احسن البیان

سورة صٓ

١۔ جس میں تمہارے لئے ہر قسم کی نصیحت اور ایسی باتیں ہیں، جن سے تمہاری دنیا سنور جائے اور آخرت بھی بعض نے ذی الذکر کا ترجمہ شان اور مرتبت والا، کیے ہیں، امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ اس لئے کہ قرآن عظمت شان کا حامل بھی ہے اور اہل ایمان و تقویٰ کے لئے نصیحت اور درس عبرت بھی، اس قسم کا جواب محذوف ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح کفار مکہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ساحر، شاعر یا جھوٹے ہیں، بلکہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں جن پر یہ ذی شان قرآن نازل ہوا۔

٢۔ یعنی یہ قرآن تو یقیناً شک سے پاک اور ان کے لئے نصیحت ہے جو اس سے عبرت حاصل کریں البتہ ان کافروں کو اس سے فائدہ اس لئے نہیں پہنچ رہا ہے ان کے دماغوں میں استکبار اور غرور ہے اور دلوں میں مخالفت و عناد۔ عزت کے معنی ہوتے ہیں۔ حق کے مقابلے میں اکڑنا۔

٣۔ جو ان سے زیادہ مضبوط اور قوت والے تھے لیکن کفر و جھٹلانے کی وجہ سے برے انجام سے دوچار ہوئے۔

٤۔ یعنی انہی کی طرح کا ایک انسان رسول کس طرح بن گیا۔

٥۔ یعنی ایک ہی اللہ ساری کائنات کا نظام چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی طرح عبادت اور نذر و نیاز کا مستحق بھی صرف وہی ایک ہے ؟ یہ ان کے لئے تعجب انگیز بات تھی۔

٦۔ (۱)   یعنی اپنے دین پر جمے رہو اور بتوں کی پوجا کرتے رہو، محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی بات پر کان مت دھرو!

٦۔ (۲)  یعنی یہ ہمیں ہمارے معبودوں سے چھڑا کر دراصل اپنے پیچھے لگانا اور اپنی قیادت منوانا چاہتا ہے۔

٧۔ (۱)   پچھلے دین سے مراد تو ان کا دین قریش ہے، یا پھر دین نصاریٰ یعنی یہ جس توحید کی دعوت دے رہا ہے، اس کی بابت تو ہم نے کسی بھی دین میں نہیں سنا۔

٧۔ (۲)  یعنی یہ توحید صرف اس کی اپنی من گھڑت ہے، ورنہ عیسائیت میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو الوہیت میں شریک تسلیم کیا گیا ہے۔

٨۔ (۱)   یعنی مکے میں بڑے بڑے چودھری اور رئیس ہیں، اگر اللہ کسی کو نبی بنانا ہی چاہتا تو ان میں سے کسی کو بناتا۔ ان سب کو چھوڑ کر وحی رسالت کے لئے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کا انتخاب بھی عجیب ہے ؟ یہ گویا انہوں نے اللہ کے انتخاب میں کیڑے نکالے۔ سچ ہے خوئے بد را بہانہ بسیار۔ دوسرے مقام پر بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ زخرف۔ ٣١ ،٣٢۔

٨۔ (۲)  یعنی ان کا انکار اس لئے نہیں ہے کہ انہیں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کا علم نہیں ہے یا آپ کی سلامت عقل سے انہیں انکار ہے بلکہ یہ اس وحی کے بارے میں ہی شک میں مبتلا ہیں جو آپ پر نازل ہوئی، جس میں سب سے نمایا توحید کی دعوت ہے۔

٩۔ کہ جس کو چاہیں دیں اور جس چاہیں نہ دیں، انہی خزانوں میں نبوت بھی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، بلکہ رب کے خزانوں کا مالک وہی وہاب ہے جو بہت دینے والا ہے، تو پھر انہیں نبوت محمدی سے انکار کیوں ہے ؟ جسے اس نوازنے والے رب نے اپنی رحمت خاص سے نوازا ہے۔

١٠۔ یعنی آسمان پر چڑھ کر اس وحی کا سلسلہ منقطع کر دیں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوتی ہے۔

