احسن البیان

سُوۡرَةُ الاٴنفَال

١۔ (۱) اَنْفَال، نَفَل،ُ کی جمع ہے جس کے معنی زیادہ کے ہیں، یہ مال و اسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے اس کو (نفل) (زیادہ) اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو پچھلی امتوں پر حرام تھیں۔ یہ گویا امت محمدیہ پر ایک زائد چیز حلال کی گئی ہے اس لئے کہ یہ جہاد کے اجر سے (جو آخرت میں ملے گا) ایک زائد چیز ہے جو بعض دفعہ دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔

١۔ (٢) یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اللہ کے رسول اللہ کے حکم سے اسے تقسیم فرمائے گا۔ نہ کہ تم آپس میں جس طرح چاہو تقسیم کر لو۔

١۔ (۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں باتوں پر عمل بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اس سے تقویٰ، اصلاح ذات البین اور اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں ان تینوں امور پر عمل نہایت ضروری ہے کیونکہ مال کی تقسیم میں باہمی فساد کا بھی شدید اندیشہ رہتا ہے اس کے علاج کے لئے اصلاح ذات البین پر زور دیا۔ ہیرا پھیری اور خیانت کا بھی امکان رہتا ہے اس کے لیے تقویٰ کا حکم دیا۔ اس کے باوجود بھی کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا حل اللہ اور رسول کی اطاعت میں مضمر ہے۔

٢۔ ان آیات میں اہل ایمان کی ٤ صفات بیان کی گئی ہیں ١، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ صرف اللہ کی یعنی قرآن کی۔ ٢۔ اللہ کا ذکر سن کر، اللہ کی جلالت و عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ ٣۔ تلاوت قرآن سے ایمانوں میں اضافہ ہوتا ہے (جس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے ) ٤۔ اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی اسباب سے اعراض و گریز بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے، لیکن اسباب ظاہری کو ہی نہیں سب کچھ ہی نہیں سمجھ لیتے بلکہ ان کا یہ یقین ہوتا ہے کہ اصل کار فرما مشیت الٰہی ہی ہے، اس لئے جب تک اللہ کی مشیت بھی نہیں ہو گی، یہ ظاہری اسباب کچھ نہیں کر سکیں گے اور اس یقین اعتماد کی بنیاد پر پھر وہ اللہ کی مدد و اعانت حاصل کرنے سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں ہوتے۔ آگے ان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے اور ان صفات کے حاملین کے لئے اللہ کی طرف سے سچے مومن ہونے کا سرٹیفیکیٹ اور مغفرت و رحمت الٰہی اور رزق کریم کی نوید ہے جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْھُمْ(اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شمار فرما لے ) جنگ بدر کا پس منظر۔ جنگ بدر جو ۲ ہجری میں ہوئی کافروں کے ساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی۔ علاوہ ازیں یہ منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر اچانک ہوئی نیز بے سر و سامانی کی وجہ سے بعض مسلمان ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ مختصرا اس کا پس منظر اس طرح ہے کہ ابوسفیان کی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ) سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ جا رہا تھا چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سا مال و اسباب ہجرت کی وجہ سے مکہ رہ گیا تھا یا کافروں نے چھین لیا تھا نیز کافروں کی قوت و شوکت کو توڑنا بھی مقتضائے وقت تھا۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے۔ ابوسفیان کو بھی اس امر کی اطلاع مل گئی۔ چنانچہ انہوں نے ایک تو اپنا راستہ تبدیل کر لیا۔ دوسرے مکہ اطلاع بھجوا دی جس کی بنا پر ابوجہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی جانب چل پڑا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس صورت حال کا علم ہوا تو صحابہ کرام کے سامنے معاملہ رکھ دیا اور اللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں (تجارتی قافلہ اور لشکر) میں سے ایک چیز تمہیں ضرور حاصل ہو گی۔ تاہم پھر بھی لڑائی میں بعض صحابہ نے تردد کا اظہار اور تجارتی قافلے کے تعاقب کا مشورہ دیا، جب کہ دوسرے تمام صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ لڑنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اسی پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

 ٥۔ (۱) یعنی جس طرح مال غنیمت کی تقسیم کا معاملہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہوا تھا، پھر اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالہ کر دیا گیا تو اسی میں مسلمان کی بہتری تھی، اسی طرح آپ کا مدینہ سے نکلنا اور پھر آگے چل کر تجارتی قافلے کے بجائے، لشکر قریش سے مڈ بھیڑ ہو جانا، بعض طبائع کے لئے ناگوار تھا لیکن اس میں بھی بلآخر فائدہ مسلمانوں ہی کا تھا۔

٥۔ (۲)  یہ ناگواری لشکر قریش سے لڑنے کے معاملے میں تھی، جس کا اظہار چند افراد کی طرف سے ہوا اور اس کی وجہ صرف بے سر و سامانی تھی۔ اس کا تعلق مدینہ سے نکلنے سے نہیں ہے۔

٦۔ (۱) یعنی یہ بات ظاہر ہو گئی تھی کہ قافلہ تو بچ کر نکل گیا ہے اور اب لشکر قریش ہی سامنے ہے جس سے لڑائی ناگزیر ہے۔

٦۔ (۲)  یہ بے سر و سامانی کی حالت میں لڑنے کی وجہ سے بعض مسلمانوں کی جو کیفیت تھی اس کا اظہار ہے۔

٧۔ (۱) یعنی یا تو تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے گا، جس سے تمہیں بغیر لڑائی کے وافر مال و اسباب مل جائے گا، بصورت دیگر لشکر قریش سے تمہارا مقابلہ ہو گا اور تمہیں غلبہ ہو گا اور مال غنیمت ملے گا۔

٧۔ (۲)  یعنی تجارتی قافلہ سے بغیر لڑے مال ہاتھ آ جائے۔

٨۔ لیکن اللہ اس کے برعکس یہ چاہتا تھا کہ لشکر قریش سے تمہاری جنگ ہو تاکہ کفر کی قوت و شوکت ٹوٹ جائے گو یہ امر مجرموں (مشرکوں ) کے لئے ناگوار ہی ہو۔

٩۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد ٣١٣ تھی جب کہ کافر اس سے تین گنا (یعنی ہزار کے قریب تھے پھر مسلمانوں نہتے اور بے سر و سامان تھے جب کے کافروں کے پاس اسلحے کی بھی فراوانی تھی ان حالات میں مسلمانوں کا سہارا صرف اللہ کی ذات ہی تھی جس سے وہ گڑ گڑا کر مدد کی فریادیں کر رہے تھے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم الگ ایک خیمے میں نہایت الحاح و زاری سے مصروف دعا تھے (صحیح بخاری) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول کیں اور ایک ہزار فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے مسلسل لگاتار مسلمانوں کی مدد کے لئے آ گئے۔

