دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ النّحل

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم     

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

نام

 

آیت ۶۸ میں اللہ کی ربوبیت کی نشانی کے طور پر نحل، یعنی شہد کی مکھی کا ذکر ہوا ہے۔  اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام النحل قرار پایا ہے۔

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے وسطی دور میں ہجرت حبشہ کے بعد نازل ہوئی ہو گی۔

 

 

مرکزی مضمون

 

شرک کے باطل اور توحید کے برحق ہونے کو واضح کرنا اور اس سلسلہ میں اللہ کی نعمتوں کا احساس دلانا ہے تاکہ وہ اپنے حقیقی رب اور محسن کو پہچانے۔  سورہ کا مرکزی مضمون یہی ہے البتہ اس وقت کے حالات اور ضرورت کے پیش نظر دوسری باتیں بھی بیان ہوئی ہیں، مثلاً عذاب کیلئے جلدی مچانے پر تنبیہ کی گئی ہے اور ان شبہات کا جواب دیا گیا ہے جو منکرین پیش کر رہے تھے۔

 

نظم کلام

 

آیات ۱ تا ۳ تمہیدی ہیں جن میں مشرکوں کو جھنجھوڑتے ہوئے وحی کی غرض اور کائنات کی تخلیق کی مقصدیت کو واضح کیا گیا ہے۔  آیت ۴ تا ۱۸ میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر ہوا ہے جو انسان کو غور فکر کی دعوت دیتے ہیں اور اپنے محسن حقیقی کا احساس دل میں پیدا کرتے ہیں۔ آیت ۱۹ تا ۳۲ میں شرک کی تردید کرتے ہوئے مشرکین کے انجام بد کو اور متقین کے انجام خیر کو پیش کیا گیا ہے۔  آیت ۳۳ تا ۴۰ میں منکرین کے بعض اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ آیت ۴۱ اور ۴۲ میں اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو خوشخبری دی گئی ہے۔ آیت ۴۳ تا ۴۷ میں نبوت کے تعلق سے ضروری وضاحت اور منکرین کو تنبیہ۔ آیت ۴۸ تا ۶۰ توحید کے دلائل اور شرک کی تردید۔  آیت ۶۱ تا ۶۵ میں منکرین کے بعض شبہات کی تردید کی گئی ہے۔  آیت ۶۶ تا ۸۳ میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر کر کے مشرکین کے ضمیر کو بیدار کرنے کا سامان کیا گیا ہے۔  آیت ۸۴ تا۸۹ میں آگاہ کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب مشرکوں اور کافروں کی پیشی ہو گی تو ان کا کیا حال ہو گا۔  آیت ۹۰ تا ۹۷ میں بندوں کے حقوق کی ادائیگی، برائیوں سے پرہیز اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی ترغیب دی گئی ہے آیت ۹۸ تا ۱۰۵ میں شیطان سے پناہ مانگنے کی ہدایت ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ لوگ قرآن کو صحیح طریقہ پر سمجھیں اس لئے وہ شکوک و شبہات پیدا کرتا رہتا ہے۔  منکرین کے شبہات دراصل شیطان ہی کی وسوسہ اندازی کا نتیجہ ہیں۔ آیت۱۰۶ تا ۱۱۱ میں مظلوم اہلِ ایمان کو تسلی اور ان پر ظلم ڈھانے والوں کو وعید۔ آیت ۱۱۲ تا ۱۱۴ میں اہل مکہ کے لیے ایک بستی کی مثال جس نے ناشکری کی اور الہ کا شکر گزار بننے کی ہدایت۔ آیت ۱۱۵ تا۱۱۹ میں یہ ہدایت کہ مشرک اور وہم پرستی میں مبتلا ہو کر اللہ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں  مشرک ہرگز نہ تھے۔ آیت ۱۲۴ میں وضاحت کی گئی ہے کہ سبت منانے کا حکم صرف یہود کو ان کے اختلاف میں پڑنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ آیت ۱۲۵ تا ۱۲۸ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کو کچھ ہدایتیں دی گئی ہیں۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آ گیا اللہ کا حکم اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ۔ ۱* وہ پاک اور بلند ہے اس سے جس کو یہ اس کا شکرے ٹھہراتے ہیں۔ ۲*

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ فرشتوں کو روح کے ساتھ اپنے حکم سے اپنے جن بندوں پر چاہتا ہے نازل فرماتا ہے ۳ * کہ لوگوں کو خبردار کرو کہ میرے سوا کوئی الٰہ (خدا۔ معبود) نہیں ہے لہٰذا مجھ سے ڈرو۔ ۴*

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے آسمانوں اور زمینوں کو حق کی بنیاد پر پیدا کیا ہے۔ ۵* وہ برتر ہے اس سے جس کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے انسان کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا پھر دیکھو وہ صریح جھگڑالو بن گیا۔ ۶*

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کئے جن میں تمہارے لیے گرم پوشاک بھی ہے ۷* اور دوسرے فائدے بھی۸* نیز ان سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ ۹*

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان میں تمہارے لیے رونق ہے جب شام کو انہیں واپس لاتے ہو اور جب صبح کو چرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہو۔ ۱۰*

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تمہارے بوجھ ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں جہاں تم سخت مشقت کے بغیر پہنچ نہیں سکتے تھے۔ ۱۱* بلاشبہ تمہارا رب بڑی شفقت والا رحمت والا ہے۔ ۱۲*

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو۱۳* اور وہ تمہارے لیے رونق بنیں۔  اور وہ ایسی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔ ۱۴*

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ تک سیدھی راہ پہنچتی ہے ۱۵* اور ایسی بھی راہیں ہیں جو ٹیڑھی ہیں۔ ۱۶* اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ ۱۷*

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے آسمان (اوپر) سے پانی برسایا جو تمہارے پینے کے بھی کام آتا ہے اور اس سے نباتات بھی اگتی ہیں جن میں تم (مویشیوں کو) چراتے ہو۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے۔  یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔ ۱۸*

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے۔ ۱۹* اور تارے بھی اس کے حکم سے مسخر ہیں۔ ۲۰* اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ ۲۱*

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زمین میں بھی جو رنگ برنگ کی چیزیں پیدا کیں اس میں بھی ان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو یاد دہانی حاصل کرنے والے ہیں۔ ۲۲*

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کر دیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت (نکال کر) کھاؤ۲۳* اس سے زیور نکالو جس کو تم پہنتے ہو۔ ۲۴* تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں۔  یہ اس لیے ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۲۵* اور اس کے شکر گزار بنو۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس نے زمین میں پہاڑ قائم کئے کہ وہ تم کو لیکر ڈگمگانے نہ لگے۔ ۲۶* اس نے دریا جاری کئے اور راستے نکال دیئے ۲۷* تاکہ تم راہ پاؤ۔ ۲۸*

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس نے دوسری علامتیں بھی رکھیں ۲۹* اور ستاروں سے بھی لوگ راہ پاتے ہیں۔ ۳۰*

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا جو پیدا کرتا ہے وہ ان کی طرح ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے ؟۳۱* کیا تم (اتنی بات بھی) نہیں سمجھتے۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ ۳۲* بلا شبہ اللہ بڑا بخشنے والا بڑی رحمت والا ہے۔ ۳۳*

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو۔ ۳۴*

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن کو پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔ ۳۵*

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ۳۶*

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے۔  مگر جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار پر مصر ہیں اور وہ گھمنڈ میں پڑ گئے ہیں۔ ۳۷*

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً اللہ جانتا ہے جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں۔  وہ تکبر کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا چیز اتاری ہے تو کہتے ہیں گزرے ہوئے لوگوں کے فسانے۔ ۳۸*

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ و ہ قیامت کے دن اپنے بوجھ بھی پورے پورے اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھ کا بھی ایک حصہ جنہیں یہ علم کے بغیر گمراہ کر رہے ہیں۔ ۳۹* تو دیکھو کیا ہی برا بوجھ ہے جو یہ اٹھائیں گے !

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی چالیں چلی تھیں مگر اللہ نے ان کی عمارت بنیاد سے اکھاڑ دی تو چھت اوپر سے ان پر آ گری۔ ۴۰* اور عذاب ان پر اس راہ سے آیا جس کا انہیں گمان بھی نہ تھا۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر قیامت کے دن وہ انہیں رسوا کرے گا اور پوچھے گا کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم لڑتے تھے ؟۴۱* (اس وقت) وہ لوگ جن کو علم عطا ہوا تھا پکار اٹھیں گے کہ آج رسوائی اور خرابی ہے کافروں کے لیے۔ ۴۲*

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے لیے جنہیں فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں ۴۳*  کہ وہ اپنی جانوں پر خود ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ ۴۴* اس وقت وہ عاجزی کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کر رہے تھے۔  کیسے نہیں تم جو کچھ کر رہے تھے اللہ اس سے اچھی طرح واقف ہے ۴۵*

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ داخل ہو جاؤ جہنم کے دروازوں میں۔ اسی میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ ۴۶* تو دیکھو کیا ہی برا ٹھکانا ہے تکبر کرنے والوں کا!

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب اللہ سے ڈرنے والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا چیز اتاری ہے تو کہتے ہیں بہترین چیز اتاری ہے۔  جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھائی کے کام کئے ان کے لیے اچھائی ہی ہے۔ ۴۷* اور آخرت کا گھر تو یقیناً بہتر ہے اور کیا ہی خوب ہے متقیوں کا گھر!

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشگی کے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے۔  ان کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔  وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے۔ ۴۸* اس طرح اللہ جزا دے گا متقیوں کو۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن کو فرشتے پاکیزگی کی حالت میں ۴۰* وفات دیتے ہیں۔  وہ کہتے ہیں سلام ہو تم پر۔  داخل ہو جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے۔ ۵۰*

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اس کے سوا کس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے پاس آ جائیں۔ ۵۱* یا تمہارے رب کا حکم (فیصلہ) آ جائے۔ ۵۲* ایسا ہی ان لوگوں نے بھی کیا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے۔  اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ان کے کرتوتوں کی سزا ان کو مل کر رہی اور جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے تھے اسی نے ان کو لپیٹ میں لے لیا۔ ۵۳*

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرتے نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم اس کے (حکم کے) بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔  ایسا ہی رویہ ان لوگوں نے بھی اختیار کیا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے۔ ۵۴* تو کیا رسولوں پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے علاوہ کوئی اور ذمہ داری ہے ؟

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (اس ہدایت کے ساتھ) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ ۵۵* پھر بعض کو اس نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی مسلط ہوئی۵۶* تو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم ان کی ہدایت کے شدید خواہشمند ہو تو اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جن کو وہ گمراہ کر دیتا ہے۔ ۵۷* اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ اللہ کی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ جو مر جاتا ہے اسے اللہ نہیں اٹھائے گا۔  کیوں نہیں یہ تو ایک لازمی وعدہ ہے جو اس کے ذمہ ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ ۵۸*

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے کہ یہ جس چیز میں اختلاف کر رہے ہیں اس کو وہ کھول دے اور کافروں کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے۔ ۵۹*

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمیں صرف یہی کہنا ہوتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ ۶۰*

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا اللہ کی راہ میں ہجرت کی۶۱* ہم ان کو دنیا میں ضرور اچھا ٹھکانا دیں گے ۶۲* اور آخرت کا اجر تو کہیں بڑھ کر ہے۔  اگر وہ جان لیتے۔ ۶۳*

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنہوں نے صبر کیا اور جو اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تم سے پہلے بھی آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی کرتے رہے۔ ۶۴* اگر تم نہیں جانتے تو "اہل ذکر" (جن پر اس سے پہلے ذکر نازل ہوا تھا) پوچھ لو۔ ۶۵*

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان (رسولوں) کو روشن نشانیوں اور کتابوں کے ساتھ بھیجا تھا۔  اور (اے پیغمبر) تم پر بھی ہم نے یہ ذکر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں پر وہ چیز واضح کر دو جو ان کی طرف بھیجی گئی ہے ۶۶* اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا یہ لوگ جو بری چالیں چل رہے ہیں اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسادے یا ایسی راہ سے ان پر عذاب آئے جس کا انہیں گمان بھی نہ ہو۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا ایسے وقت انہیں پکڑ لے کہ وہ چل پھر رہے ہوں۔ یہ لوگ اس کی گرفت سے ہرگز بچ نہیں سکتے۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا ایسے وقت انہیں پکڑ لے کہ وہ خوف کی حالت میں ہوں۔ ۶۷* فی الواقع تمہارا رب بڑی شفقت والا رحمت والا ہے۔ ۶۸*

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اس کا سایہ کس طرح اللہ کے آگے سجدہ کرتے ہوئے دہنے اور بائیں گرتا ہے۔ ۶۹* سب اس کے آگے پست ہیں۔ ۷۰*

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں اور زمین میں جتنے جاندار ہیں سب اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں۔ ۷۱* اور فرشتے بھی۔  وہ سر کشی نہیں کرتے۔

8

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ ۷۲*

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ نے فرمایا دو خدا نہ بناؤ۔  خدا تو بس ایک ہی ہے ۷۳* لہٰذا مجھ ہی سے ڈرو۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کے لیے ہے لازمی اطاعت۔ ۷۴* پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اوروں سے ڈرو گے ؟

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم کو جو نعمت بھی ملی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کے آگے گڑگڑانے لگتے ہو۔ ۷۵*

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب وہ تمہاری تکلیف کو دور کر دیتا ہے تو تم میں سے ایک گروہ۷۶* اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔ ۷۷*

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ وہ ہماری دی ہوئی نعمت کی ناشکری کریں۔  تو فائدہ اٹھا لو۔  عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو چیزیں ہم نے انہیں دی ہیں ان میں سے ایک حصہ وہ ان (معبودوں) کے لیے مقرر کرتے ہیں جن کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں ہے۔ ۷۸*

 

اللہ کی قسم! تم سے ان من گھڑت باتوں کے بارے میں ضرور باز پرس ہو گی۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کے لیے بیٹیاں ٹھہراتے ہیں۔  پاک ہے وہ۔ اور ان کے لیے وہ جو وہ چاہیں !۷۹*

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ گھٹا گھٹا رہنے لگتا ہے۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس خوشخبری کو برا خیال کر کے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ ذلت کے ساتھ رکھ لے یا مٹی میں اسے دبا دے۔ ۸۰* دیکھو کیسا برا فیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں !

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بری مثال ان لوگوں کے لیے ہے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ ۸۱* اور اللہ کے لیے تو اعلیٰ صفتیں ہیں۔ ۸۲* وہ غالب ہے حکمت والا۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر (فوراً) پکڑتا تو زمین پر کسی جاندار۸۳* کو نہ چھوڑتا۔  لیکن وہ انہیں ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے۔  پھر جب ان کا وقت مقرر آ جاتا ہے تو نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں اور نہ ایک گھڑی آگے۔ ۸۴*

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اللہ کے لیے وہ چیزیں ٹھہراتے ہیں جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں ۸۵* اور ان کی زبانیں جھوٹا دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے۔ ۸۶* ان کے لیے تو لازماً آگ ہے۔  وہ اسی میں چھوڑ دیئے جائیں گے۔ ۸۷*

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی قسم!۸۸* تم سے پہلے بھی ہم نے کتنی ہی امتوں کی طرف رسول بھیجے تھے تو شیطان نے لوگوں کو ان کے کرتوت خوشنما کر دکھائے۔ اور آج وہی ان کا رفیق ہے۔ ۸۹* ان لوگوں کے لیے تو دردناک عذاب ہے۔

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے یہ کتاب تم پر اسی لیے اتاری ہے کہ جن باتوں میں یہ اختلاف کر رہے ہیں ان کی حقیقت ان پر واضح کر دو۔ ۹۰* اور یہ ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور اس سے زمین کو جو مردہ ہو گئی تھی زندہ کر دیا۔ ۹۰* بلا شبہ اس میں نشانی ہے ۹۲* ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں۔ ۹۳*

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے لیے چوپایوں میں بھی سبق موجود ہے۔ ۹۴* ہم ان کے پیٹ سے فضلہ اور خون کے درمیان سے خالص دودھ تمہیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہوتا ہے۔ ۹۵*

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے تم نشہ آور چیز بھی بنا لیتے ہو اور اچھا رزق بھی حاصل کرتے ہو۹۶* بلاشبہ اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ ۹۷*

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر الہام کیا کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور چھتوں میں جن کو لوگ بلند کرتے ہیں چھتے بنا۔ ۹۸*

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس۹۹* اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چل۔ ۱۰۰* اس کے پیٹ سے مختلف رنگتوں کا ایک مشروب نکلتا ہے۔ ۱۰۱* جن میں لوگوں کے لیے شفاء ہے۔ ۱۰۲* یقیناً اس میں نشانی ہے ۱۰۳* ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو وفات دیتا ہے۔  اور تم میں سے کسی کو بدترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے کہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ بلاشبہ اللہ ہی سب کچھ جانے والا اور بڑی قدرت والا ہے۔ ۱۰۴*

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں برتری دی ہے تو جن کو برتری دی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیرنے والے نہیں کہ وہ اس میں برابر (کے حصہ دار) ہو جائیں۔ ۱۰۵* پھر کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں ؟۱۰۶*

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں بنائیں۔ ۱۰۷* اور تمہاری بیویوں سے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا۔  پھر کیا یہ لوگ باطل پر اعتقاد رکھتے ہیں اور اللہ کے احسان کو نہیں مانتے ؟۱۰۸*

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو اس بات کا کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ انہیں آسمانوں اور زمین سے رزق دیں۔  یہ بات ہرگز ان کے بس میں نہیں ہے۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو (دیکھو) اللہ کے لیے مثالیں نہ گڑھو۔  اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ ۱۰۹*

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ایک مثال بیان فرماتا ہے۔ ۱۱۰* ایک غلام ہے (دوسرے کا) مملوک جو کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اور دوسرا شخص وہ جس کو ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق دیا ہے اور اس میں سے وہ پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتا ہے۔  کیا یہ دونوں یکساں ہیں ؟۱۱۱* حمد اللہ ہی کے لیے ہے مگر اکثر لوگ انتے نہیں ہیں۔ ۱۱۲*

