تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ النّحل

۱ ۔۔۔  ۱: یعنی خدا کا یہ حکم کہ "پیغمبر علیہ السلام کی جماعت غالب و منصور اور حق کے مخالف مغلوب و ذلیل ہوں گے، جنہیں دنیا میں مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں اور آخرت میں براہ راست احکم الحاکمین کے دربار سے شرک و کفر کی سزا ملے گی" اس حکم کے وقوع کا وقت قریب آ پہنچا۔ اور قیامت کی گھڑی بھی دور نہیں ہے۔ جس چیز کا آنا یقینی ہو اسے آئی ہوئی سمجھنا چاہیے پھر جلدی مچانے کی کیا ضرورت ہے۔ کفار از راہ تکذیب و استہزاء کہا کرتے تھے کہ جس عذاب یا قیامت کے آنے کا تم وعدہ کرتے ہو، وہ جلد کیوں نہیں آ جاتا انہیں متنبہ فرمایا کہ تمہارے ایسا کہنے سے وہ ٹلنے والا نہیں۔ بلکہ حتمی اور یقینی طور پر جلد آیا چاہتا ہے جس قدر دیر لگ رہی ہے وہ بھی ایک طرح سے تمہارے حق میں مفید ہے ممکن ہے بعض کو اصلاح و توبہ کی توفیق مل جائے۔ وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمّیً لَّجَآئہُمُ الْعَذَابُ (عنکبوت، رکوع ۵، آیت ۵۳) یَسْتَعْجِلُ بِہَاالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِہَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا مُشْفِقُوْنَ مِنْہَا وَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہَا الْحَقُّ (شوریٰ، رکوع ٢، آیت ۱۸)

۲ : یعنی جب حق کا غالب ہونا اور کفر و شرک پر سزا ملنا یقینی ہے تو توحید کی راہ اختیار کرو اور مشرکانہ طور و طریق سے علیحدہ ہو جاؤ۔ جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو ان میں سے کوئی خدا کے حکم کو ٹال نہیں سکتا نہ عذاب الٰہی کو روک سکتا ہے۔

۲ ۔۔۔ ۱: یعنی فرشتوں کی جنس میں سے بعض کو جیسے حضرت جبرائیل علیہ السلام یا حفظۃ الوحی، جن کی طرف اِنَّہ، یسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا" (جن، رکوع ٢، آیت ٢۷) میں اشارہ کیا ہے۔

۲:  یہاں “روح" سے مراد وحی الٰہی ہے جو خدا کی طرف سے پیغمبروں کی طرف غیر مرئی طریق پر بطور ایک بھید کے آتی ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا "یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ" (المؤمن، رکوع ٢، آیت ۱۳) ایک جگہ قرآن کی نسبت فرمایا "وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا" (شوریٰ رکوع ۵، آیت ۵٢) قرآن یا وحی الٰہی کو "روح" سے تعبیر فرمانے میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح مادی اجسام کو نفخ روح سے ظاہری حیات حاصل ہوتی ہے، اسی طرح جو قلوب جہل و ضلال کی بیماریوں سے مردہ ہو چکے تھے وہ وحی الٰہی کی روح پا کر زندہ ہو جاتے ہیں۔

۳:  وہ بندے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ہیں جن کو خدا تعالیٰ ساری مخلوق میں سے اپنی حکمت کے موافق اپنے کامل اختیار سے چن لیتا ہے۔ "اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ،" (انعام، رکوع ۱۵، آیت ۱٢۴) اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلائِکَۃِ رُسُلاً وَّمِنَ النَّاسِ" (الحج، رکوع ۱۰، آیت ۷۵)

۴:  یعنی توحید کی تعلیم، شرک کا رد اور تقویٰ کی طرف دعوت، یہ ہمیشہ سے تمام انبیاء علیہم السلام کا مشترکہ و متفقہ نصب العین (مشن) رہا ہے۔ گویا اثباتِ توحید کی یہ نقلی دلیل ہوئی۔ آگے عقلی دلیلیں بیان کی جاتی ہیں۔

۳ ۔۔۔  یعنی زمین و آسمان کا نظام ایسا درست و استوار بنایا ہے جسے دیکھ کر لامحالہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ تمام کائنات کا سلسلہ صرف ایک ہی مالک مختار کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ بلکہ کئی آزاد خداؤں کی کشمکش باہمی سرے سے اس نظام عالم کو موجود ہی نہ ہونے دیتی "لَوْکَانَ فِیْہِمَا اٰلِہۃٌ اِلاَّ اللّٰہ لَفَسَدَتَا" (انبیاء، رکوع ٢، آیت ٢٢) "اِذًالَّذَھبَ کُلُّ اِلٰہٍمبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلیٰ بَعْضٍ" (المومنون، رکوع ۵، آیت ۹۱)

۴ ۔۔۔   یعنی علویات و سفلیات کا انتظام درست کر کے تم کو پیدا کیا۔ تم خود اپنی خلقت میں غور کرو تو حق تعالیٰ کی عجیب و غریب صنعت و قدرت کا سبق ملے گا۔ تمہاری اصل کیا تھی؟ ایک قطرہ بے جان، جس میں نہ حس و حرکت تھی نہ شعور و ارادہ، نہ وہ بات کرنے کے قابل تھا، نہ اس لائق تھا کہ کسی معاملہ میں جھگڑ کر اپنا حق منوا دے یا دوسروں پر غالب آ جائے۔ اب دیکھو حق تعالیٰ نے اسی قطرہ ناچیز کو کیا سے کیا بنا دیا۔ کیسی عجیب صورت عطا کی۔ اور کیسی اعلیٰ قوتیں اور کمالات اس پر فائض کیے جو ایک حرف بولنے پر قادر نہ تھا وہ کیسے لیکچر دینے لگا جس میں ادنیٰ حس و حرکت نہ تھی، اب کس طرح بات بات میں جھگڑے کرنے اور حجتیں نکالنے لگا۔ حتی کہ بعض اوقات مخلوق سے گزر کر خالق کے مقابلہ میں خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا، یہ بھی یاد نہ رکھا کہ میری اصل کیا تھی اور کیسے یہ طاقت حاصل ہوئی "اَوَلَمْ یَرَالْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنَاہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَّنَسِیَ خَلْقَہ، قَالَ مَنْ یُّحْی الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ، قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْ اَنْشَاَ ہَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلیمٌ" (یٰس، رکوع ۵، آیت ۷۷،۷۸،۷۹)

۵ ۔۔۔  یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری تمہارے لیے پیدا کئے۔ ان میں سے بعض کے بال یا اون وغیرہ سے کمبل دُسے، ڈیرے، خیمے اور سردی سے بچنے کے لیے مختلف قسم کے لباس تیار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی کا دودھ پیا جاتا ہے، کسی کو ہل میں چلایا جاتا ہے۔ گھی مکھن وغیرہ کی ساری افراط ان ہی جانوروں کی بدولت ہے۔ ان کے چمڑے سے کیسے کیسے عمدہ اور بیش قیمت سامان تیار کیے جاتے ہیں۔ جن جانوروں کا گوشت کھانے میں کوئی معتدبہ بدنی یا اخلاقی مضرت نہیں ہے ان کا گوشت کھایا جاتا ہے، کتنے غریبوں کی شکم پروری ان سے ہوتی ہے اور جو دوسری غذائیں ہم کھاتے ہیں ان کی تیاری میں بھی ان حیونات کو کس قدر دخل ہے۔

۶ ۔۔۔  جب ڈھور ڈنگر گھر میں بندھے کھڑے ہوں یا جنگل میں غائب ہوں اس وقت انعام الٰہی کا ایسا صاف مظاہرہ نہیں ہوتا۔ ہاں جب چرنے کے لیے گھر سے نکلتے یا شام کو جنگل سے شکم سیر ہو کر گھر کی طرف لوٹتے ہیں اس وقت ایک عجیب رونق اور چہل پہل ہوتی ہے۔ مالک خود بھی دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور دوسرے لوگ بھی کہتے ہیں کہ خدا نے فلاں زمیندار کو کیسا دھن دولت دیا ہے۔

۷ ۔۔۔  یعنی جہاں تم جریدہ بدون سامان و اسباب کے بڑی مشکل سے پہنچ سکتے تھے یہ جانور تم کو اور تمہارے بھاری بھاری سامانوں کو کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ یہ خدا کی کتنی بڑی شفقت اور مہربانی ہے کہ ان حیوانات کو تمہاری خدمت میں لگا دیا اور ان سے کام لینے کی اجازت دی اور بڑی سخت اور مشکل مہمات ان جانوروں کے ذریعہ سے آسان کر دیں۔ "اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّاعَمِلَتْ اَیْدِیْنَا اَنْعَاماً فَہُمْ لَہَا مَالِکُوْنَ وَذَلَّلْنَاہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوْبُہُمْ وَمِنْہَا یَاکُلُوْنَ۔" (یٰس، رکوع ۵، آیت ۷۱،۷٢)

۸ ۔۔۔  ۱: یعنی سواری کرتے ہو اور عزت و شان ظاہر ہوتی ہے (تنبیہ) عرب میں گدھے کی سواری معیوب نہیں۔ وہاں کے گدھے نہایت قیمتی، خوبصورت، تیز رفتار درقدم باز ہوتے ہیں۔ بعض گدھوں کے سامنے گھوڑوں کی کچھ حقیقت نہیں رہتی۔ ایک زندہ دل ہندی نے خوب کہا تھا کہ حجاز میں "گدھا" نہیں "حمار" ہوتا ہے۔

۲:  یعنی جن حیوانات کا اوپر ذکر ہوا، ان کے علاوہ حق تعالیٰ تمہارے انتفاع کے لیے وہ چیزیں پیدا کرتا رہتا ہے اور کرتا رہے گا جن کی تمہیں فی الحال خبر بھی نہیں۔ اس میں وہ سب سواریاں بھی آ گئیں جو قیامت تک بنتی رہیں گی۔

۹ ۔۔۔  ۱: پہلے ذکر فرمایا تھا کہ تم حیونات کی پیٹھ پر سوار ہوتے ہو اور وہ تم کو مع سامان و اسباب کے سخت اور کھٹن منزلیں طے کرا کر منزل مقصود پر پہنچا دیتے ہیں۔ یہ بدنی اور حسی سیر و سفر کا حال ہوا۔ اسی کی مناسب سے اب روحانی اور معنوی سیرو سیاحت کی طرف کلام منتقل ہو گیا۔ یعنی جس طرح زمینی راستے طے کر کے منزل مقصود تک پہنچتے ہو، ایسے ہی خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ بھی کھلا ہوا ہے۔ جس کی سمجھ سیدھی ہو گی۔ وہ مذکورہ بالا دلائل و بصائر میں غور کر کے حق تعالیٰ کی قدرت اور عظمت و جبروت پر ایمان لائے گا اور توحید و تقویٰ کی سیدھی راہ چل کر بے کھٹکے خدا تک پہنچ جائے گا۔ لیکن جس کی عقل سیدھی نہیں، اسے سیدھی سڑک پر چلنے کی توفیق کہاں ہو سکتی ہے وہ ہمیشہ اہواء و اوہام کی پیچدار پگڈنڈیوں میں پڑا بھٹکتا رہے گا۔ "وَاَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوْہُ وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہٗ(انعام، رکوع ۱۹، آیت ۱۵۳)

۲:  یعنی خدا کچھ اس بات سے عاجز نہیں تھا کہ ساری دنیا کو ایک ہی راہ پر لگادیتا۔ لیکن اس کی حکمت مقتضی نہیں ہوئی کہ سب کو ایک ہی ڈھنگ اختیار کرنے پر مجبور کر دے۔ جیسا کہ ہم پہلے متعدد مواقع میں اس کی تشریح کر چکے ہیں۔

۱۰ ۔۔۔ یعنی پانی پینے کے قابل بنایا اور اسی سے درخت، گھاس وغیرہ نباتات اگائے جس سے تمہارے جانور چرتے ہیں۔

۱۱ ۔۔۔  یعنی ایک ہی پانی سے مختلف قسم کے پھل اور میوے اگاتا رہتا ہے جن کی شکل و صورت، رنگ و بو، مزہ اور تاثیر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ اس میں غور کرنے والوں کے لیے خدا کی قدرت کاملہ اور صنعت غریبہ کا بڑا نشان ہے کہ ایک زمین، ایک آفتاب، ایک ہوا، اور ایک پانی سے کیسے رنگ برنگ کے پھول پھل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

۱۲ ۔۔۔  رات اور دن برابر ایک دوسرے کے پیچھے لگے چلے آتے ہیں تاکہ دنیا کا کاروبار چلے اور لوگ سکون و آرام حاصل کر سکیں۔ اسی طرح چاند سورج ایک معین نظام کے ماتحت نکلتے اور چھپتے رہتے ہیں۔ رات، دن کی آمد و شد اور شمس و قمر کے طلوع و غروب کے ساتھ انسانوں کے بیشمار فوائد وابستہ ہیں۔ بلکہ غور سے دیکھا جائے تو ان کے بدون انسان کی زندگی محال ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے اقتدار کامل سے چاند سورج اور کل ستاروں کو ادنیٰ مزدوروں کی طرح ہمارے کاموں پر لگا رکھا ہے۔ مجال نہیں کہ ذرا سستی یا سرتابی کر سکیں۔ لیکن چونکہ رات دن اور چاند سورج سے بالکل صریح طور پر ہمارے کام متعلق ہیں اور دوسرے ستاروں سے ہمارے فوائد و مصالح کی وابستگی اس قدر واضح نہیں ہے، شاید اس لیے ان کو جدا کر کے دوسرے عنوان سے بیان فرمایا۔ واللہ اعلم۔

۱۳ ۔۔۔ یعنی جس بلند و برتر ہستی نے آسمانی چیزوں کو تمہارے کام میں لگایا اسی نے تمہارے فائدہ کے لیے زمین میں مختلف قسم کی مخلوقات پیدا کیں جو ماہیت، شکل و صورت، رنگ و بو اور منافع و خواص میں ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ ہیں۔ اس میں سب حیوانات، نباتات، جمادات، بسائط و مرکبات شامل ہو گئے۔

۱۴ ۔۔۔  ۱: یعنی ایسے ٹھاٹھیں مارنے والے خوفناک سمندر کو بھی جس کے سامنے انسان ضعیف البیان کی کچھ بساط نہیں تمہارے کام میں لگا دیا کہ اس میں بے تکلف مچھلی کا شکار کر کے نہایت لذیذ اور تر و تازہ گوشت حاصل کرتے ہو۔ اور اس کے بعض حصوں میں سے موتی اور مونگا نکالتے ہو جس کے قیمتی زیور تیار کیے جاتے ہیں بھلا سمندر کی موجوں کو دیکھو جن کے سامنے بڑے بڑے جہازوں کی ایک تنکہ کے برابر حقیقت نہیں۔ لیکن ایک چھوٹی سی کشتی کس طرح ان موجوں کو چیرتی پھاڑتی چلی جاتی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا نمونہ ہے کہ اس نے انسان کو عقل دی اور ایسی چیزیں تیار کر لینے کی ترکیب سمجھائی جن کے ذریعہ سے گویا سمندروں کو پایاب کر لیا گیا۔

۲:  یعنی جہازوں اور کشتیوں پر تجارتی مال لاد کر ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں پہنچاؤ، اور خدا کے فضل سے بڑی فراخ روزی حاصل کرو، پھر خدا کا احسان مان کر اس کی نعمتوں کے شکر گزار رہو۔

۱۵ ۔۔۔  ۱:  یعنی خدا تعالیٰ نے زمین پر بھاری پہاڑ رکھ دئیے تاکہ زمین اپنی اضطرابی حرکت سے تم کو لے کر بیٹھ نہ جائے۔ روایات و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین ابتدائے آفرینش میں مضطربانہ طور پر ہلتی اور کانپتی تھی۔ خدا تعالیٰ نے اس میں پہاڑ پیدا کیے جن سے اس کی کپکپی بند ہوئی۔ آجکل جدید سائنس نے بھی اقرار کیا ہے کہ پہاڑوں کا وجود بڑی حد تک زلزلوں کی کثرت سے مانع ہے۔ بہرحال زمین کی حرکت و سکون کا مسئلہ جو حکماء میں مختلف فیہ رہا ہے اس سے آیت کا نفیاً یا اثباتاً کچھ تعلق نہیں، کیونکہ پہاڑوں کے ذریعہ سے جس حرکت کو بند کیا ہے وہ یہ دائمی حرکت نہیں جس میں اختلاف ہو رہا ہے۔

۲:  یعنی ندیوں اور نہروں کا سرچشمہ کہیں پہاڑوں میں ہوتا ہے لیکن وہ میدانوں اور پہاڑوں کو قطع کرتی ہوئی سینکڑوں ہزاروں میل کی مسافت پر خدا کے حکم سے ان بستیوں تک پہنچتی ہیں جن کا رزق ان کے پانی سے متعلق کیا گیا ہے۔

۳: یعنی ایک ملک سے دوسرے ملک میں جا سکو۔

۱۶ ۔۔۔  ۱: یعنی پہاڑ، چشمے، درخت، ریت کے ٹیلے غرض مختلف قسم کی علامتیں قائم کر دی ہیں جن سے مسافروں کے قافلے ٹھیک راستہ کا سراغ نکال سکیں۔ میں نے خود بعض اعراب (بدوؤں) کو دیکھا کہ مٹی کو سونگھ کر راستہ کا پتہ لگا لیتے ہیں۔

۲:  یعنی رات کے وقت دریا اور خشکی کے سفر میں بعض ستاروں کے ذریعہ سے راستہ کا پتہ لگا لیا جاتا ہے۔ "قطب نما" سے جو راہنمائی ہوتی ہے وہ بھی بالواسطہ ستارہ سے تعلق رکھتی ہے۔

۱۷ ۔۔۔ یعنی سوچنا چاہیے یہ کس قدر حماقت ہے کہ جو چیزیں ایک مکھی کا پر اور مچھر کی ٹانگ بلکہ ایک جو کا دانہ یا ریت کا ذرہ پیدا کرنے پر قادر نہ ہوں انہیں معبود و مستعان ٹھہرا کر خداوند قدوس کے برابر کر دیا جائے۔ جو مذکورہ بالا عجیب و غریب مخلوقات کا پیدا کرنے والا اور ان کے محکم نظام کو قائم رکھنے والا ہے اس گستاخی کو دیکھو اور خدا کے انعامات کو خیال کرو۔ حقیقت میں انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔

۱۸ ۔۔۔  ۱: یعنی جو نعمتیں اوپر بیان ہوئیں "مشتے نمونہ از خروارے" تھیں۔ باقی خدا کی نعمتیں تو اس قدر ہیں جن کا تم کسی طرح شمار نہیں کر سکتے۔

۲:  یعنی ان بے شمار نعمتوں کا شکر پوری طرح کس سے ادا ہو سکتا تھا۔ لہٰذا ادائے شکر میں جو کوتاہی رہ جاتی ہے خدا اس سے درگزر کرتا اور تھوڑے سے شکر پر بہت سا اجر عطا فرما دیتا ہے۔ یا یہ کفر ان نعمت کے بعد جو شخص توبہ کر کے شکر گزار بن جائے حق تعالیٰ اس کی پچھلی کوتاہیوں کو بخشتا اور آئندہ کے لیے رحمت مبذول فرماتا ہے۔ بلکہ ناشکری کی حالت میں بھی اپنی رحمت واسعہ سے اس کو بالکلیہ محروم نہیں کرتا۔ ہزاروں طرح کی نعمتیں دنیا میں فائض کرتا رہتا ہے۔

