احسن البیان

سُوۡرَةُ الذّاریَات

١۔ اس سے مراد ہوائیں جو مٹی کو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔

٢۔ وقر، ہر وہ بوجھ جسے کوئی جاندار لے کر چلے، حاملات، وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھائے ہوئے ہیں یا پھر وہ بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں جیسے چوپائے، حمل کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔

٣۔ جاریات، پانی میں چلنے والی کشتیاں، یُسْرا آسانی سے۔

٤۔ مقسمات، اس سے مراد فرشتے ہیں جو کام کو تقسیم کر لیتے ہیں، کوئی رحمت کا فرشتہ ہے تو کوئی عذاب کا، کوئی پانی کا ہے تو کوئی سختی کا، کوئی ہواؤں کا فرشتہ ہے تو کوئی موت اور حوادث کا۔ بعض نے ان سب سے صرف ہوائیں مراد لی ہیں اور ان سب کو ہواؤں کی صفت بتایا ہے۔ جیسے کہ فاضل مترجم نے بھی اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن ہم نے امام ابن کثیر اور امام شوکانی کی تفسیر کے مطابق تشریح کی ہے۔ قسم سے مقصد مقسم علیہ کی سچائی کو بیان کرنا ہوتا ہے یا بعض دفعہ صرف تاکید مقصود ہوتی ہے اور بعض دفعہ مقسم علیہ کو دلیل کے طور پر پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں قسم کی یہی تیسری قسم ہے۔ آگے جواب قسم یہ بیان کیا گیا ہے کہ تمک سے جو وعدے کیے جاتے ہیں یقیناً وہ سچے ہیں اور قیامت برپا ہو کر رہے گی جس میں انصاف کیا جائے گا۔ یہ ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا پانی کو اٹھانا، سمندروں میں کشتیوں کا چلنا اور فرشتوں کا مختلف امور کو سر انجام دینا، قیامت کے وقوع پر دلیل ہے، کیونکہ جو ذات یہ سارے کام کرتی ہے جو بظاہر نہایت مشکل اور اسباب عادیہ کے خلاف ہیں، وہی ذات قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ بھی کر سکتی ہے۔

٧۔ دوسرا ترجمہ، حسن جمال اور زینت و رونق والا کیا گیا ہے چاند، سورج ستارے و سیارے، روشن ستارے، اس کی بلندی اور وسعت، یہ سب چیزیں آسمان کی رونق و زینت اور خوب صورتی کا باعث ہیں

٨۔ یعنی اے اہل مکہ! تمہارا کسی بات میں آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر کو تم میں سے کوئی جادو گر، کوئی شاعر، کوئی کاہن اور کوئی جھوٹا کہتا ہے۔ اسی طرح کوئی قیامت کی بالکل نفی کرتا ہے، کوئی شک کا اظہار، علاوہ ازیں ایک طرف اللہ کے خالق اور رازق ہونے کا اعتراف کرتے ہو، دوسری طرف دوسروں کو بھی معبود بنا رکھا ہے۔

٩۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے سے، یا حق سے یعنی بعث و توحید سے یا مطلب ہے مذکورہ اختلاف سے وہ شخص پھیر دیا گیا جسے اللہ نے اپنی توفیق سے پھیر دیا، پہلے مفہوم میں ذم ہے اور دوسرے میں مدح۔

١٣۔ یفتنون کے معنی ہیں یحرقون ویعذبون جس طرح سونے کو آگ میں ڈال کر پرکھا جاتا ہے، اسی طرح یہ ڈالے جائیں گے۔

١٤۔ فِتْنَۃ بمعنی عذاب یا آگ میں جلنا۔

١٧۔ ھجوع کے معنی ہیں رات کو سونا۔ ما یھجعون میں ما تاکید کے لیے ہے۔ وہ رات کو کم سوتے تھے، مطلب ہے ساری رات سو کر غفلت اور عیش و عشرت میں نہیں گزار دیتے تھے۔ بلکہ رات کا کچھ حصہ اللہ کی یاد میں اور اس کی بارگاہ میں گڑ گڑاتے ہوئے گزارتے تھے۔ جیسا کہ حدیث بھی قیام اللیل کی تاکید ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں فرمایا ' لوگو! لوگوں کو کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، سلام پھیلاؤ اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ' (مسند احمد ٥۔(۴)٥١)۔

