دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الشّمس

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

پہلی آیت میں اَلشّمْسُ (سورج) کی قسم کھائی گعٰ ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الشمس ہے۔

 

زمانہ نزول

 

 مکی ہے و مضمون اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور آپؐ کی مخالفت کا آغاز ہو چکا تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

 انسان کو سرکشی کے انجام بد سے آگاہ کرنا ہے اور اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ نفس کی پاکیزگی اور اس کی صحیح نشو و نما کامیابی کی ضمانت ہے بخلاف اس کے نفس کرتی ہیں اور سرکشی کا انجام ہلاکت ہ۔

 

نظم کلام

 

 آیت ۱ تا ۱۰ میں آفتاب و ماہتاب، شب و روز اور زمین و آسمان کی ان عظیم نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو اس کائنات کے خالق کے کمال قدرت و حکمت پر دلالت کرتی ہیں۔ مزید برآں نفس انسانی کی شہادت کو جزا و سزا کی تائید میں پیش کیا گیا ہے۔

 

آیت ۱۱ تا ۱۵  میں تاریخی شہادت پیش کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں قوم ثمود کا واقعہ مختصراً بیان کیا گیا ہے تاکہ ان کی سرکشی کا جو انجام ہوا اس سے لوگ عبرت حاصل کریں اور قرآن اور پیغمبر اسلام کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرنے سے باز رہیں۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسم(۱) ہے سورج اور اس کی روشنی کی (۲)

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور چاند کی جب کہ اس کے پیچھے آۓ(۳)

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دن کی جب اسے بے نقاب کرے (۴)

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور رات کی جب اس کو ڈھانک لے۔ (۵)

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آسمان کی اور اس ہستی کی جس نے اسے بنایا  (۶)

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور زمین کی اور اس ہستی کی جس نے اسے بچھایا

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نفس کی اور اس ہستی کی جس نے اسے درست بنایا(۷)

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کی بدی اور پرہیز گاری اس پر الہام کر دی(۸)

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً کامیاب ہوا وہ جس نے اس کا تزکیہ کیا (۹)

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا۔ (۱۰)

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے جھٹلایا (۱۱)۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب ان کا سب سے بڑا بد بخت اٹھ کھڑا ہوا (۱۲)

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو اللہ کے رسول(۱۳) نے ان لوگوں سے کہا کہ خبر دار اللہ کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے کی باری (سے تعرض نہ کرنا)(۱۴)

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر انہوں نے اس کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں (۱۵)۔ بالآخر اللہ نے ان کے گناہ کی پاداش میں ان پر عذاب نازل کیا اور ان کو (زمین کے) برابر کر دیا (۱۶)۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کو ان کے انجام سے کوئی اندیشہ نہیں (۱۷)

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسم کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جب سورج طلوع ہوتا ہے تو چار دانگ عالم میں روشنی پھیل جاتی ہے اور جوں جوں سورج چڑھنے لگتا ہے اس کی تمازت بڑھنے لگتی ہے۔ یہ کیفیت اس بات کی روشن دلیل ہے کہ سورج کی باگ ڈور اس کے خالق کے ہاتھ میں ہے کیونکہ وہ اس کے مقرر کردہ ، وقت ہی پر طلوع ہوتا اور اوپر چڑھتا ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اگر سورج کی ضیاء پاشیاں دن میں ہوتی ہیں تو چاند کی جلوہ آفرینیاں رات میں۔ سورج دن کا بادشاہ ہے تو چاند ، رات کی ملکہ چنانچہ وہ اپنی بزم رات ہی میں سجاتا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر چاند کو سورج کے پیچھے آنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ تعبیر اس لحاظ سےبھی صحیح ہے کہ چاند سورج ہی سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح چاند کا سورج کے تابع ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سورج کی طرح چاند کی باگ ڈور بھی اس کے خالق ہی کے ہاتھ میں ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورج کی ساری چمک دمک دن کے اوقات میں ہوتی ہے گویا وہ دن ہی ہے جو سورج کو بے نقاب کرتا ہے۔ اور سورج کی مجال نہیں کہ وہ وقت سے پہلے نمودار ہو۔

 

