احسن البیان

سورة فَاطِر

١۔ (۱)   فَاطِر،ُ کے معنی ہیں، پہلے پہل ایجاد کرنے والا، یہ اشارہ ہے اللہ کی قدرت کی طرف کہ اس نے آسمان و زمین پہلے پہل بغیر نمونے کے بنائے، تو اس کے لئے دوبارہ انسانوں کو پیدا کرنا کون سا مشکل ہے ؟۔

۱۔ (۲)  مراد جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ انبیاء کی طرف یا مختلف مہمات پر قاصد بنا کر بھیجتا ہے۔ ان میں کسی کے دو کسی کے تین کسی کے چار پر ہیں جن کے ذریعے سے وہ زمین پر آتے اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں۔

١۔ (۳) یعنی بعض فرشتوں کے اس سے بھی زیادہ پر ہیں، جیسے حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میں نے معراج کی رات جبرائیل علیہ السلام کو اصلی صورت میں دیکھا اس کے چھ سو پر تھے (صحیح بخاری

٢۔ ان ہی نعمتوں میں سے ارسال رسل اور انزال کتب بھی ہے۔ یعنی ہر چیز کا دینے والا بھی ہے، اور واپس لینے والا یا روک لینے والا بھی وہی ہے۔ اس کے علاوہ نہ کوئی معطی ہے اور نہ مانع و قابض۔

٣۔ یعنی اس بیان اور وضاحت کے بعد بھی تم غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو؟۔ مطلب ہے کہ تمہارے اندر توحید اور آخرت کا انکار کہاں سے آگیا، جب کہ تم مانتے ہو کہ تمہارا خالق اور رازق اللہ ہے (فتح القدیر)

٤۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جھٹلا کر کہاں جائیں گے ؟ بالآخر تمام معاملات کا فیصلہ تو ہمیں نے کرنا ہے، اس لئے اگر یہ باز نہ آئے، تو ان کو بھی ہلاک کرنا ہمارے لئے مشکل نہیں۔

٥۔ (۱)   کہ قیامت برپا ہو گی اور نیک و بد کو ان کے عملوں کی جزا و سزا دی جائے گی۔

٥۔ (۲)  یعنی آخرت کی ان نعمتوں سے غافل نہ کر دے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں اور رسولوں کے پیروکاروں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔ پس اس دنیا کی عارضی لذتوں میں کھو کر آخرت کی دائمی راحتوں کو نظر انداز نہ کرو

٦۔ یعنی اس سے سخت عداوت رکھو، اس کے فریب اور ہتھکنڈوں سے بچو، جس طرح دشمن کے بچاؤ کے لئے انسان کرتا ہے۔

٧۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے دیگر مقامات کی طرح ایمان کے ساتھ، عمل صالح بیان کر کے اس کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے تاکہ اہل ایمان عمل صالح سے کسی وقت بھی غفلت نہ برتیں، کہ مغفرت اور اجر کبیر کا وعدہ اس ایمان پر ہی ہے جس کے ساتھ عمل صالح ہو گا۔

٨۔ (۱)   جس طرح کفار و بدکار ہیں، وہ کفر و شرک فسق اور بدکاری کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ اچھا کر رہے ہیں۔ پس ایسا شخص، جس کو اللہ نے گمراہ کر دیا ہو، اس کے بچاؤ کے لئے آپ کے پاس کوئی حیلہ ہے ؟ یا یہ اس شخص کے برابر ہے جسے اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے ؟ جواب نفی میں ہی ہے، نہیں یقیناً نہیں۔

۸۔ (۲)  اللہ تعالیٰ اپنے عدل کی رو سے اپنی سنت کے مطابق اس کو گمراہ کرتا ہے جو مسلسل اپنے کرتوتوں سے اپنے کو اس کا مستحق ٹھہرا چکتا ہے اور ہدایت اپنے فضل و کرم سے اسے دیتا ہے جو اس کا طالب ہوتا ہے۔