۱۸۔ وقت سحر قبولیت دعا کے بہترین اوقات میں سے ہے حدیث میں آتا ہے کہ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ندا دیتا ہے کہ کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں ؟ کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں کوئی سائل ہے کہ میں اس کے سوال کو پورا کر دوں۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ّصحیح مسلم)

١٩۔ محروم سے مراد، وہ ضرورت مند ہے جو سوال سے اجتناب کرتا ہے۔ چنانچہ مستحق ہونے کے باوجودلوگ اسے نہیں دیتے۔ یا وہ شخص ہے جس کا سب کچھ، آفت ارضی و سماوی میں، تباہ ہو جائے۔

٢٢۔ یعنی بارش بھی آسمان سے ہوتی ہے جس سے تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے اور جنت دوزخ ثواب وعتاب بھی آسمانوں میں ہے جن کا وعدہ کیا جاتا ہے۔

٢٣۔ اِنہ میں ضمیر کا مرجع (یہ) وہ امور و آیات ہیں جو مذکور ہوئیں۔

٢٤۔ ھَلْ استفہام کے لئے ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تنبیہ ہے کہ اس قصے کا تجھے علم نہیں، بلکہ ہم تجھے وحی کے ذریعے سے مطلع کر رہے ہیں۔

٢٥۔ یہ اپنے جی میں کہا، ان سے خطاب کر کے نہیں کہا۔

۲۷۔ یعنی سامنے رکھنے کے باوجود انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ ہی نہیں بڑھایا تو پوچھا

٢٨۔(۱)   ڈر اس لئے محسوس کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھے، یہ کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آنے والے کسی خیر کی نیت سے نہیں بلکہ شر کی نیت سے آئے ہیں۔

٢٨۔ (۲)  حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چہرے پر خوف کے آثار دیکھ کر فرشتوں نے کہا۔

۲۹۔ صرۃ کے دوسرے معنی ہیں چیخ و پکار، یعنی چیختے ہوئے کہا۔

٣٠۔ یعنی جس طرح ہم نے تجھے کہا ہے، یہ ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا ہے، بلکہ تیرے رب نے اسی طرح کہا ہے جس کی ہم تجھے اطلاع دے رہے ہیں، اس لئے اس پر تعجب کی ضرورت ہے نہ کہ شک کرنے کی، اس لئے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ لا محالہ ہو کر رہتا ہے۔

٣١۔ یعنی اس بشارت کے علاوہ تمہارا اور کیا کام اور مقصد ہے جس کے لئے تمہیں بھیجا گیا ہے۔

٣٢۔ اس سے مراد قوم لوط ہے جن کا سب سے بڑا جرم لواطت تھا۔

٣۳۔برسائیں کا مطلب ہے، ان کنکریوں سے انہیں رجم کر دیں۔ یہ کنکریاں خالص پتھر کی تھیں نہ آسمانی اولے تھے، بلکہ مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔

٣٤۔١مسومۃ (نامزد یا نشان زدہ) ان کی مخصوص علامت تھی جن سے انہیں پہچان لیا جاتا تھا یا وہ عذاب کے لیے مخصوص تھیں، بعض کہتے ہیں کہ جس کنکری سے موت جس کی موت واقع ہوئی تھی اس پر اسی کا نام لکھا ہوا تھا، مسرفین جو شرک و ضلالت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور فسق و فجور میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

٣٥۔ یعنی عذاب آنے سے پہلے ہم ان کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا تاکہ وہ عذاب سے محفوظ رہیں۔