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ (ایک اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مثال بیان فرماتا ہے۔  دو آدمی ہیں جن میں سے ایک گونگا ہے۔  کسی چیز کی قدرت نہیں رکھتا۔  اپنے آقا پر وہ ایک بوجھ ہے جہاں کہیں اسے بھیجے کوئی بھلا کام اس سے بن نہ آئے۔  کیا ایسا شخص اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو عدل کا حکم دیتا ہے اور (خود) راہ راست پر ہے۔ ۱۱۳*

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آسمانوں اور زمین کی چھپی باتوں کا علم اللہ ہی کو ہے۔  اور قیامت کا معاملہ تو اسی طرح پیش آئے گا جس طرح کہ آنکھ کا جھپکنا بلکہ اس سے بھی زیادہ جلد۔ ۱۱۴* بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔  اور اس نے تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو۔ ۱۱۵*

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا وہ پرندوں کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح آسمان کی فضا میں مسخر ہیں۔  اللہ ہی ان کو تھامے ہوئے ہے۔  یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ ۱۱۶*

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو سکونت کی جگہ بنایا۱۱۷* اور تمہارے لیے چوپایوں کی کھالوں سے گھر بنا دئے جنہیں تم سفر اور قیام کے موقع پر نہایت ہلکا پاتے ہو۔ ۱۱۸* اور ان کے اون، روؤں اور بالوں سے تمہارے لیے (طرح طرح کا) سامان اور مفید چیزیں بنا دیں ۱۱۹* کہ ایک خاص وقت تک کام آئیں۔

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں سے تمہارے لیے سائے بنائے ۱۲۰* اور پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں ۱۲۱* اور ایسے لباس جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں ۱۲۲* نیز ایسی پوشاکیں جو تمہاری جنگوں میں تم کو محفوظ رکھتی ہیں ۱۲۳* اس طرح وہ تم پر اپنی نعمت پوری کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو۔ ۱۲۴*

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد بھی اگر یہ منہ موڑتے ہیں تو تم پر صرف صاف صاف پیغام پہنچا دینے ۱۲۵* ہی کی ذمہ داری ہے۔

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں پھر ان سے انکار کرتے ہیں ۱۲۶* اور ان میں اکثر نا شکرے ہیں۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے ۱۲۷* پھر کافروں کو نہ (عذر پیش کرنے کی) اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے توبہ کی فرمائش کی جائے گی۔ ۱۲۸*

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ظالم عذاب کو دیکھ لیں گے تو پھر نہ ان کا عذاب ہلکا کر دیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت ہی دی جائے گی۔

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ لوگ جنہوں نے (اللہ کے) شریک ٹھہرائے تھے جب اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو پکار اٹھیں گے۔  اے ہمارے رب! یہ ہیں ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریک جن کو ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے۔  اس پر وہ ان کی بات ان کے منہ پر دے ماریں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ ۱۲۹*

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن وہ اللہ کے آگے سپر ڈال دیں گے۔ ۱۳۰* اور جو جھوٹ وہ گھڑتے رہے ہیں وہ سب غائب ہو جائے گا۔ ۱۳۱*

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکتے رہے ہم ان کے عذاب پر اور عذاب کا اضافہ کریں گے اس فساد (بگاڑ) کی پاداش۱۳۲* میں جو وہ پیدا کرتے رہے۔

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس دن ہم ہر امت میں ایک گواہ ان ہی میں سے ان کے مقابل اٹھا کھڑا کریں گے اور تم کو ان لوگوں پر گواہی دینے کے لیے لائیں گے۔ ۱۳۳*اور (ان پر حجت قائم کرنے ہی کے لیے) یہ کتاب ہم نے تم پر نازل کی ہے جو ہر چیز کو صاف صاف بیان کرنے والی ہے ۱۳۴* اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جو مسلم (فرمانبردار) بن جائیں۔

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ حکم دیتا ہے عدل کا، ۱۳۵* بھلائی کا۱۳۶* اور قرابتداروں کو دینے کا۱۳۷* اور روکتا ہے بے حیائی، برائی اور ظلم سے۔  وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ کے عہد کو جب کہ تم نے باندھا ہو ۱۳۸* پورا کرو اور قسموں کو پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو۔ ۱۳۹* اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس عورت کی مانند نہ ہو جاؤ جس نے بڑی محنت سے سوت کاتا پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ۱۴۰* تم اپنی قسموں کو باہم خیانت کا ذریعہ بناتے ہو اس بنا پر کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بڑھ کر (طاقتور) ہے۔ ۱۴۱* اللہ اس کے ذریعہ تمہاری آزمائش کرتا ہے۔ ۱۴۲* وہ قیامت کے دن تمہارے اختلافات کی حقیقت تم پر ضرور کھول دے گا۔ ۱۴۳*

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ۱۴۴* اور تم جو کچھ کر رہے ہے اس کے بارے میں تم سے ضرور باز پرس ہو گی۔

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنی قسموں کو آپس میں خیانت کا ذریعہ نہ بناؤ کہ کوئی قدم جمنے کے بعد اکھڑ جائے ۱۴۵* اور اللہ کی راہ سے روکنے کی پاداش میں تمہیں برے نتیجہ کا مزا چکھنا پڑے اور تم بڑے عذاب کے مستحق ہو جاؤ۔ ۱۴۶*

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے عہد کو تھوڑی قیمت پر نہ بیچو۔  جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ ۱۴۷*

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ ۱۴۸* اور جن لوگوں نے صبر سے کام لیا ان کو ہم ان کے بہترین اعمال کے مطابق جزا دیں گے۔ ۱۴۹*

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے ۱۵۰* اور ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق ان کو عطا کریں گے۔

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ ۱۵۱*

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ ۱۵۲*

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا زور تو ان ہی پر چلتا ہے جو اس کو اپنا رفیق بناتے ہیں اور جو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ ۱۵۳*

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں ۱۵۴* ___اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے اس چیز کو جو وہ نازل کرتا ہے ___تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم تو اپنی طرف سے گھڑ لیا کرتے ہو۔  واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں (کہ حقیقت کیا ہے)۔

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اس کو روح القدس ۱۵۵* نے تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ وہ اہلِ ایمان کو مضبوطی عطا کرے اور ہدایت و بشارت ہو اسلام لانے والوں کے لیے۔

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں معلوم ہے کہ کہتے ہیں کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا ہے۔  حالانکہ اس آدمی کی زبان جس کی طرف یہ منسوب کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔ ۱۵۶*

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دراصل جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ ان کو راہ نہیں دکھاتا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جھوٹ تو وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے۔ ۱۵۷* وہی ہیں سر تا سر جھوٹے۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کسی نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس سے کفر کیا سوائے اس صورت کے کہ اسے مجبور کر دیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۱۵۸* لیکن جس نے کفر کے لیے سینہ کھول دیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ ۱۵۹*

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں پسند کر لیا۱۶۰* اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر کر دی۱۶۱* اور یہی لوگ ہیں جو غافل ہیں۔

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لازماً یہ لوگ آخرت میں تباہ حال ہوں گے۔

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جن لوگوں نے آزمائشوں میں پڑنے کے بعد ہجرت کی، جہاد کیا۱۶۲* اور صبر سے کام لیا تو ان (اعمال) کے بعد یقیناً تمہارا رب ان کے لیے بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ دن کہ ہر شخص اپنی مدافعت میں جھگڑتا ہوا حاضر ہو گا۔ ۱۶۳* اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان کے ساتھ ذرا بھی نا انصافی نہیں کی جائے گی۔

 

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو امن و اطمینان کی حالت میں تھی۔ ہر طرف سے اس کو بہ فراغت رزق پہنچ رہا تھا لیکن اس نے اللہ کی نعمتوں کی نا شکری کی تو اللہ نے ان کے (اس بستی والوں کے) کرتوتوں کی وجہ سے ان کو بھوک اور خوف کے طاری ہو جانے کا مزا چکھایا۔ ۱۶۴*

 

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے پاس ان ہی میں سے ایک رسول آیا مگر انہوں نے اسے جھٹلایا۔  بالآخر عذاب نے انہیں آ لیا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ ۱۶۵*

 

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس اللہ نے جو حلال اور پاکیزہ رزق تم کو دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔ ۱۶۶*

 

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے تو تم پر صرف مردار، خون، سور کا گوشت اور وہ (ذبحہ) حرام ٹھہرایا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ ۱۶۷* پھر جو کوئی مجبور ہو جائے اور نہ تو اس کا خواہشمند ہو اور نہ حد (ضرورت) سے تجاوز کرنے والا تو یقیناً اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۱۶۸*

 

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری زبانیں جو جھوٹے حکم لگاتی ہیں اس کی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام کہ اللہ کی طرف جھوٹ بات منسوب کرنے لگو۔ ۱۶۹* جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پائیں گے۔

 

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھوڑا سا عیش ہے پھر ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ۱۷۰*

 

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہود پر ہم نے وہ چیزیں حرام کر دی تھیں جو ہم اس سے پہلے تم سے بیان کر چکے ہیں۔ ۱۷۱* ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔ ۱۷۲*

 

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ تمہارا رب ان لوگوں کے لیے جنہوں نے جہالت کی وجہ سے برا عمل کیا پھر توبہ کر کے اصلاح کر لی تو یقیناً تمہارا رب اس کے بعد (ان کے لیے) بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۱۷۳*

 

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ابراہیم ایک مثالی شخصیت تھے۔ ۱۷۴* اللہ کے اطاعت گزار۱۷۵* ا ور اسی کے ہو کر رہنے والے۔ ۱۷۶* وہ کبھی مشرک نہیں رہے۔ ۱۷۷*

 

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی نعمتوں کے وہ شکر گزار تھے۔ ۱۷۸* اس نے ان کو چن لیا۱۷۹* اور سیدھی راہ کی طرف ان کی رہنمائی کی۔ ۱۸۰*

 

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ان کو دنیا میں بھی بھلائی عطا کی۱۸۱* اور آخرت میں بھی وہ صالحین میں سے ہوں گے۔ ۱۸۲*

 

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم کے طریقہ پر چلو جوراست رو تھے اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھے۔ ۱۸۳*

 

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سبت کی پابندی ان ہی لوگوں پر عائد کی گئی تھی جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا۔ ۱۸۴* اور یقیناً تمہارا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ فرما دے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ ۱۸۵*

 

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے رب کے راستہ کی طرف دعوت دو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور ان کے ساتھ بحث کرو بہترین طریقہ پر۔ ۱۸۶* تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔

 

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی لو جتنا تمہارے ساتھ کیا گیا ہے اور اگر صبر کرو تو یقیناً یہ بات صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔ ۱۸۷*

 

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر!) صبر کرو اور تمہارا صبر کرنا اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔  اور ان لوگوں (کے حال) پر غم نہ کرو اور نہ ان کی چالوں سے دل تنگ ہو۔

 

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلا شبہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور جو نیک کردار ہیں۔

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مشرکین جس چیز کے لیے جلدی مچا رہے تھے وہ عذاب تھا۔  وہ کہتے تھے کہ پیغمبر جس عذاب کی ہمیں دھمکی دے رہے ہیں وہ آک یوں نہیں جاتا؟

 

وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بالعَذابِ وَلَو لاَ اجلَ مُّسَمتٰی لَجَاءَ ہَمُ الْعَذَابُ (العنکبوت) "وہ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں اگر اس کا وقت مقرر نہ کیا گیا ہوتا تو عذاب ان پر ٹوٹ ہی پڑتا۔ "

 

اس لیے آیت میں اَمْرُ اللہ (اللہ کے حکم) سے مراد عذابِ الٰہی ہی ہے اور واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جو لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ان کے لیے عذاب مقدر ہو چکا اور وہ وقت قریب آ لگا ہے جبکہ یہ اس کا مزہ چکھیں گے چنانچہ چند سال کے اندر اندر ان لوگوں کا صفایا کر دیا گیا جو اخیر وقت تک شرک پر قائم رہے یہاں تک کہ حجۃ الوداع (۰۹ ھ) کے موقع پر نہ صرف یہ کہ مکہ میں کوئی مشرک باقی نہیں رہا تھا بلکہ پورے عرب سے مشرکین کا صفایا ہو گیا تھا۔  گویا مسلمانوں کی تلوار مشرکین پر اللہ کا عذاب بن کر چلی۔  یہ عذاب پچھلی قوموں کے عذاب سے ضرور مختلف تھا لیکن رسول کے مخالفین کو بہر صورت تباہی سے دو چار ہونا پڑا۔

 

اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موت نہایت قریبی چیز ہے اور جب ایک مشرک اور کافر کو موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے نمودار ہو جاتے ہیں اور اس کی روح عالم برزخ میں عذاب کا مزا چھکتی رہتی ہے۔  پھر قیامت کے دن_جو بہت جلد قائم ہونے والا ہے _ ایسے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔  غرضیکہ مشرکوں اور کافروں کے لیے اللہ کا عذاب ہر لحاظ سے قریب ہی ہے۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اللہ کی شان اس سے بلند ہے کہ اس کی خدائی میں کوئی شریک ہو اور جب یہ لوگ اس کی طرف ایسی بات منسوب کر رہ ہیں جو اس کی شان سے فروتر ہے تو اس کی طرف سے وہ سزا ہی کے مستحق ہو سکتے ہیں۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  روح، سے مراد وحی ہے جو اللہ تعالیٰ پیغمبروں پر نازل فرماتا ہے چونکہ یہ روح کی طرح پیغمبر کے قلب پر نازل ہوتی ہے نیز اس سے انسان کو زندگی ملتی ہے اس لیے اسے روح (Spirit) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آیت سے یہ بھی واضح ہوا کہ نبوت ایک عطیہ خداوندی ہے جس سے وہ اپنے ان بدنوں کو نوازتا ہے جن کو منصبِ نبوت کے لیے منتخب فرمایا ہے۔  بالفاظ دیگر نبوت کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ انسان کوشش کر کے اسے حاصل کر سکے بلکہ یہ بالکل وہبی یعنی خدا کی طرف سے بخشی جانے والی چیز ہے جس میں انسانی کوششوں کا کوئی دخل نہیں۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی ہے توحید ہی کے پیغام کو لیکر آئی ہے۔  اس لیے تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیم توحید ہی کی تعلیم تھی اور تقوی (خدا خوفی) ہی کی بنیاد پر انہوں نے زندگی گزارنے کی ہدایت کی تھی۔

 

واضح ہوا کہ جن مذاہب میں بھی شرک کی تعلیم پائی جاتی ہے اس کی نسبت کسی نبی کی طرف ہرگز صحیح نہیں ہے اور نہ ایسی چیز "وحی" یا خدا کا کلام ہو سکتی ہے۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس کی تشریح سورۂ انعام نوٹ ۱۲۴ میں گزر چکی۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی انسان اپنی اس حقیقت کو بھول گیا کہ وہ کیسی حقیر چیز سے پیدا گیا ہے اور بحث کرنے لگا کہ دوسری زندگی کس طرح ممکن ہے۔  اگر وہ اپنی پہلی پیدائش پر غور کرتا تو اس پر یہ حقیقت واضح ہوتی کہ جو خدا پانی کے ایک حقیر قطرے سے اعلیٰ صلاحیتوں والا انسان پیدا کر سکتا ہے وہ یقیناً اس کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس حقیقت کو اگر انسان نے پا لیا تو وہ خدا کے مقابلہ میں بحث کرنے اور جھگڑنے کی جسارت ہرگز نہ کرتا۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ان کے بالوں اور اون سے تم گرم پوشاک بنا لیتے ہو۔

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی بعض سواری کے کام آتے ہیں اور بعض ہل چلانے کے۔  پھر ان سے دودھ بھی حاصل ہوتا ہے اور ان کا چمڑا بھی کام آتا ہے اس طرح ان سے گوناگوں فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ان کا گوشت تمہارے لیے غذا کا کام دیتا ہے۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  چونکہ ان چار پایوں سے طرح طرح کے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور وہ افزائشِ نسل کے لیے بھی پالے جاتے ہیں جو حصول دولت کا ایک ذریعہ ہے اس لیے وہ منظر انسان کی نگاہ میں کھبنے لگتا ہے جب وہ ان کو چرا کر اپس لاتا ہے یا چرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

 

واضح رہے کہ نزولِ قرآن کے زمانہ میں چوپائے پالنے کا رواج تھا نیز یہ ان کا پیشہ بھی تھا اس لیے قرآن نے اس نعمت کا احساس دلانے کے لیے اس کی منظر کشی کی ہے۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس زمانے میں اونٹ اور بیل بار برداری کا بہت بڑا ذریعے تھے۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اللہ شفقت والا ہے اس لیے اس نے ایسی چیزیں انسان کے لیے پیدا کیں جو اس کو مشقت اور تکلیف سے بچانے والی ہیں اور وہ مہربان ہے اس لیے انسان کو طرح طرح کی نعمتیں عطا کیں۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اوپر ان مویشیوں کا ذکر تھا جن کو عربی میں "اَنعَام" کہا جاتا ہے یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری۔  ان کے بارے میں فرمایا کہ "مِنْھَا تَأکُلُونَ" (ان سے تم غذا حاصل کرتے ہو) لیکن یہاں گھوڑے، خچر اور گدھے کے بارے میں فرمایا کہ وہ اس لیے پیدا کئے گئے ہیں تاکہ تم ان پر سوار ہو۔  اس لیے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ وہ جانور کھانے کے لیے ہیں اور یہ سواری کے لیے۔  انسانی طبیعتیں بھی گھوڑے، خچر اور گدھے کے کھانے سے مانوس نہیں ہیں۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  غالباً اشارہ ان قوتوں کی طرف ہے جو اس وقت انسان کے علم میں نہیں تھیں مگر بعد کے انکشافات سے ان ہی کی بدولت انسان کو حمل و نقل کے جدید ذرائع مہیا ہوئے مثلاً بھاپ، پیٹرول، بجلی وغیرہ جن سے موٹریں، ریل، ہوائی جہاز وغیرہ چلتے ہیں اور اللہ ہی جانتا ہے کہ اور کیا چیزیں ہیں جو اس نے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کی ہیں۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی عقیدہ و عمل کی جو سیدھی راہ ہے وہی اللہ تک پہنچنے والی ہے انسان اسی پر چل کر اللہ کو پاسکتا ہے اور اس کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔  اس سیدھی راہ کا اصطلاحی نام اسلام ہے جس کی طرف قرآن دعوت دے رہا ہے۔

