احسن البیان

سُوۡرَةُ الکهف

کہف کے معنی غار کے ہیں۔ اس میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس لئے اسے سورہ کہف کہا جاتا ہے۔ اس کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ جو ان کو یاد کرے اور پڑھے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (صحیح مسلم) اور اس کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لئے خاص نور کی روشنی رہے گی، اور اس کے پڑھنے سے گھر میں سکون و برکت نازل ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورہ کہف پڑھی گھر میں ایک جانور بھی تھا، وہ بدکنا شروع ہو گیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے ؟ تو انہیں ایک بادل نظر آیا، جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا، صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی سے کیا، تو آپ نے فرمایا، اسے پڑھا کرو۔ قرآن پڑھتے وقت سکینۃ نازل ہوتی ہے (صحیح بخاری)

 

١۔ یا کوئی کجی اور راہ اعتدال سے انحراف اس میں نہیں رکھا بلکہ اسے قیم یعنی سیدھا رکھا۔ یا قیم کے معنی، بندوں کے دینی و دنیاوی مصالح کی رعایت و حفاظت کرنے والی کتاب۔

٢۔ مِنْ لَّدنہ، جو اس اللہ کی طرف سے صادر یا نازل ہونے والا ہے

٤۔ جیسے یہودیوں عیسائیوں اور بعض مشرکین (فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ) کا عقیدہ ہے۔

۵۔ اس کلمہ تہمت سے مراد یہی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جو نرا جھوٹ ہے۔

٦۔ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ (اس بات) سے مراد قرآن کریم ہے۔ کفار کے ایمان لانے کی جتنی شدید خواہش آپ رکھتے تھے اور ان کے اعراض و گریز سے آپ کو سخت تکلیف ہوتی تھی، اس میں آپ کی اسی کیفیت اور جذبے کا اظہار ہے۔

٧۔ روئے زمین میں جو کچھ ہے، حیوانات، جمادات، نباتات، معدنیات اور دیگر مدفون خزانے، یہ سب دنیا کی زینت اور رونق ہیں

٨۔ صعیدا۔ صاف میدان۔ جرز۔ بالکل ہموار۔ جس میں کوئی درخت وغیرہ نہ ہو، یعنی ایک وقت آئے گا کہ یہ دنیا اپنی تمام تر رونقوں سمیت فنا ہو جائے گی اور روئے زمین ایک چٹیل اور ہموار میدان کی طرح ہو جائے گی، اس کے بعد ہم نیک و بد کو ان کے عملوں کے مطابق جزا دیں گے۔

٩۔ یعنی یہ واحد بڑی اور عجیب نشانی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ہر نشانی ہی عجیب ہے۔ یہ آسمان و زمین کی پیدائش اور اس کا نظام، شمس و قمر اور کواکب کی تسخیر، رات اور دن کا آنا جانا اور دیگر بے شمار نشانیاں، کیا تعجب انگیز نہیں ہیں۔ کَھْف اس غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہوتا ہے۔ رقیم، بعض کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جہاں سے یہ نوجوان گئے تھے، بعض کہتے ہیں اس پہاڑ کا نام ہے جس میں غار واقع تھا بعض کہتے ہیں رَقِیْم بمعنی مَرْقُوْم ہے اور یہ ایک تختی ہے لوہے یا سیسے کی، جس میں اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اسے رقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس پر نام تحریر ہیں۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ جس پہاڑ میں یہ غار واقع ہے اس کے قریب ہی ایک آبادی ہے جسے اب الرقیب کہا جاتا ہے جو مرور زمانہ کے سبب الرقیم کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

١٠۔ یہ وہی نوجوان ہیں جنہیں اصحاب کہف کہا گیا، (تفصیل آگے آ رہی ہے ) انہوں نے جب اپنے دین کو بچاتے ہوئے غار میں پناہ لی تو یہ دعا مانگی۔ اصحاب کہف کے اس قصے میں نوجوانوں کے لئے بڑا سبق ہے، آجکل کے نوجوانوں کا بیشتر وقت فضولیات میں برباد ہوتا ہے اور اللہ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ کاش! آج کے مسلمان نوجوان اپنی جوانیوں کو اللہ کی عبادت میں صرف کریں۔

١١۔ یعنی کانوں پر پردے ڈال کر ان کے کانوں کو بند کر دیا تاکہ باہر کی آوازوں سے ان کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے انہیں گہری نیند سلا دیا۔

١٢۔ ان دو گروہوں سے مراد اختلاف کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ یا تو اسی دور کے لوگ تھے جن کے درمیان ان کی بابت اختلاف ہوا، یا عہد رسالت کے مومن و کافر مراد ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصحاب کہف ہی ہیں ان کے دو گروہ بن گئے تھے۔ ایک کہتا تھا ہم اتنا عرصہ سوئے رہے، دوسرا، اس کی نفی کرتا اور فریق اول سے کم و بیش مدت بتلاتا۔

١٣۔ اب اختصار کے بعد تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہ نوجوان، بعض کہتے ہیں عیسائیت کے پیروکار تھے اور بعض کہتے ہیں ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا، دقیانوس، جو لوگوں کو بتوں کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی نذر نیاز دینے کی ترغیب دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے چند نوجوانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ عبادت کے لائق تو صرف ایک اللہ ہی ہے جو آسمان و زمین کا خالق اور کائنات کا رب ہے۔ فِتْیِۃ جمع قلت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے ان کی تعداد ٩ یا اس سے بھی کم تھی۔ یہ الگ ہو کر کسی ایک جگہ اللہ واحد کی عبادت کرتے، آہستہ آہستہ لوگوں میں ان کے عقیدہ کا چرچا ہوا، تو بادشاہ تک بات پہنچ گئی اور اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر کے ان سے پوچھا، تو وہاں انہوں نے برملا اللہ کی توحید بیان کی بالآخر پھر بادشاہ اور اپنی مشرک قوم کے ڈر سے اپنے دین کو بچانے کے لئے آبادی سے دور ایک پہاڑ کے غار میں پناہ گزین ہو گئے، جہاں اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند مسلط کر دی اور وہ تین سو نو (٣٠٩) سال وہاں سوئے رہے۔

١٤۔ (١) یعنی ہجرت کرنے کی وجہ سے اپنے خویش و اقارب کی جدائی اور عیش و راحت کی زندگی سے محرومی کا جو صدمہ انہیں اٹھانا پڑا، ہم نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا تاکہ وہ صدمات کو برداشت کر لیں۔ نیز حق گوئی کا فریضہ بھی جرأت اور حوصلے سے ادا کر سکیں۔

١٤۔ (۲)  اس قیام سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک وہ طلبی ہے، جو بادشاہ کے دربار میں ان کی ہوئی اور بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر انہوں نے توحید کا وعظ بیان کیا، بعض کہتے ہیں کہ شہر سے باہر آپس میں ہی کھڑے، ایک دوسرے کو توحید کی بات سنائی، جو فرداً فرداً اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں ڈالی گئی اور یوں اہل توحید باہم اکٹھے ہو گئے۔

١٤۔ (۳)  شططا کے معنی جھوٹ کے یا حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔

١٦۔ یعنی جب تم نے اپنی قوم کے معبودوں سے کنارہ کشی کر لی ہے، تو اب جسمانی طور پر بھی ان سے علیحدگی اختیار کر لو۔ یہ اصحاب کہف نے آپس میں کہا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ ایک غار میں جا چھپے، جب ان کے غائب ہونے کی خبر مشہور ہوئی تو تلاش کیا گیا، لیکن وہ اسی طرح ناکام رہے، جس طرح نبی کی تلاش میں کفار مکہ غار ثور تک پہنچ جانے کے باوجود، جس میں آپ حضرت ابوبکر کے ساتھ موجود تھے، ناکام رہے تھے۔

١٧۔ (١) یعنی سورج طلوع کے وقت دائیں جانب کو اور غروب کے وقت بائیں جانب کو کترا کر نکل جاتا اور یوں دونوں وقتوں میں ان پر دھوپ نہ پڑتی، حالانکہ وہ غار میں کشادہ جگہ پر محو استراحت تھے۔ فجوۃ کے معنی ہیں کشادہ جگہ۔

١٧۔ (۲)  یعنی سورج کا اس طرح نکل جانا کہ باوجود کھلی جگہ ہونے کے وہاں دھوپ نہ پڑے، اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔

١٧۔ (۳) جیسے دقیانوس بادشاہ اور اس کے پیروکار ہدایت سے محروم رہے تو کوئی انہیں راہ یاب نہیں کر سکا۔

١٨۔ (١) ایقاظ، یقظ کی جمع اور رقود راقد کی جمع ہے وہ بیدار اس لئے محسوس ہوتے تھے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوتی تھیں، جس طرح جاگنے والے شخص کی ہوتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں زیادہ کروٹیں بدلنے کی وجہ سے وہ بیدار نظر آتے تھے۔

١٨۔ (۲)  تاکہ ان کے جسموں کو مٹی نہ کھا جائے۔

١٨۔ (۳) یہ ان کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام تھا تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جا سکے۔

١٩۔ (١) یعنی جس طرح ہم نے انہیں اپنی قدرت سے سلا دیا تھا، اسی طرح تین سو نو سال کے بعد ہم نے انہیں اٹھا دیا اور اس حال میں اٹھایا کہ ان کے جسم اسی طرح صحیح تھے، جس طرح تین سو سال قبل سوتے وقت تھے، اسی لئے آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے سوال کیا۔

١٩۔ (۲)  گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے، صبح کا پہلا پہر تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا، یوں وہ سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس سے بھی کم، دن کا کچھ حصہ سوئے رہے۔

١٩۔ (۳) تاہم کثرت نوم کی وجہ سے وہ سخت تردد میں رہے اور بالآخر معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا کہ وہی صحیح مدت جانتا ہے۔

١٩۔(٤) بیدار ہونے کے بعد، خوراک جو انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس کا سر و سامان کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔

١٩۔(٥) احتیاط اور نرمی کی تاکید اسی اندیشے کے پیش نظر کی، جس کی وجہ سے وہ شہر سے نکل کر ایک ویرانے میں آئے تھے۔ اسے تاکید کی کہ کہیں اس کے روپے سے شہر والوں کو ہمارا علم نہ ہو جائے اور کوئی نئی افتاد ہم پر نہ آ پڑے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

٢٠۔ یعنی آخرت کی جس کامیابی کے لئے ہم نے صعوبت، مشقت برداشت کی، ظاہر بات ہے کہ اگر اہل شہر نے ہمیں مجبور کر کے پھر آبائی دین کی طرف لوٹا دیا، تو ہمارا اصل مقصد ہی فوت ہو جائے گا، ہماری محنت بھی برباد جائے گی اور ہم نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔

٢١۔ (١) یعنی جس طرح ہم نے سلایا اور جگایا، اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق یہ آگاہی اس طرح ہوئی جب اصحاب کہف کا ایک ساتھی چاندی کا سکہ لے کر شہر گیا، جو تین سو سال قبل کے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا تھا اور وہ سکہ اس نے ایک دکاندار کو دیا، تو وہ حیران ہوا، اس نے ساتھ والی دکان والے کو دکھایا، وہ دیکھ کر حیران ہوا، جب کہ اصحاب کہف کا ساتھی یہ کہتا رہا کہ میں اس شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہی یہاں سے گیا ہوں، لیکن اس ' کل ' کو تین صدیاں گزر چکی تھیں، لوگ کس طرح اس کی بات مان لیتے ؟ لوگوں کو شبہ گزرا کہ کہیں اس شخص کو مدفون خزانہ ملا ہو۔ یہ بات بادشاہ یا حاکم مجاز تک پہنچی اور اس ساتھی کی مدد سے وہ غار تک پہنچا اور اصحاب کہف سے ملاقات کی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر وفات دے دی (ابن کثیر)

٢١۔ (۲)  یعنی اصحاب کہف کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کا وعدہ الٰہی سچا ہے، منکرین کے لئے اس واقعہ میں اللہ کی قدرت کا ایک نمونہ موجود ہے۔

٢١۔ (۳) اذ یا تو ظرف ہے اعثرنا کا، یعنی ہم نے انہیں اس وقت ان کے حال سے آگاہ کیا، جب وہ بعث بعد الموت یا واقعہ قیامت کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے۔

٢١۔(٤) یہ کہنے والے کون تھے، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت کے اہل ایمان تھے، بعض کہتے ہیں بادشاہ اور اس کے ساتھی تھے، جب جا کر انہوں نے ملاقات کی اور اس کے بعد اللہ نے انہیں پھر سلا دیا، تو بادشاہ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ان کی حفاظت کے لئے ایک عمارت بنا دی جائے۔

٢١۔(٥) جھگڑا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی بابت صحیح علم صرف اللہ کو ہی ہے۔

٢١۔(٦) یہ غلبہ حاصل کرنے والے اہل ایمان تھے یا اہل کفر و شرک؟ شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر نے دوسری رائے کو۔ کیونکہ صالحین کی قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا اللہ کو پسند نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ لعن اللہ الیھود والنصٓاری اتخذوا قبور انبیائھم وصٓالحیھم مساجد۔ البخاری۔ مسلم۔ اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا، حضرت عمر کی خلافت میں عراق میں حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر دریافت ہوئی تو آپ نے حکم دیا کہ اسے چھپا کر عام قبروں جیسا کر دیا جائے تاکہ لوگوں کے علم میں نہ آئے کہ فلاں قبر فلاں پیغمبر کی ہے۔ تفسیر ابن کثیر۔

٢٢۔ (١) یہ کہنے والے اور ان کی مختلف تعداد بتلانے والے عہد رسالت کے مؤمن اور کافر تھے، خصوصاً اہل کتاب جو کتب آسمانی سے آگاہی اور علم کا دعویٰ رکھتے تھے۔

٢٢۔ (۲)  یعنی علم ان میں سے کسی کے پاس نہیں، جس طرح بغیر دیکھے کوئی پتھر مارے، یہ بھی اس طرح اٹکل پچو باتیں کر رہے ہیں۔

٢٢۔ (۳) اللہ تعالیٰ نے صرف تین قول بیان فرمائے، پہلے وہ دو قولوں کو رَجْمَا بِالْغَیْبِ (ظن و تخمین) کہہ کر ان کو کمزور رائے قرار دیا اور اس تیسرے قول کا ذکر اس کے بعد کیا، جس سے اہل تفسیر نے استدلال کیا ہے کہ یہ انداز اس قول کی صحت کی دلیل ہے اور فی الواقع ان کی اتنی ہی تعداد تھی (ابن کثیر)

٢٢۔(٤) بعض صحابہ سے مروی ہے کہ وہ کہتے تھے میں بھی ان کم لوگوں میں سے ہوں جو یہ جانتے ہیں کہ اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی؟ وہ صرف سات تھے جیسا کہ تیسرے قول میں بتلایا گیا ہے (ابن کثیر)

٢٢۔(٥) یعنی صرف ان ہی باتوں پر اکتفا کریں جن کی اطلاع آپ کو وحی کے ذریعے سے کر دی گئی ہے۔ یا تعین عدد میں بحث و تکرار نہ کریں، صرف یہ کہہ دیں کہ اس تعین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

٢٢۔(٦) یعنی بحث کرنے والوں سے ان کی بابت کچھ نہ پوچھیں، اس لئے کہ جس سے پوچھا جائے، اس کو پوچھنے والے سے زیادہ علم ہونا چاہئے، جب کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ آپ کے پاس تو پھر بھی یقینی علم کا ایک ذریعہ وحی، موجود ہے، جب کہ دوسروں کے پاس ذہنی تصور کے سوا کچھ بھی نہیں۔

٢٤۔ (١) مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی سے تین باتیں پوچھی تھیں، روح کی حقیقت کیا ہے اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کون تھے ؟ کہتے ہیں کہ یہی سوال اس سورت کے نزول کا سبب بنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں تمہیں کل جواب دونگا، لیکن اس کے بعد ١٥ دن تک جبرائیل وحی لے کر نہیں آئے۔ پھر جب آئے تو اللہ تعالیٰ نے انشاءاللہ کہنے کا یہ حکم دیا۔ آیت میں (غد) سے مراد مستقبل ہے یعنی جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا عزم کرو تو انشاءاللہ ضرور کہا کرو۔ کیونکہ انسان کو تو پتہ نہیں کہ جس بات کا عزم کر رہا ہے، اس کی توفیق بھی اسے اللہ کی مشیت سے ملتی ہے یا نہیں۔