٣٦۔ اور یہ اللہ کے پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کا گھر تھا جس میں دو بیٹیاں اور کچھ ایمان لانے والے تھے، کہتے ہیں کہ کل تیرہ آدمی تھے۔ ان میں حضرت لوط علیہ السلام کا گھر تھا، جس میں ان کی دو بیٹیاں اور کچھ ایمان لانے والے تھے ان میں حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی شامل نہ تھی بلکہ وہ اپنی قوم کے ساتھ عذاب سے ہلاک ہونے والوں میں سے تھی۔ (ایسر التفاسیر) اسلام کے معنی ہیں اطاعت انقیاد اللہ کے حکموں پر سر اطاعت خم کر دینے والا مسلم ہے اس اعتبار سے ہر مومن مسلمان ہے اسی لیے پہلے ان کے لیے مومن کا لفظ استعمال کیا، اور پھر ان ہی کے لیے مسلم کا لفظ بولا گیا ہے اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ان کے مصداق میں کوئی فرق نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ مومن اور مسلم کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ قرآن نے جو کہیں مومن اور مسلم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تو وہ ان معانی کے اعتبار سے ہے جو عربی لغت کی رو سے ان کے درمیان ہے اس لیے لغوی استعمال کے مقابلے میں حقیقت شرعیہ کا اعتبار زیادہ ضروری ہے اور حقیقت شرعیہ کے اعتبار سے ان کے درمیان صرف وہی فرق ہے حدیث جبرائیل علیہ السلام سے ثابت ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ کی شہادت، اقامت صلوۃ، ایتائے زکوۃ، حج اور صیام رمضان۔ اور جب ایمان کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا، اللہ پر ایمان لانا، اس کے ملائکہ، کتابوں، رسولوں اور تقدیر (خیر وشر کے من جانب اللہ ہونے ) پر ایمان رکھنا، یعنی دل سے ان چیزوں پر یقین رکھنا ایمان اور احکام و فرائض کی ادائیگی اسلام ہے۔ اس لحاظ سے ہر مومن مسلمان اور ہر مسلمان مومن ہے (فتح القدیر) اور جو مومن اور مسلمان کے درمیان میں فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ یہاں قرآن نے ایک ہی گروہ کے لیے مومن اور مسلمان کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ان کے درمیان جو فرق ہے اس کی رو سے ہر مومن مسلم بھی ہے تاہم ہر مسلم کا مومن ہونا ضروری نہیں (ابن کثیر) بہرحال یہ ایک علمی بحث ہے فریقین کے پاس اپنے اپنے موقف پر استدلال کے لیے دلائل موجود ہیں۔

٣٧۔ یہ آیت یا کامل علامت وہ آثار عذاب ہیں جو ان ہلاک شدہ بستیوں میں ایک عرصے تک باقی رہے۔ اور یہ علامت بھی انہی کے لئے ہے جو عذاب الٰہی سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ وعظ و نصیحت کا اثر بھی وہی قبول کرتے ہیں اور آیات میں غور و فکر بھی وہی کرتے ہیں۔

٣٩۔ جانب اقویٰ کو رکن کہتے ہیں۔ یہاں مراد اس کی اپنی قوت اور لشکر ہے۔

٤٠۔ یعنی اس کے کام ہی ایسے تھے کہ جن پر وہ ملامت ہی کا مستحق تھا

٤١۔١(۱)  ای ترکنا فی قصۃ عاد آیۃ عاد کے قصے میں بھی ہم نے نشانی چھوڑی۔

٤١۔ (۲)  الریح العقیم (بانجھ ہوا) جس میں خیر و برکت نہیں تھی، وہ ہوا درختوں کو ثمر آور کرنے والی تھی نہ بارش کی پیامبر، بلکہ صرف ہلاکت اور عذاب کی ہوا تھی۔

٤۲۔ یہ اس ہوا کی تاثیر تھی جو قوم عاد پر بطور عذاب بھیجی گئی تھی۔ یہ تند تیز ہوا، سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی (الحاقہ)

٤٣۔ یعنی جب انہوں نے اپنے ہی طلب کردہ معجزے اونٹنی کو قتل کر دیا، تو ان سے کہہ دیا گیا کہ اب تین دن اور تم دنیا کے مزے لوٹ لو، تین دن کے بعد تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے۔ یہ اسی طرف اشارہ ہے بعض نے اسے حضرت صالح علیہ السلام کی ابتدائے نبوت کا قول قرار دیا ہے۔ الفاظ اس مفہوم کے بھی متحمل ہیں بلکہ سیاق سے یہی معنی زیادہ قریب ہے۔

٤٤۔ (کڑاکا) آسمانی چیخ تھی اور اس کے ساتھ (زلزلہ) تھا جیسا کہ سورہ اعراف ٧٨ میں ہے۔

٤٥۔ (۱)  چہ جائیکہ وہ بھاگ سکیں۔

٤٥۔ (۲)  یعنی اللہ کے عذاب سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکے۔

٤٦۔ قوم نوح، عاد، فرعون اور ثمود و غیرہ بہت پہلے گزر چکی ہے اس نے بھی اطاعت الٰہی کی بجائے اسکی بغاوت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ بالآخر اسے طوفان میں ڈبو دیا گیا۔

