احسن البیان

سُوۡرَةُ الدّخان

٣۔ بابرکت رات (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ) سے مراد شب قدر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے (شَھرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فِیْہِ الْقراٰنُ) رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا، یہ شب قدر رمضان کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ یہاں قدر کی رات اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بابرکت ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا دوسرے، اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے (جیسا کہ آگے آ رہا ہے ) چوتھے اس رات کی عبادت ہزار مہینے (٨٣ سال ٤ ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے شب قدر یا  لیلہ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اس رات آپ پر قرآن نازل ہوا، یا یہ مطلب ہے لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اتارا گیا جو آ ّسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے ضرورت و مصلحت ٣٣ سالوں تک مختلف اوقات میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اترتا رہا۔

٥۔ یعنی سارے فیصلے ہمارے حکم و اذن اور ہماری تقدیر و مشیت سے ہوتے ہیں۔

٦۔ یعنی انزال کتب کے ساتھ (رسولوں کا بھیجنا) یہ بھی ہماری رحمت ہی کا ایک حصہ ہے تاکہ وہ ہماری نازل کردہ کتابوں کو کھول کر بیان کریں اور ہمارے احکام لوگوں تک پہنچائیں۔ اس طرح مادی ضرورتوں کی فراہمی کے ساتھ ہم نے اپنی رحمت سے لوگوں کے روحانی تقاضوں کی تکمیل کا بھی سامان مہیا کر دیا۔

٩۔ یعنی حق اور اس کے دلائل کے سامنے آ گئے۔ لیکن وہ اس پر ایمان لانے کے بجائے شک میں مبتلا ہیں اور اس شک کے ساتھ استہزاء اور کھیل کود میں پڑے ہیں۔

١٠۔ یہ کافروں کے لئے تہدید ہے کہ اچھا آپ اس دن کا انتظار فرمائیں جب آسمان پر دھوئیں کا ظہور ہو گا۔

١٢۔ پہلی تفسیر کی رو سے یہ کفار مکہ نے کہا اور دوسری تفسیر کی رو سے قیامت کے قریب کافر کہیں گے۔

١٦۔ اس سے مراد جنگ بدر کی گرفت ہے، جس میں ستر کافر مارے گئے اور ستر قیدی بنا لئے گئے۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ سخت گرفت قیامت والے دن ہو گی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ اس گرفت خاص کا ذکر ہے جو جنگ بدر میں ہوئی، کیوں کہ قریش کے سیاق میں ہی اس کا ذکر ہے، اگرچہ قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ سخت گرفت فرمائے گا تاہم وہ گرفت عام ہو گی، ہر نافرمان اس میں شامل ہو گا۔

١٧۔ آزمانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انہیں دنیاوی خوشی، خوشحالی و فراغت سے نوازا اور پھر اپنا جلیل القدر پیغمبر بھی ان کی طرف ارسال کیا لیکن انہوں نے رب کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا اور نہ پیغمبر پر ایمان لائے۔

١٨۔ (۱)   عِبَادَ اللّٰہِ سے مراد یہاں موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل ہے جسے فرعون نے غلام بنا رکھا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔

١٨۔ (۲)  اللہ کا پیغام پہنچانے میں امانت دار ہوں۔

١٩۔ (۱)   یعنی اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کر کے اللہ کے سامنے اپنی بڑائی اور سرکشی کا اظہار نہ کرو۔

١٩۔ (۲)  یہ ما قبل کی علت ہے کہ میں ایسی حجت واضح ساتھ لایا ہوں جس کے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے۔

٢٠۔ اس دعوت و تبلیغ کے جواب میں فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو قتل کی دھمکی دی، جس پر انہوں نے اپنے رب سے پناہ طلب کی۔

٢١۔ یعنی اگر مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو نہ لاؤ، لیکن مجھے قتل کرنے کی اذیت پہنچانے کی کوشش نہ کرو۔

٢٢۔ یعنی جب انہوں دیکھا کہ دعوت کا اثر قبول کرنے کی بجائے، اس کا کفر و عناد بڑھ گیا تو اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ پھیلا دیئے۔

٢٣۔ چنانچہ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو راتوں رات لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور دیکھو! گھبرانا نہیں، تمہارا پیچھا بھی ہو گا۔

٢٤۔ رَھْواً بمعنی ساکن یا خشک۔ مطلب یہ ہے کہ تیرے لاٹھی مارنے سے دریا معجزانہ طور پر ساکن یا خشک ہو جائے گا اور اس میں راستہ بن جائے گا، تم دریا پار کرنے کے بعد اسے اسی حالت میں چھوڑ دینا تاکہ فرعون اور اس کا لشکر بھی دریا کو پار کرنے کی غرض سے اس میں داخل ہو جائے اور ہم اسے وہیں غرق کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ پہلے تفصیل گزر چکی ہے۔

٢٨۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک بنی اسرائیل کا دوبارہ مصر آنا تاریخی طور پر ثابت نہیں، اس لئے ملک مصر کی وارث کوئی اور قوم بنی، بنی اسرائیل نہیں۔

٢٩۔ یعنی ان فرعونیوں کے نیک اعمال ہی نہیں تھے جو آسمان پر چڑھتے اور ان کا سلسلہ منقطع ہونے پر آسمان روتے، نہ زمین پر ہی وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے کہ اس سے محرومی پر زمین روتی۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین میں کوئی بھی ان کی ہلاکت پر رونے والا نہیں تھا (فتح القدیر)