۸۔ (۳)  کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت پر اور علم تام پر مبنی ہے اس لیے کسی کی گمراہی پر اتنا افسوس نہ کریں کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال لیں۔

۸۔(۴) یعنی اس سے کوئی قول یا فعل مخفی نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ان کے ساتھ معاملہ علیم و خبیر اور ایک حکیم کی طرح ہے عام بادشاہوں کی طرح کا نہیں ہے جو اپنے اختیارات کا الل ٹپ استعمال کرتے ہیں، کبھی سلام کرنے سے بھی ناراض ہو جاتے ہیں اور کبھی دشنام پر ہی خلعتوں سے نواز دیتے ہیں۔

۹۔یعنی جس طرح بادلوں سے بارش برسا کر خشک زمین کو ہم شاداب کر دیتے ہیں اسی طریقے سے قیامت والے دن تمام مردہ انسانوں کو بھی ہم زندہ کر دیں گے، حدیث میں آتا ہے کہ انسان کا سارا جسم بوسیدہ ہو جاتا ہے صرف ریڑھ کی ہڈی کا ایک چھوٹا سا حصہ محفوظ رہتا ہے اسی سے اس کی دوبارہ تخلیق و ترکیب ہو گی۔

۱۰۔(۱)   یعنی جو چاہتا ہے کہ اسے دنیا اور آخرت میں عزت ملے، تو وہ اللہ کی اطاعت کرے اس سے اسے یہ مقصود حاصل ہو جائے گا اس لیے کہ دنیا و آخرت کا مالک اللہ ہی ہے ساری عزتیں اسی کے پاس ہیں وہ جس کو عزت دے، وہی عزیز ہو گا جس کو وہ ذلیل کر دے، اسے دنیا کی کوئی طاقت عزت نہیں دے سکتی۔

١٠۔ (۲)  اَ لْکَلِمُ، کَلِمَہ،ُ ایک جمع ہے، ستھرے کلمات سے مراد اللہ کی تسبیح و تحمید، تلاوت ہے، چڑھتے ہیں کا مطلب، قبول کرنا ہے۔ یا فرشتوں کا انہیں لے کر آسمانوں پر چڑھنا تاکہ اللہ انہیں جزا دے۔

۱۰۔ (۳)  خفیہ طریقے سے کسی کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کو مکر کہتے ہیں کفرو شرک کا ارتکاب بھی مکر ہے اس طرح اللہ کے راستے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے نبی کے خلاف قتل وغیرہ کی جو سازشیں کفار مکہ کرتے تھے وہ بھی مکر ہے، ریاکاری بھی مکر ہے۔

١٠۔(۴) یعنی ان کا مکر بھی برباد ہو گا اور اس کا وبال انہی پر پڑے گا جو اس کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسے فرمایا (و لَا یَحِیْقُ المَکْرُ سَّیِّء)

۱۱۔(۱)   یعنی تمہارے باپ آدم کو مٹی سے اور پھر اس کے بعد تمہاری نسل کو قائم رکھنے کے لیے انسان کی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کر دیا جو مرد کی پشت سے نکل کر عورت کے رحم میں جاتا ہے۔

۱۱۔ (۲) یعنی اس سے کوئی چیز مخفی نہیں، حتی کہ زمین پر گرنے والے پتے کو اور زمین کی تاریکیوں میں نشوونما پانے والے بیج کو بھی جانتا ہے۔

۱۲۔مواخر وہ کشتیاں جو آتے جاتے پانی کو چیرتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔ اس کی وضاحت سورۃ فرقان میں گزر چکی ہے۔

١٣۔ (۱)   یعنی مذکورہ تمام افعال کا فاعل ہے۔

۱۳۔ (۲)  یعنی اتنی حقیر چیز کے بھی مالک نہیں نہ اسے پیدا کرنے پر ہی قادر ہیں۔

١٤۔ (۱)   یعنی اگر تم انہیں مصائب پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ جمادات ہیں پتھر کی مورتیاں۔

١٤۔ (۲)  یعنی اگر بالفرض وہ سن بھی لیں تو بے فائدہ، اس لئے کہ تمہاری التجاؤں کے مطابق تمہارا کام نہیں کر سکتے۔

