احسن البیان

سُوۡرَةُ القِیَامَة

١۔ میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں، قیامت کے دن کی قسم کھانے کا مقصد اس کی اہمیت اور عظمت کو واضح کرنا ہے۔

٢۔ یعنی بھلائی پر بھی کرتا ہے کہ زیادہ کیوں نہیں کی۔ اور برائی پر بھی، کہ اس سے باز کیوں نہیں آتا؟ دنیا میں بھی جن کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں ان کے نفس انہیں ملامت کرتے ہیں، تاہم آخرت میں تو سب کے ہی نفس ملامت کریں گے۔

٣۔ یہ جواب قسم ہے انسان سے مراد یہاں کافر اور بے دین انسان ہے جو قیامت کو نہیں مانتا۔ اس کا گمان غلط ہے، اللہ تعالیٰ یقیناً انسانوں کے اجزا کو جمع فرمائے گا یہاں ہڈیوں کا بطور خاص ذکر ہے، اس لیئے کہ ہڈیاں ہی پیدائش کا اصل ڈھانچہ اور قالب ہیں۔

٤۔ بَنَان(پور پور) جوڑوں، ناخن، لطیف رگوں اور باریک ہڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جب یہ باریک اور لطیف چیزیں ہم بالکل صحیح صحیح جوڑ دیں گے تو بڑے حصے کو جوڑ دینا ہمارے لئے کیا مشکل ہو گا

٥۔ یعنی اس امید پر نافرمانی اور حق کا انکار کرتا ہے کہ کون سی قیامت آنی ہے۔

٦۔ یہ سوال اس لئے نہیں کرتا کہ گناہوں سے تائب ہو جائے، بلکہ قیامت کو ناممکن الوقوع سمجھتے ہوئے پوچھتا ہے۔ اسی لیے فسق و فجور سے باز نہیں آتا۔ تاہم اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ قیامت کے آنے کا وقت بیان فرما رہے ہیں۔

٧۔ دہشت اور حیرانی سے جیسے موت کے وقت عام طور پر ہوتا ہے۔

٨۔ جب چاند کو گرہن لگ جاتا ہے تو اس وقت بھی وہ بے نور ہو جاتا ہے۔ لیکن جو علامات قیامت میں سے ہے، جب ہو گا تو اس کے بعد اس میں روشنی نہیں آئے گی۔

٩۔ یعنی بے نوری میں۔ مطلب ہے کہ چاند کی طرح سورج کی روشنی بھی ختم ہو جائے گی۔

١٠۔ یعنی جب یہ واقعات ظہور پذیر ہوں گے تو پھر اللہ سے یا جہنم کے عذاب سے راہ فرار ڈھونڈے گا، لیکن اس وقت راہ فرار کہاں ہو گی۔

١١۔ وَزَرَ پہاڑ یا قلعے کو کہتے ہیں جہاں انسان پناہ حاصل کر لے۔ وہاں ایسی کوئی پناہ گاہ نہیں ہو گی۔

١٢۔ جہاں وہ بندوں کے درمیان فیصلے فرمائے گا۔ یہ ممکن نہیں ہو گا کہ کوئی اللہ کی اس عدالت سے چھپ جائے

٣ ١۔ یعنی اس کے تمام اعمال سے آگاہ کیا جائے گا قدیم ہو یا جدید، اول ہو یا آخر چھوٹا ہو یا بڑا

١٤۔ یعنی اس کے اپنے ہاتھ، پاؤں، زبان اور دیگر اعضاء گواہی دیں گے، یا یہ مطلب ہے کہ انسان اپنے عیوب خود جانتا ہے۔

١٥۔ یعنی لڑے جھگڑے، ایک سے ایک بہانہ کرے، لیکن ایسا کرنا نہ اس کے لئے مفید ہے اور نہ وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتا ہے۔

١٦۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب وحی لے کر آتے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی ان کے ساتھ جلدی سے پڑھتے جاتے کہ کہیں کوئی لفظ بھول نہ جائے۔ اللہ نے اپنے فرشتے کے ساتھ ساتھ اس طرح پڑھنے سے منع فرمایا۔ صحیح بخاری

