احسن البیان

سُوۡرَةُ القَصَص

٣۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر صدیوں قبل کے واقعات بالکل اس طریقے سے بیان کر دینا جس طرح پیش آتے ناممکن ہے، تاہم اس کے باوجود اس سے فائدہ اہل ایمان ہی کو ہو گا کیونکہ وہی آپ کی باتوں کی تصدیق کریں گے۔

٤۔ (۱) یعنی ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اپنے کو بڑا معبود کہلاتا تھا۔

٤۔ (۲)  جن کے ذمے الگ الگ کام اور ڈیوٹیاں تھیں۔

٤۔ (۳) اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جو اس وقت کی افضل ترین قوم تھی لیکن آزمائش کے طور پر فرعون کی غلام اور اس کی ستم زانیوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔

٤۔(۴) جس کی وجہ بعض نجومیوں کی پیش گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہو گا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ قتل کر دیا جائے۔ حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاہن سچا ہے تو ایسا یقیناً ہو کر رہے گا چاہے وہ بچے قتل کرواتا رہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی (فتح القدیر) بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے یہ خوش خبری منتقل ہوتی چلی آ رہی تھی کہ ان کی نسل سے ایک بچہ ہو گا جسکے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی ہو گی۔ قبیلوں نے یہ بشارت بنی اسرائیل سے سنی اور فرعون کو اس سے آگاہ کر دیا جس پر اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو مروانا شروع کر دیا۔ (ابن کثیر)

 ٥۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کمزور اور غلام قوم کو مشرق و مغرب کا وارث (مالک و حکمران) بنا دیا نیز انہیں دین کا پیشوا اور امام بھی بنا دیا۔

 ٦۔ (۱) یہاں زمین سے مراد ارض شام ہے جہاں وہ کنعانیوں کی زمین کے وارث بنے کیونکہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل مصر واپس نہیں گئے، واللہ اعلم۔

٦۔ (۲)  یعنی انہیں جو اندیشہ تھا کہ ایک اسرائیلی کے ہاتھوں فرعون کی اور اس کے ملک و لشکر کی تباہی ہو گی، ان کے اس اندیشے کو ہم نے حقیقت کر دکھایا۔

٧۔ (۱) وحی سے مراد یہاں دل میں بات ڈالنا ہے، وہ وحی نہیں ہے، جو انبیاء پر فرشتے کے ذریعے سے نازل کی جاتی تھی اور اگر فرشتے کے ذریعے سے بھی آئی ہو، تب بھی اس ایک وحی سے موسیٰ علیہ السلام کا نبی ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ فرشتے بعض دفعہ عام انسانوں کے پاس بھی آ جاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں واقع، ابرص اور اعمی کے پاس فرشتوں کا آنا ثابت ہے (متفق علیہ، بخاری، کتاب احادیث الانبیاء)

٧۔ (۲)  یعنی دریا میں ڈوب جانے یا ضائع ہو جانے سے ڈرنا اور اس کی جدائی کا غم نہ کرنا۔

٧۔ (۳) یعنی ایسے طریقے سے کہ جس سے اس کی نجات یقینی ہو، کہتے ہیں کہ جب قتل اولاد کا یہ سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہو جائے اور مشقت والے کام ہمیں نہ کرنے پڑ جائیں۔ اس اندیشے کا ذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کر دیا گیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑ دیئے جائیں ؛ حضرت ہارون علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس میں بچے قتل نہ کئے جاتے تھے، جب کہ موسیٰ علیہ السلام قتل والے سال پیدا ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سر و سامان پیدا فرما دیا۔ کہ ایک تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار اس طرح ظاہر نہیں فرمائے جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نگاہ میں آ جائیں اس لئے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ ہو گیا اور یہ واقعہ حکومت کے منصوبہ بندوں کے علم میں نہیں آیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کا اندیشہ موجود تھا۔ جس کا حل خود اللہ تعالیٰ نے وحی و القاء کے ذریعے سے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو سمجھا دیا چنانچہ انہوں نے اسے تابوت میں لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابن کثیر)