 

اوپر کی آیت میں اللہ کی اس نعمت کا ذکر ہوا تھا کہ اس نے سواری کے لیے جانور پیدا کر دئے۔  اس سے راہ اور منزل کا تصور خود بخود ابھر رہا تھا۔  اس موقع کی مناسبت سے قاری کے ذہن کو معنوی راہ اور حقیقی منزل کی طرف موڑ دیا گیا کہ توحید ہی کی راہ سیدھی راہ ہے اور وہی خدا تک پہنچتی ہے۔  اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کی آیات کس طرح باہم مربوط ہیں چونکہ قرآن کے پیش نظر فکر و ذہن کی تعمیر ہے اس لیے وہ موقع کی مناسبت سے بلند حقیقتوں کی طرف ذہن کو موڑ تا ہے اور اس پہلو سے آیات کے درمیان گہرا ربط ہوتا ہے۔

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی توحید کے علاوہ جو اسلام کی راہ ہے دوسری راہیں سیدھی نہیں ہیں بلکہ ٹیڑھی ہیں اور وہ ہرگز خدا تک نہیں پہنچتی۔  کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ کسی بھی راہ کو اختیار کر کے آدمی خدا کو پا سکتا ہے اور آدمی توحید کو مانے یا شرک کرے اس سے نہ غایت بدلتی ہے اور نہ نتائج کا فرق واقع ہوتا ہے۔

 

موجودہ دور میں مصلحت پرست لوگ سیاسی مقاصد کے پیش نظر شرک اور بت پرستی کی راہ کو بھی توحید کی راہ کے برابر اور اسلام کے ساتھ مشرکانہ اور باطل مذاہب کو بھی یکساں قرار دینے کی باتیں بڑے دلفریب انداز میں پیش کر رہے ہیں چند مثالیں ملاحظہ ہوں "تمام مذاہب کی روح ایک ہے گو اس کی شکلیں مختلف ہیں۔  بالکل اسی طرح جیسے کہ پانی کی حقیقت ایک ہے جو کنویں سے بھی حاصل ہو سکتا ہے، چشموں سے بھی فراہم ہو سکتا ہے اور دریاؤں کی گھاٹوں سے بھی مہیا کیا جا سکتا ہے۔ " (گگن کا مذاہب عالم نمبر ص۶۴) "دنیا کے تمام عقیدے ایک ہی درخت کی شاخوں کی طرح ہیں اور ہر شاخ ایک دوسرے سے جدا ہے اور اپنی امتیازی شان رکھتی ہے مگر ان شاخوں کا منبع یا مرکز ایک ہی۔ " (حوالہ مذکور ص ۸۱۸)

 

یہ دونوں مثالیں گمراہ کن ہیں کیونکہ جس پانی میں شرک کی نجاست مل گئی ہو وہ توحید کے چشمۂ صافی کی طرح کیسے ہو سکتا ہے اور جو درخت کڑوے کیلے پھل دیتا ہو وہ اس درخت کی طرح کیسے ہو سکتا ہے جو میٹھے پھل لاتا ہے ؟

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۲۷۱۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی روز مرہ کی زندگی میں انسان کھانے پینے کی جن نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ان پر اگر وہ غور و فکر کرے تو اپنے رب کو پہچان لے جس نے اسے پیدا کیا ہے وہی اس کا حقیقی محسن ہے جس نے طرح طرح کی نعمتوں سے اسے نوازا ہے۔

 

آج کا انسان اپنی قوت فکر کو یہ جاننے کے لیے تو استعمال کرتا ہے کہ کھانے کی فلاں چیز میں کس قسم کے وٹامن (Vitamin) ہیں اور کیلریز (Calories) کی کتنی مقدار پائی جاتی ہے لیکن یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ یہ چیزیں کس کی بخشی ہوئی ہیں اور اس بخشش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ہستی کے بارے میں اس کے جذبات کیسے ہونے چاہئیں اور اس کے ساتھ تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے جس نے یہ چیزیں اسے بخشی ہیں انسان جب اپنی قوتِ فکر کو اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کرتا تو وہ محض معاشی حیوان بن کر رہ جاتا ہے۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مسخر کر رکھا ہے یعنی اپنی قدرت قاہرہ سے ان کو ایسا بنا دیا ہے کہ وہ تمہاری خدمت اور تمہیں نفع پہنچانے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ابراہیم نوٹ ۴۱۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تاروں کے چند فائدے تو بالکل ظاہر ہیں مثلاً ان کا آسمان کی زینت بننا جس سے انسان کے ذوقِ جمال کی تسکین ہوتی ہے، ان کے طلوع و غروب سے اوقات کی تعین میں مدد ملتی ہے، وہ سمت معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں چنانچہ صحرائی اور سمندری سفر میں ان کی افادیت بالکل ظاہر ہے۔  ان فائدوں کے علاوہ وہ ہماری کس کس طرح خدمت کر رہے ہیں وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی انسان اگر عقل عام (Common Sense) ہی کو استعمال کرے تو وہ یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہے گا کہ اس کے خالق نے نہ صرف زمین پر اس کے لیے بزم سجائی ہے اور اس کی خدمت کا بھر پور سامان کیا ہے۔  یہ احساس جب انسان میں پیدا ہو جاتا ہے تو اس پر ہدایت کی راہ کھل جاتی ہے۔  

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی کیا یہ رنگ برنگ کی چیزیں جو زمین میں پھیلی ہوئی ہیں آرٹ کا بہترین نمونہ نہیں ہیں اور کیا اس سے تمہیں کوئی سبق نہیں ملتا؟ سبق حاصل کرنے والے تو پتے پتے پر اس کے کاریگر کے ہاتھوں کا لکھا ہوا سبق پڑھ لیتے ہیں۔  

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی سمندر کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی قوتِ قاہرہ سے انسان کے لیے نفع بخش بنا دیا ہے چنانچہ سمندر انسان کے لیے مچھلیوں کی شکل میں غذا فراہم کرتے ہیں۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی موتی، مرجان اور سیپ جن کے زیور عورتیں پہنتی ہیں جو نوع انسانی ہی کی ایک صنف ہے۔  اس لیے اللہ کا یہ احسان نوع انسانی پر ہے۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی تجارتی سفر کر کے اپنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے جائز طریقے اختیار کرو۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  زمین کا۳/۴ حصہ سمندر سے ڈھکا ہوا ہے اور کرۂ زمین ہوا میں معلق ہے اس لیے عجب نہیں کہ جس طرح کشتی پانی میں ہچکولے کھاتی ہے اور اس میں بوجھ ڈال دینے سے ٹھہراؤ کی صورت پیدا ہوتی ہے اسی طرح ابتداء میں زمین کی حالت بھی اضطراب کی رہی ہو اور اس میں پہاڑوں کے بوجھ ڈال دینے سے توازن کی صورت پیدا ہو گئی ہو۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مراد قدرتی راستے ہیں۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اپنی منزل کو پہنچ سکو۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ایسی علامتیں جن کو دیکھ کر مسافر اپنا راستہ پہچان سکیں اور اپنی منزل پر پہنچ سکیں۔

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تارے سمت معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں اس لیے قدیم زمانہ میں مسافر ان کو دیکھ کر رہنمائی حاصل کرتے تھے اور موجودہ زمانہ میں بھی جہاز رانی (Navigation) کے کام میں ان سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جب یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ساری نعمتیں اللہ ہی کی پیدا کردہ اور عطا کردہ ہیں تو اس کا درجہ الٰہ کا درجہ ہوا لیکن جن کا تخلیق میں کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ خود مخلوق ہیں ان کا درجہ الٰہ کا کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ سراسر نا معقول اور عدل و انصاف کے خلاف بات ہے کہ خالق اور مخلوق کو ایک ہی سطح پر رکھا جائے اور دونوں کے حقوق و اختیارات یکساں درجے کے تسلیم کر لئے جائیں یا خالق کا درجہ گھٹا کر اس کو مخلوق کی سطح پر لایا جائے۔  مشرکین کی اصل گمراہی یہی ہے کہ وہ خالق اور مخلوق میں تمیز نہیں کرتے اور خالق کی صفات اور اس کے حقوق و اختیارات میں مخلوق کو شریک ٹھہراتے ہیں۔  بت پرستی ہو یا بزرگ پرستی سب اسی باطل عقیدہ کا نتیجہ ہیں۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس کی تشریح سورۂ ابراہیم نوٹ ۴۳  میں گزر چکی۔

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اللہ بڑا بخشنے والا ہے اس لیے وہ تمہیں دعوت دے رہا ہے کہ اس کی نعمتوں کے قدر داں بن کر اس کی بخشش کی طرف لپکو اور وہ بڑی رحمت والا ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ تم اس سے بندی کا تعلق قائم کر کے اس کی آغوشِ رحمت میں آ جاؤ۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ تنبیہ ہے کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو تو یاد رکھو اللہ تمہارے ظاہر و باطن کو اچھی طرح جانتا ہے اور ایک دن آنے والا ہے جب وہ یہ سب باتیں تمہارے سامنے کھول کر رکھ دے گا۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہاں خاص طور سے مشرکین کے ان معبودوں کا ذکر ہو رہا ہے جو ماضی کی شخصیتیں تھیں جیسا کہ بعد کی آیت سے واضح ہے۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مراد وہ گزری ہوئی شخصیتیں ہیں جن کو مشرکین حاجت روائی کے لیے پکارتے تھے، ان سے فریاد کرتے، دعائیں مانگتے اور ان کو اللہ کے حضور اپنا سفارشی ٹھہراتے۔  یہاں ان کے اسی شرک کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اول تو زندہ ہی نہیں ہیں کہ تمہاری فریاد سن سکیں کیونکہ وہ کبھی کے دنیا سے رخصت ہو چکے۔  رہیں عالم برزخ میں ان کی روحیں تو وہ یہ بھی نہیں جانتیں کہ قیامت کب قائم ہو گی اور انہیں کب قبروں سے اٹھایا جائے گا۔  اور یہ روحیں جب اپنا حال نہیں جانتیں تو تمہارے حال کو جاننے، تمہاری پکار کو سننے اور تمہاری حاجتوں کو پورا کرنے پر کس طرح قادر ہو سکتی ہیں ؟ حاجت روائی کے لیے تو سب سے پہلے اس علم غیب کی ضرورت ہے جس کی بنا پر ہر ہر شخص کا حال معلوم ہو اور اس کی پکار سنی جائے۔  یہ علم اللہ کی خاص صفت ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔

 

وفات پائے ہوئے انسانوں کو خدا کی طرح حاضر و ناظر سمجھنا ایک اٹکل بچو بات ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اور یہی شرک کی جڑ ہے۔

 

واضح رہے کہ مشرکین عرب اگرچہ زندگی بعد موت کے قائل نہ تھے لیکن جن گزری ہوئی شخصیتوں سے انہیں عقیدت تھی ان کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ ان کی روحیں خدائی نظام میں دخل ہیں، وہ ہماری فریاد کو پہنچ سکتی ہیں ہماری قسمتوں پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، وہ اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں اور ان کا واسطہ اور وسیلہ اختیار کر کے اللہ سے قریب ہو سکتے ہیں اس لیے حاجت روائی کے لیے ان کو پکارنے اور ان سے مدد مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر قرآن نے اس پورے تصور ہی کو باطل اور مشرکانہ قرار دیا۔  

 

عام طور سے مفسرین نے اس آیت کو بتوں پر چسپاں کیا ہے لیکن آیت کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دیتے۔  خاص طور سے یہ الفاظ کہ "انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے" اس باب میں صریح ہیں کہ مراد انسان ہی ہو سکتے ہیں نہ کہ بت اس لیے اس کا مفہوم متعین کرنے میں کسی تکلیف کی ضرورت نہیں ہے۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی خدا کا ایک ہونا تو ایک واضح حقیقت ہے لیکن چونکہ توحید کو ماننے سے آخرت کو ماننا لازم آتا ہے اس لیے وہ لوگ اس کو کسی طرح قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو دنیا میں آزادانہ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور باطل پرستی کے نتیجہ میں ان کی نفسیات ایسی بن گئی ہیں کہ وہ حق کے آگے جھکنے کو اپنی کسر شان سمجھتے ہیں۔  

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  قرآن میں حق و باطل کی کشمکش کی تاریخ اور گزری ہوئی قوموں کے عبرتناک واقعات بیان ہوئے ہیں۔  اس نے ذہنوں میں ایک زلزلہ تو پیدا کر ہی دیا تھا اس لیے لوگ اپنے سرداروں سے پوچھتے کہ یہ قرآن کیسا کلام ہے۔  وہ بلا تامل کہہ دیتے کہ یہ گذشتہ قوموں کے محض افسانے ہیں۔  حقیقت کچھ بھی نہیں۔

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی یہ سردار وار لیڈر جو عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، قیامت کے دن نہ صرف اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے بلکہ ساتھ ہی ان لوگوں کے گناہوں کے بوجھ کا بھی ایک حصہ انہیں اٹھانا پڑے گا جنہیں انہوں نے گمراہ کیا تھا۔  حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"ومن و عالی الی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل آثام من تبعہ لا ینقص ذلک من آثا مھم شیئا۔ " اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا اور اس پر گناہ کا بار اسی طرح ہو گا جس طرح کہ گمراہی کو قبول کرنے والوں پر ہو گا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی ہو۔ " (مسلم)

 

اس "علم کے بغیر" کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور مذہب کے بارے میں یہ جو کچھ کہتے ہیں وہ نری جہالت کی باتیں ہیں۔  علم حق کی روشنی انہیں حاصل ہی نہیں ہے۔  ظاہر ہے خدا کے بارے میں وہی بات علم پر مبنی ہو سکتی ہے جو خدا نے بتلائی ہو نہ کہ وہ جو آدمی اپنی طرف سے اس کے بارے میں کہے اور خدا کے بتلانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے نبیوں پر وحی بھیجتا ہے جو علم کا مخصوص ذریعہ ہے اس لیے جو بات انبیاء علیہم السلام کے توسط سے ملتی ہے وہ ٹھوس علم پر مبنی ہوتی ہے۔

 

واضح ہوا کہ تمام مشرکانہ فلسفے اور ملحدانہ نظریات خواہ وہ کتنے ہی علمی رنگ میں پیش کئے گئے ہوں سراسر جہالت ہیں علم حقیقی سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ایسی کتنی قومیں اس سے پہلے گزر چکی ہیں جنہوں نے اپنے رسولوں کے خلاف سازشیں کیں مگر شرک اور کفر کی بنیاد پر جو نظام انہوں نے قائم کیا تھا رسول کی دعوتِ حق نے اس کی چولیں ہلا دیں اور پھر جب اللہ کا فیصلہ نافذ ہوا تو یہ نظام جڑ بنیاد سے اکھڑ گیا اور اس کے قائم کرنے والوں پر ایسی آفت ٹوٹ پڑی کہ بالکل تباہ ہو کر رہ گئے۔  شرک اور کفر کا یہ نتیجہ عملاً جس شکل میں رونما ہوا وہ ایک ایسا عذاب تھا جس نے ان کی بنائی ہوئی عمارتوں کو ان کا مدفن بنا دیا مثال کے طور پر زلزلہ کے جھٹکے نے نیچے سے ان کی عمارتوں کی بنیا دیں ہلا دیں اور پھر چھت سمیت پوری عمارتیں ان کے رہنے والوں پر آ گریں۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جن کو تم نے میری خدائی میں شریک ٹھہرایا تھا اور اس کے لیے تم نے بڑی بحثیں کھڑی کر دی تھیں بتاؤ اب وہ کہاں غائب ہو گئے۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی دنیا میں جن کو علم عطا ہوا تھا بالفاظ دیگر جنہوں نے اس علم سے استفادہ کیا تھا جس کا اصل منبع وحی الٰہی ہے وہ میدان حشر میں مشرکین کا یہ حال دیکھ کر محسوس کریں گے کہ مشرکین کے جس انجام کی خبر وحی الٰہی نے دی تھی وہ بالکل سامنے ہے چنانچہ وہ پکار اٹھیں گے کہ آج کافروں کو اپنے برے انجام کو پہنچنا ہے۔

 

آیت سے یہ بھی واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اہل علم کو کس طرح اعزاز بخشے گا۔

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ کافروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وضاحت ہے کہ قیامت کے دن تو ان کا وہ انجام ہو گا جو اوپر بیان ہوا لیکن گرفتار عذاب تو وہ اسی وقت ہوتے ہیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کر لیتے ہیں۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی شرک، کفر اور سرکشی کر کے وہ آپ اپنے اوپر ظلم ڈھاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ضمیر کی آواز کو جو توحید ہی سے آشنا ہے دباتے ہیں جس کے نتیجہ میں نفس کا نہ صرف نشو و نما رک جاتا ہے بلکہ وہ گھٹ کر رہ جاتا ہے۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی موت کے فرشتوں کو دیکھتے ہی ان کے غرور کا نشہ اتر جاتا ہے اور اپنی ساری بحثیں ختم کر کے تسلیم و اطاعت کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔  اس وقت ان پر ایسا خوف طاری ہوتا ہے کہ وہ اپنے برے اعمال سے انکار کرنے لگ جاتے ہیں لیکن فرشتے ان کے اس جھوٹ کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے کہ تم جھوٹ بول کر چھوٹ جاؤ۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی مشرکوں اور کافروں کو فرشتے موت کے وقت ہی یہ خبر دے دیتے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن جہنم میں داخل ہونا ہے اور اس عذاب میں ہمیشہ کے لیے رہنا ہے یہ معاملہ موت کی سرحد شروع ہوتے ہی یعنی عالم برزخ میں پیش آتا ہے جسے حدیث میں قبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تقویٰ اور نیکی کی روش اختیار کرنے والوں کو جو نیک بدلہ دنیا میں ملتا ہے وہ ہے پاکیزہ رزق، پاکیزہ زندگی، سکون قلب، حلاوتِ ایمان اور سچی عزت و سرفرازی۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انسان کو تکلیف اسی لیے ہوتی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہ اسے نہیں ملتا اور دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان کی ہر خواہش پوری ہو اور نہ دنیا میں کوئی ایسا انسان یہاں تک کہ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی ایسا نہیں گزرا جس کی تمام خواہشیں پوری ہوئی ہوں۔  اگر ایسا ہو تو دنیا جنت بن جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو اس مقصد کے لیے بنایا ہی نہیں ہے اس لیے کسی کا اس دنیا سے یہ توقع رکھنا کہ اس کی تمام آرزوئیں یہاں پوری ہو جائیں گی محض خام خیالی ہے۔  اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے آخرت میں جنت بنائی ہے۔  جس کی تعریف ہی یہ ہے کہ اس میں داخل ہونے والے کی ہر خواہش پوری ہو گی اس کی ہر امید بر آئے گی، اس کی ہر تمنا حقیقت کا روپ اختیار کرے گی، اس کے تمام ارمان نکلیں گے اور اس کی ہر آرزو پوری ہو کر رہے گی۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اس حال میں کہ ان کے نفس شرک، کفر تکبر اور معصیت کی آلودگی سے بالکل پاک ہوتے ہیں۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  سچے متقیوں کو فرشتے جنت کی بشارت موت کے وقت ہی دے دیتے ہیں۔

