احسن البیان

سُوۡرَةُ الاٴنعَام

١۔(١) ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی قسمیں بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی قسموں میں شامل ہے (فتح القدیر) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔

١۔(٢) یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔

٢۔(١) یعنی تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے تم جو خوراک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہیں غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جا کر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔

٢۔(٢)  یعنی موت کا وقت۔

٢۔(٣)یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمیٰ ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال و فنا سے دوچار ہو جائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کا آغاز ہو جائے گا۔

٢۔(٤) یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفار و مشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح سے دوبارہ زندہ کیا جا سکے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا۔(سورہ یسین)

٣۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے، جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے۔ یعنی اس کے علم و خبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ دلیل بھی صحیح نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں میں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کو معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو سب کو جانتا ہے (فتح القدیر) اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ مثلاً تفسیر طبری و ابن کثیر وغیرہ۔

٥۔ یعنی اس نکتہ چینی اور تکذیب کا وبال انہیں پہنچے گا اس وقت انہیں احساس ہو گا کہ کاش! ہم اس کتاب برحق کی تکذیب اور اس کا استہزا نہ کرتے۔

٦۔(١) یعنی جب گناہوں کی پاداش میں تم سے پہلی امتوں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں در آں حالیکہ وہ طاقتور و قوت میں بھی تم سے کہیں زیادہ تھیں اور خوش حالی اور وسائل رزق کی فراوانی میں بھی تم سے بڑھ کر تھیں، تو تمہیں ہلاک کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے ؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی قوم کی محض مادی ترقی اور خوش حالی سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بہت کامیاب و کامران ہے۔ یہ استدارج وامہال کی وہ صورتیں ہیں جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ قوموں کو عطا فرماتا ہے۔ لیکن جب یہ مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے تو پھر یہ ساری ترقیاں اور خوش حالیاں انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔

٦۔(٢) تاکہ انہیں بھی پچھلی قوموں کی طرح آزمائیں۔

٧۔ یہ ان کے عناد جحود اور مکابرہ کا اظہار ہے کہ اتنے واضح نوشتہ الٰہی کے باوجود وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہوں گے اور اسے ایک سحرانہ کرتب قرار دیں گے۔ جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے۔ ولو فتحنا علیہم بابا من السماء فظلو فیہ یعرجون لقالوا انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون (الحجر) اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس پر چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی کہیں گے آنکھیں متوالی ہو گئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے۔(وان یروا کسفا من السماء ساقطا یقولوا سحاب مرکوم) (الطور) اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہ بہ تہ بادل ہیں۔ یعنی عذاب الہی کی کوئی نہ کوئی توجیہ کر لیں گے کہ جس میں مشیت الہی کا کوئی دخل انھیں تسلیم کرنا نہ پڑے حالانکہ کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔

٨۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جتنے بھی انبیاء و رسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو وحی و رسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضہ تبلیغ و دعوت ادا ہی نہیں کر سکتا تھا، مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے اور دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات و جذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے۔؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطور احسان ہی قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسہم (آل عمران) اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا لیکن پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث رہی وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں فرشتوں میں سے ہونا چاہیے گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایان شان نہیں تھی جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔ تشابھت قلوبھم اہل کفر و شرک رسولوں کی بشریت کا تو انکار کر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ان کے خاندان حسب نسب ہر چیز سے واقف ہوتے تھے لیکن رسالت کا وہ انکار کر تے رہے جبکہ آج کل کے اہل بدعت رسالت کا انکار تو نہیں کرتے لیکن بشریت کو رسالت کے منافی سمجھنے کی وجہ سے رسولوں کی بشریت کا انکار کرتے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اگر ہم کافروں کے مطالبے پر کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے یا اس رسول کی تصدیق کے لئے ہم کوئی فرشتہ نازل کر دیتے جیسا کہ یہاں یہی بات بیان کی گئی ہے اور پھر وہ اس پر ایمان نہ لاتے تو انھیں مہلت دیئے بغیر ہلاک کر دیا جاتا۔

٩۔ یعنی اگر ہم فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کرتے تو ظاہر بات ہے کہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو انھیں نہیں بھیج سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب و مانوس ہونے کی بجائے، دور بھاگتے اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا۔ لیکن تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے پیش کر رہے ہیں تو پھر فرشتے کے بھیجنے کا کیا فائدہ۔

١٢۔ جس طرح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر لکھ دیا اِنَّ رَحمَتِی تَغْلِبُ غَضَبِیْ ـ "یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے " لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہو گی، کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہو گا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقیناً عام ہے، جس سے مومن اور کافر نیک اور بد فرماں دار اور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ اہتمام صرف دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں جو کہ دار الجزا ہے وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہو گا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان و امان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر و فسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے۔ ورحمتی وسعت کل شیء فساکتبھا للذین یتقون ویوتون الزکوٰۃ والذین ھم بآیتنا یومنون (الاعراف) اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔

١٤۔ ولی سے مراد یہاں معبود ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے ورنہ دوست بنانا تو جائز ہے۔

١٥۔ یعنی اگر میں نے بھی رب کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تو میں بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوں گا۔

١٦۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہ کامیاب ہو گیا اس لئے کامیابی، خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کر لینے کا نام ہے۔ جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہو گا؟

١٧۔ یعنی نفع و ضرر کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا صرف اللہ ہے اور اس کے حکم و قضا کو کوئی رد کرنے والا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد (صحیح بخاری، مسلم ) جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے تو اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی ' نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

١٨۔ یعنی تمام گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، بڑے بڑے جابر لوگ اس کے سامنے بے بس ہیں، وہ ہر چیز پر غالب ہے اور تمام کائنات اس کی مطیع ہے وہ اپنے ہر کام میں حکیم ہے اور ہر چیز سے باخبر ہے، پس اسے معلوم ہے کہ اس کے احسان و عطا کا کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق۔

١٩۔(١) یعنی اللہ ہی اپنی وحدانیت اور ربوبیت کا سب سے بڑا گواہ ہے اس سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں۔

١٩۔(٢) ربیع بن انس کہتے ہیں اب جس کے پاس بھی قرآن پہنچ جائے اگر وہ سچا مطیع رسول ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف اسی طرح بلائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو دعوت دی اور اسطرح ڈرائے جس طرح آپ نے لوگوں کو ڈرایا (ابن کثیر)

٢٠۔ یعرفونہ میں ضمیر کا مرجع رسل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں یعنی اہل کتاب آپ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ آپ کی صفات ان کی کتابوں میں بیان کی گئیں تھیں اور ان صفات کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظر بھی تھے۔ اس لئے اب ان میں سے ایمان نہ لانے والے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ یہ علم رکھتے ہوئے بھی انکار کر رہے ہیں۔ فان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم اگر تجھے علم نہیں ہے تو یہ بھی اگرچہ مصیبت ہی ہے تاہم اگر علم ہے تو پھر زیادہ بڑی مصیبت ہے۔

٢١۔ (۱) یعنی جس طرح اللہ پر جھوٹ گھڑنے والا (یعنی نبوت کا جھوٹا دعوا کرنے والا) سب سے بڑا ظالم ہے، اس طرح وہ بھی بڑا ظالم ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے سچے رسول کی تکذیب کرے۔ جھوٹے دعوے نبوت پر اتنی سخت وعید کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ متعدد لوگوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے کیئے ہیں اور یوں یقیناً نبی کی پیش گوئی کی تیس جھوٹے دجال ہوں گے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ گزشتہ صدی میں بھی قادیان کے ایک شخص نے نبوت کا دعوا کیا اور آج اس کے پیروکار اس لئے سچا نبی اور بعض مسیح معبود مانتے ہیں کہ اسے ایک قلیل تعداد نبی مانتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کسی جھوٹے کو سچا مان لینا، اس کی سچائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صداقت کے لئے تو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی ضرورت ہے۔

٢١۔(٢) جب یہ دونوں ہی ظالم ہیں تو نہ (جھوٹ گھڑنے والا) کامیاب ہو گا اور نہ ہی تکذیب (جھٹلانے والا) اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے انجام پر اچھی طرح غور کر لے۔

٢٣۔ فتنہ کے ایک معنی حجت اور ایک معنی معذرت کے کئے گئے ہیں، بالآخر یہ حجت یا معذرت پیش کر کے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے۔ اور امام ابن جریر نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں۔ ثم لم یکن قیلھم عند فتنتنا ایاھم اعتذارا مما سلف منھم من الشرک باللہ۔ (جب ہم انھیں سوال کی بھٹی میں جھونکیں گے تو دنیا میں جو انہوں نے شرک کیا، اس کی معذرت کے لئے یہ کہے بغیر ان کے لئے کوئی چارا نہ ہو گا کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے ) یہاں یہ اشکال پیش نہ آئے کہ وہاں تو انسانوں کے ہاتھ پیر گواہی دیں گے اور زبانوں پر تو مہریں لگا دی جائیں گی پھر یہ انکار کس طرح کریں گے ؟ اس کا جواب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیا ہے کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہل توحید مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو یہ باہم مشورہ کر کے اپنے شرک کرنے سے انکار کر دیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں جو کچھ انہوں نے کیا ہو گا اس کی گواہی دیں گے اور یہ اللہ سے کوئی بات چھپانے پر قادر نہ ہو سکیں گے (ابن کثیر)

٢٤۔ لیکن وہاں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، جس طرح بعض دفعہ دنیا میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے اسی طرح ان کے معبودان باطل بھی، جن کو اللہ کا شریک اپنا حمائتی و مددگار اور سفارشی سمجھتے تھے، غائب ہوں گے اور وہاں ان پر شرکا کی حقیقت واضح ہو گی، لیکن وہاں اس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔

٢٥۔(١) یعنی مشرکین آپ کے پاس آ کر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے بے فائدہ ہے۔

٢٥۔(٢) علاوہ ازیں مجازاۃ علی کفرھم ان کے کفر کے نتیجے میں ان کے دلوں پر بھی ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ جس کی وجہ سے ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصر اور ان کے کان حق کو سننے سے عاجز ہیں۔

٢٥۔(٣)  اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں، تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے اور ان کا عناد و جحود اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو پہلے لوگوں کی بے سند کہانیاں کہتے ہیں۔

٢٦۔(١) یعنی عام لوگوں کو آپ سے اور قرآن سے روکتے ہیں تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور خود بھی دور دور رہتے ہیں۔

٢٦۔(٢) لیکن لوگوں کو روکنا اور خود بھی دور رہنا، اس سے ہمارا یا ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کا کیا بگڑے گا؟ اس طرح کے کام کر کے وہ خود ہی بے شعوری میں اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔

٢٧۔(١) یہاں لَوْ کا جواب محذوف ہے تقدیری عبارت یوں ہو گی ' تو آپ کو ہولناک منظر نظر آئے گا۔

٢٧۔(٢) لیکن وہاں سے دوبارہ دنیا میں آنا ممکن ہی نہیں ہو گا کہ وہ اپنی اس آرزو کی تکمیل کر سکیں۔ کافروں کی اس آرزو کا قرآن نے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مثلاً ربنا اخرجنا منھا فان عدنا فانا ظلمون قال اخسوا فیہا ولا تکلمون (المومنون) اے ہمارے رب ہمیں اس جہنم سے نکال لے اگر ہم دوبارہ تیری نافرمانی کریں تو یقیناً ظالم ہیں اللہ تعالیٰ فرما‏ئے گا اسی میں ذلیل و خوار پڑے رہو مجھ سے بات نہ کرو ربنا ابصرنا وسمعنا فارجعنا نعمل صالحا انا موقنون (الم السجدۃ) اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آ گیا ہے۔

٢٨۔(١) بَلْ جو إِضْرَاب (یعنی پہلی بات سے گریز کرنے ) کے لیے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں (١) ان کے لئے وہ کفر اور عناد و تکذیب ظاہر ہو جائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکار کرتے تھے، جیسے وہاں بھی کہیں گے ما کنا مشرکین (ہم تو مشرک ہی نہ تھے (٢) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا۔ لیکن پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہو جائے گا (٣) یا منافقین کا نفاق وہاں ظاہر ہو جائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے (تفسیر ابن کثیر)۔

٢٨۔(٢) یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہو جائے گا اور جس کا وہ معائنہ کر لیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔

٢٩۔ یہ بعث بعد الموت (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے ) کا انکار ہے جو ہر کافر کرتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ہی دراصل ان کے کفر و عصیان کی سب سے بڑی وجہ ہے ورنہ اگر انسان کے دل میں صحیح معنوں میں اس عقیدہ آخرت کی صداقت راسخ ہو جائے تو کفر و جرم کے راستے سے فوراً تائب ہو جائے۔

٣٠۔ یعنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لینے کے بعد تو وہ اعتراف کر لیں گے کہ آخرت کی زندگی واقعی برحق ہے۔ لیکن وہاں اس اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اب تو اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو۔

٣١۔ اللہ کی ملاقات کی تکذیب کرنے والے جس خسارے اور نامرادی سے دو چار ہوں گے اپنی کوتاہیوں پر جس طرح نادم ہوں گے اور برے اعمال کا جو بوجھ اپنے اوپر لادے ہوں گے آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ فَرَّطْنَا فِیْھَا میں ضمیراَلسَّاعَۃُ کی طرف راجع ہے یعنی قیامت کی تیاری اور تصدیق کے معاملے میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی یا اَلصَّفْقَۃُ (سودا) کی طرف راجع ہے جو اگرچہ عبارت میں موجود نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کناں ہے اس لئے کہ نقصان سودے میں ہی ہوتا ہے اور مراد اس سودے سے وہ ہے جو ایمان کے بدلے کفر خرید کر انہوں نے کیا یعنی یہ سودا کر کے ہم نے سخت کوتاہی کی یا حیاۃ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر و شرک کا ارتکاب کر کے جو کوتاہیاں کیں۔ (فتح القدیر)

٣٣۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کفار کی طرف سے اپنی تکذیب کی وجہ سے جو غم و ملال پہنچتا اس کے ازالے اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا جا رہا ہے کی یہ تکذیب آپ کی نہیں۔ (آپ کو وہ صادق و امین مانتے ہیں ) اصل یہ آیات الٰہی کی تکذیب ہے اور یہ ظلم ہے۔ جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ ترمذی وغیرہ کی ایک روایت میں ہے کہ ابوجہل نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہم تم کو نہیں بلکہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کو جھٹلاتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ترمذی کی یہ روایت اگرچہ سندا ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی امانت و دیانت اور صداقت کے قائل تھے لیکن اس کے باوجود وہ آپ کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں رہے آج بھی جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حسن اخلاق رفعت کردار اور امانت و صداقت کو تو خوب جھوم جھوم کر بیان کرتے ہیں اور اس موضوع پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں لیکن اتباع رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں وہ انقباض محسوس کرتے آپ کی بات کے مقابلے میں فقہ وقیاس اور اقوال ائمہ کو ترجیح دیتے ہیں انھیں سوچنا چاہئیے کہ یہ کس کا کردار ہے جسے انہوں نے اپنایا ہوا ہے ؟

٣٤۔(١) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مزید تسلی کے لئے کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلا واقع نہیں ہے کہ کافر اللہ کے پیغمبر کا انکار کر رہے ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں جن کی تکذیب کی جاتی رہی ہے پس آپ بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے اسی طرح صبر اور حوصلے سے کام لیں، حتیٰ کہ آپ کے پاس بھی اسی طرح ہماری مدد آ جائے، جس طرح پہلے رسولوں کی ہم نے مدد کی اور ہم اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے۔ ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے انا لننصر رسلنا والذین امنوا (المومن) یقیناً ہم اپنے پیغمبروں اور اہل ایمان کی مدد کریں گے (کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی) (المجادلۃ) اللہ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے وغیرها من الایات (الصافات)

٣٤۔(٢) بلکہ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا کہ آپ کافروں پر غالب و منصور رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

٣٤۔(٣) جن سے واضح ہے کہ ابتدا میں گو ان کی قوموں نے انھیں جھٹلایا، انھیں ایذائیں پہنچائیں اور ان کے لئے عرصہ حیات تنگ کر دیا لیکن بالآخر اللہ کی نصرت سے کامیابی و کامرانی اور نجات ابدی انہی کا مقدر بنی۔

٣٥۔(١) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو معاندین و کافرین کی تکذیب (جھٹلانا) جو گرانی اور مشقت ہوتی تھی، اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ ان کو قبول اسلام پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ اگر آپ کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر بھی کوئی نشانی ان کو لا کر دکھائیں، اول تو ایسا کرنا آپ کے لئے ایسا کرنا محال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر بھی دکھائیں تو بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ کیوں کہ ان کا ایمان نہ لانا اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل و فہم نہیں کر سکتے البتہ جس کی ایک ظاہری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اختیار و ارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا اس کے لیے لفظ کن سے پلک جھپکتے میں یہ کام ہو سکتا ہے۔

٣٥۔(٢) یعنی آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت و افسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت و تقدیر سے ہے اس لئے اسے اللہ ہی کے سپرد کر دیں، وہی اس کی حکمت و مصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔

٣٦۔ اور ان کافروں کی حیثیت تو ایسی ہے جیسے مُردوں کی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ سننے اور سمجھنے کی قدرت سے محروم ہیں یہ بھی چونکہ اپنی عقل فہم سے حق کو سمجھنے کا کام نہیں لیتے اس لئے یہ بھی مردہ ہیں۔

٣٧۔(١) یعنی ایسا معجزہ، جو ان کو ایمان لانے پر مجبور کر دے، جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے فرشتہ اترے، یا پہاڑ ان پر اٹھا کر بلند کر دیا جائے، جس طرح بنی اسرئیل پر کیا گیا۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ تو یقیناً ایسا کر سکتا ہے لیکن اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ پھر انسانوں کے امتحان کا مسئلہ ختم ہو جاتا۔ علاوہ ازیں ان کے مطالبے پر اگر کوئی معجزہ دکھلایا جاتا اور پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے تو پھر فورا انھیں اسی دنیا ہی میں سخت سزا دے دی جاتی یوں گویا اللہ کی اس حکمت میں بھی انہی کا دنیاوی فائدہ ہے۔

٣٧۔(٢) جو اللہ کے حکم و مشیت کی حکمت کا ادراک نہیں کر سکتے۔

٣٨۔(١) یعنی انھیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انھیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت و علم کے تحت داخل ہیں۔

٣٨۔(٢) کتاب دفتر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ونزلنا علیک الکتب تبیانا لکل شیء (النحل ) (ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے ) (النحل۔ ٨٩)۔ یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔

٣٨۔(٣) یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال (ثبوت) کیا ہے، جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کر کے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کر کے ان کا حساب کتاب بھی ہو گا، جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی نے فرمایا، کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہو گی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔(صحیح مسلم ) بعض علماء نے حشر سے مراد صرف موت لی ہے یعنی سب کو موت آئے گی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں اور حدیث مذکور جس میں بکری سے بدلہ لیے جانے کا ذکر ہے بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب و کتاب کی اہمیت و عظمت کو واضح کرنا ہے یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کر کے ظالم سے مظلوم کو بدلہ دلا دیا جائے گا پھر دونوں معدوم کر دئیے جائیں گے۔( فتح القدیر) وغیرو اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔

٣٩۔ آیات الٰہی کو جھٹلانے والے چونکہ اپنے کانوں سے حق بات سنتے نہیں اور اپنی زبانوں سے حق بات بولتے نہیں، اس لئے وہ ایسے ہی ہیں جیسے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں، علاوہ ازیں یہ کفر اور ضلالت کی تاریکیوں میں بھی گھرے ہوئے ہیں۔ اس لئے انھیں کوئی چیز نظر نہیں آتی جس سے ان کی اصلاح ہو سکے۔ پس ان کے حواس گویا مسلوب ہو گئے جن سے کسی حال میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے پھر فرمایا تمام اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر لگا دے لیکن اس کا یہ فیصلہ یوں ہی الل ٹپ نہیں ہو جاتا بلکہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے گمراہ اسی کو کرتا ہے جو خود گمراہی میں پھنسا ہوتا ہے اس سے نکلنے کی وہ سعی کرتا ہے نہ نکلنے کو وہ پسند ہی کرتا ہے مزید دیکھئے سورہ بقرہ آیت ۲٦ کا حاشیہ۔

٤١۔ اَرَءَیْتَکُمْ میں کاف اور میم خطاب کے لیے ہے اس کے معنی اخبرونی (مجھے بتلاؤ یا خبر دو) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے (دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٥٦١ کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسان ماحول، یا آباؤ اجداد کی مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا و مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے۔ نذر نیاز بھی انھی کے نام نکالتا ہے لیکن جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو پھر سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آ جاتی ہے اور بے اختیار پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیئے۔ کاش لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔

٤٣۔ قومیں جب اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کو زنگ آلود کر لیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت کے لئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے ہیں دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھکتے اور ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے بلکہ اپنی بد اعمالیوں پر تاویلات اور توجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کر لیتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے ان کے لئے خوبصورت بنا دیا ہے۔

٤٥۔ اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ یہی بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب اس میں خوب مگن ہو جاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انھیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (ڈھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی، قرآن کریم کی آیت اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے معلوم ہوا کہ دنیاوی ترقی اور خوشحالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انھیں ان الارض یرثھا عبادی الصلحون (مصداق قرار دیکر انھیں اللہ کے نیک بندے تک قرار دیتے ہیں ) ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے۔گمراہ قوموں یا افراد کی دنیاوی خوش حالی ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر و معاصی کا صلہ ہے۔

٤٦۔ آنکھیں کان اور دل، یہ انسان کے نہایت اہم اعضا ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان کی وہ خصوصیات سلب کر لے، جو اللہ نے ان کے اندر رکھی ہیں یعنی سننے دیکھنے اور سمجھنے کی خصوصیات، جس طرح کافروں کے یہ اعضا ان خصوصیات سے محروم ہوتے ہیں۔ یا اگر وہ چاہے تو اعضا کو ویسے ہی ختم کر دے، وہ دونوں ہی باتوں پر قادر ہے، اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ مگر یہ کہ وہ خود کسی کو جچانا چاہے آیات کو مختلف پہلووں سے پیش کرنے کا مطلب ہے کبھی انذار وتبشیر اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے اور کبھی کسی اور ذریعے سے۔

٤٧۔١بغتۃ بے خبری سے مراد رات اور جھرۃ خبر داری سے دن مراد ہے جسے سورہ یونس میں بَیَاتاً اَوْ نَہَاراً سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دن کو عذاب آ جائے یا رات کو یا پھر بغتۃ وہ عذاب ہے جو اچانک بغیر تمہید اور مقدمات کے آ جائے اور جھرۃ وہ عذاب جو تمہید اور مقدمات کے بعد آئے۔ یہ عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے آتا ہے۔ ان ہی پر آتا ہے جو ظالم ہوتی ہیں یعنی کفر و طغیان اور معصیت الٰہی میں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں۔

٤٨۔(١) وہ اطاعت گزاروں کو ان نعمتوں اور اجر جلیل کی خوشخبری دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت کی صورت میں ان کے لئے تیار کر رکھی ہے اور نافرمانوں کو ان عذابوں سے ڈراتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے جہنم کی صورت میں تیار کئے ہوئے ہیں۔

٤٨۔(٢) مستقبل (یعنی آخرت) میں پیش آنے والے حالات کا انھیں اندیشہ نہیں اور اپنے پیچھے دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے یا دنیا کی جو آسودگیاں وہ حاصل نہ کر سکے، اس پر مغموم نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں جہانوں میں ان کا ولی اور کارساز وہ رب ہے جو دونوں جہانوں کا رب ہے۔

٤٩۔ یعنی عذاب اس لئے پہنچے گا کہ انہوں نے تکفیر اور تکذیب کا راستہ اختیار کیا، اللہ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی پرواہ نہیں کی اور اس کی حرمتوں کو پامال کیا۔

٥٠۔ (۱) میرے پاس اللہ کے خزانے بھی نہیں (جس سے مراد ہر طرح کی قدرت و طاقت ہے ) کہ میں تمہیں اللہ کے اذن و مشیت کے بغیر کوئی ایسا معجزہ کر کے دکھا سکو، جیسا کہ تم چاہتے ہو، جسے دیکھ كر میری نبوت کا یقین ہو جائے، میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات سے تمہیں مطلع کر دوں، مجھے فرشتہ ہونے کا بھی دعویٰ نہیں کہ تم مجھے ایسے امور پر مجبور کرو جو انسانی طاقت سے بالا ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اس میں حدیث بھی شامل ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا اوتیت القرآن و مثلہ معہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا یہ مثل حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہے۔