١٤۔ (۳) اس لئے کہ اس جیسا کامل علم کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ وہی تمام امور کی حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے جس میں ان کے پکارے جانے والوں کی بے اختیاری، پکار کو نہ سننا اور قیامت کے دن اس کا انکار کرنا بھی شامل ہے۔

۱۵۔(۱)   ناس کا لفظ عام ہے جس میں عوام وخاص حتی کہ انبیاء وصلحا سب آ جاتے ہیں اللہ کے درکے سب ہی محتاج ہیں لیکن اللہ کسی کا محتاج نہیں۔

۱۵۔ (۲) وہ اتنا بے نیاز ہے کہ اگر سب لوگ اس کے مخالف ہو جائیں اس سے اس کی سلطنت میں کوئی کمی اور سب اس کے اطاعت گزار بن جائیں، تو اس سے اس کی قوت میں زیادتی نہ ہو گی بلکہ نافرمانی میں لوگوں کا اپنا ہی نقصان ہے۔ اور عبادت و اطاعت میں اپنا ہی فائدہ ہے۔

١٥۔ (۳)  یعنی محمود ہے اپنی نعمتوں کی وجہ سے۔ پس ہر نعمت، جو اس نے بندوں پر کی ہے، اس پر وہ حمد و شکر کا مستحق ہے۔

١٦۔ یہ بھی اس کی شان بے نیازی ہی کی ایک مثال ہے کہ اگر وہ چاہے تو تمہیں فنا کے گھاٹ اتار کے تمہاری جگہ ایک نئی مخلوق پیدا کر دے، جو اس کی اطاعت گزار ہو، اس کی نافرمان نہیں یا یہ مطلب ہے کہ ایک نئی مخلوق اور نیا عالم پیدا کر دے جس سے تم ناآشنا ہو۔

١٨۔ (۱)   ہاں جس نے دوسروں کو گمراہ کیا ہو گا، وہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ان کے گناہوں کا بوجھ بی اٹھائے گا، جیسا کہ آیت (وَلَیَحمِلُنَّ اَثْقَالَھُمْ وَ اَثْقَالِھِمْ) واضح ہے لیکن یہ دوسروں کا بوجھ بھی درحقیقت ان کا اپنا ہی بوجھ کہ ان ہی نے ان دوسروں کو گمراہ کیا تھا۔

١٨۔ (۲)  ایسا انسان جو گناہوں کے بوجھ سے لدا ہو ہو گا، وہ اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے اپنے رشتہ دار کو بھی بلائے گا تو وہ آمادہ نہیں ہو گا۔

۱۸۔ (۳)  یعنی تیرے انذار و تبلیغ کا فائدہ انہی لوگوں کو ہو سکتا ہے تو یا تو انہی کو ڈراتا ہے ان کو نہیں جن کو انذار سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (انما انت منذر من یخشاھا)

۱۸۔(۴) تطھر کے معنی ہیں شرک اور فواحش کی آلودگیوں سے پاک ہونا۔

٢٠۔ اندھے سے مراد کافر اور آنکھوں والا سے مومن، اندھیروں سے باطل اور روشنی سے حق مراد ہے، باطل کی بے شمار قسمیں ہیں، اس لئے اس کے لئے جمعود کا اور حق چونکہ متعدد نہیں، ایک ہے، اس لئے اس کے لئے واحد صیغہ استعمال کیا۔

٢١۔ یہ ثواب و عتاب یا جنت و دوزخ کی تمثیل ہے۔

٢٢۔ (۱)   احیاء سے مومن اور اموات سے کافر یا علماء اور جاہل یا عقلمند اور غیر عقلمند مراد ہیں۔

٢٢۔ (۲)  یعنی جسے اللہ ہدایت سے نواز نے والا ہوتا ہے اور جنت اس کی مقدر ہوتی ہے، اسے حجت یا دلیل سننے اور پھر اسے قبول کرنے کی تو فیق دے دیتا ہے۔