گو سورج کا طلوع زمین کی گردش کے  نتیجہ میں ہوتا ہے لیکن یہاں صورت واقعہ کا جغرافیائی یا فلکیاتی پہلو زیر بحث لانا مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود اس اہم حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ جو کیفیات دنیا پر طاری ہوتی ہیں وہ ایک باقاعدہ نظام کے تحت ظہور میں آتی ہیں۔ قدرت کے اس نظام میں ہر چیز حتی کہ سورج بھی جس سے یہ دنیا چمک اٹھتی ہے ایسی جکڑی ہوئی ہے کہ کسی کے لیے سرمو انحراف کی گنجائش نہیں ورنہ عالم کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاۓ۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔زمین کے جس حصہ پر رات طاری ہوتی ہے وہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا رات نے آ کر سورج کو ڈھانک لیا ہے۔ یہ انداز بیان مشاہدہ کے اعتبار سے اختیار کیا جاتا ہے۔ یہاں کہنے کا منشاء یہ ہے کہ دنیا کے جس حصہ پر رات طاری ہوتی ہے وہاں سورج نمودار نہیں ہو سکتا۔ بہ الفاظ دیگر وہ رات کے وقت اپنا چہرہ چھپانے کے لیے مجبور ہے اور اس کی یہ مجبوری اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس قانون کی پابندی سے سر مو تجاوز نہیں کر سکتا جو اس کے خالق نے اس کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ اس سے ضمناً نظریہ الحاد کی بھی تردید ہوتی ہے اور مشرکانہ عقیدہ کی بھی کیونکہ اگر سورج اتفاقی حادثہ کے طور پر وجود میں آگیا ہوتا تو وہ ایک محکم نظام کا پابند نہیں ہو سکتا تھا اور اگر وہ دیوتا ہوتا تو قانون قدرت میں جکڑ کر نہیں رہتا، اور رات کے بس کی بات نہیں تھی کہ اس کے چہرہ کو چھپا لیتی بلکہ وہ اپنے زور پر رات کو بھی نمودار ہوتا۔ مگر اس پورے نظام شمسی میں جو جکڑ بندیاں پائی جاتی ہیں وہ سوریہ دیوتا کے مشرکانہ تصور کی سراسر نفی کرتی ہیں۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔آسمان کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی عظیم الشان بناوٹ اور اس کی بلندی انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اس کی چوٹی بھی اس کے خالق ہی کے ہاتھ میں ہے۔

 

’’ اس ہستی کی قسم جس نے اسے بنایا‘‘ سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ آسمان کا خالق ایک قادر مطلق ہستی ہ اور اس کا وجود ایک ایسی حقیقت ہے جو شبہہ سے بالاتر ہے۔ قسم جہاں شہادت کے مفہوم میں آتی ہے وہاں وہ کسی بات کے محقق ، اور یقینی ہونے کے پہلو کو واضح کرنے کے لیے بھی آتی ہے چنانچہ یہاں اور بعد کی دو آیتوں میں ’’ اس ہستی کی قسم‘‘ جو کھائی گئی ہے وہ اسی مفہوم میں ہے یعنی یہ قسم بطور تاکید کے ہے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔نفس کو درست بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کو سیدھی فطرت پر پیدا کیا اور اس میں اعلیٰ صلاحیتیں ودیعت فرمائیں۔ اسے پیدائشی گنہگار نہیں بنایا اور نہ اسے جبلی طور پر مفسد اور شر پسند بنایا کہ خدا سے سر کشی کرنے اور شیطانی خصلتیں اختیار کرنے پر مجبور ہو اس نے اسے صحیح الفطرت بنایا ہے اور اس کے باطن میں فساد کا کوئی عنصر نہیں رکھا کہ وہ راہ راست کو اختیار کرنا چاہے اور نہ کر سکے اور گمراہی کو اختیار کرنے پر مجبور ہو۔ اس حقیقت کو قرآن نے دوسری جگہ کھول کر بیان فرمایا ہے۔

 

فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا (سورہ روم۔۳) ’’اللہ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا :’’

 

اور اس کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث میں اس طرح فرمائی ہے :

 