٥٠۔(٢) یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی اندھا اور بینا گمراہ اور ہدایت یافتہ اور مومن اور کافر برابر نہیں ہو سکتے۔

٥١۔ یعنی انذار کا فائدہ ایسے ہی لوگوں کو ہو سکتا ہے ورنہ جو بعث بعد الموت حشر نشر پر یقین ہی نہیں رکھتے وہ اپنے کفر و جحود پر ہی قائم رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں ان اہل کتاب اور کافروں اور مشرکوں کا عقیدہ رہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے بتوں کو اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔ نیز کارساز اور سفارشی نہیں ہو گا کا مطلب۔ یعنی ان کے لئے جو عذاب جہنم کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے۔ ورنہ مومنوں کے لئے اللہ کے نیک بندے، اللہ کے حکم سے سفارش کریں گے۔ یعنی شفاعت کی نفی اہل کفر و شرک کے لئے ہے اور اس کا اثبات ان کے لئے جو گناہ گار مومن و موحد ہوں گے، اسی طرح دونوں قسم کی آیات میں کوئی تعارض بھی نہیں رہتا۔

٥٢۔ یعنی یہ بے سہارا اور غریب مسلمان، جو بڑے اخلاص سے رات دن اپنے رب کو پکارتے ہیں یعنی اس کی عبادت کرتے ہیں، آپ مشرکین کے اس طعن یا مطالبہ سے اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے ارد گرد تو غربا و فقرا کا ہی ہجوم رہتا ہے ذرا انھیں ہٹاؤ تو ہم بھی تمہارے پاس بیٹھیں، ان غربا کو اپنے سے دور نہ کرنا، بالخصوص جب کہ آپ کا کوئی احسان ان کے متعلق نہیں اور اگر ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہو گا جو آپ کی شایان شان نہیں۔ مقصد امت کو سمجھانا ہے کہ بے وسائل لوگوں کو حقیر سمجھنا یا ان کی صحبت سے گریز کرنا اور وابستگی نہ رکھنا، یہ نادانوں کا کام ہے۔ اہل ایمان کا نہیں۔ اہل ایمان تو اہل ایمان سے محبت رکھتے ہیں چاہے وہ غریب اور مسکین ہی کیوں نہ ہو۔

٥٣۔(١)  ابتدا میں اکثر غریب، غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس لئے یہی چیز رؤسائے کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا انھیں تعذیب و اذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام پر واقع اللہ کا احسان ہوتا تو سب سے پہلے ہم پر ہوتا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا 'لو کان خیر ما سبقونا الیہ (الاحقاف) اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے ' یعنی ان غربا کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے۔

٥٣۔(٢) یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری چمک دمک ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر وغیرہ نہیں دیکھتا، وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے اس کے شکرگزار بندے اور حق شناس کون ہیں ؟ پس اس نے جن کے اندر شکر گزاری کی خوبی دیکھی، انھیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کر دیا جس طرح حدیث میں آتا ہے ' اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے '۔

٥٤۔(١) یعنی ان پر سلام کر کے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدر افزائی کریں۔

٥٤۔(٢) اور انھیں خوشخبری دیں کہ فضل و احسان کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر گزار بندوں پر اپنی رحمت کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے، کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات سے فارغ ہو گیا تو اس نے عرش پر لکھ دیا (انَّ رَحْمَتِیْ تَغْلِبُ (صحیح بخاری و مسلم) میری رحمت، میرے غضب پر غالب ہے۔

٥٤۔(٣) اس میں بھی اہل ایمان کے لئے بشارت ہے کیونکہ ان ہی کی یہ صفت ہے اگر نادانی یا برضائے بشریت کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے تو پھر فوراً توبہ کر کے اپنی صلاح کر لیتے ہیں۔ گناہ پر اصرار اور دوام اور توبہ انابت سے روگردانی نہیں کرتے۔

٥٦۔ یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کی عبادت کرنے کی بجائے، تمہاری خواہشات کے مطابق غیر اللہ کی عبادت شروع کر دوں تو یقیناً میں بھی گمراہ ہو جاؤں گا۔ مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت و پرستش، سب سے بڑی گمراہی ہے لیکن بد قسمتی سے یہ گمراہی اتنی عام ہے۔ حتیٰ کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ہے۔ھداھم اللہ تعالی

٥٧۔(١) مراد وہ شریعت ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل کی گئی، جس میں توحید کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولا الی اموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم (صحیح مسلم)

٥٧۔(٢) تمام کائنات پر اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے تم جو چاہتے ہو کہ جلدی اللہ کا عذاب تم پر آ جائے تاکہ تمہیں میری صداقت کا پتہ چل جائے، تو یہ بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے تو تمہاری خواہش کے مطابق جلدی عذاب بھیج کر تمہیں متنبہ کر دے اور چاہے تو اس وقت تک مہلت دے دے جب تک اس کی حکمت اس کی متقاضی ہو۔

٥٧۔(٣) یَقُصُّ قَصَصْ سے ہے یعنی یَقُصُّ قَصَصَ الْحَق حق باتیں بیان کرتا یا بتلاتا ہے یا قص اثرہ (کسی کے پیچھے پیروی کرنا) سے ہے یعنی یتبع الحق فیما یحکم بہ اپنے فیصلوں میں وہ حق کی پیروی کرتا ہے یعنی حق کے مطابق فیصلے کرتا ہے (فتح القدیر)

٥٨۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ میرے طلب کرنے پر فوراً عذاب بھیج دیتا یا اللہ میرے اختیار یہ چیز دے دیتا تو پھر تمہاری خواہش کے مطابق عذاب بھیج کر جلدی ہی یہ فیصلہ کر دیا جاتا۔ لیکن یہ معاملہ چونکہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اس لئے اس نے مجھے اس کا اختیار دیا ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ میری درخواست پر فوراً عذاب نازل ہو۔

ضروری وضاحت : حدیث میں جو آتا ہے کہ ایک موقع پر اللہ کے حکم سے پہاڑوں کا فرشتہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ساری آبادی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل دوں آپ نے فرمایا  'نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اللہ کی عبادت کرنے والے پیدا فرمائے گا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (صحیح مسلم) یہ حدیث آیت زیر وضاحت کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ آیت میں عذاب طلب کرنے پر عذاب دینے کا اظہار ہے جبکہ اس حدیث میں مشرکین کے طلب کیے بغیر صرف ان کی ایذا دہی کی وجہ سے ان پر عذاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پسند نہیں فرمایا۔

٥٩۔ 'کتاب مُبِین ' سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے غیب کے سارے خزانے اسی کے پاس ہیں اس لئے کفار و مشرکین اور معاندین کو کب عذاب دیا جائے ؟ اس کا علم بھی صرف اسی کو ہے اور وہی اپنی حکمت کے مطابق فیصلہ کرنے والا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مفاتح الغیب پانچ ہیں قیامت کا علم، بارش کا نزول، رحم مادر میں پلنے والا بچہ، آئندہ کل میں پیش آنے والے واقعات اور موت کہاں آئے گی۔ ان پانچوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں (صحیح بخاری)

٦٠۔(١) یہاں نیند کو وفات سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی لئے اسے وفات اصغر اور موت کو وفات اکبر کہا جاتا ہے (وفات کی وضاحت کے لئے دیکھئے (آل عمران کی آیت ٥٥ کا حاشیہ)

٦٠۔(٢) یعنی دن کے وقت روح واپس لوٹا کر زندہ کر دینا ہے۔

٦٠۔(٣) یعنی یہ سلسلہ شب و روز اور وفاتِ اصغر سے ہمکنار ہو کر دن کو پھر اٹھ کر کھڑے ہونے کا معمول، انسان کی وفات اکبر تک جاری رہے گا

٦۱۔(٤) یعنی پھر قیامت والے دن زندہ ہو کر سب کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔

٦١۔ یعنی اپنے اس مفوضہ کام میں اور روح کی حفاظت میں بلکہ وہ فرشتہ، مرنے والا اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی روح عِلِّیِّیْنَ میں اور اگر بد ہے تو سِجِّیْنَ میں بھیج دیتا ہے۔

٦٢۔ آیت میں ردوا (لوٹائے جائیں گے ) کا مرجع بعض نے فرشتوں کو قرار دیا ہے۔ یعنی قبض روح کے بعد فرشتے اللہ کی بارگاہ لوٹ جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کا مرجع تمام لوگوں کو بنایا ہے۔ یعنی سب لوگ حشر کے بعد اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے (پیش کئے جائیں گے ) پھر وہ سب کا فیصلہ فرمائے گا۔ آیت میں روح قبض کرنے والے فرشتوں کو رسل (جمع کے صیغے کے ساتھ) بیان کیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا فرشتہ ایک نہیں متعدد ہیں۔ اس کی تشریح بعض مفسرین نے اسطرح کی ہے کہ قرآن مجید میں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے۔ اللہ یتوفی الانفس حین موتھا (الزمر)" اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کر لیتا ہے " اور اس کی نسبت ایک فرشتے (ملک الموت) کی طرف بھی کی گئی ہے ـ قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم (الم السجدہ) ' کہہ دو تمہاری روحیں وہ فرشتہ موت قبض کرتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے ' اور اس کی نسبت متعدد فرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ اس مقام پر ہے اور اسی طرح سورہ نساء آیت ٩٧ اور الانعام آیت ٩٣ میں بھی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہی اصل امر (حکم دینے والا) بلکہ فاعل حقیقی ہے۔ متعدد فرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ملک الموت کے مددگار ہیں وہ رگوں شریانوں پٹھوں سے روح نکالنے اور اس کا تعلق ان تمام چیزوں سے کاٹنے کا کام کرتے ہیں اور ملک الموت کی طرف نسبت کے معنی یہ ہیں کہ پھر آخر میں وہ روح قبض کر کے آسمانوں کی طرف لے جاتا ہے (تفسیر روح المعانی جلد ۵ ) حافظ ابن کثیر امام شوکانی اور جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ملک الموت ایک ہی ہے جیسا کہ سورہ الم السجدہ کی آیت سے اور مسند احمد میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور جہاں جمع کے صیغے میں ان کا ذکر ہے تو وہ اس کے اعوان و انصار ہیں اور بعض آثار میں ملک الموت کا نام عزرائیل بتلایا گیا ہے تفسیر ابن کثیر واللہ اعلم

٦٥۔(١) یعنی آسمان، جیسے بارش کی کثرت، یا ہوا، پتھر کے ذریعے سے عذاب یا امرا اور احکام کی طرف سے ظلم و ستم۔

٦٥۔(٢) جیسے دھنسا جانا، طوفانی سیلاب، جس میں سب کچھ غرق ہو جائے۔ یا مراد ہے ماتحتوں، غلاموں اور نوکروں چاکروں کی طرف سے عذاب کہ وہ بد دیانت اور خائن ہو جائیں۔

٦٥۔(٣) یَلْبِسَکُمْ ای یخلط امرکم تمہارے معاملے کو خلط ملط یا مشتبہ کر دے جس کی وجہ سے تم گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جاؤ ویذیق ای یقتل بعضکم بعضا فتذیق کل طائفۃ الاخری اَلَمَ الْحَرْبِ تمہارا ایک دوسرے کو قتل کرنا اس طرح ہر گروہ دوسرے گروہ کی لڑائی کا مزہ چکھے۔ حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں ١۔ میری امت غرق کے ذریعے ہلاک نہ کی جائے ٢۔ قحط عام کے ذریعے اس کی تباہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں قبول فرما لیں اور تیسری دعا سے مجھے روک دیا گیا (صحیح مسلم، نمبر ٢٢١٦) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ امت محمدیہ میں اختلاف و انشقاق واقع ہو گا اور اس کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور قرآن پاک و حدیث سے اعراض (منہ پھیرنا) ہو گا جس کے نتیجے میں عذاب کی اس صورت سے امت محمدیہ بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔گویا اس کا تعلق اس سنت اللہ سے ہے جو قوموں کے اخلاق و کردار کے بارے میں ہمیشہ رہی ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ فلن تجد لسنت اللہ تبدیلا ولن تجد لسنت اللہ تحویلا (فاطر)

 ٦٦۔ بہ کا مرجع قرآن ہے یا عذاب فتح القدیر ٦٦۔ یعنی مجھے اس امر کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کے راستے پر لگا کر ہی چھوڑوں۔ بلکہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر (الکھف)۔

