دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الطّارق

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آیت ۱ میں الطارق (رات میں نمودار ہونے والے ستاروں ) کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الطارق رکھا گیا ہے۔

 

زمانہ نزول

 

سورہ مکی ہے اور اس وقت کی نازل شدہ ہے جب کہ اہل مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پہنچ چکی تھی مگر وہ اس کو مذاق قرار دے کر اس کے خلاف چالیں چلنے لگے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

محاسبہ کے لیے انسانکا دو بارہ پیدا کیا جانا ہے۔

 

نظم کلام

 

 آیت ۱ تا ۴ میں آسمان اور ستاروں کی شہادت اس بات پر کہ ہر شخص کی نگرانی ہو رہی ہے اور ایک روز آنا ہے جب کہ اسے حساب کے لیے طلب کیا جاۓ گا۔

 

آیت ۵ تا ۸ انسان کی خلقت سے اس کے دوبارہ پیدا کیے جانے پر استدلال۔

 

آیت ۹۔۱۰ میں اس حقیقت کا اظہار کہ اس دن سارے راز پرکھے جائیں گے اور انسان بالکل بے بس ہوگا۔ اسے کہیں سے کوئی مدد مل نہ سکے گی۔

 

آیت ۱۱ تا ۱۴ میں آسمان و زمین کی شہادت اس بات پر پیش کی گئی ہے کہ قرآن یوم جزا کی جو خبر دے رہا ہے وہ ایک فیصل شدہ اور قطعی بات ہے۔

 

 

آیت ۱۵ تا ۱۷ میں خاتمہ کلام ہے جس میں کفار کو متنبہ کرتے ہوۓ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کی چالیں الٹی پڑیں گی البتہ انہیں تھوڑی مہلت دے دو۔ ان کا انجام بس سامنے آنے ہی کو ہے۔ 

ترجمہ

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ۱*  ہے آسمان ۲*  کی اور رات میں نمودار ہونے والے کی

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ رات میں نمودار ہونے والا کیا ہے  ۳*  ؟

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دمکتا ستارہ  ۴* ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی شخص ایسا نہیں جس پر ایک نگہبان نہ ہو  ۵*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان ذرا غور کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ۶*  

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھلتے پانی سے  ۷*  

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ریڑھ اور پسلیوں کے درمان سے نکلتا ہے ۸*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یقیناً وہ (اللہ)  اس کے لوٹانے  ۹*  پر قادر ہے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن چھپی باتیں پرکھی جائیں گی  ۱۰* ۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت اس کے پاس نہ کوئی قوت ہوگی ور نہ کوئی اس کا مدد گر ہوگا ۱۱*۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ہے آسمان کی جو بارش برساتا ہے ۱۲*

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین کی جو پھٹ جاتی ہے  ۱۳*

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ ایک طے شدہ بات ہے  ۱۴*  

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہنسی مذاق نہیں  ۱۵*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ ایک تدبیر کر رہے ہیں  ۱۶*

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں بھی ایک تدبیر کر رہا ہوں ۱۷*

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان کافروں کو مہلت دو۔ بس تھوڑی مہلت ۱۸*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انشقاق نوٹ ۱۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوال ’’رات نمودار ہونے والے ‘‘ کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ یعنی رات میں نمودار ہونے والی چیز ایسی نہیں ہے کہ اس پر اسے یونہی گزر جاؤ بلکہ وہ تمہیں دعوت فکر دیتی ہے لہٰذا اس پر سنجیدگی سے غور کرو اور اس غور و فکر کا مقصد خالق کائنات کی معرفت حاصل کرنا ہو نہ کہ محض ’’معلومات ‘‘ میں اضافہ کرنا۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ النجم الثاقب(دمکتا ستارہ) سے مراد کوئی خاص ستارہ نہیں ہے بلکہ یہ ستاروں کی جنس کے  مفہوم میں ہے۔ یعنی وہ تمام ستارے جو خوب روشن اور درخشاں نظر آتے ہیں اور جن کو ہر شخص کھلی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔

 

آسمان میں بکھرے ہوۓ تارے اس کثرت سے ہیں کہ ان کی صحیح تعداد معلوم کرنے سے موجودہ علم فلکیات (Astronomy) بھی باوجود اپنی تمام تر سائنسی ترقیوں کے قاصر ہے۔ جدید ماہرین فلکیات کے اندازہ کے مطابق جس کہکشاں میں ہماری زمین واقع ہے اس میں کوئی ایک بلین (One Billion)  ستارے ہوں گے  (The Cambridge Ency of astronomy P.313)  اس سے آسمان کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کو اس سورہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