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی موت کے فرشتے۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی عذاب۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جس عذاب کا وہ مذاق اڑاتے تھے اس نے بری طرح ان کو گرفت میں لے لیا۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی یہ محض بہانے ہیں قبول حق کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے اور ایسے ہی بہانے اور ایسی ہی بحثیں ماضی کی گمراہ قومیں بھی کرتی رہی ہیں۔  اپنی گمراہی کی ذمہ داری اللہ پر ڈالنا ان ہی لوگوں کا کام ہے جو خدا اور اس کے دین کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہاں طاغوت سے مراد بت ہیں اور ان کو طاغوت اس لیے کہا گیا ہے کہ آدمی ان کی پرستش کر کے اللہ کا باغی اور سرکش بن جاتا ہے۔  گویا بت سرکشی و بغاوت کا ذریعہ اور مظہر ہیں۔  اور طاغوت سے بچنے کا مطلب بتوں کی پرستش سے باز رہنا ہے چنانچہ قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے :

 

وَالَّذِینَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَعْبُدُوْہَا وَ اَنَابُوْ آاِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الْبُشرْیٰ (زمر ۱۷)۔ "اور جنہوں نے طاغوت کی پرستش سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا ان کے لیے خوشخبری ہے۔ " فَاجْتِنبُوا الرِّجْسَ مِن الْاَدْثَانِ (حج ۳۰) "بتوں کی گندگی سے بچو۔ " وَاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ (ابراہیم ۳۵) "(ابراہیم نے دعا کی) مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچا۔ "

 

آیت کا مطلب یہ ہے کہ بت پرستی جو ہر زمانہ میں خدا سے بغاوت کا بہت بڑا ذریعہ رہی ہے ہر رسول اپنی قوم کو اس سے بچنے کی ہدایت کرتا رہا ہے اور اس کی دعوت یہی رہی ہے کہ خدائے واحد کی عبادت کرو۔

 

واضح رہے کہ طاغوت کا اطلاق شیطان پر بھی ہوتا ہے اور معبود ان باطل پر بھی، سرکش پیشواؤں اور لیڈروں پر بھی ہوتا ہے اور خدا کے قانون کے مقابلہ میں قانون سازی کرنے والوں اور خود ساختہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والے حاکموں پر بھی۔  مگر ہر اطلاق کا ایک محل ہے۔  یہاں محلِ کلام دلیل ہے کہ خاص طور سے بت پرستی سے بچنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ (طاغوت کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۴۱۸  سورۂ نساء نوٹ ۱۱۸  اور ۱۴۳  نیز سورۂ مائدہ نوٹ ۱۸۰۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ان رسولوں کی دعوت حق کے نتیجہ میں ایک گروہ نے بتوفیق الٰہی ہدایت پائی اور دوسرا گروہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہدایت سے محروم رہا اور اس پر گمراہی بری طرح مسلط ہو گئی۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جن لوگوں پر اللہ کا قانونِ ضلالت چسپاں ہو گیا ہے ان پر ہدایت کی راہ کبھی کھلنے والی نہیں ہے خواہ تم کتنی ہی شدت کے ساتھ ان کی ہدایت کی خواہش کرو۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اللہ کا یہ حتمی وعدہ ہے کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو جر مر چکے ہوں گے دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جزا و سزا کا معاملہ پیش آئے۔  لیکن اکثر لوگ چونکہ اس وعدہ سے بے خبر ہیں اس لیے وہ بڑے وثوق کے ساتھ اس کی تردید کرتے ہیں۔  مگر ان کے بے خبری سے حقیقت بدلنے والی نہیں ہے۔  دوبارہ اٹھا لئے جانے کا واقعہ لازماً پیش آئے گا خواہ کوئی اس پر ایمان لائے یا نہ لائے۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی خدا اور مذہب کے بارے میں جو اختلافات لوگوں کے درمیان پیدا ہو گئے اور پھر عمل کی جو الگ الگ راہیں ہو گئیں ان کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ سب کو دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کیا جائے اور حقیقت کو بے نقاب کر کے ان کو دکھا دیا جائے اور جو لوگ حقیقت کا انکار کتے رہے ہیں ان کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے تاکہ وہ اپنے کئے کا مزا چکھیں۔  یہ عدل و انصاف کا کھلا تقاضا ہے اس لیے دوبارہ اٹھائے جانے کی خبر خلافِ عقل نہیں بلکہ عین مطابق عقل ہے۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ منکرین کے اس شبہ کا جواب ہے کہ بے شمار انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنا کیونکر ممکن ہے ؟ فرمایا اللہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کچھ کرنا نہیں پڑتا۔  وہ حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ چیز اسی وقت وجود میں آ جاتی ہے۔  ایسی زبردست قدرت رکھنے والی ہسی کے لیے مردوں کو زندہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔

 

واقعہ یہ ہے کہ انسان بڑا تنگ نظر واقع ہوا ہے وہ اللہ کی قدرت کو اپنے بنائے ہوئے پیمانہ سے ناپتا ہے اور جو کچھ موجود ہے اسی کو ممکن تصور کرتا ہے۔  وہ ایک غیر موجود چیز کو ممکن تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا اگرچہ اس کو وجود میں لانے کی خبر کائنات کا خالق دے رہا ہو۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اشارہ ہے ہجرت حبشہ کی طرف جو نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے۔  مکہ میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ان پر مشرکین طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے تھے۔  وہ ان کو ضمیر اور مذہب کی آزادی دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔  ان کے اسی ظلم و ستم سے مجبور ہو کر اپنے دین کو بچانے کی خاطر مسلمانوں کی ایک تعداد نے حبشہ (ابی سینا) کو ہجرت کی۔  پہلا قافلہ تقریباً  15 افراد پر مشتمل تھا جس میں چار خواتین تھیں۔  بعد میں یہ تعداد 83  تک پہنچ گئی۔

 

ہجرت حبشہ کی سعادت حاصل کرنے والوں میں حضرت عثمان، آپ کی اہلیہ رقیہ جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی تھیں، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حاطب بن عمرو، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہم جیسی شخصیتیں شامل تھیں۔ (اس واقعہ کی تفصیل سیرت ابن ہشام ج ا ص ۳۴۳ تا۳۶۴ میں بیان ہوئی ہے)۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ مہاجرین کے حق میں پورا ہوا چنانچہ شاہِ حبش نے جو عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتا تھا ان کو اپنے ملک میں امن و امان سے رہنے کی اجازت دی اور مشرکین کے جو لیڈر مکہ سے اس کو ورغلانے کے لیے حبش پہنچ گئے تھے ان کا کوئی اثر اس نے قبول نہیں کیا۔  اتنا ہی نہیں بلکہ وہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لے آیا۔

 

بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ ہجرت کر گئے تو یہ مہاجرین بھی حبش سے مدینہ ہجرت کر گئے۔  یہ ان کی دوسری ہجرت تھی اور مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کو وہ عزت و سر فرازی بخشی جس کا اس سے پہلے کوئی اندازہ نہیں کر سکتا تھا۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اگر ان مہاجرین کو اس بات کا علم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کیسا کچھ اجر تیار کر رکھا ہے تو وہ ساری کلفتیں جو ہجرت کی راہ میں پیش آ رہی ہیں کافور ہو جائیں۔

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  متن میں لفظ "رِجالاً"  استعمال ہوا ہے جس کے معنی مرد کے ہیں۔  اس سے واضح ہوا کہ انسانوں میں سے مرد ہی رسول بنا کر بھیجے گئے۔

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مراد اہل کتاب ہیں جن پر ذکر یعنی یاد دہانی نازل ہوئی تھی۔  اس یاد دہانی کا جو حصہ ان کی کتابوں میں موجود ہے وہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اللہ کی طرف سے جو رسول بھی بھیجے گئے وہ سب آدمی ہی تھے۔  کبھی کسی فرشتہ کو رسول بنا کر کسی قوم کی طرف نہیں بھیجا گیا۔  یہ ایک واضح تاریخی حقیقت ہے اور اگر اس سے کوئی شخص واقف نہیں ہے تو اہلِ کتاب سے پوچھ کر اپنا اطمینان کر سکتا ہے۔

 

واضح رہے کہ اہل کتاب اس بات کے قائل تھے کہ رسول انسانوں ہی میں سے بنائے جاتے رہے ہیں۔  مثال کے طور پر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام انسان ہی تھے چنانچہ بائبل میں ان کے بچپن کے حالات بھی بیان ہوئے ہیں کہ انہوں نے کس طرح پرورش پائی ہے اس لیے قرآن نے مشرکین کو جو نبی صلی اللہ علیہ کی رسالت کا اس بنا پر انکار کر رہے تھے کہ آپ انسان ہیں ایک ایسی بات کی طرف متوجہ کیا جو اہلِ کتاب کے ہاں مسلم تھی۔

 

اس سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ قرآن کی جن باتوں کی تائید پچھلی کتابوں سے ہوتی ہے ان کا حوالہ دینے میں حرج نہیں ہے۔

 

بعض حضرات نے قرآن کے اس ارشاد سے کہ اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو فقہی مسلک کی تقلید کو جائز ثابت کرنا چاہا ہے حالانکہ اس آیت کا فقہی اور شخصی تقلید سے دور کا بھی تعلق نہیں۔  قرآن نے ایک مسلمہ حقیقت کے سلسلہ میں جو تواتر سے ثابت تھی اہل ذکر کی طرف رجوع کرنے کے لیے کہا تھا تاکہ جو شبہ منکرین کو پیش آ رہا تھا وہ رفع ہو جائے لیکن مقلدین فقہا کے استنباطی مسائل کے سلسلہ میں شخصی تقلید کے لیے اس کو دلیل بناتے ہیں جبکہ استنباط کئے ہوئے مسائل میں خطا کا بھی امکان ہے اور ان کی حیثیت بہر حال مسلمات کی نہیں ہے۔  علاوہ ازیں قرآن نے کسی تخصیص کے بغیر اہلِ ذکر سے پوچھنے کے لیے کہا ہے یعنی ٹکسالی عالم کی قید نہیں ہے بلکہ جاننے والا ہونا کافی ہے۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل فرمایا ہے اس کو وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان کر دو۔  آگے آیت ۶۴  میں بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح کی ہدایت دی گئی ہے : وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَیکَ الْکِتَابَ اِلاَّ لِتُبَینَ لَہُمْ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیہِ (نحل ۶۴) "ہم نے کتاب تم پر اسی لیے اتاری ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے اختلافات کی حقیقت کھول کر بیان کر دو۔ "

 

اس لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کی آیات، اس کی تعلیمات اور اس کے احکام کی جس طرح تشریح و توضیح کی ہے اور اس کے اسرار و حکم کو جس طرح کھولا ہے وہ کتابِ الٰہی کی مستند ترین تشریح، تعبیر اور تفسیر ہے اور ہمارے لیے اس کے جاننے کا ذریعہ احادیث صحیحہ ہیں۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی پہلے سے خوف و خطر کی حالت میں ہوں اور پھر خدا کی طرف سے گرفت ہو جائے اور مصیبت پر مصیبت کا مزا انہیں چکھنا پڑے۔  ان آیات کے نزول کے چند سال بعد کچھ اسی طرح کے حالات سے کفار مکہ کو دو چار ہونا پڑا۔  جنگ بدر ایک خوف و خطر کی حالت تھی جس میں مسلمانوں کی تلوار کافروں پر قہر الٰہی بن کر گری۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اللہ شفقت اور رحمت والا ہے اس لیے وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے تاکہ تم سنبھل جاؤ اور اس کی رحمت کے مستحق بنو۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ عام مشاہدہ میں آنے والی بات ہے کہ ہر چیز کا سایہ زمین پر گرتا ہے۔  سایہ کا زمین پر گرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہر چیز خدا کے قانون میں جکڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے سایہ کو زمین پر گرنے سے روک نہیں سکتی اور زمین پر سایہ کا گرنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ اللہ کو سجدہ کر رہی ہے۔  

 

پھر سایہ سورج کی مخالف سمت گرتا ہے۔  سورج مشرق میں ہے تو سایہ مغرب کی طرف گرے گا اور اگر سورج مغرب میں ہے تو سایہ مشرق کی طرف گرے گا۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سایہ سورج کو سجدہ نہیں کرتا بلکہ اپنے رب کو سجدہ کرتا ہے۔  کافر کا معاملہ بھی عجیب ہے وہ اللہ کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے لیکن اس کا سایہ اللہ ہی کو سجدہ کرتا ہے اگر وہ اس بات پر غور کرے تو توحید کو قبول کر لے اور اپنے کو اللہ کے آگے جھکا دے۔

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی خالق کے آگے بڑا کوئی نہیں۔  ساری مخلوق اس کے آگے پست اور عاجز ہے پھر کسی چیز کے خدا ہونے کا کیا سوال اور اس کی پرستش کے کیا معنی؟

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اوپر کی آیت میں عام مشاہدہ میں آنے والی چیز سایہ کے سجدہ کرنے کا ذکر تھا۔  اس آیت میں اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ آسمان اور زمین کی تمام جاندار مخلوق اللہ ہی کو سجدہ کرتی ہے یعنی اپنے کو اسی کے آگے جھکاتی ہے اور جس جاندار کے لیے جھکنے کی جو شکل اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہے اس کے مطابق وہ جھکتا ہے۔

 

اس آیت نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جاندار مخلوق صرف زمین ہی میں نہیں آسمانوں میں بھی موجود ہے۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہاں فرشتوں کی چار صفات کا ذکر ہوا ہے۔  ایک یہ کہ وہ اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں۔  دوسری یہ کہ وہ بڑائی اور سرکشی نہیں کرتے۔  تیسری یہ کہ وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اس احساس کے ساتھ کہ وہ ان کے اوپر موجود ہے اور چوتھی یہ کہ وہ اطاعت شعار ہیں اور اس کے ہر حکم کو بجا لاتے ہیں۔  اور جب فرشتوں کا اپنا حال یہ ہے تو ان کو خدا کا شریک ٹھہرانے کا کیا مطلب؟ یہ نری جہالت نہیں تو اور کیا ہے؟

 

یہ آیتِ سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت کرتے ہوئے سجدہ کرنا چاہیے۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اللہ کا یہ فرمان ہمیشہ سے رہا ہے اور قرآن میں اس نے اپنے اس فرمان کو بالکل محفوظ کر دیا ہے۔

 

ایک سے زائد خدا کا عقیدہ ہر لحاظ سے باطل ہے اور کوئی شخص دو خداؤں (Dualism) کا قائل ہو یا تثلیث (Trinity) کا اور کسی نے متعدد معبود بنا رکھے ہوں یا ہزاروں جہالت و حماقت کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے ہیں۔

 

دو خداؤں کا تصور (Dualism) خاص طور سے زرتشتیوں (پارسیوں) میں پایا جاتا ہے۔  ان کے ہاں خیر کا خدا یزدان ہے او ر شر کا خدا اہرمن!  دنیا میں خیر و شر کی جو کشمکش ہے اس کی انہوں نے یہ فلسفیانہ توجہ کی کہ خیر کا خدا الگ ہے اور شر کا الگ۔  گویا دو خداؤں میں کشمکش برابر جاری ہے اور انسان بلا وجہ اس کشمکش کی زد میں آ رہا ہے اور جب یہ دونوں خدا جنگ سے اب تک فارغ نہیں ہو سکے ہیں تو انسان دنیا میں جنگ سے کیونکر فارغ ہو سکتا ہے ؟ یہ تصور دونوں خداؤں کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ کوئی ایک خدا بھی اتنا طاقتور نہیں ہے کہ دوسرے پر غالب آ سکے اور پھر انسان کے لیے سوائے مایوسی کے کچھ نہیں رہ جاتا۔  خدا کا یہ کتنا گھٹیا تصور ہے جو کسی مذہب میں پایا جائے سُبحَانہ و تَعالیٰ عَمَّایَقُوْلُوْنَ غُلُوّاً کَبِیْراً (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۳)۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  متن میں لفظ "الدین" استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ یہاں اس اطاعت کے ہیں جو دل کے خضوع کے ساتھ ہو۔  اور "واصب" کے معنیٰ لازم اور دائمی کے ہیں۔  مطلب یہ ہے کہ اللہ کی لازمی اور مستقل اطاعت اس کا حق ہے۔  یہ اطاعت نہ وقتی ہے اور نہ کسی کی اپنی پسند پر موقوف ہے۔  بلکہ بندہ ہونے کی حیثیت سے انسان کا تعلق اپنے رب کے ساتھ اسی نوعیت کی اطاعت کا ہونا چاہیے اور دل کی گہرائیوں کے ساتھ ہونا چاہیے نہ کہ محض رسمی اور ضابطہ بندی کی حد تک۔

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۷۱۔

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی نوع انسانی کا ایک گروہ۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جب اللہ تمہاری تکلیف دور کر دیتا ہے تو بجائے اس کے کہ اس کا احسان مانو غیر اللہ کا احسان ماننے لگتے ہو کہ یہ فلاں اور فلاں کی مہربانی سے ہوا۔

 

مشرکین دیوی دیوتاؤں کی مہربانی سمجھتے ہیں اور مسلمانوں میں جو لوگ شرک میں مبتلا ہیں وہ اسے "اولیا" اور "پیروں" کی مہربانی قرار دیکر اس کے شکریہ کے طور پر ان کے نام کی نذر و نیاز کرتی ہیں۔  شرک کی یہ قسم قرنِ اول کے مسلمانوں میں نہیں تھی یہ بعد میں ایجاد ہوئی اور اب اس کا ایسا چلن ہو گیا ہے کہ موجودہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس کو سرے سے شرک ہی نہیں سمجھتی۔  کاش وہ ان آیات کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ لیتے !

