احسن البیان

سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء

١۔ (۱) وقت حساب سے مراد قیامت ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ اور وہ ہر چیز جو آنے والی ہے، قریب ہے۔ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے۔ علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانے کے لحاظ سے بھی قیامت قریب ہے کیونکہ جتنا زمانہ گزر چکا ہے۔ باقی رہ جانے والا زمانہ اس سے کم ہے۔

١۔ (۲)  یعنی اس کی تیاری سے غافل، دنیا کی زینتوں میں گم اور ایمان کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔

٢۔ یعنی قرآن جو وقتاً فوقتاً حسب حالات و ضروریات نیا نیا اترتا رہتا ہے، وہ اگرچہ انہی کی نصیحت کے لئے اترتا ہے، لیکن وہ اسے اس طرح سنتے ہیں جیسے وہ اس سے استہزاء مذاق اور کھیل کر رہے ہوں یعنی اس میں تدبر و غور و فکر نہیں کرتے۔

٣۔ یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو۔

٤۔ وہ تمام بندوں کی باتیں سنتا ہے اور سب کے اعمال سے واقف ہے، تم جو جھوٹ بکتے ہو، اسے سن رہا ہے اور میری سچائی کو اور جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں، اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔

٥۔ (۱) ان سرگوشی کرنے والے ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کہا کہ یہ قرآن تو پریشان خواب کی طرح حیران کن افکار کا مجموعہ، بلکہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے اور یہ قرآن کتاب ہدایت نہیں، شاعری ہے۔ یعنی کسی ایک بات پر ان کو قرار نہیں ہے۔ ہر روز ایک نیا پینترا بدلتے اور نئی سے نئی الزام تراشی کرتے ہیں۔

٥۔ (۲)  یعنی جس طرح ثمود کے لئے اونٹنی، موسیٰ علیہ السلام کے لئے عصا اور ید بیضا وغیرہ۔

 ٦۔ یعنی ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے ہلاک کیں، یہ نہیں ہوا کہ ان کی حسب خواہش معجزہ دکھلانے پر ایمان لے آئی ہوں، بلکہ معجزہ دیکھ لینے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائیں، جس کے نتیجے میں ہلاکت ان کا مقدر بنی تو کیا اگر اہل مکہ کو ان کی خواہش کے مطابق کوئی نشانی دکھلا دی جائے، تو وہ ایمان لے آئیں گے ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ بھی تکذیب و عناد کے راستے پر ہی بدستور گامزن رہیں گے۔

٧۔ (۱) یعنی تمام نبی مرد انسان تھے، نہ کوئی غیر انسان کبھی نبی آیا اور نہ غیر مرد، گویا نبوت انسانوں کے ساتھ اور انسانوں میں بھی مردوں کے ساتھ ہی خاص رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی عورت نبی نہیں بنی۔ اس لئے نبوت بھی ان کے فرائض میں سے ہے جو عورت کو طبعی اور فطری دائرہ عمل سے خارج ہے۔

٧۔ (۲)  اَ ھْلَ الذِّکْرِ (اہل علم) سے مراد اہل کتاب ہیں، جو سابقہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے، ان سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء جو ہو گزرے ہیں، وہ انسان تھے یا غیر انسان؟ وہ تمہیں بتلائیں گے کہ تمام انبیاء انسان ہی تھے۔

٨۔ بلکہ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور موت سے بھی ہم کنار ہو کر مسافر عالم بقاء بھی ہوئے، یہ انبیاء کی بشریت ہی کی دلیل دی جا رہی ہے۔

 ٩۔ یعنی وعدے کے مطابق نبیوں کو اور اہل ایمان کو نجات عطا کی اور حد سے تجاوز کرنے والے یعنی کفار و مشرکین کو ہم نے ہلاک کر دیا۔

١١۔ قَصَمَ کے معنی ہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دینا۔ یعنی کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا، توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' قوم نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی بستیاں ہلاک کر دیں (سورہ بنی اسرائیل)

١٢۔ احساس کے معنی ہیں، حواس کے ذریعے سے ادراک کر لینا۔ یعنی جب انہوں نے عذاب یا اس کے آثار کو آتے دیکھا یا کڑک گرج کی آواز سن کر معلوم کر لیا، تو اس سے بچنے کے لئے راہ فرار ڈھونڈنے لگے۔ رکض کے معنی ہوتے ہیں آدمی گھوڑے وغیرہ پر بیٹھ کر اس کو دوڑانے کے لیے ایڑ لگائے یہیں سے یہ بھاگنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

١٣۔ (۱) یہ فرشتوں نے ندا دی یا مومنوں نے استہزاء کے طور پر کہا۔

١٣۔ (۲)  یعنی جو نعمتیں اور آسائشیں تمہیں حاصل تھیں جو تمہارے کفر اور سرکشی کا باعث تھیں اور وہ مکانات جن میں تم رہتے تھے اور جن کی خوبصورتی اور پائیداری پر فخر کرتے تھے ان کی طرف پلٹو۔

١٣۔ (۳) اور عذاب کے بعد تمہارا حال احوال تو پوچھ لیا جائے کہ تم پر یہ کیا بیتی، کس طرح بیتی اور کیوں بیتی؟ یہ سوال بطور خیال اور مذاق کے ہے، ورنہ ہلاکت کے شکنجے میں کسے جانے کے بعد وہ جواب دینے کی پوزیشن میں ہی کب رہتے تھے ؟

١٥۔ (۱) یعنی جب تک زندگی کے آثار ان کے اندر رہے، وہ اعتراف ظلم کرتے رہے۔

١٥۔ (۲)  حَصِیْد کٹی ہوئی کھیتی کو اور خُمُوْد آگ کے بج جانے کو کہتے ہیں۔ یعنی بالآخر وہ کٹی ہوئی کھیتی اور بھجی ہوئی آگ کی طرح راکھ کا ڈھیر ہو گئے، کوئی تاب و توانائی اور حس و حرکت ان کے اندر نہ رہی۔

١٦۔ بلکہ اس کے کئی مقاصد اور حکمتیں ہیں، مثلاً بندے میرا ذکر و شکر کریں، نیکوں کو نیکیوں کی جزا اور بدوں کو بدیوں کی سزا دی جائے۔ وغیرہ۔

١٧۔ (۱)  یعنی اپنے پاس سے ہی کچھ چیزیں کھیل کے لئے بنا لیتے اور اپنا شوق پورا کر لیتے۔ اتنی لمبی چوڑی کائنات بنانے کی اور پھر میں ذی روح اور ذی شعور مخلوق بنانے کی کیا ضرورت تھی؟