١٠۔ یعنی فرشتوں کا نزول تو صرف خوشخبری اور تمہارے دلوں کے اطمینان کے لئے تھا ورنہ اصل مدد تو اللہ کی طرف سے تھی جو فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کر سکتا تھا تاہم اس سے یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ فرشتوں نے عملاً جنگ میں حصہ نہیں لیا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں فرشتوں نے عملی حصہ لیا اور کئی کافروں کو انہوں نے تہ تیغ کیا (صحیح بخاری)۔

١١۔ (۱) جنگ احد کی طرح جنگ بدر میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اونگھ طاری کر دی جس سے ان کے دلوں کے بوجھ ہلکے ہو گئے اور اطمینان و سکون کی ایک خاص کیفیت ان پر طاری ہو گئی۔

١١۔ (۲)  تیسرا انعام یہ کیا کہ بارش نازل فرمادی جس سے ایک تو ریتلی زمین میں نقل و حرکت آسان ہو گئی دوسرے وضو و طہارت میں آسانی ہو گئی، تیسرے اس سے شیطانی وسوسوں کا ازالہ فرما دیا جو اہل ایمان کے دلوں میں ڈال رہا تھا کہ تم اللہ کے نیک بندے ہوتے ہوئے بھی پانی سے دور ہو، دوسرے جنابت کی حالت میں تم لڑو گے تو کیسے اللہ کی رحمت و نصرت تمہیں حاصل ہو گی؟ تیسرے تم پیاسے ہو، جب کہ تمہارے دشمن سیراب ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

 ١١۔(٣) یہ چوتھا انعام ہے جو دلوں اور قدموں کو مضبوط کر کے کیا گیا۔

١٢۔ (۱) یہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے سے اور خاص اپنی طرف سے جس جس طریقے سے مسلمانوں کی بدر میں مدد فرمائی اس کا بیان ہے۔

١٢۔ (۲)بَنَانِ۔ ہاتھوں اور پیروں کے پور۔ یعنی ان کی انگلیوں کے اطراف (کنارے ) یہ اطراف کاٹ دیئے جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ معذور ہو جائیں گے۔ اسطرح وہ ہاتھوں سے تلوار چلانے کے اور پیروں سے بھاگنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

١٥۔  زَ حْفاً کے معنی ہیں ایک دوسرے کے مقابل اور دوبدو ہونا۔ یعنی مسلمان اور کافر جب ایک دوسرے کے بالمقابل صف آرا ہوں تو پیٹھ پھیر کا بھاگنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے اَ جْتَنِبُوْا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ ' سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو ان سات میں ایک وَاتّوَلَیِ یَومَ الزَّحْفِ (مقابلے والے دن پیٹھ پھیر جانا ہے )

١٦۔ (۱)  گزشتہ آیت میں پیٹھ پھیرنے سے جو منع کیا گیا ہے، دو صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک تحرف کی دوسری تحیز کی تَحَرُّفْ کے معنی ہیں ایک طرف پھر جانا، یعنی لڑائی میں جنگی چال کے طور پر یا دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کی غرض سے لڑتا لڑتا ایک طرف پھر جائے، دشمن یہ سمجھے کہ شاید یہ شکت خوردہ ہو کر بھاگ رہا ہے لیکن وہ پھر ایک دم پینترا بدل کر اچانک دشمن پر حملہ کر دے۔ یہ پیٹھ پھیرنا نہیں ہے بلکہ یہ جنگی چال ہے جو بعض دفعہ ضروری ہوتی ہے۔ تَحَیُّزُ کے معنی ملنے اور پناہ لینے کے ہیں، کوئی مجاہد لڑتا لڑتا تنہا رہ جائے تو یہ لطائف الحیل میدان جنگ سے ایک طرف ہو جائے، تاکہ وہ اپنی جماعت کی طرف پناہ حاصل کر سکے اور اس کی مدد سے دوبارہ حملہ کرے۔ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔

١٦۔ (۲)  یعنی مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ کوئی شخص میدان جنگ سے پیٹھ پھیرے گا، اس کے لئے سخت وعید ہے۔

١٧۔ (۱)  یعنی جنگ بدر کی ساری صورت حال تمہارے سامنے رکھ دی گئی ہے اور جس جس طرح اللہ نے تمہاری وہاں مدد فرمائی، اس کی وضاحت کے بعد تم یہ نہ سمجھ لینا کہ کافروں کا قتل، یہ تمہارا کارنامہ ہے۔ نہیں، بلکہ یہ اللہ کی اس مدد کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے تمہیں یہ فتح حاصل ہوئی اس لئے دراصل انہیں قتل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔

١٧۔ (۲)  جنگ بدر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کافروں کی طرف پھینکی تھی، جسے ایک تو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے مونہوں اور آنکھوں تک پہنچا دیا اور دوسرے، اس میں یہ تاثیر پیدا فرما دی کہ اس سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا، یہ معجزہ بھی، جو اس وقت اللہ کی مدد سے ظاہر ہوا، مسلمانوں کی کامیابی میں بہت مددگار ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اے پیغمبر! کنکریاں بیشک آپ نے پھینکی تھیں، لیکن اس میں تاثیر ہم نے پیدا کی تھی، اگر ہم اس میں یہ تاثیر پیدا نہ کرتے تو یہ کنکریاں کیا کر سکتی تھیں ؟ اس لئے یہ بھی دراصل ہمارا ہی کام تھا نہ کہ آپ کا۔

١٧۔ (۳) بلاء یہاں نعمت کے معنی میں ہے۔ یعنی اللہ کی یہ تائید و نصرت، اللہ کا انعام ہے جو مومنوں پر ہوا۔

١٨۔ دوسرا مقصد اس کا کافروں کی تدبیر کو کمزور کرنا اور ان کی قوت و شوکت کو توڑنا تھا۔

١٩۔ ابوجہل وغیرہ روسائے قریش نے مکہ سے نکلتے وقت دعا کی تھی کہ ' اللہ ہم میں سے جو تیرا زیادہ نافرمان اور قاطع رحم ہے، کل کو تو اسے ہلاک کر دے ' اپنے طور پر وہ مسلمانوں کو قاطع رحم اور نافرمان سمجھتے تھے، اس لئے اس قسم کی دعا کی۔ اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمادی تو اللہ تعالیٰ ان کافروں سے کہہ رہا ہے کہ فتح یعنی حق اور باطل کے درمیان فیصلہ طلب کر رہے تھے تو وہ فیصلہ تو سامنے آچکا ہے، اس لئے اب تم کفر سے باز آ جاؤ، تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر پھر تم دوبارہ مسلمانوں کے مقابلے میں آؤ گے تو ہم بھی دوبارہ ان کی مدد کریں گے اور تمہاری جماعت کثرت کے باوجود تمہارے کچھ کام نہ آئے گی۔