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی وہ خدائی میں جن کو شریک مانتے ہیں اس کا کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں ہے پھر بھی ان کو اللہ کا شریک مان کر ان کی نذر و نیاز کے لیے اپنی آمدنی میں سے ایک حصہ خاص کر دیتے ہیں۔  مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۲۴۷۔

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے جو سراسر ایک بے بنیاد بات ہے بیٹیاں ہونا ان کے نزدیک بجائے خود ایک معیوب بات تھی چنانچہ وہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے تھے اور اگر لڑکی پیدا ہو جاتی تو اسے اپنے لیے عار سمجھتے۔  اس طرح انہوں نے اپنے لیے جو معیار قائم کر لیا تھا اس سے پست معیار اللہ کے لیے قائم کیا تھا۔  ان کی اسی فاسد ذہنیت پر ضرب لگائی گئی ہے۔

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  عرب میں قبائلی سسٹم رائج تھا جس میں دفاع وغیرہ کے تعلق سے مردوں کی خاص اہمیت تھی۔  یہ پہلو ان کے ذہنوں میں اس قدر غالب رہا کہ لڑکیوں کی پیدائش انہیں ناگوار ہونے لگی اور سوسائٹی کا ذہن ایسا بگڑ گیا کہ وہ اسے عیب خیالی کرنے لگی۔  نتیجہ یہ کہ جب کسی شخص کو یہ اطلاع مل جاتی کہ اس کے گھر لڑکی پیدا ہوئی تو غم سے اس کا چہرہ بدل جاتا اور وہ غصہ کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔  اگر اس کی پرورش وہ کرتا تو اس کو اپنے لیے باعثِ عار سمجھ کر کرتا یا پھر اس عار سے بچنے کے لیے اسے گڑھا کھود کر زندہ دفن کر دیتا۔  ان کی اسی ظالمانہ حرکت کی تصویر ان آیتوں میں کھینچی گئی ہے تاکہ انہیں اپنی غلط ذہنیت کا احساس ہو جائے۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے اندر لازماً برے اوصاف پرورش پاتے ہیں مثلاً فاسد عقائد، نیتوں کا کھوٹ، نمود و نمائش، حسد و بغض، حرام خوری، بے حیائی، حق تلفی، اسراف، ظلم و زیادتی اور دوسری بہت سی برائیاں۔  اس لیے وہ اسی لائق ہیں کہ ان کی حالت کو واضح کرنے کے لیے بری مثالیں دی جائیں چنانچہ قرآن میں ان کی اس بات کو کہ وہ غیر اللہ کو اپنا کار ساز بنائے ہوئے ہیں مکڑی کے بودے گھر سے تعبیر کیا گیا ہے (سورۂ عنکبوت ۴۱) ، ان کی مثال اندھوں اور بہروں سے دی گئی ہے (ہود۲۴۰) ان کو جانور سے تشبیہ دی گئی ہے جو کچھ سمجھتے نہیں۔ (اعراف ۱۷۹)

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اللہ کے لیے کوئی ایسی مثال ہرگز صحیح نہیں ہو سکتی جس سے کوئی عیب یا کمزوری اس کی طرف منسوب ہوتی ہو۔  اس کی صفات نہایت اعلیٰ ہیں اس لیے اس کے بارے میں ایسی باتیں ہی کہی جا سکتی ہیں جن سے اس کی شان اور مرتبہ کی بلندی کا اظہار ہوتا ہو۔

 

فرشتوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ خدا کی بیٹیاں ہیں یا بیٹوں جیسے ہیں ایک ایسی بات خدا کی طرف منسوب کرنا ہے جو اس کے مرتبہ سے بہت فروتر ہے۔  اسی طرح خدا کو بادشاہوں پر قیاس کر کے یہ کہنا کہ ہم اپنی حاجتیں براہ راست خدا کے سامنے پیش نہیں کر سکتے لہٰذا اپنی درخواستوں کو اس تک پہنچانے کے لیے واسطے اور وسیلے ضروری ہیں خدا کے لیے غلط اور نا مناسب مثالیں گھڑنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہاں جاندار سے مراد انسان ہے جیسا کہ آیت کے الفاظ "اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر پکڑتا" سے واضح ہے۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہ لوگ اپنے لیے بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں لیکن اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔  

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ان مشرکانہ عقائد و عمال کے باوجود اس بات کے مدعی ہیں کہ ہمارے لیے خیریت ہی خیریت ہے۔  دنیا کی بھلائیاں ان شریکوں کے طفیل ہی ہمیں ملتی ہیں اور اگر آخرت کا مرحلہ پیش آ ہی گیا تو یہی شرکا (فرشتے) ہمارے سفارشی ہوں گے اور ہماری نجات کا سامان کریں گے۔

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی وہ بھلائی کے خواب دیکھ رہے ہیں حالانکہ جہنم لازمی طور پر ان کا ٹھکانا بننے والی ہے اور اس میں ان کو اس طرح چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ اس عذاب سے کبھی نجات نہ پا سکیں گے۔

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے یہاں اپنی ذات کی قسم کھائی ہے جس سے بڑھ کر یقین اور وثوق پیدا کرنے والی چیز اور کیا ہو سکتی ہے۔

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی ہے کہ تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے گئے تھے لیکن انہوں نے رسولوں کی بات نہیں مانی بلکہ شیطان کی فریب کاری کا شکار ہو گئے اور تمہاری قوم بھی آج اسی شیطان کو رفیق بنائے ہوئے ہے۔

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا اور مذہب کے بارے میں لوگوں کے درمیان زبردست اختلافات پائے جاتے ہیں۔  ان اختلافات کی حقیقت واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن نازل فرمایا۔  اس کے بعد لوگوں کے لیے ان بنیادی امور میں اختلاف کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔  اس کے باوجود اگر لوگ اپنے اختلافات پر جمے رہے تو وہ آپ اپنے عمل کے ذمہ دار ہوں گے۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خشک زمین پا بارش کے چھینٹے پڑتے ہی وہ سر سبز و شاداب ہو گئی۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانی اس بات کی کہ جو خدا مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے وہ مردوں کو بھی زندہ رکستا ہے۔  مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۱۹۷۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جو گوشِ ہوش سے سنتے ہیں۔

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  سبق توحید کا، اللہ کی ربوبیت کا اور اس کے کمال قدرت کا۔

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جانور کے پیٹ میں جہاں گوبر اور خون پیدا ہوتا ہے وہیں ایک تیسری چیز خالص دودھ بھی پیدا ہوتا ہے جس میں ان دو چیزوں کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا اور انسان اس کے پینے میں لذت محسوس کرتا ہے۔  گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لیے بے شمار چلتے پھرتے کارخانے بنائے ہیں جن میں عجیب و غریب طریقہ سے اعلیٰ درجہ کا مشروب تیار ہوتا ہے جو لذیذ بھی ہے اور صحت بخش بھی۔

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے حاصل ہونے والے پھل اللہ کی بہترین نعمت ہیں مگر لوگ ان پھلوں سے شراب بنا کر اس نعمت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔  آیت کے یہ الفاظ "تم نشہ آور چیز بھی بنا لیتے ہو اور اچھا رزق بھی" اس بات کی طرف صریح اشارہ کرتے ہیں کہ نشہ آور چیز اچھا رزق (رزق حسن) نہیں ہے۔

 

اگرچہ خمر (شراب) کی حرمت کا صریح حکم بعد میں نازل ہوا۔  (سورۂ بقرہ آیت ۲۱۹  اور سورۂ مائدہ ۹۱) لیکن اس سے بہت سے بہت پہلے اس آیت کے ذریعہ اس کے پاکیزہ رزق نہ ہونے کی طرف واضح اشارہ کیا گیا تھا۔

 

یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ شراب پچھلی شریعتوں میں جائز رہی ہے کیونکہ قرآن کی رو سے شراب ایک نجس چیز اور شیطانی عمل ہے اور ایسی چیزوں کو خدا کی شریعت کبھی سند جواز عطا نہیں کرتی۔  بائبل کی کتاب یعیاہ اور امثال میں شراب کو نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے:

 

"ان پر افسوس جو مَے پینے میں زور آور اور شراب ملانے میں پہلوان ہیں" (یعیاہ ۵: ۲۲)

 

"تو شرابیوں میں شامل نہ ہو اور نہ حریص کبابیوں میں" (امثال ۲۳: ۲۰)

 

"مَے مسخرہ اور شراب ہنگامہ کرنے والی ہے اور جو کوئی ان سے فریب کھاتا ہے دانا نہیں۔ " (امثال ۲۰: ۱)

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی آدمی عقل عام (Common Sense) سے کام لے تو یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہے گا کہ اس کا رب بڑا ہی محسن ہے کہ اس نے بہترین نعمتیں اس کے لیے پیدا فرمائی ہیں اور یہ احساس جب اس میں پیدا ہو گا تو وہ اس توحید کو پالے گا جس کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اللہ نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ اونچی جگہوں میں چھتے بنائے اور پھلوں اور پھولوں کا رس چوس کر شہد تیار کرے۔  شہد کی مکھی اس کام کو جس طرح انجام دیتی ہے وہ عقل کو حیرت میں ڈالنے والا ہے۔  چھتے میں وہ مسدس خانے بناتی ہے جس کے زاوئے اتنے صحیح ہوتے ہیں کہ گویا جومیٹری کے کسی ماہر نے آلات کی مدد سے بنائے ہیں۔  پھر وہ شہد جمع کرنے کا کام اجتماعی طور پر نظم و انضباط کے ساتھ نہایت سرگرمی اور بڑے سلیقہ سے انجام دیتی ہے۔  شہد کی مکھی کی یہ کاریگری اس کے رب کی تعلیم کا نتیجہ ہے۔  اس تعلیم کو جو براہ راست خدا کی طرف سے اسے ملتی ہے "وحی" سے تعبیر کیا گیا ہے جس کا ترجمہ ہم نے "الہام" کیا ہے۔

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  متن میں لفظ "ثمرات"  استعمال ہوا ہے جو پھلوں پھولوں اور پیداوار کے لیے عام ہے۔ شہد کی مکھی مختلف پھولوں پھلوں اور جڑی بوٹیوں کا رس چوستی ہے۔  یہ رس اس کے پیٹ کی تھیلی میں جمع ہو کر شہد میں تبدیل ہو جاتا ہے جسے وہ اگل کر اپنے چھتے میں جمع کرتی ہے۔  ایک پونڈ شہد جمع کرنے کے لیے اسے جو چکر کاٹنا پڑتے ہیں ان کا مجموعی فاصلہ کرۂ زمین کے گرد تین چکر لگانے کے بقدر ہوتا ہے۔  ملاحظہ ہو کتاب

) Honey by Eva Crane Director Bee Research Association London P.4 (

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  "رب کی ہموار راہوں" سے مراد وہ طور طریقے ہیں جن کو اختیار کر کے شہد کی مکھی کے لیے شہد بنانا آسان ہو گیا ہے۔  شہد کا جو ایک ایک قطرہ وہ جمع کرتی ہے اس کے لیے اسے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے اور کئی مراحل سے اسے گزرنا پڑتا ہے مگر یہ سب مراحل اس کے رب نے اس کے لیے اتنے آسان کر دیئے ہیں کہ وہ برابر اپنے کام میں لگی رہتی ہے اور دور دور تک پھولوں کی تلاش میں جاتی ہے اور راستہ بھٹک بغیر اپنے چھتہ میں آ کر شہد جمع کرتی ہے۔  پھلوں سے اس وقت وہ رس چوستی ہے جبکہ اس کا چھلکا نرم ہویا پھٹ گیا ہو۔

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  شہد کے مختلف رنگ ہوتے ہیں سرخ، سفید، زرد جس قسم کے پھلوں اور پھولوں کا رس شہد کی مکھی چوستی ہے اس کی مناسبت سے شہد میں رنگ، ذائقہ اور طبی خصوصیات (Medical Properties) پیدا ہو جاتی ہیں۔

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  شہد ایک لذیذ اور مفید غذا ہونے کے علاوہ مختلف بیماریوں کے لیے نسخۂ کیمیا بھی ہے۔  قدیم زمانہ سے لوگ اس کو شفا کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔  شہد ایک اچھا محفوظ کرنے والا مادہ (Preservative) بھی ہے کیونکہ اس میں بیکٹریا (Bacteria) پرورش نہیں پا سکتا اس لیے یونانی دواؤں میں بہ کثرت اس کا استعمال ہوتا ہے۔  جدید طبی تحقیقات کی رو سے شہد میں مختلف قسم کے وٹامن (Vitamins) اور معدنیات (Minerals) پائی جاتی ہیں۔  گویا شہد ایک اچھا خاصا ٹانک (Tonic) بھی ہے۔

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  نشانی اس بات کی کہ ان گوناگوں خصوصیات اور فوائد سے بھر پور مشروب تیار کرنے کے کام میں شہد کی مکھی کو لگا کر انسان کو اس نے ایک نفیس نعمت عطا فرمائی ہے اس سے اس کی شان ربوبیت کا اظہار ہوتا ہے۔

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  عمر کے بدترین حصہ سے مراد بہت زیادہ بڑھاپے کی عمر ہے جب کہ انسان کی قوتیں جواب دینے لگتی ہیں اور بعض لوگوں کا حال تو یہ ہو جاتا ہے کہ انہیں اپنا ہوش بھی نہیں رہتا۔ دوسری قوتوں کے ساتھ قوتِ حافظہ بھی کمزور ہو جاتی ہے۔  قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے :

 

اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ من بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفاً وَّ شَیْبَۃً (سورۂ روم ۵۴) "اللہ نے تمہیں کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد تمہیں طاقتور بنایا پھر طاقتور بنانے کے بعد تمہیں کمزور اور بوڑھا بنا دیا۔ " وَ مَنْ نُعَّمِّرہُ نُنَکِّسْہُ فی الْخَلْقِ (سورۂ یٰسین ۶۸) "اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے اس کو خلقت میں اوندھا کر دیتے ہیں"

 

اس طرح انسان میں طبعی طور پر واقع ہونے والا یہ انحطاط اس کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔  قوتوں میں کمال کے بعد یہ زوال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انسان کا اپنا بل بوتا کچھ بھی نہیں جس پر وہ فخر کر سکے بلکہ ساری قوتیں اس کے خالق کی بخشی ہوئی ہیں اور وہ جب چاہتا ہے ان کو چھین لیتا ہے۔  حقیقتہً علیم و قدیر ہی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ واقعہ ہے کہ حصول رزق کے معاملہ میں تمام انسانوں کا حال یکساں نہیں ہے کسی کو معیشت کے زیادہ وسائل حاصل ہیں اور کسی کو کم اور جہاں تک غلاموں کا تعلق ہے ان کے حقوق اپنی جگہ لیکن دنیا کا یہ مسلمہ اصول رہا ہے کہ غلام اپنے آقا کی ملکیت میں شریک نہیں ہے کہ دونوں کی حیثیت برابر ہو جائے۔  اگر ایسا ہوتا تو غلام غلام ہی نہ رہتا۔  لہٰذا جب انسان اپنی ملکیت میں اپنے غلاموں کو شریک کی حیثیت نہیں دیتا تو خدا کی خدائی میں اس کے بندوں کو کس طرح شریک ٹھہراتا ہے ؟ ایک ایسی بات جو اپنے لیے پسند نہیں کرتا اسے وہ خدائے برتر کی طرف منسوب کرنے کی کیسے جرأت کرتا ہے ؟

 

واضح رہے کہ اس مثال سے مقصود اللہ کا شریک ٹھہرانے والوں کی غلط ذہنیت کو واضح کرنا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جس طرح کہ قرآن نے مشرکین کے اس عقیدہ پر کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں گرفت کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنے لیے تو بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہو مگر خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہو۔  مقصود اس سے ان کے ذہن کی خرابی اور عقیدہ کے فساد کو واضح کرنا ہے نہ کہ اس بات کو سند جواز عطا کرنا کہ انسان اپنے لیے بیٹیوں کو معیوب سمجھتے اسی طرح یہاں بھی غلاموں کی اصولی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے مثال دی گئی ہے ان کے ساتھ برتاؤ اور سلوک کا مسئلہ یہاں زیر بحث نہیں ہے۔  اس لیے بات کو اس کے دائرہ میں رکھ کر غور کرنا چاہیے۔  بعض حضرات نے یہاں فلسفہ معیشت کی بحث چھیڑ دی ہے جو بالکل بے محل ہے۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جب یہ آقا اور غلام کے فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں تو پھر خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کے بندوں کی طرف کس طرح منسوب کرتے ہیں ؟ کیا خدا کے بندے اور اس کی مخلوق اس کی خدائی اور اس کی ملکیت میں شریک ہے ؟ اگر نہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہرگز ایسا نہیں ہے تو کسی بھی نعمت کے مل جانے پر خدا ہی کا شکر گزار ہونا چاہیے مگر اللہ کا شریک ٹھہرانے والے کسی نعمت کے حاصل ہو جانے پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے بندوں اور اس کی مخلوق کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کی نوازشوں سے ہمیں یہ نعمت ملی۔

 

یہ مشرکین کا حال بیان ہوا ہے لیکن موجودہ دور میں بدعت پسند مسلمانوں کا حال بھی ایسا ہی ہے ان میں سے کسی کو جب اولاد یا کوئی اور نعمت ملتی ہے تو وہ اسے "خواجہ غریب نواز" اور "پیران پیر" وغیرہ کی نوازش قرار دینے اور شکر کے طور پر ان کے حضور عقیدت کی نذریں اور نیازیں پیش کرنے لگتا ہے اس قسم کی مشرکانہ حرکتوں کے باوجود یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے عقیدۂ توحید پر کوئی حرف نہیں آتا۔  کاش وہ قرآن کی تعلیم پر غور کرتے۔