١١۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد اور کفار کی شکست کا وعدہ ہے۔ یعنی کفار کا یہ لشکر جو باطل لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، بڑا ہے، یا حقیر، اس کی قطعاً پروا نہ کریں نہ اس سے خوف کھائیں، شکست ان کا مقدر ہے، ھُنَالِکَ مکان بعید کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر اور یوم فتح مکہ کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں کافر عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے۔

١٢۔ فرعون کو میخوں والا اس لئے کہا کہ وہ ظالم جب کسی پر غضبناک ہوتا تو اس کے ہاتھوں پیروں اور سر میں میخیں گاڑ دیتا تھا۔

١٣۔ اَ صْحَابُ الاَیْکۃِ کے لئے دیکھئے سورہ شعراء١٧٦ کا حاشیہ

١٥۔ (۱)   یعنی صور پھونکنے کا جس سے قیامت برپا ہو جائے گی۔

١٥۔ (۲)  صور پھونکنے کی دیر ہو گی کہ قیامت کا زلزلہ برپا ہو جائے گا۔

١٦۔ یعنی ہمارے نامہ اعمال کے مطابق ہمارے حصے میں اچھی یا بری سزا جو بھی ہے، یوم حساب آنے سے پہلے ہی دنیا میں دے دے۔ یہ وقوع قیامت کو ناممکن سمجھتے ہوئے انہوں نے تمسخر کے طور پر کہا۔

١٧۔ قوت و شدت۔ اسی سے تائید بمعنی تقویت ہے۔ اس قوت سے مراد دینی قوت و صلاحیت ہے، جس طرح حدیث میں آتا ہے ' کہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نماز، داؤد علیہ السلام کی نماز اور سب سے زیادہ محبوب روزے، داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں، وہ نصف رات سوتے، پھر اٹھ کر رات کا تہائی حصہ قیام کرتے اور پھر اس کے چھٹے حصے میں سو جاتے۔ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے اور جنگ میں فرار نہ ہوتے (صحیح بخاری)

١٩۔ یعنی اشراق کے وقت اور آخر دن کو پہاڑ بھی داؤد علیہ السلام کے ساتھ مصروف تسبیح ہوتے اور اڑتے جانور بھی زبور کی قرأت سن کر ہوا ہی میں جمع ہو جاتے اور ان کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے۔

٢٠۔ (۱)   ہر طرح کی مادی اور روحانی اسباب کے ذریعے سے۔

٢٠۔ (۲)  یعنی، نبوت، اصبات رائے، قول سداد اور نیک کام۔

٢٠۔ (۳) یعنی مقدمات کے فیصلے کرنے کی صلاحیت، بصیرت اور استدلال و بیان کی قوت۔

٢١۔ مِحْرَاب سے مراد کمرہ ہے جس میں سب سے علیحدہ ہو کر یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے۔ دروازے پر پہرے دار ہوتے، تاکہ کوئی اندر آ کر عبادت میں مخل نہ ہو۔ جھگڑا کرنے والے پیچھے سے دیوار پھاند کر اندر آ گئے۔

٢٢۔ آنے والوں نے تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے درمیان ایک جھگڑا ہے، ہم آپ سے فیصلہ کرانے آئے ہیں، آپ حق کے ساتھ فیصلہ بھی فرمائیں اور سیدھے راستے کی طرف ہماری رہنمائی بھی۔

٢٣۔ (۱)   بھائی سے مراد دینی بھائی یا شریک کاروبار یا دوست ہے۔ سب پر بھائی کا اطلاق صحیح ہے۔

٢٣۔ (۲)  یعنی ایک دنبی بھی میری دنبیوں میں شامل کر دے تاکہ میں ہی اس کا بھی ضامن اور کفیل ہو جاؤں۔

٢٣۔ (۳) دوسرا ترجمہ ہے ' اور یہ گفتگو میں بھی مجھ پر غالب آگیا ' یعنی جس طرح اس کے پاس مال زیادہ ہے، زبان کا بھی مجھ سے زیادہ تیز ہے اور اس تیزی و طراری کی وجہ سے لوگوں کو قائل کر لیتا ہے۔

٢٤۔ (۱)   یعنی انسانوں میں یہ کوتاہی عام ہے کہ ایک شریک دوسرے پر زیادتی کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دوسرے کا حصہ بھی خود ہی ہڑپ کر جائے۔

