئی چلتا پھرتا نظر نہ آئے۔ انسانوں کی خطاؤں میں جانور بھی ہلاک ہو جائیں۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے۔ بروں کے ساتھ بھلے بھی پکڑ میں آ جائیں۔ لیکن اللہ سبحا نہ و تعالیٰ اپنے حلم و کرم لطف و رحم سے پردہ پوشی کر رہا ہے، در گزر فرما رہا ہے، معافی دے رہا ہے۔ ایک خاص وقت تک کی مہلت دئیے ہوئے ہے، ورنہ کیڑے اور بھنگے بھی نہ بچتے۔ بنی آ دم کے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے عذاب الٰہی ایسے آتے کہ سب کو غارت کر جاتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ کوئی صاحب فرما رہے ہیں۔ ظالم اپنا ہی نقصان کرتا ہے تو آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ پر ند اپنے گھونسلوں میں بوجہ اس کے ظلم کے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مر تبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کچھ ذکر کر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا اللہ کسی نفس کو ڈھیل نہیں دیتا عمر کی زیادتی نیک اولاد سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عنایت فرماتا ہے پھر ان بچوں کی دعائیں ان کی قبر میں انہیں پہنچتی رہتی ہیں، یہی ان کی عمر کی زیادتی ہے۔
اپنے لئے یہ ظالم لڑکیاں نا پسند کریں، شر کت نہ چاہیں اور اللہ کے لئے یہ سب روا رکھیں۔ پھر یہ خیال کریں کہ یہ دنیا میں بھی اچھا ئیاں سمیٹنے والے ہیں اور اگر قیامت قائم ہوئی تو وہاں بھی بھلائی ان کے لئے ہے۔ یہ کہا کر تے تھے کہ نفع کے مستحق اس دنیا میں تو ہم ہیں ہی اور صحیح بات تو یہ ہے کہ قیامت نے آنا نہیں۔ بالفرض آئی بھی تو وہاں کی بہتری بھی ہمارے لئے ہی ہے ان کفار کو عنقریب سخت عذاب چکھنے پڑیں گے، ہماری آیتوں سے کفر پھر آرزو یہ کہ مال والاد ہمیں وہاں بھی ملے گا۔ سورہ کہف میں دو ساتھیوں کا ذکر کر تے ہوئے قرآن نے فرمایا ہے کہ وہ ظالم اپنے باغ میں جاتے ہوئے اپنے نیک ساتھی سے کہتا ہے میں تو اسے ہلاک ہو نے والا جانتا ہی نہیں نہ قیامت کا قائل ہوں اور اگر بالفرض میں دو با رہ زندہ کیا گیا تو وہاں اس سے بھی بہتر چیز دیا جاؤں گا۔ کام برے کریں آرزو نیکی کی رکھیں۔ کا نٹے بوئیں اور پھل چاہیں۔ کہتے ہیں کعبۃ اللہ شریف کی عمارت کو نئے سرے سے بنا نے کے لئے جب ڈھا یا تو بنیادوں میں سے ایک پتھر نکلا، جس پر ایک کتبہ لکھا ہو تھا، جس میں یہ بھی لکھا تھا کہ تم برائیاں کر تے ہو اور نیکیوں کی امید رکھتے ہو یہ ایسا ہی ہے جیسے کا نٹے بو کر انگور کی امید رکھنا۔ پس انکی امیدیں تھیں کہ دنیا میں بھی انہیں جاہ و حشمت اور لونڈی غلام ملیں گے اور آخرت میں بھی۔ اللہ فرماتا ہے دراصل ان کے لئے آ تش دوزخ تیار ہے۔ وہاں یہ رحمت رب سے بھلا دئیے جائیں گے اور ضائع اور برباد ہو جائیں گے آج یہ ہمارے احکام بھلائے بیٹھے ہیں، کل انہیں ہم اپنی نعمتوں سے بھلا دیں گے، یہ جلدی ہی جہنم نشین ہو نے والے ہیں۔
اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم آپ تسلی رکھیں۔ آپ کو آپ کی قوم کا جھٹلانا کوئی انوکھی بات نہیں کون سا بنی آیا جو جھٹلا یا نہ گیا ؟ باقی رہے جھٹلا نے والے وہ شیطان کے مرید ہیں۔ برائیاں انہیں شیطانی وسو اس سے بھلا ئیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا ولی شیطان ہے وہ انہیں کوئی نفع پہنچا نے والا نہیں۔ ہمیشہ کے لئے مصیبت افزا عذابوں میں چھوڑ کر ان سے الگ ہو جائے گا۔ قرآن حق و باطل میں سچ جھوٹ میں تمیز کرانے والی کتاب ہے، ہر جھگڑا اور ہر اختلاف کا فیصلہ اس میں موجود ہے۔ یہ دلوں کے لئے ہدایت ہے اور ایماندار جو اس پر عامل ہیں، ان کے لئے رحمت ہے۔ اس قرآن سے کس طرح مردہ دل جی اٹھتے ہیں، اس کی مثال مردہ زمین اور بارش کی ہے جو لوگ بات کو سنیں، سمجھیں وہ تو اس سے بہت کچھ عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔
اونٹ گائے بکری وغیرہ بھی اپنے خالق کی قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں۔ بطونہ میں ضمیر کو یا تو نعمت کے معنی پر لوٹایا ہے یا حیوان پر چوپائے بھی حیوان ہی ہیں۔ ان حیوانوں کے پیٹ میں جو الا بلا بھری ہوئی ہوتی ہے۔ اسی میں سے پروردگار عالم تمہیں نہایت خوش ذائقہ لطیف اور خو شگوار دودھ پلاتا ہے۔ دوسری آیت میں بطو نہا ہے دونوں باتیں جائز ہیں۔ جیسے آیت کلا انھا تذکرۃ فمن شا ذکرہ میں ہے اور جیسے آیت انی مر سلتہ الیھم بھدیتہ فناظرۃ بم یرجع المرسلون فلما جاء سلیمان میں ہے پس جاء میں مذکر لائے۔ مراد اس سے مال ہے جانور کے باطن میں جو گوبر خون وغیرہ ہے، معدے میں غذا پہنچی وہاں سے خون رگوں کی طرف دوڑ گیا، دودھ تھن کی طرف پہنچا، پیشاب نے مثانے کا راستہ پکڑا، گوبر اپنے مخرج کی طرف جمع ہوا نہ ایک دو سرے سے ملے نہ ایک دوسرے کو بدلے۔ یہ خالص دودھ جو پینے والے کے حلق میں با آرام اتر جائے اس کی خاص نعمت ہے۔ اس نعمت کے بیان کے ساتھ ہی دوسری نعمت بیان فرمائی کہ کھجور اور انگور کے شیرے سے تم شراب بنا لیتے ہو۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے ہے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں چیزوں کی شراب ایک ہی حکم میں ہے جیسے مالک رحمۃ اللہ علیہ شافعی رحمۃ اللہ علیہ احمد اور جمہور علماء کا مذہب ہے اور یہی حکم ہے اور شرابوں کا جو گیہوں جو، جوار اور شہد سے بنائی جائیں جیسے کہ احادیث میں مفصل آ چکا ہے۔ یہ جگہ اس کی تفصیل کی نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں شراب بناتے ہو جو حرام ہے اور اور طرح کھاتے پیتے ہو جو حلال ہے مثلاً خشک کھجوریں، کشمش وغیرہ اور نیند شربت بنا کر، سرکہ بنا کر اور کئی اور طریقوں سے۔ پس جن لوگوں کو عقل کا حصہ دیا گیا ہے، وہ اللہ کی قدرت و عظمت کو ان چیزوں اور ان نعمتوں سے بھی پہچان سکتے ہیں۔ دراصل جو ہر انسا نیت عقل ہی ہے۔ اسی کی نگہبانی کے لئے شریعت مطہرہ نے نشے والی شر ابیں اس امت پر حرام کر دیں۔ اسی نعمت کا بیان سورہ یاسین کی آیت وجعلنا فیھا جنات من نخیل الخ میں ہے یعنی زمین میں ہم نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ لگا دئیے اور ان میں پانی کے چشمے بہا دئیے تاکہ لوگ اسکا پھل کھائیں، یہ انکے اپنے بنائے ہوئے نہیں۔ کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہیں کریں گے ؟ وہ ذات پاک ہے جس نے زمین کی پیداوار میں اور خود انسانوں میں اور اس مخلوق میں جسے یہ جانتے ہی نہیں ہر طرح کی جوڑ جوڑ چیزیں پیدا کر دی ہیں۔
وحی سے مراد یہاں پر الہام، ہدایت اور ارشاد ہے۔ شہد کی مکھیوں کو اللہ کی جانب سے یہ بات سمجھائی گئی کہ وہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور چھتوں میں شہد کے چھتے بنائے۔ اس ضعیف مخلوق کے اس گھر کو دیکھئے کتنا مضبوط کیسا خو بصورت اور کیسی کاری گری کا ہوتا ہے۔ پھر اسے ہدایت کی اور اس کے لئے مقدر کر دیا کہ یہ پھلوں، پھولوں اور گھانس پات کے رس چوستی پھرے اور جہاں چاہے جائے، آئے لیکن واپس لوٹتے وقت سیدھی اپنے چھتے کو پہنچ جائے۔ چاہے بلند پہاڑ کی چوٹی ہو، چاہے بیابان کے درخت ہوں، چاہے آ بادی کے بلند مکانات اور ویرانے کے سنسان کھنڈر ہوں، یہ نہ راستہ بھولے، نہ بھٹکتی پھرے، خواہ کتنی ہی دور نکل جائے۔ لوٹ کر اپنے چھتے میں اپنے بچوں، انڈوں اور شہد میں پہنچ جائے۔ اپنے پروں سے موم بنائے۔ اپنے منہ سے شہد جمع کرے اور دوسری جگہ سے بچے۔ ذللا کی تفسیر اطاعت گزر اور مسخر سے بھی کی گئی ہے پس یہ حال ہو گا سالکہ کا جیسے قرآن میں وذللنا ھا لھم الخ میں بھی یہی معنی مراد ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لوگ شہد کے چھتے کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک لے جاتے ہیں۔ لیکن پہلا قول بہت زیادہ ظاہر ہے یعنی یہ اس کے طریق کا حال ہے۔ ابن اجریر دونوں قول صحیح بتلاتے ہیں۔ ابو یعلی مو صلی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مکھی کی عمر چالیس دن کی ہوتی ہے سوائے شہد کی مکھی کے۔ کئی مکھیاں آگ میں بھی ہوتی ہیں شہد کے رنگ مختلف ہو تے ہیں سفید زرد سرخ وغیرہ جیسے پھل پھول اور جیسی زمین۔ اس ظاہری خوبی اور رنگ کی چمک کے ساتھ اس میں شفا بھی ہے، بہت سی بیماریوں کو اللہ تعالیٰ اس سے دور کر دیتا ہے یہاں فیہ الشفاء للناس نہیں فرمایا ورنہ ہر بیماری کی دوا یہی ٹھہرتی بلکہ فرمایا اس میں شفا ہے لوگوں کے لئے پس یہ سرد بیماریوں کی دوا ہے۔ علاج ہمیشہ بیماریوں کے خلاف ہوتا ہے پس شہد گرم ہے سردی کی بیماری میں مفید ہے۔ مجاہد اور ابن جریر سے منقول ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے یعنی قرآن میں شفا ہے۔ یہ قول گو اپنے طور پر صحیح ہے اور واقعی قرآن شفا ہے لیکن اس آیت میں یہ مراد لینا سیاق کے مطابق نہیں۔ اس میں تو شہد کا ذکر ہے، اسی لئے مجاہد کے اس قول کی اقتدا نہیں کی گئی۔ ہاں قرآن کے شفا ہو نے کا ذکر آیت وننزل من القران ماھو شفاء الخ میں ہے اور آیت شفاء لما فی الصدور میں ہے اس آیت میں تو مراد شہد ہے چنانچہ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ کسی نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے بھائی کو دست آ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا اسے شہد پلاؤ، وہ گیا، شہد دیا، پھر آیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے تو بیماری اور بڑھ گئی۔ آپ نے فرمایا جا اور شہد پلا۔ اس نے جا کر پھر پلا یا، پھر حاضر ہو کر یہی عرض کیا کہ دست اور بڑھ گئے آپ نے فرمایا اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، جا پھر شہد دے۔ تیسری مر تبہ شہد سے بفضل الٰہی شفا حاصل ہو گئی۔ بعض اطباء نے کہا ہے ممکن ہے اس کے پیٹ میں فضلے کی زیادتی ہو، شہد نے اپنی گرمی کی وجہ سے اس کی تحلیل کر دی۔ فضلہ خارج ہو نا شروع ہوا۔ دست بڑھ گئے۔ اعرابی نے اسے مرض کا بڑھ جانا سمجھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور شہد دینے کو فرمایا اس سے زور سے فضلہ خارج ہو نا شروع ہوا پھر شہد دیا، پیٹ صاف ہو گیا، بلا نکل گئی اور کامل شفا بفضل الہی حاصل ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بات جو بہ اشارہ الہی پوری ہو گئی۔ بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ سرور رسل صلی اللہ علیہ و سلم کو مٹھاس اور شہد سے بہت الفت تھی۔ آپ کا فرمان ہے کہ تین چیزوں میں شفا ہے، پچھنے لگانے میں، شہد کے پینے میں اور داغ لگوانے میں لیکن میں اپنی امت کو داغ لگوانے سے روکتا ہوں۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ تمہاری دواؤں میں سے کسی میں اگر شفا ہے تو پچھنے لگانے میں، شہد کے پینے میں اور آگ سے دغوانے میں جو بیماری کے منا سب ہو لیکن میں اسے پسند نہیں کرتا۔ مسلم کی حدیث میں ہے میں اسے پسند نہیں کرتا بلکہ نا پسند رکھتا ہوں۔ ابن ماجہ میں ہے تم ان دونوں شفاؤں کی قدر کر تے رہو شہد اور قرآن۔ ابن جریر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جب تم میں سے کوئی شفا چاہے تو قرآن کریم کی کسی آیت کو کسی صحیفے پر لکھ لے اور اسے بارش کے پانی سے دھو لے اور اپنی بیوی کے مال سے اس کی اپنی رضامندی سے پیسے لے کر شہد خرید لے اور اسے پی لے پس اس میں کئی وجہ سے شفا آ جائے گی اللہ تعالیٰ عز و جل کا فرمان ہے وننزل من القر ان ماھو شفاء و رحمۃ للمو منین یعنی ہم نے قرآن میں وہ نازل فرمایا ہے جو مومنین کے لیے شفا ہے اور رحمت ہے اور آیت میں ہے وانز لنا من السماء ماء مبارکا ہم آسمان سے با برکت پانی برساتے ہیں۔ اور فرمان ہے فان طبن لکم عن شئی منہ نفسا فکلوہ ھنیا مرے یعنی اگر عورتیں اپنے مال مہر میں سے اپنی خوشی سے تمہیں کچھ دے دیں تو بے شک تم اسے کھاؤ پیو سہتا پچتا۔ شہد کے بارے میں فرمان الہی ہے فیہ شفاء للناس شہد میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔ ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو شخص ہر مہینے میں تین دن صبح کو شہد چاٹ لے اسے کوئی بڑی بلا نہیں پہنچے گی۔ اس کا ایک راوی زبیر بن سعید متروک ہے۔ ابن ماجہ کی اور حدیث میں آپ کا فرمان ہے کہ تم سنا اور سنوت کا استعمال کیا کرو ان میں ہر بیماری کی شفا ہے سوائے سام کے۔ لوگوں نے پوچھا سام کیا ؟ فرمایا موت۔ سنوت کے معنی ثبت کے ہیں اور لوگوں نے کہا ہے سنوت شہد ہے جو گھی کی مشک میں رکھا ہوا ہو۔ شاعر کے شعر میں یہ لفظ اس معنی میں آیا ہے پھر فرماتا ہے کہ مکھی جیسی بے طاقت چیز کا تمہارے لئے شہد اور موم بنانا اس کا اس طرح آ زادی سے پھرنا اپنے گھر کو نہ بھولنا وغیرہ یہ سب چیزیں غور فکر کرنے والوں کے لئے میری عظمت، خالقیت اور مالکیت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ اسی سے لوگ اپنے اللہ کے قادر حکیم علیم کریم رحیم ہو نے پر دلیل حاصل کر سکتے ہیں۔