١٧۔ (۲)  ' اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے ' عربی اسلوب کے اعتبار سے یہ زیادہ ہے بہ نسبت اس ترجمہ کے کہ ' ہم کرنے والے ہی نہیں ' صحیح ہے (فتح القدیر)

١٨۔(۱)  یعنی تخلیق کائنات کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ یہاں حق و باطل کی جو معرکہ آرائی اور خیرو شر کے درمیان جو تصادم ہے، اس میں ہم حق اور خیر کو غالب اور باطل اور شر کو مغلوب کریں چنانچہ ہم حق کو باطل پر یا سچ کو جھوٹ پر یا خیر کو شر پر مارتے ہیں، جس سے باطل، جھوٹ اور شر کا بھیجہ نکل جاتا ہے اور چشم زدن میں وہ نابود ہو جاتا ہے۔

١٨۔ (۲)  یعنی رب کی طرف سے تم جو بے سرو پا باتیں منسوب کرتے یا اس کی بابت باور کراتے ہو، (مثلاً یہ کائنات ایک کھیل ہے، ایک کھلنڈرے کا شوق فضول ہے وغیرہ) یہ تمہاری ہلاکت کا باعث ہے۔ کیونکہ اسے کھیل تماشہ سمجھنے کی وجہ سے تم حق سے گریز اور باطل کو اختیار کرنے میں کوئی تامل اور خوف محسوس نہیں کرتے، جس کا نتیجہ بالآخر تمہاری بربادی اور ہلاکت ہی ہے۔

١٩۔ (۱) سب اسی کی ملک اور اسی کے غلام ہیں، پھر جب تم کسی غلام کو اپنا بیٹا اور کسی لونڈی کو بیوی بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے مملوکین اور غلاموں میں سے بعض کو بیٹا اور بعض کو بیوی کس طرح بنا سکتا ہے ؟

١٩۔ (۲)  اس سے مراد فرشتے ہیں، وہ بھی اس کے غلام اور بندے ہیں، ان الفاظ سے ان کا شرف و اکرام بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اس کی بارگاہ کے مقربین ہیں۔ اس کی بیٹیاں نہیں ہیں جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔

٢١۔ استفہام انکاری ہے یعنی نہیں کر سکتے۔ پھر وہ ان کو جو کسی چیز کی قدرت نہیں رکھتے، اللہ کا شریک کیوں ٹھہراتے اور ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں ؟

٢٢۔ یعنی اگر واقع آسمان و زمین میں دو معبود ہوتے تو کائنات میں تصرف کرنے والی دو ہستیاں ہوتیں، دو کا ارادہ و شعور اور مرضی کار فرما ہوتی اور جب دو ہستیوں کا ارادہ اور فیصلہ کائنات میں چلتا تو یہ نظمِ کائنات اس طرح قائم رہ ہی نہیں سکتا تھا جو ابتدائے آفرینش سے، بغیر کسی ادنیٰ توقف کے قائم چلا آ رہا ہے۔ کیونکہ دونوں کا ارادہ ایک دوسرے سے ٹکراتا۔ دونوں کی مرضی کا آپس میں تصادم ہوتا، دونوں کے اختیارات ایک دوسرے کے مخالف سمت میں استعمال ہوتے۔ جس کا نتیجہ ابتری اور فساد کی صورت میں رونما ہوتا اور اب تک ایسا نہیں ہوا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کا ارادہ و مشیت کار فرما ہے جو کچھ بھی ہوتا ہے صرف اور صرف اسی کے حکم پر ہوتا ہے اس کے دئیے ہوئے کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے وہ اپنی رحمت روک لے اس کو دینے والا کوئی نہیں۔

٢٤۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اور اس سے قبل کی دیگر کتابوں میں سب میں صرف ایک ہی معبود کی الوہیت و ربوبیت کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن مشرکین اس حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور بدستور اس توحید سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

٢٥۔ یعنی تمام پیغمبر بھی یہی توحید کا پیغام لے کر آئے۔

٢٧۔ اس میں مشرکین کا کہنا ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ فرمایا وہ بیٹیاں نہیں، اس کے ذی عزت بندے اور اس کے فرما بردار ہیں۔ علاوہ ازیں بیٹے، بیٹیوں کی ضرورت، اس وقت پڑتی ہے۔ جب عالم پیری میں ضعف و بڑھاپا، ایسے عوارض ہیں جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ اس لئے اسے اولاد کی یا کسی سہارے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔

٢٨۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء صالحین کے علاوہ فرشتے بھی سفارش کریں گے۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، لیکن یہ سفارش انہی کے حق میں ہو گی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔ اور ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سفارش اپنے نافرمان بندوں کے لئے نہیں، صرف گناہ گار مگر فرماں بردار بندوں یعنی اہل ایمان و توحید کے لئے پسند فرمائے گا۔

٢٩۔ یعنی ان فرشتوں میں سے بھی اگر کوئی اللہ ہونے کا دعویٰ کر دے تو ہم اسے بھی جہنم میں پھینک دیں گے۔ یہ شرطیہ کلام ہے، جس کا وقوع ضروری نہیں۔ مقصد، شرک کی تردید اور توحید کا اثبات ہے۔ جیسے (قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَ لَد فَانَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ) ' اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں سے ہوں گا ' (لَئِنْ اَشْرَکْت لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ) (الزمر،٦٥) ' اے پیغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے عمل برباد ہو جائیں گے ' یہ سب مشروط ہیں جن کا وقوع غیر ضروری ہے۔

٣٠۔ (۱) یعنی آسمان و زمین، ابتدائے امر ہیں، باہم ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے۔ ہم نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا، آسمانوں کو اوپر کر دیا جس سے بارش برستی ہے اور زمین کو اپنی جگہ پر رہنے دیا، تاہم وہ پیداوار کے قابل ہو گئی۔

٣٠۔ (۲)  اس سے مراد اگر بارش اور چشموں کا پانی ہے، تب بھی واضح ہے کہ اس کی روئیدگی ہوتی ہے اور ہر ذی روح کو حیات نو ملتی ہے اور اگر مراد نطفہ ہے، تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ ہر زندہ چیز کے وجود کے باعث وہ قطرہ آب ہے جو نر کی پیٹھ کی ہڈیوں سے نکلتا اور مادہ کے رحم میں جا کر قرار پکڑتا ہے۔