٢٤۔ (۲)  البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں، کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے پابند ہوتے ہیں اس لئے کسی پر زیادتی کرنا اور دوسروں کا مال ہڑپ کر جانے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ وہ تو دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ تاہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔

٢٧۔ بلکہ ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ میرے بندے میری عبادت کریں، جو ایسا کرے گا، میں اسے بہترین جزا سے نوازوں گا اور جو میری عبادت و اطاعت سے سرتابی کرے گا، اس کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔

٣١۔ یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام نے بغرض جہاد جو گھوڑے پالے ہوئے تھے، وہ عمدہ نسل تیز رو گھوڑے حضرت سلیمان علیہ السلام پر معائنے کے لئے پیش کئے گئے، ظہر یا عصر سے لے کر آخر دن تک کے وقت کو کہتے ہیں، جسے شام سے تعبیر کرتے ہیں۔

٣٣۔ اس آیت کا مفہوم۔ مطلب ہو گا کہ گھوڑوں کے معاینہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی عصر کی نماز یا وظیفہ خاص رہ گیا جو اس وقت کرتے تھے جس پر انہیں سخت صدمہ ہوا اور کہنے لگے کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اتنا گم ہو گیا کہ سورج کا پردہ مغرب میں چھپ گیا اور اللہ کی یاد، نماز یا وظیفہ رہ گیا۔ چنانچہ اس کی تلافی اور ازالے کے لئے انہوں نے سارے گھوڑے اللہ کی راہ میں قتل کر ڈالے، امام شوکانی اور ابن کثیر وغیرہ نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے

٣٤۔ یہ آزمائش کیا تھی، کرسی پر ڈالا گیا جسم کس چیز کا تھا؟ اور اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کی بھی کوئی تفصیل قرآن کریم یا حدیث میں نہیں ملتی۔ البتہ بعض مفسرین نے صحیح حدیث سے ثابت ایک واقعہ کو اس پر چسپاں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں آج کی رات اپنی تمام بیویوں سے (جن کی تعداد ٧٠ یا ٩٠ تھی) ہم بستری کرونگا تاکہ ان سے شاہ سوار پیدا ہوں جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اور اس پر انشاء اللہ نہیں کہا تھا (یعنی صرف اپنی ہی تدبیر پر سارا اعتماد کیا) نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے ایک بیوی کے کوئی بیوی حاملہ نہیں ہوئی۔ اور حاملہ بیوی نے جو بچہ جنا، وہ ناقص یعنی آدھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر سلیمان علیہ السلام انشاء اللہ کہہ لیتے تو سب سے مجاہد پیدا ہوتے (صحیح بخاری)

٣٥۔ یعنی شاہ سواروں کی فوج پیدا ہونے کی آرزو، تیری حکمت و مشیت کے تحت پوری نہیں ہوئی، لیکن اگر مجھے ایسی با اختیار بادشاہت عطا کر دے کہ ویسی بادشاہت میرے سوا یا میرے بعد کسی کے پاس نہ ہو، تو پھر اولاد کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ یہ دعا بھی اللہ کے دین کے غلبے کے لئے ہی تھی۔

٣٦۔ ہم نے سلیمان علیہ السلام کی دعا قبول کر لی اور ایسی بادشاہی عطا کی جس میں ہوا بھی ان کے ماتحت تھی، جہاں ہوا کو نرمی سے چلنے والا بتایا ہے، جب کہ دوسرے مقام پر اسے تند و تیز کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہوا پیدائشی قوت کے لحاظ سے تند ہے۔ لیکن سلیمان علیہ السلام کے لئے اسے نرم کر دیا گیا یا حسب ضرورت وہ کبھی تند ہوتی کبھی نرم، جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے (فتح القدیر)

٣٨۔ جنات میں سے جو سرکش یا کافر ہوتے، انہیں بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا، تاکہ وہ اپنے کفر یا سرکشی کی وجہ سے سرتابی نہ کر سکیں۔

٣٩۔ یعنی تیری دعا کے مطابق ہم نے تجھے عظیم بادشاہی سے نواز دیا، اب انسانوں میں سے جس کو چاہے دے، جسے چاہے نہ دے، تجھ سے ہم حساب بھی نہیں لیں گے۔

٤٠۔ یعنی دنیاوی جاہ و مرتبت عطا کرنے کے باوجود آخرت میں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کو قرب خاص اور مقام خاص حاصل ہو گا۔