٢٤۔ (۲)  یعنی اگر کلام یا وعدہ کرتے وقت انشاءاللہ کہنا بھول جاؤ، تو جس وقت یاد آ جائے انشاءاللہ کہہ لیا کرو، یا پھر رب کو یاد کرنے کا مطلب، اس کی تسبیح و تحمید اور اس سے استغفار ہے۔

٢٤۔ (۳) یعنی میں جس کا عزم ظاہر کر رہا ہوں، ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ بہتر اور مفید کام کی طرف میری رہنمائی فرما دے۔

٢٥۔ جمہور مفسرین نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے۔ شمسی حساب سے تین سو سال اور قمری حساب سے ٣٠٩ سال بنتے ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ انہیں لوگوں کا قول ہے جو ان کی مختلف تعداد بتاتے ہیں، جس کی دلیل اللہ کا یہ قول ہے ' کہ اللہ ہی کو ان کے ٹھرے رہنے کا بخوبی علم ہے ' جس کا مطلب وہ مذکورہ مدت کی نفی لیتے ہیں۔ لیکن جمہور کی تفسیر کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب یا کوئی اور اس بتلائی ہوئی مدت سے اختلاف کرے تو آپ ان سے کہہ دیں کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ جب اس نے تین سو نو سال مدت بتلائی ہے تو یہی صحیح ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت غار میں رہے ؟

٢٦۔ یہ اللہ کی صفت علم و خبر کی مزید وضاحت ہے

٢٧۔ (١) ویسے تو یہ حکم عام ہے کہ جس چیز کی بھی وحی آپ کی طرف کی جائے، اس کی تلاوت فرمائیں اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں۔ لیکن اصحاب کہف کے قصے کے خاتمے پر اس حکم سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصحاب کہف کے بارے میں لوگ جو چاہیں، کہتے پھریں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اپنی کتاب میں جو کچھ اور جتنا کچھ بیان فرما دیا ہے، وہی صحیح ہے، وہی لوگوں کو پڑھ کر سنا دیجئے، اس سے زیادہ دیگر باتوں کی طرف دھیان نہ دیجئے۔

٢٧۔ (۲)  یعنی اگر اسے بیان کرنے سے گریز و انحراف کیا، یا اس کے کلمات میں تغیر و تبدیلی کی کوشش کی، تو اللہ سے آپ کو بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، لیکن اصل مخاطب امت ہے۔

٢٨۔ (١) یہ وہی حکم ہے جو اس کے قبل سورہ الانعام۔ ٥٢ میں گزر چکا ہے۔ مراد ان سے وہ صحابہ کرام ہیں جو غریب اور کمزور تھے۔ جن کے ساتھ بیٹھنا اشراف قریش کو گوارا نہ تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے، میرے علاوہ بلال، ابن مسعود، ایک ہذلی اور دو صحابی اور تھے۔ قریش مکہ نے خواہش ظاہر کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بات سنیں، نبی کے دل میں آیا کہ چلو شاید میری بات سننے سے ان کے دلوں کی دنیا بدل جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع فرما دیا (صحیح مسلم)

٢٨۔ (۲)  یعنی ان کو دور کر کے آپ اصحاب شرف و اہل غنی کو اپنے قریب کرنا چاہتے ہیں۔

٢٨۔ (۳)  فرطا، اگر افراط سے ہو تو معنی ہوں گے حد سے متجاوز اور اگر تفریط سے ہو تو معنی ہوں گے کہ ان کا کام تفریط پر مبنی ہے جس کا نتیجہ ضیاع اور ہلاکت ہے۔

٣٠۔ قرآن کے انداز بیان کے مطابق جہنمیوں کے ذکر کے بعد اہل جنت کا تذکرہ ہے تاکہ لوگوں کے اندر جنت حاصل کرنے کا شوق و رغبت پیدا ہو۔

٣١۔ (١) زمانہ نزول قرآن اور اس سے ما قبل رواج تھا کہ بادشاہ، رؤسا سرداران قبائل اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنتے تھے، جس سے ان کی امتیازی حیثیت نمایاں ہوتی تھی۔ اہل جنت کو بھی سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے۔

٣١۔ (۲)  سندس، باریک ریشم اور استبرق موٹا ریشم۔ دنیا میں مردوں کے لئے سونا اور ریشمی لباس ممنوع ہیں، جو لوگ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے دنیا میں ان محرمات سے اجتناب کریں گے، انہیں جنت میں یہ ساری چیزیں میسر ہوں گی۔ وہاں کوئی چیز ممنوع نہیں ہو گی بلکہ اہل جنت جس چیز کی خواہش کریں گے، وہ موجود ہو گی۔ ولکم فیہا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون۔ جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب جنت میں موجود ہے۔

٣٢۔ (١) مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو شخص کون تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے تفہیم کے لئے بطور مثال ان کا تذکرہ کیا ہے یا واقعی دو شخص ایسے تھے ؟ اگر تھے تو یہ بنی اسرائیل میں گزرے ہیں یا اہل مکہ میں تھے، ان میں ایک مومن اور دوسرا کافر تھا۔

٣۲۔ (۲)  جس طرح چار دیواری کے ذریعے سے حفاظت کی جاتی ہے، اس طرح ان باغوں کے چاروں طرف کھجوروں کے درخت تھے، جو باڑ اور چار دیواری کا کام دیتے تھے۔

٣٢۔ (۳) یعنی دونوں باغوں کے درمیان کھیتی تھی جن سے غلہ جات کی فصلیں حاصل کی جاتی تھیں۔ یوں دونوں باغ غلے اور میووں کے جامع تھے۔

٣٣۔ (١) یعنی اپنی پیداوار میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے بلکہ بھرپور پیداوار دیتے تھے۔

٣٣۔ (۲)  تاکہ باغوں کو سیراب کرنے میں کوئی رکاوٹ واقع نہ ہو۔ یا بارانی علاقوں کی طرح بارش کے محتاج نہ رہیں۔

٣٤۔ (١) یعنی باغوں کے مالک نے، جو کافر تھا، اپنے ساتھیوں سے کہا جو مومن تھا۔

٣٤۔ (۲)  نَفَر (جتھے ) سے مراد اولاد اور نوکر چاکر ہیں۔

٣٦۔ یعنی وہ کافر عجب اور غرور میں ہی مبتلا نہیں ہوا بلکہ اس کی مد ہوشی اور مستقبل کی حسین اور لمبی امیدوں نے اسے اللہ کی گرفت اور سزا کے عمل سے بالکل غافل کر دیا۔ علاوہ ازیں اس نے قیامت کا ہی انکار کر دیا، پھر مذاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر قیامت برپا ہوئی بھی تو وہاں بھی حسن انجام میرا مقدر ہو گا۔ جن کا کفر طغیان حد سے تجاوز کر جاتا ہے، وہ مست مئے پندار ہو کر ایسے ہی متکبرانہ دعوے کرتے ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی۔ حم السجدہ۔ اگر مجھے رب کی طرف لوٹایا گیا تو وہاں بھی میرے لیے اچھائیاں ہی ہیں۔ افرءیت الذی کفر بایتنا وقال لاوتین مالا وولدا۔ مریم۔ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا اور دعوی کیا کہ آخرت میں بھی مجھے مال و اولاد سے نوازا جائے گا۔

۳۷۔۱ اس کی یہ باتیں سن کر اس کے مومن ساتھی نے اس کو وعظ و تبلیغ کے انداز میں سمجھایا کہ تو اپنے خالق کے ساتھ کفر کا ارتکاب کر رہا ہے جس نے تجھے مٹی اور قطرہ پانی سے پیدا کیا ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام چونکہ مٹی سے بنائے گئے تھے اس لیے انسانوں کی اصل مٹی ہی ہوئی، پھر قریبی سبب وہ نطفہ بنا جو باپ کی صلب سے نکل کر رحم مادر میں گیا وہاں نو مہینے اس کی پرورش کی پھر اسے پورا انسان بنا کر ماں کے پیٹ سے نکالا بعض کے نزدیک مٹی سے پیدا ہونے کا مطلب ہے کہ انسان جو خوراک کھاتا ہے وہ سب زمین سے یعنی مٹی سے ہی حاصل ہوتی ہے اسی خوراک سے وہ نطفہ بنتا ہے جو عورت کے رحم میں جا کر انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے یوں بھی ہر انسان کی اصل مٹی ہی قرار پاتی ہے ناشکرے انسان کو اس کی اصل یاد دلا کر اسے اس کے خالق اور رب کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تو اپنی حقیقت اور اصل پر غور کر اور پھر رب کے ان احسانات کو دیکھ کہ تجھے اس نے کیا کچھ بنا دیا اور اس عمل تخلیق میں کوئی اس کا شریک اور مددگار نہیں ہے یہ سب کچھ کرنے والا صرف اور صرف وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کو ماننے کے لیے تو تیار نہیں ہے آہ، کس قدر یہ انسان ناشکرا ہے ؟

