احسن البیان

سُوۡرَةُ المُلک

١۔ اسی کے ہاتھ میں بادشاہی ہے یعنی ہر طرح کی قدرت اور غلبہ اسی کو حاصل ہے، وہ کائنات میں جس طرح کا تصرف کرے، کوئی اسے روک نہیں سکتا، وہ شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دے، امیر کو غریب اور غریب کو امیر کر دے۔ کوئی اس کی حکمت و مشیت میں دخل نہیں دے سکتا۔

۲۔ روح ایک ایسی غیر مرئی چیز ہے جس بدن سے اس کا تعلق و اتصال ہو جائے وہ زندہ کہلاتا ہے اور جس بدن سے اس کا تعلق منقطع ہو جائے وہ موت سے ہم کنار ہو جاتا ہے اس نے یہ عارضی زندگی کا سلسلہ، جس کے بعد موت ہے اس لیے قائم کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ اس زندگی کا صحیح استعمال کون کرتا ہے ؟جو اسے ایماء و اطاعت کے لیے استعمال کرے گا اس کے لیے بہترین جزاء ہے اور دوسروں کے لیے عذاب۔

 ٣۔ (۱)  یعنی کوئی نقص، کوئی کجی اور کوئی خلل، بلکہ بالکل سیدھے اور برابر ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک ہی ہے متعدد نہیں۔

٣۔ (۲)  بعض دفعہ دوبارہ دیکھنے سے کوئی نقص اور عیب نکل آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دعوت دے رہا ہے کہ بار بار دیکھو کہ کیا تمہیں کوئی شگاف تو نظر نہیں آتا۔

٤۔ یہ مزید تاکید ہے کہ جس سے مقصد اپنی عظیم قدرت اور وحدانیت کو واضح تر کرنا ہے۔

٥۔ یہاں ستاروں کے دو مقصد بیان کئے گئے ہیں ایک آسمانوں کی زینت کیونکہ وہ چراغوں سے جلتے ہیں دوسرا کہ شیطان آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ شرارہ بن کر ان پر گرتے ہیں۔ تیسرا مقصد ان کا یہ ہے جسے دوسرے مقامات پر بیان فرمایا گیا ہے کہ ان سے برو بحر میں راستوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔

٧۔ شَھِیْق، اس آواز کو کہتے ہیں جو گدھا پہلی مرتبہ نکالتا ہے، یہ قبیح ترین آواز ہوتی ہے۔ جہنم بھی گدھے کی طرح چیخ اور چلا رہی اور آگ پر رکھی ہوئی ہانڈی کی طرح جوش مار رہی ہو گی۔

۸۔(۱)  یا مارے غیظ و غضب کے اس کے حصے ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے یہ جہنم کافروں کو دیکھ کر غضب ناک ہو گی جس کا شعور اللہ تعالیٰ اس کے اندر پیدا فرما دے گا اللہ تعالیٰ کے لیے جہنم کے اندر یہ ادراک و شعور پیدا کر دینا کوئی مشکل نہیں۔

٨۔ (۲)  جس کی وجہ سے تمہیں آج جہنم کے عذاب کا مزہ چکھنا پڑا ہے۔

٩۔ یعنی ہم نے پیغمبروں کی تصدیق کرنے کی بجائے انہیں جھٹلایا، آسمانی کتابوں کا ہی سرے سے انکار کر دیا حتیٰ کہ اللہ کے پیغمبروں کو ہم نے کہا کہ تم بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔

١٠۔ یعنی غور اور توجہ سے سنتے اور ان کی باتوں اور نصیحتوں کو آویزہ گوش بنا لیتے، اسی طرح اللہ کی دی ہوئی عقل سے بھی سوچنے سمجھنے کا کام لیتے تو آج ہم دوزخ والوں میں شامل نہ ہوتے۔

١١۔ (۱)  جس کی بنا پر مستحق عذاب قرار پائے اور وہ ہے کفر اور انبیاء علیہم السلام کی تکذیب۔

