تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الشّمس

۲ ۔۔۔      یعنی سورج غروب ہونے کے بعد جب اس کی چاندنی پھیلے۔

۳ ۔۔۔  یعنی جب دن میں سورج پوری روشنی اور صفائی کے ساتھ جلوہ گر ہو۔

 ۴ ۔۔۔      یعنی جب رات کی تاریکی خوب چھا جائے اور سورج کی روشنی کا کچھ نشان دکھائی نہ دے۔

۵ ۔۔۔     یعنی جس شان و عظمت کا اس کو بنایا۔ اور بعض کے نزدیک "مابناھا" سے مراد اس کا بنانے والا ہے۔

۶ ۔۔۔       یعنی جس حکمت سے اس کو پھیلا کر مخلوق کی بود و باش کے قابل کیا۔ یہاں بھی بعض نے "وماطحٰھا"سے اس کا پھیلانے والا مراد لیا ہے۔

۷ ۔۔۔  کہ اعتدال مزاج کا اور حواس ظاہری و باطنی اور قوائے طبیعیہ حیوانیہ و نفسانیہ سب اس کو دیے اور نیکی بدی کے راستوں پر چلنے کی استعداد رکھی۔

۸ ۔۔۔      یعنی اول تو اجمالی طور پر عقلِ سلیم اور فطرت صحیحہ کے ذریعہ سے بھلائی میں فرق کرنے کی سمجھ دی۔ پھر تفصیلی طور پر انبیاء و  رسل کی زبانی کھول کھول کر بتلا دیا کہ یہ راستہ بدی کا اور یہ پرہیزگاری کا ہے۔ اس کے بعد قلب میں جو نیکی کا رجحان یا بدی کی طرف میلان ہو، ان دونوں کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ گو اِلقاءِ اول میں فرشتہ واسطہ ہوتا ہے۔ اور ثانی میں شیطان۔ پھر وہ رجحان و میلان کبھی بندہ کے قصد و اختیار سے مرتبہ عزم تک پہنچ کر صدور فعل کا ذریعہ بن جاتا ہے جس کا خالق اللہ اور سبب بندہ ہے۔ اسی کسبِ خیر و شر پر مجازات کا سلسلہ بطریق تسبیب قائم ہے۔ وھذٰا لمسئلہ من معضلات المسائل و تفصیلھا یطلب من مظانھا۔ ونریدان نفردلھا جزأا ان ساعدنا التوفیق واللّٰہ الموفق والمعین۔

۹  ۔۔۔   نفس کا سنوارنا اور پاک کرنا یہ ہے کہ قوت شہویہ اور قوت غضبیہ کو عقل کے تابع کرے اور عقل کو شریعت الٰہیہ کا تابعدار بنائے۔ تاکہ روح اور قلب دونوں تجلیِ الٰہی کی روشنی سے منور ہو جائیں ۔

۱۰ ۔۔۔      خاک میں ملا چھوڑنے سے یہ مراد ہے کہ نفس کی باگ یکسر شہوت و غضب کے ہاتھ میں دے دے۔ عقل و شرع سے کچھ سروکار نہ رکھے۔ گویا خواہش اور ہویٰ کا بندہ بن جائے۔ ایسا آدمی جانوروں سے بدتر اور ذلیل ہے۔ (تنبیہ) "قد افلح من زکھا وقد خاب من دسھا" جواب قسم ہے اور اس کو مناسبت قسموں سے یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی دن کا اجالا، اور رات کا اندھیرا، آسمان کی بلندی اور زمین کی پستی کو ایک دوسرے کے مقابل پیدا کیا اور نفس انسانی میں خیر و شر کی متقابل قوتیں رکھیں اور دونوں کو سمجھنے اور ان پر چلنے کی قدرت دی۔ اسی طرح متضاد و مختلف اعمال پر مختلف ثمرات و نتائج مرتب کرنا بھی اسی حکیم مطلق کا کام ہے خیر و شر اور ان دونوں کے مختلف آثار و نتائج کا عالم میں پایا جانا بھی حکمتِ تخلیق کے اعتبار سے ایسا ہی موزوں و مناسب ہے، جیسے اندھیرے اور اجالے کا وجود۔

۱۱ ۔۔۔    یعنی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا۔ یہ "وقد خاب من دسھا" کی ایک مثال عبرت کے لئے بیان فرما دی۔ سورہ اعراف وغیرہ میں یہ قصہ مفصل گزر چکا ہے۔

۱۲  ۔۔۔    یہ بد بخت قذاربن سالف تھا۔

۱۳ ۔۔۔      یعنی خبردار اس کو قتل نہ کرنا اور نہ اس کا پانی بند کرنا۔ پانی کا ذکر اس لئے فرمایا کہ بظاہر اسی سبب سے وہ اس کے قتل پر آمادہ ہوئے تھے۔ اور "اللہ کی اونٹنی "اس اعتبار سے کہا کہ اللہ نے اس کو حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کا ایک نشان بنایا تھا۔ اور اس کا احترام واجب کیا تھا۔ یہ قصہ پہلے "اعراف" وغیرہ میں گزر چکا۔

۱ ۴ ۔۔۔      حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ "ولاتمسوھا بسوء فیاخذکم عذاب الیم" (اس اونٹنی کو برائی سے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ سخت دردناک عذاب میں پھنس جاؤ گے) ان لوگوں نے اس بات کو جھوٹ سمجھا۔ پیغمبر کی تکذیب کی اور اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا۔ آخر وہی ہوا جو حضرت صالح علیہ السلام نے کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو مٹا کر برابر کر دیا۔

۱۵ ۔۔۔      یعنی جیسے بادشاہان دنیا کو کسی بڑی قوم یا جماعت کی سزا دہی کے بعد احتمال ہوتا ہے کہ کہیں ملک میں شورش برپا نہ ہو جائے، یا انتظام ملکی میں خلل نہ پڑے اللہ تعالیٰ کو ان چیزوں کا کوئی اندیشہ نہیں ہو سکتا۔ ایسی کون سی طاقت ہے جو سزا یافتہ مجرموں کا انتقام لینے کے لئے اس کا پیچھا کرے گی؟ العیاذباللہ۔