 ٨۔ (۱) یہ تابوت بہتا بہتا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، جو لب دریا تھا اور وہاں فرعون کے نوکروں چاکروں نے پکڑ کر باہر نکال لیا۔

٨۔ (۲)  یہ عاقبت کے لئے ہے۔ یعنی انہوں نے تو اسے اپنا بچہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا کر لیا تھا نہ کہ دشمن سمجھ کر۔ لیکن انجام ان کے اس فعل کا یہ ہوا کہ وہ ان کا دشمن اور رنج و غم کا باعث، ثابت ہوا۔

٨۔ (۳) یہ اس سے پہلے کی تعلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ان کے لئے دشمن کیوں ثابت ہوئے ؟ اس لئے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطا کار تھے، اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے پروردہ کو ہی ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنا دیا۔

 ٩۔ (۱) یہ اس وقت کہا جب تابوت میں ایک حسین و جمیل بچہ انہوں نے دیکھا۔ بعض کے نزدیک یہ اس وقت کا قول ہے جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی داڑھی کے بال نوچ لئے تھے تو فرعوں نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جمع کا صیغہ یا تو اکیلے فرعون کے لئے بطور تعظیم کے کہا یا ممکن ہے وہاں اس کے کچھ درباری موجود رہے ہوں۔

٩۔ (۲)  کیونکہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔

 ٩۔ (۳) کہ یہ بچہ جسے وہ اپنا بچہ بنا رہے ہیں، یہ تو وہی بچہ ہے جس کو مارنے کے لئے سینکڑوں بچوں کو موت کی نید سلا دیا گیا ہے۔

 ١٠۔ (۱) یعنی ان کا دل ہر چیز اور فکر سے فارغ(خالی) ہو گیا اور ایک ہی فکر یعنی موسیٰ علیہ السلام کا غم دل میں سما گیا، جس کو اردو میں بے قراری سے تعبیر کیا گیا ہے۔

١٠۔ (۲)  یعنی شدت غم سے یہ ظاہر کر دیتیں کہ یہ ان کا بچہ ہے لیکن اللہ نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا جس پر انہوں نے صبر کیا اور یقین کر لیا کہ اللہ نے اس موسیٰ علیہ السلام کو بخیریت واپس لٹانے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہو گا۔

 ١١۔ (۱) موسیٰ کی بہن کا نام مریم بنت عمران تھا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا مریم بنت عمران تھیں نام اور ولدیت دونوں میں اتحاد تھا۔

١١۔ (۲)  چنانچہ وہ دریا کے کنارے کنارے، دیکھتی رہی تھی، حتّیٰ کہ اس نے دیکھ لیا کہ اسکا بھائی فرعون کے محل میں چلا گیا ہے۔

 ١٢۔ (۱) یعنی ہم نے اپنی قدرت اور تکوینی حکم کے ذریعے سے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اور انا کا دودھ پینے سے منع کر دیا، چنانچہ بسیار کوشش کے باوجود کوئی انا انہیں دودھ پلانے اور چپ کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

١٢۔ (۲)  یہ سب منظر ان کی ہمشیرہ خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی تھیں، بالآخر بول پڑیں کہ میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچہ کی تمہارے لئے پرورش کرے۔

۱۲۔ (۳)  چنانچہ انہوں نے ہمشیرہ موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جا اس عورت کو لے آ چنانچہ وہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنی ماں کو، جو موسیٰ علیہ السلام کی بھی ماں تھی، ساتھ لے آئی۔