۲۲۔ (۳) یعنی جس طرح قبروں میں مردہ اشخاص کی کوئی بات نہیں سنائی جا سکتی اسی طرح جن لوگوں کے دلوں کو کفر نے موت سے ہمکنار کیا اے پیغمبر تو انہیں حق کی بات نہیں سنا سکتا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح مرنے اور قبر میں دفن ہونے کے بعد مردہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح کافر ومشرک جن کی قسمت میں بدبختی لکھی ہے دعوت و تبلیغ سے انہیں فائدہ نہیں ہوتا۔

٢٣۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے۔ ہدایت اور ضلالت یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔

٢٥۔ تاکہ کوئی قوم یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو ایمان اور کفر کا پتہ ہی نہیں اس لئے ہمارے پاس کوئی پیغمبر بھی نہیں آیا بنا بریں اللہ نے ہر امت میں نبی بھیجا۔ جس طرح دوسرے مقام پر بھی فرمایا ولکل قوم ھاد۔

٢٦۔ یعنی کیسے سخت عذاب کے ساتھ میں نے ان کی گرفت کی اور انہیں تباہ و برباد کر دیا۔

٢٧۔ (۱)   یعنی جس طرح مومن اور کافر، صالح اور فاسد دونوں قسم کے لوگ ہیں، اسی طرح دیگر مخلوقات میں بھی فرق اور اختلاف ہے، مثلاً پھولوں کے رنگ بھی مختلف ہیں اور ذائقے لذت اور خوشبو میں بھی ایک دوسرے سے مختلف۔ حتیٰ کہ ایک ایک پھل کے بھی کئی کئی رنگ بھی مختلف اور ذائقے اور خوشبو اور لذت میں بھی ایک دوسرے سے مختلف جیسے کھجور ہے، انگور ہے، سیب اور دیگر بعض پھل ہیں۔

٢٧۔ (۲)  اسی طرح پہاڑ اور اس کے حصے یا راستے اور خطوط مختلف رنگوں کے ہیں، سفید، سرخ اور بہت گہرے، سیاہ راستہ یا لکیر۔ غَرَابِیْب، غَرِیْب،ُ کی جمع ہے (سیاہ) کی جمع ہے۔ جب سیاہ رنگ کے گہرے پن کو ظاہر کرتا ہو تو اس کے ساتھ غربیب کا الفاظ استعمال کیا جاتا ہے ؛اسود غربیب، جس کے معنی ہوتے ہیں، بہت گہرا سیاہ۔

٢٨۔ (۱)   یعنی انسان اور جانور بھی سفید، سرخ، سیاہ اور زرد رنگ کے ہوتے ہیں۔

۲۸۔ (۲) یعنی اللہ کی ان قدرتوں اور اس کے کمال صناعی کو وہی جان اور سمجھ سکتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں اس علم سے مراد کتاب و سنت اور اسرار الہیہ کا علم ہے جتنی ان کو رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اتنا ہی وہ ڈرتے ہیں اپنے رب سے۔گویا جن کے اندر خشیت الہی نہیں ہے سمجھ لو کہ علم صحیح سے بھی وہ محروم ہیں۔

٢٨۔ (۳)  یہ رب سے ڈرنے کی علت ہے کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ نافرمان کو سزا دے اور توبہ کرنے والے کے گناہ معاف فرما دے۔

٢٩۔ (۱)   کتاب اللہ سے مراد قرآن کریم ہے، تلاوت کرتے ہیں، یعنی پابندی سے اس کا اہتمام کرتے ہیں۔

٢٩۔ (۲)  اقامت صلوٰۃ کا مطلب ہوتا ہے، نماز کی ادائیگی جو مطلوب ہے، یعنی وقت کی پابندی، اعتدالِ ارکان اور خشوع و خضوع کے اہتمام کے ساتھ پڑھنا۔

٢٩۔ (۳) یعنی رات دن، اعلانیہ اور پوشیدہ دونوں طریقوں سے حسب ضرورت خرچ کرتے ہیں، بعض کے نزدیک پوشیدہ سے نفلی صدقہ اور اعلانیہ سے صدقہ، واجبہ (زکوٰۃ) مراد ہے۔