۱۹ ۔۔۔  یعنی حق تعالیٰ تمام ظاہری و باطنی احوال سے خبردار ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ کون شخص اس کی نعمتوں پر کس حد تک دل سے اور کس حد تک جوارح سے شکر گزار بنتا ہے اور کون ایسا ہے جس کا ظاہر و باطن ادائے حق نعمت سے خالی رہتا ہے، یا مذکورہ بالا دلائل و نعم کو سن کر کون ہے جو سچے دل سے اس پر ایمان لاتا ہے اور کون ہے جو ظاہر میں دلائل سے لاجواب ہو کر بھی حق کو قبول نہیں کرتا۔ خدا کے علم میں جس کا جو حال ہو گا اسی کے موافق معاملہ کرے گا۔

۲۰ ۔۔۔  خدا تو وہ ہے جس کے عظیم الشان اور غیر محصور انعامات کا اوپر تذکرہ ہوا۔ اب مشرکین کی حماقت ملاحظہ ہو کہ ایسے عالم الکل اور خالق الکل خدا کا شریک ان چیزوں کو ٹھہرا دیا جو ایک گھاس کا تنکا پیدا نہیں کر سکتیں، بلکہ خود ان کا وجود بھی خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔

۲۱ ۔۔۔ ۱: یعنی جن چیزوں کو خدا کے سوا پوجتے ہیں سب مردے (بے جان) ہیں۔ خواہ دواماً مثلاً بت، یا فی الحال مثلاً جو بزرگ مر چکے اور ان کی پوجا کی جاتی ہے یا انجام و مال کے اعتبار سے مردہ ہیں۔ مثلاً حضرت مسیح، روح القدس اور ملائکۃ اللہ، جس کی بعض فرقے پرستش کرتے تھے بلکہ جن و شیطان بھی جن کو بعض ممسوخ الفطرت پوجتے ہیں سب پر ایک وقت موت طاری ہونے والی ہے۔ پس جس چیز کا وجود دوسرے کا عطا کیا ہوا ہو اور وہ جب چاہے چھین لے، اسے خدا کس طرح کہہ سکتے ہیں؟ یا عبادت کے لائق کیسے ہو سکتا ہے؟

۲:  یعنی یہ عجیب خدا ہیں جنہیں کچھ خبر نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور وہ خود یا ان کے پرستار کب حساب و کتاب کے لیے اٹھائے جائیں گے۔ ایسی بے جان اور بے خبر ہستیوں کو خدا بتلانا انتہا درجہ کی حماقت اور جہل ہے۔

۲۲ ۔۔۔  یعنی جو دلائل و شواہد اوپر بیان ہوئے ایسے صاف اور واضح ہیں جس میں ادنیٰ غور کرنے سے انسان توحید کا یقین کر سکتا ہے لیکن غور و طلب تو وہ کرے جسے اپنی عاقبت کی فکر اور انجام کا ڈر ہو۔ جن کو بعد الموت کا یقین ہی نہیں نہ انجام کی طرف دھیان ہے وہ دلائل پر کب کان دھرتے اور ایمان و کفر کے نیک و بد انجام کی طرف کب التفات کرتے ہیں۔ پھر دلوں میں توحید کا اقرار اور پیغمبر کے سامنے تواضع سے گردن جھکانے کا خیال آئے تو کہاں سے آئے۔

۲۳ ۔۔۔   یعنی خوب سمجھ لو کبر و غرور کوئی اچھی اور پسندیدہ چیز نہیں، اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا، توحید کا انکار جو تم دلوں میں رکھتے ہو اور غرور و تکبر جس کا اظہار تمہاری چال ڈھال اور طور و طریق سے ہو رہا ہے، سب خدا کے علم میں ہے۔ وہ ہی ہر کھلے چھپے جرم کی سزا تم کو دے گا۔

۲۴ ۔۔۔  یعنی ناواقف اشخاص بغرض تحقیق یا واقف لوگ از راہ امتحان جب ان مکذبین سے کہتے ہیں یا وہ مکذبین خود آپس میں ایک دوسرے سے از راہ تمسخر و استہزاء سوال کرتے ہیں کہ " کہو تمہارے رب نے کیا چیز اتاری ہے"؟ مطلب یہ کہ قرآن جسے پیغمبر علیہ السلام خدا کا اتارا ہوا بتلاتے ہیں تمہارے نزدیک کیا چیز ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس دعوے میں کہاں تک سچے ہیں؟ تو کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) قرآن میں رکھا ہی کیا ہے بجز اس کے کہ کتب سابقہ اور ملل سابقہ کی کچھ پرانی بے سند باتیں (توحید، نبوت، جنت و دوزخ وغیرہ) اور چند قصے کہانیاں نقل کر دی گئی ہیں۔

۲۵ ۔۔۔  یعنی اس کہنے سے غرض یہ ہے کہ (معاذ اللہ) قرآن عزیز کو بے وقعت ٹھہرا کر اپنے ساتھ دوسروں کو گمراہ کریں اور اس طرح اپنے کفر و ضلال کی پوری پوٹ کے ساتھ کچھ بوجھ ان لوگوں کے اضلال و اغواء کا بھی سر پر رکھیں۔ جنہیں اپنی نادانی اور جہالت سے گمراہ کر رہے ہیں۔ خیال کرو کیسی بدی کی پوٹ سر پر رکھ رہے ہیں۔ حدیث میں ہے "وَمَنْ دَعَا اِلیٰ ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلُ اٰثَامِ مَنِ اتَّبَعَہ، لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ اٰثَامِہِمْ شَیْئًا۔" قال اللہ تعالیٰ "وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ" (عنکبوت، رکوع ۱، آیت ۱۳)

۲۶ ۔۔۔  یعنی لوگوں کو گمراہ کرنے اور پیغام حق کو پست کرنے کی جو تدبیریں آج کی جا رہی ہیں ان سے پہلے دوسری قومیں بھی انبیاء علیہم السلام کے مقابلہ میں ایسی تدبیریں کر چکی ہیں۔ انہوں نے مکرو تلبیس کے بڑے اونچے محل کھڑے کر دیے، پھر جب خدا کا حکم پہنچا تو اس نے پکڑ کر بنیادیں ہلا دیں۔ آخر عذاب الٰہی کے ایک جھٹکا میں ان کے تیار کیے ہوئے محل ان ہی پر آپڑے جن کی چھتوں کے نیچے سب دب کر رہ گئے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی تدبیریں خود ان ہی پر الٹ دی گئیں۔ اور جو سامان غلبہ و حفاظت کا کیا تھا وہ فنا و ہلاکت کا سبب بن گیا۔ بلکہ بعض اقوام کی بستیاں حسی طور پر بھی تہ و بالا کر دی گئیں۔

۲۷ ۔۔۔ ۱: یعنی جن شرکاء کی حمایت میں ہمارے پیغمبروں سے ہمیشہ لڑتے جھگڑتے تھے آج وہ کہاں ہیں۔ تمہاری مدد کو کیوں نہیں آتے "ھلْ یَنْصُرُوْنَکُمْ اَوْیَنْتَصِرُوْنَ" (شعراء، رکوع ۵، آیت ۹۳) مَالَہ مِنْ قُوَّۃٍ وَّلَاناَصِرٍ"(طارق، رکوع ۱، آیت۱۰) یہ کہنا ہی ان کو رسوا کرنا ہے۔ یا رسوائی سے مراد جہنم میں داخل کرنا اور ان کی خفیہ مکاریوں کا پردہ فاش کرنا ہے۔ "اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلَ النَّارَ فَقَدْاَخْزَیْتَہ،" (آل عمران، رکوع ٢۰، آیت ۱۹٢)

۲:  یعنی وہ تو کیا جواب دے سکتے۔ البتہ انبیاء علیہم السلام اور دوسرے باخبر لوگ اس وقت ان مکار دغابازوں کو سنا کر کہیں گے کہ دیکھ لیا جو ہم کہا کرتے تھے۔ آج کے دن ساری برائی اور رسوائی صرف منکرین حق کے لیے ہے۔

۲۸ ۔۔۔  ۱: یعنی شرک و کفر اختیار کر کے اپنے حق میں برا کرتے رہے۔ آخر اسی حالت میں موت کے فرشتے جان نکالنے کو آ گئے۔ خلاصہ یہ کہ خاتمہ حالت کفر و شرک پر ہوا۔ العیاذ باللہ۔

۲:  یعنی اس وقت ساری فوں فاں نکل جائے گی۔ جو شرارت و بغاوت دنیا میں کرتے تھے سب کا انکار کر کے اطاعت و فاداری کا اظہار کریں گے کہ ہم نے کبھی کوئی بری حرکت نہیں کی ہمیشہ نیک چلن رہے۔ "یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اﷲ جَمِیْعًا فَیَحْلِفُوْنَ لَہ، کَمَایَحْلِفُوْنَ لَکُمْ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ عَلیٰ شَیْ ءٍ اَلا اِنَّہُمْ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ" (مجادلہ، رکوع ۳، آیت ۱۸)

۳:  یعنی کیا جھوٹ بول کر خدا کو فریب دینا چاہتے ہو؟ جس کے علم میں تمہاری ساری حرکات ہیں آج تمہارا کوئی مکر اور جھوٹ خدائی سزا سے نہیں بچا سکتا۔ وقت آگیا ہے کہ اپنی کرتوت کا مزہ چکھو۔

۳۰ ۔۔۔  ۱:  یہ مستکبرین کے مقابلہ میں متقین (پرہیزگاروں) کا حال بیان فرمایا کہ جب ان سے قرآن کے متعلق دریافت کیا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا چیز اتاری تو نہایت عقیدت و ادب سے کہتے ہیں کہ "نیک بات جو سراپا خیر و برکت ہے" ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس نے بھلائی کی دنیا میں اسے بھلائی کا خوشگوار پھل مل کر رہے گا۔ خدا کے یہاں کسی کی محنت اور ذرہ برابر نیکی ضائع نہیں جاتی۔۔

۲: یعنی آخرت کی بھلائیوں اور نعمتوں کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ دنیا و مافیا کی نعمتیں وہاں کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔

۳۱ ۔۔۔ ۱:  یعنی جنتی جس قسم کی جسمانی راحت اور روحانی مسرت چاہیں گے وہاں حاصل ہو گی "وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الاَعْیُنُ وَاَنْتُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ" (زخرف، رکوع ۷، آیت ۷۱)

۲:  یعنی ان تمام لوگوں کو جو کفر وشرک اور فسوق و عصیان سے پرہیز کرتے ہیں ایسا اچھا بدلہ ملے گا۔

۳۲ ۔۔۔  ۱: یعنی ان کی جانیں موت کے وقت تک کفرو شرک کی نجاست سے پاک اور فسق و فجور کے میل کچیل سے صاف رہیں۔ اور حق تعالیٰ کی صحیح معرفت و محبت کی وجہ سے نہایت خوشدلی اور انشراح بلکہ اشتیاق کے ساتھ اپنی جان جاں آفریں کے حوالہ کی۔

۲:  ایک حیثیت سے روحانی طور پر تو انسان مرنے کے بعد ہی جنت یا دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ہاں جسمانی حیثیت سے پوری طرح دخول حشر کے بعد ہو گا۔ ممکن ہے اس بشارت میں دونوں قسم کے دخول کی طرف اشارہ ہو۔

۳:  یعنی تمہارا عمل سبب عادی ہے دخول جنت کا۔ باقی سب حقیقی رحمت الٰہیہ ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا۔ "اِلاَّ اَنْ یَّتَغَمَّدَ نِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہٖ۔

۳۳ ۔۔۔  جنت کی خوبیاں اور اس کا تفوق و امتیاز بیان فرمانے کے بعد ان غافلوں کو تنبیہ کی جاتی ہے جو محض دنیاوی سامانوں پر مست ہو کر آخرت کو بھلائے بیٹھے ہیں اور اپنا انجام سدھارنے کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ یعنی کیا یہ لوگ اس کے منتظر ہیں کہ جس وقت فرشتے جان نکالنے کو آ جائیں گے یا خدا کے حکم کے موافق قیامت قائم ہو جائے گی۔ یا مجرموں کی سزا دہی کا حکم پہنچ جائے گا اور جوتا سر پر پڑنے لگے گا، تب ایمان لا کر اپنی حالت درست کریں گے، حالانکہ اس وقت کا ایمان یا توبہ و رجوع کچھ نافع نہ ہو گا۔ضرورت تو اس کی ہے کہ موت سے پہلے بعد الموت کی تیاری کی جائے اور عذاب آنے سے پیشتر بچاؤ کی تدبیر کر لیں۔

۳۴ ۔۔۔  یعنی اگلے معاندین بھی اسی طرح غرور و غفلت کے نشے میں پڑے رہے تھے۔ باطل پرستی میں تمادی ہوتی رہی، توبہ کے وقت توبہ نہ کی، اخیر تک انبیاء کی تکذیب و مخالفت پر تلے رہے اور ان کی باتوں کی ہنسی اڑاتے رہے۔ آخر جو کیا تھا سامنے آیا اور عذاب الٰہی وغیرہ کی جن خبروں سے ٹھٹھا کیا کرتے تھے وہ آنکھوں سے دیکھ لیں۔ ان کا استہزاء و تمسخر انہی پر الٹ پڑا، بھاگ کر جان بچانے کی کوئی سبیل نہ رہی اپنی شرارتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ جو بویا تھا سو کاٹا۔ خدا کو ان سے کوئی بیر نہ تھا نہ اس کے یہاں ظلم و تعدی کا امکان ہے۔ ان لوگوں نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری کسی کا کیا بگڑا انہی کا نقصان ہوا۔

۳۵ ۔۔۔ ۱: یہاں سے ان باطل اعذار اور لچر پوچ دلائل کا رد شروع کرتے ہیں جو مشرکین اپنے شرک اور اعمال شرکیہ کا جواز و استحسان ثابت کرنے کے لیے پیش کرتے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر غیر اللہ کی پرستش یا بعض جانوروں (مثلاً بحیرہ سائبہ وغیرہ) کو حرام ٹھہرا لینا برے اور بے سند کام ہوتے جنہیں خدا پسند نہ کرتا تو ہم کو کرنے کیوں دیتا۔ ضرور تھا کہ جب ہم اس کی مرضی کے خلاف کام کریں تو اس سے روک دے نہ رکیں تو فوراً سزا دے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ دلیل ہے کہ خدا کو وہ کام ناپسند نہیں۔ آٹھویں پارہ کے دوسرے ربع آیت "سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاَ لَوْشَآءَ اللّٰہُ" الخ کی جو تقریر ہم نے کی ہے اس میں مشرکین کا یہ شبہ اور اس کا مفصل جواب بیان کیا گیا ہے۔ وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔

۲:  یعنی مشرکین کا یہ کہنا غلط ہے کہ خدا کی طرف سے روکا نہیں گیا ابتدائے آفرینش سے آج تک حسب ضرورت مصلحت حق تعالیٰ انبیاء کو بھیجتا رہا ہے جن کا کام ہی یہ تھا کہ لوگوں کو شرک و اعمالِ شرکیہ سے روکیں۔ اور صاف صاف اعلان کریں کہ خدا تعالیٰ کو کیا کام پسند ہیں کیا ناپسند، اور ان میں سے ہر ایک کا انجام کیا ہے۔ باقی یہ کہ لوگوں کو تکوینی طور پر مجبور کیوں نہ کر دیا گیا کہ وہ بدی کا راستہ اختیار ہی نہ کر سکتے تو یہ بات اس کی حکمت کے منافی تھی جیسا کہ ہم پہلے متعدد مواضع میں لکھ چکے ہیں۔ رہی یہ چیز کہ جو انبیاء کا کہنا نہ مانیں انہیں فوراً سزا دی جاتی تو بہت سی قوموں کو دنیا میں عبرتناک سزائیں بھی دی گئیں۔ جیسا کہ اگلی آیت میں مذکور ہے۔ ہاں عقلاً و نقلاً یہ ضروری نہیں کہ ارتکاب جرم کے ساتھ انہیں فوراً سزا دی جائے۔ مجرم کو ایک منٹ کی مہلت نہ ملے نہ اس کے لیے توبہ و اصلاح کا کوئی موقع باقی چھوڑا جائے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "یہ نادانوں کی باتیں ہیں کہ اللہ کو یہ کام برا لگتا تو کیوں کرنے دیتا۔ " (کیا ان کے روکنے سے خدا عاجز تھا؟) یہاں جواب مجمل فرمایا کہ ہمیشہ رسول منع کرتے آئے ہیں، جس کی قسمت میں ہدایت تھی اس نے پائی، جو خراب ہونا تھا خراب ہوا۔ اللہ کو یہ ہی منظور ہے (کہ انسان کو فی الجملہ کسب و اختیار کی قوت دے کر آزاد رکھے۔ اینٹ پتھر کی طرح مجبور یا حیوانات کی طرح اس کا دائرہ عمل محدود نہ کرے بلکہ ہر طرف بڑھنے اور ترقی کرنے کا موقع دے)۔

۳۶ ۔۔۔ ۱: یعنی اپنے اپنے وقت پر۔ پھر آخر میں پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول الثقلین بنا کر بھیجا۔ (تنبیہ) اس آیت سے لازم نہیں آتا کہ ہر قوم اور بستی میں رسول بلاواسطہ بھیجا گیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک نبی کسی قوم میں اٹھایا جائے اور اس کے نائب جنہیں "ہادی" و "نذیر" کہا جا سکتا ہے دوسری اقوام میں بھیجے جائیں۔ ان کا بھیجنا گویا بالواسطہ اسی پیغمبر کا بھیجنا ہے، واللہ اعلم۔

۲:  حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں سرکش وہ جو ناحق سرداری کا دعویٰ کرے کچھ سند نہ رکھے۔ ایسے کو "طاغوت" کہتے ہیں بت، شیطان اور زبردست ظالم سب اس میں داخل ہیں۔

۳۷ ۔۔۔ یعنی جس کو قصورِ استعداد اور سوءِ اختیار کی بناء پر خدا گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں کر سکتا نہ اسے خدائی سزا سے کوئی بچا سکتا ہے۔ آپ کا ان کی ہدایت پر حریص ہونا بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ پھر آپ ان کے غم میں اپنے کو اس قدر کیوں گھلاتے ہیں۔

۳۸ ۔۔۔  ۱: یعنی موت کے بعد دوسری زندگی ہی نہیں پھر عذاب کا کیا ڈر۔ سب ڈھکوسلے ہیں۔

۲:  یعنی تمہارے انکار اور اٹکل پچو قسمیں کھانے سے خدا کا پکا وعدہ ٹل نہیں سکتا، وہ تو ہو کر رہے گا۔ البتہ تم ایسی حقائق ثابتہ کا انکار کر کے اپنے جہل کا ثبوت دے رہے ہو۔ جو شخص خدا کے علم محیط اور شؤن قدرت و حکمت، تکوین کے راز اور اس کی غرض و غایت سے آگاہ ہو گا وہ کبھی بعث بعد الموت کا انکار نہیں کر سکتا۔ سچ ہے۔ "الناس اعداء ماجہلوا