٣١۔ یعنی اگر زمین پر یہ بڑے بڑے پہاڑ نہ ہوتے تو زمین جنبش اور لرزش ہوتی رہتی، جس کی وجہ سے انسانوں اور حیوانوں کے لئے زمین مسکن اور مستقر بننے کی صلاحیت سے محروم رہتی۔ ہم نے پہاڑوں کا بوجھ اس پر ڈال کر اسے ڈانوا ڈول ہونے سے محفوظ کر دیا۔

٣١۔ (۲)  اس سے مراد زمین یا پہاڑ ہیں، یعنی زمین میں کشادہ راستے بنا دیئے یا پہاڑوں میں درے رکھ دیئے، جس سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آنا جانا آسان ہو گیا، دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے اپنی معاش کے مصالح و مفادات حاصل کر سکیں۔

٣٢۔ زمین کے لئے محفوظ چھت، جس طرح خیمے اور قبے کی چھت ہوتی ہے یا اس معنی میں محفوظ کہ ان کو زمین پر گرنے سے روک رکھا ہے، ورنہ آسمان زمین پر گر پڑیں تو زمین کا سارا نظام تہ وبالا ہو سکتا ہے۔ یا شیاطین سے محفوظ جیسے فرمایا (وَ حَفِظْنٰہَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنِ الرَّجِیْمٍ) (الحجر۔١٧)

٣٣۔ (۱) یعنی رات کو آرام اور دن کو معاش کے لئے بنایا، سورج کو دن کی نشانی چاند کو رات کی نشانی بنایا، تاکہ مہینوں اور سالوں کا حساب کیا جا سکے، جو انسان کی اہم ضروریات میں سے ہے۔

٣٣۔ (۲)  جس طرح پیراک سطح آب پر تیرتا ہے، اسی طرح چاند اور سورج اپنے اپنے مدار پر تیرتے یعنی رواں دواں رہتے ہیں۔

٣٤۔ یہ کفار کے جواب میں، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بابت کہتے تھے کہ ایک دن اسے مر ہی جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موت تو ہر انسان کو آنی ہے اور اس اصول سے یقیناً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی مستثنیٰ نہیں۔ کیونکہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور ہم نے انسان کے لئے بھی دوام اور ہمیشگی نہیں رکھی ہے۔ لیکن کیا بات کہنے والے خود نہیں مریں گے۔؟ اس سے صنم پرستوں کی بھی تردید ہو گئی جو دیوتاؤں کی اور انبیاء و اولیاء کی زندگی کے قائل ہیں اور اسی بنیاد پر ان کو حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہیں فنعوذ باللہ من ھذہ العقیدۃ الفاسدۃ التی تعارض القرآن۔

٣٥۔ (۱) یعنی کبھی مصائب و رنج و غم سے دو چار کر کے اور کبھی دنیا کے وسائل فراواں سے بہرہ ور کر کے۔ کبھی صحت و فراخی کے ذریعے سے اور کبھی تنگی و بیماری کے ذریعے سے، کبھی تونگری دیکر اور کبھی فقر و فاقہ میں مبتلا کر کے ہم آزماتے ہیں۔ تاکہ ہم دیکھیں کہ شکر گزاری کون کرتا ہے اور ناشکری کون؟ صبر کون کرتا ہے اور نا صبری کون؟ شکر اور صبر، یہ رضائے الٰہی کا اور کفران نعمت اور نا صبری غضب الٰہی کا موجب ہے۔

٣٥۔ (۲)  وہاں تمہارے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دیں گے۔ اول الذکر لوگوں کے لئے بھلائی اور دوسروں کے لئے برائی۔

٣٦۔  اس کے باوجود یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہنسی و مذاق اڑاتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَاِ ذ رَ اَوْ اِنْ یَّتَّخِذُ وْنَکَ اِلَّا حُذُ وً اا ھٰذَا لَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلاً) جب اے پیغمبر! یہ کفار مکہ تجھے دیکھتے ہیں تو تیرا مذاق اڑانے لگ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا؟

٣٧۔ یہ کفار کے متعلق عذاب کے جواب میں ہے کہ چونکہ انسان کی فطرت میں عجلت اور جلد بازی ہے اس لئے وہ پیغمبروں سے بھی جلدی مطالبہ کرنے لگ جاتا ہے کہ اپنے اللہ سے کہہ کہ ہم پر فوراً عذاب نازل کروا دے۔ اللہ نے فرمایا جلدی مت کرو، میں عنقریب اپنی نشانیاں تمہیں دکھاؤں گا۔ ان نشانیوں سے مراد عذاب بھی ہو سکتا ہے اور صداقت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دلائل و براہین بھی۔

٣٩۔ اس کا جواب علیحدہ ہے، یعنی اگر یہ جان لیتے تو پھر عذاب کا جلدی مطالبہ نہ کرتے یا یقیناً جان لیتے کہ قیامت آنے والی ہے یا کفر پر قائم نہ رہتے بلکہ ایمان لے آتے۔

٤٠۔ (۱) یعنی انہیں کچھ سجھائی نہ نہیں دے گا کہ وہ کیا کریں ؟

٤٠۔ (۲)  کہ وہ توبہ و اعتذار کا اہتمام کر لیں۔

٤١۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مشرکین کے مذاق اور جھٹلانے سے بد دل نہ ہوں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، تجھ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا، بالآخر وہی عذاب ان پر الٹ پڑا، یعنی اس نے انہیں گھیر لیا، جس کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور جس کا وقوع ان کے نزدیک ابھی مستبعد تھا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ولقد کذبت رسل من قبلک فصبرواعلی ماکذبوا واوذوا حتی اتھم نصرنا (انعام) تجھ سے پہلے بھی رسول جھٹلائے گئے پس انہوں نے تکذیب پر اور ان تکلیفوں پر جو انہیں دی گئیں صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آ گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تسلی کے ساتھ کفار و مشرکین کے لیے اس میں تہدید و وعید بھی ہے۔

٤٢۔ یعنی تمہارے جو کرتوت ہیں، وہ تو ایسے ہیں کہ دن یا رات کی کسی گھڑی میں تم پر عذاب آ سکتا ہے ؟ اس عذاب سے دن اور رات تمہاری کون حفاطت کرتا ہے ؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی اور ہے جو عذاب الٰہی سے تمہاری حفاظت کر سکے ؟