٦٨۔ آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ سورہ نساء آیت نمبر ١٤٠ میں بھی مضموں گزر چکا ہے۔ اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ رسول کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔ یا عملاً ان کا استخفاف کیا جا رہا ہو یا اہل بدعت و اہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات نحیفہ کے ذریعے سے آیات الہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں ایسی مجالس میں غلط باتوں پر تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الہی کا باعث ہے۔

٦٩۔(١) مِنْ حِسَابِھِمْ کا تعلق آیات الٰہی کا استہزاد (جھٹلانے ) کرنے والوں سے ہے۔ یعنی وہ لوگ جو ایسی مجالس سے اجتناب کریں گے کہ اللہ کا جو گناہ استہزاد کرنے والوں کو ملے گا وہ اس گناہ سے محفوظ رہیں گے۔

٦٩۔(٢) یعنی اجتناب و علیحدگی کے باوجود وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ حتی المقدور ادا کرتے رہیں۔ شاید وہ بھی اپنی اس حرکت سے باز آ جائیں۔

٧٠۔١()  تُبْسَلَ، ای : لئلا تبسل بسل کے اصل معنی تو منع کے ہیں اسی سے ہے شُجَاعٌ بَاسِلٌ لیکن یہاں اس کے مختلف معنی کیے گئے ہیں۔۱: تُسَلَّمُ سونپ دیئے جائیں۔ (۲) : تُفْضَحُ رسوا کر دیا جا‏ئے۔ (۳) : تُؤَاخَذُ مواخذہ کیا جائے۔ ٤: تُجَازی بدلہ دیا جائے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سب کے معنی قریب قریب ہیں۔ خلاصہ (امام ابن کثیر (فرماتے ہیں کہ انھیں اس قرآن کے ذریعے نصیحت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو، جو اس نے کما یا، اس کے بدلے ہلاکت کے سپرد کر دیا جائے۔ یا رسوائی اس کا مقدر بن جائے یا وہ مواخذہ اور مجازات کی گرفت میں آ جائے۔ ان تمام مفہوم کو فاضل مترجم نے " پھنس نہ جائے "سے تعبیر کیا ہے۔

٧٠۔ دنیا میں انسان عام طور پر کسی دوست کی مدد یا کسی کی سفارش سے مالی معاوضہ دے کر چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں یہ تینوں ذریعے کام نہیں آئیں گے، وہاں کافروں کا کوئی دوست نہ ہو گا جو انھیں اللہ کی گرفت سے بچا لے نہ کوئی سفارشی ہو گا جو عذاب الٰہی سے نجات دلا دے اور نہ کسی کے پاس معاوضہ ہو گا اگر بالفرض محال ہو بھی تو قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ دے کر چھوٹ جائے، یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔

٧١۔(١) یہ ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راہ پر جا رہے ہوں۔ اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران و پریشان بھٹکتا پھر رہا ہو، ساتھی اسے بلا رہے ہوں لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف مراجع اس کے لئے ممکن نہ رہی ہو۔

٧١۔(٢) مطلب یہ کہ کفر اور شرک اختیار کر کے جو گمراہ ہو گیا، وہ بھٹک ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آ سکتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہدایت مقدر کر دی ہے تو یقیناً اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہو جائے گا۔ کیونکہ ہدایت پر چلا دینا اسی کا کام ہے۔ جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا۔ فان اللہ لا یھدی من یضل ومالھم من ناصرین (النحل)، جس کو وہ گمراہ کر دے۔ اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہو گا۔ لیکن یہ ہدایت اور گمراہی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بنایا ہوا ہے یہ نہیں ہے کہ یوں ہی جسے چاہے گمراہ اور جسے چاہے راہ یاب کرے جیسا کہ اس کی وضاحت متعدد جگہ کی جا چکی ہے۔

٧٢۔وَاَنْ اَقِیْمُوْا کا عطف لِنُسْلِمُ پر ہے۔ یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم رب العالمین کے مطیع ہو جائیں اور یہ کہ ہم نماز قائم کریں اور اس سے ڈریں تسلیم و انقیاد الٰہی کے بعد سب سے پہلا حکم اقامت صلات کا دیا گیا ہے جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے اور اس کے بعد تقویٰ اور خشوع کے بغیر ممکن نہیں۔ وانھا لکبیرۃ الا علی الخشعین (البقرہ)

٧٣۔(١) حق کے ساتھ یا با فا‏ئدہ پیدا کیا یعنی ان کو عبث اور بے فائدہ کھیل کود کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ایک خاص مقصد کے لیے کائنات کی تخلیق فرمائی ہے اور وہ یہ کہ اس اللہ کو یاد رکھا اور اس کا شکر ادا کیا جائے جس نے یہ سب کچھ بنایا۔

 ٧٣۔(۲) یوم فعل محذوف واذکر یا واتقوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی اس دن کو یاد کرو یا اس دن سے ڈرو! کہ اس کے لفظ کُن (ہو جا) سے وہ جو چاہے گا، ہو جائے گا۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حساب کتاب کے کٹھن مراحل بھی بڑی سرعت کے ساتھ طے ہو جائیں گے، لیکن کن کے لئے ؟ ایمانداروں کے لئے۔ دوسروں کو یہ دن ہزار سال یا پچاس ہزار سال کی طرح بھاری لگے گا۔

٧٣۔(۳) صور سے مراد نرسنگا یا بگل ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ' اسرافیل اسے منہ میں لئے اور اپنی پیشانی جھکائے، حکم الہی کے منتظر کھڑے ہیں کہ جب انھیں کہا جائے تو اس کے منہ میں پھونک مار دیں ' ابن کثیر ' ابو داؤد اور ترندی میں ہے۔ الصور قرن ینفخ فیہ (صور ایک قرن (نرسنگا) ہے جس میں پھونکا جائے گا بعض علماء کے نزدیک تین نفخے ہوں گے نفخۃ الصعق جس سے تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے نفخۃ الفناء جس سے تمام لوگ فنا ہو جائیں گے نفخۃ الانشاء جس سے تمام انسان دوبارہ زندہ ہو جائیں گے بعض علماء آخری دو نفخوں کے ہی قائل ہیں۔

٧٤۔ مورخین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے دو نام ذکر کرتے ہیں، آزر اور تارخ۔ ممکن ہے دوسرا نام لقب ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ آزر آپ کے چچا کا نام تھا، لیکن یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ قرآن نے آزر کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے طور پر ذکر کیا ہے، لہذا یہ صحیح ہے۔

٧٥۔ملکوت مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے رغبۃ سے رغبوت اور رھبہ سے رھبوت اس سے مراد مخلوقات ہے، جیسا کہ ترجمہ میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ یا ربوبیت ہے یعنی ہم نے اس کو یہ دکھلائی اور اس کی معرفت کی توفیق دی۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرش سے لے کر اسفل ارض تک کا ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو امور غیبی کا مشاہدہ کرایا۔ (فتح القدیر)

٧٦۔ یعنی غروب ہونے والے معبودوں کو پسند نہیں کرتا، اس لئے غروب، تغیر حال پر دلالت کرتا ہے جو حادث ہونے کی دلیل ہے اور جو حادث ہو معبود نہیں ہو سکتا۔

٧٨۔(١) شمس سورج عربی میں مونث ہے لیکن اسم اشارہ مذکر ہے مراد الطالع ہے یعنی طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے، کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کے سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں (اجرام فلکی) میں سورج سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن اور انسانی زندگی کی بقا وجود کے لئے اس کی اہمیت و افادیت محتاج وضاحت نہیں اس لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بے حیثیتی کو واضح فرمایا۔

٧٨۔(٢) یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے ہیں، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہو سکتے ہیں ؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نومولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی انہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انھیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ باتیں کی ہیں اسی لیے آخر میں قوم سے خطاب کر کے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔

٧٩۔ رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود اللہ عزوجل ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے۔

۸۰۔ جب قوم نے توحید کا یہ وعظ سنا جس میں ان کے خود ساختہ معبودوں کی تردید بھی تھی تو انہوں نے بھی اپنے دلائل دینے شروع کیے جس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے بھی اپنے شرک کے لیے کچھ نہ کچھ دلائل تراش رکھے تھے جس کا مشاہدہ آج بھی کیا جا سکتا ہے جتنے بھی مشرکانہ عقائد رکھنے والے گروہ ہیں سب نے اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرنے اور رکھنے کے لیے ایسے سہارے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سمجھتے ہیں یا جن سے کم از کم دام تزویر میں پھنسے ہوئے عوام کو جال میں پھنسائے رکھا جا سکتا ہے۔

٨١۔ یعنی مومن اور مشرک میں سے ؟ مومن کے پاس تو توحید کے بھرپور دلائل ہیں، جب کہ مشرک کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی کوئی دلیل نہیں، صرف اوہام باطلہ ہیں یا دور از کار تاویلات اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امن اور نجات کا مستحق کون ہو گا۔

٨٢۔ آیت میں یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام ظلم کا عام مطلب (کوتاہی اور غلطی، گناہ اور زیادتی وغیرہ) سمجھا، جس سے وہ پریشان ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آ کر کہنے لگے، ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' اس ظلم سے مراد وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے جس طرح حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کہا (اِنَّ الشِّرکَ لظُلْم عَظِیْم) یقیناً شرک ظلم عظیم ہے (صحیح بخاری)۔

٨٣۔ یعنی توحید الٰہی پر ایسی حجت اور دلیل، جس کا کوئی جواب ابراہیم علیہ السلام کی قوم سے بن نہ پڑا۔ اور وہ بعض کے نزدیک یہ قول تھا (وکیف اخاف ما اشرکتم ولا تخافون انکم اشرکتم باللہ مالم ینزل بہ علیکم سلطنا فای الفریقین احق بالامن) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کی تصدیق فرمائی اور کہا (اَ لَّذیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْ اِیْمَا نَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وھُمْ مُھْتَدُوْنَ)

٨٤۔(١) یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے نا امید ہو گئے تھے، جیسا کہ سورہ ہود آیت ٧٢، ٧٣ میں ہے پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب (علیہ السلام) ہو گا، جس کے معنی یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے یہ عقب (پیچھے سے ) مشتق ہے۔

 ۸٤۔(۲) ذریتہ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح علیہ السلام کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو اور بعض نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس لیے کہ ساری گفتگو انہی کے ضمن میں ہو رہی ہے لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط علیہ السلام کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم علیہ السلام میں سے نہیں ہیں وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام لوط علیہ السلام کے باپ نہیں چچا ہیں لیکن بطور تغلیب انھیں بھی ذریت ابراہیم علیہ السلام میں شمار کر لیا گیا ہے اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اولاد یعقوب علیہ السلام کے آباء میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے دیکھیے سورہ بقرہ آیت ۱۳۳

٨٥۔ عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر حضرت نوح علیہ السلام یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں اس لئے کہا گیا (حالانکہ ان کا باپ نہیں تھا) کہ لڑکی کی اولاد بھی ذریت رجال میں ہی شامل ہوتی ہے۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت حسن (اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے صاحبزادے ) کو اپنا بیٹا فرمایا ان ابنی ھذا سید و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین (صحیح بخاری) ' (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر)۔

٨٧۔ آبا سے اصول اور ذریات سے فروع مراد ہے۔ یعنی ان اصولوں و فروع اور اخوان میں سے بھی بہت سوں کو ہم نے مقام ہدایت سے نوازا آجتِیْبِآءُ کے معنی چن لینا اور اپنے خاص بندوں میں شمار کرنا اور ان کے ساتھ ملا لینا۔ یہ جَبِبْتُ المَآ ءَ فِی الحَوضِ (میں نے حوض میں پانی بھر لیا) سے مشتق ہے۔ پس اپنے خاص بندوں میں ملا لینا۔ اصطفاء تخلیص اور اختیار بھی اسی معنی میں مستعمل ہے جب کا مفعول مصطفی مجتبی مخلص اور مختار ہے (فتح القدیر)

٨٨۔ اٹھارہ انبیاء کے اسمائے گرامی ذکر کر کے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کر لیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہو جاتے۔ جس طرح دوسرے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' اے پیغمبر! اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہو جائیں گے، حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناک اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔

٨٩۔(١) اس سے مراد رسول اللہ کے مخالفین، مشرکین اور کفار ہیں۔

۸۹۔(٢) اس سے مراد مہاجرین و انصار اور قیامت تک آنے والے ایماندار ہیں۔

٩٠۔(١) اس سے مراد انبیاء مذکورین ہیں۔ ان کی پیروی کا حكم مسئلہ توحید میں اور ان احکام و شرائع میں ہے جو منسوخ نہیں ہوئے (فتح القدیر) کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہے ہیں گو شرائع اور مناہج میں کچھ کچھ اختلاف رہا جیسا کہ آیت شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا (الشوری) سے واضح ہے