٣٨۔ یعنی میں تیری طرح بات نہیں کروں گا بلکہ میں تو اللہ کی ربوبیت اور اس کی وحدانیت کا اقرار و اعتراف کرتا ہوں اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا ساتھی مشرک ہی تھا۔

٣٩۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا طریقہ بتلاتے ہوئے کہا کہ باغ میں داخل ہوتے وقت سرکشی اور غرور کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یہ کہا ہوتا، مَا شَاَءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلّا بِاللّٰہِ یعنی جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے، وہ چاہے تو اسے باقی رکھے اور چاہے تو فنا کر دے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ جس کو کسی کا مال، اولاد یا حال اچھا لگے تو اسے مَا شَاَءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِ لّا بِاللّٰہِ پڑھنا چاہیے (تفسیر ابن کثیر)

٤٠۔ (١) دنیا یا آخرت میں۔ یا دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں۔

٤٠۔ (۲)  حَسْبَان، غُفْرَان کے وزن پر۔ حساب سے ہے یعنی ایسا عذاب، جو کسی کے کرتوتوں کے نتیجے میں آئے۔ یعنی آسمانی عذاب کے ذریعے سے وہ محاسبہ کر لے۔ اور یہ جگہ جہاں اس وقت سرسبز و شاداب باغ ہے، چٹیل اور صاف میدان بن جائے۔

٤١۔ یا درمیان میں جو نہر ہے جو باغ کو شادابی اور زرخیزی کا باعث ہے، اس کے پانی کو اتنا گہرا کر دے کہ اس سے پانی کا حصول ہی ناممکن ہو جائے اور جہاں پانی زیادہ گہرائی میں چلا جائے تو پھر وہاں بڑے بڑے ہارس پاور کی موٹریں اور مشینیں بھی پانی کو اوپر کھینچ لانے میں ناکام رہتی ہیں۔

٤٢۔ (١) یہ کنایہ ہے ہلاکت و فنا سے۔ یعنی سارا باغ ہلاک کر ڈالا۔

٤٢۔ (۲)  یعنی باغ کی تعمیر و اصلاح اور کاشتکاری کے اخراجات پر کف افسوس ملنے لگا۔ ہاتھ ملنا کنایہ، یہ ہے ندامت سے۔

٤٢۔ (۳) یعنی جن چھتوں، چھپروں پر انگوروں کی بیلیں تھیں، وہ سب زمین پر آ رہیں اور انگوروں کی ساری فصل تباہ ہو گئی۔

٤٢۔(٤) اب اسے احساس ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اس کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اس کے احکام کا انکار کرنا اور اس کے مقابلے میں سرکشی، کسی طرح بھی ایک انسان کے لئے زیبا نہیں، لیکن اب حسرت و افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

٤٣۔ جس جتھے پر اس کو ناز تھا، وہ بھی اس کے کام نہیں آیا نہ وہ خود ہی اللہ کے عذاب سے بچنے کا کوئی انتظام کر سکا

٤٤۔ (١) ولایۃ۔ کے معنی موالات اور نصرت کے ہیں یعنی اس مقام پر ہر مومن و کافر کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کی مدد کرنے پر اور اس کے عذاب سے بچانے پر قادر نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ پھر اس موقع پر بڑے بڑے سرکش اور جبار بھی اظہار ایمان پر مجبور ہو جاتے ہیں، گو اس وقت کا ایمان نافع اور مقبول نہیں۔ جس طرح قرآن نے فرعون کی بابت نقل کیا ہے کہ جب وہ غرق ہونے لگا تو کہنے لگا۔ امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنوا اسرائیل وانا من المسلمین۔ سورہ یونس۔ میں اس اللہ پر ایمان لایا جس پر بنو اسرائیل ایمان رکھتے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ دوسرے کفار کی بابت فرمایا گیا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہا ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جن کو ہم اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے ان کا انکار کرتے ہیں سورۃ المومن۔ اگر ولایت واو کے کسرے کے ساتھ ہو تو پھر اس کے معنی حکم اور اختیارات کے ہیں جیسا کہ ترجمے میں یہی معنی اختیار کیے گئے ہیں۔ ابن کثیر۔

٤٤۔ (۲)  یعنی وہی اپنے دوستوں کو بہتر بدلہ دینے والا اور حسن عاقبت سے مشرف کرنے والا ہے۔

٤٥۔ اس آیت میں دنیا کی بے ثباتی اور ناپائداری کو کھیتی کی مثال کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ کھیتی میں لگے پودوں اور درختوں پر جب آسمان سے بارش برستی ہے تو پانی سے مل کر کھیتی لہلہا اٹھتی ہے، پودے اور درخت حیات نو سے شاداب ہو جاتے ہیں۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ کھیتی سوکھ جاتی ہے۔ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یا فصل پک جانے کے سبب تو پھر ہوائیں اس کو اڑائے پھرتی ہیں۔ ہوا کا ایک جھونکا کبھی اسے دائیں اور کبھی بائیں جانب جھکا دیتا ہے۔ دنیا کی زندگی بھی ہوا کے ایک جھونکے یا اس پانی کے بلبلے یا کھیتی ہی کی طرح ہے، جو اپنی چند روزہ بہار دکھا کر فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔ اور یہ سارے تصرفات اس ہستی کے ہاتھ میں ہیں جو ایک ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی مثال قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان فرمائی ہے۔ (مثلاً سورہ یونس،٢٥، سورہ زمر ٢١ سورہ حدید، ٥٠، وغیرہا من الآیات)

٤٦۔ (١) اس میں اہل ایمان دنیا کا اور جو دنیا کے مال اسباب، قبیلہ اور خاندان اور آل اولاد پر فخر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ چیزیں تو دنیا فانی کی عارضی زینت ہیں۔ آخرت میں یہ چیزیں کچھ کام نہیں آئیں گی۔ اسی لئے اسے آگے فرمایا کہ آخرت میں کام آنے والے عمل وہ ہیں جو باقی رہنے والے ہیں۔

٤٦۔ (۲)  باقیات صالحات (باقی رہنے والی نیکیاں ) کون سی یا کون کون سی ہیں ؟ کسی نے نماز کو، کسی نے تحمید و تسبیح اور تکبیر و تہلیل کو اور کسی نے اعمال خیر کو مصداق قرار دیا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ عام ہے اور تمام نیکیوں کو شامل ہے۔ تمام فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب باقیات صالحات ہیں بلکہ برے کاموں سے اجتناب بھی ایک عمل صالح ہے، جس پر عند اللہ اجر و ثواب کی امید ہے۔

٤٧۔ (١) یہ قیامت کی ہولناکیاں اور بڑے بڑے واقعات کا بیان ہے۔ پہاڑوں کو چلائیں گے کا مطلب، پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑ جائیں گے اور پہاڑ ایسے ہوں گے جیسے دھنکی ہوئی رنگین اون، زمین سے جب پہاڑ جیسی مضبوط چیزیں ختم ہو جائیں گی، تو مکانات، درخت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں کس طرح وجود برقرار رکھ سکیں گی؟ اسی لئے آگے فرمایا ' 'و زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا '

٤٧۔ (۲)  یعنی اولین و آخرین، چھوٹے بڑے، کافر و مومن سب کو جمع کریں گے، کوئی زمین کی تہ میں پڑا نہ رہ جائے گا اور نہ قبر سے نکل کر کسی جگہ چھپ سکے گا۔

٤٨۔ اس کے معنی ہیں کہ ایک ہی صف میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے، یا صفوں کی شکل میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے

٥٠۔ (١) قرآن کی اس آیت نے واضح کر دیا کہ شیطان فرشتہ نہیں تھا، فرشتہ اگر ہوتا تو حکم الٰہی سے سرتابی کی اسے مجال ہی نہ ہوتی، کیونکہ فرشتوں کی صفت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے 'لایعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یؤمرون۔ التحریم۔ وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ اشکال رہتا ہے اگر وہ فرشتہ نہیں تھا تو پھر اللہ کے حکم کا وہ مخاطب ہی نہیں تھا کیونکہ اس کے مخاطب تو فرشتے تھے انہیں کو سجدے کا حکم دیا گیا تھا صاحب روح المعانی نے کہا ہے کہ وہ فرشتہ یقیناً نہیں تھا لیکن وہ فرشتوں کے ساتھ ہی رہتا تھا اور ان ہی میں شمار ہوتا تھا اس لیے وہ بھی اسجدوا لادم کے حکم کا مخاطب تھا اور سجدہ آدم کے حکم کے ساتھ اس کا خطاب کیا جانا قطعی ہے ارشاد باری ہے۔ ما منعک الا تسجد اذ امرتک۔ جب میں نے تجھے حکم دے دیا تو پھر تو نے سجدہ کیوں نہ کیا۔

٥٠۔ (۲)  فِسْق کے معنی ہوتے ہیں نکلنا چوہا جب اپنے بل سے نکلتا ہے تو کہتے ہیں فَسَقَتِ الفَارَۃ مِنْ جُحرِھَا، شیطان بھی سجدہ تعظیم و تحیہ کا انکار کر کے رب کی اطاعت سے نکل گیا۔

٥٠۔ (۳) یعنی کیا تمہارے لئے یہ صحیح ہے کہ تم ایسے شخص کو اور اسکی نسل کو دوست بناؤ جو تمہارے باپ آدم علیہ السلام کا دشمن، تمہارا دشمن اور تمہارے رب کا دشمن ہے اور اللہ کو چھوڑ کر اس شیطان کی اطاعت کرو؟

۵۰۔(٤) ایک دوسرا ترجمہ اس کا یہ کیا گیا ہے ظالموں نے کیا ہی برا بدل اختیار کیا ہے یعنی اللہ کی اطاعت اور اسکی دوستی کو چھوڑ کر شیطان کی اطاعت اور اسکی دوستی جو اختیار کی ہے تو یہ بہت ہی برا بدل ہے جسے ان ظالموں نے اپنایا ہے۔

٥١۔ (١) یعنی آسمان اور زمین کی پیدائش اور اس کی تدبیر میں، بلکہ خود شیاطین کی پیدائش میں ہم نے ان سے یا ان میں سے کسی ایک سے کوئی مدد حاصل نہیں کی، یہ تو اس وقت موجود بھی نہ تھے۔ پھر تم اس شیطان اور اس کے نسل کی پوجا یا ان کی اطاعت کیوں کرتے ہو؟ اور میری عبادت و اطاعت سے تمہیں گریز کیوں ہے ؟ جب کہ یہ مخلوق ہیں اور میں ان سب کا خالق ہوں۔

٥١۔ (۲)  اور بفرض محال اگر میں کسی کو مددگار بناتا بھی تو ان کو کیسے بناتا، جبکہ یہ میرے بندوں کو گمراہ کر کے میری جنت اور میری رضا سے روکتے ہیں۔

٥٢۔ موبق کے ایک معنی حجاب۔ پردے اور آڑ کے ہیں یعنی ان کے درمیان پردہ اور فاصلہ کر دیا جائے گا کیونکہ ان کے درمیان آپس میں عداوت ہو گی۔ نیز اس لئے کہ محشر میں یہ ایک دوسرے کو نہ مل سکیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ جہنم میں پیپ اور خون کی مخصوص آبادی ہے۔ اور بعض نے اس کا ترجمہ مہلک کیا ہے، یہ ایک دوسرے کو مل ہی نہیں سکیں گے کیونکہ ان کے درمیان ہلاکت کا سامان اور ہولناک چیزیں ہوں گی۔

٥٣۔ جس طرح بعض روایات میں ہے کہ کافر ابھی چالیس سال کی مسافت پر ہو گا کہ یقین کر لے گا کہ جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے (مسند احمد جلد۔٣، ص ٧٥)

٥٤۔ یعنی ہم نے انسان کو حق کا راستہ سمجھانے کے لئے قرآن میں ہر طریقہ استعمال کیا، وعظ، نصیحت، امثال، واقعات اور دلائل، علاوہ ازیں انہیں بار بار اور مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ لیکن انسان چونکہ سخت جھگڑالو ہے، اس لئے وعظ نصیحت کا اس پر اثر ہوتا ہے اور نہ دلائل و نصیحت اس کے لئے کارگر۔

٥٥۔ (١) یعنی تکذیب کی صورت میں ان پر بھی اسی طرح عذاب آئے، جیسے پہلے لوگوں پر آیا۔

٥٥۔ (۲)  یعنی اہل مکہ ایمان لانے کے لئے ان دو باتوں میں سے کسی ایک کے منتظر ہیں۔ لیکن ان عقل کے اندھوں کو یہ پتہ نہیں کہ اس کے بعد ایمان کی کوئی حیثیت ہی نہیں یا اس کے بعد ایمان لانے کا ان کو موقع ہی کب ملے گا؟

٥٦۔ اور اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑانا، یہ جھٹلانے کی بدترین قسم ہے۔ اس طرح جدال بالباطل کے ذریعہ سے (یعنی باطل طریقے اختیار کر کے ) حق کو باطل ثابت کرنے کی سعی کرنا بھی نہایت مذموم حرکت ہے۔ اس جدال بالباطل کی ایک صورت یہ ہے جو کافر رسولوں کو یہ کہہ کر ان کی رسالت انکار کر دیتے رہے ہیں کہ تم ہمارے جیسے ہی انسان ہو۔ ما انتم الا بشر مثلنا۔ یسین۔ ہم تمہیں رسول کس طرح تسلیم کر لیں ؟ دحض۔ کے اصل معنی پھسلنے کے ہیں کہا جاتا ہے دحضت رجلہ اس کا پیر پھسل گیا یہاں سے یہ کسی چیز کے زوال اور بطلان کے معنی میں استعمال ہونے لگا کہتے ہیں دحضت حجتۃ دحوضا ای بطلت اس کی حجت باطل ہو گئی اس لحاظ سے ادحض یدحض کے معنی ہوں گے باطل کرنا (فتح القدیر)

٥٧۔ یعنی ان کے اس ظلم عظیم کی وجہ سے کہ انسان نے رب کی آیات سے اعراض کیا اور اپنے کرتوتوں کو بھولے رہے، ان کے دلوں پر ایسے پردے اور ان کے کانوں پر ایسے بوجھ ڈال دیئے گئے ہیں، جس سے قرآن کا سمجھنا، سننا اور اس سے ہدایت قبول کرنا ان کے لئے ناممکن ہو گیا۔ ان کو کتنا بھی ہدایت کی طرف بلا لو، یہ کبھی بھی ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔

٥٨۔ یعنی یہ تو رب غفور کی رحمت ہے کہ وہ گناہ پر فوراً گرفت نہیں فرماتا، بلکہ مہلت دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاداش عمل میں ہر شخص ہی عذاب الٰہی کے شکنجے میں کسا ہوتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جب مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے اور ہلاکت کا وقت آ جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ مقرر کئے ہوتا ہے تو پھر فرار کا کوئی راستہ اور بچاؤ کی کوئی سبیل ان کے لئے نہیں رہتی۔ مو‏‏ئل۔ کے معنی ہیں جائے پناہ راہ فرار۔

٥٩۔ اس سے مراد، عاد، ثمود اور حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام وغیرہ کی قومیں جو اہل حجاز کے قریب اور ان کے راستوں میں ہی تھیں۔ انہیں بھی اگرچہ ان کے ظلم کے سبب ہی ہلاک کیا گیا لیکن ہلاکت سے پہلے انہیں پورا موقع دیا گیا اور جب یہ بات واضح ہو گئی کہ ان کا ظلم و طغیان اس حد کو پہنچ گیا ہے جہاں سے ہدایت کے راستے بالکل مسدود ہو جاتے ہیں اور ان سے خیر اور بھلائی کی امید باقی نہیں رہی، تو پھر ان کی مہلت عمل ختم اور تباہی کا وقت شروع ہو گیا۔ پھر انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ یا اہل دنیا کے لئے عبرت کا نمونہ بنا دیا گیا۔ یہ دراصل اہل مکہ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے آخری پیغمبر اور اشرف الرسل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب کر رہے ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں مہلت مل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ یہ مہلت تو سنت اللہ ہے، جو ایک وقت موعود تک ہر فرد گروہ اور قوم کو وہ عطا کرتا ہے جب یہ مدت ختم ہو جائے گی اور تم اپنے کفر و عناد سے باز نہیں آؤ گے تو پھر تمہارا حشر بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا جو تم سے پہلی قوموں کا ہو چکا ہے۔