٤٣۔ اس معنی ہیں ' وَلَا ھُمْ یَجْارُوْنَ مِنْ عَذَابِنَا ' نہ وہ ہمارے عذاب سے ہی محفوظ ہیں، یعنی وہ خود اپنی مدد پر اور اللہ کے عذاب سے بچنے پر قادر نہیں ہیں، پھر ان کی طرف سے ان کی مدد کیا ہوئی ہے اور وہ انہیں عذاب سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟

٤٤۔ (۱) یعنی ان کی یا ان کے آبا و اجداد، کی زندگیاں اگر عیش و راحت میں گزر گئیں تو کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں ؟ اور آئندہ بھی انہیں کچھ نہیں ہو گا؟ نہیں بلکہ یہ چند روزہ زندگی کا آرام تو ہمارے اصول مہلت کا ایک حصہ ہے، اس سے کسی کو دھوکا اور فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔

٤٤۔ (۲)  یعنی زمین کفر بتدریج گھٹ رہی ہے اور دولت اسلام وسعت پذیر ہے۔ کفر کے پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے اور اسلام کا غلبہ بڑھ رہا ہے اور مسلمان علاقے پر علاقہ فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔

٤٤۔ (۳) یعنی کفر کو سمٹتا اور اسلام کو بڑھتا ہوا دیکھ کر بھی، کیا وہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غالب ہیں ؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی وہ غالب نہیں، مغلوب ہیں، فاتح نہیں، مفتوح ہیں، معزز و سر فراز نہیں، ذلت اور خواری ان کا مقدر ہے۔

٤٥۔ یعنی قرآن سنا کر انہیں وعظ و نصیحت کر رہا ہوں اور یہی میری ذمہ داری ہے اور منصب ہے۔ لیکن جن لوگوں کے کانوں کو اللہ نے حق کے سننے سے بہرا کر دیا، آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور دلوں پر مہر لگا دی، ان پر اس قرآن کا اور وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

٤٦۔ یعنی عذاب کا ایک ہلکا سا چھٹا اور تھوڑا حصہ بھی پہنچے گا تو پکار اٹھیں گے اور اعتراف جرم کرنے لگ جائیں گے۔

٤٧۔ ‏موازین، میزان (ترازو) کی جمع ہے وزن اعمال کے لئے قیامت والے دن یا تو کئی ترازو ہوں گے یا ترازو تو ایک ہی ہو گی انسان کے اعمال تو بے وزن ہیں یعنی ان کا کوئی ظاہری وجود یا جسم تو ہے نہیں پھر وزن کس طرح ہو گا؟ یہ سوال آج سے قبل تک شاید کوئی اہمیت رکھتا ہو۔ لیکن آج سائنسی ایجادات نے اسے ممکن بنا دیا ہے۔ اب ان ایجادات کے ذریعے سے بے وزن چیزوں کا وزن بھی تولا جانے لگا ہے۔ جب انسان اس بات پر قادر ہو گیا ہے، تو اللہ کے لئے ان اعمال کا، جو بے وزن کو دکھلانے کے لئے ان بے وزن اعمال کو وہ اجسام میں بدل دے گا اور پھر وزن کرے، جیسا کہ حدیث میں بعض اعمالوں کے مجسم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً صاحب قرآن کے لئے ایک خوش شکل نوجوان کی شکل میں آئے گا۔ اور پوچھے گا، تو کون ہے ؟ وہ کہے گا میں قرآن ہوں جسے تو راتوں کو (قیام اللیل) بیدار رہ کر اور دن کو پیاسا رہ کر پڑھا کرتا تھا، اسی طرح مومن کی قبر میں عمل صالح ایک خوش رنگ اور معطر نوجوان کی شکل میں آئے گا اور کافر اور منافق کے پاس اس کی برعکس شکل میں (مسند احمد ٥۔ (۲) ٨٧)۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ الاعراف ۷ کا حاشیہ القسط مصدر اور الموازین کی صفت ہے معنی ہیں ذوات قسط انصاف کرنے والی ترازو یا ترازوئیں

٤٨۔ یہ تورات کی صفات بیان کی گئی ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ اس میں بھی متقین کے لئے ہی نصیحت تھی۔ جیسے قرآن کریم کو بھی (ھُدَی لِّلْمُتَّقِیْنَ) کہا گیا، کیونکہ جن کے دلوں میں اللہ کا تقویٰ نہیں ہوتا، وہ اللہ کی کتاب کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے، تو آسمانی کتاب ان کیلئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ کس طرح بنے، نصیحت یا ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے اور اس میں غور و فکر کیا جائے۔

٤٩۔ یہ متقین کی صفات ہیں، جیسے سورہ بقرہ کے آغاز میں اور دیگر مقامات پر بھی متقین کی صفات کا تذکرہ ہے۔

٥٠۔ یہ قرآن، جو یاد دہانی حاصل کرنے والے کے لئے ذکر اور نصیحت اور خیر و برکت کا حامل ہے، اسے بھی ہم نے ہی اتارا ہے۔ تم اس کے مُنَزَّل مِّنَ اللّٰہِ ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو، جب کہ تمہیں اعتراف ہے کہ تورات اللہ کی طرف سے ہی نازل کردہ کتاب ہے۔

٥١۔ (۱) مِنْ قَبْلُ سے مراد تو یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو رشد و ہدایت (یا ہوشمندی) دینے کا واقع، موسیٰ علیہ السلام کو ابتدائے تورات سے پہلے کا ہے یہ مطلب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو نبوت سے پہلے ہی ہوش مندی عطا کر دی تھی۔

٥١۔ (۲)  یعنی ہم جانتے تھے کہ وہ اس رشد کا اہل ہے اور وہ اس کا صحیح استعمال کرے گا۔

٥٢۔ تَمَاثِیْل، تِمْثَالُ کی جمع ہے۔ یہ اصل میں کسی چیز کی ہو بہو نقل کو کہتے ہیں۔ جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار پر کسی کی تصویر۔ یہاں مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم علیہ السلام نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے عاکف۔ عکوف سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جھک کر جم کر بیٹھ رہنے کے ہیں۔ اسی سے اعتکاف ہے جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لیے جم کر بیٹھتا ہے اور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لو لگاتا ہے یہاں اس سے مراد بتوں کی تعظیم و عبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تمثالیں (مورتیاں اور تصویریں ) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آجکل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ عطا فرمائے۔جس طرح آج بھی جہالت و خرافات میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو بدعات و رسومات جاہلیہ سے روکا جائے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کس طرح چھوڑیں جب کہ ہمارے آباء و اجداد بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں اور یہی جواب وہ حضرات دیتے ہیں جو نصوص کتاب و سنت سے اعراض کر کے علماء و مشائخ کے آراء و افکار سے چمٹے رہنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔

٥٥۔ یہ اس لئے کہا کہ انہوں نے اس سے قبل توحید کی آواز ہی نہیں سنی تھی انہوں نے سوچا، پتہ نہیں، ابراہیم علیہ السلام ہمارے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہا ہے۔

٥٦۔ یعنی میں مذاق نہیں کر رہا، بلکہ ایک ایسی چیز پیش کر رہا ہوں جس کا علم و یقین (مشاہدہ) مجھے حاصل ہے اور وہ یہ کہ تمہارا معبود مورتیاں نہیں، بلکہ وہ رب ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک اور ان کا پیدا کرنے والا ہے۔

٥٧۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل میں عزم کیا، بعض کہتے ہیں کہ آہستہ سے کہا جس سے مقصود بعض لوگوں کو سنانا تھا۔ مراد یہی وہ عملی کوشش ہے جو وہ زبانی وعظ کے بعد عملی اہتمام کی شکل میں کرنا چاہتے تھے۔ یعنی بتوں کی توڑ پھوڑ۔

٥٨۔ چنانچہ وہ جس دن اپنی عید یا کوئی جشن مناتے تھے، ساری قوم اس کے لئے باہر چلی گئی اور ابراہیم علیہ السلام نے موقع غنیمت جان کر انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا صرف ایک بڑا بت چھوڑ دیا، بعض کہتے ہیں کہ کلہاڑی اس کے ہاتھ میں پکڑا دی تاکہ وہ اس سے پوچھیں۔

٥٩۔ یعنی جب وہ جشن سے فارغ ہو کر آئے تو دیکھا کہ معبود تو ٹوٹے پڑے ہیں، تو کہنے لگے، یہ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہے جس نے یہ حرکت کی ہے۔

٦٠۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ نوجوان ابراہیم (علیہ السلام) ہے نا، وہ ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے یہ اس کی کارستانی ہے۔

٦١۔ یعنی اس کو سزا ملتی ہوئی دیکھیں تاکہ آئندہ کوئی اور یہ کام نہ کرے۔ یا یہ معنی ہیں کہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو بت توڑتے ہوئے دیکھا یا ان کے خلاف باتیں کرتے ہوئے سنا ہے۔

٦٣۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجمع عام میں لایا گیا اور ان سے پوچھا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہے، اگر یہ (ٹوٹے ہوئے بت) بول کر بتلا سکتے ہیں تو ذرا ان سے پوچھو تو سہی۔ یہ بطور اپنے مطلب کے بات کی یا انہوں نے کہا تاکہ وہ یہ بات جان لیں کہ جو نہ بول سکتا ہو نہ کسی چیز سے آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ معبود نہیں ہو سکتا۔ نہ اس پر الہ کا اطلاق ہی صحیح ہے ایک حدیث صحیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول بل فعلہ کبیرھم کو لفظ کذب سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے دو اللہ کے لیے ایک (انی سقیم) اور دوسرا یہی اور تیسرا حضرت سارہ اپنی بیوی کو بہن کہنا (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب واتخذاللہ ابراہیم خلیلا) زمانہ حال کے بعض مفسرین نے اس حدیث صحیح کو قرآن کے خلاف باور کر کے اس کا انکار کر دیا ہے اور اس کی صحت پر اصرار غلو اور روایت پرستی قرار دیا ہے لیکن ان کی یہ رائے صحیح نہیں یقیناً حقیقت کے اعتبار سے انہیں جھوٹ نہیں کہا جا سکتا لیکن ظاہری شکل کے لحاظ سے ان کو کذب سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا ہے گو یہ کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں درآنحالیکہ کوئی گناہ کا کام اللہ کے لیے نہیں ہو سکتا اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے عصی اور غوی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں حالانکہ خود قرآن میں ہی ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہو سکتے ہیں من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ظاہری قباحت کا پہلو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا لیکن اس کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا لیکن چونکہ مقصد ان کا تعریض اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بے عقلی کے اثبات و اظہار کا ایک انداز کہیں گے علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ ہے میدان محشر میں اللہ کے روبرو جا کر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے در آں حالیکہ وہ لغزشیں نہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار وہ جھوٹ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کی عظمت و جلا کی وجہ سے اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہو گی۔

٦٤۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جواب سے وہ سوچ میں پڑ گئے اور ایک دوسرے کو لاجواب ہو کر، کہنے لگے، واقع ظالم تو تم ہی ہو، جو اپنی جان کو بچانے پر اور نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ پکڑنے پر قادر نہیں وہ مستحق عبادت کیوں کر ہو سکتا ہے ؟ بعض نے یہ مفہوم بیان کیا کہ معبودوں کی عدم حفاظت پر ایک دوسرے کو ملامت کی اور ترک حفاظت پر ایک دوسرے کا ظالم کہا۔

٦٥۔ پھر اے ابراہیم (علیہ السلام) تو ہمیں یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ ان سے پوچھو اگر یہ بول سکتے ہیں، جب کہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بولنے کی طاقت سے محروم ہیں۔

٦٧۔ یعنی جب وہ خود ان کی بے بسی کے اعتراف پر مجبور ہو گئے تو پھر ان کی بے عقلی پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کو چھوڑ کر ایسے بے بسوں کی تم عبادت کرتے ہو؟

٦٨۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یوں اپنی حجت تمام کر دی اور ان کی ضلالت و حماقت کو ایسے طریقے سے ان پر واضح کر دیا کہ وہ لاجواب ہو گئے۔ تو چونکہ وہ توفیق ہدایت سے محروم تھے اور کفر و شرک نے ان کے دلوں کو بے نور کر دیا تھا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے بعض آ جاتے، الٹا ابراہیم علیہ السلام کے خلاف سخت اقدام کرنے پر آمادہ ہو گئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انہیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کر دی، چنانچہ آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا جاتا ہے کہ منجیق (جس سے بڑے پتھر پھینکے جاتے ہیں ) کے ذریعے سے پھینکا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بن جا علماء کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ، ٹھنڈی کے ساتھ ' سلامتی ' نہ فرماتا تو اس کی ٹھنڈک ابراہیم علیہ السلام کے لئے ناقابل برداشت ہوتی۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دہکتی آگ کے گل و گلزار بن جانے کی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اللہ کی مشیت سے ظاہر ہوا۔ اس طرح اللہ نے اپنے بندے کو دشمنوں کی سازش سے بچا لیا۔