٩٠۔(٢) یعنی تبلیغی دعوت کا، کیونکہ مجھے اس کا صلہ ہی کافی ہے جو آخرت میں عند اللہ ملے گا۔

٩٠۔(٣) جہان والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ پس یہ قرآن انھیں کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مستقیم پر گامزن کر دے گا۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے، ورنہ دیدہ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھنے والا معاملہ ہو گا۔

٩١۔(١) قَدَر کے معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور یہ کسی چیز کی اصل حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ رسل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ انھیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے، علاوہ ازیں اسی عدم معرفت الٰہی کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر رہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا کلام کس طرح نازل ہو سکتا ہے ؟جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اکان للناس عجبا ان اوحینا الی رجل منھم ان انذر الناس (یونس) کیا یہ بات لوگوں کے لیے باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کر کے اسے لوگوں کو ڈرانے پر مامور کر دیا ہے ؟ دوسرے مقام پر فرمایا وما منع الناس ان یومنوا اذجاء ھم الھدی الا ان قالوا ابعث اللہ بشرا رسولا (بنی اسرائیل) ہدایت آ جانے کے بعد لوگ اسے قبول کرنے سے اس لیے رک گئے کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے ؟ اس کی کچھ تفصیل اس سے قبل آیت نمبر ۸ کے حاشیے میں بھی گزر چکی ہے آیت زیر وضاحت میں بھی انہوں نے اپنے اس خیال کی بنیاد پر اس بات کی نفی کی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ ہی بات ہے تو ان سے پوچھو! موسیٰ علیہ السلام پر تورات کس نے نازل کی تھی (جس کو یہ مانتے ہیں )

٩١۔(٢) آیت کی مذکورہ تفسیر کے مطابق اب یہود سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو ظاہر کر دیتے ہو اور جن کو چاہتے ہو چھپا لیتے ہو۔ جیسے رجم کا مسئلہ یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صفات کا مسئلہ ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری وغیرہ نے دلیل یہ دی ہے کہ یہ مکی آیت ہے، اس میں یہود سے خطاب کس طرح ہو سکتا ہے ؟ اور بعض مفسرین نے پوری آیت کو ہی یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت و رسالت کا جو انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی، ضد اور عناد پر مبنی قول قرار دیا ہے۔ گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں۔ ایک پوری آیت کو یہود سے، دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے اور تیسرے آیت کی ابتدائی حصے کو مشرکین سے متعلق اور یہود سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ واللّٰہ اَعْلَمُ

٩١۔(٣) یہود سے متعلق ماننے کی صورت میں اس کی تفسیر ہو گی کہ تورات کے ذریعے سے تمہیں بتائی گئیں، بصورت دیگر قرآن کے ذریعے سے۔

٩١۔(٤) یہ مَنْ اَ نُزَ لَ (کس نے اتارا) کا جواب ہے

٩٣۔(١) ظالم سے مراد ہر ظالم ہے اور اس میں کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے اور جھوٹے مدعیان نبوت سب سے پہلے شامل ہیں۔ ' فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے، یعنی جان نکالنے کے لئے (آج) سے مراد قبض روح کا دن اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبداء قبر ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ورنہ ہاتھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ خیال رہے قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیان کی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے۔ چاہے اسے کسی درندے نے کھایا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہو گئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔

٩٣۔(٢) اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوائے نبوت بھی ہے اسی طرح نبوت و رسالت کا انکار و استکبار ہے۔ ان دونوں وجوہ سے انھیں ذلت و رسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔

٩٤۔ فرادی فرد کی جمع ہے جس طرح سکاری سکران کی اور کسالی کسلان کی جمع ہے۔ مطلب ہے کہ تم علیحدہ علیحدہ ایک ایک کر کے میرے پاس آؤ گے، تمہارے ساتھ نہ مال ہو گا نہ اولاد اور نہ معبود، جن کو تم نے اللہ کا شریک اور اپنا مددگار سمجھ رکھا تھا، یعنی ان میں سے کوئی چیز بھی فائدہ پہنچانے پر قادر نہ ہو گی۔ اگلے جملوں میں انہی امور کی مزید وضاحت ہے۔

٩٥۔(١) یہاں سے اللہ تعالیٰ کی بے مثال قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے، فرمایا :۔ اللہ تعالیٰ دانے (حب) اور گٹھلی کو، جسے کاشتکار زمین کی طے میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع و اقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے پانی بھی جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں، اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلو اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرماتا دیتا ہے۔ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کر سکتا ہو؟

٩٥۔(٢) یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا پھیلتا ہے اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبو دار رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر یا سونگھ کر انسان فرحت و انبساط محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔

٩٥۔(٣) یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔ حی اور میت کی تعبیر مومن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مومن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مومن پیدا کر دیتا ہے۔

٩٦۔(١) اندھیرے اور روشنی کا خالق بھی وہی ہے۔ وہ رات کی تاریکی سے صبح روشن پیدا کرتا ہے جس سے ہر چیز روشن ہوتی ہو جاتی ہے۔

٩٦۔(٢) یعنی رات کو تاریکیوں میں بدل دیتا ہے تاکہ لوگ روشنی کی تمام مصروفیات ترک کر کے آرام کر سکیں۔

٩٦۔(٣) یعنی دونوں کے لئے ایک حساب بھی مقدر ہے جس میں کوئی تغیر و اضطراب نہیں ہوتا، بلکہ دونوں کی اپنی اپنی منزلیں ہیں، جن پر وہ گرمی اور سردی میں رواں رہتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر سردی میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی اور گرمی میں اس سے برعکس دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ جس کی تفصیل سورہ یونس۔٥ سورۃ یٰسین ٤٠ اور سورہ اعراف ٥٤ میں بھی بیان کی گئی ہے۔

٩٧۔ ستاروں کا یہاں یہ ایک فائدہ اور مقصد بیان کیا گیا ہے، ان کے دو مقصد اور ہیں جو دوسرے مقام پر بیان کئے گئے ہیں۔ آسمانوں کی زینت اور شیطانوں کی مرمت۔ رجو ما للشیطین۔ یعنی شیطان آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہی۔ بعض علماء کا قول ہے۔ من اعتقد فی ہذاہ النجوم غیر ثلاث فقد اخطاء وکذب علی اللہ ان تینوں باتوں کے علاوہ ان ستاروں کے بارے میں اگر کوئی شخص کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ملک میں جو علم نجوم کا چرچا ہے، جس میں ستاروں کے ذریعے سے مستقبل کے حالات اور انسانی زندگی یا کائنات میں ان کے اثرات بتانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ بے بنیاد ہے اور شریعت کے خلاف بھی۔ چنانچہ ایک حدیث میں اسے جادو ہی کا ایک شعبہ بتلایا گیا ہے۔ من اقتبس علماء من النجوم اقتبس شعبۃ من السحر زاد ما زاد ( حسنہ الالبانی صحیح ابی داؤد)

٩٨۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مُسْتَقَر سے رحم مادر اور مُسْتِوْدَع سے صلب پدر مراد ہے (فتح القدیر)

٩٩۔(١) یہاں سے اس کی ایک اور عجیب صنعت (کاریگری) کا بیان ہو رہا ہے یعنی بارش کا پانی جس سے وہ ہر قسم کے درخت پیدا فرماتا ہے۔

 ٩٩۔(۲) اس سے مراد سبز شاخیں اور کونپلیں ہیں جو زمین میں دبے ہوئے دانے سے اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر ظاہر فرما رہا ہے، پھر وہ پودا یا درخت نشو نما پاتا ہے۔

٩٩۔ (۳) یعنی ان سبز شاخوں سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں۔ جس طرح گندم اور چاول کی بالیاں ہوتی ہیں۔ مراد یہ سب غلہ جات مثلاً جو، جوار، باجرہ، مکئی، گندم اور چاول وغیرہ۔

٩٩۔(۴) قنوان قنو کی جمع ہے جیسے صٓنو اور صنوان ہے مراد خوشے ہیں۔ طَلْع،ُ وہ گابھا یا گچھا ہے جو کھجور کی ابتدائی شکل ہے، یہی بڑھ کر خوشہ بنتا ہے اور پھر رطب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ دنِیَۃُ، سے مراد وہ خوشے ہیں جو قریب ہوں۔ اور کچھ خوشے دور ہوتے ہیں جن تک ہاتھ نہیں پہنچتے بطور امتنان دانیۃ کا ذکر فرما دیا ہے مطلب ہے منھا دانیہ ومنھا بعیدۃ (کچھ خوشے قریب ہیں اور کچھ دور) بَعِیدۃُ، محذوف ہے۔ (فتح الْقدیر)۔

٩٩۔(۵) جنات زیتون اور رمان یہ سب منصوب ہیں جن کا عطف نبات پر ہے یعنی فاخرجنا بہ جنات یعنی بارش کے پانی سے ہم نے انگوروں کے باغات اور زیتون اور انار پیدا کیے۔

٩٩۔(۶)  یعنی بعض اوصاف میں یہ باہم ملتے جلتے ہیں اور بعض میں ملتے جلتے نہیں ہیں یا ان کے پتے ایک دوسرے سے ملتے ہیں پھل نہیں ملتے یا شکل میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن مزے اور ذائقے میں باہم مختلف ہیں۔

 ٩٩۔(۷)  یعنی مذکورہ تمام چیزوں میں خالق کائنات کے کمال قدرت اور اس کی حکمت و رحمت کے دلائل ہیں۔

١٠١۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے میں واحد ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اس طرح وہ اس لائق ہے اس اکیلے کی عبادت کی جائے، عبادت میں کسی اور کو شریک نہ بنایا جائے۔ لیکن لوگوں نے اس ذات واحد کو چھوڑ کر جنوں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے، حالانکہ وہ خود اللہ کے پیدا کردہ ہیں مشرکین عبادت تو بتوں کی یا قبروں میں مدفون اشخاص کی کرتے ہیں لیکن یہاں کہا گیا ہے کہ انہوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے، بات دراصل یہ ہے کہ جنات سے مراد شیاطین کے کہنے سے ہی شرک کیا جاتا ہے اس لئے گویا شیطان ہی کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ نساء۔١١٧ سورۃ مریم۔ ٤٤ سورۃ یٰسین ٦٠، سورہ سبا۔٤١۔

١٠٣۔ابصار بصر نگاہ کی جمع ہے۔ یعنی انسان کی آنکھیں اللہ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور اگر اس سے مراد روئیت بصری ہو تو اس کا تعلق دنیا سے ہو گا۔ یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم یہ صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار سے مشرف ہوں گے۔ اس لئے مسلمانوں کا ایک فرقہ کا اس آیت سے ثبوت و دلیل کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اللہ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا، دنیا میں نہ آخرت میں، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس نفی کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی ہیں، جس شخص نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے (شب معراج میں ) اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے، اس نے قطعاً جھوٹ بولا (صحیح بخاری)، کیونکہ اس آیت کی روح سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی میں دیدار ممکن ہو گا، جیسے دوسرے مقام پر قرآن نے اس کا اثبات فرمایا :۔(وُجُوْہ،ُ یَّوْمُئِذ نَّاظِرَۃ اِلیٰ رَبِّھَا نَاظِرَۃ) کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

١٠٤۔ (۱) بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جو اصل میں دل کی روشنی کا نام ہے یہاں مراد وہ دلائل ہیں، جو قرآن نے جگہ جگہ اور بار بار بیان کئے ہیں اور جنہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی احادیث میں بیان فرمایا ہے جو ان دلائل کو دیکھ کر ہدایت کا راستہ اپنا لے گا اس میں اسی کا فائدہ ہے، نہیں اپنائے گا تو اسی کا نقصان ہے۔ جیسے فرمایا من اھتدی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیھا بنی اسرائیل اس کا مطلب بھی وہی ہے جو زیر وضاحت آیت کا ہے

 ۱۰٤۔(۲) بلکہ صرف مبلغ داعی اور بشیر و نذیر ہوں راہ دکھلانا میرا کام ہے راہ پر چلا دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔

١٠٥۔ یعنی ہم توحید اور اس کے دلائل کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین یہ کہنے لگتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہیں سے پڑھ کر اور سیکھ کر آیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ وقال الذین کفروا ان ھذا الا افک افتراہ واعانہ علیہ قوم اخرون فقد جاءو ظلما وزورا وقالوا اساطیر الاولین اکتتبھا (الفرقان) کافروں نے کہا، یہ قرآن تو اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، جس پر دوسروں نے بھی اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا دعویٰ کر کے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ نیز انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جس کو اس نے لکھ کر رکھا ہے ' حالانکہ بات یہ نہیں ہے، جس طرح یہ سمجھتے یا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ مقصد اس تفصیل سے سمجھ دار لوگوں کے لئے بیان و تشریح ہے تاکہ ان پر حجت بھی ہو جائے۔

١٠٧۔(١) اس نکتے کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے کہ اللہ کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ تاہم اس نے اس پر انسانوں کو مجبور نہیں کیا کیونکہ جبر کی صورت میں انسان کی آزمائش نہ ہوتی، ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو ایسے اختیارات ہیں کہ وہ چاہے تو کوئی انسان شرک کرنے پر قادر ہی نہ ہو سکے (مزید دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٥٣ اور سورہ الانعام آیت٣٥ کا حاشیہ)۔

۱۰۷۔(۲) یہ مضمون بھی قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مقصد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی داعیانہ اور مبلغانہ حیثیت کی وضاحت ہے جو منصب رسالت کا تقاضا ہے اور آپ صرف اسی حد تک مکلف تھے اس سے زیادہ آپ کے پاس اگر اختیارات ہوتے تو آپ اپنے محسن چچا ابو طالب کو ضرور مسلمان کر لیتے جن کے قبول اسلام کی آپ شدید خواہش رکھتے تھے

١٠٨۔ یہ سد ذریعہ کے اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک درست کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس درست کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاؤ گے (صحیح مسلم)

١٠٩۔(١) جھد ایمانہم، ای : حلفوا ایمانا مؤکدۃ بڑی تاکید سے قسمیں کھائیں۔

١٠٩۔(٢) یعنی کوئی بڑا معجزہ جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، جیسے عصائے موسیٰ علیہ السلام۔ احیائے موتی اور ناقۂ خمود وغیرہ جیسا۔

١٠٩۔(٣) ان کا یہ مطالبہ خرق عادت تعنت و عناد کے طور پر ہے، طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ہے۔ تاہم ان نشانیوں کا ظہور تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو ان کا مطالبہ پورا کر دے۔ بعض مرسل روایات میں ہے کہ کفار نے مطالبہ کیا تھا کہ صفا پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، جس پر جبرائیل علیہ السلام نے آ کر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو پھر انھیں ہلاک کر دیا جائے گا جسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پسند نہ فرمایا۔ (ابن کثیر)

١١٠۔ اس کا مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تو اس کا وبال ان پر اس طرح پڑا کہ آئندہ بھی ان کے ایمان لانے کا امکان ختم ہو گیا۔ دلوں اور نگاہوں کو پھیر دینے کا یہی مفہوم ہے (ابن کثیر)

١١١۔(١) اور وہ حضرت محمد رسول اللہ کی رسالت کی تصدیق کر دیتے۔

١١١۔(٢) دوسرا مفہوم اس کا بیان کیا گیا ہے کہ جو نشانیاں وہ طلب کرتے ہیں وہ سب ان کے روبرو پیش کر دیتے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز جمع ہو کر گروہ در گروہ یہ گواہی دے کہ پیغمبروں کا سلسلہ برحق ہے تو ان تمام نشانیوں اور مطالبوں کے پورا کر دینے کے باوجود یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ مگر جس کو اللہ چاہے اسی مفہوم کی یہ آیت بھی ہے (سورۃ یونس ٩٦۔٩٧) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو گئی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آ جائے یہاں تک کہ کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔

١١١۔(۳) اور یہ جہالت کی باتیں ہی ان کے اور حق قبول کرنے کے درمیان حائل ہیں۔ اگر جہالت کا پردہ اٹھ جائے تو شاید حق ان کی سمجھ میں آ جائے اور اللہ کی مشیت سے حق کو اپنا لیں۔

١١٢۔(١) یہ وہی بات ہے جو مختلف انداز میں رسول اللہ کی تسلی کے لئے فرمائی گئی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء گزرے ان کو جھٹلایا گیا انھیں ایذائیں دی گئیں وغیرہ وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے صبر اور حوصلے سے کام لیا، آپ بھی ان دشمنان حق کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ فرمائیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کے پیروکار جنوں میں سے بھی ہیں اور یہ وہ ہیں جو دونوں گروہوں میں سے، باغی اور متکبر قسم کے ہیں۔

١١٢۔(٢) وَ حْیُ، خفیہ بات کو کہتے ہیں یعنی انسانوں اور جنوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو چالبازیاں اور حیلے سکھاتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کر سکیں۔ یہ بات عام مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ شیطانی کاموں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کر تعاون کرتے ہیں جسکی وجہ سے برائی بہت جلدی فروغ پا جاتی ہے۔

١١٢۔(٣) یعنی اللہ تعالیٰ تو ان شیطانی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر قادر ہے۔ لیکن بالجبر ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا اس کے نظام اور اصول کے خلاف ہے جو اس نے اپنی مشیت کے تحت اختیار کیا، جس کی حکمتیں وہ بہتر جانتا ہے۔

١١٣۔ یعنی شیطانی وسوسہ کا شکار وہی لوگ ہوتے ہیں اور وہی اس کو پسند کرتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جو آخرت میں ایمان نہیں رکھتے۔ اور یہ حقیقت ہے کی جس حساب سے لوگوں کے اندر عقیدۂ آخرت کے بارے میں ضعف پیدا ہو رہا ہے، اسی حساب سے لوگ شیطانی جال میں پھنس رہے ہیں۔

١١٤۔ آپ کو خطاب کر کے دراصل امت کو تعلیم دی جا رہی ہے۔

١١٥۔(١)  اخبار اور واقعات کے لحاظ سے سچا ہے اور احکام و مسائل کے اعتبار سے عادل ہے، یعنی اس کا ہر امر اور نہی عدل و انصاف پر مبنی ہے، کیونکہ اس نے انہی باتوں کا حکم دیا ہے جن میں انسانوں کا فائدہ ہے اور انہی چیزوں سے روکا ہے جس میں نقصان اور فساد ہے۔ گو انسان اپنی نادانی یا اغوائے شیطانی کی وجہ سے اس حقیقت کو نہ سمجھ سکیں۔

١١٥۔(٢) یعنی کوئی ایسا نہیں جو رب کے کسی حکم میں تبدیلی کر دے، کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی طاقتور نہیں۔

١١٥۔(٣) یعنی بندوں کے اقوال سننے والا اور ان کی ایک ایک حرکت و ادا کو جاننے والا ہے اور اس کے مطابق ہر ایک کو جزا دے گا۔

١١٦۔ قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا بھی، واقعہ کے طور پر ہر دور میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (سورہ یوسف،١٠٣) آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان والے نہیں، اس سے معلوم ہوا، حق اور صداقت کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ جس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حق و باطل کا معیار، دلائل و براہین ہیں، لوگوں کی اکثریت و اقلیت نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو اکثریت نے اختیار کیا ہوا ہو، وہ حق ہو اور اقلیت میں رہنے والے باطل پر ہوں۔ بلکہ مذکورہ حقیقت قرآنی کی رو سے یہ زیادہ ممکن ہے کہ اہل حق تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہوں اور اہل باطل اکثریت میں۔ جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہو گا، باقی سب جہنمی۔ اور اس جنتی فرقے کی نشانی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بیان فرمائی کہ جو ما انا علیہ و اصحابی میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہو گا۔

١١٨۔ یعنی جس جانور پر شکار کرتے وقت یا ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے۔ اسے کھالو بشرطیکہ وہ ان جانوروں میں سے ہو جن کا کھانا حلال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیب نہیں البتہ اس سے ایسی صورت مستثنیٰ ہے جس میں یہ التباس ہو کہ ذبح کے وقت ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں ؟ اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر اسے کھالو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ سے پوچھا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں (اس سے مراد اعرابی تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی تعلیم و تربیت سے پوری طرح بہرہ ور نہیں تھے ) ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا تم اللہ کا نام لے کر اسے کھا لو ' البتہ شبہ کی صورت میں یہ رخصت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے جانور کا گوشت بسم اللہ پڑھ لینے سے حلال ہو جائے گا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منڈیوں اور دکانوں پر ملنے والا گوشت حلال ہے۔ ہاں اگر کسی کو وہم اور التباس ہو تو وہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔

١١٩۔  جس کی تفصیل اسی سورت میں آگے آ رہی ہے، اس کے علاوہ بھی اور سورتوں نیز احادیث میں محرمات کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔ ان کے علاوہ باقی حلال ہیں اور حرام جانور بھی عند الاضطرار سد رمق کی حد تک جائز ہیں۔

١٢١۔(١) یعنی عمداً اللہ کا نام جس جانور پر نہ لیا گیا، اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے، حضرت ابن عباس نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا اور امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے تاہم امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے چاہے وہ اللہ کا نام لے یا چھوڑ دے اور وَ اِنَّہُ لَفِسْق،ُکو غیر اللہ کے نام ذبح کئے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں

١٢١۔(٢) شیطان نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے سے یہ بات پھیلائی کہ یہ مسلمان اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور (یعنی مردہ) کو تو حرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کو حلال قرار دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگو، جو جانور مردہ ہے یعنی بغیر ذبح کئے مر گیا (سوائے سمندرى مچھلی کے وہ حلال ہے ) اس پر چونکہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اس لئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔

١٢٢۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو میت (مردہ) مومن کو حی (زندہ) قرار دیا۔ اس لئے کہ کافر کفرو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس سے نکل ہی نہیں پاتا جس کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔ اور مومن کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان کے ذریعے سے زندہ فرماتا ہے جس سے زندگی کی راہیں اس کے لئے روشن ہو جاتی ہیں اور وہ ایمان اور ہدایت کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ کامیابی اور کامرانی ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو حسب ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بقرہ ۲۵۷، سورہ ھود ۲٤، سورہ فاطر، ۱۹،۲۲،

١٢٣۔(١) اکابر اکبر کی جمع ہے مراد کافروں اور فاسقوں کے سرغنے اور کھڑپینچ ہیں کیونکہ یہی انبیاء اور داعیان حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں اور عام لوگ تو صرف ان کے پیچھے لگنے والے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے لوگ عام طور پر دنیاوی دولت اور خاندانی وجاہت کے اعتبار سے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ اس لیے مخالفت حق میں بھی ممتاز ہوتے ہیں یہی مضمون سورہ سبا کی آیات ۳۱ تا ۳۳ سورہ زخرف ۲۳ سورہ نوح ۲۲ وغیرھا میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

١٢٣۔(٢) یعنی ان کی اپنی شرارت کا وبال اور اسی طرح ان کے پیچھے لگنے والے کا وبال، انہی پر پڑے گا (مزید دیکھے سورۃ عنکبوت ١٣ سورہ نحل ٢٥)

١٢٤۔(١) یعنی ان کے پاس بھی فرشتے وحی لے کر آئیں ان کے سروں پر بھی نبوت اور رسالت کا تاج رکھا جائے۔

 ١٢٤۔(٢) یعنی یہ فیصلہ کرنا کہ کس کو نبی بنایا جائے ؟ یہ تو اللہ ہی کام ہے کیونکہ وہی ہر بات کی حکمت و مصلحت کو جانتا ہے اور اسے ہی معلوم ہے کون اس منصب کا اہل ہے ؟ مکہ کا کوئی چوہدری اور رئیس یا جناب عبد اللہ و حضرت آمنہ کا در یتیم۔

١٢٥۔(١) یعنی جس طرح زور لگا کر آسمان پر چڑھنا ممکن نہیں۔ اسی طرح جس شخص کے سینے کو اللہ تعالیٰ تنگ کر دے اس میں توحید اور ایمان کا داخلہ ممکن نہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا سینہ اس کے لئے کھول دے۔

١٢٥۔(٢) یعنی جس طرح سینہ تنگ کر دیتا ہے اسی طرح رجس میں مبتلا کر دیتا ہے، رجس سے مراد پلیدی یا عذاب یا شیطان کا تسلط ہے۔

١٢٧۔ یعنی جس طرح دنیا میں اہل ایمان کفر و ضلالت کے کج راستوں سے بچ کر ایمان و ہدایت کی صراط مستقیم پر گامزن رہے، اب آخرت میں بھی ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کا، ان کے نیک عملوں کی وجہ سے دوست اور کار ساز ہے۔