٢١۔ یعنی سن لینے کے باوجود، عمل نہ کرنا، یہ کافروں کا طریقہ ہے، تم اس رویے سے بچو۔ اگلی آیت میں ایسے ہی لوگوں کو بہرہ، گونگا، غیر عاقل اور بدترین خلائق قرار دیا گیا ہے۔ دَوَبّ، دَا بَّۃ، کی جمع ہے، جو بھی زمین پر چلنے پھرنے والی چیز ہے وہ دابہ ہے۔ مراد مخلوقات ہے۔ یعنی یہ سب سے بدتر ہیں جو حق کے معاملے میں بہرے گونگے اور غیر عاقل ہیں۔

 ٢٢۔ اس بات کو قرآن کریم میں دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ہے۔ (لَھُمْ قُلُوْب لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَ عْیُن لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَان لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولئکِ کَالانعام بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰائکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ) (الاعراف، ١٧٩) ان کے دل ہیں، لیکن ان سے سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں، لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ چوپائے کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔ یہ لوگ (اللہ سے ) بے خبر ہیں۔

٢٣۔ (۱) یعنی ان کے سماع کو نافع بنا کر ان کو فہم صحیح عطا فرما دیتا، جس سے وہ حق کو قبول کر لیتے اور اسے اپنا لیتے۔ لیکن چونکہ ان کے اندر خیر یعنی حق کی طلب ہی نہیں ہے، اس لئے وہ فہم صحیح سے محروم ہیں۔

٢٣۔ (۲)  پہلے سماع سے مراد سماع نافع ہے۔ اس دوسرے سماع سے مراد مطلق سماع ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ انہیں حق بات سنوا بھی دے تو چونکہ ان کے اندر حق کی طلب ہی نہیں ہے، اس لئے وہ بدستور اس سے اعراض کریں گے۔

٢٤۔ (۱) لِمَا یُحْیِیْکُمْ ایسی چیزوں کی طرف جس سے تمہیں زندگی ملے۔ بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے کہ اس میں تمہاری زندگی کا سروسامان ہے۔ بعض نے قرآن کے اوامر و نواہی اور احکام شرعیہ مراد لئے ہیں، جن میں جہاد بھی آ جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مانو، اور اس پر عمل کرو، اسی میں تمہاری زندگی ہے۔

٢٤۔ (۲)  یعنی موت وارد کر کے، جس کا مزہ ہر نفس کو چکھنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قبل اس کے کہ تمہیں موت آ جائے، اللہ اور رسول کی بات مان لو اور اس پر عمل کرو۔ بعض نے کہا کہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل کے جس طرح قریب ہے اس میں اسے بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ اس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ امام ابن جریر نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اپنے بندوں کے دلوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور جب چاہتا ان کے اور انکے دلوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ حتی کہ انسان اسکی مشیت کے بغیر کسی چیز کو پا نہیں سکتا۔ بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق قراردیا ہے کہ مسلمان دشمن کی کثرت سے خوف زدہ تھے تو اللہ تعالیٰ نے دلوں کے درمیان حائل ہو کر مسلمانوں کے دلوں میں موجود خوف کو امن سے بدل دیا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت کے یہ سارے ہی مفہوم مراد ہو سکتے ہیں (فتح القدیر) امام ابن جریر کے بیان کردہ مفہوم کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں دین پر ثابت قدمی کی دعائیں کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ بنی آدم کے دل ایک دل کی طرح رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں انہیں جس طرح چاہتا ہے پھیرتا رہتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا پڑھی۔ اللہم مصرف القلوب صرف قلوبنا الی طاعتک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ بعض روایات میں ثبت قلبی علی دینک کے الفاظ ہیں۔

٢٥۔ اس سے مراد یا تو بندوں کا ایک دوسرے پر تسلط ہے جو بلا تخصیص، عام و خاص پر ظلم کرتے ہیں، یا وہ عام عذاب ہیں جو کثرت بارش یا سیلاب وغیرہ اراضی و سماوی آفات کی صورت میں آتے ہیں اور نیک اور بد سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ یا بعض احادیث میں امر بالمعروف و نہی ترک کی وجہ سے عذاب کی جو وعید بیان کی گئی ہے، مراد ہے۔

٢٦۔ اس میں مکی زندگی کے شدائد و خطرات کا بیان اور اس کے بعد مدنی زندگی میں مسلمان جس آرام و راحت اور آسودگی سے بفضل الٰہی ہمکنار ہوئے، اس کا تذکرہ ہے۔

 ٢٧۔ اللہ اور رسول کے حقوق میں خیانت یہ ہے کہ جلوت میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا تابع دار بن کر رہے اور خلوت میں اس کے برعکس معصیت کار۔ اسی طرح یہ بھی خیانت ہے کہ فرائض میں سے کسی فرض کا ترک اور نواہی میں سے کسی بات کا ارتکاب کیا جائے اور ایک شخص دوسرے کے پاس جو امانت رکھواتا ہے اس میں خیانت نہ کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی امانت کی حفاظت کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اکثر خطبوں میں یہ ضرور ارشاد فرماتے تھے ' اس کا ایمان نہیں، جس کے اندر امانت کی پاسداری نہیں اور اس کا دین نہیں، جس کے اندر دین کی پابندی کا احساس نہیں۔

٢٨۔ مال اور اولاد کی محبت ہی عام طور پر انسان کو خیانت پر اور اللہ اور رسول کی اطاعت سے گریز پر مجبور کرتی ہے اس لئے ان کو فتنہ (آزمائش) قرار دیا گیا ہے، یعنی اس کے ذریعے سے انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ ان کی محبت میں امانت اور اطاعت کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں ؟ اگر پورے کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اس آزمائش میں کامیاب ہے۔ بصورت دیگر ناکام۔ اس صورت میں یہی مال اور اولاد اس کے لئے عذاب الٰہی کا باعث بن جائیں گے۔

٢٩۔ تقویٰ کا مطلب ہے، اوامر الٰہی کی مخالفت اور اس کی مناہی کے ارتکاب سے بچنا اور فرقان کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں مثلاً ایسی چیز جس سے حق و باطل کے درمیان فرق کیا جا سکے۔ مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کی بدولت دل مضبوط، بصیرت تیز تر اور ہدایت کا راستہ واضح تر ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو ہر ایسے موقعے پر، جب عام انسان شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہوں، صراط مستقیم کی توفیق مل جاتی ہے۔ علاوہ ازیں فتح اور نصرت اور نجات و مخرج بھی اس کے معنی کئے گئے ہیں۔ اور سارے ہی مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ تقویٰ سے یقیناً یہ سارے ہی فوائد حاصل ہوتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ کفر، مغفرت گناہ اور فضل عظیم بھی حاصل ہوتا ہے۔