تمام بندوں پر قبضہ اللہ تعالیٰ کا ہے، وہی انہیں عدم وجود میں لا یا ہے، وہی انھیں پھر فوت کرے گا بعض لوگوں کو بہت بڑی عمر تک پہنچاتا ہے کہ وہ پھر سے بچوں جیسے نا تواں بن جاتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پچھتر سال کی عمر میں عموماًًانسان ایسا ہی ہو جاتا ہے طاقت ختم ہو جاتی ہے حافظہ جاتا رہتا ہے۔ علم کی کمی ہو جاتی ہے عالم ہو نے کے بعد بے علم ہو جاتا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی دعا میں فرماتے تھے اللھم انی اعوذبک من البخل والکسل والھرم وارذل العمر و عذاب القبر وفتنتہ الد جال وفتنتہ المحیا و الممات یعنی اے اللہ میں بخیلی سے، عاجزی سے، بڑھا پے سے، ذلیل عمر سے، قبر کے عذاب سے، دجال کے فتنے سے، زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ زہیر بن ابو سلمہ نے بھی اپنے مشہور قصیدہ معلقہ میں اس عمر کو رنج و غم کا مخزن و منبع بتا یا ہے۔
مشرکین کی جہالت اور ان کے کفر کا بیان ہو رہا ہے کہ اپنے معبودوں کو اللہ کے غلام جاننے کے باوجود ان کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ حج کے موقع پر وہ کہا کر تے تھے لبیک لا شریک لک الا شر یکا ھو لک تملکہ وما ملک تملکہ وما ملکیعنی اے اللہ میں تیرے پاس حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ جو خود تیرے غلام ہیں ان کا اور ان کی ماتحت چیزوں کا اصلی مالک تو ہی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں الزام دیتا ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کی اپنی برابری اور اپنے مال میں شر کت پسند نہیں کر تے تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک ٹھیرا رہے ہو ؟ یہی مضمون آیت ضرب لکم مثلاً من انفسکم الخ میں بیان ہوا ہے۔ کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے مال میں اپنی بیویوں میں اپنا شریک بنا نے سے نفرت کر تے ہو تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک سمجھ رہے ہو ؟ یہی اللہ کی نعمتوں سے انکار ہے کہ اللہ کے لئے وہ پسند کرنا، جو اپنے لئے بھی پسند نہ ہو۔ یہ ہے مثال معبو دان باطل کی۔ جب تم خود اس سے الگ ہو پھر اللہ تو اس سے بہت زیادہ بے زار ہے۔ رب کی نعمتوں کا کفر اور کیا ہو گا کہ کھیتیاں چوپائے ایک اللہ کے پیدا کئے ہوئے اور تم انہیں اس کے سوا اوروں کے نام سے منسوب کرو۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ایک رسالہ لکھا کہ اپنی روزی پر قناعت اختیار کرو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ امیر کر رکھا ہے یہ بھی اس کی طرف سے ایک آزمائش ہے کہ وہ دیکھے کہ امیر امراء کس طرح شکر الہی ادا کر تے ہیں اور جو حقوق دو سروں کے ان پر جناب باری نے مقرر کئے ہیں کہاں تک انہیں ادا کر تے ہیں۔
اپنے بندوں پر اپنا ایک اور احسان جتاتا ہے کہ انہی کی جنس سے انہی کی ہم شکل، ہم وضع عورتیں ہم نے ان کے لئے پیدا کیں۔ اگر جنس اور ہوتی تو دلی میل جول، محبت و موعدت قائم نہ رہتی لیکن اپنی رحمت سے اس نے مرد عورت ہم جنس بنائے۔ پھر اس جوڑے سے نسل بڑھائی، اولاد پھیلائی، لڑکے ہوئے، لڑکوں کے لڑکے ہوئے، حفدہ کے ایک معنی تو یہی پوتوں کے ہیں، دوسرے معنی خادم اور مددگار کے ہیں پس لڑکے اور پوتے بھی ایک طرح خدمت گزار ہو تے ہیں اور عرب میں یہی دستور بھی تھا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں انسان کی بیوی کی سابقہ گھر کی اولاد اس کی نہیں ہوتی۔ حفدہ اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی کے سامنے اس کے لئے کام کاج کرے۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ اس سے مراد دامادی رشتہ ہے اس کے معنی کے تحت میں یہ سب داخل ہیں، چنانچہ قنوت میں جملہ آتا ہے والیک نسعی ونحفد ہماری سعی کوشش اور خدمت تیرے لئے ہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اولاد سے،غلام سے، سسر ال والوں سے، خدمت حاصل ہوتی ہے ان سب کے پاس سے نعمت الہی ہمیں ملتی ہے۔ ہاں جن کے نزدیک وحفدۃ کا تعلق ازواجا سے ہے ان کے نزدیک تو مراد اولاد اور اولاد کی اولاد اور داماد اور بیوی کی اولاد ہیں۔ پس یہ سب بسا اوقات اسی شخص کی حفاظت میں، اس کی گود میں اور اس کی خدمت میں ہو تے ہیں اور ممکن ہے کہ یہی مطلب سامنے رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہو کہ اولاد تیری غلام ہے۔ جیسے کہ ابو داؤد میں ہے اور جنہوں نے حفدہ سے مرد خادم لیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ معطوف ہے اللہ کے فرمان واللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا پر یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں اور اولاد کو خادم بنا دیا ہے اور تمہیں کھانے پینے کی بہترین ذائقے دار چیزیں عنایت فرمائی ہیں پس باطل پر یقین رکھ اللہ کی نعمتوں کی نا شکری نہ کرنی چاہئے۔ رب کی نعمتوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کی دوسروں کی طرف نسبت کر دی۔ صحیح حدیث میں ہے کے قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے احسان جتاتے ہوئے فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی ؟ میں نے تجھے ذی عزت نہیں بنایا تھا ؟ میں نے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرے تابع نہیں کیا تھا اور میں نے تجھے سرداری میں اور آرام میں نہیں چھوڑا تھا ؟
نعمتیں دینے والا، پیدا کر نے والا، روزی پہنچا نے والا، صرف اللہ تعالیٰ اکیلا وحدہٗ لا شریک لہ ہے۔ اور یہ مشرکین اس کے ساتھ اوروں کو پوجتے ہیں جو نہ آسمان سے بارش برسا سکیں، نہ زمین سے کھیت اور درخت اگا سکیں۔ وہ اگر سب مل کر بھی چاہیں تو بھی نہ ایک بوند بارش برسا نے پر قادر، نہ ایک پتے کے پیدا کرنے ان میں سکت پس تم اللہ کے لئے مثالیں نہ بیان کرو۔ اس کے شریک و سہیم اور اس جیسا دوسروں کو نہ سمجھو۔ اللہ عالم ہے اور وہ اپنے علم کی بنا پر اپنی توحید پر گواہی دیتا ہے۔ تم جاہل ہو، اپنی جہالت سے دوسروں کو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہو۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں یہ کافر اور مومن کی مثال ہے۔ پس ملکیت کے غلام سے مراد کافر اور اچھی روزی والے اور خرچ کرنے والے سے مراد مومن ہے۔ مجاہد فرماتے ہیں اس مثال سے بت کی اور اللہ تعالیٰ کی جدائی سمجھانا مقصود ہے کہ یہ اور وہ برابر کے نہیں۔ اس مثال کا فرق اس قدر واضح ہے جس کے بتانے کی ضرورت نہیں، اسی لئے فرماتا کہ تعریفوں کے لائق اللہ ہی ہے۔ اکثر مشرک بے علمی پر تلے ہوئے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ یہ مثال بھی اس فرق کے دکھا نے کی ہو جو اللہ تعالیٰ میں اور مشرکین کے بتوں میں ہے۔ یہ بت گونگے ہیں نہ کلام کر سکیں نہ کوئی بھلی بات کہہ سکیں، نہ کسی چیز پر قدرت رکھیں۔ قول فعل دونوں سے خالی۔ پھر محض بوجھ، اپنے مالک پر بار، کہیں بھی جائے کوئی بھلائی نہ لائے۔ پس ایک برابر ہو جائیں گے ؟ ایک قول ہے کہ ایک گونگا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام تھا۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ مثال بھی کافر و مومن کی ہو جیسے اس سے پہلے کی آیت میں تھی۔ کہتے ہیں کہ قریش کے ایک شخص کے غلام کا ذکر پہلے ہے اور دوسرے شخص سے مراد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور غلام گونگے سے مراد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ غلام ہے جس پر آپ خرچ کر تے تھے جو آپ کو تکلیف پہنچاتا رہتا تھا اور آپ نے اسے کام کاج سے آزاد کر رکھا تھا لیکن پھر بھی یہ اسلام سے چڑتا تھا، منکر تھا اور آپ کو صدقہ کرنے اور نیکیاں کرنے سے روکتا تھا، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے کمال علم اور کمال قدرت کو بیان فرما رہا ہے کہ زمین آسمان کا غیب وہی جانتا ہے، کوئی نہیں جو غیب داں ہو اللہ جسے چاہے، جس چیز پر چاہے، اطلاع دے دے۔ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے نہ کوئی اس کا خلاف کر سکے۔ نہ کوئی اسے روک سکے جس کام جب ارادہ کرے، قادر ہے پورا ہو کر ہی رہتا ہے آنکھ بند کر کے کھولنے میں تو تمہیں کچھ دیر لگتی ہو گی لیکن حکم الٰہی کے پورا ہو نے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی۔ قیامت کا آنا بھی اس پر ایسا ہی آ سان ہے، وہ بھی حکم ہو تے ہی آ جائے گی۔ ایک کا پیدا کرنا اور سب کا پیدا کرنا اس پر یکساں ہے۔ اللہ کا احسان دیکھو کہ اس نے لوگوں کو ماؤں کے پیٹوں سے نکالا یہ محض نا دان تھے پھر انہیں کان دئیے جس سے وہ سنیں، آنکھیں دیں جس سے دیکھیں، دل دئیے جس سے سوچیں اور سمجھیں۔ عقل کی جگہ دل ہے اور دماغ بھی کہا گیا ہے۔ عقل سے ہی نفع نقصان معلوم ہوتا ہے یہ قویٰ اور حواس انسان کو بتدریج تھوڑے تھوڑے ہو کر ملتے ہیں عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھوتری بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ کمال کو پہنچ جائیں۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انسان اپنی ان طاقتوں کو اللہ کی معرفت اور عبادت میں لگائے رہے۔ صحیح بخاری میں حدیث قدسی ہے کہ جو میرے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے لڑائی کا اعلان کرتا ہے۔ میرے فرائض کی بجا آوری سے جس قدر بندہ میری قربت حاصل کر سکتا ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں کر سکتا۔ نوافل بکثرت پڑھتے پڑھتے بندہ میرے نزدیک اور میرا محبوب ہو جاتا ہے۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں، جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ تھا متا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ وہ اگر مجھ سے مانگے میں دیتا ہوں، اگر دعا کرے میں قبول کرتا ہوں، اگر پناہ چاہے میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی روح کے قبض کرنے میں موت کو نا پسند کرتا ہے۔ میں اسے ناراض کرنا نہیں چاہتا اور موت ایسی چیز ہی نہیں جس سے کسی ذی روح کو نجات مل سکے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اخلاص اور اطاعت میں کا مل ہو جاتا ہے تو اس کے تمام افعال محض اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں وہ سنتا ہے اللہ کے لئے، دیکھتا ہے اللہ کے لئے، یعنی شریعت کی باتیں سنتا ہے، شرع نے جن چیزوں کا دیکھنا جائز کیا ہے، انہی کو دیکھتا ہے، اسی طرح اس کا ہاتھ بڑھا نا، پاؤں چلا نا بھی اللہ کی رضامندی کے کاموں کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اللہ پر اس کا بھر وسہ رہتا ہے اسی سے مدد چاہتا ہے، تمام کام اس کے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ہی ہو تے ہیں۔ اس لئے بعض غیر صحیح احادیث میں اس کے بعد یہ بھی آیا ہے کہ پھر وہ میرے ہی لئے سنتا ہے اور میرے ہی لئے دیکھتا ہے اور میرے لئے پکڑتا ہے اور میرے لئے ہی چلتا پھرتا ہے۔ آیت میں بیان ہے کہ ماں کے پیٹ سے وہ نکا لتا ہے، کان، آنکھ، دل، دماغ وہ دیتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو اور آیت میں فرمان ہے قل ھو الذی انشا کم وجعل لکم السمع والبصر الخ یعنی اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کر تے ہو، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تمہارا حشر کیا جانے والا ہے۔ پھر اللہ پاک رب العالمین اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ ان پرندوں کی طرف دیکھو جو آسمان و زمین کے درمیان کی فضا میں پر واز کر تے پھرتے ہیں، انہیں پروردگار ہی اپنی قدرت کا ملہ سے تھا مے ہوئے ہے۔ یہ قوت پر وازاسی نے انہیں دے رکھی ہے اور ہواؤں کو ان کا مطیع بنا رکھا ہے۔ سورہ ملک میں بھی یہی فرمان ہے کہ کیا وہ اپنے سروں پر اڑ تے ہوئے پرندوں کو نہیں دیکھتے ؟ جو پر کھولے ہوئے ہیں اور پر سمیٹے ہوئے بھی ہیں انہیں بجز اللہ رحمان و رحیم کے کون تھا متا ہے ؟ وہ اللہ تمام مخلوق کو بخوبی دیکھ رہا ہے، یہاں بھی خاتمے پر فرمایا کہ اس میں ایمانداروں کے لئے بہت سے نشان ہیں۔
قدیم اور بہت بڑے ان گنت احسانات و انعامات والا اللہ اپنی اور نعمتیں ظاہر فرما رہا ہے۔ اسی نے بنی آدم کے رہنے سہنے آرام اور راحت حاصل کرنے کے لئے انہیں مکانات دے رکھے ہیں۔ اسی طرح چوپائے، جانوروں کی کھالوں کے خیمے، ڈیرے، تمبواس نے عطا فرما رکھے ہیں کہ سفر میں کام آئیں، نہ لے جانا دو بھر نہ لگا نا مشکل، نہ اکھیڑ نے میں کوئی تکلیف۔ پھر بکریوں کے بال، اونٹو ں کے بال، بھیڑوں اور دنبوں کی اون، تجارت کے لئے مال کے طور پر اسے تمہارے لیے بنایا ہے۔ وہ گھر کے برتنے کی چیز بھی ہے اس سے کپڑے بھی بنتے ہیں، فرش بھی تیار ہو تے ہیں، تجارت کے طور پر مال تجارت ہے۔ فائدے کی چیز ہے جس سے لوگ مقر رہ وقت تک سود مند ہو تے ہیں۔ درختوں کے سائے اس نے تمہارے فائدے اور راحت کے لئے بنائے ہیں۔ پہاڑوں پر غار قلعے وغیرہ اس نے تمہیں دے رکھے ہیں کہ ان میں پناہ حاصل کرو۔ چھپنے اور ہنے سہنے کی جگہ بنا لو۔ سوتی، اونی اور با لوں کے کپڑے اس نے تمہیں دے رکھے ہیں کہ پہن کر سردی گرمی کے بچاؤ کے ساتھ ہی اپنا ستر چھپاؤ اور زیب وزینت حاصل کرو اور اس نے تمہیں زر ہیں، خود بکتر عطا فرمائے ہیں جو دشمنوں کے حملے اور لڑائی کے وقت تمہیں کام دیں۔ اسی طرح وہ تمہیں تمہاری ضرورت کی پوری پوری نعمتیں دئیے جاتا ہے کہ تم راحت وآ رام پاؤ اور اطمینان سے اپنے منعم حقیقی کی عبادت میں لگے رہو۔ تسلمون کی دوسری قرات تسلمون بھی ہے۔ یعنی تم سلامت رہو۔ اور پہلی قرات کے معنی تاکہ تم فرما نبرداربن جاؤ۔ اس سورہ کا نام سو رۃ النعم بھی ہے۔ لام کے زبر والی قرات سے یہ بھی مراد ہے کہ تم کو اس نے لڑائی میں کام آنے والی چیزیں دیں کہ تم سلامت رہو، دشمن کے وار سے بچو۔ بے شک جنگل اور بیابان بھی اللہ کی بڑی نعمت ہیں لیکن یہاں پہاڑوں کی نعمت اس لئے بیان کی کہ جب سے کلام ہے وہ پہاڑوں کے رہنے والے تھے تو ان کی معلو مات کے مطابق ان سے کلام ہو رہا ہے اسی طرح چونکہ وہ بھیڑ بکریوں اور اونٹوں والے تھے انہیں یہی نعمتیں یا ددلائیں حالانکہ ان سے بڑھ کر اللہ کی نعمتیں مخلوق کے ہاتھوں میں اور بھی بے شمار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سردی کے اتا رنے کا احسان بیان فرمایا حلا نکہ اس سے اور بڑے احسا نات موجود ہیں۔ لیکن یہ ان کے سامنے اور ان کی جانی پہچانی چیز تھی۔ اسی طرح چونکہ یہ لڑ نے بھڑ نے والے جنگجو لوگ تھے، لڑائی کے بچاؤ کی چیز بطور نعمت ان کے سامنے رکھی حالانکہ اس سے صدہا درجے بڑی اور نعمتیں بھی مخلوق کے ہاتھ میں موجود ہیں۔ اسی طرح چونکہ ان کا ملک گرم تھا فرمایا کہ لباس سے تم گرمی کی تکلیف زائل کر تے ہو ورنہ کیا اس سے بہتر اس منعم حقیقی کی اور نعمتیں بندوں کے پاس نہیں ؟
اسی لئے ان نعمتوں اور رحمتوں کے اظہار کے بعد ہی فرماتا ہے کہ اگر اب بھی یہ لوگ میری عبادت اور توحید کے اور میرے بے پا یاں احسانوں کے قائل نہ ہوں تو تجھے ان کی ایسی پڑی ہے ؟ چھوڑ دے اپنے کام میں لگ جا تجھ پر تو صرف تبلیغ ہی ہے وہ کئے جا۔ یہ خود جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نعمتوں کا دینے والا ہے اور اس کی بے شمار نعمتیں ان کے ہاتھوں میں ہیں لیکن باوجود علم کے منکر ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کر تے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کر تے ہیں سمجھتے ہیں کہ مددگار فلاں ہے رزق دینے والا فلاں ہے، یہ اکثرلوگ کافر ہیں، اللہ کے نا شکرے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا، آپ نے اس آیت کی تلاوت اس نے تمہیں چوپایوں کی کھا لوں کے خیمے دئیے اس نے کہا یہ بھی سچ ہے، اسی طرح آپ ان آیتوں کو پڑھتے گئے اور وہ ہر ایک نعمت کا اقرار کرتا رہا آخر میں آپ نے پڑھا اس لئے کہ تم مسلمان اور مطیع ہو جاؤ اس وقت وہ پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے آخری آیت اتاری کہ اقرار کے بعد انکار کر کے کافر ہو جاتے ہیں۔
قیامت کے دن مشرکوں کی جو بری حالت بنے گی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس دن ہر امت پر اس کا نبی گواہی دے گا کہ اس نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچا دیا تھا کافروں کو کسی عذر کی بھی اجازت نہ ملے گی کیونکہ ان کا بطلان اور جھوٹ بالکل ظاہر ہے۔ سو رۃ والمر سلات میں بھی یہی فرمان ہے کہ اس دن نہ وہ بولیں گے، نہ انہیں کسی عذر کی اجازت ملے گی۔ مشرکین عذاب دیکھیں گے لیکن پھر کوئی کمی نہ ہو گی ایک ساعت بھی عذاب ہلکا نہ ہو گا نہ انہیں کوئی مہلت ملے گی اچانک پکڑ لئے جائیں گے۔ جہنم آ موجود ہو گی جو ستر ہزار لگاموں والی ہو گی۔ جس کی ایک لگام پر ستر ہزار فرشتے ہو گے۔ اس میں سے ایک گر دن نکلے گی جو اس طرح پھن پھیلائے گی کہ تمام اہل محشر خوف زدہ ہو کر بل گر پڑیں گے۔ اس وقت جہنم اپنی زبان سے با آ واز بلند اعلان کرے گی کہ میں اس ہر ایک سر کش ضدی کے لئے مقرر کی گئی ہوں۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا ہو اور ایسے ایسے کام کئے ہوں چنانچہ وہ کئی قسم کے گنہگاروں کا ذکر کرے گی۔ جیسے کہ حدیث میں ہے پھر وہ ان تمام لوگوں کو لپٹ جائے گی اور میدان محشر میں سے انہیں لپک لے گی جیسے کہ پرند دانہ چگتا ہے۔ جیسے کہ فرمان باری ہے اذارایتھم الخ جب کہ وہ دور سے دکھائی دے گی تو اس کا شور وغل، کڑکنا، بھڑکنا یہ سننے لگیں گے اور جب اس کے تنگ و تاریک مکانوں میں جھونک دئیے جائیں تو موت کو پکاریں گے۔ آج ایک چھوڑ کئی ایک موتوں کو بھی پکاریں تو کیا ہو سکتا ہے؟ اور آیت میں ہے وراء المجر مون النار گنہگار جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ وہ اس میں جھونک دئے جائیں گے لیکن کوئی بچاؤ نہ پائیں گے۔ اور آیت میں ہے لو یعلم الذین کفروا کاش کہ کافر اس وقت کو جان لیتے جب کہ وہ اپنے چہروں پر سے اور اپنی کمروں پر سے جہنم کی آگ کو دور نہ کر سکیں گے نہ کسی کو مددگار پائیں گے اچانک عذاب الٰہی انہیں ہکا بکا کر دیں گے نہ انہیں ان کے دفع کرنے کی طاقت ہو گی نہ ایک منٹ کی مہلت ملے گی۔
اس وقت ان کے معبود ان باطل جن کی عمر بھر عبادتیں اور نذریں نیا زیں کر تے رہے ان سے بالکل بے نیاز ہو جائیں گے اور ان کی احتیاج کے وقت انہیں مطلقاً کام نہ آئیں گے۔ انہیں دیکھ کر یہ کہیں گے کہ اے اللہ یہ ہیں جنہیں ہم دنیا میں پوجتے رہے تو وہ کہیں گے جگوٹے ہو ہم نے کب تم سے کہا تھا کہ اللہ چھوڑ کر ہماری پر ستش کرو ؟ اسی کو جناب باری نے فرمایا ومن اضل ممن ید عو امن دون اللہ من لا یستجیب لہ الی یوم القیٰمۃ الخ یعنی اس سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو اسے قیامت تک جواب نہ دیں بلکہ وہ ان کے پکار نے سے بھی بے خبر ہوں اور حشر کے دن ان کے کر جنہیں یہ پکا رتے رہے وہ تو ان کی عبادتوں کے منکر ہو جائیں گے۔ اور ان کے مخالف بن جائیں گے خلیل اللہ علیہ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ ثم یوم القیمتہ یکفر بعضکم ببعض الخ یعنی قیامت کے دن ایک دوسروں کے منکر ہو جائیں گے۔ اور آیت میں ہے کہ انہیں قیامت کے دن حکم ہو گا کہ اپنے شریکوں کو پکا رو الخ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں۔
اس دن سب کے سب مسلمان تابع فرمان ہو جائیں گے جیسے فرمان ہے اسمع بھم وابصر یوم یا تو ننا یعنی جس دن یہ ہمارے پاس آئیں گے، اس دن خوب ہی سننے والے، دیکھنے والے ہو جائیں گے۔ اور آیت میں ہے ولو تری اذا لمجرمون نا کسوارو سھم الخ تو دیکھے گا کہ اس دن گنہگار لوگ اپنے سر جھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہم نے دیکھ سن لیا، الخ۔ اور آیت میں ہے کہ سب چہرے اس دن اللہ حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے، تابع اور مطیع ہو گے، زیر فرمان ہوں گے۔ ان کے سارے بہتان وافترا جاتے رہیں گے۔ ساری چالا کیاں ختم ہو جائیں گی کوئی ناصر و مددگار کھڑا نہ ہو گا۔ جنہوں نے کفر کیا، انہیں ان کے کفر کی سزا ملے گی اور دوسروں کو بھی حق سے دور بھگاتے رہتے تھے دراصل وہ خود ہی ہلا کت کے دلدل میں پھنس رہے تھے لیکن بے وقوف تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے عذاب کے بھی درجے ہوں گے، جس طرح مومنوں کے جزا کے درجے ہوں گے جیسے فرمان الٰہی ہے لکل ضعف ولکن لا تعلمون ہر ایک کے لیے دوہرا اجر ہے لیکن تمہیں علم نہیں۔ ابو یعلی میں حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ عذاب جہنم کے ساتھ ہی زہریلے سانپوں کا ڈسنا بڑھ جائے گا جو اتنے بڑے بڑے ہوں گے جتنے بڑے کھجور کے درخت ہو تے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عرش تلے سے پانچ نہریں آتی ہیں جن سے دوزخیوں کو دن رات عذاب ہو گا۔