 

ان گنت ستاروں میں سے دمکتے ستاروں کو یہاں شہادت کے طور پر اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ یہ اپنی چمک دمک کی وجہ سے ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ’’منزل ‘‘ کا پتہ بتا دیتے ہیں۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ بات ہے جس پر آسمان اور دمکتے ستاروں کی شہادت پیش کی گئی ہے یہ شہادت اس مفہوم میں ہے کہ آسمان پر ستاروں کی جگمگاہٹ انسان کو دعوت نظارہ ہی نہیں دعوت فکر بھی دیتی ہے۔ رات کے آتے ہی آسمان کو قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور قمقمے بھی  ایسے روشن کہ ان کی تابناکی عقل کو حیرت میں ڈال دیتی ہے اور موجودہ فلکیاتی اکتشافات نے جس کی رُو سے بعض ستارے تو اتنی دوری پر واقع ہیں کہ ان کی روشنی زمین تک پہنچنے کے لیے کئی نوری سال لگ جاتے ہیں انسان کو اور زیادہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کیا یہ مشاہدہ اپنے خالق کے کمال قدرت کا اور کائنات کی عظیم سلطنت کے فرمانروا ہونے کا پتہ نہیں دیتا اور انسان میں یہ احساس پیدا نہیں کرتا کہ اس فرمانرواۓ عظیم کی سلطنت میں انسان کی یہ حیثیت ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ اپنی من مانی کرنے کے لیے آزاد ہو اور فرمانرواۓ کائنات کے حضور جوابدہ نہ قرار پاۓ ؟ یہ مشاہدہ بشرط یہ کہ وہ غیر متعصبانہ اور معروضی نوعیت کا ہو انسان کے اندر ذمہ داری کا احساس لازماً پیدا کرتا ہے اور یہیں سے خدا کے حضور جواب دہی اور جز او سزا کا تصور ابھرتا ہے۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جس سے پیغمبر انسان کو خبردار کرنا چاہتا ہے اور یہی وہ دعوت ہے جس کو قرآن دنیاۓ انسانیت کے سامنے پیش کر رہا ہے۔

 

اور جب اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان ایک ذمہ دار مخلوق ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کی عملی زندگی کا ریکارڈ تیار کیا جاۓ تاکہ خدا کے حضور پیشی کے دن اس کی بنیاد پر جزا یا سزا کا فیصلہ ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا پورا پورا انتظام کیا ہے چنانچہ ہر شخص کے ساتھ نگراں فرشتے لگا دۓ گۓ ہیں جواس کے ہر قول و فعل کو ضبط تحریر میں لاتے اور اس کی عملی زندگی کا پورا ریکارڈ تیار کرتے رہتے ہیں۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منکرین آخرت کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنا ممکن نہیں ، ان کے اس اعتراض کا جواب قرآن نے یہ دیا کہ منکرین، خدا کو قادر مطلق نہیں سمجھتے اسی لیے ان کے نزدیک انسان کو اس کے مرنے کے بعد اٹھا کھڑا کرنا ممکن نہیں۔ لیکن خدا کی قدرت کا یہ تصور سراسر باطل ہے کیونکہ یہ کسی بھی دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ اور اس کی تردید کائنات کی ہر چیز کرتی ہے۔ اسی سلسلہ میں انسان کو متوجہ کیا گیا ہے کہ ذرا وہ اپنی خلقت ہی پر غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات آسانی سے آۓ گی کہ جس ہستی نے انسان کو پہلی بار پیدا کیا وہ اسے دوسری بار بھی پیدا کر سکتا ہے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد مادہ تولید ہے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریڑھ اور پسلیوں کے درمیان سے نکلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریڑھ اور پسلیوں کے اندر سے مادہ تولید خارج ہوتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم کے اس جوف میں جس کے ایک طرف ریڑھ کی ہڈی اور دوسری طرف پسلیاں ہیں ایک رقیق مادہ تیار ہوتا ہے اور وہاں سے اس طرح خارج ہوتا ہے جیسے پچکاری کا عمل۔

 

مِنْ بَیْنِ (درمیان سے ) کے الفاظ اسی مفہوم میں قرآن میں دوسری جگہ بھی استعمال ہوۓ ہیں۔ سورہ نحل آیت ۶۶ میں ہے :

 

نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُو نِہٖ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ، لَبْناً خَالِصاً سَائِغاً لِلشَّارِبِیْنَ۔