 ١٣۔ (۱) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ کا دودھ پی لیا، تو فرعون نے والدہ موسیٰ سے محل میں رہنے کی استدعا کی تاکہ بچے کو صحیح پرورش اور نگہداشت ہو سکے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر یہ طے پایا کہ بچے کو وہ اپنے ساتھ ہی گھر میں لے جائیں اور وہیں اس کی پرورش کریں اور اس کی اجرت انہیں شاہی خزانے سے دی جائے گی، سبحان اللہ! اللہ کی قدرت کے کیا کہنے، دودھ اپنے بچے کو پلائیں اور تنخواہ فرعون سے وصول کریں، رب نے موسیٰ علیہ السلام کو واپس لوٹانے کا وعدہ کس احسن طریقے سے پورا فرمایا۔ ایک مرسل روایت میں ہے۔ اس کاریگر کی مثال جو اپنی بنائی ہوئی چیز میں ثواب اور خیر کی نیت بھی رکھتا ہے، موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی طرح ہے جو اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس کی اجرت بھی وصول کرتی ہے۔ (مراسیل ابی داؤد)

۱۳۔ (۲)  یعنی بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے انجام کی حقیقت سے اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں لیکن اللہ کو اس کے حسن انجام کا علم ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا (ہو سکتا ہے جس چیز کو تم برا سمجھو، اس میں تمہارے لئے خیر ہو اور جس چیز کو تم پسند کرو، اس میں تمہارے لئے شر کا پہلو ہو) البقرہ ۲۱٦ دوسرے مقام پر فرمایا (ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو برا سمجھو، اور اللہ اس میں تمہارے لئے خیر کثیر پیدا فرما دے ) (النساء ۱۹) اس لئے انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی پسند و ناپسند سے قطع نظر ہر معاملے میں اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کر لے کہ اسی میں اس کے لئے خیر اور حسن انجام ہے۔

 ١٤۔ حکم اور علم سے مراد نبوت ہے تو اس مقام تک کس طرح پہنچے، اس کی تفصیل اگلی آیات میں ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نبوت نہیں بلکہ عقل اور دانش اور وہ علوم ہیں جو انہوں نے اپنے آبائی اور خاندانی ما حول میں رہ کر سیکھے۔

 ١٥۔ (۱) اس سے بعض نے مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت اور بعض نے نصف النہار مراد لیا۔ جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔

١٥۔ (۲)  یعنی فرعون کی قوم قبط میں سے تھا۔

١٥۔ (۳) اسے شیطانی فعل اس لئے قرار دیا کہ قتل ایک نہایت سنگین جرم ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقصد اسے ہرگز قتل کرنا نہیں تھا۔

١٥۔(۴) جس کی انسان سے دشمنی بھی واضح ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کے لئے وہ جو جو جتن کرتا ہے وہ بھی مخفی نہیں۔

 ١٦۔ یہ اتفاقیہ قتل اگرچہ کبیرہ گناہ نہیں تھا، کیونکہ کبیرہ گناہوں سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی حفاطت فرماتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایسا گناہ نظر آتا تھا جس کے لئے بہت بخشش انہوں نے ضروری سمجھی۔ دوسرے، انہیں خطرہ تھا کہ فرعون کو اس کی اطلاع ملی تو اس کے بدلے انہیں قتل نہ کر دے۔

١٧۔ یعنی جو کافر اور تیرے حکموں کا مخالف ہو گا، تو نے مجھ پر جو انعام کیا ہے، اس کے سبب میں اس کا مددگار نہیں ہوں گا۔

 ١٨۔(۱) خائفا کے معنی ڈرتے ہوئے، ادھر ادھر جھانکتے اور اپنے بارے میں اندیشوں میں مبتلا۔

١٨۔ (۲)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ڈانٹا کہ تو کل بھی لڑتا ہوا پایا گیا تھا اور آج پھر تو کسی سے دست بہ گریبان ہے، تو صریح بے راہ، یعنی جھگڑالو ہے۔

 ١٩۔ (۱)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چاہا کہ قطبی کو پکڑ لیں، کیونکہ وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا دشمن تھا، تاکہ لڑائی زیادہ نہ بڑھے۔

١٩۔ (۲)  فریادی (اسرائیلی) سمجھا کہ موسیٰ علیہ السلام شاید اسے پکڑنے لگے ہیں تو وہ بول اٹھا کہ اے موسیٰ، جس سے قبطی کے علم میں یہ بات آ گئی کہ کل جو قتل ہوا تھا، اس کا قاتل موسیٰ علیہ السلام ہے، اس نے جا کر فرعون کو بتلا دیا جس پر فرعون نے اس کے بدلے میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا عزم کر لیا۔