اللہ تعالیٰ اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کر کے فرما رہے ہیں کہ اس دن کو یاد کر اور اس دن جو تیری شر افت و کرامت ہو نے والی ہے اس کا بھی ذکر کر۔ یہ آیت بھی ویسی ہی ہے جیسی سورہ نساء کے شروع کی آیت فکیف اذا جئنا من کل امتہ بشھید و جئنا بک علی ھو لاء شھیدا یعنی کیونکر گزرے گی جب کہ ہم ہر امت میں سے گواہ لائیں گے اور ان سب پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار حضرت عبد اللہ بن مسعود سے سورہ نساء پڑھوائی جب وہ اس آیت تک پہنچے تو آپ نے فرمایا بس کر کافی ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ اس وقت آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ پھر فرماتا ہے اپنی اس اتاری ہوئی کتاب میں تیرے سامنے سب کچھ بیان فرما دیا ہے ہر علم اور ہر شے اس قرآن میں ہے۔ ہر حلال حرام، ہر ایک نافع علم، ہر بھلائی گذشتہ کی خبریں، آئندہ کے واقعات، دین دنیا، معاش معاد، سب کے ضروری احکام و احوال اس میں موجود ہیں۔ یہ دلوں کی ہدایت ہے، یہ رحمت ہے، یہ بشارت ہے۔ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ کتاب سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ملا کر ہر چیز کا بیان ہے۔ اس آیت کو اوپر والی آیت سے غالباً یہ تعلق ہے کہ جس نے تجھ پر اس کتاب کی تبلیغ فرض کی ہے اور اسے نازل فرمایا ہے وہ قیامت کے دن تجھ سے اس کی با بت سوال کرنے والا ہے جیسے فرمان ہے کہ امتوں اور رسو لوں سے سب سے سوال ہو گا۔ واللہ ہم سب سے ان کے اعمال کی باز پرس کریں گے۔ رسولوں کو جمع کر کے ان سے سوال ہو گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے، ہمیں کوئی علم نہیں، تو علام الغیوب ہے۔ اور آیت میں ہے ان لذی فرض علیک القران لر ادک الی معاد یعنی جس نے تجھ پر تبلیغ قرآن فرض کی ہے، وہ تجھے قیامت کے دن اپنے پاس لوٹا کر اپنے سو نپے ہوئے فریضے کی با بت تجھ سے پر سش کرنے والا ہے۔ یہ ایک قول بھی اس آیت کی تفسیر میں ہے اور ہے بھی معقول اور عمدہ۔
اللہ سبحا نہ و تعالیٰ اپنے بندوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور سلوک واحسان کی رہنمائی کرتا ہے گو بدلہ لینا بھی جائز ہے جیسے آیت وان عاقبتم الخ میں فرمایا کہ اگر بدلہ لے سکو تو برابر برابر کا بدلہ لو لیکن اگر صبر و بردا شت کر لو تو کیا ہی کہنا یہ بڑی مر دانگی کی بات ہے۔ اور آیت میں فرمایا اس کا اجر خدا کے ہاں ملے گا۔ ایک اور آیت میں ہے زخموں کا قصاص ہے لیکن جو درگزر کر جائے اس کے گناہوں کی معافی ہے۔ پس عدل تو فرض، احسان نفل اور کلمہ توحید کی شہادت بھی عدل ہے۔ ظاہر باطن کی پاکیزگی بھی عدل ہے اور احسان یہ ہے کہ با کی صفائی ظاہر سے بھی زیادہ ہو۔ اور فحشاء اور منکر یہ ہے کہ باطن میں کھوٹ ہو اور ظاہر میں بناوٹ ہو۔ وہ صلہ رحمی کا بھی حکم دیتا ہے۔ جیسے صاف لفظوں میں ارشاد وات ذا لقربی حقہ الخ۔ رشتے داروں، مسکینوں، مسافروں کو ان کا حق دو اور بے جا خرچ نہ کرو۔ محرمات سے وہ تمہیں روکتا ہے، برا ئیوں سے منع کرتا ہے ظاہری باطنی تمام برائیاں حرام ہیں۔ لوگوں پر ظلم و زیادتی حرام ہے۔ حدیث میں ہے کہ کوئی گناہ ظلم و زیادتی اور قطع رحمی سے بڑھ کر ایسا نہیں کہ دنیا میں بھی جلدی ہی اس کا بدلہ ملے اور آخرت میں بھی سخت پکڑ ہو۔ اللہ کے یہ احکام اور یہ نواہی تمہاری نصیحت کے لئے ہیں جو اچھی عادتیں ہیں، ان کا حکم قرآن نے دیا ہے اور جو بری خصلتیں لوگوں میں ہیں ان سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے، بد خلقی اور برائی سے اس نے مما نعت کر دی ہے۔ حدیث شریف میں ہے بہترین اخلاق اللہ کو پسند ہیں اور بد خلقی کو وہ مکر وہ رکھتا ہے۔ اکثم بن صیفی کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی با بت اطلاع ہوئی تو اس نے خدمت نبوی میں حاضر ہو نے کی ٹھان لی لیکن اس کی قوم اس کے سر ہو گئی اور اسے روک لیا اس نے کہا اچھا مجھے نہیں جانے دیتے تو قاصد لاؤ جنہیں میں وہاں بھیجوں۔ دو شخص اس خدمت کی انجام دہی کے لئے تیار ہوئے یہاں آ کر انہوں نے کہا کہ ہم اکثم بن صیفی کے قاصد ہیں وہ آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ کون ہیں اور کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ میں محمد بن عبد اللہ ہوں (صلی اللہ علیہ و سلم ) اور دوسرے سو ال کا جواب یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول۔ پھر آپ نے یہی آیت انہیں پڑھ سنائی انہوں نے کہا عوبا رہ پڑھئے۔ آپ نے پھر پڑھی، یہاں تک کہ انہوں نے یاد کر لی پھر واپس جا کر اکثم کو خبر دی اور کہا اپنے نسب پر اس نے کوئی فخر نہیں کیا۔ صرف اپنا اور اپنے والد کا نام بتا دیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہیں وہ بڑے نسب والے، مضر میں اعلی خاندان کے ہیں اور پھر یہ کلمات ہمیں تعلیم فرمائے جو آپ کی زبانی ہم نے سنے۔ یہ سن کر اکثم نے کہا وہ تو بڑی اچھی اور اعلی باتیں سکھاتے ہیں اور بری اور سفلی باتوں سے روکتے ہیں۔ میرے قبیلے کے لوگو تم اسلام کی طرف سبقت کرو تاکہ تم دوسروں پر سرداری کرو اور دوسروں کے ہاتھوں میں دمیں بن کر نہ رہ جاؤ۔ اس آیت کے شان نزول میں ایک حسن حدیث مسند امام احمد میں وارد ہوئی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی انگنائی میں بھٹھے ہوئے تھے کہ عثمان بن مظعون آپ کے پاس سے گزرے آپ نے فرمایا بیٹھتے نہیں ہو ؟ وہ بیٹھ گیا، آپ اس کی طرف متوجہ ہو کر باتیں کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم دفعتہ اپنی نظریں آسمان کی جانب اٹھائیں کچھ دیر اوپر ہی کو دیکھتے رہے، پھر نگاہیں آ ہستہ آہستہ نیچی کیں اور اپنی دائیں جانب زمین کی طرف دیکھنے لگے اور اسی طرف آپ نے رخ بھی کر لیا اور اس طرح سر ہلا نے لگے گویا کسی سے کچھ سمجھ رہے ہیں اور کوئی آپ سے کچھ کہہ رہا ہے تھوڑی دیر تک یہی حالت طاری رہی پھر آپ نے اپنی نگاہیں اونچی کرنی شروع کیں، یہاں تک کہ آسمان تک آپ کی نگاہیں پہنچیں پھر آپ ٹھیک ٹھاک ہو گئے اور اسی پہلی بیٹھک پر عثمان کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے۔ وہ یہ سب دیکھ رہا تھا، اس سے صبر نہ ہو سکا، پوچھا کہ حضرت آپ کے پاس کئی بار بیٹھنے کا اتفاق ہوا لیکن آج جیسا منظر تو کبھی نہیں دیکھا، آپ نے پوچھا تم نے کیا دیکھا ؟ اس نے کہا یہ کہ آپ نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی پھر نیچی کر لی اور اپنے دائیں طرف دیکھنے لگے اور اسی طرف گھوم کر بیٹھ گئے، مجھے چھوڑ دیا، پھر اس طرح سر ہلا نے لگے جیسے کوئی آپ سے کچھ کہہ رہا ہو۔ اور آپ اسے اچھی طرح سن سمجھ رہے ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھا تم نے یہ سب کچھ دیکھا ؟ اس نے کہا برابر دیکھتا ہی رہا۔ آپ نے فرمایا میرے پاس اللہ کا نازل کردہ فرشتہ وحی لے کر آیا تھا اس نے کہا اللہ کا بھیجا ہوا ؟ آپ نے فرمایا ہاں، ہاں اللہ کا بھیجا ہو ا۔ پوچھا پھر اس نے آپ سے کیا کہا ؟ آپ نے یہی آیت پڑھ سنائی۔ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسی وقت میرے دل میں ایمانبیٹھ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت نے میرے دل میں گھر کر لیا۔ ایک اور روایت میں حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا جو آپ نے اپنی نگاہیں اوپر کو اٹھائیں اور فرمایا جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اس آیت کو اس سورت کی اس جگہ رکھوں یہ روایت بھی صحیح ہے واللہ !علم۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عہد و پیمان کی حفاظت کریں قسموں کو پورا کریں۔ توڑیں نہیں۔ قسموں کو نہ توڑ نے کی تاکید کی اور آیت میں فرمایا کہ اپنی قسموں کا نشانہ اللہ کو نہ بناؤ۔ اس سے بھی قسموں کی حفاظت کرنے کی تاکید مقصود ہے اور آیت میں ہے کہ قسم توڑ نے کا کفارہ ہے قسموں کی پوری حفاظت کرو۔ پس ان آیتوں میں یہ حکم ہے۔ اور بخاری و مسلم کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں واللہ میں جس چیز پر قسم کھا لوں اور پھر اس کے خلاف میں بہتری دیکھوں تو انشاء اللہ تعالیٰ ضرور اس نیک کام کو کروں گا اور اپنی قسم کا کفارہ دے دونگا۔ تو مندرجہ بالا آیتوں اور احادیث میں کچھ فرق نہ سمجھا جائے وہ قسمیں اور عہد وپیمان جو آ پس کے معاہدے اور وعدے کے طور پر ہوں ان کا پورا کرنا تو بے شک بے حد ضر وری ہے اور جو قسمیں رغبت دلا نے یا روکنے کے لئے زبان سے نکل جائیں، وہ بے شک کفارہ دے کر ٹوٹ سکتی ہیں۔ پس اس آیت میں مراد جاہلیت کے زمانے جیسی قسمیں ہیں۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اسلام میں دو جماعتوں کی اپس میں ایک کی قسم کوئی چیز نہیں ہاں جاہلیت میں ایسی امداد و اعانت کی جو قسمیں آ پس میں ہو چکی ہیں اسلام ان کو اور مضبوط کرتا ہے۔ اس حدیث کے پہلے جملے کے یہ معنی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں کہ ایک برادری والے دوسری برادری کر دیتا ہے۔ مشرق مغرب کے مسلمان ایک دوسرے کے ہمدرد و غم خوار ہیں۔ بخاری مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں رسول کریم علیہ افضل التسلیم نے انصار و مہاجرین میں باہم قسمیں اٹھوائیں۔ اس سے یہ ممنوع بھائی بندی مراد نہیں یہ تو بھائی چارہ تھا جس کی بنا پر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہو تے تھے۔ آخر میں یہ حکم منسوع بھائی بندی مراد نہیں یہ تو بھائی چارہ تھا جس کی بنا پر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہو تے تھے۔ آخر میں یہ حکم منسوخ ہو گیا اور ورثہ قریبی رشتے داروں سے مخصوص ہو گیا۔ کہتے ہیں اس فرمان الٰہی سے مطلب ان مسلمانوں کو اسلام پر جمع رہنے کا حکم دینا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسلمانوں کی جماعت کی کمی اور مشرکوں کی جماعت کی کثرت دیکھ کر تم اسے توڑ دو۔ مسند احمد میں ہے کہ جب یزید بن معاویہ کی بیعت لوگ توڑ نے لگے تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے اپنے تمام گھرانے کے لوگوں کو جمع کیا اور اللہ کی تعریف کر کے اما بعد کہہ کر ہم نے یزید کی بیعت اللہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بیعت پر کی ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ ہر غدار کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ یہ غدار ہے فلاں بن فلاں کا۔ اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے بعد سب سے بڑا اور سب سے برا غدر یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی بیعت کسی کے ہاتھ پر کر کے پھر توڑ دینا یاد رکھو تم میں سے کوئی یہ برا کام نہ کرے اور اس بارے میں حد سے نہ بڑھے ورنہ مجھ میں اور اس میں جدائی ہے۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو شخص کسی مسلمان بھائی سے کوئی شرط کرے اور اسے پورا کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو وہ مثل اس شخص کے ہے جو اپنے پڑوسی کو امن دینے کے بعد بے پناہ چھوڑ دے پھر انہیں دھمکاتا ہے جو عہد و پیمان کی حفاظت نہ کریں کہ ان کے اس فعل سے اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے۔