١٢٨۔(١) یعنی انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد تم نے گمراہ کر کے اپنا پیروکار بنا لیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ یٰسین میں فرمایا ' اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کر دیا تھا کہ تم شیطان کی پوجا مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے اور شیطان نے تمہاری ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کر دیا ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے (یٰسین۔ ٦٠،٦٢)۔

١٢٨۔(٢) جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے کیا فائدہ حاصل کیا؟ اس کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا ان کو اپنا پیروکار بنا کر تلذذ حاصل کرنا اور انسانوں کا جنوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ شیطان نے گناہوں کو ان کے لئے خوبصورت بنا دیا جسے انہوں نے قبول کیا اور گناہوں کی لذت میں پھنسے رہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کی انسان ان غیبی خبروں کی تصدیق کرتے رہے جو شیاطین و جنات کی طرف سے کہانت کے طور پر پھیلائی جاتی تھیں ا۔ یہ گویا جنات نے انسانوں کو بیوقوف بنا کر فائدہ اٹھایا یہ ہی انسان جنات کا بیان کردہ جھوٹی اٹکل پچو باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور کاہن قسم کے لوگ ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرتے۔

١٢٨۔(٣) یعنی قیامت واقع ہو گئی جسے ہم دنیا میں نہیں مانتے تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب جہنم تمہارا دائمی ٹھکانا ہے۔

١٢٩۔ یعنی جہنم میں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کو ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار بنایا اسی طرح ہم نے ظالموں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر ہم مسلط کر دیتے ہیں اس ایک ظالم دوسرے ظالم کو ہلاک اور تباہ کرتا ہے اور ایک ظالم کا انتقام دوسرے ظالم سے لے لیتے ہیں۔

١٣٠۔(١) رسالت و نبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے وجود سے پہلے سے ہے تو ان کی ہدایت کے لئے انہیں میں سے کوئی نبی آیا ہو گا پھر آدم علیہ السلام کے وجود کے بعد ہو سکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم کی رسالت بہرحال تمام جن انس کے لئے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔

١٣٠۔(٢) میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الانعام،١٢٣) اور کبھی اقرار کئے بغیر چارہ نہیں ہو گا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔

١٣١۔ یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کر دیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورۃ فاطر آیت، ٤٢۔ سورۃ نحل ٦٢، سورۃ بنی اسرائیل ١٥ اور سورہ ملک ٨،٩ وغیرہ میں بیان کی گئی ہے۔

١٣٢۔ یعنی ہر انسان اور جن کے، ان کے با ہمی درجات میں، عملوں کے مطابق، فرق، تفاوت ہو گا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات بھی انسانوں کی طرح جنتی اور جہنمی ہوں گے۔

١٣٣۔(١) وہ غنی بے نیاز ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لیے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لیے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لیے رحیم بھی ہے۔ اس کی بے نیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔

١٣٣۔(۲) یہ اس کی بے پناہ قوت اور غیر محدود قدرت کا اظہار ہے جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست و نبود کر دے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کر دے جو تم جیسی نہ ہو۔ مزید ملاحظہ ہو سورہ نساء ۱۳۳، سورہ ابراہیم ۲۰، سورہ فاطر ۱۵،۱۷، سورہ محمد ۳۸۔

١٣٤۔١س سے مراد قیامت ہے اور تم عاجز نہیں کر سکتے کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے چاہے تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہو چکے ہو۔

١٣٥۔(١) یہ کفر اور معصیت پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سخت وعید ہے جیسا کہ اگلے الفاظ سے واضح ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (جو ایمان نہیں لاتے ان سے کہہ دیجئے ! کہ تم اپنی جگہ عمل کئے جاؤ ہم بھی عمل کرتے ہیں اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں ) سورۃ ہود۔ (۲) ١۔ (۲) ٢١۔

١٣٥۔(۲)جیسا کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ سچا کر دکھا یا۔۸ ہجری میں مکہ فتح ہو گیا اور اس کی فتح کے بعد عرب قبائل جوق در جوق مسلمان ہونا شروع ہو گئے اور پورا جزیرہ عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا۔

١٣٦۔(١) اس آیت میں مشرکوں کے عقیدہ و عمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھا تھا اور وہ زمینی پیداوار اور مال مویشی میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لئے مقرر کر لیتے اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقرا اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے اور بتوں کے حصے کو مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقرر حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکال کر اس میں شامل کر لیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہو تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔

١٣٦۔(٢) یعنی اللہ کے حصہ کی کمی کی صورت میں بتوں کی مقررہ حصے میں سے صدقات و خیرات نہ کرتے۔

١٣٦۔(٣) ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہو جاتی تو وہ اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرچ کر لیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آج کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔

١٣٧۔(١) یہ اشارہ ہے ان کی بچیوں کے زندہ درگور کر دینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔

١٣٧۔(٢) یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کر دیں۔

١٣٧۔(٣) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی کو سلب کر لیتا، تو پھر یقیناً یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے ہی لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہو سکتی تھی، جب کہ اللہ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لئے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔

١٣٨۔(١)  اس میں ان کی جاہلی شریعت اور اباطیل کی تین صورتیں اور بیان فرمائی ہیں۔ حجرً(بمعنی منع) اگرچہ مصدر ہے لیکن مفعول یعنی مَحْجُوْر (ممنوع) کے معنی ہیں یہ پہلی صورت ہے کہ جانور یا فلاں کھیت کی پیداوار، ان کا استعمال ممنوع ہے۔ اسے صرف وہی کھائے گا جسے ہم اجازت دیں گے۔ یہ اجازت بتوں کے خادم اور مجاورین کے لئے ہوتی ہے۔

١٣٨۔(٢) یہ دوسری صورت ہے کہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام آزاد چھوڑ دیتے ہیں جن سے وہ بار برداری یا سواری کا کام نہ لیتے جیسے تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔

١٣٨۔(٣) یہ تیسری صورت ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت صرف اپنے بتوں کا نام لیتے ہیں، اللہ کا نام نہ لیتے، بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جانوروں پر بیٹھ کر وہ حج کے لئے نہ جاتے۔ بہرحال یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں لیکن اللہ پر افترا باندھتے یعنی یہ باور کراتے کہ اللہ کے حکم سے ہی سب کچھ کر رہے ہیں۔

١٣٩۔(١) یہ ایک اور شکل ہے کہ جو جانور وہ اپنے بتوں کے نام وقف کرتے، ان میں سے بعض کے بارے میں کہتے کہ ان کا دودھ اور ان کے پیٹ سے پیدا ہونے زندہ بچہ صرف ہمارے مردوں کے لیے حلال ہے، عورتوں کے لیے حرام ہے ہاں اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا تو پھر اس کے کھانے میں مرد و عورت برابر ہیں۔

١٣٩۔(۲) اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جو غلط بیانی کرتے ہیں اور اللہ پر افترا باندھتے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ انہیں سزا دے گا۔ وہ اپنے فیصلوں میں حکیم ہے اور اپنے بندوں کے بارے میں پوری طرح علم رکھنے والا ہے اور اپنے علم اور حکمت کے مطابق وہ جزا اور سزا کا اہتمام فرمائے گا۔

١٤١۔(١) معروشات کا مادہ عرش ہے جس کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ معروشات سے مراد بعض درختوں کی وہ بیلیں ہیں ٹٹیوں (چھپروں منڈیروں وغیرہ) پر چڑھائی جاتی ہیں، جیسے انگور اور بعض ترکاریوں کی بیلیں ہیں۔ اور غیر معروشات، وہ درخت ہیں جن کی بیلیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں بلکہ زمین پر ہی پھیلتی ہیں، جیسے خربوزہ اور تربوز کی بیلیں درخت اور کھجور کے درخت اور کھیتیاں، جن کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زیتون اور انار، ان سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔

١٤١۔(٢) اس کے لیے دیکھئے آیت ٩٩ کا حاشیہ۔

١٤١۔(٣) یعنی جب کھیتی سے غلہ کاٹ کر صاف کر لو اور پھل درختوں سے توڑ لو، تو اس کا حق ادا کرو۔ حق سے مراد علماء کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک صدقہ واجبہ یعنی عشر، دسواں حصہ اگر زمین بارانی ہو تو نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (اگر زمین کنویں، ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہے )۔

١٤١۔(٤) یعنی صدقہ خیرات میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو، ایسا نہ ہو کل کو تم ضرورت مند ہو جاؤ۔ بعض کہتے ہیں اس کا تعلق حکام سے ہے یعنی صدقات اور زکوٰۃ کی وصولی میں حد سے تجاوز نہ کرو اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاق آیت کی رو سے زیادہ صحیح لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم کے لئے مضر ہے دوسرے مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا، جس سے واضح ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری ہے اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔آج کل مسلمانوں نے اس اسراف کو اپنی امارت کے اظہار کی علامت بنا لیا ہے۔

١٤١۔(٥) اس لئے اسراف کسی چیز میں بھی پسندیدہ نہیں، صدقہ و خیرات دینے میں نہ کسی اور چیز میں، ہر چیز میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب اور محبوب ہے اس کی تاکید کی گئی ہے۔

١٤٢۔(١) حُمُولَۃً (بوجھ اٹھانے والے ) مراد اونٹ، بیل، گدھا خچر وغیرہ ہیں، جو بار برداری کے کام آتے ہیں اور فَرْشاً سے مراد زمین سے لگے ہوئے جانور، جیسے بکری وغیرہ جس کا دودھ پیتے ہو گوشت کھاتے ہو۔

١٤٢۔(٢) یعنی پھلوں کھیتوں اور چوپایوں سے۔ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور انکو تمہاری خوراک بنایا ہے۔

١٤٢۔(٣) جس طرح مشرکین اس کے پیچھے لگ گئے اور حلال جانوروں کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا گویا اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام یا حرام کو حلال کر لینا، یہ شیطان کی پیروی ہے۔

١٤٣۔(١) یعنی انشأ ثمانیۃ ازواج (اسی اللہ تعالیٰ نے آٹھ زوج پیدا کیئے ) ایک ہی جنس کے نر اور مادہ کو زوج (جوڑا) کہا جاتا ہے اور ان دونوں کے ایک فرد کو بھی زوج کہہ لیا جاتا ہے کیا ان کہ ہر ایک دوسرے کے لئے زوج ہوتا ہے۔ قرآن میں اس مقام پر بھی ازواج، افراد ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی ۸ افراد اللہ نے پیدا کیے۔ جو باہم ایک دوسرے کا جوڑا ہیں یہ نہیں کہ زوج کہ بمعنی جوڑے پیدا کیے کیونکہ اس طرح تعداد ۸ کے بجائے ۱٦ ہو جائے گی جو آیت کے اگلے حصہ کے مطابق نہیں ہے۔

١٤٣۔(٢) یہ ثَمَا نِیَۃَ سے بدل ہے اور مراد دو قسم نر اور مادہ یعنی بھیڑ سے نر اور مادہ۔ اور بکری سے نر اور مادہ پیدا کیئے (بھیڑ میں ہی دنبہ چھترا شامل ہے )۔

١٤٣۔(٣) مشرکین بعض جانوروں کو اپنے طور پر ہی حرام کر لیتے تھے، اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ماداؤں کو یا اس بچے کو جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں ؟ مطلب یہ کہ اللہ نے کسی کو حرام نہیں کیا۔

١٤٣۔(٤) تمہارے پاس حرام کر دینے کی کوئی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِیْرَۃ، سَاَئِبَۃِ، وَصِیْلَۃِ اور حَامِ وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔

١٤٤۔(١) یہ بھی ثَمَانِیْۃَ سے بدل ہے اور یہاں بھی دو دو قسم سے دونوں کے نر مادہ مراد ہیں اور یوں یہ آٹھ قسمیں پوری ہو گئیں۔

١٤٤۔(٢) یعنی تم جو بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہو، کیا جب اللہ نے ان کی حرمت کا حکم دیا تو تم اس کے پاس موجود تھے، مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کی حرمت کا کوئی حکم ہی نہیں دیا۔ یہ سب تمہارا افترا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو۔