مامن مولود الا یلد علی الفطرۃ۔ فابَوَاہ یہوّد انہ و ینصّر انہ و یشرّ کانِہٖ (مسلم کتاب القدر) ’’ کوئی بچہ ایسا نہیں جو فطرت پر پیدا نہ ہوتا ہو۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی ، نصرانی یا مشرک بنا دیتے ہیں ‘‘۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی وہ بدی کا شعور عطاء کیا ہے جس کی بنا پر وہ خیر و شر میں امتیاز کرتا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ کام اچھے ہیں اور وہ کام برے۔ چنانچہ انسان جھوٹ ، ظلم و زیادتی اور بے حیائی کو فطرۃً برا سمجھتا ہے اور اس قسم کے اخلاق و اعمال سے نفرت کرتا ہے اور سچائی انصاف، انسانی ہمدردی اور شرم و حیا کی پاسداری کو اچھا سمجھتا ہے اور اس قسم کے اخلاق و اعمال کو پسند کرتا ہے۔ یہ شعور در حقیقت فطرت کی رہنمائی ہے اور یہ رہنمائی اللہ تعالیٰ ہی نے ہر نفس کے اندر ودیعت فرمائی ہے جسے یہاں الہام سے تعبیر کیا گیا ہے۔

 

یہ شعور انسان کے اپنے نفس کی شہادت ہے کہ وہ اخلاقی وجود رکھنے والی ذمہ دار مخلوق ہے اور جب اس کی حیثیت یہ ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے سلسلہ میں اپنے رب کے حضور جواب دہ قرار پاۓ اور اس کے عمل کے نتائج اس کے سامنے آئیں۔ نفس کی اس شہادت کو تسلیم نہ کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ انسان کی فطرت غلط، اس کا شعور باطل اور اس کا وجود عبث ہے لیکن یہ بات کوئی شخص بھی کہنے کے لیے تیار نہیں ہے مگر کروڑ ہا انسان پھر بھی اپنے نفس کی شہادت کے خلاف زندگی گزارتے ہیں اور اس خام خیالی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ من مانی کرنے کے لیے آزاد ہیں اور اس کے نتائج کا کبھی انہیں سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔

 

واضح رہے کہ بد کرداری اور پرہیز گاری کا یہ الہام ایک درجہ میں اللہ تعالیٰ کی رہنمائی ہے رہی مکمل رہنمائی تو اس کا سامان اللہ تعالیٰ نے آسمانی ہدایت کے ذریعہ کیا ہے۔ یہ آسمانی ہدایت۔ جو اب قرآن کی شکل میں موجود ہے۔ اس فطری شعور کو جو انسان کے نفس میں ودیعت ہوا ہے پختہ کرتی اور جلا بخشتی ہے۔ اور یہاں سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جن لوگوں تک آسمانی ہدایت نہ پہنچی ہو وہ بھی اپنے فطری شعور کی حد تک اپنے اچھے اور برے اعمال کے ضرور ذمہ دار ہیں اور اس سلسلہ میں انہیں بھی خدا کے حضور جواب دہی کرنا ہوگی۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔متن میں لفظ زَکّٰہَا استعمال ہوا ہے جو تزکیہ سے ہے اور جس کے معنی پاک کرنے اور نشو نما دینے کے ہیں۔ اوپر کی آیت میں نفس پر فجور اور تقویٰ کے الہام کیے جانے کا جو ذکر ہوا ہے اس سے تزکیہ نفس کا مفہوم بھی واضح ہوتا ہے یعنی نفس کو فجور (برائیوں) سے پاک کرنا اور تقویٰ (خدا خوفی اور پرہیز گاری کی باتوں) سے اس کو نشو نما دینا۔ بالفاظ دیگر اس کی اس طرح تربیت یا پرورش کرنا کہ اس میں خیر ابھرے اور نیکیاں پروان چڑھیں۔

 

نفس کا حقیقی ارتقاء اور روح کی بالیدگی اسی وصف کے پیدا کرنے میں ہے۔ اس حقیقت کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک پودا اسی صورت میں نشو نما پاتا ہے جب کہ اسے سازگار ماحول مل جاۓ اور اس کی آبپاری کی جاتی رہے ورنہ تیز ہوا کا ایک جھونکا ہی اس کو خاک میں ملا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

 