۳۹ ۔۔۔ یعنی معاد (قیامت وغیرہ کا آنا) عین حکمت ہے۔ اگر موت کے بعد دوسری زندگی نہ ہو تو دنیا میں جو مختلف اعمال و احوال پائے جاتے ہیں ان کے صاف اور مکمل نتائج کیسے ظاہر ہوں گے۔ یہاں کے جھگڑوں کا دو ٹوک فیصلہ تو وہیں ہو گا اور اس وقت منکرین معلوم کر لیں گے کہ قسمیں کھا کر جن باتوں کا انکار کرتے تھے وہ سچی تھیں۔ اور قسم کھانے والے جھوٹے تھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی اس جہان میں بہت باتوں کا شبہ رہا اور کسی نے اللہ کو مانا کوئی منکر رہا تو دوسرا جہان ہونا لازم ہے کہ جھگڑے تحقیق ہوں، سچ اور جھوٹ جدا ہو اور مطیع و منکر اپنا کیا پائیں۔

۴۰ ۔۔۔  پھر مردوں کو دوبارہ زندہ کر دینا کیا مشکل ہے۔ (تنبیہ) "کُنْ فَیَکُوْنُ" کی بحث پارہ الم رکوع وَقَالَتِ الْیَہُودُ الخ میں ملاحظہ کر لی جائے غرض صرف اس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ایک سیکنڈ کے لیے بھی مراد کا تخلف نہیں ہو سکتا۔ ارادہ کے بعد مراد کا نہایت سہولت و سرعت سے فوراً واقع ہونا اور کسی مانع و عائق کا مزاحمت نہ کر سکنا یہ ہی خلاصہ اس جملہ کا ہے۔

۴۱ ۔۔۔  یعنی سلسلہ مجازات (طاعت و معصیت کا پورا نتیجہ ظاہر کرنے) کے لیے بعث بعد الموت ضروری ہے۔ بہت سے خدا کے وفادار بندے مصائب و شدائد جھیلتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، کیا ان کی قربانیاں ضائع کی جا سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں جن لوگوں نے حق کی حمایت اور خدا کی رضا جوئی کے لیے ظالموں کی سختیاں برداشت کیں اور انواع و اقسام کے ظلم و ستم اٹھائے حتی کہ مجبور ہو کر گھر بار، خویش و اقارب اور عزت و راحت سب چیزوں کو خدا کے راستہ میں تج دیا، ان کی محنت و وفاداری کا صلہ یقیناً مل کر رہے گا۔ اول تو ان میں سے جو جیتے بچیں گے دنیا ہی میں اپنی قربانیوں کا تھوڑا سا پھل چکھ لیں گے۔ یعنی گھر چھوڑنے والوں کو بہترین ٹھکانہ دیا جائے گا۔ گھر سے اچھا گھر وطنی بھائیوں سے بڑھ کر دردمند بھائی، روزی سے بہتر روزی، عزت سے زیادہ عزت ملے گی۔ بلکہ وطن سے نکالنے والوں پر غالب، دنیا کے حاکم اور پرہیزگاروں کے امام بن جائیں گے۔ پھر اس سب کے بعد جو بلند مقامات اور عظیم الشان مدارج آخرت میں ملیں گے ان کا تو اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہاں کے اجر و ثواب کا پورا یقین ہو جائے تو دوسرے لوگ بھی جو ہجرت کی سعادت سے محروم ہیں تمام گھر بار چھوڑ کر خدا کے راستہ میں نکل کھڑے ہوں۔ (تنبیہ) آیت کے عموم الفاظ پر نظر کرتے ہوئے ہم نے یہ تقریر کی ہے (وھومنقول فی روح المعانی عن بعضہم) عامہ مفسرین نے اس کو ان اسّی صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں رکھا ہے جو کفار مکہ کی زیادتیوں سے تنگ آ کر ابتداءً حبشہ کو ہجرت کر گئے تھے۔ کیونکہ اکثر کے نزدیک آیت مکی ہے جو ہجرت الی المدینہ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ ان ہجرت کرنے والوں کو آخرکار خدا تعالیٰ نے اچھا ٹھکانہ مدینہ میں دیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ۔

۴۲ ۔۔۔  یعنی کسی ظلم اور سختی سے نہیں گھبرائے۔ وطن محبوب اور خویش و اقارب کے چھوٹنے کی پروا نہ کی۔ رضائے الٰہی کے راستہ میں ذرا قدم نہیں ڈگمگایا۔ ہر طرف سے ٹوٹ کر ایک خدا کے ہو رہے۔ خالص اسی کی امداد اور اٹل وعدوں پر بھروسہ کیا۔ یہاں تک کہ دیکھ لیا کہ جو خدا کا ہو رہتا ہے کس طرح خدا اس کا ہو جاتا ہے۔

۴۳ ۔۔۔ یعنی پیغمبر کے مظلوم ساتھیوں کو جب وہ صبر و توکل کی راہ میں ثابت قدم ہوں، دارین میں غالب و منصور کرنا ہماری کوئی نئی عادت نہیں۔ پہلے بھی ہم نے انسانوں میں سے رسول بھیجے جن کا کام یہ تھا کہ خدا کے احکام اور نیکی بدی کے انجام سے لوگوں کو خبردار کر دیں۔ اب اگر تمہیں معلوم نہیں تو جاننے والوں سے جو امم سابقہ اور ان کے پیغمبروں کے تاریخی واقعات کا علم رکھتے ہیں تحقیق کر لو کہ فی الواقع پہلے کچھ آدمی پیغمبری کے منصب پر بینات و زبر (معجزے اور کتابیں) دے کر بھیجے گئے یا نہیں۔ اور یہ کہ ان کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کا کیا حشر ہوا۔ اہل حق صبر و توکل کی بدولت کس طرح منصور و کامیاب ہوئے۔ اور ظالم معاندین اتمام حجت کے بعد کیسے تباہ کیے گئے۔وَتَمَّتْ کَلِمۃُ رَبِّکَ الْحُسْنیٰ عَلیٰ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ بِمَا صَبَرُوْا وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہ، وَمَاکَانُوْا یَعْرِشُوْنَ" (اعراف، رکوع ۱۶، آیت:۱۳۷) ہم نے اہل الذکر سے خاص اہل کتاب مراد نہیں لیے بلکہ عموم لفظ کی رعایت کی ہے جس میں اہل کتاب بھی شامل ہیں۔ روح المعانی میں ہے قَالَ الرُّمَّانِیُّ وَالزَّجَّاجُ وَاْلاَزْہَرِیُّ اَلْمُرَاَدُ بِاَہْلِ الذِّکْرِ عُلُمَاءُ اَخْبَارِ اْلاُمَمِ السَّالِفَۃِکَائناً مَنْ کَانَ فَالذِّکْرُ بِمَعْنَی الْحِفْظِ۔" مترجم محقق رحمۃ اللہ نے بھی "اہل الذکر" کا ترجمہ یاد رکھنے والوں" سے کر کے شاید اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ بہرحال عموم آیت سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ غیر اہل علم کو اہل الذکر سے دریافت کر کے عمل کرنا چاہیے بہت سے علماء اس کو تقلید أئمہ کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

۴۴ ۔۔۔ ۱:  یعنی معجزات اور وہ علوم جو اوراق میں لکھے جاتے ہیں۔

۲:  "یادداشت" سے مراد ہے قرآن کریم جو اگلی امتوں کے ضروری احوال و شرائع کا محافظ، انبیائے سابقین کے علوم کا جامع، اور ہمیشہ کے لیے خدائی احکام اور فلاح دارین کے طریقوں کو یاد دلانے والا اور خواب غفلت سے بیدار کرنے والا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جس طرح پہلے رسول بھیجے گئے، کتابیں اتاری گئیں، آج تم کو (اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) ہم نے ایسی کتاب دے کر بھیجا جو تمام کتب سابقہ کا خلاصہ اور انبیائے سابقین کے علوم کی مکمل یادداشت ہے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ تمام دنیا کے لوگوں کے لیے اس کتاب کے مضامین خوب کھول کر بیان فرمائیں اور اس کی مشکلات کی شرح اور مجملات کی تفصیل کر دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کا مطلب وہ ہی معتبر ہے جو احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے موافق ہو۔

۴۵ ۔۔۔ ۱:  یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا کام مضامین قرآن کو کھول کر بیان کرنا، اور لوگوں کا کام اس میں غور و فکر کرنا۔

۲:  یعنی اگلے انبیاء اور ان کی قوموں کا حال سننے اور قرآن ایسی مکمل یادداشت پہنچ جانے کے بعد بھی کیا کفار مکہ حق کے مقابلہ میں اپنی مکاریوں اور داؤ فریب سے باز نہیں آتے، کیا یہ امکان نہیں کہ خدا انہیں قارون کی طرح زمین میں دھنسا دے۔ یا ایسی طرف سے کوئی آفت بھیج دی جدھر سے انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو۔ چنانچہ "بدر" میں مسلمان غازیوں کے ہاتھوں سے ایسی سزا دلوائی جو اپنی قوت و جمعیت اور مسلمانوں کے ضعف و قلت کو دیکھتے ہوئے ان کے تصور میں بھی نہ آ سکتی تھی۔

۴۶ ۔۔۔یعنی یہ بھی ضروری نہیں کہ پہلے سے کچھ اہتمام کیا جائے یا فوجیں مقابلہ کے لیے روانہ کی جائیں۔ خدا تو اس پر بھی قادر ہے کہ تمہیں چلتے پھرتے کام کاج کرتے یا بستروں پر کروٹیں بدلتے ہوئے ایک دم پکڑ لے اور بالکل عاجز و بے بس کر دے۔ اس کو سب قدرت ہے وہ تم کو عاجز کر سکتا ہے تم اسے نہیں تھکا سکتے۔

۴۷ ۔۔۔ ۱: یعنی اچانک نہ پکڑے۔ بلکہ آگاہ کرنے اور مبادئ عذاب بھیجنے کے بعد ایسی حالت میں پکڑ لے جب کہ لوگ اطلاع پا کر اور آثار عذاب دیکھ کر طبعاً خوف کھا رہے ہوں یا آس پاس کے لوگوں کو آفات سماویہ میں مبتلا دیکھ کر ڈر رہے ہوں لیکن یہ خوف محض طبعی ہو۔ ندامت اور توبہ کے ساتھ نہ ہو جو دافع عذاب ہو سکتا ہے۔ بعض نے "تخوف" کے معنی "تنقص" (آہستہ آہستہ کم کرنے) کے لیے ہیں۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ دفعتاً ہلاک نہ کرے آہستہ آہستہ تم کو گھٹائے اور پست کرتا رہے۔

۲: یعنی خدا سب کچھ کر سکتا ہے مگر کیوں نہیں کرتا، اس کی نرمی اور مہربانی مانع ہے کہ مجرمین پر فوراً عذاب نازل کر دے، اس کی رافت و رحمت مقتضی ہے کہ مجرمین کو مہلت اور اصلاح کا مواقع دیا جائے یا یہ جملہ صرف "یَاْخُذَہُمْ عَلیٰ تَخَوُّفٍ" سے متعلق ہے بحالیکہ "تخوف" کو بمعنیٰ "تنقص" لیا جائے، تو مطلب یہ ہو گا کہ آہستہ آہستہ کم کرنا اور دفعۃً ہلاک نہ کرنا اس کی رحمت و شفقت کی وجہ سے ہے، ورنہ ایک آن میں نیست و نابود کر دیتا۔

۴۸ ۔۔۔  یعنی جب تکوینی طور پر ہر چیز خدا کے سامنے عاجز اور مطیع و منقاد ہے۔ حتی کہ سایہ دار چیزوں کا سایہ بھی اسی کے حکم اور قانون قدرت کے موافق گھٹتا بڑھتا اور ادھر یا ادھر رہتا ہے پھر ایسے قدرت والے خدا کو عذاب بھیجنے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ باختیار خود اس کے احکام تشریعیہ کے سامنے گردن جھکا دے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "ہر چیز ٹھیک دوپہر میں کھڑی ہے اس کا سایہ بھی کھڑا ہے۔ جب دن ڈھلا، سایہ جھکا، پھر جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑ گیا، جیسے نماز میں کھڑے سے رکوع ، رکوع سے سجدہ اسی طرح ہر چیز آپ کھڑی ہے اپنے سایہ سے نماز کرتی ہے۔ کسی ملک میں کسی موسم میں داہنی طرف جھکتا ہے کہیں بائیں طرف۔

۴۹ ۔۔۔  پہلے کھڑی چیزوں کا جو سایہ دار ہوں سجدہ بیان ہوا تھا، یہاں عام جانداروں بالخصوص فرشتوں کا سجدہ بیان کر کے متنبہ فرمایا کہ ایسی مقرب و معظم ہستیاں بھی اس کے آگے سربسجود ہیں کوئی شیخی یا غرور ان میں نہیں، جو اپنے مالک کے سامنے سر جھکانے سے رکے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "مغرور لوگوں کو سر رکھنا زمین پر مشکل ہوتا ہے۔ نہیں جانتے کہ بندہ کی بڑائی اسی میں ہے" مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ۔

۵۰ ۔۔۔   یعنی فرشتے باوجود اس قدر قرب و وجاہت کے اپنے رب کے جلال سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم پاتے ہیں فوراً بجا لاتے ہیں۔ موضح القرآن میں ہے کہ "ہر بندہ کے دل میں ہے کہ میرے اوپر اللہ ہے اپنے آپ کو نیچے سمجھتا ہے، یہ سجدہ فرشتوں کا بھی ہے اور سب کا۔

۵۱ ۔۔۔ یعنی جب تمام آسمانی و زمینی مخلوق ایک خدا کے سامنے بے اختیار سر بسجود اور عاجز و مقہور ہے، پھر عبادت میں کوئی دوسرا شریک کہاں سے آگیا۔ جو سارے جہان کا مالک و مطاع ہے تنہا اسی کی عبادت ہونی چاہیے اور اسی سے ڈرنا چاہیے۔

۵۲ ۔۔۔  یعنی تکوینی طور پر ہر چیز خالص اسی کی عبادت اور اطاعت پر مجبول ہے "اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہ، اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَاْلاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ۔" (آل عمران، رکوع ۹، آیت:۸۳) یا یہ مطلب ہے کہ ہمیشہ اسی کی عبادت کرنا لازم ہے "اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ" (زمر، رکوع ۱، آیت:۳) اور بعض نے "دین" کو "جزاء" کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی نیک و بد کا دائمی بدلہ اسی ایک خدا کی طرف سے ملے گا۔ واللہ اعلم۔

۵۳ ۔۔۔ یعنی سب بھلائیاں اور نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور ہر ایک برائی یا سختی کا دفع کرنا بھی اسی کے قبضہ میں ہے۔ چنانچہ جب کوئی سخت مصیبت انسان کو چھو جاتی ہے تو کٹر سے کٹر مشرک بھی اس وقت سب سہارے چھوڑ کر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ گویا فطرت انسانی شہادت دیتی ہے کہ مصائب اور سختیوں سے بچانا خدائے واحد کے سوا کسی کا کام نہیں ہو سکتا۔ پھر جس کے قبضہ میں ہر ایک نعمت و نقمت اور ہر قسم کا نفع و ضرر ہے، دوسرا کون ہے جو اس کی الوہیت میں حصہ دار بن سکے۔ یا جس سے انسان خوف کھائے اور امیدیں باندھے۔

۵۵ ۔۔۔  یعنی جہاں سختی دور ہوئی منعم حقیقی کو بھلا بیٹھے اور نہایت بے حیائی سے خدائی کے حصے بخرے کرنے لگے۔ شرم نہ آئی کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے عاجز ہو کر کسے پکار رہے تھے۔ نہ محسن حقیقی کا احسان مانا نہ یہ اندیشہ کیا کہ ناشکری کی سزا میں پکڑے جائیں گے، یا کم از کم کفران نعمت سلب نعمت کا موجب ہو جائے گا۔ گویا خدائے وحدہ لا شریک لہ نے جو انعام فرمایا تھا بالکل اس کے انکار پر تل گئے۔ بہتر ہے چند روز کی انہیں مہلت دی جاتی ہے۔ خوب دنیا کے مزاے اڑالیں آخر معلوم ہو جائے گا کہ اس مشرکانہ کفران نعمت کی کیسی سزا ملتی ہے۔

۵۶ ۔۔۔ ۱:  یہ ان کو فرمایا جو اپنے کھیت میں، مویشی میں، تجارت میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کی نیاز ٹھہراتے ہیں (موضح القرآن) جیسا کہ مشرکین عرب کا دستور تھا جس کا ذکر آٹھویں پارہ کے تیسرے رکوع میں گزر چکا "مالا یعلمون"سے مراد وہ ہی اصنام وغیرہ ہیں جنہیں مشرکین جہالت اور بے خبری سے معبود یا مالک نفع و ضرر سمجھتے تھے، حالانکہ اس کی کوئی دلیل یا سند ان کے پاس نہ تھی، پھر شرکاء بھی تجویز کیے گئے پتھر کے بت جو ہر قسم کے علم و شعور سے کورے ہیں۔ اِنَّ ہٰذَا لَشَیْ ءٌ عُجَابٌ۔

۲:  یعنی قیامت میں ان افتراء پردازیوں کی تم سے ضرور باز پرس ہو گی۔ خدا کے دیے ہوئے مال میں کیا حق تھا کہ دوسروں کو شریک و سہیم بناؤ۔ (باقی کسی کو ثواب پہنچانے کا مسئلہ جداگانہ ہے وہ اس آیت کے تحت میں داخل نہیں)

۵۷ ۔۔۔ ۱: یعنی وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے اولاد ثابت کی جائے۔ خاص کر بیٹیاں۔ تعجب ہے یہ لوگ حق تعالیٰ کی نسبت ایسی جرأت کس طرح کرتے ہیں۔ اس آیت میں "بنو خزاعہ" کارد ہوا جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے (العیاذ باللہ)

۲:  یعنی خود اپنے لیے بیٹیاں دیے جانے پر رضامند نہیں جب مانگیں گے بیٹا مانگیں گے۔

۵۸ ۔۔۔  یعنی ان میں سے کسی کو اگر خبر دی جائے کہ تیرے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو نفرت و غم سے تیوری چڑھ جائے اور دن بھر ناخوشی سے چہرہ بے رونق اور دل گھٹتا رہے کہ یہ ناشدنی مصیبت کہاں سے سر پر آئی۔

۵۹ ۔۔۔ ۱: یعنی رسمی ننگ و عار کے تصور سے کہ لڑکی زندہ رہی تو کسی کو داماد بنانا پڑے گا۔ لوگوں کو منہ دکھانا نہیں چاہتا ادھر ادھر چھپتا پھرتا ہے۔

۲: یعنی شب و روز ادھیڑ بن میں لگا ہوا ہے اور تجویزیں سوچتا ہے کہ دنیا کی عار قبول کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں اتار دے، یعنی ہلاک کر ڈالے۔ جیسا کہ جاہلیت میں بہت سے سنگدل لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے یا زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ اسلام نے آ کر اس قبیح رسم کو مٹایا اور ایسا قلع قمع کیا کہ اسلام کے بعد سارے ملک میں اس بے رحمی کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔ بعض نے اَیُمْسِکُہ عَلیٰ ہُوْنٍ کے معنی یوں کیے ہیں "روکے رکھے لڑکی کو ذلیل و خوار کر کے" یعنی زندہ رہنے کی صورت میں ایسا ذلیل معاملہ کرے گویا وہ اس کی اولاد ہی نہیں۔ بلکہ آدمی بھی نہیں۔