١٤٤۔(٣) یعنی یہ ہی سب سے بڑا ظالم ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی نے فرمایا کہ میں نے عمر بن لحی کو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھنچتے ہوئے دیکھا، اس نے سب سے پہلے بتوں کے نام پر وصیلہ اور حام وغیرہ جانور چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ عمر بن لحی، خزعہ قبیلے کے سرداروں میں سے تھا جو جرہم قبیلے کے بعد خانہ کعبہ کا ولی بنایا تھا، اس نے سب سے پہلے دین ابراہیمی میں تبدیلی کی قائم کر کے لوگوں کو ان کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور مشرکانہ رسمیں جاری کیں (ابن کثیر) بہرحال مقصود آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آٹھ قسم کے جانور پیدا کر کے بندوں پر احسان فرمایا ہے، ان میں سے بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام کر لینا، اللہ کے احسان کو رد کرنا بھی ہے اور شرک کا ارتکاب بھی۔

١٤٥۔ اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے، اس کی ضروری تفصیل سورۃ بقرہ ١٧٣ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے یہاں یہ نکتہ مزید قابل وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمہ حصر سے کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین جاہلانہ طریقوں اور ان کے بیان چلا رہا ہے۔ ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کر رکھے تھے۔ امام شوکانی نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقیناً محرمات کا حصر قابل تسلیم تھا لیکن چونکہ اس کے بعد خود قرآن نے المائدہ میں بعض محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبی نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائیں ہیں، تو اب وہ بھی ان میں شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پرندوں اور درندوں کے حلت و حرمت معلوم کرنے کے لیے دو اصول بیان فرما دئیے ہیں جن کی وضاحت بھی مذکورہ محولہ حاشیہ میں موجود ہے۔ او فسقا کا عطف لحم خنزیر پر ہے۔ اس لیے منصوب ہے، معنی ہی ای ذبح علی الاصنام، وہ جانور جو بتوں کے نام پر یا ان کے تھانوں پر ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیے جائیں۔ یعنی ایسے جانوروں پر گو عند الذبح اللہ کا نام لیا جئے تب بھی حرام ہوں گے کیونکہ ان سے اللہ کا تقرب نہیں۔ غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہے۔ فسق رب کی اطاعت سے خروج کا نام ہے۔ رب نے حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے اور سارا اسی کے تقرب و نیاز کے لیے کیا جائے اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہی فسق اور شرک ہے۔

١٤٦۔(١) ناخن والے جانوروں سے مراد وہ ہاتھ والے جانور جن کی انگلیاں پھٹی ہوئی یعنی جدا جدا نہ ہوں۔ جیسے اونٹ شتر مرغ، بطخ، قاز گائے اور بکری وغیرہ۔ ایسے سب چرند پرند حرام تھے۔ گویا صرف وہ جانور اور پرندے ان کے لئے حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔

١٤٦۔(٢) یعنی جو چربی گائے یا بکری کی پشت پر ہو (دنبے کی چکی ہو) یا انتریوں (یا اوجھ) یا ہڈیوں کے ساتھ ملی ہو۔ چربی کی مقدار حلال تھی۔

١٤٦۔(٣) یہ چیزیں ہم نے بطور سزا ان پر حرام کی تھیں یعنی یہود کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ یہ چیزیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کی ہوئی تھیں اور ہم تو ان کو اتباع میں ان کو حرام سمجھتے ہیں۔

١٤٦۔(٤) اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود یقیناً اپنے مذکورہ دعوے میں جھوٹے تھے۔

١٤٧۔(١) اس لئے تکذیب کے باوجود عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔

ٍ١٤٧۔(٢) یعنی مہلت دینے کا مطلب ہمیشہ کے لئے عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا نہیں ہے۔ وہ جب بھی عذاب دینے کا فیصلہ کرے گا تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا۔

١٤٨۔(١) یہ وہی مغالطہ ہے جو مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھ لینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے۔

١٤٨۔(٢) اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا، عذاب الٰہی سے اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز۔

١٤٨۔(٣) یعنی اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو لیکن ان کے پاس دلیل کہاں ؟ وہاں تو صرف اوہام و ظنون ہی ہیں۔

١٥٠۔(١) یعنی وہ جانور، جن کو مشرکین حرام قرار دیے ہوئے تھے۔

١٥٠۔(٢) کیونکہ ان کے پاس سوائے کذب و افترا کے کچھ نہیں۔

١٥٠۔(٣) یعنی اس کا عدیل (برابر کا) ٹھہرا کر شرک کرتے ہیں۔

١٥١۔(١) یعنی حرام وہ نہیں ہیں جن کو تم بلا دلیل، محض اپنے اوہام باطلہ اور ظنون فاسدہ کی بنیاد پر قرار دے رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے، کیونکہ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا پالنہار وہی ہے ہر چیز کا علم بھی اسی کے پاس ہے اس لئے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے۔ چنانچہ میں تم کو ان باتوں کی تفصیل بتلاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔

١٥١۔(٢) ان لا تشرکوا سے پہلے اوصاکم محذوف ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو تم شریک مت ٹھہراؤ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔ قرآن مجید میں ساری چیزیں مختلف انداز سے بار بار بیان ہوئی ہیں۔ اور نبی کریم نے بھی حدیث میں ان کو تفصیل اور وضاحت بیان فرمایا ہے۔ اس کے باوجود یہ واقع ہے کہ لوگ شیطان کے بہکاوے میں آ کر شرک کا عام ارتکاب کر تے ہیں۔

١٥١۔(٣) اللہ تعالیٰ کی توحید و اطاعت کے بعد یہاں بھی (اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑے اہمیت ہے، اگر کسی نے اس ربوبیت صغریٰ (والدین کی اطاعت اور ان سے حسن وَ لَوْ اَ نَّنَا ٨ الانعام ٦(سلوک) کے تقاضے پورے نہیں کیئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔

١٥١۔(٤) زمانۂ جاہلیت کا یہ فعل قبیح آجکل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زورو شور سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔

١٥١۔(٥) یعنی قصاص کے طور پر، نہ صرف جائز ہے بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے ولکم فی القصاص حیوٰۃ (البقرہ۔١٧٩) ' قصاص میں تمہاری زندگی ہے۔

١٥٢۔(١) جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے مال سے وراثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوص سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جائداد کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔

١٥٢۔(٢)  ناپ تول میں کمی کرنا لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کر لینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں تھی۔

١٥٢۔(٣) یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کر رہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو، اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں عزت اور سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔

١٥٣۔(١)  ھَذَا (یہ) سے مراد قرآن مجید یا دین اسلام یا وہ احکام ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ ہیں توحید، معاد اور رسالت اور یہی اسلام کے ثلاثہ ہیں جن کے گرد پورا دین گھومتا ہے، اس لئے جو مراد لیا جائے مفہوم سب کا ایک ہے۔

١٥٣۔(٢) صراط مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا ہے کیونکہ اللہ کی، یا قرآن کی، یا رسول اللہ کی راہ ایک ہے ایک سے زیادہ نہیں۔ اس لئے پیروی صرف اس ایک راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں، یہی ملت مسلمہ کی وحدت و اجماع کی بنیاد ہے جس سے بہت ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے، حالانکہ اس کی تاکید کی گئی ہے کہ دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو گویا اختلاف اور تفرقہ کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اسی بات کو حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح واضح فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔ اور چند خطوط اس کی دائیں اور بائیں طرف کھینچے اور فرمایا یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی جو زیر وضاحت ہے۔

١٥٤۔ قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت اور رحمت کا باعث تھی۔

١٥٥۔ اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔

١٥٦۔ (١)یعنی یہ قرآن اس لئے اتارا تاکہ تم یہ نہ کہو۔ دو فرقوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔

١٥٦۔(٢) اس لئے کہ وہ ہماری زبان میں نہ تھی۔ چنانچہ اس عذر کو قرآن عربی میں اتار کر ختم کر دیا۔

١٥٧۔(١) گویا یہ عذر بھی تم نہیں کر سکتے۔

١٥٧۔(٢) یعنی کتاب ہدایت و رحمت کے نزول کے بعد اب جو شخص ہدایت (اسلام) کا راستہ اختیار کر کے رحمت الٰہی کا مستحق نہیں بنتا، بلکہ تکذیب و اعراض کا راستہ اپناتا ہے تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟ صَدَفَ کے معنی اعراض کرنے کے بھی کئے گئے ہیں اور دوسروں کو روکنے کے بھی۔

١٥٨۔(١) قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کر دی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہ آئے تو کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے اس وقت یہ ایمان لائیں گے، یا آپ کا رب ان کے پاس آئے۔ یعنی قیامت برپا ہو جائے اور اللہ کے روبرو پیش کئے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے ؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے، جیسے قیامت کے قریب سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو گا، تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے۔ اگلے جملے میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہر کر رہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق و فاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہو گی۔ صحیح حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہو گا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لاینفع نفسا ایمانھا لم تکن اٰمنت من قبل۔ یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہو گا۔

١٥٨۔(٢) یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہ ہو گا۔

١٥٨۔(٣) اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس توبہ قبول نہیں ہو گی اور اس کے بعد عمل صالح غیر مقبول ہو گا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔

١٥٩۔ اس سے بعض لوگ یہود و نصاریٰ مراد لیتے ہیں جو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض مشرکین مراد لیتے ہیں کہ کچھ مشرک ملائکہ کی، کچھ ستاروں کی، کچھ مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن یہ آیت عام ہے کہ کفار و مشرکین سمیت وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں۔ جو اللہ کے دین کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے دین یا دوسرے طریقے کو اختیار کر کے تفرق و تخرب کا راستہ اپناتے ہیں۔ شیعا کے معنی فرقے اور گروہ اور یہ بات ہر اس قوم پر صادق آتی ہے جو دین کے معاملے میں مجتمع تھی لیکن پھر ان کے مختلف افراد نے اپنے کسی بڑے کی رائے کو ہی مستند اور حرف آخر قرار دے کر اپنا راستہ الگ کر لیا، چاہے وہ رائے حق و صواب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

١٦٠۔(١) یہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و احسان کا بیان ہے کہ جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا، یہ کم از کم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کی بعض نیکیوں کا اجر کئی سو گنا ہے بلکہ ہزار گنا تک ملے گا۔

١٦٠۔(۲) یعنی جن گناہوں پر سزا مقرر نہیں ہے اور اس کے ارتکاب کے بعد اس نے اس سے توبہ بھی نہیں کی یا اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب نہ آئیں یا اللہ نے اپنے فضل خاص سے اسے معاف نہیں فرمادیا کیونکہ ان تمام صورتوں میں مجازات کا قانون بروئے عمل نہیں آئے گا تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی برائی کی سزا دے اور اس کے برابر ہی دے گا۔

١٦٣۔ توحید الوہیت کی یہ دعوت تمام انبیاء نے دی، جس طرح یہاں آخری پیغمبر کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا کہ ' مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں۔ ' دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء بھیجے، سب کو یہ وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم میری ہی عبادت کرو ' (انبیا۔ ٢٥) چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ اسلم تو انہوں نے فرمایا اسلمت لرب العالمین۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ تمہیں موت اسلام پر آنی چاہیے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ مجھے اسلام کی حالت میں دنیا سے اٹھانا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا اگر تم مسلمان ہو تو اسی اللہ پر بھروسہ کرو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کہا واشھد باننا مسلمون اسی طرح اور بھی تمام انبیاء اور ان کے مخلص پیروکاروں نے اسی اسلام کو اپنایا جس میں توحید الوہیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ گو بعض بعض شرع احکام ایک دوسرے سے مختلف تھی۔

١٦٤۔(١) یہاں رب سے مراد وہی اللہ ماننا ہے جس کا انکار مشرکین کرتے رہے ہیں اور جو اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے۔ لیکن مشرکین اس کی ربوبیت کو تو مانتے تھے۔ اور اس میں کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے لیکن اس کی الوہیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔

١٦٤۔(٢) یعنی اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا اور جس نے اچھا، یا برا، جو کچھ کیا ہو گا اس کے مطابق جزا اور سزا دے گا، نیکی پر اچھی جزا اور بدی پر سزا دے گا اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔

١٦٤۔(٣) اس لئے اگر تم اس دعوت توحید کو نہیں مانتے جو تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت رہی ہے تو تم اپنا کام کئے جاؤ، ہم اپنا کئے جاتے ہیں۔ قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں ہی ہمارا تمہارا فیصلہ ہو گا۔

١٦٥۔(١) یعنی حکمران بنا کر اختیارات سے نوازا۔ یا ایک کے بعد دوسرے کو اس کا وارث (خلیفہ) بنایا۔

١٦٥۔(٢) یعنی فقر و غنی، علم و جہل، صحت اور بیماری، جس کو جو دیا، اسی میں اس کی آزمائش ہے۔