٣٠۔ (۱) یہ اس سازش کا تذکرہ جو روسائے مکہ نے ایک رات دار الندوہ میں تیار کی تھی اور بالآخر یہ طے پایا تھا کہ مختلف قبیلوں کے نوجوانوں کو آپ کے قتل پر مامور کیا جائے تاکہ کسی ایک کو قتل کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے بلکہ دیت دیکر جان چھوٹ جائے۔

٣٠۔ (۲)  چنانچہ اس سازش کے تحت ایک رات یہ نوجوان آپ کے گھر کے باہر اس انتظار میں کھڑے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر نکلیں تو آپ کا کام تمام کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سازش سے آگاہ فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نکلنے کا پتہ ہی نہیں لگا، حتیٰ کہ آپ غار ثور میں پہنچ گئے۔ یہ کافروں کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر تھی۔ جس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں کر سکتا۔

٣٣۔ (۱) یعنی پیغمبر کی موجودگی میں قوم پر عذاب نہیں آتا، اس لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود گرامی ان کے حفظ و امان کا سبب تھا۔

٣٣۔ (۲)  اس سے مراد یہ ہے کہ آئندہ مسلمان ہو کر استغفار کریں گے، یا یہ کہ طواف کرتے وقت مشرکین غَفْرَانَکَ رَبَّنَا غْفُرَانَکَ کہا کرتے تھے۔

٣٤۔ یعنی وہ مشرکین اپنے آپ کو مسجد حرام (خانہ کعبہ) کا متولی سمجھتے تھے اور اس اعتبار سے جس کو چاہتے طواف کی اجازت دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی وہ مسجد حرام میں آنے سے روکتے تھے حالانکہ وہ اس کے متولی ہی نہیں تھے، زبردستی بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس کے متولی تو متقی افراد ہی بن سکتے ہیں نہ کہ مشرک۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے، اس سے مراد فتح مکہ ہے جو مشرکین کے لئے عذاب عظیم رکھتا ہے۔ اس سے قبل کی آیت میں جس عذاب کی نفی ہے، جو پیغمبر کی موجودگی یا استغفار کرتے رہنے کی وجہ سے نہیں آتا، اس سے مراد عذاب استیصال اور ہلاکت کلی ہے۔ عبرت و تنبیہ کے طور پر چھوٹے موٹے عذاب اس کے منافی نہیں۔

 ٣٥۔ مشرکین جس طرح بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے، اسی طرح طواف کے دوران وہ انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹیاں اور ہاتھوں سے تالیاں بجاتے۔ اس کو بھی وہ عبادت اور نیکی تصور کرتے تھے۔ جس طرح آج بھی جاہل صوفی مسجدوں اور آستانوں میں رقص کرتے، ڈھول پیٹتے اور دھمالیں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں۔ یہی ہماری نماز اور عبادت ہے۔ ناچ ناچ کر ہم اپنے یار (اللہ) کو منا لیں گے۔ نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات۔

٣٦۔ جب قریش مکہ کو بدر میں شکست ہوئی اور ان کے شکست خوردہ اصحاب مکہ واپس گئے۔ ادھر سے ابو سفیان بھی اپنا تجارتی قافلہ لے کر وہاں پہنچ چکے تھے تو کچھ لوگ، جن کے باپ، بیٹے یا بھائی اس جنگ میں مارے گئے تھے، ابو سفیان اور جن کا تجارت سامان میں حصہ تھا، ان کے پاس گئے اور ان سے استدعا کی وہ اس مال کو مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے استعمال کریں۔ مسلمانوں نے ہمیں بڑا نقصان پہنچایا ہے اس لئے ان سے انتقامی جنگ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہی لوگوں یا اسی قسم کا کردار اپنانے والوں کے بارے میں فرمایا کہ بیشک یہ لوگ اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کے لئے اپنا مال خرچ کر لیں لیکن ان کے حصے میں سوائے حسرت اور مغلوبیت کے کچھ نہیں آئے گا اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔

٣٧۔ یہ علیحدگی یا تو آخرت میں ہو گی کہ اہل سعادت کو اہل بد بخت سے الگ کر دیا جائے گا، جیسا کہ فرمایا۔ (وَامْتَا زُوا الْیَوْ مَ اَتُہاَ الْمُجْرِمُوْنَ) (سورت یس۔٥٩) ' اے گناہ گارو! آج الگ ہو جاؤ ' یعنی نیک لوگوں سے اور مجرموں سے یعنی کافروں، مشرکوں اور نافرمانوں کو اکٹھا کر کے سب کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یا پھر اس کا تعلق دنیا سے ہے۔ یعنی کافر اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے جو مال خرچ کر رہے ہیں، ہم ان کو ایسا کرنے کا موقع دیں گے تاکہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ خبیث کو طیب سے، کافر کو مومن سے اور منافق کو مخلص سے الگ کر دے۔ اس اعتبار سے آیت کے معنی ہوں گے، کفار کے ذریعے سے ہم تمہاری آزمائش کریں گے، وہ تم سے لڑیں گے اور ہم انہیں ان کے مال بھی لڑائی پر خرچ کرنے کی قدرت دیں گے تاکہ خبیث، طیب سے ممتاز ہو جائے۔ پھر وہ خبیث کو ایک دوسرے سے ملا دے گا یعنی سب کو جمع کر دے گا (ابن کثیر)

٣٨۔ (۱) باز آ جانے کا مطلب، مسلمان ہونا ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی ہے ' جس نے اسلام قبول کر کے نیکی کا راستہ اپنا لیا، اس سے اس کے ان گناہوں کی باز پرس نہیں ہو گی جو اس نے جاہلیت میں کئے  ہوں گے اور جس نے اسلام لا کر بھی برائی نہ چھوڑی، اس سے اگلے پچھلے سب عملوں کا مواخذہ ہو گا ' (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میں ہے۔ اسلام ما قبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔

٣٨۔ (۲)  یعنی اگر وہ اپنے کفر و عناد پر قائم رہے تو جلد یا بدیر عذاب الہی کے مورد بن کر رہیں گے۔

٣٩۔ (۱) فتنہ سے مراد شرک ہے۔ یعنی اس وقت تک جہاد جاری رکھو، جب تک شرک کا خاتمہ نہ ہو جائے۔

٣٩۔ (۲)  یعنی اللہ کی توحید کا پرچار تمام عالم میں لہرا جائے۔

٣٩۔ (٣) یعنی تمہارے لئے ان کا ظاہری اسلام ہی کافی ہے، باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دو، کیونکہ اُس کو ظاہر و باطن ہر چیز کا علم ہے۔

٤٠۔ (۱) یعنی اسلام قبول نہ کریں اور اپنے کفر اور تمہاری مخالفت پر مصر رہیں۔

٤٠۔ (٢) یعنی تمہارے دشمنوں پر تمہارا مددگار اور تمہارا حامی و محافظ ہے۔

٤٠۔ (٣) پس کامیاب وہی ہو گا جس کا مولیٰ اللہ ہو، اور غالب بھی وہی ہو گا جس کا مددگار وہ ہو گا۔