۲۹۔(۴) یعنی ایسے لوگوں کا اجر اللہ کے ہاں یقینی ہے، جس میں مندے اور کمی کا امکان نہیں۔

٣٠۔ یعنی یہ تجارت مندے سے اس لئے محفوظ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال صالحہ پر پورا اجر عطا فرمائے گا۔ یا فعل محذوف کے متعلق ہے کہ یہ نیک اعمال اس لئے کرتے ہیں یا اللہ نے انہیں ان کی طرف ہدایت کی تاکہ وہ انہیں اجر دے۔

٣١۔ (۱)   یعنی جس پر تیرے اور تیری امت کے لئے عمل کرنا ضروری ہے۔

٣١۔ (۲)  تورات اور انجیل وغیرہ کی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم اس اللہ کا نازل کردہ ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں، جب ہی تو دونوں ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔

٣١۔ (۳) یہ اس کے علم و خبری کا نتیجہ ہے کہ اس نے نئی کتاب نازل فرما دی، کیونکہ وہ جانتا ہے، پچھلی کتابیں ردو بدل کا شکار ہو گئی ہیں اور اب وہ ہدایت کے قابل نہیں رہی ہیں۔

٣٢۔ (۱)   کتاب سے قرآن اور چنے ہوئے بندوں سے مراد امت محمدیہ ہے۔ یعنی اس قرآن کا وارث ہم نے امت محمدیہ کو بنایا ہے جسے ہم نے دوسری امتوں کے مقابلے میں چن لیا اور اسے شرف و فضل سے نوازا۔ یہ تقریباً وہی مفہوم ہے جو آیت البقرہ۔ ١٤٢ کا ہے۔

۳۲۔ (۲) امت محمدیہ کی تین قسمیں ہیں یہ پہلی قسم ہے جس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بعض فرائض میں کوتاہی اور بعض محرکات کا ارتکاب کر لیتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو صغائر کا ارتکاب کرتے ہیں انہیں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اس لیے کہا کہ وہ اپنی کچھ کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے کو اس اعلی درجہ سے محروم کر لیں گے جو باقی دو قسموں کو حاصل ہوں گے۔

٣٢۔ (۳)  یہ دوسری قسم ہے۔ یعنی ملے جلے عمل کرتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو فرائض کے پابند، محرکات کے تارک تو ہیں لیکن کبھی دعاؤں سے منحرف اور بعض منع کی گئی چیزوں کا ارتکاب بھی ان سے ہو جاتا ہے یا وہ ہیں جو نیک تو ہیں لیکن پیش پیش نہیں ہیں ۔

٣٢۔ (۳) یہ وہ ہیں جو دین کے معاملے میں پچھلے دونوں سے سبقت کرنے والے ہیں۔

٣٢۔(۴) یعنی کتاب کا وارث کرنا اور شرف و فضل میں ممتاز (مصطفیٰ) کرنا۔

۳۳۔(۱)   بعض کہتے ہیں کہ جنت میں صرف سابقون جائیں گے لیکن یہ صحیح نہیں قرآن کا سیاق اس امر کا مقتاضی ہے کہ تینوں قسمیں جنتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ سابقین بغیر حساب کتاب کے اور مقصدین آسان حساب کے بعد اور ظالمین شفاعت سے یا سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائیں گے۔ جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔

٣٣۔ (۲)  حدیث میں آتا ہے کہ ' ریشم کا لباس دنیا میں مت پہنو، اس لئے کہ جو اسے دنیا میں پہنے گا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہنے گا (صحیح بخاری