مکہ میں ایک عورت تھی جس کی عقل میں فتور تھا سوت کا تنے کے بعد، ٹھیک ٹھاک اور مضبوط ہو جانے کے بعد بے وجہ توڑ تاڑ کر پھر ٹکڑے کر دیتی۔ یہ تو اس کی مثال ہے جو عہد کو مضبوط کر کے پھر توڑ دے۔ یہی بات ٹھیک ہے اب اسے جانے دیجئے کہ واقعہ میں کوئی ایسی عورت تھی بھی یا نہیں جو یہ کرتی ہو نہ کرتی ہو یہاں تو صرف مثال مقصود ہے۔ انکاثا کے معنی ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ ممکن ہے کہ یہ نقضت غز لھا کا اسم مصدر ہو۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بدل ہو کان کی کبر کا یعنی انکاث نہ ہو جمع مکث کی ناکث سے۔ پھر فرماتا ہے کہ قسموں کو مکر و فریب کا ذریعہ نہ بناؤ کہ اپنے سے بڑوں کو اپنی قسموں سے اطمینان دلاؤ اور اپنی ایمانداری اور نیک نیتی کا سکہ بٹھا کر پھر غداری اور بے ایمانی کر جاؤ ان کی کثرت دیکھ کر جھوٹے وعدے کر کے صلح کر لو اور پھر موقع پا کر لڑائی شروع کر دو ایسا نہ کرو۔ پس جب کہ اس حالت میں بھی عہد شکنی حرام کر دی تو اپنے جمعیت اور کثرت کے وقت تو بطور اولی حرام ہوئی۔ بحمد اللہ ہم سورہ انفال میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قصہ لکھ آئے ہیں کہ ان میں اور شاہ روم میں ایک مدت تک کے لئے صلح نامہ ہو گیا تھا اس مدت کے خاتمے کے قریب آپ نے مجاہدین کو سرحد روم کی طرف روانہ کیا کہ وہ سرحد پر پڑاؤ ڈالیں اور مدت کے ختم ہو تے ہی دھاوا بول دیں تاکہ رومیوں کو تیاری کا موقعہ نہ ملے۔ جب حضرت عمر و بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ہوئی تو آپ امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ جس قوم سے عہد معاہدہ ہو جائے تو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ ہو جائے کوئی گرہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں۔ یہ سنتے ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکروں کو واپس بلوا لیا۔ ازبی سے مراد اکثر ہے۔ اس جملے کا یہ بھی مطلب ہے کہ دیکھا کہ دشمن قوی اور زیادہ ہے صلح کر لی اور اس صلح کو ذریعہ فریب بنا کر انہیں غافل کر کے چڑھ دوڑے اور یہ بھی مطلب ہے کہ ایک قوم سے معاہدہ کر لیا پھر دیکھا کہ دوسری قوم ان سے زیادہ قوی ہے، اس سے معاملہ کر لیا اور اگلے معاہدے کو توڑ دیا یہ سب منع ہے۔ اس کثرت سے اللہ تمہیں آزماتا ہے۔ یا یہ کہ اپنے حکم سے یعنی پا بندی وعدہ کے حکم سے اللہ تمہاری آزمائش کرتا ہے اور تم میں صحیح فیصلے قیامت کے دن وہ خود کر دے گا۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا نیکوں کو نیک، بدوں کو بد۔
اگر اللہ چاہتا تو دنیا بھر کا ایک ہی مذہب و مسلک ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا (ترجمہ) یعنی اللہ کی چاہت ہوتی تو اے لوگو تم سب کو وہ ایک ہی گروہ کر دیتا۔ ایک اور آیت میں ہے کہ اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین کے سب لوگ با ایمان ہی ہوتے۔ یعنی ان میں موافقت یگانگت ہوتی۔ اختلاف و بغض بالکل نہ ہوتا۔ تیرا رب قادر ہے اگر چاہے تو سب لوگوں کو ایک ہی امت کر دے لیکن یہ تو متفرق ہی رہیں گے مگر جن پر تیرے رب کا رحم ہو، اسی لئے انہیں پیدا کیا ہے۔ ہدایت و ضلالت اسی کے ہاتھ ہے۔ قیامت کے دن وہ حساب لے گا، پوچھ گچھ کرے گا اور چھوٹے بڑے، نیک بد، کل اعمال کا بدلہ دے گا۔ پھر مسلمانوں کو دایت کرتا ہے کہ قسموں کو، عہد و پیمان کو، مکاری کا ذریعہ نہ بناؤ ورنہ ثابت قدمی کے بعد پھسل جاؤ گے۔ جیسے کوئی سیدھی راہ سے بھٹک جائے اور تمہارا یہ کام اوروں کے بھی راہ حق سے ہٹ جانے کا سبب بن جائے گا جس کا بدترین و بال تم پر پڑے گا۔ کیونکہ کفار جب دیکھیں گے کہ مسلمانوں نے عہد کر کے توڑ دیا، وعدے کا خلاف کیا تو انہیں دین پر وثوق و اعتماد نہ رہے گا پس وہ اسلام کو قبول کرنے سے رک جائیں گے اور چونکہ ان کے اس رکنے باعث چونکہ تم بنو گے اس لئے تمہیں بڑا عذاب ہو گا اور سخت سزا دی جائے گی۔ اللہ کو بیچ میں رکھ کر جو وعدے کرو اس کی قسمیں کھا کر جو عہد و پیمان ہوں انہیں دنیوی لالچ سے توڑ دینا یا بدل دینا تم پر حرام ہے گو ساری دنیا اصل ہو جائے تاہم اس حرمت کے مرتکب نہ بنو۔ کیونکہ دنیا ہیچ ہے، اللہ کے پاس جو ہے، وہی بہتر ہے اس جزا اور اس ثواب کی امید رکھو جو اللہ کی اس بات پر یقین رکھے، اسی کا طالب رہے اور حکم الٰہی کی پابندی کے ماتحت اپنے وعدوں کی نگہبانی کرے، اس کے لئے جو اجر و ثواب اللہ کے پاس ہے وہ ساری دنیا سے بہت زیادہ اور بہتر ہے۔ اسے اچھی طرح جان لو، نادانی سے ایسا نہ کرو کہ ثواب آخرت ضائع ہو جائے بلکہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔ سنو دنیا کی نعمتیں زائل ہونے والی ہیں اور آخرت کی نعمتیں لازوال اور ابدی ہیں۔ مجھے قسم ہے جن لوگوں نے دنیا میں صبر کیا، میں انہیں قیامت کے دن ان کے بہترین اعمال کا نہایت اعلیٰ صلہ عطا فرماؤں گا اور انہیں بخش دوں گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہ اپنے ان بندوں سے جو اپنے دل میں اللہ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان کامل رکھیں اور کتاب و سنت کی تابعداری کے ماتحت نیک اعمال کریں، وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں دنیا میں بھی بہترین اور پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا۔ عمدگی سے ان کی عمر بسر ہو گی، خواہ وہ مرد ہوں، خواہ عورتیں ہوں، ساتھ ہی انہیں اپنے پاس دار آخرت میں بھی ان کی نیک اعمالیوں کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا۔ دنیا میں پاک اور حلال روزی، قناعت، خوش نفسی، سعادت، پاکیزگی، عبادت کا لطف، اطاعت کا مزہ، دل کی ٹھنڈک، سینے کی کشادگی، سب ہی کچھ اللہ کی طرف سے ایماندار نیک عامل کو عطا ہوتی ہے۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اس نے فلاح حاصل کر لی جو مسلمان ہو گیا اور برابر سرابر روزی دیا گیا اور جو ملا اس پر قناعت نصیب ہوئی اور حدیث میں ہے جسے اسلام کی راہ دکھا دی گئی اور جسے پیٹ پالنے کا ٹکڑا میسر ہو گیا اور اللہ نے اس کے دل کو قناعت سے بھر دیا، اس نے نجات پا لی (ترمذی) صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ان کی نیکی کا بدلہ دنیا میں عطا فرماتا ہے اور آخرت کی نیکیاں بھی انہیں دیتا ہے، ہاں کافر اپنی نیکیاں دنیا میں ہی کھا لیتا ہے آخرت کے لئے اس کے ہاتھ میں کوئی نیک باقی نہیں رہتی۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی اپنے مومن بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے وہ اعوذ پڑھ لیا کریں۔ یہ حکم فرضیت کے طور پر نہیں۔ ابن جریر وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ آعوذ کی پوری بحث مع معنی وغیرہ کے ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں فالحمد اللہ۔ اس حکم کی مصلحت یہ ہے کہ قاری قرآن میں الھے، غور و فکر سے رک جانے اور شیطانی وسوسوں میں آنے سے بچ جائے۔ اسی لئے جمہور کہتے ہیں کہ قرات شروع کرنے سے پہلے آعوذ پڑھ لیا کر۔ کسی کا قول یہ بھی ہے کہ ختم قرات کے بعد پڑھے۔ ان کی دلیل یہی آیت ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور احادیث کی دلالت بھی اس پر ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ ایماندار متوکلین کو وہ ایسے گناہوں میں پھانس نہیں سکتا، جن سے وہ توبہ ہی نہ کریں۔ اس کی کوئی حجت ان کے سامنے چل نہیں سکتی، یہ مخلص بندے اس کے گہرے مکر سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہاں جو اس کی اطاعت کریں، اس کے کہے میں آ جائیں، اسے اپنا دوست اور حمایتی ٹھہرا لیں۔ اسے اللہ کی عبادتوں میں شریک کرنے لگیں۔ ان پر تو یہ چھا جاتا ہے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ “ب” کو سبیبہ بتلائیں یعنی وہ اس کی فرمانبرداری کے باعث اللہ کے ساتھ شرکت کرنے لگ جائیں، یہ معنی بھی ہیں کہ وہ اسے اپنے مال میں، اپنی اولاد میں شریک الہ ٹھیرا لیں۔
مشرکوں کی عقلی، بے ثباتی اور بے یقینی کا بیان ہو رہا ہے کہ انہیں ایمان کیسے نصیب ہو؟ یہ تو ازلی بدنصیب ہیں، ناسخ منسوخ سے احکام کی تبدیلی دیکھ کر بکنے لگتے ہیں کہ لو صاحب ان کا بہتان کھل گیا، اتنا نہیں جانتے کہ قادر مطلق اللہ جو چاہے کرے جو ارادہ کرے، حکم دے، ایک حکم کو اٹھا دے دوسرے کو اس کی جگہ رکھ دے۔ جیسے آیت ماننسخ الخ میں فرمایا ہے۔ پاک روح یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام اسے اللہ کی طرف سے حقانیت و صداقت کے عدل و انصاف کے ساتھ لے کر تیری جانب آتے ہیں تاکہ ایماندار ثابت قدم ہو جائیں، اب اترا، مانا، پھر اترا، پھر مانا، ان کے دل رب کی طرف جھکتے رہیں، تازہ تازہ کلام الٰہی سنتے رہیں، مسلمانوں کے لئے ہدایت و بشارت ہو جائے، اللہ اور سول اللہ کے ماننے والے راہ یافتہ ہو کر خوش ہو جائیں۔
کافروں کی ایک بہتان بازی بیان ہو رہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسے یہ قرآن ایک انسان سکھاتا ہے۔ قریش کے کسی قبیلے کا ایک عجمی غلام تھا، صفا پہاڑی کے پاس خرید و فروخت کیا کرتا تھا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کبھی کبھی اس کے پاس بیٹھ جایا کرتے تھے اور کچھ باتیں کر لیا کرتے تھے، یہ شخص صحیح عربی زبان بولنے پر بھی قادر نہ تھا۔ ٹوٹی پھوٹی زبان میں بمشکل اپنا مطلب ادا کر لیا رتا تھا۔ اس افتا کا جواب جناب باری دیتا ہے کہ وہ کیا سکھائے گا جو خود بولنا نہیں جانتا، عجمی زبان کا آدمی ہے اور یہ قرآن تو عربی زبان میں ہے، پھر فصاحت و بلاغت والا، کمال و سلاست والا، عمدہ اور اعلیٰ پاکیزہ اور بالا۔ معنی، مطلب، الفاظ، واقعات ہیں۔ سب سے نرالا بنی اسرائیل کی آسمانی کتابوں سے بھی زیادہ منزلت اور رفعت والا۔ وقعت اور عزت والا۔ تم میں اگر ذرا سی عقل ہوتی تو یوں ہتھیلی پر چراغ رکھ کر چوری کرنے کو نہ نکلتے، ایسا جھوٹ نہ بکتے، جو بیوقوفوں کے ہاں بھی نہ چل سکے۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ ایک نصرانی غلام جسے جبر کہا جاتا تھا جو بنو حضرمی قبیلے کے کسی شخص کا غلام تھا، اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مروہ کے پاس بیٹھ جایا کرتے تھے، اس پر مشرکین نے یہ بے پر کی اڑائی کہ یہ قرآن اسی کا سکھایا ہوا ہے اس کے جواب میں یہ آیت اتری۔ کہتے ہیں کہ اس کا نام یعیش تھا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں مکہ شریف میں ایک لوہار تھا جس کا نام بلعام تھا۔ یہ عجمی شخص تھا، اسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم تعلیم دیتے تھے تو آپ کا اس کے پاس آنا جانا دیکھ کر قریش مشہور کرنے لگے کہ یہی شخص آپ کو کچھ سکھاتا ہے اور آپ اسے کلام اللہ کے نام سے اپنے حلقے میں سکھاتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے مراد اس سے سلمان فارسی ہیں رضی اللہ عنہ۔ لیکن یہ قول تو نہایت بودا ہے کیونکہ حضرت سلمان تو مدینے میں آپ سے ملے اور یہ آیت مکے میں اتری ہے۔ عبید اللہ بن مسلم کہتے ہیں ہمارے دو مقامی آدمی روم کے رہنے والے تھے جو اپنی زبان میں اپنی کتاب پڑھتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی جاتے آتے کبھی ان کے پاس کھڑے ہو کر سن لیا کرتے، اس پر مشرکین نے اڑایا کہ انہی سے آپ قرآن سیکھتے ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری، سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مشرکین میں سے ایک شخص تھا جو وحی لکھا کرتا تھا، اس کے بعد وہ اسلام سے مرتد ہو گیا اور یہ بات گھڑلی۔ اللہ کی لعنت ہو اس پر۔