٤١۔ (۱) غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو کافروں سے کافروں پر لڑائی میں فتح و غلبہ حاصل ہونے کے بعد حاصل ہو پہلی امتوں میں اس کے لئے یہ طریقہ تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد کافروں سے حاصل کردہ سارا مال ایک جگہ ڈھیر کر دیا جاتا اور آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا کر بھسم کر ڈالتی۔ لیکن امت مسلمہ کے لئے یہ مال غنیمت حلال کر دیا گیا۔ اور جو مال بغیر لڑائی کے صلح کے ذریعہ یا جزیہ و خراج سے وصول ہو اسے فییٔ کہا جاتا ہے تھوڑا ہو یا زیادہ، قیمتی ہو یا معمولی سب کو جمع کر کے اس کی حسب ضابطہ تقسیم کی جائے گی۔ کسی سپاہی کو اس میں سے کوئی چیز تقسیم سے قبل اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں۔

٤١۔ (۲)  اللہ کا لفظ تو بطور تبرک کے ہے، نیز اس لئے ہے کہ ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے، مراد اللہ اور اس کے رسول کے حصہ سے ایک ہی ہے، یعنی سارے مال غنیمت کے پانچ حصے کر کے چار حصے تو ان مجاہدین میں تقسیم کئے جائیں گے جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو تین گنا حصہ ملے گا۔ پانچواں حصہ، جسے عربی میں خمس کہتے ہیں، کہا جاتا کہ اس کے پھر پانچ حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا (اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اسے مفاد عامہ میں خرچ کیا جائے گا) جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی یہ حصہ مسلمانوں پر ہی خرچ فرماتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بھی ہے ' میرا جو پانچواں حصہ ہے وہ بھی مسلمانوں کے مصالح پر ہی خرچ ہوتا ہے ' دوسرا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قرابت داروں کا، پھر یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا کہا جاتا ہے کہ یہ خمس حسب ضرورت خرچ کیا جائے۔

٤١۔ (۳) اس نزول سے مراد فرشتوں کا اور آیات الٰہی (معجزات وغیرہ) کا نزول ہے جو بدر میں ہوا۔

٤١۔(٤) بدر کی جنگ ٢ ہجری ١٧ رمضان المبارک کو ہوئی۔ اس دن کو یوم الفرقان اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ کافروں اور مسلمانوں کے درمیان پہلی جنگ تھی اور مسلمانوں کو فتح و غلبہ دے کر واضح کر دیا گیا کہ اسلام حق ہے اور کفر شرک باطل ہے۔

٤١۔(۵) یعنی مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں ۔

٤٢۔ (۱) دُنْیَا سے مراد وہ کنارہ جو مدینہ شہر کے قریب تھا۔ قصویٰ کہتے ہیں دور کو۔ کافر اس کنارے پر تھے جو مدینہ سے دور تھا۔

٤٢۔ (۲)  اس سے مراد تجارتی قافلہ ہے جو حضرت ابوسفیان کی قیادت میں شام سے مکہ جا رہا تھا اور جسے حاصل کرنے کے لئے ہی دراصل مسلمان اس طرف آئے تھے۔ یہ پہاڑ سے بہت دور مغرب کی طرف نشیب میں تھا، جب کہ بدر کا مقام، جہاں جنگ ہوئی، بلندی پر تھا۔

٤٢۔ (۳) یعنی اگر جنگ کے لئے باقاعدہ دن اور تاریخ کا ایک دوسرے کے ساتھ وعدہ یا اعلان ہوتا تو ممکن بلکہ یقین تھا کہ کوئی فریق لڑائی کئے بغیر ہی پسپائی اختیار کر لیتا لیکن چونکہ اس جنگ کا ہونا اللہ نے لکھ رکھا تھا اس لئے ایسے اسباب پیدا کر دیئے گئے کہ دونوں فریق بدر کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابل بغیر پیشگی وعدہ وعید کے، صف آرا ہو جائیں۔

٤٢۔(٤) یہ علت ہے اللہ کی اس تقدیری مشیت کی جس کے تحت بدر میں فریقین کا اجتماع ہوا، تاکہ جو ایمان پر زندہ رہے تو وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور اسے یقین ہو کہ اسلام حق ہے کیونکہ اس کی حقانیت کا مشاہدہ وہ بدر میں کر چکا ہے اور جو کفر کے ساتھ ہلاک ہو تو بھی دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کیونکہ اس پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ مشرکین کا راستہ گمراہی اور باطل کا راستہ ہے۔

٤٣۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں کافروں کی تعداد تھوڑی دکھائی اور وہی تعداد آپ نے صحابہ کرام کے سامنے بیان فرمائی، جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے تھے، اگر اس کے برعکس کافروں کی تعداد زیادہ دکھائی جاتی تو صحابہ میں باہمی اختلاف کا اندیشہ تھا۔ لیکن اللہ نے ان دونوں باتوں سے بچا لیا۔

٤٤۔ (۱) تاکہ وہ کافر بھی تم سے خوف کھا کر پیچھے نہ ہٹیں، پہلا واقعہ خواب کا تھا اور یہ دکھلانا عین قتال کے وقت تھا، جیسا کہ الفاظ قرآنی سے واضح ہے۔ تاہم یہ معاملہ ابتدا میں تھا، لیکن جب باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی تو پھر کافروں کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آتے تھے، جیسا کہ سورہ، آل عمران کی آیت ١٣ سے معلوم ہوتا ہے۔ بعد میں زیادہ دکھانے کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ کثرت دیکھ کر ان کے اندر مسلمانوں کا خوف اور دہشت بیٹھ جائے، جس سے ان کے اندر بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہو، اس کے برعکس پہلے کم دکھانے میں حکمت یہ تھی کہ وہ لڑنے سے گریز نہ کریں۔

٤٤۔ (۲)  اس سب کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہوا تھا، وہ پورا ہو جائے۔ اس لئے اس نے اس کے اسباب پیدا فرما دے۔

٤٥۔ اب مسلمانوں کو لڑائی کے وہ آداب بتائے جا رہے ہیں جن کو دشمن کے مقابلے کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات ثبات قدمی اور استقلال ہے، کیونکہ اس کے بغیر میدان جنگ میں ٹھہرنا ممکن ہی نہیں ہے تاہم اس سے تحرف اور تحیز کی وہ دونوں صورتیں مستثنیٰ ہوں گی جن کی پہلے وضاحت کی جا چکی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ثبات قدمی کے لئے بھی تحرف یا تحیز ناگزیر ہوتا ہے۔ دوسری ہدایت یہ ہے یہ کہ اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو۔ تاکہ مسلمان اگر تھوڑے ہوں تو اللہ کی مدد کے طالب رہیں اور اللہ بھی کثرت ذکر کی وجہ سے ان کی طرف متوجہ رہے اور اگر مسلمان تعداد میں زیادہ ہوں تو کثرت کی وجہ سے ان کے اندر عجب اور غرور پیدا نہ ہو، بلکہ اصل توجہ اللہ کی امداد پر ہی رہے۔

