احسن البیان

سُوۡرَةُ اللیْل

۱۔یعنی افق پر چھا جائے جس سے دن کی روشنی ختم اور اندھیرا ہو جائے۔

۲۔۔ یعنی رات کا اندھیرا ختم ہو جائے اور دن کو اجالا پھیل جائے۔

٣۔ یہ اللہ نے اپنی قسم کھائی ہے، کیونکہ مرد عورت دونوں کا خالق اللہ ہی ہے

٤۔ یعنی کوئی اچھے عمل کرتا ہے، جس کا صلہ جنت ہے اور کوئی برے عمل کرتا ہے جس کا بدلہ جہنم ہے۔ یہ جواب قسم ہے۔

۵۔یعنی خیر کے کاموں میں خرچ کرے گا اور محارم سے بچے گا۔

٦۔یا اچھے صلے کی تصدیق کرے گا، یعنی اس بات پر یقین رکھے گا کہ انفاق اور تقویٰ اللہ کی طرف سے عمدہ صلہ ملے گا۔

۷۔ (۲) یعنی ہم بھی اس کو اس سے نیکی اور اطاعت کی توفیق دیتے اور ان کو اس کے لیے آسان کر دیتے ہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے چھ غلام آزاد کیے، جنہیں اہل مکہ مسلمان ہونے کی وجہ سے سخت اذیت دیتے تھے۔ (فتح القدیر)

۸۔یعنی اللہ کے راہ میں خرچ نہیں کرے گا اور اللہ کے حکم سے بے پرواہی کرے گا۔

۹۔یا آخرت کی جزاء و سزا اور حساب و کتاب کا انکار کرے گا۔

۱۰۔تنگی سے مراد کفر و معصیت اور طریق شر ہے، یعنی ہم اس کے لیے نافرمانی کا راستہ آسان کر دیں گے، جس سے اس کے لیے خیر و سعادت کے راستے مشکل ہو جائیں گے، قرآن مجید میں یہ مضمون کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ جو خیر و رشد کا راستہ اپناتا ہے اس کے صلے میں اللہ اسے خیر و توفیق سے نوازتا ہے اور جو شر و معصیت کو اختیار کرتا ہے اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑتا ہے یہ اس کی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے جو اللہ نے اپنے علم سے لکھ رکھی ہے۔ (ابن کثیر)

۱۱۔یعنی جب جہنم میں گرے گا تو یہ مال جسے وہ خرچ نہیں کرتا تھا، کچھ کام نہ آئے گا۔

۱۲۔یعنی حلال اور حرام، خیر و شر، ہدایت و ضلالت کو واضح اور بیان کرنا ہمارے ذمے ہے۔ (جو کہ ہم نے کر دیا)

١٣۔ یعنی دونوں کے مالک ہم ہی ہیں، ان میں جس طرح چاہیں تصرف کریں اس لئے ان دونوں کے یا ان میں سے کسی ایک کے طالب ہم سے ہی مانگیں کیونکہ ہر طالب کو ہم اپنی مشیت کے مطابق دیتے ہیں۔

۱۷۔یعنی جہنم سے دور رہے گا اور جنت میں داخل ہو گا۔

١٨۔ یعنی جو اپنا مال اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے تاکہ اس کا نفس بھی اور اس کا مال بھی پاک ہو جائے۔

٢٠۔ بلکہ اخلاص سے اللہ کی رضا اور جنت میں اس کے دیدار کے لئے خرچ کرتا ہے۔

٢١۔ یعنی جو شخص ان صفات کا حامل ہو گا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کی نعمتیں اور عزت و شرف عطا فرمائے گا۔ جس سے وہ راضی ہو جائے گا، اکثر مفسرین نے کہا ہے بلکہ بعض نے اجماع تک نقل کیا ہے کہ یہ آیات حضرت ابوبکر کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ تاہم معنی و مفہوم کے اعتبار سے عام ہیں جو بھی ان صفات عالیہ سے متصف ہو گا، وہ بارگاہ الہی میں ان کا مصداق قرار پائے گا۔