١۔ (۱) منافقین سے مراد عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں۔ یہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔
١۔ (۲) یہ جملہ معترضہ ہے جو مضمون ما قبل کی تاکید کے لیے ہے جس کا اظہار منافقین بطور منافقت کے کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو ویسے ہی زبان سے کہتے ہیں، ان کے دل اس یقین سے خالی ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم واقعی اللہ کے رسول ہیں۔
١۔ (۳) اس بات میں کہ وہ دل سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، یعنی دل سے گواہی نہیں دیتے صرف زبان سے دھوکا دینے کے لئے اظہار کرتے ہیں۔
٢۔ (۱) یعنی وہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمہاری طرح مسلمان ہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں انہوں نے اپنی اس قسم کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ اس کے ذریعے سے وہ تم سے بچے رہتے ہیں اور کافروں کی طرح یہ تمہاری تلواروں کی زد میں نہیں آتے۔
٢۔ (۲) دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے شک و شبہات پیدا کر کے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا۔
٣۔ اس سے معلوم ہوا کہ منافقین بھی صریح کافر ہیں۔
٤۔ (۱) یعنی ان کے حسن و جمال اور رونق و شادابی کی وجہ سے۔
٤۔ (۲) یعنی زبان کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے۔
٤۔ (۳) یعنی اپنی درازیِ قد اور حسن و رعنائی، عدم فہم ور قلت خیر میں ایسے ہیں گویا کہ دیوار پر لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو تو بھلی لگتی ہے لیکن کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
٤۔(۴) یعنی بزدل ایسے ہیں کہ کوئی زوردار آواز سن لیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نازل ہو گئی یا گھبرا اُٹھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کسی کاروائی کا آغاز تو نہیں ہو رہا۔
٥۔ (۱) یعنی استغفار سے اعراض کرتے ہوئے اپنے سروں کو موڑ لیتے ہیں۔
٥۔ (۲) یعنی کہنے والے کی بات سے منہ موڑ لیں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اعراض کر لیں گے۔
٦۔ (۱) اپنے نفاق پر اصرار اور کفر پر قائم رہنے کی وجہ سے وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں استغفار اور عدم استغفار ان کے حق میں برابر ہے۔
٦۔ (۲) اگر اسی حالت میں نفاق میں مر گئے۔ ہاں اگر وہ زندگی میں کفر و نفاق سے تائب ہو جائیں تو بات اور ہے، پھر ان کی مغفرت ممکن ہے۔
٧۔ (۱) مطلب یہ کہ مہاجرین کا رازق اللہ تعالیٰ ہے اس لئے رزق کے خزانے اسی کے پاس ہیں، وہ جس کو جتنا چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے۔
٧۔ (۲) منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ انصار اگر مہاجرین کی طرف دست تعاون دراز نہ کریں تو وہ بھوکے مر جائیں گے۔
٨۔ (۱) اس کا کہنے والا رئیس المنافق عبد اللہ بن ابی تھا، عزت والے سے اس کی مراد تھی، وہ خود اور اس کے رفقاء اور ذلت والے سے (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمان۔
۸۔ (۲) یعنی عزت اور غلبہ صرف ایک اللہ کے لیے ہے اور پھر وہ اپنی طرف سے جس کو چاہے عزت وغلبہ عطا فرمادے۔
۸۔ (۳) اس لیے ایسے کام نہیں کرتے جو ان کے لیے مفید ہیں اور ان چیزوں سے نہیں بچتے جو اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔
٩۔ یعنی مال اور اولاد کی محبت تم پر غالب آ جائے کہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے احکام و فرائض سے غافل ہو جاؤ اور اللہ کی قائم کردہ حلال و حرام کی حدوں کی پروا نہ کرو۔
١٠۔ (۱) خرچ کرنے سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی اور دیگر امور خیر میں خرچ کرنا ہے۔
۱۰۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ میں اور اسی طرح اگر حج کی استطاعت ہو تو اس کی ادائیگی میں قطعاً تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ موت کا کوئی پتہ نہیں کس وقت آ جائے ؟ اور یہ فرائض اس کے ذمے رہ جائیں۔