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی تمہارے لیے بیویاں کسی اور جنس اور نوع سے نہیں بلکہ تمہاری اپنی جنس یعنی نوع انسانی سے پیدا کیں تاکہ تم ان سے انس محسوس کرو۔

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ان لوگوں کا معاملہ عجیب ہے۔  فائدہ تو وہ اللہ کی نعمتوں سے اٹھاتے ہیں لیکن احسان اوروں کا مانتے ہیں۔

 

واضح رہے کہ مشرکین مکہ کو اس بات سے انکار نہیں تھا کہ یہ اور اس قسم کی دوسری نعمتیں اللہ کی پیدا کی ہوئی ہیں اس کی بخشی ہوئی ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ یہ اعتقاد بھی رکھتے تھے کہ فلاں اور فلاں خدا کے حضور ہمارے سفارشی ہیں ان کی سفارش اور ان کے وساطے سے ہمیں مختلف قسم کی نعمتیں ملتی ہیں اس لیے ان کا احسان ماننا اور ان کا شکر بجا لانا ضروری ہے۔  اس اعتقاد کے نتیجہ میں ان کے سفارشوں نے خدا کی جگہ لے لی تھی چنانچہ وہ ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتے جو صرف خدا کے ساتھ کیا جانا چاہیے تھا۔

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  خدا کے لیے مثالیں گھڑنے اور تشبیہ دینے سے ہی شرک کی راہیں کھلی ہیں۔  مثال کے طور پر خدا کے لیے بیٹے اور بیٹیوں کا تصور آغاز میں ایک مثال اور تشبیہ کے طور پر تھا لیکن جب جب اس تصور نے پختہ اعتقاد کی شکل اختیار کر لی تو مثال اور تشبیہ باقی نہیں رہی اور ان کے تجویز کردہ بیٹے اور بیٹیاں معبود بن گئے۔  اسی طرح خدا کو انسانی بادشاہوں پر قیاس کر کے کہا گیا کہ جس طرح بادشاہ تک اپنی درخواست پہنچانے کے لیے واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اپنی حاجتیں خدا تک پہنچانے کے لیے فلاں اور فلاں کے واسطے اور وسیلے ضروری ہیں۔  پھر جب اس تصور نے اعتقاد کی شکل اختیار کر لی تو ان واسطوں اور وسیلوں نے خدائی کا مقام حاصل کر لیا۔  اب ان ہی کو حاجت روائی کے لیے پکارا جانے لگا، ان ہی سے فریاد کی جانے لگی ان ہی کی منتیں مانی جانے لگیں، اور ان ہی کے لیے نذریں اور نیازیں پیش کی جانے لگیں۔  غرض ان کی پرستش کے مختلف طریقے اختیار کئے گئے۔  نتیجہ یہ کہ اپنے حقیقی رب سے تعلق کمزور اور خود ساختہ خداؤں سے تعلق مضبوط ہو گیا۔

 

قرآن نے خدا کے لیے مثالیں گھڑنے کی ممانعت کر کے شرک کا دروازہ بند کر دیا ہے وہ کہتا ہے خدا کے بارے میں قیاس آرائی سے کام لینا جہالت ہے۔  علم کی راہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان پر ایمان لاؤ کیونکہ اللہ سے بڑھ کر اس کی صفات کو جاننے والا کون ہو سکتا ہے ؟

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ایک ایسی مثال جس سے شرک کی تردید ہوتی ہے۔

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ایک شخص بے اختیار غلام ہے اور دوسرا آزاد و مختار ہونے کے علاوہ فیاض بھی ہے۔  کیا تم دونوں کو یکساں خیال کرتے ہو۔  نہیں بلکہ جب تم کوئی چیز مانگنا چاہتے ہو تو دوسرے شخص ہی سے مانگتے ہو پہلے شخص سے نہیں کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ وہ بے اختیار ہے کچھ کر نہیں سکتا۔ غیر مختار اور خود مختار کے اس فرق کو تم اپنے باہمی معاملات میں اچھی طرح سمجھتے ہو اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل اختیار کرتے ہو لیکن جب اپنی حاجتیں حاجت روا کے سامنے پیش کرنے کا معاملہ ہوتا ہے تو خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی طرف رجوع کرتے ہو اور اس کے بے اختیار بندوں کو اپنا محسن مان کر ان کی شکر گزاری کرنے لگتے ہو۔ کیا یہ صریح جہالت نہیں ہے ؟

 

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی حقیقی محسن اللہ ہی ہے اس لیے شکر کا مستحق وہی ہے مگر اکثر لوگ اس واضح حقیقت سے بھی آگاہ نہیں ہیں اس لیے وہ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا محسن سمجھتے ہیں اور ان کا شکر ادا کرنے لگتے ہیں۔

 

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  پہلی مثال توحید کے تعلق سے تھی یہ دوسری مثال رسالت کے تعلق سے ہے کہ ایک طرف وہ سردار اور لیڈر ہیں جن کی زبانیں حق گوئی کے لیے بند ہیں، خیر کی صلاحیت سے بالکل محروم، اپنے رب کا رزق کھاتے ہیں مگر نا شکرے ہیں، بھلائی کے جو کام کرنے کے لیے ان کے رب نے ان کو دنیا میں بھیجا ہے وہ ان کو انجام نہیں دیتے دوسری طرف اللہ کا پیغمبر ہے جو اپنے رب کی سیدھی راہ یعنی توحید پر قائم ہے اور اپنی قوتِ گویائی کو حق اور عدل و انصاف کی تعلیم کے لیے استعمال کر رہا ہے۔  بتاؤ ان دونوں میں سے کون ہے جو رہنما بنائے جانے کا مستحق ہے ؟ ظاہر ہے کہ پیغمبر۔  لیکن عجیب بات ہے کہ لوگ خدا کے پیغمبر کو چھوڑ کر ناکارہ لیڈروں کی پیروی کر رہے ہیں۔

 

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مطلب یہ ہے کہ جس ہستی نے کائنات کے اس نظام کو بنایا ہے اس کے لیے اس نظام کو توڑ دینا اور اس کے اندر سے نئے نظام کے ساتھ ایک نئی دنیا پیدا کر دینا کچھ بھی مشکل نہیں۔  جس دن اللہ قیامت برپا کرنا چاہے گا چشم زدن میں بلکہ اس سے بھی کم وقت میں ہنگامہ برپا ہو جائے گا۔

 

ماضی کا انسان قیامت کو اس بنا پر عقل سے بعید خیال کرتا تھا کہ اس کائنات کا نظام نہایت ہی مضبوط ہے وہ ٹوٹ کیسے سکتا ہے اور یہ بڑے بڑے پہاڑ ریزہ ریزہ کس طرح ہو سکتے ہیں مگر سائنسی ترقی نے اس کا امکان بالکل ظاہر کر دیا ہے چنانچہ ذرہ کو پھاڑ دینے (Split) سے اتنی زبردست قوت خارج ہوتی ہے کہ آناً فاناً وہ پورے شہر کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے تو جس ہستی کا ذرہ ذرہ پر کنٹرول ہے اس کا تو ایک اشارہ ذرات کو پھاڑ دینے کے لیے کافی ہو سکتا ہے اور ان کے پھٹ جانے سے وہ زبردست دھماکہ ہو سکتا ہے جس کا نام قیامت ہے اس کائنات کا خالق یقیناً اس بات پر قادر ہے کہ ایک سیکنڈ کے اندر قیامت کا دھماکہ کرے۔

 

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انسان جب پیدا ہوتا ہے تو علم سے عاری اور بے خبر ہوتا ہے مگر رفتہ رفتہ اس میں سننے، دیکھنے اور سوچنے سمجھنے کی قوتیں ابھرنے لگتی ہیں جن کی بنا پر اسے دوسری مخلوقات پر امتیاز حاصل ہو جاتا ہے۔  یہ قوتیں اللہ ہی کی بخشی ہوئی ہیں اس لیے ان نعمتوں کا حق یہ ہے کہ انسان اپنے محسن کو پہچانے اور اس کا شکر ادا کرے لیکن وہ اس سے بے پرواہ ہو کر ناشکری کرنے لگتا ہے۔

 

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اگر لوگ آنکھیں کھول کر فضائے آسمانی میں اڑنے والے پرندوں کو دیکھیں تو انہیں اللہ کی قدرت اور اس کی ربوبیت کی نشانیاں دکھائی دیں اور وہ اس پر ایمان لے آئیں۔  پرندے کسی مصنوعی قوت کا سہارا لیے بغیر اپنے پروں کے ذریعہ کس طرح فضا میں اڑتے ہیں ؟ کون ہے جس نے ان کو اڑنے کے لیے پر دئے پھر ان کو اڑنے کی ایسی تربیت دی کہ وہ فضا میں میلوں سفر کرتے ہیں اور گر نہیں جاتے ؟ وہ کون ہے جس کے حکم اور قانون کے یہ تابع (مسخر) ہیں ؟

 

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  گھر بنانے کا فن اللہ ہی نے سکھایا اور اس کے لیے وسائل بھی فراہم کر دیئے۔  گھر میں انسان کو جو سکون ملتا ہے وہ اسی کی دین ہے۔

 

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی مویشیوں کے چمڑے سے خیمے بنائے جاتے ہیں جن کو تہ کر کے سفر میں ساتھ لے جانا بھی آسان ہے اور قیام کے دوران ان کو کھول کر ڈیرا بنا لینا بھی آسان۔  گویا یہ فولڈ ہونے والے مکانات (Folding Houses) ہیں جو اللہ کا عطیہ ہیں۔  

 

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اون بھیڑ سے، روئیں اونٹ سے اور بال بکری سے حاصل کئے جاتے ہیں۔  ان سے کمبل، لباس اور فرش وغیرہ بنتے ہیں۔  

 

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  درختوں اور پہاڑوں کے سائے۔

 

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  غار اور کھوہ۔

 

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  لو کی گرمی سے محفوظ رکھنے والے لباس۔

 

اوپر اون کا ذکر ہوا جس سے سردی سے بچانے کے لیے لباس بنائے جاتے ہیں اس لیے یہاں خصوصیت سے گرمی سے بچانے والے لباس کا ذکر فرمایا جو روئی وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں اور ان کی ضرورت عرب جیسے گرم ملک میں زیادہ ہوتی ہے۔

 

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی زر ہیں۔

 

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر نعمتوں کی ایسی بارش کر دی ہے کہ تمہاری کوئی طبعی اور فطری ضرورت ایسی نہیں رہی جس کی تکمیل کا سامان نہ کیا گیا ہو۔  یہ نعمتیں اس نے تمہیں اس لیے عطا کی ہیں کہ تم اپنے رب کو پہچانو اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ۔

 

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اگر ان تمام باتوں کے باوجود جو اوپر بیان ہوئیں ان کے اندر اپنے رب کی بندگی کا احساس نہیں ابھرتا اور اپنے غلط عقائد ہی پر جمے رہنا چاہتے ہیں۔  تو وہ اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں۔  پیغمبر پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی۔

 

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مشرکین کو اس بات سے انکار نہیں تھا کہ یہ نعمتیں اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں لیکن جب ان میں سے کسی کو خاص طور سے کوئی نعمت مل جاتی تو وہ اللہ کو چھوڑ کر اوروں کا احسان قرار دیتا کہ یہ فلاں کی مہربانی کا نتیجہ ہے یا اس کے وساطت اور وسیلہ سے اس نے یہ نعمت پائی ہے۔  اس عقیدہ کی بنا پر یہ "واسطے اور وسیلے" ہی ان کے شکریہ کے مستحق قرار پاتے۔  پھر ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتے جو صرف خدا کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔  اس طرح وہ ایک طرف خدا کی نعمتوں کا اقرار کرتے اور دوسری طرف وہ ایسا طرز عمل اختیار کرتے جس سے اقرار کی نفی ہوتی۔  شرک کرنے والوں کی اسی حرکت پر یہاں گرفت کی گئی ہے۔

 

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی رسول جو اس امت کی طرف بھیجا گیا تھا۔  وہ قیامت کے دن خدا کے حضور گواہی دے گا کہ میں نے تیرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔

 

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی رسول کی گواہی کے بعد کافروں کو جھوٹے عذرات پیش کرنے کا موقع باقی نہیں رہے گا کیونکہ رسول کی گواہی سے ان کا جرم ثابت ہو چکا ہو گا اور ان سے یہ بھی نہیں کہا جائے گا کہ اپنے قصوروں کی معافی مانگو کیونکہ معافی مانگنے کا وقت گزر چکا ہو گا۔  اس کا موقع انہیں دنیا میں حاصل تھا۔  آخرت تو بدلہ ملنے کی جگہ ہے۔

 

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس تردید سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے مراد بت نہیں بلکہ وہ شخصیتیں جن کے ساتھ شرک کرنے والے وہ معاملہ کرتے رہے جو صرف خدا کے ساتھ کیا جانا چاہیے تھا مثلاً ان کو حاضر ناظر جان کر مدد کے لیے پکارنا، ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا کہ ان کو ایسے اختیارات حاصل ہیں کہ وہ خدا سے جو چاہیں دلوا سکتے ہیں، وہ قسمتوں کو بناتے ہیں، دکھ کو دور کتے ہیں اور غیب سے دولت اور اولاد عطا کرتے ہیں وغیرہ۔

 

قیامت کے دن یہ شخصیتیں اپنے ان عقیدت مندوں کو جھوٹا قرار دیں گی کہ نہ ہمیں اس بات کی خبر تھی کہ تم ہمیں حاجت روائی کے لیے پکارا کرتے تھے اور ن ہم تمہاری حاجت روائی کر سکتے تھے۔  تم ہمارے بارے میں جس بات کا دعویٰ کرتے تھے وہ سراسر جھوٹ ہے۔

 

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اس روز یہ شرک کرنے والے اپنا برسر غلط ہونا تسلیم کر لیں گے اور خدا کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کریں گے۔  

 

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ان کا یہ جھوٹ کہ خدا نے اپنے اختیارات میں سے فلاں اور فلاں کو یہ اور یہ اختیارات دے رکھے ہیں اور وہ اس اور اس بات پر قادر ہیں بالکل باطل ثابت ہو جائے گا۔

 

واضح رہے کہ شرک بت پرستوں ہی میں نہیں پایا جاتا بلکہ موجودہ دور کے مسلمانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد شرک میں بری طرح مبتلا ہیں چنانچہ انہوں نے اپنے بزرگوں میں سے کسی کو مشکل کشا کا لقب دے رکھا ہے تو کسی کو دستگیر کا، کسی کو غریب نواز کا کسی کو غوث پاک کا اور تاویلات کر کے وہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ یہ شرک نہیں ہے۔  حالانکہ قرآن نے اصولی طور پر جن باتوں کو شرک قرار دیا ہے اس سے ان کا معاملہ ہرگز مختلف نہیں ہے۔  جاہل مسلمانوں کی ان مشرکانہ حرکتوں کو نام نہاد علماء کا طبقہ سند جواز عطا کرتا ہے چنانچہ موجودہ دور کی ایک نئی تفسیر میں یہاں تک لکھ دیا گیا ہے کہ :

 

"ایسے ہی رب اپنے بعض مقبول بندوں کو اپنے فضل سے خدائی کا مالک بنا دیتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ رب کے برابر نہیں ہوتے بلکہ اس کے بندے ہی رہتے ہیں۔ "

 

یہ صریح تضاد بیانی ہے اور زبردست مغالطہ بھی گویا خدائی کا مالک بنا دینے کا عقیدہ بھی شرک نہیں قرار پاتا۔  اللہ بچائے اس مغالطہ سے۔

 

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  قرآن کے نزدیک سب سے بڑا فساد (بگاڑ) یہ ہے کہ آدمی شرک کرے اور اس کو پھیلائے اور توحید کی راہ سے لوگوں کو روکے۔

 

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۹۶۔

 

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  قرآن کا موضوع ہے "اللہ کی راہ لوگوں پر واضح کرنا اور گمراہیوں سے انہیں بچانا" اس کے پیش نظر قرآن نے تمام ضروری باتیں کھول کر بیان کر دی ہیں جو انسان کی ہدایت کے لیے بالکل کافی اور شافی ہیں۔  رہیں قرآن کے احکام کی تفصیلات اور ان کی عملی صورتیں تو پیغمبر کی سنت نے اس کو بخوبی واضح کر دیا ہے۔

 

اور جب یہ حقیقت ہے کہ قرآن میں وہ تمام باتیں وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔  جن کا تعلق انسان کی ہدایت سے ہے اور جن پر اس کے آخرت میں نجات پانے کا دارو مدار ہے تو کوئی عقیدہ ایسا نہیں ہو سکتا جو دین میں ضروری ہو اور قرآن میں بیان نہ ہوا ہو۔  اس لیے جو مسلمان قرآن کے پیش کردہ عقائد پر کسی اور عقیدہ کا اضافہ کرتے ہیں وہ دین میں بہت بڑی بدعت کا اضافہ کرتے ہیں اور اسی سے مسلمانوں میں فرقے پیدا ہو گئے ہیں۔  اگر عقائد کے بارے میں وہ قرآن کو کافی سمجھنے لگیں تو فرقہ بندی ختم ہو جائے۔

 

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  قرآن جہاں اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان اپنے رب سے راستی کی بنیاد پر تعلق قائم کرے وہاں وہ تاکید بھی کرتا ہے کہ انسان اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو پہچانے اور ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ اپنے تعلقات درست رکھے۔  بندوں کے حقوق کی طرف سے بے پرواہی یا ان کی حق تلفی کو اس نے گناہ قرار دیا ہے۔

 

اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے وہ بڑا جامع اور بنیادی اخلاقی قدروں کا حامل ہے نیز عمومیت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے یعنی ہر شخص اس کا مخاطب ہے۔  شان نزول کے لحاظ سے آیت__اور آیت ہی نہیں پوری سورہ__ اس وقت نازل ہوئی ہے جبکہ اہلِ ایمان پر کفارِ مکہ کا ظلم بڑھ گیا تھا۔  اس موقع پر عدل کا حکم دیکر انسانی ضمیر کو جھنجھوڑا گیا۔  عدل وہ وصف ہے جو انسان کے لیے نہ صرف باعثِ شرف ہے بلکہ اس کو راست رو بنا دیتا ہے۔  قول ہو یا عمل دونوں میں عدل و انصاف ضروری ہے۔

