احسن البیان

سُوۡرَةُ البُرُوج

١۔بروج، برج کی جمع ہے، برج کے اصل معنی ظہور کے ہیں، یہ کواکب کی منزلیں ہیں جنہیں ان کے محل اور قصور کی حیثیت حاصل ہے ظاہر اور نمایاں ہونے کی وجہ سے انہیں برج کہا جاتا ہے تفصیل کے لیے دیکھیے الفرقان،٦۱ کا حاشیہ بعض نے بروج سے مراد ستارے لیے ہے۔ یعنی ستارے والے آسمان کی قسم، بعض کے نزدیک اس سے آسمان کے دروازے یا چاند کی منزلیں مراد ہیں (فتح القدیر)

٢۔ اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔

٣۔ شَاھْدٍ اور مَشْھُوْدِ کی تفسیر میں بہت اختلاف ہے، امام شوکانی نے احادیث و آثار کی بنیاد پر کہا ہے کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے، اس دن جس نے جو بھی عمل کیا ہو گا یہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گا، اور مشہود سے عرفہ (٩ ذوالحجہ) کا دن ہے جہاں لوگ حج کے لئے جمع اور حاضر ہوتے ہیں۔

٤۔ یعنی جن لوگوں نے خندقیں کھود کر اس میں رب کے ماننے والوں کو ہلاک کیا، ان کے لئے ہلاکت اور بربادی ہے قتل بمعنی لعن۔

٥۔ یہ خندقیں کیا تھیں ؟ ایندھن والی آگ تھیں، جو اہل ایمان کو اس میں جھونکنے کے لئے دہکائی گئی تھی۔

٦۔ کافر بادشاہ یا اسکے کارندے، آگ کے کنارے بیٹھے اہل ایمان کے جلنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

٨۔ یعنی ان لوگوں کا جرم، جنہیں آگ میں جھونکا جا رہا تھا، یہ تھا کہ وہ اللہ غالب پر ایمان لائے تھے، اس واقع کی تفصیل جو صحیح احادیث سے ثابت ہے، مختصراً ملاحظہ فرمائیں۔

واقعہ اصحاب الا خدود :گزشتہ زمانے میں ایک بادشاہ کا جادوگر اور کاہن تھا، جب وہ کاہن بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے ایک ذہین لڑکا دو، جسے میں یہ علم سکھا دوں، چنانچہ بادشاہ نے ایک سمجھدار لڑکا تلاش کر کے اس کے سپرد کر دیا۔ لڑکے کے راستے میں ایک راہب کا بھی مکان تھا، یہ لڑکا آتے جاتے اس کے پاس بھی بیٹھتا اور اس کی باتیں سنتا، جو اسے اچھی لگتیں، اسی طرح سلسلہ چلتا رہا، ایک مرتبہ یہ لڑکا جا رہا تھا کہ راستے میں ایک بہت بڑے جانور (شیر یا سانپ وغیرہ) نے لوگوں کا راستہ روک رکھا تھا، لڑکے نے سوچا، آج میں پتہ کرتا ہوں کہ جادوگر صحیح ہے یا راہب؟ اس نے ایک پتھر پکڑا اور کہا اے اللہ، اگر راہب کا معاملہ، تیرے نزدیک جادوگر کے معاملے سے بہتر اور پسندیدہ ہے تو اس جانور کو مار دے، تاکہ لوگوں کی آمد و رفت جاری ہو جائے یہ کہہ کر اس نے پتھر مارا اور وہ جانور مر گیا۔ لڑکے نے جا کر یہ واقعہ راہب کو بتایا راہب نے کہا، بیٹے ! اب تم فضل و کمال کو پہنچ گئے ہو اور تمہاری آزمائش شروع ہونے والی ہے۔ لیکن اس دور آزمائش میں میرا نام ظاہر نہ کرنا، یہ لڑکا مادر زاد اندھے، برص اور دیگر بیماریوں کا علاج بھی کرتا تھا لیکن ایمان باللہ کی شرط پر، اسی شرط پر اس نے بادشاہ کے ایک نابینا مصاحب کی آنکھیں بھی اللہ سے دعا کر کے صحیح کر دیں۔ یہ لڑکا یہی کہتا تھا کہ اگر تم ایمان لے آؤ گے تو میں اللہ سے دعا کروں گا، وہ شفا عطا فرما دے گا، چنانچہ اس کی دعا سے اللہ شفا یاب فرما دیتا، یہ خبر بادشاہ تک پہنچی تو وہ بہت پریشان ہوا، بعض اہل ایمان کو قتل کرا دیا۔ اس لڑکے کے بارے میں اس نے چند آدمیوں کو کہا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر نیچے پھینک دو، اس نے اللہ سے دعا کی پہاڑ میں لرزش پیدا ہوئی جس سے وہ سب مر گئے اور اللہ نے اسے بچا لیا۔ بادشاہ نے اسے دوسرے آدمیوں کے سپرد کر کے کہ کہا کہ ایک کشتی میں بٹھا کر سمندر کے بیچ لے جا کر اسے پھینک دو، وہاں بھی اس کی دعا سے کشتی الٹ گئی، جس سے وہ سب غرق ہو گئے اور یہ بچ گیا۔ اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا، اگر تو مجھے ہلاک کرنا چاہتا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک کھلے میدان میں لوگوں کو جمع کرو اور بِسْمِ اللّٰہ رَبِّ الْغُلامِ کہہ کر مجھے تیر مار، بادشاہ نے ایسے ہی کیا جس سے وہ لڑکا مر گیا لیکن سارے لوگ پکار اٹھے، کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، بادشاہ اور زیادہ پریشان ہو گیا۔ چنانچہ اس نے خندقیں کھدوائیں اور اس میں آگ جلوائی اور حکم دیا کہ جو ایمان سے انحراف نہ کرے اس کو آگ میں پھینک دو، اس طرح ایماندار آتے رہے اور آگ کے حوالے ہوتے رہے، حتیٰ کہ ایک عورت آئی، جس کے ساتھ ایک بچہ تھا وہ ذرا ٹھٹھکی، تو بچہ بول پڑا، اماں صبر کر تو حق پر ہے (صحیح مسلم) امام ابن کثیر نے اور بھی بعض واقعات نقل کئے ہیں جو اس سے مختلف ہیں اور کہا ہے، ممکن ہے اس قسم کے متعدد واقعات مختلف جگہوں پر ہوئے ہوں (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر)