٧١۔ اس سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک ملک شام ہے۔ جسے شادابی اور پھلوں اور نہروں کی کثرت نیز انبیاء علیہم السلام کا مسکن ہونے کے لحاظ سے بابرکت کہا گیا ہے۔

٧٢۔ نَافِلَۃ، زائد کو کہتے ہیں، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو صرف بیٹے کے لئے دعا کی تھی، ہم نے بغیر دعا مزید پوتا بھی عطا کر دیا۔

٧٥۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے برادر زاد (بھتیجے ) تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے والے اور ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کر کے شام جانے والوں میں سے تھے۔ اللہ نے ان کو بھی علم و حکمت یعنی نبوت سے نوازا۔ یہ جس علاقے میں نبی بنا کر بھیجے گئے، اسے عمورہ اور سدوم کہا جاتا ہے۔ یہ فلسطین کے بحیرہ مردار سے متصل بجانب اردن ایک شاداب علاقہ تھا۔ جس کا بڑا حصہ اب بحیرہ مردار کا جزو ہے۔ ان کی قوم لواطت جیسے فعل شفیع، گزر گاہوں پر بیٹھ کر آنے جانے والوں پر آوازے کسنا اور انہیں تنگ کرنا روڑے ریزے پھینکنا وغیرہ میں ممتاز تھی، جسے اللہ نے یہاں خبائث (پلید کاموں ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ بالآخر حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی رحمت میں داخل کر کے یعنی انہیں اور ان کے پیرو کار کو بچا کر قوم کو تباہ کر دیا گیا۔

٧٩۔ (۱) مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں، دوسرے شخص کے کھیت میں رات کو جا گھسیں اور اس کی کھیتی چر چگ گئیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے جو پیغمبر کے ساتھ حکمران بھی تھے فیصلہ دیا کہ بکریاں، کھیت والا لے لے تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہو جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کچھ عرصے کے لئے کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں، وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیتی بکری والے کے سپرد کر دی جائے تاکہ وہ کھیتی کی آب پاشی اور دیکھ بھال کر کے، اسے صحیح کرے، جب وہ اس حالت میں آ جائے جو بکریوں چرنے سے پہلے تھی تو کھیتی، کھیتی والے کو اور بکریاں، بکری والے کو واپس کر دی جائیں۔ پہلے فیصلے کے مقابل میں دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اس میں کسی کو بھی اپنی چیز سے محروم ہونا نہیں پڑا۔ جب کہ پہلے فیصلے میں بکری والے اپنی بکریوں سے محروم کر دیئے گئے تھے۔ تاہم اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی بھی تعریف کی اور فرمایا کہ ہم نے ہر ایک کو (یعنی داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام دونوں کو) علم و حکمت سے نوازا تھا۔ بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ کسی ایک معاملے میں دو الگ الگ (متضاد) فیصلہ کرنے والے دو منصف، بیک وقت دونوں مصنفین ہو سکتے، ان میں ضرور ایک مصیب (درست فیصلہ کرنے والا) ہو گا اور دوسرا غلطی کر کے غلط فیصلہ کرنے والا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ غلطی سے غلط فیصلہ کرنے سے گناہ گار نہیں ہو گا، بلکہ اسے ایک اجر ملے گا۔ کما فی الحدیث (فتح القدیر)۔

٧٩۔ (۲)  اس سے مراد یہ نہیں کہ پہاڑ ان کی تسبیح کی آواز سے گونج اٹھتے تھے (کیونکہ اس میں تو کوئی اعجاز ہی باقی نہیں رہتا)

٧٩۔ (۳) یعنی پرندے بھی داؤد علیہ السلام کی سوز آواز سن کر اللہ کی تسبیح کرنے لگتے، مطلب یہ ہے کہ پرندے بھی داؤد علیہ السلام کے لئے مسخر کر دیئے گئے تھے (فتح القدیر)

٧٩۔ (۳) یعنی یہ تفہیم، ابتائے حکم اور تسخی، ان سب کے کرنے والے ہم ہی تھے، اس لئے ان میں کسی کو تعجب کرنے کی یا انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔

٨٠۔ یعنی لوہے کو ہم نے داؤد علیہ السلام کے لئے نرم کر دیا تھا، وہ اس سے جنگی لباس، لوہے کی زریں تیار کرتے تھے، جو جنگ میں تمہاری حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام سے پہلے بھی زریں بنتی تھیں۔ لیکن وہ سادہ بغیر کنڈوں اور بغیر حلقوں کے ہوتی تھیں، حضرت داؤد علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے کنڈے دار حلقے والی زریں بنائیں (ابن کثیر)

٨١۔ یعنی جس طرح پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے مسخر کر دیئے تھے، اسی طرح ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے وزرا سلطنت سمیت تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور جہاں چاہتے، مہینوں کی مسافت، لمحوں اور ساعتوں میں طے کر کے وہاں پہنچ جاتے، ہوا آپ کے تخت کو اڑا کر لے جاتی۔ بابرکت زمین سے مراد شام کا علاقہ ہے۔

٨٢۔(۱)  جنات بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع تھے جو ان کے حکم سے سمندروں میں غوتے لگاتے اور موتی اور جواہر نکال لاتے، اسی طرح دیگر عمارتی کام، جو آپ چاہتے کرتے تھے۔

٨٢۔ (۲)  یعنی جنوں کے اندر جو سرکشی اور فساد کا مادہ ہے، اس سے ہم نے سلیمان علیہ السلام کی حفاظت کی اور وہ ان کے آگے سرتابی کی مجال نہیں رکھتے تھے۔