٤٦۔ تیسری ہدایت، اللہ اور رسول کی اطاعت، ظاہر بات ہے ان نازک حالات میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کتنی سخت خطرناک ہو سکتی ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کے لئے ویسے تو ہر حالت میں اللہ اور رسول کی اطاعت ضروری ہے۔ تاہم میدان جنگ میں اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے اور اس موقع پر تھوڑی سی بھی نافرمانی اللہ کی مدد سے محرومی کا باعث بن سکتی ہے۔ چوتھی ہدایت کہ آپس میں تنازع اور اختلاف نہ کرو، اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور ہوا اکھڑ جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ' لوگو! دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگا کرو' تاہم جب کبھی دشمن سے لڑائی کا موقع پیدا ہو جائے تو صبر کرو (یعنی جم کر لڑو) اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ (صحیح بخاری)

٤٧۔ مشرکین مکہ، جب اپنے قافلے کی حفاظت اور لڑائی کی نیت سے نکلے، تو بڑے اتراتے اور فخرو غرور کرتے ہوئے نکلے، مسلمانوں کو اس کافرانہ شیوے سے روکا گیا ہے۔

٤٨۔ (۱) مستثنی مشرکین جب مکہ سے روانہ ہوئے تو انہیں اپنے حریف قبیلے بنی بکر بن کنانہ سے اندیشہ تھا کہ وہ پیچھے سے انہیں نقصان نہ پہنچائے چنانچہ شیطان سراقہ بن مالک کی صورت بنا کر آیا، جو بنی بکر بن کنانہ کے ایک سردار تھے، اور انہیں نہ صرف فتح و غلبہ کی بشارت دی بلکہ اپنی حمایت کا بھی پورا یقین دلایا۔ لیکن جب ملائکہ کی صورت میں امداد الٰہی اسے نظر آئی تو ایڑیوں کے بل بھاگ کھڑا ہوا۔

٤٨۔ (۲)  اللہ کا خوف تو اس کے دل میں کیا ہونا تھا؟ تاہم اسے یقین ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو اللہ کی خاص مدد حاصل ہے مشرکین ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔

٤٨۔ (۳) ممکن ہے یہ شیطان کے کلام کا حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے جملہ مستانفہ ہو۔

٤٩۔ (۱) مستثنی اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور مسلمانوں کی کامیابی کے بارے میں انہیں شک تھا، یا اس سے مراد مشرکین ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مدینہ میں رہنے والے یہودی مراد ہوں۔

٤٩۔ (۲)  یعنی ان کی تعداد تو دیکھو اور سرو سامان جو حال ہے، وہ بھی ظاہر ہے۔ لیکن مقابلہ کرنے چلے ہیں مشرکین مکہ سے، جو تعداد میں بھی ان سے کہیں زیادہ ہیں اور ہر طرح کے سامان حرب اور وسائل سے مالا مال بھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دین نے ان کو دھوکے اور فریب میں ڈال دیا ہے۔ اور یہ موٹی سی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔

٤٩۔ (۳)  اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ان اہل دنیا کو اہل ایمان کے عزم و ثبات کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے جن کا توکل اللہ کی ذات پر ہے جو غالب ہے یعنی اپنے پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ بے سہارا نہیں چھوڑتا اور حکیم بھی ہے اس کے ہر فعل میں حکمت بالغہ ہے جس کے ادراک سے انسانی عقلیں قاصر ہیں۔

٥٠۔ بعض مفسرین نے اسے جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کی بابت قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب مشرکین مسلمانوں کی طرف آتے تو مسلمان ان کے چہروں پر تلواریں مارتے، جس سے بچنے کے لئے وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو فرشتے ان کی دبروں پر تلواریں مارتے، لیکن یہ آیت عام ہے جو ہر کافر و مشرک کو شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے ان کے مونہوں اور پشتوں (یا دبروں یعنی چوتڑوں ) پر مارتے ہیں، جس طرح سورۃ انعام میں بھی فرمایا : (وَالْملٰئکَۃُ بَا سِطُوْآا َیْد یْھِمْ) (آیت۔ ٩٣) فرشتے ان کو مارنے کے لئے ہاتھ دراز کرتے ہیں "اور بعض کے نزدیک فرشتوں کی یہ مار قیامت والے دن جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے ہو گی اور داروغہ جہنم کہے گا"تم جلنے کا عذاب چکھو،

٥١۔ یہ ضرب و عذاب تمہارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں، بلکہ وہ تو عادل ہے جو ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک ہے، حدیث قدسی میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! میں نے اپنے نفس پر ظلم حرام کیا ہے اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام کیا ہے پس تم ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جو میں نے شمار کر کے رکھے ہوئے ہیں، پس جو اپنے اعمال میں بھلائی پائے۔ اس پر اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے برعکس پائے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے (صحیح مسلم)

٥٢۔ دَأبً کے معنی ہیں عادت۔ کاف تشبیہ کے لئے ہے۔ یعنی ان مشرکین کی عادت یا حال، اللہ کے پیغمبروں کے جھٹلانے میں، اسی طرح ہے۔ جس طرح فرعون اور اس سے قبل دیگر منکرین کی عادت یا حال تھا۔

٥٣۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کا راستہ اختیار کر کے اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض کر کے اپنے احوال و اخلاق کو نہیں بدل لیتی، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتا۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں سلب فرما لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ گویا تبدیلی کا مطلب یہی ہے کہ قوم گناہوں کو چھوڑ کر اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرے۔

٥٤۔ یہ اس بات کی تاکید ہے جو پہلے گزری، البتہ اس میں ہلاکت کی صورت کا اضافہ ہے کہ انہیں غرق کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ واضح کر دیا کہ اللہ نے ان کو غرق کر کے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔ اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا (وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّا مٍ لِّلْعَبِیْدِ) (حٰم سجدۃ ٤٦)

٥٥۔ شَرُّ النَّا سِ (لوگوں میں سب سے بدتر) کے بجائے انہیں شَرَّ الدَّ وَابِّ کہا گیا ہے۔ جو لغوی معنی کے لحاظ سے تو انسانوں اور چوپایوں وغیرہ سب پر بولا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کا استعمال چوپایوں کے لئے ہوتا ہے۔ گویا کافروں کا تعلق انسانوں سے ہے ہی نہیں۔ کفر کا ارتکاب کر کے وہ جانور بلکہ جانوروں میں بھی سب سے بدتر جانور بن گئے ہیں۔