۱۲۔یعنی جب وہ اپنے ان دشمنوں کی گرفت پر آئے جو اس کے رسولوں کی تکذیب کرتے اور اس کے حکموں کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر اس کی گرفت سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا

۱۳۔یعنی وہی اپنی قوت اور قدرت کاملہ سے پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے اور پھر قیامت والے دن دوبارہ انہیں اسی طرح پیدا کرے گا جس طرح اس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا۔

۱۵۔یعنی تمام مخلوقات سے معظم اور بلند ہے اور عرش، جو سب سے اوپر ہے وہ اس کا مستقر ہے جیسا کہ صحابہ و تابعین اور محدثین کا عقیدہ ہے۔ المجید صاحب فضل و کرم۔

١٦۔ یعنی وہ جو چاہے، کر گزرتا ہے اس کے حکم اور مشیت کو ٹالنے والا کوئی نہیں ہے نہ اسے کوئی پوچھنے والا ہی ہے۔ حضرت ابوبکر سے ان کے مرض الموت میں کسی نے پوچھا کیا کسی طبیب نے آپ کو دیکھا ہے انہوں نے فرمایا کہ ہاں، پوچھا اس نے کیا کہا، انی فعال لما ارید، میں جو چاہوں کروں، میرے معاملے میں کوئی دخل دینے والا نہیں۔ (ابن کثیر) مطلب یہ تھا کہ معاملہ اب طبیبوں کے ہاتھ میں نہیں رہا میرا آخری وقت آ گیا ہے اور اللہ ہی اب میرا طبیب ہے جس کی مشیت کو ٹالنے کی کسی کے اندر طاقت نہیں۔

١٧۔ یعنی ان پر میرا عذاب آیا اور میں نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا، جسے کوئی ٹال نہیں سکا۔

۲۰۔(ان بطش ربک لشدید) ہی کا اثبات اور اس کی تاکید ہے۔

٢٢۔ یعنی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے، جہاں فرشتے اس کی حفاظت پر مامور ہیں، اللہ تعالیٰ حسب ضرورت اسے نازل فرماتا ہے۔