١١۔ (۲)  یعنی اب ان کے لئے اللہ اور اس کی رحمت سے دوری ہی دوری ہے۔

۱۲۔یہ اہل کفر و تکذیب کے مقابلے میں اہل ایمان کا اور ان نعمتوں کا ذکر ہے جو انہیں قیامت والے دن اللہ کے ہاں ملیں گی۔ بالغیب کا ایک مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو دیکھا تو نہیں لیکن پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہوئے وہ اللہ عذاب سے ڈرتے رہے دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کی نظروں سے غائب یعنی خلوتوں میں اللہ سے ڈرتے رہے۔

١٣۔ یہ پھر کافروں سے خطاب ہے۔ مطلب ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں چھپ کر باتیں کرو یا اعلان یہ سب اللہ کے علم میں ہے، اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ وہ تو سینوں کے رازوں اور دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے تمہاری باتیں کس طرح اس سے پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔

١٤۔ یعنی سینوں اور دلوں اور ان میں پیدا ہونے والے خیالات، سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، تو کیا وہ اپنی مخلوق سے بے علم رہ سکتا ہے۔

١٥۔١لطیف کے معنی ہے باریک بین یعنی جس کا علم اتنا ہے کہ دلوں میں پرورش پانے والی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ذلول کے معنی مطیع۔ یعنی زمین کو تمہارے لیے نرم اور آسان کر دیا اس کو اسی طرح سخت نہیں بنایا کہ تمہارا اس پر آباد ہونا اور چلنا پھرنا مشکل ہو۔ یعنی زمین کی پیداوار سے کھاؤ پیو۔

١٦۔ یہ کافروں کو ڈرایا جا رہا ہے کہ آسمانوں والی ذات جب چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے۔ یعنی وہی زمین جو تمہاری قرار گاہ ہے اور تمہاری روزی کا مخزن و منبع ہے، اللہ تعالیٰ اسی زمین کو، جو نہایت پر سکون ہے، حرکت، جنبش میں لا کر تمہاری ہلاکت کا باعث بنا سکتا ہے۔

۱۷۔(۱)  جیسے اس نے قوم لوط اور اصحاب فیل پر برسائے اور پتھروں کی بارش سے ان کو ہلاک کر دیا۔

١٧۔ (۲)  لیکن اس وقت یہ علم، بے فائدہ ہو گا۔

١٩۔ (۱)  پرندہ جب ہوا میں اڑتا ہے تو وہ پر پھیلاتا ہے اور کبھی دوران پرواز پروں کو سمیٹ لیتا ہے۔ یہ پھیلانا، صَف اور سمیٹ لینا قَبْض ہے۔

١٩۔ (۲)  یعنی دوران پرواز ان پرندوں کو تھامے رکھنے والا کون ہے، جو انہیں زمین پر گرنے نہیں دیتا؟ یہ اللہ رحمان ہی کی قدرت کا ایک نمونہ ہے۔

٢٠۔ جس میں انہیں شیطان نے مبتلا کر رکھا ہے۔

٢١۔ یعنی اللہ بارش نہ برسائے، یا زمین ہی کو پیداوار سے روک دے یا تیار شدہ فصلوں کو تباہ کر دے، جیسا کہ بعض بعض دفعہ وہ ایسا کرتا ہے، جس کی وجہ سے تمہاری خوراک کا سلسلہ موقوف ہو جائے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا کر دے تو کیا کوئی اور ہے جو اللہ کی مشیت کے برعکس تمہیں روزی مہیا کر دے ؟ یعنی وعظ و نصیحت کی ان باتوں کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ حق سے سرکشی اور اعراض و نفور میں ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں عبرت پکڑتے ہیں اور نہ ہی غور و فکر کرتے ہیں۔

۲۲۔(۱)  منہ کے بل اوندھے چلنے والے کو دائیں بائیں کچھ نظر نہیں آتا نہ وہ ٹھوکروں سے محفوظ ہوتا ہے کیا ایسا شخص اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے ؟ یقیناً نہیں اسی طرح دنیا میں اللہ کی معصیتوں میں ڈوبا ہوا شخص آخرت کی کامیابی سے محروم رہے گا۔