 

’’ہم ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے نہایت خوش گوار چیز ہے۔ ‘‘

 

ظاہر ہے اس آیت میں بھی مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَ دَمٍ (گوبر اور خون کے درمیان سے ) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خالص دودھ گوبر اور خون کے اندر سے نکلتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس جسم کے اندر گوبر اور خون جیسی کثافتیں پیدا ہوتی ہیں اسی جسم میں خالص دودھ، جیسی لطیف چیز بھی تیار ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور اس کی عظیم حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح آیت زیر بحث میں بھی کہنے کا منشاء یہ ہے کہ انسانی ڈھانچہ کے اندر سے بڑے عجیب طریقہ سے وہ مادہ خارج ہوا ہے ، جو ہوتا تو ہے بے وقعت لین اس سے انسان جیسی عظیم مخلوق پیدا ہوتی ہے کیا یہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور اس کی عظیم صناعی کی دلیل نہیں ؟ پھر اس کے بارے میں یہ گمان کرنے کے لیے کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنا ممکن نہیں۔؟

 

واضح رہے کہ ریڑھ اور پسلیوں کے درمیان سے مادہ منویہ کے خارج ہونے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ مادہ منویہ کیسۂ منویہ  (Seminal Vesicles) سے خرج ہوتا ہے کیونکہ کیسۂ منویہ  جوفِ شکم) (Abdominal میں ہوتا ہے جو آخری پسلی کا زیریں حصہ ہے اور جس کی دوسری طرف پشت یعنی ریڑھ کی ہڈیاں ہیں اس لیے وسیع تر مفہوم میں یہ اس ڈھانچہ کے درمیان ہی سے خارج ہوتا ہے جس کا اگلا حصہ پسلیاں ہیں تو پچھلا حصہ ریڑھ۔ اور قرآن جب تذکیر کے لیے کوئی بات کہتا ہے تو وہ عام اور وسیع تر مفہوم میں ہوتی ہے نہ کہ فنی زبان میں اس لیے قرآن نے مادہ تولید کے اخراج کے سلسلہ میں یہاں جو کچھ بیان کیا ہے اس علم تشریح الاعضاء (Anatomy)  کی اصطلاحات میں سوچنا صحیح نہ ہو گا۔

 

انسان کی تخلیق جس مادہ منویہ سے ہوتی ہے قرآن نے اس پر غور کرنے کی دعوت دی ہے اور جب ہم جدید تحقیقات کا مطالعہ کرتے ہیں تو اپنے خالق کے کرشمہ قدرت کو دیکھ کر ششدر رہ جاتے ہیں۔ جدید تحقیقات کی رو سے ایک وقت میں جو مادہ منویہ  (Semen) خارج ہوتا ہے اس کی مقدار ۲ تا ۵ ملی لیٹر (2 to 5 ml) ہوتی ہے اور ہر ملی لیٹر (ml)  تولید کے جراثیم(Spermatozoa)  ۴۰ تا ۱۰۰ ملین (۴۰ to ۱۰۰ millions) ہوتے ہیں  (Text Book of Physiology by George Bell . Edinburgh P.643)۔ گویا مرد کے ایک وقت کے خارج شدہ مادہ منویہ میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ پاس کروڑ انسان پیدا کر سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے خالق نے ان جراثیم کے بارور(Fertilize)ہونے کا ایسا نظام بنایا ہے کہ بیک وقت ایک یا دو سے زیادہ جرثومے بارور ہو نہیں سکتے۔ اس طرح انسانی پیدائش کی شرح حد سے تجاوز نہیں کر پاتی۔ خدا کے کرشمہ قدرت کا یہ مشاہدہ کیا انسان کے اندر اس کی بے پناہ قدرت کا یقین پیدا نہیں کرتا اور کیا اسے اس بات کا قائل نہیں کرتا کہ اس کے ی مرے ہوۓ انسان کو دو بارہ اٹھانا کچھ بھی مشکل نہیں ؟

