تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الطّارق

مسند احمد میں ہے کہ خالد بن ابو حبل عدوانی نے ثقیف قبیلے کی مشرق کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لکڑی پر یا کمان پر ٹیک لگائے ہوئے اس پوری سورت کو پڑھتے سنا جبکہ آپ ان لوگوں سے مدد طلب کرنے کے لیے یہاں آئے تھے حضرت خالد نے اسے یاد کر لیا جب یہ ثقیف کے پاس واپس آئے تو ثقیف نے ان سے پوچھا یہ کیا کہہ رہے ہیں یہ بھی اس وقت مشرک تھے انہوں نے بیان کیا تو جتنے قریش وہاں تھے جلدی سے بول پڑے کہ اگر یہ حق ہوتا تو کیا اب تک ہم نہ مان لیتے، نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مغرب کی نماز میں سورہ بقرہ یا سورہ نساء پڑھی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے معاذ کیا تو فتنے میں ڈالنے والا ہے؟ کیا تجھے یہ کافی نہ تھا کہ والسمآء والطارق اور والشمس وضحھا اور ایسی ہی اور سورتیں پڑھ لیتا۔

 

۱

تخلیق انسان

اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور ان کے روشن ستاروں کی قسم کھاتا ہے طارق کی تفسیر چمکتے ستارے سے کی ہے وجہ یہ ہے کہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہو جاتے ہیں ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے گھر رات کے وقت بے خبر آ جائے یہاں بھی لفظ طروق ہے، آپ کی ایک دعا میں بھی طارق کا لفظ آیا ہے ثاقب کہتے ہیں چمکیلے اور روشنی والے کو جو شیطان پر گرتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ہر شخص پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہے جواسے آفات سے بچاتا ہے جیسے اور جگہ ہے کہ لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلیفہ یحفظونہ من امر اللّٰہ یعنی آگے پیچھے سے باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے بندے کی حفاظت کرتے ہیں انسان کی ضعیفی کا بیان ہو رہا ہے کہ دیکھو تو اس کی اصل کیا ہے اور گویا اس میں نہایت باریکی کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا گیا ہے کہ جوا بتدائی پیدائش پر قادر ہے وہ لوٹانے پر قادر کیوں نہ ہو گا جیسے فرمایا ھو الذی یبدوا الخلق ثم یعیدہ وھوا اھوان علیہ یعنی جس نے پہلے پیدا کیا وہ ہی دوبارہ لوٹائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے انسان اچھلنے والے پانی یعنی عورت مرد کی منی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ سے اور عورت کی چھاتی سے نکلتی ہے عورت کا یہ پانی زرد رنگ کا اور پتلا ہوتا ہے اور دونوں سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تریبہ کہتے ہیں ہار کی جگہ کو کندھوں سے لے کر سینے تک کو بھی کہا گیا ہے اور نرخرے سے نیچے کو بھی کہا گیا ہے اور چھاتیوں سے اوپر کے حصہ کو بھی کہا گیا ہے اور نیچے کی طرف چار پسلیوں کو بھی کہا گیا ہے اور دونوں چھاتیوں اور دونوں پیروں اور دونوں آنکھوں کے درمیان کو بھی کہا گیا ہے دل کے نچوڑ کو بھی کہا گیا ہے سینہ اور پیٹھ کے درمیان کو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے یعنی نکلے ہوئے پانی کو اس کی جگہ واپس پہنچا دینے پر اور یہ مطلب کہ اسے دوبارہ پیدا کر کے آخرت کی طرف لوٹانے پر بھی پچھلا قول ہی اچھا ہے اور یہ دلیل کئی مرتبہ بیان ہو چکی ہے پھر فرمایا کہ قیامت کے دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی راز ظاہر ہو جائیں گے بھید آشکار ہو جائیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں ہر غدار کی رانوں کے درمیان اس کے غدار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان ہو جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے اس دن نہ تو خود انسان کو کوئی قوت حاصل ہو گی نہ اس کا مددگار کوئی اور کھڑا ہو گا یعنی نہ تو خود اپنے آپ کو عذابوں سے بچا سکے گا نہ کوئی اور ہو گا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔

 

۱۱

صداقت قرآن کا ذکر

رجع کے معنی بارش، بارش والے بادل، برسنے، ہر سال بندوں کی روزی لوٹانے جس کے بغیر انسان اور ان کے جانور ہلاک ہو جائیں سورج چاند اور ستاروں کے ادھر ادھر لوٹنے کے مروی ہیں زمین پھٹتی ہے تو دانے گھاس اور چارہ نکلتا ہے یہ قرآن حق ہے عدل کا مظہر ہے یہ کوئی عذر قصہ باتیں نہیں کافر اسے جھٹلاتے ہیں اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکت ہیں طرح طرح کے مکرو فریب سے لوگوں کو قرآن کے خلاف اکساتے ہیں اے نبی تو انہیں ذرا سی ڈھیل دے پھر عنقریب دیکھ لے گا کہ کیسے کیسے بدترین عذابوں میں پکڑے جاتے ہیں جیسے اور جگہ ہے نمتعھم قلیلا ثم نضطرھم الیٰ عذاب غلیظ یعنی ہم انہیں کچھ یونہی سا فائدہ دیں گے پھر نہایت سخت عذاب کی طرف انہیں بے بس کر دیں گے الحمد اللہ سورہ طارق کی تفسیر ختم ہوئی۔