٨٤۔ قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کو صابر کہا گیا ہے، (سورہ ص۔ ٤٤) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں سخت آزمائشوں میں ڈالا گیا جن میں انہوں نے صبر شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ آزمائش اور تکلیفیں کیا تھیں، اس کی مستند تفصیل تو نہیں ملتی، تاہم قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مال و دولت دنیا اور اولاد وغیرہ سے نوازا ہوا تھا، بطور آزمائش اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ سب نعمتیں چھین لیں، حتیٰ کہ جسمانی صحت سے بھی محروم اور بیماریوں میں گھر کر رہ گئے۔ بالآخر کہا جاتا ہے کہ ٨ا سال کی آزمائشوں کے بعد بارگاہ الٰہی میں دعا کی، اللہ نے دعا قبول فرمائی اور صحت کے ساتھ مال و اولاد، پہلے سے دوگنا عطا فرمائے۔ اس کی کچھ تفصیل صحیح ابن حبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ملتی ہے، جس کا اظہار حضرت ایوب علیہ السلام نے کبھی نہیں کیا۔ البتہ دعا صبر کے منافی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ' ہم نے قبول کر لی 'کے الفاظ استعمال فرمائے۔

٨٥۔ ذوالکفل کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں ؟ بعض نے ان کی نبوت کے اور بعض ولایت کے قائل ہیں۔ امام ابن جریر نے ان کی بابت توقف اختیار کیا ہے، امام ابن کثیر فرماتے ہیں، قرآن میں نبیوں کے ساتھ ان کا ذکر ان کے نبی ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔

٨٧۔ (۱) مچھلی والے سے مراد حضرت یونس علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور انہیں عذاب الٰہی کی دھمکی دے کر، اللہ کے حکم کے بغیر وہاں سے چل دیئے تھے، جس پر اللہ نے ان کی گرفت اور انہیں مچھلی کا لقمہ بنا دیا، اس کی کچھ تفصیل سورۃ یونس میں گزر چکی ہے اور کچھ سورہ صافات میں آئے گی۔

٨٧۔ (۲)  ظلمات، ظلمۃ کی جمع ہے بمعنی اندھیرا۔ حضرت یونس علیہ السلام متعدد اندھیروں میں گھر گئے۔ رات کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔

٨٨۔ ہم نے یونس علیہ السلام کی دعا قبول کی اور اسے اندھیروں سے اور مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور جو بھی مومن ہمیں اس طرح شدائد اور مصیبتوں میں پکارے گا، ہم اسے نجات دیں گے۔ حدیث میں آتا ہے۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملے کے لئے دعا مانگی تو اللہ نے اسے قبول فرمایا (جامع ترندی نمبر ٣٥٠٥ و صحیحہ الالبانی)

٩٠۔ (۱) حضرت زکریا علیہ السلام کا بڑھاپے میں اولاد کے لئے دعا کرنا اور اللہ کی طرف سے اس کا عطا کیا جانا، اس کی ضروری تفصیل سورہ آل عمران اور سورہ طٰہٰ میں گزر چکی ہے۔ یہاں بھی اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں کیا ہے۔

٩٠۔ (۲)  یعنی وہ بانجھ اور ناقابل اولاد تھی، ہم نے اس کے اس نقص کا ازالہ فرما کر اسے نیک بچہ عطا فرمایا۔

٩٠۔ (۳) گویا قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کا اہتمام کیا جائے جن کا بطور خاص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً الحاح و زاری کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا و مناجات، نیکی کے کاموں میں سبقت، خوف و طمع کے ملے جلے جذبات کے ساتھ رب کو پکارنا اور اس کے سامنے عاجزی اور خشوع خضوع کا اظہار۔

٩١۔ یہ حضرت مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کا تذکرہ ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔

٩٢۔ امۃ سے مراد یہاں دین یا ملت یعنی تمہارا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ دین ہے دین توحید، جس کی دعوت تمام انبیاء نے دی اور ملت، ملت اسلام ہے جو تمام انبیاء کی ملت رہی۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' ہم انبیاء کی جماعت اولاد علات ہیں، (جن کا باپ ایک اور مائیں مختلف ہوں ) ہمارا دین ایک ہی ہے ' (ابن کثیر)

٩٣۔ یعنی دین توحید اور عبادت رب کو چھوڑ کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے ایک گروہ تو مشرکین اور کفار کا ہو گیا اور انبیاء و رسل کے ماننے والے بھی گروہ بن گئے، کوئی یہودی ہو گیا، کوئی عیسائی، کوئی کچھ اور اور بد قسمتی سے یہ فرقہ بندیاں خود مسلمانوں میں بھی پیدا ہو گئیں اور یہ بھی بیسیوں فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ ان سب کا فیصلہ، جب یہ بارگاہ الٰہی میں لوٹ کر جائیں گی۔ تو وہیں ہو گا۔

٩٥۔ جیسا کہ ترجمے میں واضح ہے۔ یا پھر لَا یَرْجِعُوْنَ میں لَا زائد ہے، یعنی جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا، اس کا دنیا میں پلٹ کر آنا حرام ہے۔

٩٦۔ یاجوج ماجوج کی ضروری تفصیل سورہ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں قیامت کے قریب ان کا ظہور ہو گا اور اتنی تیزی اور کثرت سے یہ ہر طرف پھیل جائیں گے کہ ہر اونچی جگہ یہ دوڑتے ہوئے محسوس ہوں گے۔ ان کی فساد انگیزیوں اور شرارتوں سے اہل ایمان تنگ آ جائیں گے حتیٰ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اہل ایمان کو ساتھ کوہ طور پر پناہ گزیں ہو جائیں گے، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بد دعا سے یہ ہلاک ہو جائیں گے اور ان کی لاشوں کی سڑاند اور بدبو ہر طرف پھیلی ہو گی، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں گے پھر ایک زور دار بارش نازل فرمائے گا، جس سے ساری زمین صاف ہو جائیگی۔ (یہ ساری تفصیلات صحیح حدیث میں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لئے تفسیر ابن کثیر ملاحظہ ہو)

٩٧۔ یعنی یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت کا وعدہ، جو برحق ہے، بالکل قریب آ جائے گا اور جب یہ قیامت برپا ہو جائے گی شدت ہولناکی کی وجہ سے کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

٩٨۔ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لات منات اور عزیٰ و ہبل کی پوجا کرتے تھے یہ سب پتھر کی مورتیاں تھیں۔ جو جمادات یعنی غیر عاقل تھیں، اس لئے آیت میں مَا تَعْبُدُوْنَ کے الفاظ ہیں اور عربی میں ( مَا) غیر عاقل کے لئے آتا ہے۔ یعنی کہا جا رہا ہے کہ تم بھی اور تمہارے معبود بھی جن کی مورتیاں بنا کر تم نے عبادت کے لئے رکھی ہوئی ہیں سب جہنم کا ایندھن ہیں۔