٤١۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری اور اس میں ان کا صبر مشہور ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اہل و مال کی تباہی اور بیماری کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی جس میں وہ کئی سال مبتلا رہے۔ حتیٰ کہ صرف ایک بیوی ان کے ساتھ رہ گئی جو صبح شام ان کی خدمت کرتی اور ان کو کہیں کام کاج کر کے بقدر کفالت رزق کا انتظام بھی کرتی۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف اس لئے کی گئی ہے در آں حالیکہ سب کچھ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے، کہ ممکن ہے شیطان کے وسوسے ہی کسی ایسے عمل کا سبب بنے ہوں جس پر یہ آزمائش آئی یا پھر بطور ادب کے ہے کہ خیر کا اللہ تعالیٰ کی طرف اور شر کو اپنی یا شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

٤٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور ان سے کہا کہ زمین پر پاؤں مارو، جس سے ایک چشمہ جاری ہو گیا۔ اس کے پانی پینے سے اندرونی بیماریاں اور غسل کرنے سے ظاہری بیماریاں دور ہو گئیں بعض کہتے ہیں کہ یہ دو چشمے تھے، ایک سے غسل فرمایا اور دوسرے سے پانی پیا۔ لیکن قرآن کے الفاظ سے پہلی بات کی تائید ہوتی ہے، یعنی ایک ہی چشمہ تھا۔

٤٣۔ (۱)   بعض کہتے ہیں کہ پہلا کنبہ جو بطور آزمائش ہلاک کر دیا گیا تھا، اسے زندہ کر دیا گیا اور اس کی مثل اور مزید کنبہ عطا کر دیا گیا۔ لیکن یہ بات کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہے، زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے پہلے سے زیادہ مال و اولاد سے انہیں نواز دیا جو پہلے سے دگنا تھا۔

٤٣۔ (۲)  یعنی ایوب علیہ السلام کو سب کچھ دوبارہ عطا کیا، تو اپنی رحمت خاص کے اظہار کے علاوہ اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اہل دانش اس سے نصیحت حاصل کریں اور وہ بھی ابتلاء و شدائد پر اسی طرح صبر کریں جس طرح ایوب علیہ السلام نے کیا۔

٤٤۔ بیماری کے ایام میں خدمت گزار بیوی کسی بات سے ناراض ہو کر حضرت ایوب علیہ السلام نے اسے سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی، صحت یاب ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا، سو تنکوں والی جھاڑو لے کر ایک مرتبہ اسے مار دے، تیری قسم پوری ہو جائیگی۔

٤٥۔ یعنی عبادت الٰہی اور نصرت دین میں بڑے قوی اور دینی و علمی نصیرت میں ممتاز تھے بعض کہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام و احسان ہوا یا یہ لوگوں پر احسان کرنے والے تھے۔

٤٦۔ یعنی ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے چن لیا تھا، چنانچہ آخرت ہر وقت ان کے سامنے رہتی تھی (آخرت کا ہر وقت استحضار، یہ بھی اللہ کی ایک بڑی نعمت اور زاہد و تقویٰ کی بنیاد) یا وہ لوگوں کو آخرت اور اللہ کی طرف بلانے میں کوشاں رہتے تھے۔

٤٨۔ یسع علیہ السلام کہتے ہیں، حضرت الیاس علیہ السلام کے جانشین تھے، ال تعریف کے لئے ہے اور عجمی نام ہے ذوالکفل کے لئے دیکھئے سورہ انبیاء آیت ٨٥ کا حاشیہ۔

٥٢۔ یعنی جن کی نگاہیں اپنے خاوندوں سے حد سے بڑھنے والی نہیں ہوں گی۔ اَتْرَاب تِرْب کی جمع ہے، ہم عمر لا زوال حسن و جمال کی حامل (فتح القدیر)

٥٤۔ رزق، بمعنی عطیہ ہے اور ھٰذَا سے ہر قسم کی مذکور نعمتیں اور وہ اکرام و اعزاز مراد ہے جن سے اہل جنت بہرہ یاب ہوں گے۔ نفاد کے معنی خاتمے کے ہیں یہ نعمتیں بھی غیر فانی ہوں گی اور اعزاز و اکرام بھی دائمی۔