۳:  لڑکیوں کے متعلق جو ظالمانہ فیصلہ ان کا تھا اس سے زیادہ برا فیصلہ یہ ہے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کریں، پھر اولاد بھی "اناث" جس سے خود اتنا گھبراتے ہیں۔ گویا اچھی چیز ان کے لیے اور ناقص خدا کے لیے ہے۔ (العیاذ باللہ)

۶۰ ۔۔۔  ۱: یعنی مشرکین جنہیں اپنے ظلم اور گستاخیوں کے انجام پر یقین نہیں۔ بری مثال یا بری صفت و حالت ان ہی کی ہے وہ ہی اولاد کے محتاج ہیں۔ دکھ اور ضعیفی وغیرہ میں کام آنے کے لیے ان کو لڑکوں کا سہارا چاہیے۔ دفع عار یا افلاس وغیرہ کے ڈر سے لڑکیوں کو ہلاک کرنا ان کا شیوہ ہے۔ آخر میں ظلم و شرک وغیرہ کا جو برا انجام ہونا چاہیے اس سے بھی وہ بچ نہیں سکتے۔ غرض ہر نہج سے بری مثال اور نقص و عیب کی نسبت ان ہی کی طرف ہونی چاہیے۔ حق تعالیٰ کی طرف ان صفات کی نسبت کرنا جو مخلوق کا خاصہ ہیں اور (معاذ اللہ) بیٹے بیٹیاں تجویز کر کے حقیر اور پست مثالیں دینا اس کی شان عظیم و رفیع کے منافی ہے۔ اس کے لیے تو وہ ہی مثالیں اور صفات ثابت کی جا سکتی ہیں جو اعلیٰ سے اعلیٰ اور ہر بلند چیز سے بلند تر ہوں۔

۲:  یعنی زبردست تو ایسا ہے کہ تمہاری گستاخیوں کی سزا ہاتھوں ہاتھ دے سکتا ہے۔ لیکن فوراً سزا دینا اس کی حکمت کے مناسب نہیں۔ لہٰذا ڈھیل دی جاتی ہے کہ اب بھی باز آ جائیں اور اپنا رویہ درست کر لیں۔

۶۱ ۔۔۔  یعنی اگر خدا تعالیٰ لوگوں کی گستاخی اور نا انصافی پر دنیا میں فوراً پکڑنا اور سزا دینا شروع کر دے تو چند گھنٹے بھی زمین کی یہ آبادی نہیں رہ سکتی، کیونکہ دنیا میں بڑا حصہ ظالموں اور بدکاروں کا ہے۔ اور چھوٹی چھوٹی خطا و قصور سے تو کوئی خالی ہو گا؟ (کُلُّکُمْ خَطَّاءُ وْنَ) جب خاطی و بدکار فوراً ہلاک کر دیے گئے تو صرف معصوم انبیاء کے زمین پر بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی، بلکہ ان کا ملائکہ معصومین کے ساتھ رہنا موزوں ہے۔ جب نیک و بد انسان دونوں زمین پر نہ رہے تو دوسرے حیوانات کا رکھنا بے فائدہ ہو گا، کیونکہ وہ سب بنی آدم کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ نیز فرض کیجیے خدا نے انسانوں کے ظلم و عدوان پر بارش بند کر دی تو کیا آدمیوں کے ساتھ جانور نہیں مریں گے۔ بہرحال خدا اگر بات بات پر دنیا میں پکڑے اور فوراً سزا دے تو اس دنیا کا سارا قصہ منٹوں میں تمام ہو جائے۔ مگر وہ اپنے حلم و حکمت سے ایسا نہیں کرتا۔ بلکہ مجرموں کو توبہ و اصلاح کا موقع دیتا ہے اور وقت موعود تک انہیں ڈھیلا چھوڑتا ہے۔ جب وقت آ پہنچا، پھر ایک سکینڈ اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا۔ (تنبیہ) بعض مفسرین نے "ماَتَرَکَ عَلَیْھَا مِنْ دَآبَّۃٍ" سے خاص دابہ ظالمہ مراد لیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہو تو مطلب واضح ہے کوئی اشکال نہیں۔ واللہ اعلم۔

۶۲ ۔۔۔  ۱: یعنی جو چیزیں بری سمجھ کر اپنے لیے پسند نہیں کرتے مثلاً بیٹیاں یا اپنے ملک میں کسی اجنبی کی شرکت یا استہزاء و استخفاف کا معاملہ۔ وہ خداوند قدوس کے لیے ثابت کرتے ہیں۔

۲:  یعنی باوجود ایسی گستاخیوں کے زبان پر یہ جھوٹا دعویٰ ہے کہ ہم تو دنیا میں بھی بھلی چیزوں کے لائق ہیں اور اگر آخرت وغیرہ کے قصے سچے ہوئے تو وہاں بھی خوب چین اڑائیں گے۔ "وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنَّامِنْم بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ہٰذَالِیْ وَمَا اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً وَّلَئِنْ رُّجِعْتُ اِلیٰ رَبِّیْ اِنَّ لِیْ عِنْدَہ، لَلْحُسْنیٰ" (حم السجدہ، رکوع ۶، آیت:۵۰)

۳:  یعنی ان گستاخیوں کے ساتھ ایسی باطل آرزوئیں رکھنا ہی اس کی دلیل ہے کہ ان کے لیے کوئی خوبی اور بھلائی تو کیا ہوتی، البتہ دوزخ تیار ہے جس کی طرف وہ بڑھائے جا رہے ہیں اور جہاں پہنچ کر گویا بالکل بھلا دیے جائیں گے۔ یعنی ابدا لآباد تک کبھی مہربانی کی نظر ان پر نہ ہو گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ان کو فرمایا جو ناکارہ چیزیں اللہ کے نام دیں اور اس پر یقین کریں کہ ہم کو بہشت ملے گی۔ حالانکہ وہ روز بروز دوزخ کی طرف بڑھتے ہیں۔

۶۳ ۔۔۔ کفار مکہ کی گستاخیوں اور لغو و بیہودہ دعاوی کا ذکر کر کے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تسلی دیتے ہیں کہ آپ ان کی حرکتوں سے دلگیر اور رنجیدہ نہ ہوں۔ ہم نے آپ سے پہلے بھی مختلف امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے ہیں لیکن ہمیشہ یہ ہی ہوا کہ شیطان لعین مکذبین کو ان کے عمل اچھے کر کے دکھاتا رہا۔ اور وہ برابر شرارت میں بڑھتے رہے۔ آج وہ سب خدائی عذاب کے نیچے ہیں۔ اور شیطان جو ان کا رفیق ہے کچھ کام نہیں آتا۔ نہ ان کی فریاد کو پہنچ سکتا ہے۔ یہ ہی انجام آپ کے مکذبین کا ہو گا۔ بعض نے ہُوَ وَلِیُّہُمُ الْیَوْمَ" کا یہ مطلب لیا ہے کہ شیطان جس نے اگلوں کو بہکایا تھا وہ ہی آج ان کفار مکہ کا رفیق بنا ہوا ہے۔ لہٰذا جو حشر ان کا ہوا ان کا بھی ہو گا۔

۶۴ ۔۔۔  ۱: یعنی قرآن صرف اس لیے اتارا گیا ہے کہ جن سچے اصولوں میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں اور جھگڑے ڈال رہے ہیں (مثلاً توحید و معاد اور احکام حلال و حرام وغیرہ) ان سب کو وضاحت و تحقیق کے ساتھ بیان کر دے۔ کوئی اشکال و خفا باقی نہ رہے۔ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بذریعہ قرآن تمام نزاعات کا دو ٹوک فیصلہ سنا دیں اور بندوں پر خدا کی حجت تمام کر دیں۔ آگے ماننا نہ ماننا خود مخاطبین کا کام ہے جسے توفیق ہو گی قبول کرے گا۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

۲:  یعنی فیصلہ اور بیان تو سب کے لیے ہے لیکن اس کی ہدایت سے منتفع ہونا اور رحمت الٰہی کی آغوش میں آنا انہی کا حصہ ہے جو اس فیصلہ کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں اور بطوع و رغبت ایمان لاتے ہیں۔

۶۵ ۔۔۔  ۱: یعنی خشک زمین کو آسمانی بارش سے سرسبز کر دیا گویا خشک ہونا زمین کی موت اور سرسبز و شاداب ہونا حیات ہے۔

۲:  یعنی اسی طرح قرآن سے جاہلوں کو عالم اور مردہ دلوں کو زندہ کر دے گا۔ اگر توجہ قلبی اور انصاف سے سنیں گے۔

۶۶ ۔۔۔  ۱: یعنی اونٹ گائے، بھینس وغیرہ جانور جو گھاس چارہ کھاتے ہیں۔ وہ پیٹ میں پہنچ کر تین چیزوں کی طرف مستحیل ہو جاتا ہے۔ قدرت نے ان حیوانات کے جسم کے اندرونی حصہ میں ایسی مشین لگا دی ہے جو غذا کے کچھ اجزاء کو تحلیل کر کے فضلہ (گوبر) کی شکل میں باہر پھینک دیتی ہے اور کچھ اجزاء کو خون بنا کر عروق میں پھیلا دیتی ہے جو ان کی حیات و بقا کا سبب بنتا ہے۔ اور اسی مادہ میں سے جس کے بعض اجزاء گوبر اور بعض خون بن گئے۔ ان دو گندی چیزوں کے درمیان ایک تیسری چیز (دودھ) تیار کرتی ہے جو نہایت پاک طیب اور خوشگوار چیز ہے۔

۲: پہلے کتاب اتارنے کی مناسبت سے پانی اتارنے کا ذکر فرمایا تھا ان آیات میں پانی کی مناسبت سے باقی انواع مشروبات کا تذکرہ ہوا ہے یعنی دودھ، شراب و نبیذ اور شہد۔ ایک دوسرے موقع پر جہاں جنت کی نہروں کا ذکر آیا ہے مشروبات کی یہ ہی چار قسمیں مذکور ہوئی ہیں۔ یْہَا اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ وَّاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہ، وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشَّرِبِیْنَ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی" (محمد، رکوع ، آیت:۵) یہاں اس قسم کی چیزوں کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کے خیال میں جو بڑی بڑی نعمتیں ہیں وہ سب خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ پھر تعجب ہے کہ آدمی کس طرح منعم حقیقی کے احسانات بھلا کر دوسروں کا غلام بن جاتا ہے۔ گویا شرک کے رد کی طرف اشارہ ہوا اور یہ بھی کہ جس طرح تمہاری جسمانی زندگی کے لیے خدا نے طرح طرح کے انتظامات اور مناسب سامان کیے ہیں ضرور ہے کہ روحانی زندگی اور باطنی ترقی کے وسائل و ذرائع بھی کافی مقدار میں مہیا کیے ہوں گے۔

۶۷ ۔۔۔ ۱: یعنی ان میووں سے نشہ لانے والی شراب کشید کرتے ہو۔ اور کھانے پینے کی دوسری عمدہ چیزیں مثلاً شربت، نبیذ، سرکہ اور خشک خرمایا کشمش وغیرہ ان سے حاصل کرتے ہو۔ (تنبیہ) یہ آیت مکی ہے شراب مکہ میں حرام نہ ہوئی تھی، پینے والے اس وقت تک بے تکلف پیتے تھے۔ ہجرت کے بعد حرام ہوئی پھر کسی مسلمان نے ہاتھ نہیں لگایا۔ تاہم اس مکی آیت میں بھی "سکرًا" کے بعد "ورزقاً حسنًا" فرما دیا کہ جو چیز آئندہ حرام ہونے والی ہے اس پر "رزقِ حسن" کا اطلاق کرنا موزوں نہیں۔

۲:  یہاں "یَعْقِلُوْنَ" کا لفظ جو عقل سے مشتق ہے "سکرًا" کے تذکرہ سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ چونکہ نشہ عقل کو زائل کر دیتا ہے۔ اس لیے اشارہ فرما دیا کہ آیات کا سمجھنا عقل والوں کا کام ہے نشہ پینے والوں کا نہیں۔

۶۸ ۔۔۔  یعنی انگور کی بیل چڑھانے کو جو ٹٹیاں باندھتے ہیں یا جو عمارتیں لوگ تیار کرتے ہیں۔ شہد کی مکھی کو حکم دینے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی فطرت ایسی بنائی جو باوجود ادنیٰ حیوان ہونے کے نہایت کاریگری اور باریک صنعت سے اپنا چھتہ پہاڑوں، درختوں اور مکانوں میں تیار کرتی ہے۔ ساری مکھیاں ایک بڑے مکھی کے ماتحت رہ کر پوری فرمانبرداری کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ان کے سردار کو "یعْسُوب"کہا جاتا ہے۔ جس کے ساتھ مکھیوں کا جلوس چلتا ہے۔ جب کسی جگہ مکان بناتی ہیں تو سب خانے "مسدس متساوی الاضلاع" کی شکل پر ہوتے ہیں بدون مسطر و پرکار وغیرہ کے اس قدر صحت و انضباط کے ساتھ ٹھیک ٹھیک ایک ہی شک پر تمام خانوں کا رکھنا آدمی کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ حکماء کہتے ہیں کہ مسدس کے علاوہ کوئی دوسری شکل اگر اختیار کی جاتی تو لامحالہ درمیان میں کچھ جگہ فضول خالی رہتی۔ فطرت نے ایسی شکل کی طرف راہنمائی کی جس میں ذرا سا فرجہ بھی بیکار نہ رہے۔

۶۹ ۔۔۔  ۱: "کُلِیْ" اور اسْلُکِیْ" سب اوامر تکوینیہ ہیں۔ یعنی فطرۃً اس کو ہدایت کی کہ اپنی خواہش اور استعدادِ مزاج کے مناسب ہر قسم کے پھلوں اور میووں میں سے اپنی غذا حاصل کرے، چنانچہ مکھیاں اپنے چھتہ سے نکل کر رنگ برنگ کے پھول پھل چوستی ہیں جس سے شہد اور موم وغیرہ حاصل ہوتا ہے۔

۲:  یعنی غذا حاصل کرنے اور کھا پی کر چھتہ کی طرف واپس آنے کے راستے صاف کھلے پڑے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ مکھیاں غذا کی تلاش میں بعض اوقات بہت دور نکل جاتی ہیں پھر بے تکلف اپنے چھتہ میں واپس جاتی ہیں۔ذرا راستہ نہیں بھولتیں۔ بعض نے اسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً" کا مطلب یہ لیا ہے کہ قدرت نے تیرے عمل و تصرف کے جو فطری راستے مقرر کر دیے ہیں ان پر مطیع و منقاد بن کر چلتی رہ۔ مثلاً پھول پھل چوس کر فطری قویٰ و تصرفات سے شہد وغیرہ تیار کر۔

۳:  یعنی مختلف رنگ کا شہد نکلتا ہے، سفید، سرخ، زرد، کہتے ہیں کہ رنگتوں کا اختلاف موسم، غذا اور مکھی کی عمر وغیرہ کے اختلاف سے پیدا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔

۴:  یعنی بہت سی بیماریوں میں صرف شہد خالص یا کسی دوسری دوا میں شامل کر کے دیا جاتا ہے جو باذن اللہ مریضوں کی شفا یابی کا ذریعہ بنتا ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ ایک شخص کو دست آ رہے تھے اس کا بھائی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے شہد پلانے کی رائے دی۔ شہد پینے کے بعد اسہال میں ترقی ہو گئی۔ اس نے پھر حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضرت دست زیادہ آنے لگے فرمایا۔ "صَدَقَ اللّٰہُ وَ کَذَبَ بَطْنُ اَخِیْکَ" (اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے) پھر پلاؤ۔ دوبارہ پلانے سے بھی وہی کیفیت ہوئی۔ آپ نے پھر وہی فرمایا۔ آخر تیسری مرتبہ پلانے سے دست بند ہو گئے اور طبیعت صاف ہو گئی۔ اطباء نے اپنے اصول کے موافق کہا ہے کہ بعض اوقات پیٹ میں "کیموس" فاسد ہوتا ہے جو پیٹ میں پہنچنے والی ہر ایک غذا اور دوا کوفاسد کر دیتا ہے اس لیے دست آتے ہیں اس کا علاج یہ ہی ہے کہ مسہلات دی جائیں تاکہ وہ "کیموس فاسد" خارج ہو۔ شہد کے مسہل ہونے میں کسی کو کلام نہیں گویا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مشورہ اس طبی اصول کے موافق تھا۔ مامون رشید کے زمانہ میں ثمامہ عبسی کو جب اسی قسم کا مرض لاحق ہوا تو اس زمانہ کے شاہی طبیب یزید بن یوحنا نے مسہل سے اس کا علاج کیا اور یہ ہی وجہ بتلائی۔ آجکل کے اطباء شہد کے استعمال کو استطلاقِ بطن کے علاج میں بیحد مفید بتلاتے ہیں۔

۵:  حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں برے میں سے بھلا نکلنے کے تین پتے بتلائے۔ جانور کے پیٹ اور خون گوبر کے مادہ سے دودھ، نشے کے مادہ (انگور، کھجور وغیرہ) سے پاک روزی اور مکھی کے پیٹ سے شہد۔ تینوں میں اشارہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس قرآن کی بدولت جاہلوں کی اولاد میں عالم پیدا کرے گا۔ حضرت کے وقت میں یہ ہی ہوا کہ کافروں کی اولاد عارف کامل ہوئی۔

۷۰ ۔۔۔  قدرت کے بہت سے خارجی نشان بیان فرما کر انسان کو متنبہ کرتے ہیں کہ خود اپنے اندرونی حالات پر غور کرے۔ وہ کچھ نہ تھا، خدا نے وجود بخشا پھر موت بھیجی اور دی ہوئی زندگی واپس لے لی یہ کچھ نہ کر سکا اور بعضوں کو موت سے پہلے ہی پیرانہ سالی کے ایسے درجہ میں پہنچا دیا کہ ہوش و حواس ٹھکانے نہ رہے۔ نہ ہاتھ پاؤں میں طاقت رہی، بالکل نکما ہو گیا۔ نہ کوئی بات سمجھی ہوئی یاد رکھ سکتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ علم و قدرت اسی خالق و مالک کے خزانہ میں ہے۔ جب اور جس قدر چاہے دے اور جب چاہے واپس کرلے۔ حضرت شاہ صاحب کے نزدیک آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس امت میں کامل پیدا ہو کر پھر ناقص پیدا ہونے لگیں گے۔ واللہ اعلم۔