١٧۔ یعنی آپ کے سینے میں اس کا جمع کر دینا اور آپ کی زبان پر اس کی قرأت کو جاری کر دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ تاکہ اس کا کوئی حصہ آپ کی یادداشت سے نہ نکلے اور آپ کے ذہن سے محو نہ ہو۔

١٨۔ یعنی فرشتے کے ذریعے سے جب ہم اس کی قرأت آپ پوری کر لیں۔ یعنی اس کے شرائع و احکام لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ان کی پیروی بھی کریں۔

۱۹۔یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و  حرام کی توضیح یہ بھی ہمارے ذمے ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کے مجملات کی توضیح جو تخصیص بیان فرمائی ہے جسے حدیث کہا جاتا ہے یہ بھی اللہ کی طرف سے ہی الہام اور سمجھائی ہوئی باتیں ہیں اس لیے انہیں بھی قرآن کی طرح ماننا ضروری ہے۔

٢١۔ یعنی یوم قیامت کو جھٹلانا اور حق سے اعراض، اس لئے ہے کہ تم نے دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور آخرت تمہیں بالکل فراموش ہے۔

٢٣۔ یہ اہل ایمان کے چہرے ہوں گے جو اپنے حسن انجام کی وجہ سے مطمئن، مسرور اور منور ہوں گے۔ مزید دیدار الٰہی سے بھی لطف اندوز ہوں گی۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے۔

٢٤۔ یہ کافروں کے چہرے ہوں گے سیاہ اور بے رونق۔

۲۵۔ اور وہ یہی ہے کہ جہنم میں ان کو پھینک دیا جائے گا۔

٢٦۔ (۱) یعنی یہ ممکن نہیں کہ کافر قیامت پر ایمان لے آئیں۔

٢٦۔ (۲)  گردن کے قریب، سینے اور کندھے کے درمیان ایک ہڈی ہے، یعنی جب موت آئے گی آہنی پنجہ تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔

٢٧۔ یعنی حاضرین میں سے کوئی ہے جو جھاڑ پھونک کے ذریعہ سے تمہیں موت کے پنجے سے چھڑا لے۔ بعض نے اس کا ترجمہ یہ بھی کیا ہے کہ اس کی روح کون لے کر چڑھے گا ملائکہ رحمت یا ملائکہ عذاب؟ اس صورت میں یہ قول فرشتوں کا ہے۔

٢٨۔ یعنی وہ شخص یقین کر لے گا جس کی روح ہنسلی تک پہنچ گئی ہے کہ اب، مال، اولاد اور دنیا کی ہر چیز سے جدائی کا مرحلہ آگیا ہے۔

٢٩۔ اس سے یا تو موت کے وقت پنڈلی کا پنڈلی کے ساتھ مل جانا مراد ہے یا پے درپے تکلیفیں، بہت سے مفسرین نے دوسرے معنی کئے ہیں۔ (فتح القدیر)

٣١۔ یعنی اس انسان نے رسول اور قرآن کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی یعنی اللہ کی عبادت نہیں کی۔

٣٢۔ یعنی رسول کو جھٹلایا اور ایمان و اطاعت سے روگردانی کی۔

٣٣۔ یَتَمَطَّیٰ اتراتا اور اکڑتا ہوا۔

٣٥۔ یہ کلمہ وعید سے کہا جاتا ہے کہ اس کی اصل ہے، اللہ تجھے ایسی چیز سے دو چار کرے جسے تو ناپسند کرے۔

٣٦۔ یعنی اس کو کسی چیز کا حکم دیا جائے گا، نہ کسی چیز سے منع کیا جائے گا، نہ اس کا محاسبہ ہو گا۔ یا اس کی قبر میں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا جائے گا، وہاں سے اسے دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔

٣٨۔ فَسَوَّیٰ، یعنی اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور اس کی تکمیل کی اور اس میں روح پھونکی۔

٤٠۔ یعنی انسان کو اس طرح مختلف اطوار سے گزار کر پیدا فرماتا ہے کیا مرنے کے بعد دوبارہ اسے زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