جو اللہ کے ذکر سے منہ موڑے، اللہ کی کتاب سے غفلت کرے، اللہ کی باتوں پر ایمان لانے کا قصد ہی نہ رکھے ایسے لوگوں کو اللہ بھی دور ڈال دیتا ہے انہیں دین حق کی توفیق ہی نہیں ہوتی آخرت میں سخت درد ناک عذابوں میں پھنستے ہیں۔ پھر بیان فرمایا کہ یہ رسول سلام علیہ اللہ پر جھوٹ و افترا باندھنے والے نہیں، یہ کام تو بدترین مخلوق کا ہے جو ملحد و کافر ہوں ان کا جھوٹ لوگوں میں مشہور ہوتا ہے اور آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم تو تمام مخلوق سے بہتر و افضل دین دار، اللہ شناس، سچوں کے سے ہیں۔ سب سے زیادہ کمال علم و ایمان، عمل و نیکی میں آپ کو اصل ہے۔ سچائی میں، بھلائی میں، یقین میں، معرفت میں، آپ کا ثانی کوئی نہیں۔ ان کافروں سے ہی پوچھ لو یہ بھی آپ کی صداقت کے قائل ہیں۔ آپ کی امانت کے مداح ہیں۔ آپ ان میں محمد امین کے ممتاز لقب سے مشہور معروف ہیں۔ شاہ روم ہرقل نے جب ابوسفیان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت بہت سے سوالات کئے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ دعویٰ نبوت سے پہلے تم نے اسے کبھی جھوٹ کی طرف نسبت کی ہے؟ ابوسفیان نے جواب دیا کبھی نہیں اس پر شاہ نے کہا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک وہ شخص جس نے دنیوی معاملات میں لوگوں کے بارے میں کبھی بھی جھوٹ کی گندگی سے اپنی زبان خراب نہ کی ہو وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان کے بعد کفر کریں دیکھ کر اندھے ہو جائیں پھر کفر یہ ان کا سینہ کھل جائے، اس پر اطمینان کر لیں۔ یہ اللہ کی غضب میں گرفتار ہوتے ہیں کہ ایمان کا علم حاصل کر کے پھر اس سے پھر گئے اور انہیں آخرت میں بڑا سخت عذاب ہو گا۔ کیونکہ انہوں نے آخرت بگاڑ کر دنیا کی محبت کی اور صرف دنیا طلبی کی وجہ سے اسلام پر مرتد ہونے کو ترجیح دی چونکہ ان کے دل ہدایت حق سے خالی تھے، اللہ کی طرف سے ثابت قدمی انہیں نہ ملی۔ دلوں پر مہریں لگ گئیں، نفع کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کان اور آنکھیں بھی بے کار ہو گئیں نہ حق سن سکیں نہ دیکھ سکیں۔ پس کسی چیز نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور اپنے انجام سے غافل ہو گئے۔ یقیناً ایسے لوگ قیامت کے دن اپنا اور اپنے ہم خیال لوگوں کا نقصان کرنے والے ہیں۔ پہلی آیت کے درمیان جن لوگوں کا استثناء کیا ہے یعنی وہ جن پر جبر کیا جائے اور ان کے دل ایمان پر جمعے ہوئے ہوں، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو بہ سبب مار پیٹ اور ایذاؤں کے مجبور ہو کر زبان سے مشرکوں کی موافقت کریں لیکن ان کا دل وہ نہ کہتا ہو بلکہ دل میں اللہ پر اور اس کے رسول پر کامل اطمینان کے ساتھ پورا ایمان ہو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے جب کہ آپ کو مشرکین نے عذاب کرنا شروع کیا جب تک کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کفر نہ کریں۔ پس بادل ناخواستہ مجبوراً اور کرہاً آپ نے ان کی موافقت کی، پھر اللہ کے نبی کے پاس آ کر عذر بیان کرنے لگے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ شعبی، قتاوہ اور ابومالک بھی یہی کہتے ہیں۔ ابن جریر میں ہے کہ مشرکوں نے آپ کو پکڑا اور عذاب دینے شروع کئے، یہاں تک کہ آپ ان کے ارادوں کے قریب ہو گئے۔ پھر حضور علیہ السلام کے پاس آ کر اس کی شکایت کرنے لگے تو آپ نے پوچھا تم اپنے دل کا حال کیسا پاتے ہو؟ جواب دیا کہ وہ تو ایمان پر مطمئن ہے، جما ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا اگر وہ پھر لوٹیں تو تم بھی لوٹنا۔ بیہقی میں اسے بھی زیادہ تفصیل سے ہے اس میں ہے کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو برا بھلا کہا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر سے کیا پھر آپ کے پاس آ کر اپنا یہ دکھ بیان کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انہوں نے اذیت دینا ختم نہیں کیا جب تک کہ میں نے آپ کو برا بھلا نہ کہہ لیا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر سے نہ کیا۔ آپ نے فرمایا تم اپنا دل کیسا پاتے ہو؟ جواب دیا کہ ایمان پر مطمئن۔ فرمایا اگر وہ پھر کریں تو تم بھی پھر کر لینا۔ اسی پر یہ آیت اتری۔ پس علماء کرام کا اتفاق ہے کہ جس پر جبر و کراہ کیا جائے، اسے جائز ہے کہ اپنی جان بچانے کے لئے ان کی موافقت کر لے اور یہ بھی جائز ہے کہ ایسے موقعہ پر بھی ان کی نہ مانے جیسے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کر کے دکھایا کہ مشرکوں کی ایک نہ مانی حالانکہ وہ انہیں بدترین تکلیفیں دیتے تھے یاں تک کہ سخت گرمیوں میں پوری تیز دھوپ میں آپ کو لٹا کر آپ کے سینے پر بھاری وزنی پتھر رکھ دیا کہ اب بھی شرک کرو تو نجات پاؤ لیکن آپ نے پھر بھی ان کی نہ مانی صاف انکار کر دیا اور اللہ کی توحید احد احد کے لفظ پتھر رکھ دیا کہ اب بھی رشک کرو تو نجات پاؤ لیکن آپ نے پھر بھی ان کی نہ مانی صاف انکار کر دیا اور اللہ کی توحید احد احد کے لفظ سے بیان فرماتے رہے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ “واللہ اگر اس سے بھی زیادہ تمہیں چبھنے والا کوئی لفظ میرے علم میں ہوتا تو میں سے بیان فرماتے رہے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ “واللہ اگر اس سے بھی زیادہ تمہیں چبھنے والا کوئی لفظ میرے علم میں ہوتا تو میں وہی کہتا اللہ ان سے راضی رہے اور انہیں بھی ہمیشہ راضی رکھے۔ “ اسی طرح حضرت خیب بن زیاد انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ جب ان سے مسیلمہ کذاب نے کہا کہ کیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر اس نے آپ سے پوچھا کہ کیا میرے رسول اللہ ہونے کی بھی گواہی دیتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا میں نہیں سنتا۔ اس پر اس جھوٹے مدعی نبوت نے ان کے جسم کے ایک عضو کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا پھر یہی سوال جواب ہوا۔ دوسرا عضو جسم کٹ گیا یونہی ہوتا رہا لیکن آپ آخر دم تک اسی پر قائم رہے، اللہ آپ سے خوش ہو اور آپ کو بھی خوش رکھے۔ مسند احمد میں ہے کہ جو چند لوگ مرتد ہو گئے تھے، انہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگ میں جلوا دیا، جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا میں تو انہیں آگ میں نہ جلاتا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ اللہ کے عذاب سے تم عذاب نہ کرو۔ ہاں بے شک میں انہیں قتل کرا دیتا۔ اس لئے کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ جو اپنے دین کو بدل دے اسے قتل کر دو۔ جب یہ خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو آپ نے فرمایا ابن عباس کی ماں پر افسوس۔ اسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی وارد کیا ہے۔ مسند میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ ایک شخص ان کے پاس ہے۔ پوچھا یہ کیا؟ جواب ملا کہ یہ ایک یہودی تھا، پھر مسلمان ہو گیا اب پھر یہودی ہو گیا ہے۔ ہم تقریباً دو ماہ سے اسے اسلام پر لانے کی کوشش میں ہیں، تو آپ نے فرمایا واللہ میں بیٹھوں گا بھی نہیں جب تک کہ تم اس کی گردن نہ اڑا دو۔ یہی فیصلہ ہے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کہ جو اپنے دین سے لوٹ جائے اسے قتل کر دو یا فرمایا جو اپنے دین کو بدل دے۔ یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی ہے لیکن الفاظ اور ہیں۔ پس افضل و اولیٰ یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین پر قائم اور ثابت قدم رہے گو اسے قتل بھی کر دیا جائے۔ چنانچہ حافظ ابن عسا کر رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن حذافہ سہمی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ترجمہ میں لائے ہیں کہ آپ کو رومی کفار نے قید کر لیا اور اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا دیا، اس نے آپ سے کہا کہ تم نصرانی بن جاؤ میں تمہیں اپنے راج پاٹ میں شریک کر لیتا ہوں اور اپنی شہزادی تمہاری ناکح میں دیتا ہوں۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ تو کیا اگر تو اپنی تمام بادشاہت مجھے دے دے اور تمام عرب کا راج بھی مجھے سونپ دے اور یہ چاہے کہ میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی دین محمد سے پھر جاؤں تہ یہ بھی ناممکن ہے۔ بادشاہ نے کہا پھر میں تجھے قتل کر دوں گا۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں یہ تجھے اختیار ہے چنانچہ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا اور انہیں صلیب پر چڑھا دیا گیا اور تیر اندازوں نے قریب سے بحکم بادشاہ ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم چھیدنا شروع کیا بار بار کہا جاتا تھا کہ اب بھی نصراینت قبول کر لو اور آپ پورے استقلال اور صبر سے فرماتے جاتے تھے کہ ہرگز نہیں آخر بادشاہ نے کہا اسے سولی سے اتار لو، پھر حکم دیا کہ پیتل کی دیگ یا پیتل کی کی بنی ہوئی گائے خوب پتا کر آگ بنا کر لائی جائے۔ چنانچہ وہ پیش ہوئی بادشاہ نے ایک اور مسلمان قیدی کی بابت حکم دیا کہ اسے اس میں ڈال دو۔ اسی وقت حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے اس مسلمان قیدی کو اس میں ڈال دیا گیا وہ مسکین اسی وقت چر مر ہو کر رہ گئے۔ گوشت پوست جل گیا ہڈیاں چمکنے لگیں، رضی اللہ عنہ۔ پھر بادشاہ نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ دیکھو اب بھی ہماری مان لو اور ہمارا مذہب قبول کر لو، ورنہ اسی آگ کی دیگ میں اسی طرح تمہیں بھی ڈال کر جلا دیا جائے گا۔ آپ نے پھر بھی اپنے ایمانی جوش سے کا ملے کر فرمایا کہ ناممکن کہ میں اللہ کے دین کو چھوڑ دوں۔ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں چرخی پر چڑھا کر اس میں ڈال دو، جب یہ اس آگ کی دیگ میں ڈالے جانے کے لئے چرخی پر اٹھائے گئے تو بادشاہ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں، اسی وقت اس نے حکم دیا کہ رک جاؤ انہیں اپنے پاس بلا لیا، اس لئے کہ اسے امید بندھ گئی تھی کہ شاید اس عذاب کو دیکھ کر اب اس کے خیالات پلٹ گئے ہیں میری مان لے گا اور میرا مذہب قبول کر کے میرا داماد بن کر میری سلطنت کا ساجھی بن جائے گا لیکن بادشاہ کی یہ تمنا اور یہ خیال محض بے سود نکلا۔ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں صرف اس وجہ سے رویا تھا کہ آج ایک ہی جان ہے جسے راہ حق میں اس عذاب کے ساتھ میں قربان کر رہا ہوں، کاش کہ میرے روئیں روئیں میں ایک ایک جان ہوتی کہ آج میں سب جانیں راہ اللہ اسی طرح ایک ایک کر کے فدا کرتا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کو قید خانہ میں رکھا جانا پینا بند کر دیا، کئی دن کے بعد شراب اور خنزیر کا گوشت بھیجا لیکن آپ نے اس بھوک پر بھی اس کی طرف توجہ تک نہ فرمائی۔ بادشاہ نے بلوا بھیجا اور اسے نہ کھانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اس حالت میں یہ میرے لئے حلال تو ہو گیا ہے لیکن میں تجھ جیسے دشمن کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقعہ دینا چاہتا ہی نہیں ہوں۔ اب بادشاہ نے کہا اچھا تو میرے سر کا بوسہ لے تو میں تجھے اور تیرے ساتھ کے اور تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر دیتا ہوں آپ نے اسے قبول فرما لیا اس کے سر کا بوسہ لے لیا اور بادشاہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا اور آپ کو اور آپ کے تمام ساتھیوں کو چھوڑ دیا جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ یہاں سے آزاد ہو کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فرمایا ہر مسلمان پر حق ہے کہ عبدلالہ بن حذافہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا ماتھا چومے اور میں ابتدا کرتا ہوں یہ فرما کر پہلے آپ نے ان کے سر پر بوسہ دیا۔