٩٩۔ یعنی اگر یہ واقع معبود ہوتے تو با اختیار ہوتے اور تمہیں جہنم جانے سے روک لیتے۔ لیکن وہ تو خود جہنم میں بطور عبرت کے جا رہے ہیں۔ تمہیں جانے سے کس طرح روک سکتے ہیں۔ لہذا عابد و معبود دونوں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

١٠٠۔ یعنی سارے کے سارے شدت غم و الم سے چیخ اور چلا رہے ہوں گے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی آواز بھی نہیں سن سکیں گے۔

١٠١۔ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا تھا یا مشرکین کی طرف سے پیدا کیا جا سکتا تھا، جیسا کہ فی الواقع کیا جاتا ہے کہ عبادت تو حضرت عیسیٰ و عزیز علیہ السلام، فرشتوں اور بہت سے صالحین کی بھی کی جاتی ہے تو کیا یہ بھی اپنے عابدین کے ساتھ جہنم میں ڈالے جائیں گے ؟ اس آیت میں اس کا ازالہ کر دیا گیا ہے کہ یہ لوگ تو اللہ کے نیک بندے تھے جن کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کے لئے نیکی یعنی سعادت ابدی یا بشارت جنت ٹھہرائی جا چکی ہے۔ یہ جہنم سے دور ہی رہیں گے

١٠٣۔ بڑی گھبراہٹ سے موت یا صور اسرافیل مراد ہے یا وہ لمحہ جب دوزخ اور جنت کے درمیان موت کو ذبح کر دیا جائے گا۔ دوسری بات یعنی صور اسرافیل اور قیام قیامت سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

١٠٤۔ یعنی جس طرح کاتب لکھنے کے بعد اوراق یا رجسٹر لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( وَالسَّماوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِهِ) آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ' ' سِجِل کے معنی صحیفے یا رجسٹر کے ہیں لِلْکُتُبِ کے معنی ہیں عَلَی الْکِتَابِ بِمَعْنَی الْمَکْتُوْبِ (تفسیر ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ کاتب کے لئے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ لینا جس طرح آسان ہے، اسی طرح اللہ کے لئے آسمان کی وسعتوں کو اپنے ہاتھ میں سمیٹ لینا کوئی مشکل امر نہیں۔

١٠٥۔ زبور سے مراد یا تو زبور ہی ہے اور ذکر سے مراد پند و نصیحت جیسا کہ ترجمہ میں درج ہے یا پھر زبور سے مراد گذشتہ آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی پہلے لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے اور اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہوں گے۔ زمین سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک جنت ہے اور بعض کے نزدیک ارض کفار۔ یعنی اللہ کے نیک بندے زمین میں اقتدار اور سرخرو رہے اور آئندہ بھی جب کبھی وہ اس صفت کے حامل ہوں گے، اس وعدہ الٰہی کے مطابق، زمین کا اقتدار انہی کے پاس ہو گا۔ اس لیے مسلمانوں کی محرومی اقتدار کی موجودہ صورت حال کسی اشکال کا باعث نہیں بننی چاہیے یہ وعدہ مشروط ہے صالحیت عباد کے ساتھ اور اذا فات الشرط فات المشروط کے مطابق جب مسلمان اس خوبی سے محروم ہو گئے تو اقتدار سے بھی محروم کر دئیے گئے اس میں گویا حصول اقتدار کا طریقہ بتلایا گیا ہے اور وہ ہے صالحیت یعنی اللہ رسول کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا اور اس کے حدود و ضابطوں پر کاربند رہنا۔

١٠٦۔ فی ‌ھذا سے مراد وہ وعظ و تنبیہ ہے جو اس سورت میں مختلف انداز سے بیان کی گئی ہے بلاغ سے مراد کفایت و منفعت ہے یعنی وہ کافی اور مفید ہے یا اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں مسلمانوں کے لئے بڑا فائدہ اور کفالت ہے عابدین سے، خشوع خضوع سے اللہ کی عبادت کرنے والے، اور شیطان اور خواہشات نفس پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دینے والے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لے آئے گا اس نے گویا اس رحمت کو قبول کر لیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ نتیجتاً دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو گا اور اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پورے جہان کے لیے ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پورے جہان کے لیے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین و دنیا کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے آئے ہیں بعض لوگوں نے اس اعتبار سے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جہان والوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وجہ سے یہ امت بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کر دی گئی جیسے پچھلی قومیں اور امتیں حرف غلط کی طرح مٹا دی جاتی رہیں امت محمدیہ (جو امت اجابت اور امت دعوت کے اعتبار سے پوری نوع انسانی پر مشتمل ہے ) پر اس طرح کا کلی عذاب نہیں آئے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیے بد دعا نہ کرنا یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحمت کا ایک حصہ تھا انی لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمۃ (صحیح مسلم) اسی طرح غصے میں کسی مسلمان کو لعنت یا سب و شتم کرنے کو بھی قیامت والے دن رحمت کا باعث قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحمت کا حصہ ہے ( مسند احمد ) اسی لیے ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انما رحمۃ مھداۃ (صحیح الجامع الصغیر) میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں جو اللہ کی طرف سے اہل جہان کے لیے ایک ہدیہ ہے۔

١٠٨۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اصل رحمت توحید کو اپنا لینا اور شرک سے بچ جانا ہے۔

١٠٩۔ (۱) یعنی جس طرح میں جانتا ہوں کہ تم میری دعوت توحید و اسلام سے منہ موڑ کر میرے دشمن ہو، اسی طرح تمہیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میں بھی تمہارا دشمن ہوں اور ہماری تمہاری آپس میں کھلی جنگ ہے۔

١٠٩۔ (۲)  اس وعدے سے مراد قیامت ہے یا غلبہ اسلام و مسلمین کا وعدہ یا وہ وعدہ جب اللہ کی طرف سے تمہارے خلاف جنگ کرنے کی مجھے اجازت دی جائے گی۔

١١٢۔ (۱) یعنی اس وعدہ الٰہی میں تاخیر، میں نہیں جانتا کہ تمہاری آزمائش کے لئے ہے یا ایک خاص وقت تک فائدہ اٹھانے کے لئے مہلت دینا ہے۔

١١٢۔ (۲)  یعنی میری بابت جو تم مختلف باتیں کرتے رہتے ہو، یا اللہ کے لئے اولاد ٹھہراتے ہو، ان سب باتوں کے مقابلے میں وہ رب ہی مہربانی کرنے والا اور وہی مدد کرنے والا ہے۔