 

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انسان خواہ کوئی ہو اس کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرو۔

 

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  قرابتداروں کا حق مقدم ہے۔  ان کے ساتھ نیک سلوک اور ان کی مالی امداد لازم ہے۔

 

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  "جب کہ تم نے عہد باندھا ہو" کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں اللہ کے عہد سے مراد وہ عہد ہے جو انسان شعوری طور پر اس سے باندھے۔ مثلاً مصیبت میں گھرے ہوئے انسان کا اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرنا کہ اگر تو نے اس مصیبت سے مجھے نجات دی تو میں تیرا شکر گزار بندہ بن جاؤں گا لیکن مصیبت سے نجات پانے کے بعد اپنے قول و قرار کے خلاف شرک کرنا اور خدا کا نا شکرا بننا (سورۂ انعام آیت ۶۳، ۶۴) یا انسان کا خدا سے یہ عہد کرنا کہ اگر تو نے مجھے بھلی چنگی اولاد کے عطا کی تو میں تیرا شکر گزار بندہ بن جاؤں گا لیکن بھلی چنگی اولاد کے عطا ہو جانے پر اپنے قول سے پھر جانا اور خدا کی بخشش میں اوروں کو شریک ٹھہرانا (اعراف ۱۸۹۔ ۱۹۰) ظاہر ہے اس قسم کے قول و قرار سے پھر جانا صریح بدعہدی ہے۔  

 

اللہ کے عہد میں اس قسم کے قول و قرار کے علاوہ نذریں بھی شامل ہیں جو کسی نے اللہ کے لیے مانی ہوں اور وسیع مفہوم میں اللہ کی اطاعت و بندی کا عہد بھی۔

 

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہاں قسموں سے مراد وہ معاہدے ہیں جو اللہ کی قسم کھا کر کئے جائیں چنانچہ عربوں میں یہ طریقہ رائج تھا کہ وہ جب کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتے تو اس کو مؤکد کرنے کے لیے اللہ کی قسم کھاتے۔  اور قسموں کو توڑنے کا مطلب عہد شکنی کرنا ہے جو بہت بڑے گناہ کی بات ہے۔  

 

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جس طرح سوت کو بڑی محنت سے کاتا گیا ہو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا صریح نادانی اور اپنی محنت کو ضائع کرنا ہے اسی طرح اپنے عہد و پیمان کو خدا کی قسم کھا کر مضبوط کر دینے کے بعد توڑ دینا بہت بڑی نادانی اور بڑے خسارے کی بات ہے۔

 

یہ اشارہ ہے یہود کی طرف جنہوں نے اللہ سے اس کی شریعت کی پابندی کا عہد باندھا تھا لیکن اس کو توڑ ڈالا اور اس کی اطاعت سے نکل گئے۔  اس مثال سے مقصود ان لوگوں کو جو نئے نئے اسلام میں داخل ہو گئے تھے استقامت اختیار کرنے کی تاکید کرنا ہے۔

 

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ ان لوگوں سے خطاب ہے جنہوں نے اسلام قبول تو کیا تھا لیکن حالات کی شدت سے جن کے قدم اکھڑ رہے تھے جیسا کہ بعد کی آیت سے واضح ہے مثال کے طور پر عبید اللہ بن جحش نے اسلام قبول کر کے حبش کو ہجرت کی تھی لیکن بعد میں عیسائی ہو گیا۔ (البدایۃ و النہایۃ ج ۴ ص ۱۴۳)

 

اس آیت میں قسموں سے مراد کلمۂ شہادت ہے جس کو ادا کر کے کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے چنانچہ سورۂ منافقون میں منافقوں کی اس شہادت کو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں "ایمان" قسموں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (سورۂ منافقون آیت ۱۔ ۲)

 

اور قسموں کو خیانت کا ذریعہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہو جانے کے بعد اس سے پھر جانا جو خدا کے ساتھ عہد شکنی بھی ہے اور مسلمان گروہ (ملت اسلامیہ) کے ساتھ غداری بھی۔  اس وقت مکہ میں مسلمانوں کا گروہ بہت مختصر تھا جو اپنی مدافعت کی طاقت بھی نہیں رکھتا تھا اور دوسری طرف مشرکین کا گروہ تھا جو کثرتِ تعداد کے علاوہ مادی لحاظ سے بڑا طاقتور تھا۔  یہ گروہ اپنی طاقت کے بل پر مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم پر اتر آیا تھا۔  حالات کی اس شدت سے بعض کمزور مسلمانوں کے قدم ڈگمگا رہے تھے جس پر انہیں یہاں متنبہ کیا گیا ہے۔  ۱۴۲  آزمائش اس بات کی کہ تم ایک ایسے گروہ میں شامل ہوتے ہو جو مختصر اور کمزور ہے مگر حق کی طاقت جس کے ساتھ ہے یا اس گروہ کا ساتھ دیتے ہو جو بظاہر طاقتور ہے لیکن برسر باطل ہے۔

 

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی قیامت کے دن معلوم ہو جائے گا کہ کون حق پر تھا توحید اور اسلام کی بنیاد پر وجود میں آنے والا گروہ یا مشرکانہ مذہب کی بنیاد پر بننے والا گروہ۔

 

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اللہ سب انسانوں کو اپنی قوتِ قاہرہ سے مسلمان بنا سکتا تھا لیکن چونکہ آزمائش مقصود تھی اس لیے انسان کو یہ آزادی بخشی کہ حق اور باطل میں سے جس کا چاہے انتخاب کر لے اب جو شخص جس چیز کا طالب ہوتا ہے اللہ کی مشیت اسے اس راہ پر ڈال دیتی ہے اس لیے مشرکوں اور کافروں کی کثرت سے کسی کو متاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کی نجات کس راہ کو اختیار کرنے میں ہے۔

 

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ مسلمانوں سے خطاب ہے اور جیسا کہ اوپر نوٹ ۱۴۱  میں واضح کیا گیا یہاں قسموں سے مراد کلمۂ شہادت ادا کر کے اللہ سے بندی و اطاعت کا عہد باندھنا ہے۔  اور قدم اکھڑ جانے کا مطلب اس عہد سے پھر جانا ہے۔

 

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اگر تم نے اسلام کو قبول کرنے کے بعد اس سے انحراف کی راہ اختیار کی تو تمہاری یہ حرکت کتنے ہی لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا سبب بنے گی اس طرح تم خود بھی گمراہ ہو گے اور خلق خدا کے لیے گمراہی کا سامان کرو گے۔  اور اگر ایسا تم نے کیا تو اس کے نہایت برے نتائج تم کو بھگتنا ہوں گے اور سخت سزا کے مستحق ہو جاؤ گے۔

 

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اگر کسی دنیوی فائدہ کی خاطر تم نے عہد شکنی کی یا لالچ میں آ کر تم اسلام سے برگشتہ ہو گئے تو یاد رکھو یہ فائدہ دنیوی لحاظ سے کتنا ہی بڑا ہو آخرت کے مقابلہ میں نہایت حقیر ہو گا اس لیے آخرت کو مقصود بناؤ اور دنیا کے حقیر  فائدوں کی خاطر اپنے دین کو قربان نہ کرو۔

 

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی دنیا کا مال و متاع ختم ہو جانے والا ہے اور آخرت باقی رہنے والی ہے اس لیے آخرت کو اپنا نصب العین بناؤ اور اس کی نعمتوں کے طالب بنو۔

 

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ان کڑی آزمائشوں میں جو لوگ حق پر جمے رہیں گے ان کے لیے یہ بہترین اعمال آخرت میں ان کے درجہ کا تعین کریں گے اور ان کو ان بہترین اعمال ہی کے مطابق جزا دی جائے گی۔

 

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اہل ایمان کو آخرت میں جو کامیاب زندگی نصیب ہو گی وہ تو ہو گی ہی اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ و ان کو نہایت پاکیزہ زندگی بسر کرائے گا۔  پاکیزہ زندگی میں عقیدہ کی پاکیزگی، ایمان کا نور، قلب کی صفائی، عقل کا جلا، روح کا سکون آنکھوں کی ٹھنڈک، جسم کی طہارت، عبادت کا حسن، رزقِ حلال، پاکیزہ اخلاق، ذمہ داریوں کا احساس، نیک کاموں سے رغبت اور برائیوں سے نفرت، جیسی چیزیں شامل ہیں۔  ایک مؤمن اس پاکیزہ زندگی کو پآ کر اپنے دل میں جو حلاوت محسوس کرتا ہے اس کا کوئی اندازہ دنیا پرستوں کو نہیں ہو سکتا اور اس پاکیزہ زندگی کے مقابلہ میں عیش و عشرت کی زندگی بالکل ہیچ ہے۔

 

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی سعادت کی یہ راہ جس کا اوپر کی آیتوں میں ذکر ہوا قرآن کے ذریعہ تم پر کھل سکتی ہے بشرطیکہ تم قرآن کو پڑھتے ہوئے شیطان سے چوکنا رہو کیونکہ شیطان اپنی وسوسہ اندازیوں کے ذریعہ اس بات کے درپے ہوتا ہے کہ آدمی قرآن کو صحیح طور سے سمجھنے نہ پائے۔  وہ ذہن میں الجھنیں پیدا کر کے قرآن کی تعلیم کو غلط باور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 

اس حکم کی تعمیل میں قرآن پڑھتے وقت اَعُوذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الَّرجِیم (میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے) کے دعائیہ کلمات کہنا ضروری ہے مگر اس کا پورا فائدہ اسی صورت میں آدمی کو پہنچ سکتا ہے جبکہ وہ یہ کلمات پورے شعور کے ساتھ ادا کرے اور قرآن کو سمجھنا چاہے۔

 

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حجر نوٹ ۳۹۔

 

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی شیطان ان ہی کو بہکانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو اپنے رب کے بجائے شیطان سے دوستی کر لیتے ہیں اور توحید کو چھوڑ کر شرک کرنے لگتے ہیں۔

 

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  قرآن انسانوں کو کھلی ہوئی کتابوں کی طرح کوئی کتاب نہیں ہے کہ اس کو مکمل کر کے بیک وقت پیش کر دیا جاتا اور اس کے ذریعہ لوگوں کی معلومات میں اضافہ کر دیا جاتا یا کوئی علمی تحقیق پیش کر دی جاتی بلکہ یہ کتاب انسان کے خالق نے اس کی ہدایت اور تعلیم و تربیت کے لیے نازل کی ہے۔  اس لیے حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ قرآن پر ایمان لانے والوں کی جو جماعت ابتدائی طور پر تشکیل پائے اس کو پیش آنے والے حالات کی مناسبت سے بر وقت اور بر محل ہدایت دی جاتی رہے تاکہ قرآن کا مدعا بھی خوب واضح ہو اور بر وقت رہنمائی مل جانے سے اہل ایمان میں پختگی اور عمل میں مضبوطی کا سمان بھی ہو۔  اس عظیم مصلحت کے پیش نظر قرآن کا نزول بتدریج ہوا اور اس میں اجمال اور تفصیل کا فرق واقع ہوا۔  مثال کے طور پر ابتدائی سورتوں میں توحید کو جامع انداز میں پیش کیا گیا لیکن بعد کی سورتوں میں اس کے تقاضے پیش کئے گئے۔  اسی طرح آغاز میں خدائے واحد کی عبادت کا اجمالی حکم دیا گیا لیکن بعد میں اس کی تفصیلات نماز وغیرہ بیان ہوئیں۔  کافروں کے ظلم و ستم کے مقابلہ میں مسلمانوں کو صبر کرنے کی ہدایت ہوئی لیکن بعد کے مرحلہ میں انہیں ہجرت کی اجازت دیدی گئی چنانچہ اس سورہ میں ہجرت (حبشہ) کا ذکر بھی ہوا ہے۔  کافروں کو فہمائش کرنے کا حکم ہوا لیکن بعد میں ہٹ دھرمی اختیار کرنے والوں کے ساتھ اعراض کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔  یہی باتیں ہیں جن کو قرآن نے ایک آیت کی جگہ دوسری آیت لانے سے تعبیر کیا ہے ورنہ ان آیتوں میں نہ تو کوئی تضاد ہے اور نہ کوئی آیت اصطلاحی معنی میں منسوخ ہے۔  سورۂ نحل ایک مکی سورہ ہے اور وہ بھی وسطی دور کی اس لئے اس وقت تک کوئی حکم ایسا نازل نہیں ہوا تھا جس کو کسی دوسری آیت نے اصطلاحی معنیٰ میں منسوخ قرار دیا ہو لہٰذا ناسخ منسوخ کی اصطلاحی بحث یہاں بے موقع ہے اور آیت میں اس کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔  بعد کی آیت کا یہ فقرہ کہ "تاکہ وہ اہل ایمان کو مضبوطی عطا کرے"۔ اس مدعا کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔

 

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  روح القدس کے معنیٰ ہیں پاک روح۔  یہ جبرئیل کا لقب ہے جو فرشتوں کے سردار ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ کی طرف سے "وحی" لیکر آیا کرتے تھے۔

 

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  قرآن نام کی صراحت نہیں کی کہ کون شخص تھا جس کے بارے میں مشرکین کہتے تھے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سکھاتا ہے۔  روایتوں میں مختلف نام آئے ہیں جن کی صحت مشتبہ ہے۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر شخصیت نہیں تھی جس کے بارے میں سکھانے پڑھانے کا شبہ کیا جا سکتا تھا۔  ورنہ وہ شخصیت مشہور ہوتی اور راوی ا س کا نام بلا اختلاف نقل کرتے۔

 

قرآن صراحت کرتا ہے کہ جس شخص کی طرف مشرکین اشارہ کر رہے تھے اس کی زبان عربی نہیں تھی پھر ایسے شخص سے کیونکر ممکن ہے کہ وہ قرآن کو تصنیف کرے جو فصیح عربی میں ہے اور فصاحت و بلاغت میں جس کی کوئی مثال نہیں۔  مشرکین کے الزام کی تردید کے لیے ہے ایک دلیل ہی کافی تھی ورنہ غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے تو دلائل کی کمی نہیں جو قرآن کے انسانی کلام ہونے کی نفی کرتے ہیں اور یہ یقین پیدا کرتے ہیں کہ یہ سرتا سر کلام الٰہی ہے۔

 

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی خدا پر جھوٹ گھرنے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ کی نازل کردہ وحی پر ایمان نہ رکھتے ہوں۔  وحی الٰہی پر ایمان اور خدا کی طرف من گھڑت باتیں منسوب کرنا دو بالکل متضاد باتیں ہیں اس لیے پیغمبر پر تو جھوٹ کا الزام کسی طرح عائد نہیں ہوتا البتہ یہ الزام مشرکین پر اور پیغمبر کی مخالفت کرنے والوں پر عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کے نام سے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے عقیدہ اور اپنے مذہب کو یا تو خود گھڑا ہے یا گھڑنے والوں کی پیروی کر رہے ہیں۔  بہر صورت وہ جھوٹے ہیں۔

 

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس آیت میں ان لوگوں کو جنہیں کفر کا کلمہ زبان سے نکالنے پر بالکل مجبور کر دیا گیا ہو ایسا کرنے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دیدی گئی ہے کہ وہ اپنے دل سے ایمان پر مطمئن ہوں۔ یہ اجازت بس رخصت ہے ورنہ عزیمت کی بات یہی ہے کہ ایک مسلمان جان کی بازی لگائے لیکن کلمہ کفر اپنی زبان سے نہ نکالے۔  اس کی بہترین مثال حضرت یاسر اور حضرت سمیہ (رضی اللہ عنہما) کی ہیں کہ مشرکوں نے ان پر سخت ظلم توڑے اور بالآخر انہیں قتل کر دیا لیکن وہ کفر کا کلمہ کہنے کے لیے کسی طرح آمادہ نہ ہوئے۔

 

حضرت یاسر پہلے مسلمان ہیں اور حضرت سمیہؓ پہلی مسلمان خاتون ہیں جنہوں نے مکہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔

 

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی جو کفر پر راضی ہو گا اور جس کے عقائد کافرانہ ہوں گے وہ اللہ کے غضب اور اس کے عذاب سے بچ نہ سکے گا۔

 

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  واضح ہوا کہ دنیا کے مفاد کو آخرت کے مفاد پر ترجیح دینا کافروں کا کام ہے۔

 

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۱۵۔

 

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہاں جہاد سے مراد وہ جدوجہد ہے جو سخت ناسازگار حالات میں جان پر کھیل کر اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے کی جائے۔

 

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی اپنی نجات کی فکر لاحق ہو گی اور وہ اپنی مدافعت میں طرح طرح کے عذرات پیش کرے گا۔

 

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ مثال کے پیرایہ میں مکہ والوں ہی کا حال بیان ہوا ہے۔  وہ امن و امان اور چین کی زندگی بسر کر رہے تھے اور غذائی اجناس بھی ہر طرف سے وہاں پہنچ رہی تھیں لیکن انہوں نے اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے ناشکری کی جس کی وجہ سے اللہ نے ان پر قحط سالی مسلط کر دی۔  یہ قحط ایسا سخت رہا کہ فاقوں تک نوبت آ گئی اور جانوں کی ہلاکت کا خوف لاحق ہو گیا۔

 

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اوپر مکہ والوں کا جو حال بیان ہوا یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے ان ہی میں سے ایک رسول برپا کیا لیکن بجائے اس کے کہ وہ اللہ کے اس احسان کی قدر کرتے انہوں نے رسول کو رسول ماننے ہی سے انکار کر دیا اور شرک پر جو سب سے بڑا ظلم ہے جمے رہے۔  بالآخر اللہ نے ان کو سخت سزا دی۔  یہ سزا انہیں مستقبل قریب میں لازماً ملنے والی تھی اس لیے اسے اس طرح بیان فرمایا کہ گو یہ سزا انہیں مل ہی گئی۔

 

مشرکین مکہ پر سزا (عذاب) کی صورت یہ ہوئی کہ ان آیتوں کے نزول کے چند ہی سال بعد بدر کا معرکہ پیش آیا جس میں ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور اس کے بعد دوسری معرکہ آرائیاں بھی ہوئیں۔  اس طرح اللہ کا عذاب مسلمانوں کی تلوار کی شکل میں ان پر ایسا ٹوٹ پڑا کہ اس علاقہ میں نہ کہیں شرک کا وجود رہا اور نہ مشرک کا۔