٣٧۔ (۱)   یعنی غیروں کی بجائے تیری عبادت اور معصیت کی بجائے اطاعت کریں گے۔

۳۷۔ (۲) اس سے مراد کتنی عمر ہے ؟ مفسرین نے مختلف عمریں بیان کی ہیں بعض نے احادیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ  سال کی عمر مراد ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں عمر کی تعیین صحیح نہیں اس لیے کہ عمریں مختلف ہوتی ہیں کوئی جوانی میں کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے پھر یہ ادوار بھی لمحہ گزراں کی طرح مختصر نہیں ہوتے، مثلاً ہر دور خاصا لمبا ہوتا ہے مثلاً جوانی کا دور، بلوغت سے کہولت تک اور کہولت کا دور شیخوخت بڑھاپے تک اور بڑھاپے کا دور موت تک رہتا ہے۔ اور سب سے یہ سوال کرنا صحیح ہو گا کہ ہم نے تجھے اتنی عمر دی تھی کہ اگر تو حق کو سمجھنا چاہتا تو سمجھ سکتا تھا پھر تو نے حق کو سمجھنے اور اسے اختیار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

٣٧۔ (۳)  اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ یعنی یاد دہانی اور نصیحت کے لئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم اور اس کے منبر و محراب کے وارث علماء تیرے پاس آئے، لیکن تو نے اپنی عقل فہم سے کام لیا نہ داعیان حق کی باتوں کی طرف دھیان کیا۔

٣٨۔ (۱)   یہاں یہ بیان کرنے سے یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ تم دوبارہ دنیا میں جانے کی آرزو کر رہے ہو اور دعویٰ کر رہے ہو کہ اب نافرمانی کی جگہ اطاعت اور شرک کی جگہ توحید اختیار کرو گے۔ لیکن ہمیں علم ہے تم ایسا نہیں کرو گے۔ تمہیں اگر دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو جیسے دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا ' اگر انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کام کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا '۔

٣٨۔ (۲)  یہ پچھلی بات کی دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو آسمان اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم کیوں نہ ہو، جبکہ وہ سینوں کی باتوں اور رازوں سے بھی واقف ہے جو سب سے زیادہ پوشیدہ ہوتے ہیں۔

٣٩۔ یعنی اللہ کے ہاں کفر کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا، بلکہ اس سے اللہ کے غضب اور ناراضگی میں بھی اضافہ ہو گا اور انسان کے اپنے نفس کا خسارہ بھی زیادہ۔

٤٠۔ (۱)   یعنی ہم نے ان پر کوئی کتاب نازل کی ہو، جس میں درج ہو کہ میرے بھی کچھ شریک ہیں جو آسمان اور زمین کی تخلیق میں حصے دار اور شریک ہیں۔

٤٠۔ (۲)  یعنی ان میں سے کوئی بھی بات نہیں ہے بلکہ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کو گمراہ کرتے آئے ہیں۔ ان کے لیڈر کہتے تھے کہ یہ معبود انہیں نفع پہنچائیں گے، انہیں اللہ کے نزدیک کر دیں گے اور ان کی شفاعت کریں گے۔ یا یہ باتیں شیاطین مشرکین سے کہتے تھے یا اس سے وہ وعدہ مراد ہے جس کا اظہار وہ ایک دوسرے کے سامنے کرتے تھے کہ وہ مسلمانوں پر غالب آئیں گے جس سے ان کو کفر پر جمے رہنے کا حوصلہ ملتا تھا۔

٤۱۔(۱)   یہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت و صنعت کا بیان ہے بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ ان کے شرک اقتضاء ہے کہ آسمان و زمین اپنی حالت پر برقرار نہ رہیں بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں جیسے آیت تکاد السموات۔۔ مریم) کا مفہوم ہے۔

٤۱۔ (۲) یعنی یہ اللہ کے کمال قدرت کے ساتھ اس کی کمال مہربانی بھی ہے کہ وہ آسمان و زمین کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں اپنی جگہ سے ہلنے اور ڈولنے نہیں دیتا ہے ورنہ پلک جھپکتے میں دنیا کا نظام تباہ ہو جائے کیونکہ اگر وہ انہیں تھامے نہ رکھے اور انہیں اپنی جگہ سے پھیر دے تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ان کو تھام لے۔ اللہ نے اپنے اس احسان اور نشانی کا تذکرہ دوسرے مقامات پر بھی فرمایا ہے۔(ویمسک السماء ان تقع علی الارض۔ الخ) الحج۔ اسی نے آسمان کو زمین پر گرنے سے روکا ہوا ہے مگر جب اس کا حکم ہو گا "اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں "۔