٣٢۔ اس جہان سے مراد بنی اسرائیل کے زمانے کا جہان ہے کل جہان نہیں ہے، کیوں کہ قرآن میں امت محمدیہ کو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے یعنی بنی اسرائیل اپنے زمانے میں دنیا جہان والوں پر فضیلت رکھتے تھے ان کی یہ فضیلت اس استحقاق کی وجہ سے تھی جس کا علم اللہ کو ہے۔

٣٤۔ یہ اشارہ کفار مکہ کی طرف ہے۔ اس لئے کہ سلسلہ کلام ان ہی سے متعلق ہے۔ درمیان میں فرعون کا قصہ ان کی تنبیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

٣٥۔ یعنی یہ دنیا کی زندگی ہی بس آخری زندگی ہے اس کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور حساب کتاب ہونا ممکن نہیں ہے۔

٣٦۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو کافروں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تمہارا یہ عقیدہ واضح اور صحیح ہے کہ دوبارہ زندہ ہونا ہے تو ہمارے باپ دادوں کو زندہ کر کے دکھا دو یہ ان کی کٹ حجتی تھی کیونکہ دوبارہ زندہ کرنے کا عقیدہ قیامت سے متعلق ہے نہ کہ قیامت سے پہلے ہی دنیا میں زندہ ہو جانا یا کر دینا۔

٣٧۔ یعنی یہ کفار مکہ اور ان سے پہلے کی قومیں، عاد و ثمود وغیرہ سے زیادہ طاقتور اور بہتر ہیں، جب ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں، ان سے زیادہ قوت و طاقت رکھنے کے باوجود ہلاک کر دیا تو یہ کیا حیثیت رکھتے ہیں۔

٣٨۔ یہی مضمون اس سے قبل سورہ ص۔ (۲) ٧ سورہ المومنون ١١٥۔١١٦ سورۃ الحجر۔٨٥ و غیرہا میں بیان کیا گیا ہے۔

٣٩۔ یعنی وہ اس مقصد سے غافل اور بے خبر ہیں۔ اسی لئے آخرت کی تیاری سے لا پروا ہیں۔

٤٠۔ یعنی وہ اصل مقصد ہے جس کے لئے انسانوں کو پیدا کیا گیا اور آسمان و زمین کی تخلیق کی گئی ہے۔

٤٥۔ پگھلا ہوا تانبہ، آگ میں پگھلی ہوئی چیز یا تلچھٹ تیل وغیرہ کے آخر میں جو گدلی سی مٹی کی تہ رہ جاتی ہے۔

٤٦۔ وہ زقوم کی خوراک، کھولتے ہوئے پانی کی طرح پیٹ میں کھولے گی۔

٤٧۔ یہ جہنم پر مقرر فرشتوں سے کہا جائے گا۔

٤٩۔ یعنی دنیا میں اپنے طور پر تو بڑا ذی عزت اور صاحب اکرام بنا پھرتا تھا اور اہل ایمان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔

٥٣۔ اہل کفر و فسق کے مقابلے میں اہل ایمان و تقویٰ کا مقام بیان کیا جا رہا ہے جنہوں نے اپنا دامن کفر و فسق اور معاصی سے بچائے رکھا تھا۔ آمین کا مطلب ایسی جگہ، جہاں ہر قسم کے خوف اور اندیشوں سے وہ محفوظ ہوں گے۔

٥٤۔  حُورَاَءُ اس لئے کہا جاتا ہے کہ نظریں ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو جائیں گی کشادہ چشم جیسے ہرن کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں کہ ہر جنتی کو کم از کم دو حوریں ضرور ملیں گی، جو حسن جمال کے اعتبار سے چندے آفتاب و ماہتاب ہوں گی۔ البتہ ترمذی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے، جسے صحیح کہا گیا ہے، کہ شہید کو خصوصی طور پر ٧٢ حوریں ملیں گی۔

٥٥۔ آمِنِیْنَ (بے خوفی کے ساتھ) کا مطلب ان کے ختم ہونے کا اندیشہ ہو گا نہ کے کھانے سے بیماری وغیرہ کا خوف یا موت، تھکاوٹ اور شیطان کا کوئی خوف نہیں ہو گا۔

٥٦۔ یعنی دنیا میں انہیں جو موت آئی تھی، اس موت کے بعد انہیں موت کا مزہ نہیں چکھنا پڑے گا جیسے حدیث میں آتا ہے ' کہ موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لا کر دوزخ اور جنت کے درمیاں ذبح کر دیا جائے گا اور اعلان کر دیا جائے گا اے جنتیو! تمہارے لئے جنت کی زندگی دائمی ہے، اب تمہارے لئے موت نہیں۔ اور اے جہنمیوں ! تمہارے لئے جہنم کا عذاب دائمی ہے موت نہیں

٥٧۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے، فرمایا یہ بات جان لو! تم میں کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! آپ کو بھی؟ فرمایا ' ہاں مجھے بھی، مگر اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت اور فضل میں ڈھانپ لے گا ' (صحیح بخاری

٥٩۔ تو عذاب الٰہی کا انتظار کر، اگر یہ ایمان نہ لائے۔ یہ منتظر ہیں اس بات کے کہ اسلام کے غلبہ و نفوذ سے قبل ہی شاید آپ موت سے ہمکنار ہو جائیں۔