اس سورہ میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس سے تزکیہ نفس کا جو اہم ترین پہلو نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ آدمی سب سے پہلے اپنے آپ کو کفر اور سرکشی سے پاک کر لے اور ہدایت خداوندی کو قبول کر کے اپنے کو اطاعت کی راہ پر ڈال دے۔ یہ اطاعت کی راہ شریعت کی راہ ہے جس پر چل کر آدمی نیک کردار اور صالح بن جاتا ہے۔

 

یہ ہے تزکیہ نفس کا صف، سیدھا سادہ اور قرآنی مفہوم۔ اس میں نہ کوئی اشکال ہے اور نہ ابہام اور اس کے لیے نہ کسی فلسفیانہ بحث کی ضرورت ہے اور نہ غیر ضروری باتوں میں الجھنے کی۔ قرآن نے تزکیہ نفس کے لیے جو بہترین اور نہایت مؤثر نسخہ تجویز کیا ہے وہ ہے خدا کی اعلیٰ و اکمل شریعت جس پر نہ ’’طریقت ‘‘ کے اضافہ کی ضرورت ہے اور نہ ریاضتوں کی۔ نہ مراقبوں کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے اور نہ سلوک کی منزلوں سے گزرنے کی بلکہ ایمان و یقین اور خلوص و لِلہیّت کے ساتھ شریعت پرکار بند ہو جاتا کافی ہے۔

 

تزکیہ نفس کے اس صحیح طریقہ کی طرف رہنمائی کر کے قرآن نے انسان کو ان تمام غیر فطری اور بوجھل طور طریقوں سے نجات دلائی ہے جو مذاہب کے پرستاروں نے روح اور آتما کو پاک کرنے (Purification) کے لیے ایجاد کر کے رکھے ہیں مثلاً ، یوگا، تپسیا، نفس کشی، رہبانیت وغیرہ۔

 

اور اس سلسلہ کی آخری بات یہ ہے کہ تزکیہ نفس کا کام اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کی تعلیم دی ہے کہ :

 

اللّھُمَّ  آتِ نَفْسِیْ تَقْوا ھَا ، وَزَکّھَا اءَنْتَ خَیْرُمَنْ زَکّٰھَا۔ اَنْتَ وَلِیُّھَا وَمَوْ لَآ ھَا۔ (مسلم ، کتاب الذکر)

 

’’خدایا میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطاء فرما اور اس کا تزکیہ کر کہ تو بہترین تزکیہ کرنے والا ہے اور اس کا سرپرست اور مدد گار ہے۔ ‘‘

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی بجاۓ اس کے کہ تقویٰ اختیار کر کے نفس کا تزکیہ کرتا اس نے فجور(بدی ) کی راہ اختیار کر کے نفس کو برائیوں اور گناہوں سے آلودہ کر دیا۔ اس طرح نیکی کے رجحانات کو دبانے اور بدی کے رجحانات کو اپنے اوپر غالب کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ نفس کا یہ غنچہ جو کھل کر پھول بن سکتا تھا اور جس کی مہک اس کے پورے وجود کو مہکا سکتی تھی دب کر اندر ہی اندر مُرجھا گیا اور بقول کَسے۔۔ ؏

 

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مُرجھا گۓ

 

آیت ۱ تا ۷ میں جو قسمیں کھائی گئی ہیں اور اس کے بعد جو دعویٰ پیش کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے سورج سے لے کر نفس انسانی تک سب کی باگ ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ان سب چیزوں کا وجود اور ان سے پیدا ہونے والی کیفیات زبان حال سے اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ ان کا خالق زبردست قدرت کا مالک اور بڑا حکیم و دانا ہے اور جب اس کی قدرت کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں اور اس کی حکمت نے انسان کو ایک باشعور اور نیکی و بدی میں تمیز کرنے والی مخلوق بنا کر اٹھایا ہے تو اس کے لیے صحیح رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرے اور اس احساس کے ساتھ ذمہ دارانہ زندگی گزارے کہ اسے اپنے رب کے حضور جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے اور پھر اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا پانا ہے۔ قرآن اسی حقیقت پر انسان کی نگاہوں کو مرکوز کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارے اور جب دنیا کے اس امتحان گاہ سے لوٹے تو کامیابی کی منزل اس سامنے ہو۔