۷۱ ۔۔۔   یعنی خدا کی دی ہوئی روزی اور بخشش سب کے لیے برابر نہیں۔ بلحاظ تفاوتِ  استعداد و احوال کے اس نے اپنی حکمت بالغہ سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ کسی کو مالدار اور با اقتدار بنایا جس کے ہاتھ تلے بہت سے غلام اور نوکر چاکر ہیں۔ جن کو اسی کے ذریعہ سے روزی پہنچتی ہے۔ ایک وہ غلام ہیں جو بذاتِ خود ایک پیسہ یا ادنیٰ اختیار کے مالک نہیں، ہر وقت آقا کے اشاروں کے منتظر رہتے ہیں۔ پس کیا دنیا میں کوئی آقا گوارا کرے گا کہ غلام یا نوکر چاکر جو بہرحال اسی جیسے انسان ہیں بدستور غلامی کی حالت میں رہتے ہوئے اس کی دولت، عزت، بیوی وغیرہ میں برابر کے شریک ہو جائیں۔ غلام کا حکم تو شرعاً یہ ہے کہ بحالت غلامی کسی چیز کا مالک بنایا جائے تب بھی نہیں بنتا آقا ہی مالک رہتا ہے اور فرض کرو آقا غلامی سے آزاد کر کے اپنی دولت وغیرہ میں برابر کا حصہ دار بنا لے تو مساوات بیشک ہو جائے گی، لیکن اس وقت غلام غلام نہ رہا۔ بہر کیف غلامی اور مساوات جمع نہیں ہو سکتی۔ جب دو ہم جنس اور متحد النوع انسانوں کے اندر مالک و مملوک میں شرکت و مساوات نہیں ہو سکتی، پھر غضب ہے کہ خالق و مخلوق کو معبودیت وغیرہ میں برابر کر دیا جائے اور ان چیزوں کو جنہیں خدا کی مملوک سمجھنے کا اقرار خود مشرکین بھی کرتے تھے۔ اِلاَّشَرِیْکًا ہُوَلَکَ تَمْلِکُہُ وَمَامَلَکَ مالک حقیقی کا شریک و سہیم ٹھہرا دیا جائے۔ کیا منعم حقیقی کی نعمتوں کا یہ ہی شکریہ ہے کہ جس بات کے قبول کرنے سے خود ناک بھوں چڑھاتے ہوں اس سے زیادہ قبیح و شنیع صورت اس کے لیے تجویز کی جائے۔ نیز جس طرح روزی وغیرہ میں حق تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی، سب کو ایک درجہ میں نہیں رکھا، اگر علم و عرفان اور کمالات نبوت میں کسی ہستی کو دوسروں سے فائق کر دیا تو خدا کی اس نعمت سے انکار کرنے کی بجز ہٹ دھرمی کے کیا وجہ ہو سکتی ہے۔

۷۲ ۔۔۔  ۱: یعنی نوع انسان ہی سے تمہارا جوڑا پیدا کیا تاکہ الفت و موانست قائم رہے۔ اور تخلیق کی غرض پوری ہو۔ "وَمِنْ ایٰٰاتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْآ اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً" (الروم، آیت:٢۱)

۲:  جو تمہاری بقائے نوعی کا ذریعہ ہیں۔

۳:  جو بقائے شخصی کا سبب ہے۔

۴:  یعنی بتوں کا احسان مانتے ہیں کہ بیماری سے چنگا کیا، یا روزی دی، اور یہ سب جھوٹ اور وہ جو سچ دینے والا ہے اس کے شکر گزار نہیں۔ کذافی الموضح۔ اور شاید یہ بھی اشارہ ہو کہ فانی و زائل زندگانی کی بقائے نوعی و شخصی کے اسباب کو تو مانتے ہو اور خدا کی سب سے بڑی نعمت (پیغمبر علیہ السلام کی ہدایات) کو جو بقائے ابدی اور حیات جاودانی کا واحد ذریعہ ہے، تسلیم نہیں کرتے اَلاَ کُلُّ شَیْ ءٍ مَاخَلَا اللَّہَ بَاطِلٌ۔

۷۳ ۔۔۔ ۱: یعنی نہ آسمان سے مینہ برسانے کا خدائی اختیار رکھتے ہیں نہ زمین سے غلہ اگانے کا۔ پھر قادرِ مطلق کے شریک معبودیت میں کس طرح بن گئے؟

۲: یعنی نہ فی الحال اختیار ہے نہ آئندہ حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔

۷۴ ۔۔۔  ۱: مشرک کہتے تھے کہ مالک اللہ ہی ہے۔ یہ لوگ اس کی سرکار میں مختار ہیں۔ ہمارے کام ان ہی سے پڑتے ہیں۔ بڑی سرکار تک براہِ راست رسائی نہیں ہو سکتی۔ سو یہ مثال غلط ہے جو بارگاہِ احدیت پر چسپاں نہیں۔ اللہ ہر چیز آپ کرتا ہے خواہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ۔ کوئی کام کسی کو اس طرح سپرد نہیں کر رکھا جیسے سلاطین دنیا اپنے ماتحت حکام کو اختیارات تفویض کر دیتے ہیں کہ تفویض تو ارادہ و اختیار سے کیا لیکن بعد تفویض ان اختیارات کے استعمال میں ماتحت آزاد ہیں۔ کسی مجسٹریٹ کے فیصلہ کے وقت بادشاہ یا پارلیمنٹ کو اس واقعہ اور فیصلہ کی مطلق خبر نہیں ہوتی۔ نہ اس وقت جزئی طور پر بادشاہ کی مشیت و ارادہ کو فیصلہ صادر کرنے میں قطعاً دخل ہے یہ صورت حق تعالیٰ کے یہاں نہیں۔ بلکہ ہر ایک چھوٹا بڑا کام اور ادنیٰ سے ادنیٰ جزئی خواہ بواسطہ اسباب یا بالواسطہ اس کے علم محیط اور مشیت و ارادہ سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اسی لیے لازم ہے کہ آدمی ہر کلی جزئی کا فاعل اور موثر حقیقی اعتقاد کر کے تنہا اسی کو معبود و مستعان سمجھے۔ (تنبیہ) ابن عباس وغیرہ سلف سے لَاتَضْرِبُوْا لِلّٰہِ اْلاَمْثَالَ" کا یہ مطلب منقول ہے۔ کہ خدا کا مماثل کسی کو مت ٹھہراؤ۔

۲:  یعنی تم نہیں جانتے کہ خدا کے لیے کس طرح مثال پیش کرنی چاہیے۔ جو اصل حقیقت اور صحیح مطلب کی تفہیم میں معین ہو۔ اور اس کی عظمت و نزاہت کے خلاف شبہ پیدا نہ کرے۔ اگر صحیح مثال چاہو تو آگے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ انہیں غور سے سنو اور تمثیل کی غرض کو سمجھو۔

۷۵ ۔۔۔ ایک شخص وہ ہے جو آزاد نہیں، دوسرے کا مملوک غلام ہے کسی طرح کی قدرت و اختیار نہیں رکھتا۔ ہر ایک تصرف میں مالک کی اجازت کا محتاج ہے۔ بدون اجازت اس کے سب تصرفات غیر معتبر ہیں دوسرا آزاد اور با اختیار شخص ہے جسے خدا نے اپنے فضل سے بہت کچھ مقدرت اور روزی عنایت فرمائی جس میں سے دن رات سراً وعلانیۃً بے دریغ خرچ کرتا ہے۔ کوئی اس کا ہاتھ نہیں روک سکتا۔ کیا یہ دونوں شخص برابر ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح سمجھ لو کہ حق تعالیٰ ہر چیز کا مالک حقیقی ہے، سب تعریفیں اور خوبیاں اس کے خزانہ میں ہیں جس کو چاہے دے۔ کوئی مزاحمت کرنے والا نہیں۔ ذرہ ذرہ پر کلی اختیار اور کامل قبضہ رکھتا ہے۔ یہ کس قدر ظلم ہو گا کہ ایک پتھر کے بت کو اس کے برابر کر دیا جائے جو کسی چیز کا مالک نہیں بلکہ خود پرایا مال ہے۔ اگر مالک مجازی اور مملوکِ مجازی برابر نہیں ہو سکتے تو کوئی مملوک محض مالک حقیقی کا شریک کیسے بن سکتا ہے۔ یہاں سے یہ بھی سمجھ لو کہ خدائے واحد کا پرستار جسے مالک نے علم و ایمان کی دولت بخشی اور لوگوں میں شب و روز روحانی نعمتیں تقسیم کرنے کا ذریعہ بنایا، کیا ایک پلید مشرک کو جو بت کا مملوک، اہواء و اوہام کا غلام اور عمل مقبول سے محض تہی دست ہے اس مومن موحد کے ساتھ برابر کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ کلاّ واللہ۔

۷۶ ۔۔۔  ۱: گونگا ہے تو لازمی طور پر بہرا بھی ہو گا۔گویا نہ اپنی کہہ سکے نہ دوسرے کی سن سکے۔

۲:  کیونکہ نہ حواس رکھتا ہے نہ عقل، اور اپاہج ہے جو چل پھر بھی نہیں سکتا۔

۳:  یعنی مالک کے کسی کام کا نہیں۔ جدھر اسے بھیجنا چاہے یا متوجہ کرے کچھ بھلائی اور فلاح نہ پہنچا سکے۔

۴:  یعنی خود سیدھی راہ پر قائم رہ کر دوسروں کو بھی اعتدال و انصاف کے راستہ پر لے جا رہا ہے۔ جب یہ دونوں شخص برابر نہیں ہو سکتے تو ایک خود تراشیدہ پتھر کی مورتی کو (العیاذ باللہ) خدائی کا درجہ کیونکر دیا جا سکتا ہے۔ یا ایک اندھا بہرا مشرک جو خدا کی پیدا کی ہوئی روزی کھاتا ہے اور چھدام کا کام کر کے نہیں دیتا اس مومن قانت کی ہمسری کیسے کر سکتا ہے جو خود سیدھی راہ پر ہو اور دوسروں کو اپنے ساتھ ترا لے جائے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی "خدا کی دو مخلوق ایک بت نکما نہ ہل سکے نہ چل سکے جیسے گونگا غلام، دوسرا رسول جو اللہ کی راہ بتاوے ہزاروں کو اور آپ بندگی پر قائم ہے اس کے تابع ہونا بہتر یا اس کے تابع ہونا بہتر ہے

۷۷ ۔۔۔  ۱: یعنی ساری مخلوق یکساں نہ ہوئی۔ ایک آدمی کا حال دوسرے سے بے انتہا مختلف ہوا۔ سب چیزیں ایک سطح مستوی پر کھڑی نہیں کی گئیں۔ اس کا بھید اور ہر ایک کی پوشیدہ استعداد اور مخفی حالت کا علم خدا ہی کے پاس ہے۔ چنانچہ وہ اپنے علم محیط کے موافق قیامت میں ہر ایک کے ساتھ جداگانہ معاملہ کرے گا۔ اور مختلف احوال پر مختلف نتائج مرتب فرمائے گا۔

۲:  یعنی قیامت کے آنے کو مستبعد مت سمجھو، خدا کے آگے کوئی چیز مشکل نہیں۔ تمام لوگوں کو جب دوبارہ پیدا کرنا چاہے گا تو پلک جھپکنے کی دیر بھی نہ لگے گی، ادھر سے ارادہ ہوتے ہی چشم زدن میں ساری دنیا دوبارہ موجود ہو جائے گی۔ (تنبیہ) "کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْہُوَ اَقْرَبُ" کا مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں کے محسوسات کے موافق تو اس کی سرعت کو آنکھ جھپکنے سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ لیکن واقعی اس سے بھی کم میں قیامت قائم ہو جائے گی۔ کیونکہ "لمح بصر" بہرحال زمانی چیز ہے اور ارادہ خداوندی پر مراد کاترتب آنی ہو گا۔

۳:  یعنی جس کے علم محیط کا وہ حال ہو کہ آسمان و زمین کے سارے بھید اس کے سامنے حاضر ہیں اور جس کی قدرتِ کاملہ ذرہ ذرہ پر محیط ہو، بھلا اس کا ہمسر کون ہو سکتا ہے؟ اور اس کی پوری مثال کہاں سے لا سکتے ہیں۔

۷۸ ۔۔۔  یعنی پیدائش کے وقت تم کچھ جانتے اور سمجھتے نہ تھے، خدا تعالیٰ نے علم کے ذرائع اور سمجھنے والے دل تم کو دیے۔ جو بذات خود بھی بڑی نعمتیں ہیں اور لاکھوں نعمتوں سے متمتع ہونے کے وسائل ہیں۔ اگر آنکھ، کان، عقل وغیرہ نہ ہو تو ساری ترقیات کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔ جوں جوں آدمی کا بچہ بڑا ہوتا ہے اس کی علمی و عملی قوتیں بتدریج بڑھتی جاتی ہیں۔ اس کی شکر گزاری یہ تھی کہ ان قوتوں کو مولیٰ کی طاعت میں خرچ کرتے، اور حق شناسی میں سمجھ بوجھ سے کام لیتے، نہ یہ کہ بجائے احسان ماننے کے الٹے بغاوت پر کمر بستہ ہو جائیں۔ اور منعم حقیقی کو چھوڑ کر اینٹ پتھروں کی پرستش کرنے لگیں۔

۷۹ ۔۔۔  ۱: یعنی جیسے آدمی کو اس کے مناسب قویٰ عنایت فرمائے، پرندوں میں ان کے حالات کے مناسب فطری قوتیں ودیعت کیں، ہر ایک پرندہ اپنی اڑان میں قانون قدرت کا تابع اور خدا تعالیٰ کے تکوینی احکام سے وابستہ ہے۔ اسے کسی درسگاہ میں اڑنے کی تعلیم نہیں دی گئی، قدرت نے اس کے پر اور بازو اور دم وغیرہ کی ساخت ایسی بنائی ہے کہ نہایت آسانی سے آسمانی فضا میں اڑتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ ان کا جسم ثقیل ہوائے لطیف کو چیر پھاڑ کر بے اختیار نیچے آ پڑے۔ یا زمین کی عظیم الشان کشش انہیں اپنی طرف کھینچ لے اور طیران سے منع کر دے۔ کیا خدا کے سوا کسی اور کا ہاتھ ہے جس نے ان کو بے تکلف فضائے آسمانی میں روک رکھا ہے۔

۲:  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی ایمان لانے میں بعضے اٹکتے ہیں، معاش کی فکر سے، سو فرمایا کہ ماں کے پیٹ سے کوئی کچھ نہیں لاتا۔ کمائی کے اسباب کہ آنکھ، کان، دل وغیرہ ہیں، اللہ ہی دیتا ہے اور اڑتے جانور ادھر میں آخر کس کے بھروسہ رہتے ہیں۔

۸۰ ۔۔۔ ۱: یعنی اینٹ، پتھر، لکڑی وغیرہ کے مکان۔

۲:  یعنی اینٹ پتھر کے مکانوں کو کہیں منتقل نہیں کر سکتے تھے، اس لیے چمڑے اور اون وغیرہ کے ڈیرے خیمے بنانے سکھا دیے جو بسہولت منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ سفر و حضر میں جہاں چاہو نصب کر لو اور جب چاہو لپیٹ کر رکھ دو۔ بعض نے "یَوْمَ ظَعْنِکُمْ وَیَوْمَ اِقَامَتِکُمْ" کا یہ مطلب لیا ہے کہ چلنے کے وقت اٹھانے میں اور کسی جگہ اترتے وقت نصب کرنے میں ہلکے رہتے ہیں۔

۳:  یعنی اونٹ کی پشم سے۔

۴:  یعنی ان چیزوں سے کتنے سامان رہائش اور آسائش کے تیار کئے جاتے ہیں جو ایک وقت معین یا مدتِ دراز تک کام دیتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ آنکھ، کان اور ترقی کرنے والے دل و دماغ نہ دیتا، کیا یہ سامان میسر آ سکتے تھے۔

۸۱ ۔۔۔  ۱: مثلاً بادل، درخت، مکان اور پہاڑ وغیرہ کا سایہ قانون قدرت کے موافق زمین پر پڑتا ہے جس میں مخلوق آرام پاتی ہے۔

۲:  جہاں سر چھپا کر بارش، دھوپ یا دشمن وغیرہ سے اپنی حفاظت کر سکتے ہو۔

۳:  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جن کرتوں میں گرمی کا بچاؤ ہے، سردی کا بھی بچاؤ ہے۔ پر اس ملک میں گرمی زیادہ تھی اس کا ذکر خصوصیت سے فرمایا۔

۴:  یعنی زرہیں جو لڑائی میں زخمی ہونے سے بچاتی ہیں۔

۵:  یعنی دیکھو! کس طرح تمہاری ہر قسم کی ضروریات کا اپنے فضل سے انتظام فرمایا اور کیسی علمی و عملی قوتیں مرحمت فرمائیں جن سے کام لے کر انسان عجیب و غریب تصرفات کرتا رہتا ہے۔ پھر کیا ممکن ہے کہ جس نے مادی اور جسمانی دنیا میں اس قدر احسانات فرمائے، روحانی ترتیب و تکمیل کے سلسلے میں ہم پر اپنا احسان پور انہ کرے گا۔ بیشک پورا کر چکا "اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْناً"(مائدہ، رکوع ۱، آیت:۳) ضروری ہے کہ سب لوگ اس کے احسان کے آگے گردنیں جھکا دیں اور اس منعم حقیقی اور محسن اعظم کے مطیع و منقاد ہو کر رہیں۔

۸۲ ۔۔۔ یعنی اگر اس قدر احسانات سن کر بھی خدا کے سامنے نہ جھکیں تو آپ کچھ غم نہ کھائیے۔ آپ اپنا فرض ادا کر چکے، کھول کھول کر تمام ضروری باتیں سنا دیں گئیں۔ آگے ان کا معاملہ خدا کے سپرد کیجئے۔

۸۳ ۔۔۔  یعنی بیشک بعضے بندے شکر گزار بھی ہیں "وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ" (سبا، رکوع ٢، آیت:۱) لیکن اکثروں کا حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو دیکھتے اور اس کے احسانات کو سمجھتے ہیں، مگر جب شکر گزاری اور اظہار اطاعت کا وقت آتا ہے تو سب بھول جاتے ہیں۔ گویا دل سے سمجھتے ہیں اور عمل سے انکار کرتے ہیں۔

۸۴ ۔۔۔ یہاں سے کفر و ناشکری کا انجام بتلاتے ہیں۔ یہ یاد رکھو! وہ دن بھی آنے والا ہے جب تمام اگلی پچھلی امتیں احکم الحاکمین کی آخری عدالت میں کھڑی ہوں گی اور ہر امت کا نبی بطور گواہ کھڑا کیا جائے گا تاکہ اپنی امت کے نیک و بد اور مطیع و عاصی کی نسبت شہادت دے کہ کس نے کیسا معاملہ حق کے پیغام اور پیغامبر کے ساتھ کیا ہے۔ اس وقت منکروں کو اجازت نہ ہو گی کہ کچھ لب کشائی کر سکیں یا اب بعد از وقت توبہ کر کے سزا سے چھوٹ جائیں اور لب کشائی کاہے میں کریں گے، درآنحالیکہ انہیں اپنے مجرم ہونے اور کسی کی معذرت نہ چل سکنے کا پورا انکشاف ہو جائے گا۔ وہ یہ بھی سمجھ لیں گے کہ یہ "دارجزاء" ہے "دارعمل" نہیں جو اب توبہ کر کے خطائیں معاف کرا لیں۔

۸۵ ۔۔۔  یعنی نہ عذاب کی سختی میں کمی ہو گی اور نہ درمیان میں وقفہ ہو گا کہ تھوڑی دیر مہلت مل جائے، پھر از سر نو عذاب شروع ہو۔ بعض نے "وَلَا یُنْظَرُوْنَ" سے یہ مراد لیا ہے کہ جہنم کو دیکھنے کے بعد ایک منٹ کی ڈھیل نہ ملے گی۔ جہنم فوراً مجرمین کو اس طرح اچک لے گی جیسے پرند ایک دم دانہ اٹھا کر نگل جاتا ہے۔ گویا سرعت دخول کی طرف اشارہ ہوا۔

۸۶ ۔۔۔ ۱: یعنی ہم تو ان کی بدولت مارے گئے۔ شاید یہ مطلب ہو کہ ہم بذاتِ خود بے قصور ہیں، یا یہ کہ انہیں دہری سزا دیجئے۔