 

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مشرکین بت پرستی کے باوجود دعویٰ خدا پرستی کا کرتے تھے اس لیے ان سے کہا گیا کہ اگر واقعی تم خدائے واحد کے پرستار ہو تو ضروری ہے کہ اس کے بخشے ہوئے رزق کو جو پاکیزہ بھی ہے اور جسے اس نے حلال بھی ٹھہرایا ہے بے تکلف کھاؤ اور مشرکانہ وہم پرستی میں مبتلا ہو کر ایسی کسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہ ٹھہراؤ۔  اسی طرح خدا پرستی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اسی کی بخشی ہوئی نعمتوں پر اسی کا شکر ادا کرو یعنی غیر اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا، غیر اللہ کے تقریب کے لیے نذریں پیش کرنا غیر اللہ کی پرستش کے ہم معنیٰ اور خدائے واحد کی پرستش کے منافی ہے۔

 

یہ اشارہ ہے مشرکین کی توہم پرستی کی طرف جس میں مبتلا ہو کر وہ بعض چوپایوں کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے پھر نہ ان کا دودھ پیتے، نہ ان پر سواری کرتے اور نہ ان کا گوشت کھاتے۔  اس طرح وہ خدا کے حلال کو حرام ٹھہرانے کے بھی مرتکب ہوتے اور اس کی نعمت کو غیر اللہ کی طرف منسوب کر کے اس کی ناشکری بھی کرتے۔  نیز اللہ کے تقرب کا ذریعہ بھی بناتے۔

 

 (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ نوٹ ۲۴۹  اور سورۂ انعام نوٹ ۲۵۱  اور ۲۵۳۔

 

یہ ان جانوروں کو کھانے کا جو حکم دیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بتوں کے لیے ان کو نامزد کر کے تم نے ان کے اندر جو "مذہبی تقدس" پیدا کر دیا ہے اس کو ختم کرو اور اللہ کے بخشے ہوئے چوپایوں کو اللہ کا احسان مان کر صرف اس کے نام پر ذبح کرو اور کھاؤ۔

 

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان چیزوں کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۲۰۹  تا ۲۱۳۔

 

واضح رہے کہ ذبیحہ وہی جائز ہے جو صرف اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہو کیونکہ ذبح کرنے کا فعل بجائے خود تقرب اور عبادت ہے اس لیے اس موقع پر اللہ کے نام کے ساتھ کسی اور کا نام شامل کرنا اس تقرب اور عبادت میں غیر اللہ کو شریک کرنا ہے۔  اگر کوئی مسلمان ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیتا ہے اور ساتھ ہی کسی ولی یا پیر کا نام بھی تو یہ غیر اللہ ہی کے ذبیحہ کے حکم میں ہو گا۔

 

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۲۱۴  میں گزر چکی۔

 

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کسی چیز کو حلال یا حرام کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے اس کے بارے میں یہ حکم دیا ہے۔  اس دعوے کے پیچھے لازماً کوئی دلیل ہونی چاہیے اور یہ دلیل اللہ کی شریعت ہی ہو سکتی ہے جو انبیاء علیہم السلام کے توسط سے انسان کو ملتی ہے۔  اس لیے کسی شرعی دلیل کے بغیر محض اپنی خواہش سے کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانا اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا ہے۔

 

یہ تو تھا مشرکین کا جھوٹ لیکن اس سے بھی بڑا جھوٹ وہ ہے جو موجودہ دور کے لا مذہب لوگوں نے ایجاد کیا ہے اور وہ یہ کہ خدا کا کوئی وجود نہیں بلکہ وہ انسانی ذہن کی تخلیق ہے لہٰذا حلال و حرام کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا (نعوذ باللہ من ذلک)۔

 

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اللہ پر جھوٹ بولنے والے دنیا میں تھوڑے دن مزے کر سکتے ہیں لیکن نہ ان کی یہ دنیوی زندگی حقیقۃً کامیاب ہے اور نہ آخرت کی کامیابی انہیں کبھی نصیب ہو سکے گی۔  وہاں تو انہیں دردناک عذاب ہی بھگتنا ہو گا۔

 

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اشارہ ہے سورۂ انعام آیت ۱۴۶  کی طرف۔

 

واضح رہے کہ سورۂ انعام جیسا کہ مضمون سے اندازہ ہوتا ہے سورۂ نحل کے بعد نازل ہوئی ہے لیکن سورۂ نحل کی یہ چند آیتیں جن میں یہود کے تعلق سے اعتراضات کے جواب دیئے گئے ہیں، سورۂ انعام کے بعد نازل ہوئیں اور مضمون کی مناسبت سے ان کی جگہ سورۂ نحل میں قرار پائی۔

 

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۲۶۶۔

 

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ آیت ان لوگوں کو جو جہالت کی بنا پر غلط مذہبیت کا شکار رہے ہیں توبہ اور اصلاح کی دعوت دیتی ہے۔

 

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  متن میں لفظ "اُمَۃ" استعمال ہوا ہے جس کے متعدد معنی ہیں۔  ایک معنی اس شخصیت کے ہیں جو بے مثال ہو اور دوسرے معنی امام اور معلم خیر کے ہیں : (لسان العرب ج ۱۲ ص ۲۷)۔

 

ابن تیمیہ نے اس کو "القدوۃ" مثالی شخصیت کے معنی میں لیا ہے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ ج ۱۷ ص ۴۸۳) اور ہم نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے۔

 

ابراہیم علیہ السلام کی اس خصوصیت کو بیان کرنے سے مقصود مشرکین پر جو آپ کو اپنا پیشوا تسلیم کرتے تھے اور آپ کی پیروی کا دعویٰ کرتے تھے یہ واضح کرنا ہے کہ ابراہیم جس ماحول میں پیدا ہوئے وہ تو پوری طرح مشرکانہ تھا لیکن ان کی شخصیت ایک منفرد اور ممتاز شخصیت تھی جو موحد بنکر ابھری اور جس نے دنیا کو توحید کا سبق دیا اس لیے وہ موحدین کے امام ہیں نہ کہ مشرکین کے اور اگر تمہیں واقعی ان کی پیروی کرنا ہے تو توحید کی راہ اختیار کرو۔

 

آگے ان کے دوسرے اوصاف بیان فرمائے ہیں جو ان کی جامع اور مثالی شخصیت کے آئینہ دار ہیں۔

 

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  متن میں لفظ قانت استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ شخص جو دائمی طور پر فرمانبردار اور اطاعت گزار ہو ابن تیمیہ فرماتے ہیں : "قنوت کے معنی دوام طاعت کے ہیں اور قانت وہ ہے جو دائمی طور پر اللہ کی اطاعت کرے۔ " (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۵ ص ۲۳)

 

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  متن میں لفظ "حنیف" استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں راست رو اور اللہ ہی کا ہو کر رہنے والا۔  ابن تیمیہ فرماتے ہیں : فہو مستقیم القلب الی اللہ دون ماسواء (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۲۸ ص ۳۲) "حنیف یعنی اپنے دل سے اللہ ہی کی طرف رخ کرنے والا۔  کسی اور کی طرف نہیں۔ "

 

۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ابراہیم کبھی مشرک نہیں رہے اس لیے تمہاری اپنے مشرکانہ مذہب کو ان کی طرف منسوب کرنا سراسر غلط ہے۔

 

معلوم ہوا کہ ابراہیم اپنی زندگی میں کبھی شرک کے مرتکب نہیں ہوئے تھے اس لیے تارے کو دیکھ کر انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس کو شرک پر محمول نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ محض بحث و جدال کی بات تھی (ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۱۳۱)۔

 

۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی وہ خدا کی نعمتوں پر خدا ہی کا شکر ادا کرتے تھے اور اس کے احسان شناس تھے۔

 

۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ابراہیم کو اللہ نے نبوت کے لیے چن لیا تھا۔

 

۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی نبوت کے سرفراز کرنے کے بعد دین (اسلام) کی راہ پوری طرح ان پر کھول دی جو سیدھی اللہ تک پہنچتی ہے۔

 

۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جو بھلائی عطا فرمائی اس میں عزت و سرفرازی، اسمٰعیل اور اسحاق جیسے فرزند، شام کا بابرت علاقہ، مکہ کی روح پرور سرزمین اور خیر کے کاموں کے لیے وسائل کی فراوانی جیسی چیزیں شامل ہیں نیز یہ بات بھی کہ سچائی کی زبانیں رہتی دنیا تک ان کے لیے بلند رہنے والی ہیں۔  سلام ہو ابراہیم پر۔

 

۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔  آخرت کی کامیابی کے لیے شرط اول صالح ہونا ہے۔  درجات کی بلندی اس کے بعد ہے۔  ابراہیم نے دنیا میں صالح زندگی گزاری تھی اس لیے آخرت میں بھی وہ صالح ہوں گے۔  

 

۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ابراہیم کے طریقہ (ملت) سے مراد ابراہیم کا دین اور ان کی شریعت ہے۔  ان کا دین دینِ توحید یعنی اسلام تھا اور ان کی شریعت سادہ شریعت تھی جس میں وہ پابندیاں نہیں تھیں جو یہود پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے عائد کر دی گئی تھیں۔  اور حج کے مناسک ابراہیم کی شریعت ہی کا جزو ہیں۔

 

قرآن کا نزول ابراہیم کے دین اور ان کی شریعت کو زندہ کرنے ہی کے لیے ہوا ہے اور ان کے طریقہ پر چلنے کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جو ہدایت کی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی راہ وہی ہے جو ابراہیم کی تھی لہٰذا قرآن کی راہ پر چلنا ابراہیم کی راہ پر چلنا ہے برخلاف اس کے مشرکین عرب کی راہ ابراہیم کی راہ نہیں ہے۔

 

۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔  سبت (سنیچر کا دن منانے) کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۲۵۰  میں گزر چکی۔

 

یہاں یہ جو فرمایا کہ سبت کی پابندی صرف ان لوگوں پر عائد کی گئی تھی جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا تو اس کی صحیح اور بہترین تشریح وہ ہے جو حدیث میں بیان ہوئی ہے :

 

قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ علیہ و سلم نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یوْمَ القیامۃ بَیدَ اَنَّہُمْ اُوْتُو الکِتٰبَ مِنْ قبلنا وَ اُوْتِینَاہُ مِنْ بَعْدِہم فَہِذٓ یوْمَہُمُ الذِّیْ فُرِضَ عَلَیہِم فَاختَلَفُوْا فیہہ فَہَدانا اللّٰہُ لَہٗ فَہُمْ لَنَا فِیہِ تَبَعٌ فَالْیھُوْدُ غَدًا وَالنَّصَاریٰ بَعْدَ غَدٍ (مسلم کتابُ الجمعۃ) "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہم بعد میں آنے والی امت ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے گو ان لوگوں کو کتاب ہم سے پہلے ملی اور ہم کو ان کے بعد۔  یہ (جمعہ کا) دن ہی ہے جو ان پر فرض کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ نے اس معاملہ میں ہم کو ہدایت دی۔  اب وہ ہمارے پیچھے رہ گئے۔  یہود کل کے لیے اور نصاریٰ پرسوں کے لیے۔ "

 

مطلب یہ ہے کہ یہود کو ابتداء میں یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ جمعہ کے دن کو اللہ کے مخصوص احکام کی بجا آوری کے لیے خاص کر لیں لیکن انہوں نے اپنی نبی سے اس معاملہ میں اختلاف کیا اور اس بات پر مصر ہوئے کہ سنیچر کے دن کو مقرر کیا جائے۔  ان کے اس اختلاف کے بہ سبب اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے سنیچر کا دن مقرر کیا اور ساتھ ہی انہیں اس دن کو منانے کے تعلق سے سخت احکام دیئے۔  اگر وہ جمعہ کو قبول کر لیتے تو اتنے سخت احکام انہیں دیئے نہ جاتے۔  اس کے بعد جب نصاریٰ آئے تو انہوں نے سبت کے معاملہ میں اختلاف کر کے اتوار کا دن اپنے لیے مخصوص کر لیا۔  لیکن امت محمدیہ نے اللہ کے فضل سے جمعہ کے دن کو پا لیا۔  ان کو جب جمعہ کے دن مخصوص عبادت کا حکم دیا گیا تو انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔  اس طرح جمعہ کا دن جس سے حقیقتًہ ہفتہ کا آغاز ہوتا ہے امت محمدیہ کے حصہ میں آیا۔  یہود سنیچر کی وجہ سے ایک دن پیچھے رہ گئے اور نصاریٰ اتوار کی وجہ سے دو دن پیچھے۔

 

یہود کو گائے کے ذبح کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کے بارے میں بھی انہوں نے جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت ۶۷  تا ۷۱* میں گزر چکا طرح طرح کے سوالات پیدا کئے تھے اسی طرح انہوں نے اس کلمہ کو بھی بدل دیا تھا جو انہیں ایک شہر کے اندر فاتحانہ پیش قدمی کرتے ہوئے ادا کرنے کے لیے کہا گیا تھا (سورۂ بقرہ آیت ۵۸) اس لیے ان سے یہ بات بعید نہیں کہ جب ان سے جمعہ کا دن مخصوص کرنے کے لیے کہا گیا ہو تو انہوں نے اس سے اخلاف کیا ہو اور ان کے اس اختلاف اور ان کی شرارتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بجائے جمعہ کے سنیچر کا دن منانے کا حکم دیا ہو اور پھر پابندیاں بھی سخت عائد کر دی ہوں۔

 

رہے نصاریٰ تو انہوں نے یہود سے اختلاف کرتے ہوئے سنیچر کے بجائے اتوار کا دن اپنے لیے مخصوص کر لیا حالانکہ وہ تو رات کو مانتے ہیں۔

 

چنانچہ بائبل کا شارح لکھتا ہے :

 

"The Changeover from Sabbath (Saturday in the Gentile Calendar) to Sunday as the day of worship was accomplished by the early 2nd Century."

 

 (The Interpreter's commentary on the Bible P.650)

 

اس آیت میں دراصل مشرکین کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ نبی سبت کا حکم کیوں نہیں دیتا۔  انہیں جواب دیا گیا ہے کہ سبت کا حکم ابراہیم کی شریعت میں نہیں تھا بلکہ یہود کو مخصوص وجوہ کی بنا پر دیا گیا تھا اور چونکہ اس نبی کی بنیادی طور پر وہی شریعت دی گئی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی اس لیے اس شریعت میں سبت جیسی سخت پابندیاں نہیں ہیں۔

 

۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی ان سارے اختلاف کا جو خدا کے دین اور اس کی شریعت کے بارے میں پیدا کر دیئے گئے ہیں آخری فیصلہ قیامت کے دن ہی ہو سکے گا۔

 

۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اللہ کے راستے یعنی دینِ حق کی طرف دعوت دینے کے تین طریقے بیان کئے گئے ہیں :

 

پہلا طریقہ حکمت کا ہے یعنی ایسی باتیں جو عقل و ذہن کو اپیل کرنے والی ہوں جن میں وہ دلائل شامل ہیں جو انسان کی فطرت کے اندر راسخ ہیں نیز آثار کائنات سے استدلال بھی۔  یہ طریقہ اہل دانش اور اصحاب فکر کے لیے زیادہ موزوں ہے۔

 

دوسرا طریقہ موعظت حسنہ کا ہے یعنی دل کو اپیل کرنے والی اور اس میں سوزو گداز پیدا کرنے والی باتیں پیش کرنا تاکہ قلوب نصیحت کی باتیں قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔  یہ "وعظ گوئی" نہیں بلکہ تعلیم و تربیت اور ارشاد و تذکیر ہے۔  اس میں انبیائی تاریخ سے عبرت آموز باتیں پیش کرنا، موت کو یاد دلانا، آخرت کی جزا و سزا کو بیان کرنا، جیسی چیزیں شامل ہیں اور یہ طریقہ عامۃ الناس کے لیے زیادہ مفید ہے۔

 

رہا تیسرا طریقہ تو وہ جدال احسن کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بحث و مباحثہ کی ضرورت ہو تو اس کو اختیار کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ بات کو پیش کرنے کا بہتر ڈھنگ اختیار کیا جائے یعنی کسی بات کا رد کیا جائے تو معقولیت کے ساتھ اور کسی اعتراض کا جواب دیا جائے تو خوبی کے ساتھ اور اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے کہ مخاطب میں چڑ، کد، ضد اور اشتعال پیدا نہ ہو ورنہ وہ اصل دعوت سمجھنے پر آمادہ نہ ہو گا۔

 

دعوت کے اصل طریقے دو ہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے او ر بحث و مباحثہ کا طریقہ ضرورۃً ہی اختیار کرنے کا ہے اور اس کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں مخاطب کی طرف سے اعتراضات، شبہات، یا کوئی باطل نظریہ و فلسفہ پیش کیا جا رہا ہو قرآن میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں مثال کے طور پر ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم سے اور نمرود سے مباحثہ، انسان کو دوبارہ اٹھائے جانے کے سلسلہ میں مشرکین کے اعتراضات کے جوابات وغیرہ۔

 

۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ مکہ میں مشرکین اہل ایمان پر نہایت سخت مظالم ڈھا رہے تھے اور ان کا قصور اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدائے واحد پر ایمان لائے تھے۔  وہ مٹھی بھر افراد تھے اور ابھی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اجتماعی طور پر اپنی طاقت کا استعمال کریں۔  ان حالات میں ان کو صبر کی تلقین کی گئی لیکن اس بات کی اجازت بھی دی گئی کہ اگر وہ ظالم سے بدلہ لینا چاہیں تو برابری کا بدلہ لے سکتے ہیں۔  یعنی جتنی زیادتی تمہارے ساتھ کی گئی ہو اتنی ہی زیادتی تم اس کے ساتھ کر سکتے ہو اس سے آگے بڑھنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔

 

اس سے یہ اصولی رہنمائی ملتی ہے کہ ایک غیر اسلامی سوسائٹی میں ایک مسلمان کے لیے خواہ وہ داعی ہی کیوں نہ ہو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اینٹ کا جواب اینٹ سے دے۔

***