٦٠۔ (١) نوجوان سے مراد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے وفات کے بعد ان کے جانشین بنے۔

٦٠۔ (۲)  اس مقام کی تعیین کسی یقینی ذریعہ سے نہیں ہو سکی تاہم قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سے مراد صحرائے سینا کا وہ جنوبی راستہ ہے جہاں خلیج عقبہ اور خلیج سویز دونوں آ کر ملتے ہیں اور بحر احمر میں ضم ہو جاتے ہیں۔ دوسرے مقامات جن کا ذکر مفسرین نے کیا ہے ان پر سرے سے مجمع البحرین کی تعبیر ہی صادق نہیں آتی۔

٦٠۔ (۳) حقب، کے ایک معنی ۷۰یا ۸۰ سال اور دوسرے معنی غیر معین مدت کے ہیں یہاں یہی دوسرا معنی مراد ہے یعنی جب تک میں مجمع البحرین (جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں ) نہیں پہنچ جاؤں گا، چلتا رہوں گا اور سفر جاری رکھوں گا، چاہے کتنا بھی عرصہ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سفر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ انہوں نے ایک موقع پر ایک سائل کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ اس وقت مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ جملہ پسند نہیں آیا اور وحی کے ذریعہ سے انہیں مطلع کیا کہ ہمارا ایک بندہ (خضر) ہے جو تجھ سے بڑا عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ یا اللہ اس سے ملاقات کس طرح ہو سکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں، وہیں ہمارا وہ بندہ بھی ہو گا۔ نیز فرمایا کہ مچھلی ساتھ لے جاؤ، جہاں مچھلی تمہاری ٹوکری (زنبیل) سے نکل کر غائب ہو جائے تو سمجھ لینا کہ یہی مقام ہے (بخاری، سورہ کہف) چنانچہ اس کے حکم کے مطابق انہوں نے ایک مچھلی لی اور سفر شروع کر دیا۔

٦٣۔ یعنی مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے سمندر میں سرنگ کی طرح راستہ بنا دیا۔ حضرت یوشع علیہ السلام نے مچھلی کو سمندر میں جاتے اور راستہ بنتے ہوئے دیکھا، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتلانا بھول گئے۔ حتیٰ کہ آرام کر کے وہاں سے پھر سفر شروع کر دیا، اس دن اور اس کے بعد رات سفر کر کے، جب دوسرے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تھکاوٹ اور بھوک محسوس ہوئی تو اپنے جوان ساتھی سے کہا لاؤ بھئی ناشتہ، ناشتہ کر لیں۔ اس نے کہا، مچھلی تو، جہاں ہم نے پتھر سے ٹیک لگا کر آرام کیا تھا، وہاں زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی تھی اور وہاں عجب طریقے سے اس نے اپنا راستہ بنایا تھا، جس کا میں آپ سے تذکرہ کرنا بھول گیا۔ شیطان نے مجھے بھلا دیا۔

٦٤۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اللہ کے بندے ! جہاں مچھلی زندہ ہو کر غائب ہوئی تھی، وہی تو ہمارا مطلوبہ مقام تھا، جس کی تلاش میں ہم سفر کر رہے ہیں۔ چنانچہ اپنے نشانات دیکھتے ہوئے پیچھے لوٹے اور اسی مجمع البحرین پر واپس آ گئے۔ قَصَصَا کے معنی ہیں پیچھے لگنا، پیچھے پیچھے چلنا۔ یعنی نشانات قدم کو دیکھتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔

٦٥۔ (١) اس بندے سے مراد حضرت خضر ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں وضاحت ہے۔ خضر کے معنی سرسبز اور شاداب کے ہیں، یہ ایک مرتبہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ حصہ زمین ان کے نیچے سے سرسبز ہو کر لہلہانے لگا، اسی وجہ سے ان کا نام خضر پڑ گیا (صحیح بخاری، تفسیر سورہ کہف)

٦٥۔ (۲)  رَحْمَۃ سے مراد مفسرین نے وہ خصوصی انعامات مراد لئے ہیں جو اللہ نے اپنے اس خاص بندے پر فرمائے اور اکثر مفسرین نے اس سے مراد نبوت لی ہے۔

٦٥۔ (۳) اس سے علم نبوت کے علاوہ جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی بہرہ ور تھے، بعض خاص امور کا علم ہے جس اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت خضر کو نوازا تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی وہ علم نہیں تھا۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض صوفیا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو، جو نبی نہیں ہوتے، علم الہام سے نوازتا ہے، جو بغیر استاد کے محض فیض کے سر چشمہ کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ باطنی علم، شریعت کے ظاہری علم سے، جو قرآن و حدیث کی صورت میں موجود ہے، مختلف بلکہ بعض دفعہ اس کے مخالف اور معارض ہوتا ہے لیکن استدلال اس لئے صحیح نہیں کہ حضرت خضر کی بابت تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کے علم خاص دیئے جانے کی وضاحت کر دی ہے، جب کہ کسی اور کے لئے ایسی وضاحت کہیں نہیں اگر اس کو عام کر دیا جائے تو پھر ہر شعبدہ باز اس قسم کا دعویٰ کر سکتا ہے، چنانچہ اس طبقے میں یہ دعوے عام ہی ہیں۔ اس لئے ایسے دعووں کی کوئی حیثیت نہیں۔

٦٨۔ یعنی جس کا پورا علم نہ ہو

٧١۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چونکہ اس علم خاص کی خبر نہیں تھی جس کی بنا پر خضر نے کشتی کے تختے توڑ دیئے تھے، اس لئے صبر نہ کر سکے اور اپنے علم و فہم کے مطابق اسے نہایت ہولناک کام قرار دیا۔ امرا کے معنی ہیں الداھیۃ العظیمۃ، بڑا ہیبت ناک کام۔

٧٣۔ یعنی میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، سختی کا نہیں۔

٧٤۔ (١) غلام سے مراد بالغ جوان بھی ہو سکتا ہے اور نابالغ بچہ بھی۔

٧٤۔ (۲)  نکرا، فظیعامنکرا لا یعرف فی الشرع،، ایسا بڑا برا کام جس کی شریعت میں گنجائش نہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی ہیں انکر من الامر الاول پہلے کام (کشتی کے تختے توڑنے ) سے زیادہ برا کام۔ اس لئے کہ قتل، ایسا کام ہے جس کا تدارک اور ازالہ ممکن نہیں۔ جبکہ کشتی کے تختے اکھیڑ دینا، ایسا کام ہے جس کا تدارک اور ازالہ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو علم شریعت حاصل تھا، اس کی رو سے حضرت خضر کا یہ کام بہرحال خلاف شرع تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے اعتراض کیا اور اسے نہایت برا کام قرار دیا۔

٧٦۔ یعنی اب اگر سوال کروں تو اپنے ساتھ رکھنے کے شرف سے مجھے محروم کر دیں، مجھے کوئی احتراز نہیں ہو گا، اس لئے کہ آپ کے پاس معقول عذر ہو گا۔

٧٧۔ (١) یعنی یہ بخیلوں کی بستی تھی کہ مہمانوں کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا، در آں حالیکہ مسافروں کو کھانا کھلانا اور مہمان نوازی کرنا ہر شریعت کی اخلاقی تعلیمات کا اہم حصہ رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی مہمان نوازی کو ایمان کا تقاضا قرار دیا ہے اور فرمایا ' جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت و تکریم کرے۔

٧٧۔ (۲)  حضرت خضر نے اس دیوار کو ہاتھ لگایا اور اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر سیدھی ہو گئی۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے واضح ہے۔

٧٧۔ (۳) حضرت موسیٰ علیہ السلام، جو اہل بستی کے رویے سے پہلے ہی کبیدہ خاطر تھے، حضرت خضر کے بلا معاوضہ احسان پر خاموش نہ رہ سکے اور بول پڑے کہ جب ان بستی والوں نے ہماری مسافرت، ضرورت مندی اور شرف و فضل کسی چیز کا بھی لحاظ نہیں کیا تو یہ لوگ کب اس لائق ہیں کہ ان کے ساتھ احسان کیا جائے۔

٧٨۔ (١) حضرت خضر نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام، یہ تیسرا موقعہ ہے کہ تو صبر نہیں کر سکا اور اب خود تیرے کہنے کے مطابق میں تجھے ساتھ رکھنے سے معذور ہوں۔