۲:  یعنی جھوٹے ہو جو ہم کو خدا کا شریک ٹھہرا لیا۔ ہم نے کب کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو۔ فی الحقیقت تم محض اپنے اوہام و خیالات کو پوجتے تھے جس کے نیچے کوئی حقیقت نہ تھی، یا جن و شیاطین کی پرستش کرتے تھے۔ مگر وہاں شیطان بھی یہ کہہ کر الگ ہو جائے گا "وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰانٍ اِلاَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلاَ تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْآ اَنْفُسَکُمْ" (ابراہیم، رکوع ۴، آیت ٢٢) غرض جن چیزوں کو مشرکین نے معبود بنا رکھا تھا، سب اپنی علیحدگی اور بیزاری کا اظہار کریں گے۔ کوئی سچ کوئی جھوٹ۔ پتھر کے بتوں کو تو سرے سے کچھ خبر ہی نہ تھی۔ ملائکہ اور بعض انبیاء و صالحین ہمیشہ شرک سے سخت نفرت و بیزاری اور اپنی خالص بندگی کا اظہار کرتے رہے۔ رہ گئے شیاطین سو ان کا اظہار نفرت گو جھوٹ ہو گا، تاہم اس سے مشرکین کو کلی طور پر مایوسی ہو جائے گی کہ آج بڑے سے بڑا رفیق بھی کام آنے والا نہیں۔

۸۷ ۔۔۔  یعنی ساری طمطراق اور افتراء پردازیاں اس وقت غائب ہو جائیں گی سب عاجز و مقہور ہو کر خدا کے سامنے اپنی اطاعت و انقیاد کا اظہار کریں گے "اَسْمِعْ بِہِمْ وَاَبْصِرْیَوْمَ یَاْتُوْنَنَا" (مریم، رکوع ٢، آیت ۳)

۸۸ ۔۔۔   یعنی ایک عذاب تو انکارِ حق پر، دوسرا اس پر کہ اوروں کو خدا کی راہ سے روکا۔ یا ایک عذاب صدورِ جرم پر دوسرا اس کی عادت ڈالنے پر۔ بہرحال آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح جنت میں اہل جنت کے منازل و مدارج متفاوت ہوں گے، جہنمیوں کا عذاب بھی کمًّا و کیفًا و نوعاً متفاوت ہو گا۔

۸۹ ۔۔۔  ۱: یعنی وہ ہولناک دن یاد رکھنے کے قابل ہے جب ہر ایک پیغمبر اپنی امت کے معاملات کے متعلق بارگاہِ احدیت میں بیان دے گا۔ اور آپ (نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم) اس امت کی حالت بتلائیں گے بلکہ بعض مفسرین کے قول کے موافق آپ ان تمام شہداء کے لیے شہادت دیں گے کہ بیشک انہوں نے اپنا فرض منصبی بخوبی ادا کیا۔ حدیث میں آیا ہے کہ امت کے اعمال ہر روز حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو پیش کیے جاتے ہیں۔ آپ اعمالِ خیر کو دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور بد اعمالیوں پر مطلع ہو کر نالائقوں کے لیے استغفار فرماتے ہیں۔

۲: یعنی قرآن کریم میں تمام علوم ہدایت اور اصول دین اور فلاح دارین سے متعلق ضروری امور کا نہایت مکمل اور واضح بیان ہے۔ اس میں قیامت کے یہ واقعات بھی آ گئے جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اندریں صورت جس پیغمبر پر ایسی جامع کتاب اتاری گئی اس کی مسؤلیت اور ذمہ داری بھی بہت بھاری ہو گی گویا "شَہِیْدًا عَلیٰ ہٰؤُلَآء" کے بعد "وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْئٍ" فرما کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے عظیم مرتبہ اور اسی مرتبہ کے مناسب مسؤلیت کی طرف لطیف اشارہ فرما دیا۔ لَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ" (اعراف، رکوع ۱، آیت ۶) ابن کثیر نے اس کو ذرا تفصیل سے بیان کیا ہے۔

۳:  یعنی یہ کتاب سارے جہان کے لیے سر تا پا ہدایت اور مجسم رحمت ہے فرمانبردار بندوں کو شاندار مستقبل کی خوشخبری سناتی ہے۔

۹۰ ۔۔۔  ۱: قرآن کو "تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْئٍ" فرمایا تھا۔ یہ آیت اس کا ایک نمونہ ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک خیرو شر کے بیان کو اس آیت میں اکٹھا کر دیا ہے۔ گویا کوئی عقیدہ، خلق، نیت، عمل، معاملہ اچھا یا برا ایسا نہیں جو امراً ونہیاً اس کے تحت میں داخل نہ ہو گیا ہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر قرآن میں کوئی دوسری آیت نہ ہوتی تو تنہا یہ ہی آیت "تبیاناً لکل شیئٍ" کا ثبوت دینے کے لیے کافی تھی۔ شاید اسی لیے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خطبہ جمعہ کے آخر میں اس کو درج کر کے امت کے لیے اسوہ حسنہ قائم کر دیا۔ اس آیت کی جامعیت سمجھانے کے لیے تو ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔ تاہم تھوڑا سا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ آیت میں تین چیزوں کا امر فرمایا ہے۔ عدل ، احسان، ایتاءِ ذی القربیٰ " عدل"کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے تمام عقائد، اعمال، اخلاق، معاملات، جذبات، اعتدال و انصاف کے ترازو میں تلے ہوں، افراط و تفریط سے کوئی پلہ جھکنے یا اٹھنے نہ پائے۔ سخت سے سخت دشمن کے ساتھ بھی معاملہ کرے تو انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو جو بات اپنے لیے پسند نہ کرتا ہو اپنے بھائی کے لیے بھی پسند نہ کرے۔ "احسان" کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان بذات خود نیکی اور بھلائی کا پیکر بن کر دوسروں کا بھلا چاہے۔ مقام عدل و انصاف سے ذرا اور بلند ہو کر فضل و عفو اور تلطّف و ترحمّ کی خو اختیار کرے۔ فرض ادا کرنے کے بعد تطوُّع کی طرف قدم بڑھائے انصاف کے ساتھ مروت کو جمع کرے۔ اور یقین رکھے کہ جو کچھ بھلائی کرے گا خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ ادھر سے بھلائی کا جواب ضرور بھلائی کی صورت میں ملے گا۔ "اَ لْاِحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَاللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہ یَرَاکَ" (صحیح بخاری) ہَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا ا لْاِحْسَانُ" (رحمن، رکوع ۳، آیت۶۰) یہ دونوں خصلتیں (یعنی عدل و احسان یا بالفاظ دیگر انصاف و مروت) تو اپنے نفس اور ہر ایک خویش و بیگانہ اور دوست و دشمن سے متعلق تھیں۔ لیکن اقارب کا حق اجانب سے کچھ زائد ہے۔ جو تعلقات قرابت قدرت نے باہم رکھ دیئے ہیں انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔ بلکہ اقارب کی ہمدردی اور ان کے ساتھ مروت و احسان اجانب سے کچھ بڑھ کر ہونا چاہیے۔ صلہ رحم ایک مستقل نیکی ہے جو اقارب ذوی الارحام کے لیے درجہ بدرجہ استعمال ہونی چاہیے۔ گویا "احسان" کے بعد ذوی القربی کا بالتخصیص ذکر کر کے متنبہ فرما دیا کہ عدل و انصاف تو سب کے لیے یکساں ہے لیکن مروت و احسان کے وقت بعض مواقع بعض سے زیادہ رعایت و اہتمام کے قابل ہیں۔ فرق مراتب کو فراموش کرنا ایک طرح قدرت کے قائم کیے ہوئے قوانین کو بھلا دینا ہے۔ اب ان تینوں لفظوں کو ہمہ گیری کو پیش نظر رکھتے ہوئے سمجھ دار آدمی فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کون سی فطری خوبی، بھلائی اور نیکی دنیا میں ایسی رہ گئی ہے جو ان تین فطری اصولوں کے احاطہ سے باہر ہو۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ۔

۲: منع بھی تین چیزوں سے کیا۔ فحشاء، منکر، بغی، کیونکہ انسان میں تین قوتیں ہیں۔ جن کے بے موقع اور غلط استعمال سے ساری خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ قوت بہیمیہ شہوانیہ، قوت وہمیہ شیطانیہ قوت غضبیہ سبیعہ، غالباً حشاء" سے وہ بے حیائی کی باتیں مراد ہیں جن کا منشاء شہوت و بہیمیت کی افراط ہو "منکر" معروف کی ضد ہے۔ یعنی نامعقول کام جن پر فطرت سلیمہ اور عقل صحیح انکار کرے۔ گویا قوت وہمیہ شیطانیہ کے غلبہ سے قوت عقلیہ ملکیہ دب جائے۔ تیسری چیز "بغی" ہے۔ یعنی سرکشی کر کے حد سے نکل جانا۔ ظلم و تعدی پر کمر بستہ ہو کر درندوں کی طرح کھانے پھاڑنے کو دوڑنا، اور دوسروں کے جان و مال یا آبرو وغیرہ لینے کے واسطے ناحق دست درازی کرنا۔ اس قسم کی تمام حرکات قوتِ سبعیہ غضبیہ کے بے جا استعمال سے پیدا ہوتی ہیں۔ الحاصل آیت میں تنبیہ فرما دی کہ انسان جب تک ان تینوں قوتوں کو قابو میں نہ رکھے اور قوت عقلیہ ملکیہ کو ان سب پر حاکم نہ بنائے، مہذب اور پاک نہیں ہو سکتا۔

۳:  اکثم بن صفی نے اس آیت کریمہ کو سن کر اپنی قوم سے کہا "میں دیکھتا ہوں کہ یہ پیغمبر تمام عمدہ اور اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتے ہیں اور کمینہ اخلاق و اعمال سے روکتے ہیں۔ تو تم اس کے ماننے میں جلدی کرو۔ فَکُوْنُوْا فِیْ ہٰذَا الْاَمْرِ رُءُوْسًا وَّ لَاتَکُوْنُوْا فِیْہِ اَذْنَاباً (یعنی تم اس سلسلہ میں سر بنو، دم نہ بنو) حضرت عثمان بن مظعون فرماتے ہیں کہ اسی آیت کو سن کر میرے دل میں ایمان راسخ ہوا اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت جاگزین ہوئی۔

۹۱ ۔۔۔  اوپر کی آیت میں جن چیزوں کے کرنے یا چھوڑنے کا حکم تھا ان کے بعض افراد کو بالتخصیص بیان فرماتے ہیں۔ یعنی ایفائے عہد کی تاکید اور غدر وبدعہدی سے ممانعت کی یہ چیز علاوہ فی نفسہ مہتم بالشان ہونے کے اس وقت مخاطبین کے بہت زیادہ مناسب حال تھی جس کا مسلم قوم کے عروج و ترقی اور مستقبل کی کامیابی پر بے انتہاء اثر پڑنے والا تھا۔ اسی لیے حکم دیا کہ جب خدا کا نام لے کر اور قسمیں کھا کر معاہدے کرتے ہو تو خدا کے نام پاک کی حرمت قائم رکھو۔ کسی قوم سے یا کسی شخص سے معاہدہ ہو (بشرطیکہ خلاف شرع نہ ہو) مسلمان کا فرض ہے کہ اسے پورا کرے، خواہ اس میں کتنی ہی مشکلات اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑے۔ "قول مرداں جان دارد" خصوصاً جب خدا کا نام لے کر اور حلف کر کے ایک معاہدہ کیا ہے تو سمجھنا چاہیے کہ قسم کھانا گویا خدا کو اس معاملہ کا گواہ یا ضامن بنانا ہے۔ وہ جانتا ہے جب تم اسے گواہ بنا رہے ہو، اور یہ بھی جانتا ہے کہ کہاں تک اس گواہی کا لحاظ رکھتے ہو۔ اگر تم نے خیانت اور بدعہدی کی۔ وہ اپنے علم محیط کے موافق پوری سزا دے گا۔ کیونکہ تمہاری کسی قسم کی کھلی چھپی دغابازی اس سے مخفی نہیں رہ سکتی۔

۹۲ ۔۔۔ ۱: یعنی عہد باندھ کر توڑ ڈالنا ایسی حماقت ہے جسے کوئی عورت دن بھر سوت کاتے، پھر کتا کتایا سوت شام کے وقت توڑ کر پارہ پارہ کر دے۔ چنانچہ مکہ میں ایک دیوانی عورت ایسا ہی کیا کرتی تھی، مطلب یہ ہے کہ معاہدات کو محض کچے دھاگے کی طرح سمجھ لینا کہ جب چاہا کاتا اور جب چاہا انگلیوں کی ادنیٰ حرکت سے بے تکلف توڑ ڈالا سخت ناعاقبت اندیشی اور دیوانگی ہے۔ بات کا اعتبار نہ رہے تو دنیا کا نظام مختل ہو جائے۔ قول و قرار کی پابندی ہی سے عدل کی ترازو سیدھی رہ سکتی ہے۔ جو قومیں قانون عدل و انصاف سے ہٹ کر محض اغراض و خواہشات کی پوجا کرنے لگتی ہیں، ان کے یہاں معاہدات صرف توڑنے کے لیے رہ جاتے ہیں جہاں معاہد قوم کو اپنے سے کمزور دیکھا، سارے معاہدات ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے گئے۔

۲:  یعنی معاہدوں اور قسموں کو فریب و دغا، مکاری اور حیلہ سازی کا آلہ مت بناؤ۔ جس طرح اہل جاہلیت کی عادت تھی کہ ایک جماعت کو اپنے سے طاقتور دیکھ کر معاہدہ کر لیا پھر جس وقت کوئی جماعت اس سے بڑھ کر معزز اور طاقتور سامنے آئی، پہلا معاہدہ توڑ کر نئی جماعت سے عہد و پیمان گانٹھ لیے۔ پھر چند روز بعد ان خلفاء کو کمزور بنانے اور اپنے کو بڑھانے کا موقع پایا تو فوراً معاہدات توڑ ڈالے اور سب قسمیں اور حلف بالائے طاق رکھ دیئے۔ بعینہ جس طرح آجکل یورپین اقوام کا معمول ہے۔

۳:  یعنی قوت و ضعف میں اقوام کا اختلاف ان میں سے کسی کو اوپر چڑھانا کس کو نیچے گرانا، خدا تعالیٰ نے تمہاری آزمائش کے لیے رکھا ہے اور ایفائے عہد کا حکم دینے میں بھی تمہارا امتحان ہے۔ دیکھتے ہیں کون ثابت قدم رہتا ہے کہ اپنا عہد پورا کرنے میں حلفاء کی قوت و ضعف کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ باقی اقبال و ادبار کسی کے بدلے سے بدلا نہیں جاتا۔ ادبار کی جگہ اقبال اور ضعف کی جگہ قوت خدا ہی لائے تو آئے۔ ہاں بدعہدی کا خیال آنا اس کی علامت ہے کہ ادبار آنے والا ہے۔

۴:  یعنی یہاں امتحان ہے نتیجہ امتحان قیامت کے دن کھل جائے گا۔ جس وقت ضعف و طاقت کے سب جھگڑے چکا دیئے جائیں گے۔

۹۳ ۔۔۔ ۱:  یعنی اسے قدرت تھی کہ اختلاف نہ رہنے دیتا، مگر حکمت اس کو مقتضی نہ تھی۔ جیسا کہ کئی مواقع میں ہم اس کی تقریر کر چکے ہیں۔

۲:  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "اس سے معلوم ہوا کہ کافر سے بھی غدر اور بدعہدی نہ کرے۔ کفر ان باتوں سے ہٹتا نہیں۔ اور اپنے اوپر وبال آتا ہے۔

۹۴ ۔۔۔  یعنی عہد شکنی کر کے اور قسمیں توڑ کر بدعہدی کی راہ مت نکالو۔ اور مسلمان قوم کو بدنام نہ کرو کہ تمہارے خراب اور پست کیرکٹر کو دیکھ کر یقین لانے والے شک میں پڑ جائیں اور غیر مسلم قومیں اسلام میں داخل ہونے سے رکنے لگیں۔ اور تم پر خدا کی راہ سے روکنے کا گناہ چڑھے جس کی سزا بڑی سخت ہو گی۔

۹۵ ۔۔۔  پہلے مذکور تھا آپس میں قول توڑنے کا۔ اب اللہ سے قول توڑنے کا ذکر ہے یعنی مال کی طمع سے خلاف شرع حکم مت کرو، انجام کار ایسا مال وبال لائے گا۔ جو موافق شرع ہاتھ لگے، تمہارے حق میں وہ ہی بہتر ہے۔ (موضح القرآن) یا ایفائے عہد کا جو اجر خدا کے یہاں ملے گا وہ اس ثمن قلیل سے کہیں بہتر ہے۔ ثمن کو قلیل اس لیے کہا کہ اگر ساری دنیا بھی مل جائے تب بھی آخرت کے مقابلہ میں قلیل و حقیر ہے۔

۹۶ ۔۔۔  ۱: پھر باقی و دائم کو چھوڑ کر فانی و زائل کا پسند کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔

۲:  یعنی جو لوگ خدا کے عہد پر ثابت قدم رہیں گے اور تمام مشکلات اور صعوبتوں کو صبر کے ساتھ برداشت کریں گے، ان کا اجر ضائع ہونے والا نہیں۔ ایسے بہترین عمل کا بدلہ ضرور ہمارے یہاں سے مل کر رہے گا۔

۹۷ ۔۔۔ اوپر کی آیت میں صابرین اور ایفائے عہد کرنے والوں کے اجر کا ذکر تھا۔ یہاں تمام اعمالِ صالحہ کے متعلق عام ضابطہ بیان فرماتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ جو کوئی مرد یا عورت نیک کاموں کی عادت رکھے، بشرطیکہ وہ کام صرف صورۃً نہیں بلکہ حقیقتہً نیک ہوں۔ یعنی ایمان اور معرفت صحیحہ کی روح اپنے اندر رکھتے ہوں تو ہم اس کو ضرور پاک، ستھری اور مزیدار زندگی عنایت کریں گے۔ مثلاً دنیا میں حلال روزی، قناعت و غنائے قلبی، سکون و طمانیت، ذکر اللہ کی لذت، حب الٰہی کا مزہ، ادائے فرض عبودیت کی خوشی، کامیاب مستقبل کا تصور، تعلق مع اللہ کی حلاوت جس کا ذائقہ چکھ کر ایک عارف نے کہا تھا۔