٤۷۔ (۱)  السماء منصوب ہے بنینا محذوف کی وجہ سے بنینا السماء بنیناھا

٤٧۔ (۲)  یعنی پہلے ہی بہت وسیع ہے لیکن ہم نے اس کو اور بھی زیادہ وسیع کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یا آسمان سے بارش برسا کر روزی کشادہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں وُسْع (طاقت و قدرت رکھنے والے ) تو مطلب ہو گا ہمارے اندر اس جیسے اور آسمان بنانے کی بھی طاقت و قدرت موجود ہے۔ ہم آسمان و زمین بنا کر تھک نہیں گئے ہیں بلکہ ہماری قدرت طاقت کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔

٤٨۔ یعنی فرش کی طرح اسے بچھا دیا ہے۔

٤۹۔ (۱)  یعنی ہر چیز کو جوڑا جوڑا، نر اور مادہ یا اس کی مقابل اور ضد کو بھی پیدا کیا ہے۔ جیسے روشنی اور اندھیرا، خشکی اور تری، چاند اور سورج، میٹھا اور کڑوا رات اور دن خیر اور شر زندگی اور موت ایمان اور کفر شقاوت اور سعادت جنت اور دوزخ جن وانس وغیرہ حتی کہ حیوانات کے مقابل جمادات اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کا بھی جوڑا ہو یعنی آخرت، دنیا کے بالمقابل دوسری زندگی۔

 ٤٩۔ (۲)  یہ جان لو کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک اللہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

٥٠۔ یعنی کفر و معصیت سے توبہ کر کے فوراً بارگاہ الٰہی میں جھک جاؤ، اس میں تاخیر مت کرو۔

۵۱۔ یعنی میں تمہیں کھول کھول کر ڈرا رہا اور تمہاری خیر خواہی کر رہا ہوں کہ صرف ایک اللہ کی طرف رجوع کرو، اسی پر اعتماد اور بھروسہ کر اور صرف اسی ایک کی عبادت کرو، اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک مت کرو، ایسا کرو گے تو یاد رکھنا جنت کی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیئے جاؤ گے۔

٥٣۔ یعنی ہر بعد میں آنے والی قوم نے اس طرح رسولوں کو جھٹلایا اور انہیں جادوگر اور دیوانہ قرار دیا، جیسے پچھلی قومیں بعد میں آنے والی قوم کیلئے وصیت کر کے جاتی رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے ہر قوم نے یہی تکذیب کا راستہ اختیار کیا۔

٥٤۔ یعنی ایک دوسرے کو وصیت تو نہیں کی بلکہ ہر قوم ہی اپنی اپنی جگہ سرکش ہے، اس لئے ان سب کے دل بھی متشابہ ہیں اور ان کے طور اطوار بھی ملتے جلتے ہیں۔

۵۵۔ اس لیے کہ نصیحت سے فائدہ انہیں کو پہنچتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں اس نصیحت سے وہ لوگ یقیناً فائدہ اٹھائیں گے جن کی بابت اللہ کے علم میں ہے کہ وہ ایمان لائیں گے۔

۵ ٦۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب و مطلوب ہے کہ تمام انس و جن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادہ تکوینی سے ہوتا، پھر تو کوئی انس و جن اللہ کی عبادت و اطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت باز پرس ہو گی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس میں اللہ نے ان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔

٥٧۔ یعنی میری عبادت و اطاعت سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ مجھے کما کر کھلائیں، جیسا کہ دوسرے آقاؤں کا مقصود ہوتا ہے، بلکہ رزق کے سارے خزانے تو خود میرے ہی پاس ہیں میری عبادت و اطاعت سے تو خود ان ہی کا فائدہ ہو گا کہ ان کی آخرت سنور جائے گی نہ کہ مجھے کوئی فائدہ ہو گا۔

٥٩۔(۱)   ذنوب کے معنی بھرے ڈول کے ہیں۔ کنویں سے ڈول میں پانی نکال کر تقسیم کیا جاتا ہے اس اعتبار سے یہاں ڈول کو حصے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ ظالموں کو عذاب سے حصہ پہنچے گا، جس طرح اس سے پہلے کفر و شرک کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے عذاب کا حصہ ملا تھا۔

٥٩۔ (۲) لیکن یہ حصہ عذاب انہیں کب پہنچے گا، یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لئے طلب عذاب میں جلدی نہ کریں۔