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوٹا نے سے مراد انسان کو جسم سمیت دوسری مرتبہ پیدا کرنا ہے اور یہ قیامت کے دن ہو گا۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس روز کوئی راز راز نہیں رہے گا۔ انسان کی باطنی کیفیت کا حال کھل کر سامنے آ جاۓ گا۔ اس کی نیت ، اس کے ارادے ، اس کے عمل کے محرکات اور وہ اغراض و مقاصد جو اس کے اعمال کی پشت پر رہے ہیں سب بے نقاب ہو کر سامنے آ جائیں گے۔ گویا اس کے باطن کی پوری طرح اسکریننگ(Screening) کی جاۓ گی۔ اور نیت کا جہاں کہیں کھوٹ ہو گا بالکل نمایاں ہو کر سامنے آ جاۓ گا۔ اس روز انسان کو اندازہ ہو جاۓ گا کہ وہ حق کو باطل قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا جو زور لگاتا رہا اس کے پیچھے اس کی کیا اغراض تھیں جن کو اس نے اپنے دل میں چھپاۓ رکھا تھا۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ نہ وہ خود اپنی مدافعت کر سکے گا اور نہ دوسرا کوئی اس کا حمایتی بن کر کھڑا ہو گا کہ اس کی مدد کر سکے۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’آسمان سے بارش کا برسنا‘‘ اوپر سے بارش برسنے کے معنیٰ میں ایک عام محاورہ ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بارش کے برستے ہی زمین کے مسامات کھل جاتے ہیں اور وہ شق ہو کر نباتات اگاتی ہے۔ گویا جو زمین مردہ پڑی تھی، بارش کے ہوتے ہی زندہ ہو کر لہلہانے لگی۔ یہ مشاہدہ جو انسان رات دن کرتا ہے اسی کو یہاں زندگی بعد موت کی تائید میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یعنی جو خد مردہ زمین کو زندہ کر سکتا ہے وہ مردوں کو کیوں نہیں جِلا اٹھا سکتا؟ کیا اس مشاہدہ سے یہ یقین پیدا نہیں ہوتا کہ جو زمین بارش کی صورت میں خدا کے حکم سے نباتات کو اگل دیتی ہے وہ اس کے حکم سے بناتا کو اگل دیتی ہے وہ اس کے حکم سے مُردوں کو کیوں نہیں اگل سکتی؟۔

 

ضمناً یہاں توحید کا پہلو بھی ابھر کر سامنے آگیا ہے کیونکہ آسمان کا بارش برسانا اور زمین کا پانی اپنے اندر جذب کر کے نباتات اگانا اس کے  بغیر نہیں ہو سکتا  کہ دونوں کا نظم ایک خدا کے ہاتھ میں ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو خدا زمین کا ہے وہی آسمان کا بھی ہے ورنہ آسمان و زمین میں اس درجہ تو افق اور سازگاری نہیں ہو سکتی تھی۔ اس سے اس مشرکانہ تصور کی جڑ کٹ جاتی ہے کہ آسمان کا دیوتا الگ ہے اور زمین کا دیوتا الگ۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن جس آنے والے دن کی خبر دے رہا ہے وہ ایک فیصل شدہ قطعی اور اٹل بات ہے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اتنی اہم خبر اور اتنی سنجیدہ بات کو ہنسی مذاق قرار دینا ان ہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو حقیقت پسند بننا نہیں چاہتے۔ ۱۶۔ یعنی یہ منکرین پیغمبر کی آواز کو دبانے اور حق کو شکست دینے کے لیے ایک نہ ایک چال چل رہے ہیں۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی منکرین کی چال کو توڑ میں بھی کر رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ منکرین کی چالوں کو ناکام بنانے اور ان کو ان کے دم میں پھنسا نے کی تدبیر ایسے طریقہ سے کر رہا ہے کہ انہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں۔

 

اور واقعہ یہ ہے کہ جن کافروں نے قرآن اور پیغمبر کے خلاف چالیں چلی تھیں وہ سب انہیں کے خلاف پڑیں اور وہ بری طرح ناکامی اور ذلت سے دوچار ہوۓ۔ یہ تو ہوا دنیا میں حق کے خلاف چال چلنے کا انجام اور آخرت میں تو وہ عیاناً  دیکھ لیں گے کہ انہوں نے جو کلہاڑی چلائی تھی وہ اپنے ہی پاؤں پر چلائی تھی اور جو قبر کھو دی تھی اس میں ان ہی کو دفن ہونا ہے ، اور دفن بھی آگ کے کفن کے ساتھ ہونا ہے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کو اپنا پیمانہ بھر لینے دو۔ ان کے انجام کے سلسلہ میں جلدی نہ کرو بلکہ صبر کے ساتھ اپنا فرض انجام دۓ چلے جاؤ۔ جو مہلت ان کافروں کو دی جا رہی ہے وہ جلد ہی ختم ہو جاۓ گی اور عنقریب ان کی گرفت ہوگی۔

 

٭٭٭٭٭