 

اس حقیقت کی تائید اگرچہ کہ زمین سے لے کر آسمان تک ہر چیز سے ہو رہی ہے اور خود نفس انسانی کی بھی شہادت یہی ہے تا ہم انسان مشکل ہی سے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوتا ہ۔ وہ خدائی ہدایت سے بے نیاز رہنا چاہتا ہے اس لیے وہ نافرمانی اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کے اندر غیر ذمہ دارانہ پن پیدا ہو جاتا ہے اور پھر وہ نیکی و بدی میں کوئی تمیز نہیں کر پاتا۔

 

یہ نہایت ہی اہم اور وسیع مضمون ہے جو اوپر کی آیات کے اندر سمو دیا گیا ہے۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر جو دعویٰ پیش کیا گیا اس کی تائید میں یہ تاریخی شہادت پیش کی جا رہی ہے کہ سرکشی کا کیسا عبرتناک انجام دنیا کے سامنے آتا رہا ہے۔

 

قوم ثمود کا واقعہ قرآن میں متعدد مقامات پر تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس سورہ میں اس کا ذکر مختصراً کیا گیا ہے۔ جھٹلانے سے مراد پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلانا ہے جو ان کی ہدایت کے لیے بھیجے گۓ تھے۔ ثمود کے مسکن وغیرہ کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو : سورہ فجر نوٹ ۱۳۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بد بخت قوم ثمود کا سردار تھا اور اس کا نام قدار تھا۔ چنانچہ عرب جاہلیت کے اشعار میں اس کا ذکر ملتا ہے۔

 

اس کو سب سے بڑا بد بخت اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ نہایت سرکش تھا اور اس نے اپنی قوم کو گمراہ کر کے سرکشی کی بہت بڑی مثال قائم کی اور نتیجۃً خود بھی تباہ ہوا اور قوم کو بھی تباہی کے گھاٹ اتار دیا۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرد حضرت صالح علیہ السلام ہیں جو اس قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گۓ تھے۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔قوم ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر واقعی وہ خدا کے رسول ہیں تو کوئی معجزہ (نشانی) پیش کریں۔ ان کے اس مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے اونٹنی کو معجزہ کے طور پر پیش کر دیا۔ چونکہ یہ اونٹنی معجزہ کے طور پر پیش کی گئی تھی اس لیے اسے ’’ناقۃ اللہ‘‘ اللہ کی اونٹنی کہا گیا۔

 

اس معجزہ نے جہاں ان کا مطالبہ پورا کر دیا وہاں ان کو آزمائش میں بھی ڈال دیا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت صالح نے کہا ایک دن اس کے پانی پینے کے  لیے مخصوص ہوگا اور دوسرا دن تمہارے لیے اور  تمہارے جانوروں کے پانی پینے کے لیے ہوگا اور متنبہ کیا کہ اونٹنی کو گزند نہ پہنچانا ورنہ اللہ کا عذاب تمہیں آ لے گا۔ لیکن قوم نے اپنے سرکش سردار کو اس بات پر اکسایا کہ وہ اس اونٹنی کا قصہ تمام کر دے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔اونٹ کو جب مارنا ہوتا تو اس کی کوچیں کاٹ ڈالی جاتی تھیں جس کے بعد وہ مر جاتا تھا۔ یہی طریقہ ثمود کے لوگوں نے اللہ کی اونٹنی کو مارنے کے لیے اختیار کیا اور اس غرض کے لیے سب نے مل کر اپنے بد ترین سردار کو آگے کیا تھا اس لیے پوری قوم اس کی مجرم قرار پائی۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کو دنیا کے حکمرانوں پر قیاس نہ کرو جو کسی مجرم گروہ کو سزا دیتے وقت اندیشہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اور اس سے کہیں ان کا اقتدار تو خطرہ میں نہیں پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کا اقتدار سب سے بالا تر ہے اور وہ سب پر غالب ہے اس لیے جب وہ کسی قوم کو سزا دینا چاہتا ہے تو اسے کسی قسم کا اندیشہ لاحق نہیں ہوتا۔

٭٭٭٭٭