٤۱۔ (۳)  اتنی قدرتوں کے باوجود وہ حلیم ہے اپنے بندوں کو دیکھتا ہے کہ وہ کفر وشرک اور نافرمانی کر رہے ہیں پھر بھی وہ ان کی گرفت میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور غفور بھی ہے کوئی تائب ہو کر اس کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے توبہ و استغفار و ندامت کا اظہار کرتا ہے وہ معاف فرما دیتا ہے۔

٤٢۔ (۱)   اس میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ بعث محمدی سے قبل یہ مشرکین عرب قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر ہماری طرف کوئی رسول آیا، تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے اور اس پر ایمان لانے میں ایک مثالی کردار ادا کریں گے۔ یہ مضمون دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً (سورہ الانعام، ١٥٦۔١٥٧  الصافات، ٦٧۔١٧٠

 ٤٢۔ (۲)  یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس نبی بن کر آ گئے جن کے لئے وہ تمنا کرتے تھے۔

٤٣۔ (۱)   یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت پر ایمان لانے کی بجائے، انکار و مخالفت کا راستہ محض استکبار اور سرکشی کی وجہ سے اختیار کیا۔

 ٤٣۔ (۲)  اور بری تدبیر یعنی حیلہ، دھوکا اور عمل قبیح کی وجہ سے کیا۔

 ٤٣۔ (۳) یعنی لوگ مکر و حیلہ کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ بری تدبیر کا انجام برا ہی ہوتا ہے اور اس کا وبال بالآخر مکر و حیلہ کرنے والوں پر ہی پڑتا ہے۔

٤٣۔(۴) یعنی کیا یہ اپنے کفر و شرک، رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت اور مومنوں کو ایذائیں پہنچانے پر مصر رہ کر اس بات کے منتظر ہیں کہ انہیں بھی اس طرح ہلاک کیا جائے جس طرح پچھلی قومیں ہلاکت سے دو چار ہوئیں۔

 ٤٣۔(٥) بلکہ یہ اسی طرح جاری ہے اور ہر مکذب (جھٹلانے والے ) کا مقدر ہلاکت ہے یا بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے عذاب کو رحمت کے سائے سے بدلنے پر قادر نہیں ہے۔

٤۳۔ (٦) یعنی کوئی اللہ کے عذاب کو دور کرنے والا یا اس کا رخ پھیرنے والا نہیں ہے یعنی جس قوم کو اللہ عذاب سے دوچار کرنا چاہے کوئی اس کا رخ کسی اور قوم کی طرف پھیر دے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔ کوئی بھی اس قانون الہی کو بدلنے پر قادر ہے اور نہ عذاب الہی کو پھیرنے پر۔

٤۵۔ (۱)   انسانوں کو ان کے گناہوں کی پاداش میں اور جانوروں کو انسانوں کی نحوست کی وجہ سے یا مطلب یہ ہے کہ تمام اہل زمین کو ہلاک کر دیتا، انسانوں کو بھی اور جن جانوروں اور روزیوں کے وہ مالک ہیں ان کو بھی یا مطلب ہے کہ آسمان سے بارشوں کا سلسلہ منقطع فرما دیتا ہے جس سے زمین پر چلنے والے سب دابتہ مر جاتے ہیں۔

٤٥۔ (۲)   یہ میعاد معین دنیا میں بھی ہو سکتی ہے اور یوم قیامت تو ہے ہی۔

٤۵۔ (۳)  یعنی اس دن ان کا محاسبہ کرے گا اور ہر شخص کو اس کے عملوں کا پورا بدلہ دے گا اہل ایمان و اطاعت کو اجرو ثواب اور اہل کفر و معصیت کو عتاب و عقاب۔ اس میں مومنوں کے لیے تسلی ہے اور کافروں کے لیے وعید۔