۲۲۔ (۲) جس میں کوئی کجی اور انحراف نہ ہوا اور اس کو آگے اور دائیں بائیں بھی نظر آ رہا ہو ظاہر ہے یہ شخص اپنی منزل مقصود کو پہنچ جائے گا یعنی اللہ کی اطاعت کا سیدھا راستہ اپنانے والا آخرت میں سرخرو رہے گا بعض کہتے ہیں کہ مومن اور کافر دونوں کی اس کیفیت کا بیان ہے جو قیامت والے دن انکی ہو گی کافر منہ کے بل جہنم میں جائے جائیں گے اور مومن سیدھے قدموں سے چل کر جنت میں جائیں گے۔

۲۲۔ (٣) یعنی پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔

۲۳۔ (۱) یعنی کان آنکھیں اور دل بنائیں جن سے تم سن سکو اور اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کر کے اللہ کی معرفت حاصل کر سکو تین قوتوں کا ذکر فرمایا ہے جن سے انسان مسموعات، مبصرات اور معقولات کا ادراک کر سکتا ہے یہ ایک طرح سے اتمام حجت بھی ہے اور اللہ کی ان نعمتوں پر شکر نہ کرنے کی مذمت بھی اسی لیے آگے فرمایا تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو۔

٢٣۔ (۲)  یعنی شُکْراً قَلِیْلاً یا زَمْنً قَلِیلاً یا قلت شکر سے مراد ان کی طرف سے شکر کا عدم وجود ہے۔

۲۴۔ یعنی انسانوں کو پیدا کر کے زمین میں پھیلانے والا بھی وہی ہے اور قیامت والے دن سب جمع بھی اس کے پاس ہوں گے کسی اور کے پاس نہیں۔

٢٥۔ یہ کافر بطور مذاق قیامت کو دور دراز کی باتیں سمجھتے ہوئے کہتے ہیں۔

٢٦۔ یعنی میرا کام تو صرف انجام سے ڈرانا ہے جو میری تکذیب کی وجہ تمہارا ہو گا، دوسرے لفظوں میرا کام انزاز ہے، غیب کی خبریں بتانا نہیں۔ الا یہ کہ جس کی بابت خود اللہ مجھے بتلا دے۔

٢٧۔ یعنی ذلت اور ہولناکی اور دہشت سے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی۔ جس کو دوسرے مقام پر چہروں کے سیاہ ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی یہ عذاب جو تم دیکھ رہے ہو وہی ہے جسے تم دنیا میں جلد طلب کرتے تھے۔

۲۸۔مطلب یہ ہے کہ کافروں کو تو اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے چاہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کو موت یا قتل کے ذریعے ہلا کر دے یا انہیں مہلت دے دے یا یہ مطلب ہے کہ ہم باوجود ایمان کے خوف اور رجا کے درمیان پس تمہیں تمہارے کفر کے باوجود عذاب سے کون بچائے گا۔

٢٩۔ (۱)  یعنی وحدانیت پر، اسی لئے اس کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے۔

٢٩۔ (۲)  کسی اور پر نہیں۔ ہم اپنے تمام معاملات اسی کے سپرد کرتے ہیں، کسی اور کے نہیں جیسے مشرک کرتے ہیں۔ یعنی تم ہو یا ہم اس میں کافروں کے لیے سخت وعید ہے۔

٣٠۔ غَوْراً کے معنی ہیں خشک ہو جانا یا اتنی گہرائی میں چلا جانا کہ وہاں سے پانی نکالنا ناممکن ہو۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ پانی خشک فرما دے کہ اس کا وجود ہی ختم ہو جائے یا اتنی گہرائی میں کر دے کہ ساری مشینیں پانی نکالنے میں ناکام ہو جائیں تو بتلاؤ! پھر کون ہے جو تمہیں جاری، صاف اور نتھرا ہوا پانی مہیا کر دے ؟ یعنی کوئی نہیں ہے کہ تمہیں پانی سے محروم نہیں فرماتا۔