 چوں چتر سنجری رخ بختم سیاہ باد در دل اگر بود ہس ملک سنجرم

 زانگہ کہ یافتم خبر از ملک نیم شب من ملک نیم روز بیک جونمی خرم

سچ ہے۔ "اَہْلُ اللَّیْلِ فِیْ لَیْلِہِمْ اَلَذُّ مِنْ اَہْلِ اللَّہْوِفِیْ لَہْوِہِمْ" اسی لیے ایک بزرگ نے فرمایا کہ اگر سلاطین کو خبر ہو جائے کہ شب بیداروں کو رات کے اٹھنے میں کیا لذت و دولت حاصل ہوتی ہے، تو اس کے چھیننے کے لیے اسی طرح لشکر کشی کریں جیسے ملک گیری کے لیے کرتے ہیں۔ بہرحال مومن قانت کی پاک اور مزیدار زندگی یہیں سے شروع ہو جاتی ہے۔ قبر میں پہنچ کر اس کا رنگ اور زیادہ نکھر جاتا ہے۔ آخر انتہاء اس حیات طیبہ پر ہوتی ہے جس کے متعلق کہا ہے حَیَاۃٌ بِلَا مَوْتٍ، وَّغِنیً بِلَافَقْرٍ، وَصِحَّۃٌ بِلَاسُقْمٍ، وَمُلْکٌ بِلَاہُلْکٍ، وَسَعَادَۃٌ بِلَاشَقَاوَۃٍ، رَزَقَنَا اللّٰہُ تَعَالیٰ بِفَضْلِہٖ وَمَنِّہٖ اِیَّاہَا۔ (تنبیہ) اس آیت نے بتلا دیا کہ قرآن کی نظر میں عورت اور مرد کی نیکی اور کامیابی کا ایک ہی ضابطہ ہے۔ یعنی عورت اور مرد بلا امتیاز اپنے اپنے حسب حال نیکی کر کے پاک زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔

۹۸ ۔۔۔  حدیث میں ہے "خَیْرُ کُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ وَ عَلَّمَہٗ" (تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے) معلوم ہوا کہ مومن کے لیے قرأتِ قرآن بہترین کام ہے۔ اور پچھلی آیات میں دو مرتبہ بہتر کاموں پر اجر ملنے کا ذکر تھا۔ اس لیے یہاں قرأت قرآن کے بعض آداب کی تعلیم فرماتے ہیں تاکہ آدمی بے احتیاطی سے اس بہتر کام کا اجر ضائع نہ کر بیٹھے۔ شیطان کی کوشش ہمیشہ یہ رہتی ہے کہ لوگوں کو نیک کاموں سے روکے خصوصاً قرأتِ قرآن جیسے کام کو جو تمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے، کب ٹھنڈے دل سے گوارا کر سکتا ہے۔ ضرور اس کی کوشش ہو گی کہ مومن کو اس سے باز رکھے، اور اس میں کامیاب نہ ہو تو ایسی آفات میں مبتلا کر دے جو قرأتِ قرآن کا حقیقی فائدہ حاصل ہونے سے مانع ہوں۔ ان سب مغویانہ تدبیروں اور پیش آنے والی خرابیوں سے حفاظت کا یہ ہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ جب مومن قرأتِ قرآن کا ارادہ کرے، پہلے صدق دل سے حق تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور شیطانِ مردود کی زد سے بھاگ کر خداوند قدوس کی پناہ میں آ جائے۔ اصلی استعاذہ (پناہ میں آنا) تو دل سے ہے۔ مگر زبان و دل کو موافق کرنے کے لیے مشروع ہے کہ ابتدائے قرأت میں زبان سے بھی اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھے۔

۹۹ ۔۔۔   یعنی جس نے خدا پر بھروسہ کیا اور اس کی پناہ ڈھونڈی اس پر شیطان زور سے حاوی نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا شخص کسی وقت محض تھوڑی دیر کے لیے بمقتضائے بشریت شیطان کے چکمہ میں آیا بھی تب بھی شیطان اپنا قبضہ اور تسلط اس پر نہیں جما سکتا۔ بہت جلد اس کی آنکھ کھل جائے گی اور غفلت میں تمادی نہ ہو گی۔ "اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طَا ئِفٌمِّنَ الشَّےْطٰانِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاہُمْ مُّبْصِرُوْنَ وَاِخْوَانُہُمْ یَمُدُّوْنَہُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ" (الاعراف، رکوع ٢۴، آیت ٢۰۱،٢۰٢)

۱۰۰ ۔۔۔  یعنی جو لوگ از خود شیطان کو اپنا رفیق بنالیں اور بجائے ایک خدا پر بھروسہ کرنے کے اس پر بھروسہ رکھیں۔ گویا اس کو خدائی کا شریک ٹھہرا لیں یا اس کے اغواء سے دوسری چیزوں کو خدا کا شریک مانیں، انہی پر شیطان کا پورا قبضہ اور تسلط ہے کہ جس طرح چاہتا ہے انگلیوں پر نچاتا ہے۔

۱۰۱ ۔۔۔  پہلے حکم دیا تھا کہ قرآن پڑھتے وقت شیطانِ رجیم کے کید سے پناہ ڈھونڈو۔ کہیں وہ اس بہترین کام میں رکاوٹ اور خرابی نہ ڈالے۔ یہاں اس کی بعض رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہیں جو قرآن کے متعلق پیدا کرتا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ پورا قرآن ایک مرتبہ تو نازل ہوا نہیں، موقع بموقع آیات نازل ہوتی تھیں۔ ان میں بعض وقتی احکام بھی آتے تھے۔ پھر دوسرے وقت حالات کے تبدیل ہونے پر دوسرا حکم آ جاتا تھا مثلاً ابتداء میں قتال سے ممانعت اور ہاتھ روکے رکھنے کا حکم تھا۔ ایک زمانہ کے بعد اجازت دی گئی۔ یا ابتداء میں حکم تھا۔ قُمِ اللَّیْلَ اِلاَّقَلِیْلاً نِّصْفَہٗ الخ تھوڑی مدت کے بعد مکہ ہی میں یہ آیات نازل ہوئیں۔"عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ فَتَابَ عَلَیْکُمْ فَاَقْرَءُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ" الخ کفار ایسی چیزوں کو سن کر اعتراض کرتے کہ یہ خدا کا کلام کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا خدا تعالیٰ نے (معاذ اللہ) پہلے بے خبری سے ایک بات کا حکم دے دیا تھا؟ پھر خبر ہوئی تو دوسرا حکم اتارا؟ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام آپ خود بنا لاتے ہیں۔ ورنہ خدا کے احکام ایسے نہیں ہو سکتے ایک دن کچھ دوسرے دن کچھ۔ اس طرح کے شبہات و وساوس ممکن تھا شیطان بعض مسلمانوں کے دلوں میں القا کرے۔ اس کا جواب دیتے ہیں کہ تمہارا یہ اعتراض محض جہالت سے ہے۔ تم کو اگر "نسخ" کی حقیقت معلوم ہوتی تو کبھی ایسا لفظ زبان سے نہ نکالتے "نسخ" کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ ایک میعادی حکم کی میعاد پوری ہونے پر دوسرا حکم بھیجا جائے۔ کیا طبیب منضج کا نسخہ دس بیس دن پلا کر اگر مسہل تجویز کرے تو اسے طبیب کی کم علمی یا بے خبری پر محمول کیا جا سکتا ہے؟ جو ایسا کہے وہ خود جاہل اور بے خبر کہلائے گا۔ حق تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ جس وقت جو حکم اتارا گیا یعنی جو روحانی غذا یا دوا تجویز کی گئی وہ کہاں تک مریضوں کے مزاج اور حالات کے مناسب ہے۔

۱۰۲ ۔۔۔  ۱: یعنی میرا یا کسی بشر کا بنایا ہوا کلام نہیں۔ یہ تو وہ کلام ہے جو بلاشبہ میرے رب نے روح القدس (پاک فرشتہ جبرائیل امین) کے ذریعہ سے عین حکمت و مصلحت کے موافق مجھ پر نازل فرمایا گویا "مِنْ رَّبِّکَ" کہہ کر متنبہ فرما دیا کہ اس کی نازل کرنے والی وہ ہستی ہے جس نے خود محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس قدر حیرت انگیز طریقہ سے ایسے اعلیٰ و اکمل اخلاق پر تربیت فرمائی جو تمہارے سامنے ہے۔ اور "روح القدس" کا واسطہ بیان فرما کر شاید اس طرف اشارہ کرنا ہو کہ جس کلام کا حامل "روح القدس" بنایا گیا، وہ روحانیت، پاکیزگی اور ملکوتی خصال کا پیکر ہونا چاہیے۔ چنانچہ دیکھ لو ان اوصاف میں اس شان کا کیا کوئی دوسرا کلام آسمان کے نیچے نظر آتا ہے۔

۲:  یعنی موقع بموقع اور بتدریج احکام و آیات کا نزول دیکھ کر ایمان والوں کے دل قوی اور اعتقاد پختہ ہوتے ہیں کہ ہمارا رب ہمارے ہر حال اور زندگی کے ہر ایک دور سے پورا خبردار ہے اور نہایت حکمت سے ہماری تربیت کرتا ہے۔ جیسے حالات پیش آئیں ان کے موافق ہدایت و راہنمائی کرتا اور ہر کام پر اس کے مناسب خوشخبری سناتا ہے۔

۱۰۳ ۔۔۔  ۱: مشرکین کا اعتراض یہ تھا کہ قرآن شریف نہ خدا کا کلام ہے، ورنہ نسخ اس میں نہ ہوتا اور نہ یہ آپ کا کلام ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آپ کا اُمی ہونا سب کو معلوم و مسلم تھا۔ ایک امی جس نے نہ کبھی کوئی کتاب چھوئی ہو نہ قلم ہاتھ میں پکڑا ہو، بلکہ باوجود اعلیٰ درجہ کے قریشی ہونے کے چالیس برس تک ایک شعر بھی زبان سے نہ کہا ہو، جس میں عرب کی چھوکریاں تک فطری سلیقہ اور ملکہ رکھتی تھیں۔ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ بدون تعلیم و تعلم کے دفعتاً ایسی کتاب بنا لائے جو اس قدر عجیب و غریب، علوم و حکم، موثر ہدایات اور کایا پلٹ کر دینے والے قوانین و احکام پر مشتمل ہو۔ ناگزیر کہنا پڑے گا کہ کوئی دوسرا شخص انہیں یہ باتیں سکھلاتا اور ایسا کلام بنا کر دے دیتا ہے۔ وہ شخص کون تھا جس کی بے اندازہ قابلیت سے قرآن جیسی کتاب تیار ہوئی اس کے نام میں اختلاف تھا جبر یسار عائش لعیش کئی عجمی غلاموں کے نام لیے گئے ہیں جن میں کوئی یہودی تھا کوئی نصرانی۔ بلکہ بعض کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ نصرانیت چھوڑ کر مذہب اسلام قبول کر چکے تھے۔ کہتے ہیں حضور گاہ بگاہ آتے جاتے ان میں سے کسی ایک کے پاس بیٹھتے تھے یا وہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کبھی حاضر ہوا کرتا تھا۔ مگر تعجب ہے اتنے بڑے قابل انسانوں کا تو نام بھی تاریخ نے پورے تیقن و تعین کے ساتھ یاد نہ رکھا۔ اور جو ان سے سیکھ کر محض نقل کر دیا کرتے تھے، دنیا ان کے قدموں پر گر پڑی ہے۔ حتیٰ کہ جنہوں نے ان کو نبی نہ مانا، دنیا کا سب سے بڑا مصلح اور کامل انسان ان کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ بہرحال مشرکین کے اس سفیہانہ اعتراض سے یہ ضرور ثابت ہو گیا کہ دعوائے بعثت سے پہلے آپ کا اُمی ہونا ان کے نزدیک ایسا مسلم تھا کہ قرآنی علوم و معارف کو آپ کی اُمیت مسلمہ سے تطبیق نہ دے سکتے تھے۔ اسی لیے کہنا پڑتا تھا کہ کوئی دوسرا شخص آپ کو یہ باتیں سکھلا جاتا ہے۔ بلاشبہ آپ سکھلائے ہوئے تھے، لیکن سکھلانے والا کوئی بشر نہ تھا۔ وہ رب قدیر تھا جس نے فرمایا "اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآن"

۲:  یعنی اگر قرآن کے علوم خارقہ اور دوسری وجوہِ اعجاز کو اپنی غباوت کی وجہ سے تم نہیں سمجھ سکتے تو اس کی زبان کی معجزانہ فصاحت و بلاغت کا ادراک تو کر سکتے ہو۔ جس کے متعلق بار بار چیلنج دیا جا چکا اور اعلان کیا جا چکا ہے کہ تمام جن و انس مل کر بھی اس کلام کا مثل پیش نہ کر سکیں گے۔ پھر جس کا مثل لانے سے عرب کے تمام فصحاء و بلغاء بلا استثناء احدے عاجز و درماندہ ہوں ایک گمنام عجمی بازاری غلام سے کیونکر امید کی جا سکتی ہے کہ ایسا کلام معجز تیار کر کے پیش کر دے۔ اگر تمام عرب میں کوئی شخص بالفرض ایسا کلام بنا سکتا تو وہ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہوتے۔ مگر قرآن کے سوا آپ کے دوسرے کلام کا ذخیرہ قرآن کے بیان کردہ موضوعات پر موجود ہے، جو باوجود انتہائی فصاحت کے کسی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورتِ قرآنی کی ہمسری نہیں کر سکتا۔

۱۰۴ ۔۔۔  یعنی کھلے دلائل کے باوجود جو شخص یہ ہی دل میں ٹھان لے کہ یقین نہیں کروں گا، خدا تعالیٰ بھی اس کو مقصد پر پہنچنے کی راہ نہیں دیتا۔ جتنا سمجھائیے کبھی نہ سمجھے گا۔ بد اعتقاد آدمی ہدایت سے محروم رہ کر آخر سخت سزا کا مستحق ہوتا ہے۔

۱۰۵ ۔۔۔   یعنی آپ کو کہتے ہیں "اِنَّمَا اَنْتَ مُفْتَرٍ" حالانکہ آپ کی امانت و راستبازی پہلے سے مسلم اور ہر ایک چال ڈھال سے ظاہر تھی۔ کیا جھوٹ بنانے والوں کا چہرہ اور طور و طریق ایسا ہوتا ہے؟ جھوٹ بنانا تو ان اشقیاء کا شیوہ ہے جو خدا کی باتیں سن کر اور اس کے نشانات دیکھ کر بھی یقین نہ کریں۔ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو گا کہ آدمی خدا کی باتوں کو جھوٹا کہے۔

۱۰۶ ۔۔۔ ایک تو وہ مجرم ہیں جو سینکڑوں دلائل و آیات سن کر بھی یقین نہ لائیں۔ مگر ان سے بڑھ کر مجرم وہ ہیں جو یقین لانے اور تسلیم کرنے کے بعد شیطانی شبہات و وساوس سے متاثر ہو کر صداقت سے منکر ہو جائیں۔ جیسا کہ عبد اللہ بن ابی سرح نے کیا تھا کہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا۔ العیاذ باللہ۔ ایسے لوگوں کی سزا آگے بیان فرمائی ہے۔ درمیان میں "اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ" الخ سے ایک ضروری استثناء کر دیا گیا۔ یعنی اگر کوئی مسلمان صدق دل سے برابر ایمان پر قائم ہے ایک لمحہ کے لیے بھی ایمانی روشنی اور قلبی طمانیت اس کے قلب سے جدا نہیں ہوئی صرف کسی خاص حالت میں بہت ہی سخت دباؤ اور زبردستی سے مجبور ہو کر شدید ترین خوف کے وقت گلو خلاصی کے لیے محض زبان سے منکر ہو جائے یعنی کوئی کلمہ اسلام کے خلاف نکال دے بشرطیکہ اس وقت بھی قلب میں کوئی تردد نہ ہو، بلکہ زبانی لفظ سے سخت کراہیت و نفرت ہو، ایسا شخص مرتد نہیں بلکہ مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔ ہاں اس سے بلند مقام وہ ہے کہ آدمی مرنا قبول کرے مگر منہ سے بھی ایسا لفظ نہ نکالے جیسا کہ حضرت بلال حضرت یاسر حضرت سمیہ، حضرت خبیب بن زید انصاری اور حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے واقعات تاریخوں میں موجود ہیں۔ بنظر اختصار ہم یہاں درج نہیں کر سکتے ابن کثیر میں دیکھ لیے جائیں۔

۱۰۷ ۔۔۔  یعنی ایسے منکروں کو جو حیاتِ دنیا ہی کو کعبہ مقصود ٹھہرا لیں، کامیابی کا راستہ کہاں ملتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جو کوئی ایمان سے پھرا ہے تو دنیا کی غرض کو، جان کے ڈر سے یا برادری کی خاطر سے یازر کے لالچ سے جس نے دنیا عزیز رکھی اس کو آخرت کہاں؟ اگر جان کے ڈر سے لفظ کہے تو چاہیے جب ڈر کا وقت جا چکے پھر توبہ و استغفار کر کے ثابت ہو جائے۔

۱۰۸ ۔۔۔  یعنی دنیا طلبی اور ہوا پرستی کے نشہ میں ایسے مست و بیہوش ہیں جن کے ہوش میں آنے کی کوئی امید نہیں۔ خدا کی دی ہوئی قوتیں انہوں نے سب بیکار کر دیں۔ آخر کانوں سے حق کی آواز سننے، آنکھوں سے حق کے نشان دیکھنے، اور دلوں سے حق بات سمجھنے اور سوچنے کی توفیق سلب ہو گئی۔ مہر کرنے کا مطلب پہلے سورہ بقرہ وغیرہ میں گزر چکا ہے۔

۱۰۹ ۔۔۔ یعنی جو لوگ اپنی بے اعتدالیوں اور غلط کاریوں سے خدا کی بخشی ہوئی قوتیں تباہ کر ڈالیں اور دنیا ہی کو قبلہ مقصود بنا لیں، ان سے بڑھ کر خراب انجام کس کا ہو گا۔

۱۱۰ ۔۔۔  مکہ میں بعضے لوگ کافروں کے ظلم سے بچل گئے تھے۔ یا صرف زبانی لفظ کفر کہہ لیا تھا۔ اس کے بعد جب ہجرت کی، جہاد کیا، اور بڑے استقلال و پامردی سے اسلام پر قائم رہے، اتنے کام ایمان کے کیے، وہ تقصیر بخشی گئی اور خدا کی مہربانی مبذول ہوئی ایک بزرگ تھے “عمار" ان کے باپ تھے "یاسر" اور ماں "سمیہ" دونوں ظلم اٹھاتے مر گئے، پر لفظ کفر نہ کہا۔ یہ مسلمانوں کا پہلا خون تھا جو خدا کی راہ میں گرا۔ بیٹے (عمار) نے خوفِ جان سے لفظ کہہ دیا، پھر روتے ہوئے حضرت کے پاس آئے۔ تب یہ آیتیں اتریں۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔

۱۱۱ ۔۔۔ ۱: یعنی ایک کی طرف سے دوسرا نہ بول سکے گا۔ ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، اولاد، احباب و اقارب کوئی کام نہ دے گا۔ ہر شخص اپنی فکر میں پڑا ہو گا کہ کس طرح خدا کے عذاب سے مخلصی حاصل کرے۔ طرح طرح کے جھوٹے سچے عذر برأت کے لیے تراشے گا جواب و سوال کر کے چاہے گا رستگاری حاصل کرے۔

۲: یعنی نیکی کے ثواب میں کمی نہ ہو گی اور بدی کی سزا استحقاق سے زائد نہ دی جائے گی۔

۱۱۲ ۔۔۔  ۱: یعنی نہ باہر سے دشمن کا کھٹکا نہ اندر سے کسی طرح کی فکر و تشویش۔ خوب امن چین سے زندگی گزرتی تھی۔

۲:  یعنی کھانے کے لیے غلے اور پھل وغیرہ کھنچے چلے آتے تھے ہر چیز کی افراط تھی، گھر بیٹھے دنیا کی نعمتیں ملتی تھیں۔

