حضرت مجاہد فرماتے ہیں “ضحا سے مراد روشنی ہے “ قتادہ فرماتے ہیں “پورا دن مراد ہے“ امام جریر فرماتے ہیں کہ ٹھیک بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کی اور دن کی قسم کھائی ہے اور چاند جبکہ اس کے پیچھے آئے یعنی سورج چھپ جائے اور چاند چمکنے لگے، ابن زید فرماتے ہیں کہ مہینہ کے پہلے پندرہ دن میں تو چاند سورج کے پیچھے رہتا ہے اور پچھلے پندرہ دنوں میں آگے ہوتا ہے، زید بن اسلم فرماتے ہیں مراد اس سے لیلۃ القدر ہے۔ پھر دن کی قسم کھائی جبکہ وہ منور ہو جائے یعنی سورج دن کو گھیر لے، بعض عربی دانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دن جبکہ اندھیرے کو روشن کر دے لیکن اگریوں کہا جاتا کہ پھیلاوٹ کو وہ جب چمکا دے تو اور اچھا ہوتا ہے تاکہ یغشاہا میں بھی یہ معنی ٹھی بیٹھتے، اسی لیے حضرت مجاہد فرماتے ہیں دن کی قسم جبکہ وہ اسے روشن کر دے، امام ابن جریر اس قوم کو پسند فرماتے ہیں کہ ان سب میں ضمیر ھاکا مرجع شمس ہے کیونکہ اسی کا ذکر چل رہا ہے، رات جبکہ اسے ڈھانپ لے یعنی سورج کو ڈھانپ لے اور چاروں طرف اندھیرا پھیل جائے، یزید بن ذی حمایہ کہتے ہیں کہ جب رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے میرے بندوں کو میری ایک بہت بڑی خلق نے چھپا لیا پس مخلوق رات سے ہیبت کرتی ہے حالانکہ اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ ہیبت کرنی چاہیے، (ابن ابی حاتم) پھر آسمان کی قسم کھاتا ہے یہاں جو ماہے یہ مصدیہ بھی ہو سکتا ہے، یعنی آسمان اور اس کی بناوٹ کی قسم، حضرت قتادہ کا قول یہی ہے اور یہ مامعنی میں من کے بھی ہو سکتا ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ آسمان کی قسم اور اس کے بنانے والے کی قسم، یعنی خود اللہ کی، مجاہد یہی فرماتے ہیں یہ دونوں معنی ایک دوسرے کو لازم ملزوم ہیں بنا کے معنی بلندی کے ہیں جیسے اور جگہ ہے والسماء بنینٰھا بایدٍالخ، یعنی آسمان کو ہم نے قوت کے ساتھ بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں ہم نے زمین کو بچھایا اور کیا ہی اچجا ہم بچھانے والے ہیں، اس طرح یہاں بھی فرمایا کہ زمین کی اور اس کی ہمواری کی اسے بچھانے، پھیلانے کی اس کی تقسیم کی، اس کی مخلوق کی قسم زیادہ مشہور قول اس کی تفسیر میں پھیلانے کا ہے، اہل لغت کے نزدیک بھی یہی معروف ہے، جوہری فرماتے ہیں طحو تہ مثل وحولۃ کے ہے اور اس کے معنی پھیلانے کے ہیں اکثر مفسرین کا یہی قول ہے پھر فرمایا نفس کی اور اسے ٹھیک ٹھاک بنانے کی قسم یعنی اسے پیدا کیا اور آنحالیکہ یہ ٹھیک ٹھاک اور فطرت پر قائم تھا جیسے اور جگہ ہے فاقم وجھک الخ، اپنے چہرے کو قائم رکھ دین حنیف کے لیے فطرت ہے، اللہ کی جس پر لوگوں کو بنایا اللہ کی خلق کی تبدیل نہیں، حدیث میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے چوپائے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کوئی ان میں کن کٹا نہ پاؤ گے (بخاری و مسلم) صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندے کو یکسوئی والے پیدا کئے ان کے پاس شیطان پہنچا اور دین سے ورغلالیا، پھر فرماتا ہے کہ اللہ نے اس کے لیے بدکارری و پرہیز گاری کو بیان کر دیا اور جو چیز اس کی قسمت میں تھی اس کی طرف اس کی رہبری ہوئی، ابن عباس فرماتے ہیں یعنی خیرو شر ظاہر کر دیا، ابن جریر میں ہے حضرت ابو الاسود فرماتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا ذرا بتاؤ تو لوگ جو کچھ اعمال کرتے ہیں اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں یہ کیا ان کے لیے اللہ کی جانب سے مقرر ہو چکی ہیں اور ان کی تقدیر میں لکھی جا چکی ہیں یا یہ خود آئندہ کے لیے اپنے طور پر کر رہے ہیں اس بنا پر کہ انبیاء کے پاس آ چکے اور اللہ کی حجت ان پر پوری ہوئی میں جواب میں کہا نہیں نہیں بلکہ یہ چیز پہلے سے فیصل شدہ ہے اور مقدر ہو چکی ہے حضرت عمران نے کہا پھر یہ طلم تو نہ ہو گا میں تو اسے سن کر کانپ اٹھا اور گھبرا کر کہاکہ ہر چیز کا خالق مالک وہی اللہ ہے تمام ملک اسی کے ہاتھ میں ہے اس کے افعال کی باز پرس کوئی نہیں کر سکتا وہ سب سے سوال کرسکتا ہے میرا یہ جواب سن کر حضرت عمران بہت خوش ہوئے اور کہا اللہ تجھے دسرتگی عنایت فرمائے میں نے تو یہ سوالات اسی لیے کئے تھے کہ امتحان ہو جائے، سنو ایک شخص مزینہ جھینہ قبیلے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہی سوال کیا جو میں نے پہلے تم سے کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی وہی جواب دیا جو تم نے دیا تو اس نے کہا پھر ہمارے اعمال سے کیا؟ آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ جس کسی کو اللہ تبارک وتعالیٰٰ نے جس منزل کے لیے پیدا کیا ہے اس سے ویسے ہی کام ہو کر رہیں گے اگر جنتی ہے تو اعمال جنت اور دوزخی لکھا گیا ہے تو ویسے ہی اعمال اس پر آسان ہوں گے سنو قرآن میں اس کی تصدیق موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ونفس وما سواھا فالھمھا فجورھا وتقوٰھایہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے، مسند احمد میں بھی ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور بامراد ہو ا، یعنی اطاعت رب میں لگا رہا نکنکمے اعمال رذیل اخلاق چھوڑ دئیے جیسے اور جگہ ہے قد افلح من تزکی وذکرا سم ربٖہ فصلی جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام دیا کیا پھر نماز پڑھی اس نے کامیابی پالی اور جس نے اپنے ضمیر کا ستیاناس کیا اور ہدایت سے ہٹا کر اسے برباد کیا، نافرمانیوں میں پڑگیا اطاعت الٰہ کو چھوڑ بیٹھا یہ ناکام اور نامراد ہوا۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جس کے نفس کو اللہ تعالیٰ نے پاک کیا اور بامراد ہوا اور جس کے نفس کو اللہ نے نیچے گرادیاوہ برباد، خائب اور خاسر رہا، عوفی اور علی بن ابو طلحہ حضرت ابن عباس سے یہی روایت کرتی ہیں ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت قد افلح من زکھا پڑھ کر فرمایا کہ جس نفس کو اللہ نے پاک کیا اس نے چھٹکارا پالیا لیکن اس حدیث میں ایک علت تو یہ ہے کہ جویبربن سعید متروک الحدیث ہے دوسری علت یہ ہے کہ ضحاک جو حضرت عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں ان کی ملاقات ثابت نہیں، طبرانی کی حدیث میں ہے کہ فالھمھا فجورھا وتقوٰھاپڑھ کر آپ نے یہ دعا پڑھی اللھم أت نفسی تقوٰھا انت ولیھاومولاھا وخیر من زکاھا ابن ابی حاتم کی حدیث میں یہ دعا یوں وارد ہوئی ہے اللھم أت نفسی تقوٰھا وزکھا انت خیر من زکاھا انت ولیھا ومولاھاکمسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رات کو ایک مرتبہ میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے بستر پر نہیں اندھیرے کی وجہ سے میں گھر میں اپنے ہاتھوں سے ٹٹولنے لگی تو یرے ہاتھ آپ پر پڑے آپ اس وقت سجدے میں تھے اور یہ دعا پڑھ رہے تھے رب اعط نفسی تقوٰھا وزکھا انت خیر من زکاھا انت ولیھا ومولاھاکیہ حدیث صرف مسھد احمد میں ہی ہے، مسلم شریف اور مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعامانگتے تھے اللھم انی اعو ذبک من العجز والکسل والھرم والجبن والبخل وعذاب القبر اللھم أت نفسی تقوھا وزکھا انت خیر من زکاھا انت ولیھا ومولاھا اللھم انی اوذبک من قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع وعلم لا ینفع ودعوۃ لا یستجاب لھا کیا اللہ میں عاجزی، بے چارگی، سستی تھکاوٹ بڑھاپے نامردی سے اور بخیلی اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ میرے دل کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اسے پاک کر دے تو ہی اسے بہتر پاک کرنے والا ہے توہی اس کا والی اور مولیٰ ہے، اے اللہ مجھے ایسے دل سے بچا جس میں تیرا ڈر نہ ہو اور ایسے نفس سے بچا جو آسودہ نہ ہو اور ایسے علم سے بچا جو نفع نہ دے اور ایسی دعا سے بچاجو قبول نہ کی جائے، راوی حدیث میں حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلعم نے ہمیں یہ دعا سکھائی اور ہم تمھیں سکھاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ ثمودیوں نے اپنی سرکشی، تکبر و تجبر کی بناء پر اپنے رسول کی تصدیق نہ کی۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں بطغواھا کا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے تکذیب کی لیکن پہلی بات ہی زیادہ اولیٰ ہے، حضرت مجاہد اور حضرت قتادہ نے بھی یہی بیان کیا ہے، اس سرکشی اور تکذیب کی شامت سے یہ اس قدر بدبخت ہو گئی کہ ان میں سے جو زیادہ بد شخص تھا وہ تیار ہو گیا اس کا نام قدار بن سالف تھا اسی نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں اسی کے بارے میں فرمان ہے فنادوا صاحبھم فتعاطی فعقر ثمودیوں کی آواز پر یہ آگیا اور اس نے اونٹنی کو مار ڈالا، یہ شخص اس قوم میں ذی عزت تھا شریف تھا ذی نسب تھا قوم کا رئیس اور سردار تھا۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں اس اونٹنی کا اور اس کے مار ڈالنے والے کا ذکر کیا اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جیسے ابو زمعہ تھا اسی جیسا یہ شخص بھی اپنی قوم میں شریف عزیز اور بڑا آدمی تھا، امام بخاری بھیاسے تفسیر میں اور امام مسلم جہنم کی صفت میں لائے ہیں اور سنن ترمذی سنن نسائی میں بھی یہ روایت تفسیر میں ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ میں تجھے دنیا بھر کے بدبخت ترین دو شخص بتاتا ہوں ایک تو احیم ثمود جس نے اونٹنی کو مار ڈالا اور دوسرا وہ شخص جو تیری پیشانی پر زخم لگائے گا یہاں تک کہ داحی خون سے تر بتر ہو جائے گی، اللہ کے رسول حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اے قوم اللہ کی اونٹنی کو برائی پہنچانے سے ڈرو، اس کے پانی پینے کے مقرر دن میں ظلم کر کے اسے پانی سے نہ روکو تمھاری اور اس کی باری مقرر ہے۔ لیکن ان بدبختوں نے پیغمبر کی نہ مانی جس گناہ کے باعث ان کے دل سخت ہو گئے اور پھر یہ صاف طور پر مقابلہ کر لیے تیار ہو گئے اور اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں، جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پتھر کی ایک چٹان سے پیدا کیا تھا جو حضرت صالح کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کی کامل نشانی تھی اللہ بھی ان پر غضبناک ہو گیا اور ہلاکت ڈال دی۔ اور سب پر ابر سے عذاب اترا یہاس لیے کہ احیم ثمود کے ہاتھ پر اس کی قوم کے چھوٹے بڑوں نے مرد عورت نے بیعت کر لی تھی اور سب کے مشورے سے اس نے اس اونٹنی کو کاٹا تھا اس لیے عذاب میں بھی سب پکڑے گئے ولا یخاف کو فلا یخافبھی پڑھا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی سزا کرے تو اسے یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا ؟ کہیں یہ بگڑ نہ بیٹھیں، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس بدکار، احیم نے اونٹنی کو مار تو ڈالا لیکن انجام سے نہ ڈرا، مگر پہلا قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم الحمد اللہ سورہ الشمس کی تفسیر ختم ہوئی۔