٥٥۔(۱)   یعنی مذکورہ اہل خیر کا معاملہ ہوا۔ اس کے بعد اہل شر کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔

٥٥۔ (۲)  طَاغِیْنَ جنہوں نے اللہ کے احکام سے سرکشی اور رسولوں کو جھٹلایا یَصْلُوْنَ کے معنی ہیں یَدْخُلُونَ داخل ہوں گے۔

٥٧۔ یہ ہے پینے گرم پانی اور پیپ، اسے چکھو، گرم کھولتا ہو پانی، جو ان کی آنتوں کو کاٹ ڈالے گا، جہنمیوں کی کھالوں سے جو پیپ اور گندا لہو نکلے گا یا نہایت ٹھنڈا پانی، جس کا پینا نہایت مشکل ہو گا۔

٥٩۔ (۱)   جہنم کے دروازوں پر کھڑے فرشتے ائمۂ کفر اور پیشوایان ضلالت سے کہیں گے، جب پیروکار قسم کے کافر جہنم میں جائیں گے یا ائمہ کفر و ضلالت آپس میں یہ بات، پیروکاروں کی طرف اشارہ کر کے کہیں گے۔

٥٩۔ (۲)  یہ لیڈر، جہنم میں داخل ہونے والے کافروں کے لئے، فرشتوں کے جواب میں یا آپس میں کہیں گے رَحْبَۃکے معنی وسعت و فراخی کے ہیں۔

٦٠۔ یعنی تم ہی کفر و ضلالت کے راستے ہمارے سامنے مزین کر کے پیش کرتے تھے، یوں گویا اس عذاب جہنم کے پیش کار تم ہی ہو۔ یہ پیروکار، اپنے پیروی کرنے والوں سے کہیں گے۔

٦١۔ (۱)   یعنی جنہوں نے ہمیں کفر کی دعوت دی اور اسے حق و صواب باور کرایا۔ یا جنہوں نے ہمیں کفر کی طرف بلا کر ہمارے لئے یہ عذاب آگے بھیجا۔

٦١۔ (۲)  یہ وہی بات ہے جسے اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ الاعراف۔ ٣٨ سورہ الاحزاب۔٦٨۔

٦٢۔ اَ شْرَار سے مراد فقراء مومنین ہیں، جیسے عمار، جناب، بلال و سلیمان وغیرہم رضی اللہ عنہم، انہیں رؤسائے مکہ ازراہ خبث برے لوگ کہتے تھے اور اب بھی اہل باطل حق پر چلنے والوں کو بنیاد پرست، دہشت گرد، انتہا پسند وغیرہ القاب سے نوازتے ہیں۔

٦٣۔ (۱)   یعنی دنیا میں، جہاں ہم غلطی پر تھے ؟

٦٣۔ (۲)  یا وہ بھی ہمارے ساتھ ہی یہیں کہیں ہیں، ہماری نظریں انہیں نہیں دیکھ پا رہی ہیں۔

٦٤۔ یعنی آپس میں ان کی تکرار اور ایک دوسرے کو مورد طعن بنانا، ایک ایسی حقیقت ہے جس میں تکلف نہیں ہو گا۔

٦٧۔ یعنی میں تمہیں جس عذاب اخروی سے ڈرا رہا اور توحید کی دعوت دے رہا ہوں یہ بڑی خبر ہے، جس سے اعراض و غفلت نہ برتو، بلکہ اس پر توجہ دینے اور سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

٦٩۔ ملاء اعلیٰ سے مراد فرشتے ہیں، یعنی وہ کس بات پر بحث کر رہے ہیں ؟ میں نہیں جانتا۔ ممکن ہے، اس اختصام (بحث و تکرار) سے مراد وہ گفتگو ہو جو تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت ہوئی۔ جیسا کہ آگے اس کا ذکر آ رہا ہے۔

٧٠۔ یعنی میری ذمہ داری یہی ہے کہ میں وہ فرائض و پیغام تمہیں بتادوں جن کے اختیار کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے۔

٧١۔ (۱)   یہ قصہ اس سے قبل سورۃ بقرہ، سورہ اعراف، سورہ حجر، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف میں بیان ہو چکا ہے اب اسے یہاں بھی اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے۔

