احسن البیان

سُوۡرَةُ القَارعَة

۱۔ یہ بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اس سے قبل متعدد نام گزر چکے ہیں مثلاً اَ لْحاقَّۃُ، الطَّاَمَّۃُ، صَّاَخَّہُ، اَلْغَاشِیَۃُ، الْسَّاعَہُ، الْوَاقِعَۃُ وغیرہ، اسے الْقَارِعَۃُ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے دلوں کو بیدار اور اللہ کے دشمنوں کو عذاب سے خبردار کر دے گی، جیسے دروازہ کھٹکھٹانے والا کرتا ہے۔

٤۔١فراش، مچھر اور شمع کے گرد منڈلانے والے پرندے وغیرہ۔ مبثوث، منتشر اور بکھرے ہوئے۔ یعنی قیامت والے دن انسان بھی پروانوں کی طرح پراگندہ اور بکھرے ہوئے ہوں گے۔

۵۔ عھن، اس اون کو کہتے ہیں جو مختلف رنگوں کے ساتھ رنگی ہوئی ہو، منفوش، دھنی ہوئی۔ یہ پہاڑوں کی وہ کیفیت بیان کی گئی ہے جو قیامت والے دن انکی ہو گی۔قرآن کریم میں پہاڑوں کی یہ کیفیت مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے، جسکی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اب آگے ان دو فریقوں کا اجمالی ذکر کیا جا رہا ہے جو قیامت والے دن اعمال کے اعتبار سے ہوں گے۔

٦۔ موازین، میزان کی جمع ہے۔ ترازو، جس میں صحائف اعمال تولے جائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ذکر سورۂ أعراف۔آیت ۸ سورۂ کہف (۱۰۵) اور سورۂ انبیاء (٤۷) میں بھی گزرا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں یہ میزان نہیں، موزون کی جمع ہے یعنی ایسے اعمال جن کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت اور خاص وزن ہو گا (فتح القدیر) لیکن پہلا مفہوم ہی راجح اور صحیح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی تو وزن اعمال کے وقت ان کی نیکیوں والا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔

۷۔یعنی ایسی زندگی جس کو وہ صاحب زندگی پسند کرے گا۔

۸۔جس کی برائیاں نیکیوں پر غالب ہوں گی اور برائیوں کا پلڑا بھاری اور نیکیوں کا ہلکا ہو گا۔

۹۔ہاویہ جہنم کا نام ہے اس کو ہاویہ اس لیے کہتے ہیں کہ جہنمی اس کی گہرائی میں گرے گا۔ اور اس کو ام (ماں ) سے اس لیے تعبیر کیا کہ جس طرح انسان کے لیے ماں، جائے پناہ ہوتی ہے اسی طرح جہنمیوں کا ٹھکانا جہنم ہو گا۔ بعض کہتے ہیں کہ ام کے معنی دماغ کے ہیں۔ جہنمی، جہنم میں سرکے بل ڈالے جائیں گے۔(ابن کثیر)

١٠۔ یہ استفہام اس کی ہولناکی اور شدت عذاب کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ انسان کے وہم و تصور سے بالا ہے انسانی علوم اس کا احاطہ نہیں کر سکتے اور اس کی کنہ نہیں جان سکتے۔

١١۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ انسان دنیا میں جو آگ جلاتا ہے، یہ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے، جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے ٦٩ درجہ زیادہ ہے (صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ لنار وأنھا مخلوقۃ مسلم، کتاب الجنۃ، باب فی شدۃ حرنار جھنم) ایک اور حدیث میں ہے کہ "آگ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ میرا ایک حصہ دوسرے حصے کو کھائے جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت فرما دی۔ ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس سردی میں پس جو سخت سردی ہوتی ہے یہ اس کا ٹھنڈا سانس ہے، اور نہایت سخت گرمی جو پڑتی ہے، وہ جہنم کا گرم سانس ہے "(بخاری، کتاب و باب مذکور) ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا"جب گرمی زیادہ سخت ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش کی وجہ سے ہے۔(حوالہ مذکور، مسلم، کتاب المساجد)