٥٦۔ یہ کافروں ہی کی ایک عادت بیان کی گئی ہے کہ ہر بار نقص عہد کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کے نتائج سے ذرا نہیں ڈرتے۔ بعض لوگوں نے اس سے یہودیوں کے قبیلے بنو قریظہ کو مراد لیا ہے، جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ کافروں کی مدد نہیں کریں گے لیکن انہوں نے اس کی پاسداری نہیں کی۔

٥٧۔ شَرِّدْبِھِمْ کا مطلب ہے کہ ان کو ایسی مار مار کہ جس سے ان کے پیچھے، ان کے حمایتوں اور ساتھیوں میں بھگدڑ مچ جائے، حتیٰ کہ وہ آپ کی طرف اس اندیشے سے رخ ہی نہ کریں کہ کہیں ان کا بھی وہی حشر نہ ہو جو ان کے پیش رؤوں کا ہوا۔

٥٨۔ (۱) خیانت سے مراد ہے معاہد قوم سے نقص عہد کا خطرہ، اور (برابری کی حالت میں ) کا مطلب ہے کہ انہیں با قاعدہ مطلع کیا جائے کہ آئندہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ تاکہ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہوں، کوئی ایک فریق لا علمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔

٥٨۔ (۲)  یعنی یہ نقص عہد اگر مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو تو یہ خیانت ہے جسے اللہ پسند نہیں فرماتا۔ حضرت معاویہ اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب آئی تو حضرت معاویہ نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کر دیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہو تے ہی رومیوں پر حملہ کر دیا جائے اور عمر بن عبسہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے ایک حدیث رسول بیان فرمائی اور اسے معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیا جس پر حضرت معاویہ نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔

٦٠۔ فُوَّۃِ کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے یعنی تیر اندازی کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار تھا اور نہایت اہم فن تھا جس طرح گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ آیت سے وَاضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی جنگی اہمیت اور افادیت و ضرورت باقی نہیں رہی اس لئے (وَا عِدُّ وَّالَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ) کے تحت آجکل کے جنگی ہتھیار (مثلاً میزائل،ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔

٦١۔ اگر حالات جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں اور دشمن بھی مائل بہ صلح ہو تو صلح کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر صلح سے دشمن کا مقصد دھوکا اور فریب ہو تب بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں اللہ پر بھروسہ رکھیں، یقیناً اللہ دشمن کے فریب سے بھی محفوظ رکھے گا، اور وہ آپ کو کافی ہے۔ لیکن صلح کی یہ اجازت ایسے حالات میں ہے جب مسلمان کمزور ہوں اور صلح میں اسلام اور مسلمان کا مفاد ہو لیکن جب اس کے برعکس ہوں، مسلمان قوت و وسائل میں ممتاز ہوں اور کافر کمزور تو اس صورت میں صلح کے بجائے کافروں کی قوت کو توڑنا ضروری ہے۔

٦٣۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنوں پر جو احسانات فرمائے، ان میں سے ایک بڑے احسان کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مومنین کے ذریعے سے مدد فرمائی، وہ آپ کے دست بازو اور محافظ و معاون بن گئے۔ مومنین پر یہ احسان فرمایا کہ ان کے درمیان پہلے جو عداوت تھی، اسے محبت و الفت میں تبدیل فرما دیا، پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، اب ایک دوسرے کے جانثار بن گئے، پہلے ایک دوسرے کے دلی دشمن تھے اب آپس میں رحیم و شفیق ہو گئے صدیوں پرانی باہمی عداوتوں کو اس طرح ختم کر کے، باہم پیار اور محبت پیدا کر دینا یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور اس کی قدرت و مشیت کی کارفرمائی تھی، ورنہ یہ ایساکام تھا کہ دنیا بھر کے خزانے بھی اس پر خرچ کر دیئے جاتے تب بھی یہ گوہر مقصود حاصل نہ ہوتا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان کا ذکر سورہ آل عمران۔۱۰۳(اذکنتم اعدآء فألف بین قلوبکم) میں بھی فرمایا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی غنائم حنین کے موقع پر انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا"اے جماعت انصار! کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تم گمراہ تھے اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں ہدایت نصیب فرمائی۔ تم محتاج تھے اللہ نے تمہیں میرے ذریعے سے خوش حال کر دیا اور تم ایک دوسرے سے الگ الگ تھے اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں آپس میں جوڑ دیا "نبی صلی اللہ علیہ و سلم جو بات کہتے انصار اس کے جواب میں یہی کہتے اللہ ورسولہ امن "۔ اللہ اور اس کے رسول کے احسانات اس سے کہیں زیادہ ہیں "(صحیح بخاری)

٦٥۔ (۱) تحریض کے معنی ہیں ترغیب میں مبالغہ کرنا یعنی خوب رغبت دلانا اور شوق پیدا کرنا۔ چنانچہ اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم جنگ سے قبل صحابہ کو جہاد کی ترغیب دیتے اور اس کی فضیلت بیان فرماتے۔ جیسا کہ بدر کے موقع پر، جب مشرکین اپنی بھاری تعداد اور بھرپور وسائل کے ساتھ میدان میں آ موجود ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' ایسی جنت میں داخل ہونے کے لئے کھڑے ہو جاؤ، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ' ایک صحابی عمیر بن حمام نے کہا ' اس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر؟ ' رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' ہاں ' اس پر بخ بخ کہا یعنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ میں جنت میں جانے والوں میں سے ہوں گا  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' تم اس میں جانے والوں میں سے ہو گے، چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کھجوریں نکال کر کھانے لگے، پھر جو بچیں ہاتھ سے پھینک دیں اور کہا ان کے کھانے تک میں زندہ رہا تو یہ طویل زندگی ہو گی، پھر آگے بڑھے اور داد شجاعت دینے لگے، حتیٰ کہ عروس شہادت سے ہمکنار ہو گئے۔ رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم)

٦٥۔ (۲)  یہ مسلمانوں کے لئے بشارت ہے کہ تمہارے ثابت قدمی سے لڑنے والے بیس مجاہد دو سو اور ایک ہزار پر غالب رہیں گے۔

٦٦۔ (۱) پچھلا حکم صحابہ رضی اللہ عنہم پر گراں گزرا، کیونکہ اس کا مطلب تھا ایک مسلمان دس کافروں کے لئے بیس دو سو کے لئے اور سو ایک ہزار کے لئے کافی ہیں اور کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اتنی تعداد ہو تو جہاد فرض اور اس سے گریز ناجائز ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف فرما کر ایک اور دس کا تناسب کم کر کے ایک اور دو کا تناسب کر دیا (صحیح بخاری)، تفسیر سورہ الا نفال، اب اس تناسب پر جہاد ضروری اور اس سے کم پر غیر ضروری ہے۔

٦٦۔ (۲)  یہ کہہ کر صبر و ثبات قدمی کی اہمیت بیان فرما دی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اس کا اہتمام ضروری ہے۔