٧١۔ (۲)  یعنی ایک جسم، جنس بشر سے بنانے والا ہوں۔ انسان کو بشر، زمین سے اس کی مباشرت کی وجہ سے کہا۔ یعنی زمین سے ہی اس کی ساری وابستگی ہے اور وہ سب کچھ اسی زمین پر کرتا ہے۔ یا اس لئے کہ وہ بادی البشرۃ ہے۔ یعنی اس کا جسم یا چہرہ ظاہر ہے

٧٢۔ (۱)   یعنی اسے انسانی پیکر میں ڈھال لوں اور اس کے تمام اجزا درست اور برابر کر لوں۔

٧٢۔ (۲)  یعنی وہ روح، جس کا میں ہی مالک ہوں، میرے سوا اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا اور جس کے پھونکتے ہی یہ پیکر خاکی، زندگی، حرکت اور توانائی سے بہرہ یاب ہو جائے گا۔ انسان کے شرف و عظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس میں وہ روح پھونکی گئی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح قرار دیا ہے۔

٧٢۔ (۳) یہ سجدہ تحیہ یا سجدہ تعظیم ہے، سجدہ عبادت نہیں۔ یہ تعظیمی سجدہ پہلے جائز تھا، اسی لئے اللہ نے آدم علیہ السلام کے لئے فرشتوں کو اس کا حکم دیا۔ اب اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے (مشکوٰۃ، کتاب النکاح

٧٣۔ یہ انسان کا دوسرا شرف ہے کہ اسے مسجود ملائک بنایا۔ یعنی فرشتے جیسی مقدس مخلوق نے تعظیماً سجدہ کیا۔

٧٤۔ (۱)   اگر ابلیس کو صفات ملائکہ سے متصف مانا جائے تو یہ استثنا متصل ہو گا یعنی ابلیس اس حکم سجدہ میں داخل ہو گا بصورت دیگر یہ استثنا منقطع ہے یعنی وہ اس حکم میں داخل نہیں تھا لیکن آسمان پر رہنے کی وجہ سے اسے بھی حکم دیا گیا۔ مگر اس نے تکبر کی وجہ سے انکار کر دیا۔

٧٤۔ (۲)  یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت اور اس کی اطاعت سے استکبار کی وجہ سے وہ کافر ہو گیا۔ یا اللہ کے علم میں وہ کافر تھا۔

٧٥۔ یہ بھی انسان کے شرف و عظمت کے اظہار کے لئے فرمایا، ورنہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔

٧٦۔ یعنی شیطان نے یہ سمجھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ سب جواہر (ہم جنس یا قریب قریب ایک ہی درجے میں ) ہیں۔ اس میں سے کسی کو دوسرے پر شرف کسی عارض(خارجی سبب) ہی کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ عارض، آگ کے مقابلے میں، مٹی کے حصے میں آیا، کہ اللہ نے اسی سے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی اس لحاظ سے مٹی ہی کو آگ کے مقابلے میں شرف و عظمت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں آگ کا کام جلا کر خاکستر کر دینا، جب کہ مٹی اس کے برعکس انواع و اقسام کی پیداوار کا مأخذ ہے۔

٨٦۔ (۱)   یعنی اس دعوت و تبلیغ سے میرا مقصد صرف امر الٰہی ہے، دنیا کمانا نہیں۔

٨٦۔ (۲)  یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کر دوں جو اس نے نہ کہی ہو یا میں تمہیں ایسی بات کی طرف دعوت دوں جس کا حکم اللہ نے مجھے نہ دیا ہو بلکہ کوئی کمی بیشی کئے بغیر میں اللہ کے احکام تم تک پہنچا رہا ہوں۔

٨٧۔ یعنی یہ قرآن، وحی یا وہ دعوت، جو میں پیش کر رہا ہوں، دنیا بھر کے انسانوں اور جنات کے لئے نصیحت ہے۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنے کا قصد کرے۔

٨٨۔ یعنی قرآن نے جن چیزوں کو بیان کیا ہے، جو وعدے وعید ذکر کئے ہیں، ان کی حقیقت و صداقت بہت جلد تمہارے سامنے آ جائے گی۔ چنانچہ اس کی صداقت یوم بدر کو واضح ہوئی، فتح مکہ کے دن ہوئی یا پھر موت کے وقت تو سب پر ہی واضح ہو جاتی ہے۔