صبر و استقامت یہ دوسری قسم کے لوگ ہیں جو بوجہ اپنی کمزوری اور مسکینی کے مشرکین کے ظلم کے شکار تھے اور ہر وقت ستائے جاتے تھے آخر انہوں نے ہجرت کی۔ مال، اولاد، ملک، وطن چھوڑ کر اللہ کی راہ میں چل کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کی جماعت میں مل کر پھر جہاد کے لئے نکل پڑے اور صبر و استقامت سے اللہ کے کلمے کی بلندی میں مشغول ہو گئے، انہیں اللہ تعالیٰ ان کاموں یعنی قبولیت فتنہ کے بعد بھی بخشنے والا اور ان پر مہربانیاں کرنے والا ہے۔ روز قیامت ہر شخص اپنی نجات کی فکر میں لگا ہو گا، کوئی نہ ہو گا جو اپنی ماں یا باپ یا بھائی یا بیوی کی طرف سے کچھ کہہ سن سکے اس دن ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔ نہ ثواب گھٹے نہ گناہ بڑھے۔ اللہ ظلم سے پاک ہے۔
اس سے مراد اہل مکہ میں یہ امن و اطمینان میں تھے۔ آس پاس لڑائیاں ہوتیں، یہاں کوئی آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھتا جو یہاں آ جاتا، امن میں سمجھا جاتا۔ جیسے قرآن نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم ہدایت کی پیروی کریں تو اپنی زمین سے اچک لئے جائیں کیا ہم نے انہیں امن و امان کا حرم نہیں دے رکھا؟ جہاں ہماری روزیاں قسم قسم کے پھولوں کی شکل میں ان کے پاس چاروں طرف سے کھینچی چلی آتی ہیں۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ مدہ اور گزارے لائق روزی اس شہر کے لوگوں کے پاس ہر طرف سے آ رہی تھی لیکن پھر بھی یہ اللہ کی نعمتوں کے منکر رہے جن میں سب سے اعلیٰ نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت تھی جیسے ارشاد باری ہے الم ترالی الذین بدلو انعمتہ اللہ کفرا الخ کیا تو نے انہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف پہنچا دیا جو جہنم ہے جہاں یہ داخل ہوں گیا اور جو بری قرار گاہ ہے۔ ان کی اس سرکشی کیسزا میں دونوں نعمتیں دو زحمتوں سے بدل دی گئیں۔ امن خوف سے، اطمینان بھوک اور گھبراہٹ سے، انہوں نے اللہ کے رسول کی نہ مانی۔ آپ کے خلاف کمر کس لی تو آپ نے ان کے لئے سات قحط سالیوں کی بد دعا دی۔ جیسی حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں تھیں۔ اس قحط سالی میں انہوں نے اونٹ کے خون میں لتھڑے ہوئے بال تک کھائے۔ امن کے بعد خوف آیا۔ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے لشکر سے خوف زدہ رہنے لگے۔ آپ کی دن دگنی ترقی اور آپ کے لشکروں کی کثرت کا سنتے اور سھمے جاتے تھے یہاں تک کہ بالاخر اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے شہر مکہ پر چڑھائی کی اور اسے فتح کر کے وہاں قبضہ کر لیا۔ یہ ان کی بد اعمالیوں کا ثمرہ تھا کیونکہ یہ ظلم و زیادتی پر اڑے ہوئے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب کرتے رہے تھے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ان میں خود ان میں سے ہی بھیجا تھا جس احسان کا بیان آیت لقدمن اللہ الخ میں فرمایا ہے اور اسی کا بیان آیت فاتقوا الذما اولی الالباب الخ میں ہے اور اسی معنی کی آیت کما ارسلنا فیکم میں ہے تکفرون تک اس لطیفے کو بھی نہ بھولئے کہ جیسے کفر کی وجہ سے امن کے بعد خوف آیا اور فراخی کے بعد بھوک آئ ایمان کی وجہ سے خوف کے بعد امن ملا اور بھوک کے بعد حکومت، سرداری امارت اور امامت ملی۔ فسبحانہ مااعظم شانہ۔ سلیم بن نمیر کہیں ہیں ہم حضرت حفصہ زوجہ محترمہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حج سے لوٹتے ہوئے آ رہے تھے اس وقت مدینہ شریف میں خلیفۃ المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھرے ہوئے تھے۔ مائی صاحبہ اکثر راہ چلتوں سے ان کی بابت دریافت فرمایا کرت تھیں۔ دو سواروں کو جاتے ہوئے دیکھ کر آدمی بھیجا کہ ان سے خلیفۃ الرسول کا حال پوچھو۔ انہوں نے خبر دی کہ افسوس آپ شہید کر دیئے گئے۔ اسی وقت آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہی وہ شہید ہے جس کی بات اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وضرب اللہ الخ عبید اللہ بن مغیرہ کے استاد کا بھی یہی قول ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنی دی ہوئی پاک روزی حلال کرتا ہے اور شکر کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس لئے کہ نعمتوں کا داتا وہی ہے، اسی لئے عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک ہے، اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں۔ پھر ان چیزوں کا بیان فرما رہا ہے جو اس نے مسلمانوں پر حرام کر دی ہیں جس میں ان کے دین کا نقصان بھی ہے اور ان کی دنیا کا نقصان بھی ہے جیسے از خود مرا ہوا جانور اور بوقت ذبح کیا جائے۔ لیکن جو شخص ان کے کھانے کی طرف بے بس، لاچار، عاجز، محتاج، بے قرار ہو جائے اور انہیں کھا لے تو اللہ بخشش و رحمت سے کام لینے والا ہے۔ سورہ بقرہ میں اسی جیسی آیت گزر چکی ہے اور وہیں اس کی امل تفسیر بھی بیان کر دی اب دوبارہ دہرانے کی حاجت نہیں فالحمد اللہ پھر کافروں کے رویہ سے مسلمانوں کو روک رہا ہے کہ جس طرح انہوں نے از خود اپنی سمجھ سے حلت حرمت قائم کر لی ہے تم نہ کرو آپس میں طے کر لیا کہ فلاں کے نام سے منسوب جانور حرمت و عزت والا ہے۔ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ، حام وغیرہ تو فرمان ہے کہ اپنی زبانوں سے جھوٹ موٹ اللہ کے ذمے الزام رکھ کر آپ حلال حرام نہ ٹھہرا لو۔ اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کسی بدعت کو نکالے جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو۔ یا اللہ کے حرام کو حلال کرے یا مباح کو حرام قرار دے اور اپنی رائے اور تشبیہ سے احکام ایجاد کرے۔ لما تصف میں مامصدریہ ہے یعنی تم اپنی زبان سے حلال حرام کا جھوٹ وصف نہ گھڑ لو۔ ایسے لوگ دنیا کی فلاح سے آخرت کی نجات سے محروم ہو جاتے ہیں دنیا میں گو تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں لیکن مرتے ہی المناک عذابوں کا لقمہ بنیں گے۔ یاں کچھ عیش و عشرت کر لیں وہاں بے بسی کے ساتھ سخت عذاب برداشت کرنے پڑیں گے۔ جیسے فرمان الٰہی ہے اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے نجات سے محروم ہیں۔ دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں پھر ہم ان کے کفر کی وجہ سے انہیں سخت عذاب چکھائیں گے۔
اوپر بیان گزرا کہ اس امت پر مردار، خون، لحم، خنزیر اور اللہ کے سوا دوسروں کے نام سے منسوب کردہ چیزیں حرام ہیں۔ پھر جو رخصت اس بارے میں تھی اسے ظاہر فرما کر جو آسانی اس امت پر کی گئی ہے اسے بیان فرمایا۔ یہودیوں پر ان کی شریعت میں جو حرام تھا اور جو تنگ اور حرج ان پر تھا اسے بیان فرما رہا ہے کہ ہم نے ان کی حرمت کی چیزوں کو پہلے ہی سے تجھے بتا دیا ہے۔ سورہ انعام کی آیت وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر میں ان حرام چیزوں کا ذکر ہو چکا ہے۔ یعنی یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن والے جانوروں کو حرام کر دیا تھا اور گائے اور بکری کی چربی کو سوائے اس چربی کے جوان کی پیٹھ پر لگی ہو یا انتڑیوں پر یا ہڈیوں سے ملی ہوئی ہو، یہ بدلہ تھا ان کی سرکشی کا ہم اپنے فرمان میں بالکل سچے ہیں۔ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا ہاں وہ خود نا انصاف تھے۔ ان کے ظلم کی وجہ سے ہم نے وہ پاکیزہ چیزیں جو ان پر حلال تھیں، حرام کر دیں دوسری وجہ ان کا راہ حق سے اوروں کو روکنا بھی تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے اس رحم و کرم کی خبر دیتا ہے جو وہ گنہگار مومنوں کے ساتھ کرتا ہے کہ ادھر اس نے توبہ کی، ادھر رحمت کی گود اس کے لئے پھیل گئی۔ بعض سلف کا قول ہے کہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ جاہل ہی ہوتا ہے۔ توبہ کہتے ہیں گناہ سے ہٹ جانے کو اور اصلاح کہتے ہیں اطاعت پر کمر کس لینے کو پس جو ایسا کرے اس کے گناہ اور اس کی لغزش کے بعد بھی اللہ اسے بخش دیتا ہے اور اس پر رحم فرماتا ہے۔
بے شک ابراہیم پیشوا اور اللہ کا فرماں بردار اور یکطرفہ مخلص تھا، وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر گزار تھا، اللہ نے اسے اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور اسے راہ راست سمجھا دی تھی۔ ہم نے اسے دنیا میں بھی ہر طرح کی بہتری دی تھی اور بے شک وہ آخرت میں بھی البتہ نیک کاروں میں ہے۔ پھر ہم نے تیری جانب وحی بھیجی کہ تو ابراہیم حنیف کی پیروی کرتا رہ، جو مشرکوں میں سے نہ تھا۔
جد از انبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام ہدایت کے امام
امام حنفاء، والد انبیاء، خلیل الرحمان، رسول جل و علا، حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیٰحدہ کیا جا رہا ہے۔ امتہ کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتدا کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گذار فرماں بردار کو، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جان والا۔ اسی لۓ فرمایا کہ وہ مشرکوں سے بیزار تھا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب امت قانت کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا لوگوں کو بھلای سکھانے والا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ماتحتی کرنے والا۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم۔ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت معاذ امت قانت اور حنیف تھے اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبد اللہ غلطی کر گئے ایسے تو قرآن کے مطابق حضرت خلیل الرحمن تھے۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو امت فرمایا ہے تو آب نے فرمایا جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے۔ بے شک حضرت معاذ ایسے ہی تھے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد ومومن تھے۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے۔ قتادہ فرماتے ہیں وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے۔ اللہ کی نعمتوں کے قدرداں اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا وابراہیم الذی وفی وہ ابراہیم جس نے پورا کیا یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا۔ اور ان پر علم بجا لایا۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفی بنالیا۔ جیسے فرمان ہے ولقد اتینا ابراہیم رشدہ الخ ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ وحدہٗ لا شریک لہ کی وہ عبادت و اطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے۔ ان کے کمال، ان کی عظمت، ان کی محبت، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ اے خاتم رسل اے سیدالانبیاءتجھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا۔ سورہ انعام میں ارشاد ہے۔ قل اننی ہدانی ربی الا صراط مستقیم الخ کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا۔ پھر یہودیوں پر انکار ہو رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے۔