٦٧۔ جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنا لئے گئے، یہ کفر و اسلام کا چونکہ پہلا معرکہ تھا۔ اس لئے قیدیوں کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے ؟ ان کی بابت احکام پوری طرح واضح نہیں تھے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان ستر قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے ؟ ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے ؟ جواز کی حد تک دونوں ہی باتوں کی گنجائش تھی۔ اس لئے دونوں ہی باتیں زیر غور آئیں۔ لیکن بعض دفعہ جواز اور عدم جواز سے قطع نظر حالات و ظروف کے اعتبار سے زیادہ بہتر صورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جواز کو سامنے رکھتے ہوئے کم تر صورت اختیار کر لی گئی، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب نازل ہوا۔ مشورے میں حضرت عمر وغیرہ نے مشورہ دیا کہ کفر کی قوت و شوکت توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، کیونکہ یہ کفر اور کافروں کے سرغنے ہیں، یہ آزاد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ سازشیں کریں گے۔ جبکہ حضرت ابوبکر کی رائے اس سے برعکس تھی کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے اور اس مال سے آئندہ جنگ کی تیاری کی جائے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا جس پر یہ اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئیں۔ جب کفر کا غلبہ ختم ہو گیا تو قیدیوں کے بارے میں امام وقت کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہے تو قتل کر دے، فدیہ لے کر چھوڑ دے یا مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کر لے اور چاہے تو ان کو غلام بنا لے، حالات کے مطابق کوئی بھی صورت اختیار کرنا جائز ہے۔

٦٨۔ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ لکھی ہوئی بات کیا تھی ْ بعض نے کہا اس سے مال غنیمت کی حلت مراد ہے یعنی چونکہ یہ نوشتہ تقدیر تھا کہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت حلال ہو گا، اس لئے تم نے فدیہ لے کر ایک جائز کام کیا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تمہیں عذاب عظیم پہنچتا۔ بعض نے اہل بدر کی مغفرت اس سے مراد لی ہے، بعض نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی کو عذاب میں مانع ہونا مراد لیا ہے وغیرہ۔

٦٩۔ اس میں مال غنیمت کی حلت و پاکیزگی کو بیان کر کے فدیے کا جواز بیان فرما دیا گیا ہے۔ جس سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ ' لکھی ہوئی بات ' سے مراد شاید یہی حلت غنائم ہے

٧٠۔ (۱) یعنی ایمان و اسلام لانے کی نیت اور اسے قبول کرنے کا جذبہ۔

٧٠۔ (۲)  یعنی جو فدیہ تم سے لیا گیا، اس سے بہتر تمہیں اللہ تعالیٰ قبول اسلام کے بعد عطا فرما دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، حضرت عباس وغیرہ جو ان قیدیوں میں تھے، مسلمان ہو گئے تو اس کے بعد اللہ نے انہیں دنیاوی مال و دولت سے بھی خوب نوازا۔

٧١۔ یعنی زبان سے تو اظہار اسلام کر دیں لیکن مقصد دھوکا دینا ہو، تو اس سے قبل انہوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کر کے کیا حاصل کیا؟ یہی کہ وہ مسلمانوں کے قیدی بن گئے، اس لئے آئندہ بھی اگر وہ شرک کے راستہ پر قائم رہے تو اس سے مزید ذلت و رسوائی کے سوا انہیں کچھ اور حاصل نہیں ہو گا۔

٧٢۔ (۱) یہ صحابہ مہاجرین کہلاتے ہیں جو فضیلت میں صحابہ میں اول نمبر پر ہیں۔

٧٢۔ (۲)  یہ انصار کہلاتے ہیں۔ یہ فضیلت میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

٧٢۔ (۳) یعنی ایک دوسرے کے حمایتی اور مددگار ہیں اور بعض نے کہا کہ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ جیسا کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کے درمیان رشتہ اخوت قائم فرما دیا تھا حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بنتے تھے (بعد میں وارثت کا حکم منسوخ ہو گیا)

٧٢۔(٤) یہ صحابہ کی تیسری قسم ہے جو مہاجرین و انصار کے علاوہ ہیں۔ یہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے ہی علاقوں اور قبیلوں میں مقیم رہے۔ اس لئے فرمایا کی تمہاری حمایت یا وراثت کے وہ مستحق نہیں۔

٧٢۔(٥) مشرکین کے خلاف اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت پیش آ جائے تو پھر ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔

٧٢۔ (٦) ہاں اگر وہ تم سے ایسی قوم کے خلاف مدد کے خواہش مند ہوں کہ تمہارے اور ان کے درمیان صلح اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے تو پھر ان مسلمانوں کی حمایت کے مقابلے میں، معاہدے کی پاسداری زیادہ ضروری ہے۔

٧٣۔ یعنی جس طرح کافر ایک دوسرے کے دوست اور حمایتی ہیں اس طرح اگر تم نے بھی ایمان کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حمایت اور کافروں سے عدم موالات نہ کی، تو پھر بڑا فتنہ اور فساد ہو گا اور یہ کہ مومن اور کافر کے باہمی اختلاط اور محبت و موالات سے دین کے معاملے میں اشتباہ اور مداہنت پیدا ہو گی۔ بعض نے (بعضھم اولیآء بعض) سے وارث ہونا مراد لیا ہے یعنی کافر ایک دوسرے کے وارث ہیں اور مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہے جیسا کہ احادیث میں اسے وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے اگر تم وراثت میں کفر و ایمان کو نظر انداز کر کے محض قرابت کو سامنے رکھو گے تو اس سے بڑا فتنہ اور فساد پیدا ہو گا۔

٧٤۔ یہ مہاجرین و انصار کے انہی دو گروہوں کا تذکرہ ہے، جو پہلے بھی گزرا ہے۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکر ان کی فضیلت کے سلسلے میں ہے۔ جب کہ پہلے ان کا ذکر آپس میں ایک دوسرے کی حمایت و نصرت کی وجہ بیان کرنے کے لئے تھا۔

٧٥۔ (۱) یہ ایک چوتھے گروہ کا ذکر ہے جو فضیلت میں پہلے دو گر و ہوں کے بعد اور تیسرے گروہ سے (جنہوں نے ہجرت نہیں کی تھی) پہلے ہے۔

٧٥۔ (۲)  اخوت یا حلف کی بنیاد پر وراثت میں جو حصہ دار بنتے تھے، اس آیت سے اس کو منسوخ کر دیا گیا اب وارث صرف وہی ہوں گے جو نسبی اور سسرالی رشتوں میں منسلک ہوں گے۔ اللہ کے حکم کی مراد یہ ہے کہ لوح محفوظ میں اصل حکم یہی تھا۔ لیکن اخوت کی بنیاد پر عارضی طور پر ایک دوسرے کا وارث بنا دیا گیا تھا، جو اب ضرورت ختم ہونے پر غیر ضروری ہو گیا اور اصل حکم نافذ کر دیا گیا۔