٧٨۔ (۲)  لیکن جدائی سے قبل حضرت خضر نے تینوں واقعات کی حقیقت سے انہیں آگاہ اور باخبر کرنا ضروری خیال کیا تاکہ موسیٰ علیہ السلام کسی مغالطے کا شکار نہ رہیں اور وہ یہ سمجھ لیں کہ علم نبوت اور ہے، جس سے انہیں نوازا گیا ہے اور بعض اہم امور کا علم اور ہے جو اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت، حضرت خضر کو دیا گیا ہے اور اسی کے مطابق انہوں نے ایسے کام کیے جو علم شریعت کی رو سے جائز نہیں تھے اور اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام بجا طور پر ان پر خاموش نہیں رہ سکے تھے۔ انہی اہم امور کی انجام دہی کی وجہ سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ حضرت خضر انسانوں میں سے نہیں تھے اور اسی لئے وہ ان کی نبوت و رسالت یا دلائل کے بیچ میں نہیں پڑتے کیوں کہ یہ سارے مناصب تو انسانوں کے ساتھ ہی خاص ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ تھے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ اپنے کسی نبی کو بعض اہم امور سے مطلع کر کے ان کے ذریعے سے کام کروا لے، تو اس میں بھی کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ جب وہ صاحب وحی خود اس امر کی وضاحت کر دے کہ میں نے یہ کام اللہ کے حکم سے ہی کئے ہیں تو گو بظاہر وہ خلاف شریعت ہی نظر آتے ہوں، لیکن جب ان کا تعلق ہی اہم امور سے ہے تو وہاں جواز اور عدم جواز کی حیثیت غیر ضروری ہے۔ جیسے تکوینی احکامات کے تھے کوئی بیمار ہوتا ہے، کوئی مرتا ہے، کسی کا کاروبار تباہ ہو جاتا ہے، قوموں پر عذاب آتا ہے، ان میں سے بعض کام بعض دفعہ بہ اذن الٰہی فرشتے ہی کرتے ہیں، تو جس طرح یہ امور آج تک کسی کو خلاف شریعت نظر نہیں آئے۔ اسی طرح حضرت خضر کے ذریعے سے وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا تعلق بھی چوں کہ اہم امور سے ہے اس لئے انہیں شریعت کی ترازو میں تولنا ہی غیر صحیح ہے۔ البتہ اب وحی و نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد کسی شخص کا اس قسم کا دعویٰ ہرگز صحیح اور قابل تسلیم نہیں ہو گا جیسا کہ حضرت خضر سے منقول ہے کیوں کہ حضرت خضر کا معاملہ تو آیت قرآنی سے ثابت ہے، اس لئے مجال انکار نہیں۔ لیکن اب جو بھی اس قسم کا دعویٰ یا عمل کرے گا، اس کا انکار لازمی اور ضروری ہے کیوں کہ اب وہ یقینی ذریعہ علم موجود نہیں ہے جس سے اس کے دعوے اور عمل کی حقیقت واضح ہو سکے۔

٨٢۔ حضرت خضر کی نبوت کے قائلین کی یہ دوسری دلیل ہے جس سے وہ نبوت خضر کا اثبات کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی غیر نبی کے پاس اس قسم کی وحی نہیں آتی کہ وہ اتنے اتنے اہم کام کسی اشارہ غیبی پر کر دے، نہ کسی غیر نبی کا ایسا اشارہ غیبی قابل عمل ہی ہے۔ نبوت خضر کی طرح حیات خضر بھی ایک حلقے میں مختلف ہے اور حیات خضر کے قائل بہت سے لوگوں کی ملاقاتیں حضرت خضر سے ثابت کرتے ہیں اور پھر ان سے ان کے اب تک زندہ ہونے پر دلیل پیش کرتے ہیں لیکن جس طرح حضرت خضر کی زندگی پر کوئی آیت شرعی نہیں ہے، اسی طریقے سے لوگوں کے مکاشفات یا حالت بیداری یا نیند میں حضرت خضر سے ملنے کے دعوے بھی قابل تسلیم نہیں۔ جب ان کا حلیہ ہی معقول ذرائع سے بیان نہیں کیا گیا ہے تو ان کی شناخت کس طرح ممکن ہے ؟ اور کیوں کر یقین کیا جا سکتا ہے، کہ جن بزرگوں نے ملنے کے دعوے کئے ہیں، واقعی ان کی ملاقات خضر، موسیٰ علیہ السلام سے ہی ہوئی ہے، خضر کے نام سے انہیں کسی نے دھوکہ اور فریب نے مبتلا نہیں کیا۔

٨٣۔ یہ مشرکین کے اس تیسرے سوال کا جواب ہے جو یہودیوں کے کہنے پر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کئے تھے، ذوالقرنین کے لفظی معنی دو سینگوں والے کے ہیں۔ یہ نام اس لئے پڑا کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے یا اس لئے کہ اس نے مشرق و مغرب دنیا کے دونوں کناروں پر پہنچ کر سورج کی قرن یعنی شعاع کا مشاہدہ کیا، بعض کہتے ہیں کہ اس کے سر پر بالوں کی دو لٹیں تھیں، قرن بالوں کی لٹ کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی دو لٹوں دو مینڈھیوں یا، دو زلفوں والا۔ قدیم مفسرین نے بالعموم اس کا مصداق سکندر رومی کو قرار دیا ہے جس کی فتوحات کا دائرہ مشرق و مغرب تک پھیلا ہوا تھا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر ' ' ترجمان القرآن '۔

٨٤۔ ہم نے اسے ایسے ساز و سامان اور وسائل مہیا کیے، جن سے کام لے کر اس نے فتوحات حاصل کیں، دشمنوں کا غرور خاک میں ملایا اور ظالم حکمرانوں کو نیست و نابود کیا۔

٨٥۔ دوسرے سبب کے معنی راستے کے کئے گئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل سے مزید وسائل تیار اور مہیا کئے، جس طرح اللہ کے پیدا کردہ لوہے سے مختلف قسم کے ہتھیار اور اسی طرح دیگر خام مواد سے بہت سی اشیاء بنائی جاتی ہیں۔

٨٦۔(١) ١عین سے مراد چشمہ یا سمندر ہے حمثۃ، کیچڑ، دلدل، وجد (پایا) یعنی دکھایا محسوس کیا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین جب مغربی جہت میں ملک پر ملک فتح کرتا ہوا، اس مقام پر پہنچ گیا جہاں آخری آبادی تھی وہاں گدلے پانی کا چشمہ یا سمندر تھا جو نیچے سے سیاہ معلوم ہوتا تھا اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا سورج اس چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ ساحل سمندر سے دور سے، جس کے آگے حد نظر تک کچھ نہ ہو، غروب شمس کا نظارہ کرنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورج سمندر میں یا زمین میں ڈوب رہا ہے حالاں کہ وہ اپنے مقام آسمان پر ہی ہوتا ہے۔

٨٦۔ (۲)  قُلْنَا (ہم نے کہا) بذریعہ وحی، اسی سے بعض علماء نے نبوت پر ثبوت کیا ہے اور جو ان کی نبوت کے قائل نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کے پیغمبر کے ذریعے سے ہم نے اس سے کہا۔

٨٦۔ (۳) یعنی ہم نے اس قوم پر غلبہ دے کر اختیار دے دیا کہ چاہے تو اسے قتل کرے اور قیدی بنا لے یا فدیہ لے کر بطور احسان چھوڑ دے

٨٧۔ یعنی جو کفر و شرک پر جما رہے گا، اسے ہم سزا دیں گے یعنی پچھلی غلطیوں پر مواخذہ نہیں ہو گا۔

٨٩۔ یعنی اب مغرب سے مشرق کی طرف سفر اختیار کیا۔

٩٠۔ یعنی ایسی جگہ پہنچ گیا جو مشرقی جانب کی آخری آبادی تھی، اس کو مطلع الشمس کہا گیا ہے۔ جہاں اس نے ایسی قوم دیکھی جو مکانوں میں رہنے کے بجائے میدانوں اور صحراؤں میں بسیرا کیے ہوئے، لباس سے بھی آزاد تھی۔ یہ مطلب ہے کہ ان کے اور سورج کے درمیان کوئی پردہ اور اوٹ نہیں تھی۔ سورج ان کے ننگے جسموں پر طلوع ہوتا۔