۳: اس بستی کے رہنے والوں نے خدا کے انعامات کی قدر نہ پہچانی، دنیا کے مزوں میں پڑ کر ایسے غافل اور بدمست ہوئے کہ منعم حقیقی کا دھیان بھی نہ آیا۔ بلکہ اس کے مقابلہ میں بغاوت کی ٹھان لی۔ آخر خدا تعالیٰ نے ان کی ناشکری اور کفرانِ نعمت کا مزہ چکھایا۔ یعنی امن چین کی جگہ خوف و ہراس نے اور فراخ روزی کی جگہ بھوک اور قحط کی مصیبت نے ان کو اس طرح گھیر لیا جیسے کپڑا پہننے والے کے بدن کو گھیر لیتا ہے۔ ایک دم کو بھوک اور ڈر ان سے جدا نہ ہوتا تھا۔

۱۱۳ ۔۔۔ ظاہری نعمتوں کے علاوہ جو اوپر مذکور ہوئیں ایک بڑی بھاری باطنی نعمت بھی ان کو دی گئی تھی، یعنی انہی کی قوم و نسب میں سے ایک رسول بھیجا گیا۔ جس کا اتباع کر کے وہ خدا کی خوشنودی کے بڑے اونچے مقامات حاصل کر سکتے تھے انہوں نے اتباع و تصدیق کی جگہ اس کی تکذیب و مخالفت پر کمر باندھ لی اور اس طرح پستی میں گرتے چلے گئے۔ آخر قدیم سنت اللہ کے موافق ظالموں اور گنہگاروں کو عذاب نے آ پکڑا پھر کسی کی کوئی تدبیر پیش نہ گئی۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ان آیات میں کسی معین بستی کا تذکرہ نہیں۔ محض بطور تمثیل کسی تباہ شدہ بستی کا لاعلی التعیین حوالہ دے کر یا ایک ایسی بستی کا وجود فرض کر کے کفار مکہ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ تم نے ایسا کیا تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہو سکتا ہے۔ کفران نعمت اور تکذیب و عداوت رسول کی سزا سے بے فکر نہ ہوں۔ بعض علماء کے نزدیک اس مثال میں بستی سے مراد مکہ معظمہ ہے جہاں ہر قسم کا امن چین تھا اور باوجود وادی غیر ذی زرع ہونے کے طرح طرح کے پھل اور میوے کھینچے چلے آتے تھے۔ اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّہُمْ حَرَماً اٰمِنًا یُّجْبٰ ی اِلَیْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْ ئٍ" (القصص، رکوع ۶، آیت ۵۷) اہل مکہ نے ان نعمتوں کی کچھ قدر نہ جانی۔ شرک و عصیان، بے حیائی اور اوہام پرستی میں منہمک ہو گئے۔ پھر خدا تعالیٰ نے سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں بھیجی۔ اس کے انکار و تکذیب میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ "اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَالْبَوَارِ" (ابراہیم، رکوع ۵، آیت ٢۸) آخر خدا تعالیٰ نے امن و اطمینان کے بجائے مسلمان مجاہدین کا خوف اور فراخ روزی کی جگہ سات سال کا قحط ان پر مسلط کر دیا۔ جس میں کتے اور مردار تک کھانے کی نوبت آ گئی۔ پھر "بدر" کے معرکہ میں غازیان اسلام کے ہاتھوں خدا کا عذاب ان پر ٹوٹ پڑا۔ ادھر تو یہ ہوا دوسری طرف جو لوگ ان ظالموں کے جور وستم سے تنگ آ کر گھر بار چھوڑ بھاگے تھے ان کو خدا نے بہتر ٹھکانہ دیا، دشمنوں کے خوف سے مامون و مصؤن بنایا، روزی کے دروازے کھول دیے، زبردست دشمنوں پر فتح عنایت کی، بلکہ اقلیموں کا بادشاہ اور متقیوں کا امام بنا دیا۔ شاید اسی لیے ان آیات میں مکہ والوں کا حال سنا کر اگلی آیت کُلُواْ مِمَّارَزَقَکُمُ اللّٰہُ" الخ میں مسلمانوں کو خطاب فرمایا ہے۔ کہ تم اس قسم کی حرکات سے بچتے رہنا جن کی بدولت مکہ والوں پر مصیبت ٹوٹی۔

۱۱۴ ۔۔۔یعنی جس کو خدا کی پرستش کا دعویٰ ہو اسے لائق ہے کہ خدا کی دی ہوئی حلال و طیب روزی سے تمتع کرے اور اس کا احسان مان کر شکر گزار بندہ بنے۔ حلال کو حرام نہ سمجھے اور نعمتوں سے منتفع ہوتے وقت منعم حقیقی کو نہ بھولے۔ بلکہ اس پر اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں پر ایمان لائے اور اسی کے احکام و ہدایت کی پابندی کرے۔

۱۱۵ ۔۔۔ اس آیت کی تفسیر سورہ " بقرہ " اور "انعام" وغیرہ میں گزر چکی وہاں دیکھ لی جائے، یہاں غرض یہ ہے کہ جس طرح پہلی آیت میں اشارہ تھا کہ حلال کو اپنے اوپر حرام نہ کرے، اس آیت میں تنبیہ کی گئی کہ حرام چیزوں کو حلال نہ ٹھہرائے۔ خلاصہ یہ کہ کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانا اسی کا حق ہے جس نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں۔ چنانچہ آئندہ آیات میں نہایت وضاحت سے یہ مضمون بیان ہوا ہے۔

۱۱۶ ۔۔۔  یعنی بدون کسی سند شرعی کے کسی چیز کے متعلق منہ اٹھا کر کہہ دینا کہ حلال ہے یا حرام بڑی سخت جسارت اور کذب و افتراء ہے۔ حلال و حرام تو وہ ہی ہو سکتا ہے جسے خدا تعالیٰ نے حلال یا حرام کہا ہو۔ اگر کوئی شخص محض اپنی رائے سے کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہراتا ہے اور خدا کی طرف اس کی نسبت کرتا ہے، جیسے مشرکین مکہ کرتے تھے، جس کا ذکر سورہ "انعام" میں گزر چکا وہ فی الحقیقت خدا پر بہتان باندھتا ہے۔ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ کبھی ایسا رویہ اختیار نہ کریں۔ جس چیز کو خدا نے حلال اور جس کو حرام کیا حرام سمجھیں۔ بدون ماخذ شرعی کے حلت و حرمت کا حکم نہ لگائیں۔

۱۱۷ ۔۔۔ یعنی مشرکین مکہ جو حضور کو معاذ اللہ مفتری کہتے تھے یاد رکھیں کہ وہ خود مفتری ہیں۔ از راہِ کذب و افتراء جس چیز کو چاہیں حلال یا حرام کہہ کر خدا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ان کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ یہ روش اختیار کر کے کسی بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے۔ تھوڑے دن اور دنیا کا مزہ اڑا لیں، پھر دائمی جیل خانہ تیار ہے۔

۱۱۸ ۔۔۔  سورہ "انعام" آیت "وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ وَّمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ شُحُوْمَہُمَا۔ الخ" کے فوائد میں اس کا بیان گزر چکا، ملاحظہ کر لیا جائے یہاں مقصد یہ ہے کہ جو چیز خدا تعالیٰ نے سب کے لیے یا کسی خاص قوم کے لیے معین وقت تک حرام کی ہے، عین حکمت ہے کسی بشر کو حق نہیں کہ اس میں تصرف کر کے حرام کو حلال یا حلال کو حرام بنائے۔

۱۱۹ ۔۔۔ ۱:  مثلاً حرام کو حلال یا حلال کو حرام بنایا۔ "نادانی سے" اس لیے فرمایا کہ خدا کی جو نافرمانی اور گناہ آدمی کرتا ہے خواہ جان بوجھ کر کرے، وہ فی الحقیقت نادان اور بے عقل بن کر کرتا ہے۔ اگر ذرا عقل سے کام لے اور گناہ کے بد نتائج کا تصور کرے تو ہرگز معصیت پر اقدام نہیں کر سکتا۔ سورہ "نساء" آیت "اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلیَ اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ السُّوْ ءَ بِجَہَالَۃٍ" الخ کے تحت میں جو اس کے متعلق لکھا گیا ہے اسے بھی ایک مرتبہ ملاحظہ کر لیا جائے۔

۲: یعنی کفریات سے توبہ کر کے مسلمان ہو جانے اور آئندہ کے لیے اپنی حالت درست کر لینے پر حق تعالیٰ تمام گذشتہ گناہ معاف فرما دیتا ہے خواہ کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں۔

باز آباز آہر آنچہ کر دی باز آگر کافرو گبرو بت پرستی باز آ

این درگہ ما، درگہ نومیدی نیست، صد بار اگر توبہ شکستی باز آ

۱۲۰ ۔۔۔۱:   مشرکین عرب کی شرکیات کا رد کر کے امام الموحدین ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ یاد دلاتے ہیں، کیونکہ عرب کے لوگ ان کی نسل سے تھے اور دین ابراہیمی پر ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ حالانکہ ملت ابراہیمی سے انہیں دور کی نسبت بھی نہ رہی تھی۔ انہیں بتلایا گیا کہ ابراہیم علیہ السلام موحدین کے امام، نیکی کے معلم، تمام دنیا کے مشرکین کے مقابلہ میں تن تنہا ایک امت عظیم کے برابر تھے جن کی ذاتِ واحد میں حق تعالیٰ نے وہ سب خوبیاں اور کمالات جمع کر دیے تھے جو کسی بڑے مجمع میں متفرق طور پر پائے جاتے ہیں۔

۲: لَیْسَ عَلیَ اللّٰہِ بِمُسْتَنْکَرٍ اَنْ یَّجْمَعَ الْعَالَمَ فِیْ وَاحِدٖ

۳:  ابراہیم خدا کا کامل مطیع و فرمانبردار بندہ تھا جو ہر طرف سے ٹوٹ کر ایک خدا کا ہو رہا تھا۔ ممکن نہ تھا کہ بدون حکم الٰہی کسی چیز کو محض اپنی طرف سے حلال یا حرام ٹھہرا دے۔ وہ خود تو معاذ اللہ شرک کا ارتکاب کہاں کر سکتا، مشرکین کی جماعت اور بستی میں رہنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ پھر جو لوگ آپ کو "حنیف" کہتے اور دین ابراہیمی پر بتاتے ہیں انہیں شرم کرنی چاہیے کہ خدا پر افتراء باندھ کر حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہنا اور شرک کی حمایت میں پیغمبروں سے لڑنا، کیا ایک "حنیف" اور ابراہیمی کی شان ہو سکتی ہے؟ یاد رکھو! حلال و حرام کے بیان اور اصول دین میں اصل ملت ابراہیمی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسی ملت کی اقامت و اشاعت اور بسط و تفصیل کے لیے تشریف لائے ہیں اگر اصلی دین ابراہیم پر چلنا چاہو تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ اختیار کرو۔

۱۲۱ ۔۔۔  ۱: یعنی ابراہیم خدا کا شکر گزار بندہ تھا۔ تم سخت ناسپاس اور کفران نعمت کرنے والے ہو جیسا کہ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً الخ کے فوائد میں لکھا جا چکا ہے۔ پھر اس کی راہ پر کیونکر ہوئے۔

۲:  یعنی توحید کامل اور تسلیم و رضا کی سیدھی راہ پر چلایا۔

۱۲۲ ۔۔۔ ۱:  یعنی نبوت، فراخِ روزی، اولاد، اور وجاہت و مقبولیت عامہ کہ تمام اہل ادیان بالاتفاق ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ اور ہر فرقہ چاہتا ہے کہ اپنا سلسلہ ابراہیم علیہ السلام سے ملائے۔

۲: یعنی اس نے اپنی حق میں جو دعا کی تھی۔ وَاَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ قبول ہوئی، بیشک وہ آخرت میں صالحین کے اعلیٰ طبقہ میں شامل ہوں گے۔ جو انبیاء علیہم السلام کا طبقہ ہے۔

۱۲۳ ۔۔۔ اس کا بیان سورہ "انعام" آیت "دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ" کے تحت میں گزر چکا وہاں ملاحظہ کیا جائے مقصد یہ ہے کہ حلال و حرام اور دین کی باتوں میں اصل ملت ابراہیم ہے۔ درمیان میں یہود و نصاریٰ کو ان کے حالات کے مناسب بعض مخصوص احکام دیے گئے۔ آخر آپ کو خاتم الانبیاء بنا کر بھیجا، تاکہ اصل ملت ابراہیمی کو جو غفلت اور تحریف و تصرف بیجا کی دستبرد سے ضائع ہو چکی تھی۔ از سر نو زندہ اور روشن کیا جائے، اور شرک کی تمام رگیں کاٹ دی جائیں حدیث میں ہے۔ "بُعِثْتُ بِالسَّمْحَۃِ الْحَنَفِیَّۃِ الْبَیْضَآء" اس کی پوری شرح و تفصیل حضرت شاہ ولی اللہ نے "حجۃ اللہ البالغہ" میں کی ہے جو قابل دید ہے۔

۱۲۴ ۔۔۔  یعنی اصل ملت ابراہیمی میں ہفتہ کا حکم نہ تھا، اس امت پر بھی نہیں ہے۔ البتہ درمیان میں "یہود" نے اپنے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کے ارشادات سے اختلاف کر کے جب اپنے لیے یہ دن انتخاب کیا تو حکم ہوا کہ اچھا اسی کی تعظیم کرو اور مچھلی کا شکار اس روز مت کرو! یہ حکم کسی نے مانا کسی نے نہ مانا۔ نہ ماننے والے دنیا میں بندر اور سور بنائے گئے اور آخرت میں جو فیصلہ ہو گا وہ الگ رہا۔ ایک اسی پر کیا منحصر ہے وہاں تو سارے اختلافات اور جھگڑے چکا دیے جائیں گے۔ مثلاً حضرت ابراہیم کی نسبت کوئی "یہودی" بتلاتا تھا کوئی "نصرانی" حالانکہ حق تعالیٰ نے آگاہ کر دیا کہ وہ "حنیف مسلم" تھے۔ بہرحال آخرت میں سب اختلافات کا فیصلہ ہو جائے گا اور ہر شخص آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ کون غلطی پر تھا کون راستی پر۔

۱۲۵ ۔۔۔ ۱:   اوپر کی آیتوں میں مخاطبین کو آگاہ کرنا تھا کہ یہ پیغمبر اصل ملت ابراہیمی لے کر آئے ہیں، اگر کامیابی چاہتے ہو اور "حنیف" ہونے کے دعوے میں سچے ہو تو اس راستہ پر چل پڑو۔ اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ الخ سے خود پیغمبر علیہ السلام کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ لوگوں کو راستہ پر کس طرح لانا چاہیے، اس کے تین طریقے بتلائے۔ حکمت، موعظت، حسنہ، جدال بالتی ہی احسن "حکمت" سے مراد یہ ہے کہ نہایت پختہ اور اٹل مضامین مضبوط دلائل و براہین کی روشنی میں حکیمانہ انداز سے پیش کیے جائیں۔ جن کو سن کر فہم و ادراک اور علمی ذوق رکھنے والا طبقہ گردن جھکا سکے۔ دنیا کے خیالی فلسفے ان کے سامنے ماند پڑ جائیں اور کسی قسم کی علمی و دماغی ترقیات وحی الٰہی کی بیان کردہ حقائق کا ایک شوشہ تبدیل نہ کر سکیں۔ "موعظت حسنہ" موثر اور رقت انگیز نصیحتوں سے عبارت ہے جن میں نرم خوئی اور دلسوزی کی روح بھری ہو۔ اخلاص، ہمدردی اور شفقت و حسن اخلاق سے خوبصورت اور معتدل پیرایہ میں جو نصیحت کی جاتی ہے، بسا اوقات پتھر کے دل بھی موم ہو جاتے ہیں، مردوں میں جانیں پڑ جاتی ہیں۔ ایک مایوس و پژمردہ قوم جھر جھری لے کر کھڑی ہو جاتی ہے، لوگ ترغیب و ترہیب کے مضامین سن کر منزل مقصود کی طرف بیتابانہ دوڑنے لگتے ہیں۔ اور بالخصوص جو زیادہ عالی دماغ اور ذکی و فہیم نہیں ہوتے، مگر طلب حق کی چنگاری سینے میں رکھتے ہیں، ان میں موثر وعظ و پند سے عمل کی ایسی اسٹیم بھری جا سکتی ہے جو بڑی اونچی عالمانہ تحقیقات کے ذریعہ سے ممکن نہیں۔ ہاں دنیا میں ہمیشہ سے ایک ایسی جماعت بھی موجود رہی ہے جن کا کام ہر چیز میں الجھنا اور بات بات میں حجتیں نکالنا اور کج بحثی کرنا ہے یہ لوگ نہ حکمت کی باتیں قبول کرتے ہیں نہ وعظ و نصیحت سنتے ہیں۔ بلکہ چاہتے ہیں کہ ہر مسئلہ میں بحث و مناظرہ کا بازار گرم ہو۔ بعض اوقات اہل فہم و انصاف اور طالبین حق کو بھی شبہات گھیر لیتے ہیں اور بدون بحث کے تسلی نہیں ہوتی اس لیے وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھیَ اَحْسَنُ فرما دیا کہ اگر ایسا موقع پیش آئے تو بہترین طریقہ سے تہذیب، شائستگی، حق شناسی اور انصاف کے ساتھ بحث کرو۔ اپنے حریف مقابل کو الزام دو تو بہترین اسلوب سے دو، خواہی نخواہی دل آزار اور جگر خراش باتیں مت کرو۔ جن سے قضیہ بڑھے اور معاملہ طول کھینچے، مقصود تفہیم اور احقاق حق ہونا چاہیے۔ خشونت، بد اخلاقی، سخن پروری اور ہٹ دھرمی سے کچھ نتیجہ نہیں۔

۲:  یعنی طریق دعوت و تبلیغ میں تم کو خدا کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا چاہیے۔ اس فکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کس نے مانا کس نے نہیں مانا۔ نتیجہ کو خدا کے سپرد کرو۔ وہ ہی راہ پر آنے والوں اور نہ آنے والوں کے حالات کو بہتر جانتا ہے جیسا مناسب ہو گا ان سے معاملہ کرے گا۔

۱۲۶ ۔۔۔  یعنی دعوت و تبلیغ کی راہ میں اگر تم کو سختیاں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں تو قدرت حاصل ہونے کے وقت برابر کا بدلہ لے سکتے ہو، اجازت ہے، لیکن صبر کا مقام اس سے بلند تر ہے۔ اگر صبر کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے حق میں اور دیکھنے والوں کے بلکہ خود زیادتی کرنے والوں کے حق میں بہتر ہو گا۔

۱۲۷ ۔۔۔ یعنی مظالم و شدائد پر صبر کرنا، سہل کام نہیں۔ خدا ہی مدد فرمائے تو ہو سکتا ہے کہ آدمی ظلم سہتا رہے اور اُف نہ کرے۔

۱۲۸ ۔۔۔  یعنی انسان جس قدر خدا سے ڈر کر تقویٰ، پرہیزگاری اور نیکی اختیار کرے گا، اسی قدر خدا کی امداد و اعانت اس کے ساتھ ہو گی۔ سو ایسے لوگوں کو کفار کے مکر و فریب سے تنگ دل اور غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں حق تعالیٰ اس عاجز ضعیف کو بھی متقین و محسنین کے ساتھ اپنے فضل و رحمت سے محشور فرمائے۔ تم سورۃ النحل بعونہ وتوفیقہ وللہ الحمد۔