ہر امت کے لئے ہفتے میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے ایسا مقرر کیا ہے جس میں وہ جمع ہو کر اللہ کی عبادت کی خوشی منائیں۔ اس امت کے لئے وہ دن جمعہ کا دن ہے، اس لئے کہ وہ چھٹا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کا کمال کیا۔ اور ساری مخلوق پیدا ہو چکی اور اپنے بندوں کو ان کی ضرورت کی اپنی پوری نعمت عطا فرما دی۔ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبانی یہی دن بنی اسرائیل کے لئے مقرر فرمایا گیا تھا لیکن وہ اس سے ہٹ کر ہفتے کے دن کو لے بیٹھے، یہ سمجھے کہ جمعہ کو مخلوق پوری ہو گئی، ہفتہ کے دن اللہ نے کوئی چیز پیدا نہیں کی۔ پس تورات جب اتری ان پر وہی ہفتے کا دن مقرر ہوا اور انہیں حکم ملا کہ اسے مضبوطی سے تھامے رہیں، ہاں یہ ضرور فرما دیا گیا تھا کہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی آئیں تو وہ سب کے سب کو چھوڑ کر صرف آپ ہی کی اتباع کریں۔ اس بات پران سے وعدہ بھی لے لیا تھا۔ پس ہفتے کا دن انہوں نے خود ہی اپنے لئے چھانٹا تھا۔ اور آپ ہی جمعہ کو چھوڑا تھا۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے زمانہ تک یہ اسی پر رہے۔ کہا جاتا ہے کہ پھر آپ نے انہیں اتوار کے دن کی طرف دعوت دی۔ ایک قول ہے کہ آپ نے توراۃ کی شریعت چھوڑی نہ تھی سوائے بعض منسوخ احکام کے اور ہفتے کے دن کی محافظت آپ نے بھی برابر داری رکھی۔ جب آپ آسمان پر چڑھا لئے گئے تو آپ کے بعد قسطنطین بادشاہ کے زمانے میں صرف یہودیوں کی ضد میں آ کر صخرہ سے مشرق جانب کو اپنا قبلہ انہوں نے مقرر کر لیا اور ہفتے کی بجائے اتوار کا دن مقرر کر لیا۔ بخاری ومسل کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ عیہ و سلم فرماتے ہیں ہم سب سے آخر والے ہیں اور قیامت کے دں سب سے آگے والے ہیں۔ ہاں انہیں کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی۔ یہ دن بھی اللہ نے ان پر فرض کیا لیکن ان کے اختلاف نے انہیں کھو دیا اور اللہ رب العزت نے ہمیں اس کی ہدایت دی پس یہ سب لوگ ہمارے پیچھے پیچھے ہیں۔ یہودی ایک دن پیچھے نصاریٰ دو دن۔ آپ فرماتے ہیں ہم سے پہلے کی امتوں کو اللہ نے اس دن سے محروم کر دیا یہود نے ہفتے کا دن رکھا نصاریٰ نے اتوار کا اور جمعہ ہمارا ہوا۔ پس جس طرح دنوں کے اس اعتبار سے وہ ہمارے پیچھے ہیں۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہمارے پیچھے ہی رہیں گے۔ ہم دنیا کے اعتبار سے پچھلے ہیں اور قیامت کے اعتبار سے پہلے ہیں یعنی تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلے ہمارے ہوں گا۔ (مسلم )
اللہ تعالیٰ رب العالمین اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ اللہ کی مخلوق کو اس کی طرف بلائیں۔ حکمت سے مراد بقول امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کلام اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔ اور اچھے وعظ سے مراد جس میں ڈر اور دھمکی بھی ہو کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ اور اللہ کے عذابوں سے بچاؤ طلب کریں۔ ہاں یہ بھی خیال رہے کہ اگر کسی سے مناظرے کی ضرورت پڑ جائے تو وہ نرمی اور خوش لفظی سے ہو۔ جیسے فرمان ہے ولا تجادلوا اہل الکتاب الا بالتی ہی احسن الخ اہل کتاب سے مناظرے مجادلے کا بہترین طریقہ ہی برتا کر الخ۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی نرمی کا حکم ہوا تھا۔ دخونوں بھائیوں کو یہ کہہ کر فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا کہ اسے نرم بات کہنا تاکہ عبرت حاصل کرے اور ہوشیار ہو جائے۔ گمراہ اور ہدایت یاب سب اللہ کے علم میں ہیں۔ شقی وسعید سب اس پر واضح ہیں۔ وہاں لکھے جا چکے ہیں اور تمام کاموں کے انجام سے فراغت ہو چکی ہے۔ آپ تو اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہیں لیکن نہ ماننے والوں کے پیچھے اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالے۔ آپ ہدایت گے ذمے دار نہیں آپ صرف آگاہ کرنے والے ہیں، آپ پر پیغام کا پہنچا دینا فرض ہے۔ حساب ہم آپ لیں گے۔ ہدایت آپ کے بس کی چیز نہیں کہ جسے محبوب سمجھیں، ہدایت عطا کر دیں لوگوں کی ہدایت کے ذمے دار آپ نہیں یہ اللہ کے قبضے اور اس کے ہاتھ کی چیز ہے۔
قصاص میں اور حق کے حاصل کرنے میں برابری اور انصاف کا حکم ہو رہا ہے۔ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ فرماتے ہیں اگر کوئی تم سے کوئی چیز لے لے تو تم بھی اس سے اسی جیسی لے لو۔ ابن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے تو مشرکوں سے درگزر کرنے کا حکم تھا۔ جب ذرا حیثیت دار لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اگر اللہ کی طرف سے بدلے کی رخصت ہو جائے تو ہم بھی ان کتوں سے نبڑ لیا کریں اس پر یہ آیت اتری آخر یہ بھی جہاد سے منسوخ ہو گئی۔ حضرت عطا بن یسار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورہ نحل پوری مکے شریف میں اتری ہے مگر اس کی تین آخری آیتیں مدینے شریف میں اتری ہیں۔ جب کہ جنگ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئے گئے اور آپ کے اعضائے جسم بھی شہادت کے بعد کاٹ لئے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا کہ اب جب مجھے اللہ تعالیٰ ان مشرکوں پر غلبہ دے تو میں ان میں سے تیس شخصوں کے ہاتھ پاؤں اسی طرح کاٹوں گا۔ مسلمانوں کے کان میں جب اپنے محترم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ الفاظ کپڑے تو ان کے جوش بہت بڑھ گئے اور کہنے لگے کہ واللہ ہم ان پر غالب آ کر ان کی لاشوں کے وہ ٹکڑے ٹکڑے کریں گے کہ عربوں نے کبھی ایسا دیکھا ہی نہ ہو گا اس پر یہ آیتیں اتریں (سیرت ابن اسحاق ) لیکن یہ روایت مر سل ہے اور اس میں ایک روای ایسا بھی ہے جن کا نام ہی نہیں لیا گیا، مبہم چھوڑا گیا۔ ہاں دوسری سند سے یہ متثل بھی مروی ہے۔ بزار میں ہے کہ جب حضرت حمزہ بن عبد المطلب رحمۃ اللہ علیہ شہید کر دئے گئے۔ آپ پاس کر کھڑے ہو کر دیکھنے لگے آہ ! اس سے زیادہ دل دکھانے والا منظر اور کیا ہو گا کہ محترم چچا کی لاش کے ٹکڑے آنکھوں کے سامنے بکھرے پڑے ہیں۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلا کہ آپ پر اللہ کی رحمت ہو، جہاں تک میرا علم ہے، میں جانتا ہوں کہ آپ رشتے ناتے کے جوڑنے والے نیکیوں کو لپک کر کرنے والے تھے۔ واللہ دوسرے لوگوں کے درد وغم کا خیال نہ ہوتا تو میں تو آپ کے اس جسم کو یونہی چھوڑ دیتا یہاں تک کہ آپ کو اللہ تعالیٰ درندوں کے پیٹوں میں سے نکالتا یا اور کوئی ایسا ہی کلمہ فرمایا جب ان مشرکوں نے یہ حرکت کی ہے تو واللہ میں بھی ان میں کے ستر شخصوں کی یہی بری حالت بناؤں گا۔ اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے اور یہ آیتیں آتری تو آپ اپنی قسم کے پورا کرنے سے رک گئے اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا۔ لیکن سند اس کی بھی کمزور ہے۔ اس کے راوی صالح بشیر مری ہیں جو ائمہ اہل حدیث کے نزدیک ضعیف ہیں بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تو انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں۔ شعبی اور ابن جریج کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی زبان سے نکلا تھا کہ ان لوگوں نے جو ہمارے شہیدوں کے بے حرمتی کی ہے اور ان کے اعضاء بدن کاٹ دئیے ہیں واللہ ہم بھی ان سے اس کا بدلہ لے کر ہی چھوڑیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیتیں اتاریں۔ مسند احمد میں ہے کہ جنگ احد میں ساٹھ انصاری شہید ہوئے اور چھ مہاجر رضی اللہ عنہم اجمعین تو اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی زبان سے نکل گیا کہ جب ہم ان مشرکوں پر غلبہ پائیں تو ہم بھی ان کے ٹکڑے کئے بغیر نہ رہیں گے۔ چنانچہ فتح مکہ والے دن ایک شخص نے کہا کہ آج کے دن کے بعد قریش پہچانے بھی نہ جائیں گے۔ اسی وقت ندا ہوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم تمام لوگوں کو پناہ دیتے ہیں سوائے فلاں فلاں کے (جن کے نام لئے گئے ہیں ) اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی وقت فرمایا کہ ہم صبر کرتے ہیں اور بدلہ نہیں لیتے۔ اس آیت کریمہ کی مثالیں قرآن کریم میں اور بھی بہت سی ہیں۔ اس میں عدخل کی مشروعیت بیان ہوئی ہے اور افضل طریقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جیسے آیت جزاء سیئۃسیئۃ مثلہا الخ میں کہ برائی کا بدلہ لینے کی رخصت عطا فرما کر پھر فرمایا ہے کہ جو درکزر کر لے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے اسی طرح آیت والجروح قصاص میں بھی زخموں کا بدلہ لینے کی اجازت دے کر فرمایا ہے کہ جو بطور صدقہ معاف کر دے یہ معافی اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گی۔ اسی طرح اس آیت میں بھی برابربدلہ لینے کے جواز کا ذصکر فرما کر پھر ارشاد ہوا ہے کہ اگر صبر کر لو تو یہ بہت ہی بہتر ہے۔ پھر صبر کی مزید تاکید کی اور ارشاد فرمایا کہ یہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں یہ ان ہی سے ہو سکتا ہے جن کی مدد پر اللہ ہو اور جنہیں اس کی جانب سے توفیق نصیب ہوئی ہو۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے مخالفین کا غم نہ کھا، ان کی قسمت میں ہی مخالفت لکھ دی گئی ہے نہ ان کے فن فریب سے آزردہ خاطر ہو۔ اللہ تجھے کافی ہے، وہی تیرا مددگار ہے، وہی تجھے ان سب پر غالب کرنے والا ہے اور ان کی مکاریوں اور چلاکیوں سے بچانے والا ہے۔ ان کی عداوت اور ان کے برے ارادے تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی تائید ہدایات اور اس کی توفیق ان کے ساتھ ہے، جن کے دل اللہ کے ڈر سے اور جن کے اعمال احسان کے جوہر سے مال مال ہوں۔ چنانچہ جہاد کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی اتاری تھے کہ انی معکم فثبتو الذین امنوا میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو، اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہما السلام سے فرمایا تھا لا تخافا اننی معکما اسمع واری تم خوف نہ کھاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں، دیکھتا سنتا ہوں۔ غار میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا لا تحزن ان اللہ معنا غم نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ پس یہ ساتھ تو خاص تھا۔ اور مراد اس سے تائید و نصرت الٰہی کا ساتھ ہونا ہے۔ اور عام ساتھ کا بیان آیت وہو معکم اینما کنتم واللہ بما تعملون بصیر اور آیت ما تکون من نجوی ثلاثۃ الا ہو رابعہم الخ اور آیت وما یکون فی شان الخ میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو اور وہ تمہارے اعمال دیکھنے والا ہم اور جو تین شخص کوئی سرگوشی کرنے لگیں ان میں چوتھا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور پانچ میں چھٹا وہ ہوتا ہم اور اس سے کم وبیش میں بھی جہاں وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور تم کسی حال میں ہو یا تلاوت قرآن میں ہو یا تم اور کوئی کام میں لگے ہوئے ہو ہم تم پر شاہد ہوتے ہیں پس ان آیتوں میں ساتھ سے مراد سننے دیکھنے کا ساتھ ہے تقویٰ کے معنی ہیں حرام کاموں اور گناہ کے کاموں کو اللہ کے فرمان پر ترک کر دینے کے۔ اور احسان کے معنی ہیں پروردگار کی اطاعت وعبادت کو بجا لانا۔ جن لوگوں میں یہ دونوں صفتیں ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ وامان میں رہتے ہیں، جناب باری ان کی تائید اور مدد فرماتا رہتا ہے۔ ان کے مخالفین اور دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان سب پر کامیابی عطا فرماتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں حضرت محمد بن حاطب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جو باایمان پرہیزگار اور نیک کار ہیں۔