٩١۔ یعنی ذوالقرنین کی بابت ہم نے جو بیان کیا ہے وہ اسی طرح ہے کہ پہلے وہ انتہائی مغرب اور پھر انتہائی مشرق میں پہنچا اور ہمیں اس کی تمام صلاحیتوں، اسباب و وسائل اور دیگر تمام باتوں کا پورا علم ہے۔

٩٢۔ یعنی اب اس کا رخ کسی اور طرف ہو گیا۔

٩٣۔ (١) اس سے مراد دو پہاڑ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل تھے، ان کے درمیان کھائی تھی، جس سے یاجوج و ماجوج ادھر آبادی میں آ جاتے اور اودھم مچاتے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے۔

٩٣۔ (۲)  یعنی اپنی زبان کے سوا کسی اور کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔

٩٤۔ (١) ذو القرنین سے یہ خطاب یا تو کسی ترجمان کے ذریعے ہوا ہو گا یا اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو جو خصوصی اسباب و وسائل مہیا فرمائے تھے، انہی میں مختلف زبانوں کا علم بھی ہو سکتا ہے اور یوں یہ خطاب براہ راست بھی ہو سکتا ہے۔

٩٤۔ (۲)  یاجوج و ماجوج یہ دو قومیں ہیں اور حدیث صحیح کے مطابق نسل انسانی میں سے ہیں اور ان کی تعداد، دوسری انسانی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ ہو گی اور انہی سے جہنم زیادہ بھرے گی (صحیح بخاری)

٩٥۔ قوت سے مراد یعنی تم مجھے تعمیراتی سامان اور رجال کار مہیا کرو۔

٩٦۔ (١) یعنی دونوں پہاڑوں کے سروں کے درمیان جو خلا تھا، اسے لوہے کی چھوٹی چھوٹی چادروں سے پر کر دیا۔

٩٦۔ (۲)  پگھلا ہوا سیسہ، یا لوہا یا تانبا۔ یعنی لوہے کی چادروں کو خوب گرم کر کے ان پر پگھلا ہوا لوہا، تانبا یا سیسہ ڈالنے سے وہ پہاڑی درہ یا راستہ ایسا مضبوط ہو گیا کہ اسے عبور کر کے یا توڑ کر یاجوج ماجوج کا ادھر دوسری طرف انسانی آبادیوں میں آنا ناممکن ہو گیا۔

٩٨۔ یعنی یہ دیوار اگرچہ بڑی مضبوط بنا دی گئی جس کے اوپر چڑھ کر اس میں سوراخ کر کے یاجوج ماجوج کا ادھر آنا ممکن نہیں ہے لیکن جب میرے رب کا وعدہ آ جائے گا، تو وہ اسے ریزہ ریزہ کر کے زمین کے برابر کر دے گا، اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج و ماجوج کا ظہور ہے جیسا کہ احادیث میں ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دیوار کے تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا (صحیح بخاری، نمبر ٣٣٤٦ و مسلم، نمبر ٢٢٠٨) ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ وہ ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، لیکن جب اللہ کی مشیت ان کے باہر نکلنے کی ہو گی تو پھر وہ کہیں گے کل انشا اللہ اسکو کھو دیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ زمین میں فساد پھیلائیں گے حتیٰ کے لوگ قلعہ بند ہو جائیں گے، یہ آسمانوں پر تیر پھینکیں گے جو خون آلودہ لوٹیں گے، بالآخر اللہ تعالیٰ ان کی گدیوں پر ایسا کیڑا پیدا فرما دے گا جس سے ان کی ہلاکت واقع ہو جائے گی۔ صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی روایت میں وضاحت ہے کہ یاجوج و ماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہو گا۔ جس سے ان حضرات کی تردید ہو جاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ، یا منگول ترک جن میں چنگیز بھی تھا یا روسی یا چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہو چکا۔ یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں کیوں کہ ان کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل و غارت گری اور زرو و فساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلمانوں میں نہیں ہو گی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ اجل بن جائیں گے۔

١٠٢۔ حسب، بمعنی ظن ہے اور عبادی (میرے بندوں ) سے مراد ملائکہ، مسیح علیہ السلام اور دیگر صالحین ہیں، جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا ہے، اسی طرح شیاطین و جنات ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے اور استفہام زجر و توبیخ کے لیے ہے۔ یعنی غیر اللہ کے یہ پجاری کیا یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر اور میرے بندوں کی عبادت کر کے ان کی حمایت سے میرے عذاب سے بچ جائیں گے ؟ یہ ناممکن ہے، ہم نے تو ان کافروں کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے جس میں جانے سے ان کو وہ بندے نہیں روک سکیں گے جن کی یہ عبادت کرتے اور ان کو اپنا حمایتی سمجھتے ہیں۔

١٠٤۔ یعنی اعمال ان کے ایسے ہیں جو اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہیں، لیکن بزم خویش سمجھتے یہ ہیں کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ اس سے مراد کون ہیں بعض کہتے ہیں، یہود و انصار ہیں، بعض کہتے ہیں مخالفین اور دیگر اہل بدعت ہیں، بعض کہتے ہیں کہ مشرکین ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ آیت عام ہے جس میں ہر وہ فرد اور گروہ شامل ہے جس کے اندر مذکورہ صفات ہوں گی۔ آگے ایسے ہی لوگوں کی بابت مزید سزا دینے کے وعدے بیان کیے جا رہے ہیں۔

١٠٥۔ (١) رب کی آیات سے مراد توحید کے وہ دلائل ہیں جو کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ آیات شرعی ہیں اور جو اس نے اپنی کتابوں میں نازل کیں اور پیغمبروں نے تبلیغ و توضیع کی۔ اور رب کی ملاقات سے کفر کا مطلب آخرت کی زندگی اور دوبارہ جی اٹھنے سے انکار ہے۔

١٠٥۔ (۲)  یعنی ہمارے ہاں ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہو گی یا یہ مطلب ہے کہ ہم ان کے لئے میزان کا اہتمام ہی نہیں کریں گے کہ جس میں ان کے اعمال تولے جائیں، اس لئے کہ اعمال تو خدا کو ایک ماننے والوں کے تولے جائیں گے جن کے نامہ اعمال میں نیکیاں اور برائیاں دونوں ہوں گی، جب کہ ان کے نامہ اعمال نیکیوں سے بالکل خالی ہوں گے جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ' قیامت والے دن موٹا تازہ آدمی آئے گا، اللہ کے ہاں اس کا اتنا وزن نہیں ہو گا جتنا مچھر کے پر کا ہوتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری۔ سورہ کہف)

١٠٧۔ جنت الفردوس، جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' جب بھی تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو الفردوس کا سوال کرو، اس لئے کہ وہ جنت کا اعلیٰ حصہ ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں ' (البخاری کتاب التوحید)

١٠٨۔  یعنی اہل جنت، جنت اور اس کی نعمتوں سے کبھی نہ اکتائیں گے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ منتقل ہونے کی خواہش ظاہر کریں۔

١٠٩۔ کَلِمَاَت سے مراد، اللہ تعالیٰ کا علم محیط، اس کی حکمتیں اور وہ دلائل و براہین ہیں جو اس کی وحدانیت پر دال ہیں۔ انسانی عقلیں ان سب کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور دنیا بھر کے درختوں کے قلم بن جائیں اور سارے سمندر بلکہ ان کی مثل اور بھی سمندر ہوں، وہ سب سیاہی میں بدل جائیں، قلم گھس جائیں گے اور سیاہی ختم ہو جائے گی، لیکن رب کے کلمات اور اس کی حکمتیں ضبط تحریر میں نہیں آ سکیں گی۔

١١٠۔ (١) اس لئے میں بھی رب کی باتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا۔

١١٠۔ (۲)  البتہ مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ اسی وحی کی بدولت میں نے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق اللہ کی طرف سے نازل کردہ وہ باتیں بیان کی ہیں جن پر مرور ایام کی دبیز تہیں پڑی ہوئی تھیں یا ان کی حقیقت افسانوں میں گم ہو گئی تھی۔ علاوہ ازیں اس وحی میں سب سے اہم حکم یہ دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود صرف ایک ہے۔

١١٠۔ (۳) عمل صالح وہ ہے جو سنت کے مطابق ہو، یعنی جو اپنے رب کی ملاقات کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ ہر عمل سنت نبوی کے مطابق کرے اور دوسرا اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، اس لئے کہ بدعت اور شرک دونوں ہی ضبط اعمال کا سبب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