 ٢٠۔ یہ آدمی کون تھا؟ بعض کے نزدیک یہ فرعون کی قوم کا تھا جو در پردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیر خواہ تھا۔ اور ظاہر ہے سرداروں کے مشورے کی خبر ایسے ہی آدمی کے ذریعے آنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ بعض کے نزدیک یہ موسیٰ علیہ السلام کا قریبی رشتے دار اور اسرائیلی تھا۔ اور اقصائے شہر سے مراد منف ہے جہاں فرعون کا محل اور دارالحکومت تھا اور یہ شہر کے آخری کنارے پر تھا۔

 ٢١۔ (۱) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علم میں یہ بات آئی تو وہاں سے نکل کھڑے ہوئے تاکہ فرعون کی گرفت میں نہ آ سکیں۔

٢١۔ (۲)  یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے، جنہوں نے باہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا مشورہ کیا تھا، کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوئی علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے ؟ کیونکہ مصر چھوڑنے کا یہ حادثہ بالکل اچانک پیش آیا، پہلے سے کوئی خیال یا منصوبہ نہیں تھا، چنانچہ اللہ نے گھوڑے پر ایک فرشتہ بھیج دیا، جس نے انہیں راستے کی نشان دہی کی واللہ اعلم (ابن کثیر)

 ٢٢۔ چنانچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ایسے سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی جس سے ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی یعنی وہ ہادی بھی بن گئے اور مہدی بھی، خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو بھی ہدایت کا راستہ بتلانے والے۔

۲۳۔(۱)  یعنی جب مدین پہنچے تو اس کے کنویں پر دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا ہے۔ مدین یہ قبیلے کا نام تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے تھا، جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے (حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ یوں اہل مدین اور موسیٰ کے درمیان نسبی تعلق بھی تھا (ایسرالتفاسیر) اور یہی حضرت شعیب علیہ السلام کا مسکن مبعث بھی تھا۔

٢٣۔ (۲)  دو عورتوں کو اپنے جانور روکے، کھڑے دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں رحم آیا اور ان سے پوچھا، کیا بات ہے تم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں ؟۔ رعاء راع (چرواہا) کی جمع ہے۔

٢٣۔ (۳)  تاکہ مردوں سے ہمارا اختلاط نہ ہو۔

٢٣۔(۴) والد صاحب بوڑھے ہیں اس لئے وہ گھاٹ پر پانی پلانے کے لئے نہیں آ سکتے

 ٢٤۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اتنا لمبا سفر کر کے مصر سے مدین پہنچے تھے، کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا، جب کہ سفر کی تھکان اور بھوک سے نڈھال تھے۔ چنانچہ جانوروں کو پانی پلا کر ایک درخت کے سائے تلے آ کر مصروف دعا ہو گئے۔ خیر کئی چیزوں پر بولا جاتا ہے، کھانے پر، امور خیر اور عبادت پر، قوت پر اور مال پر (الیسر التفاسیر) یہاں اس کا اطلاق کھانے پر ہوا ہے۔ یعنی میں اس وقت کھانے کا ضرورت مند ہوں۔

 ۲۵۔(۱)  اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرما لی اور دونوں میں سے ایک لڑکی انہیں بلانے آ گئی۔ لڑکی کی شرم و حیا کا قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے اور مردوں کی طرح حیاء و حجاب سے بے نیازی اور بے باکی عورت کے لئے شرعاً ناپسندیدہ ہے۔

٢٥۔ (۲)  بچیوں کا باپ کون تھا؟ قرآن کریم نے وضاحت سے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ مفسرین کی اکثریت نے اس سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کو لیا ہے جو اہل مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ امام شوکانی نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام کا زمانہ نبوت، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے کا ہے۔ اس لئے یہاں حضرت شعیب علیہ السلام کا برادر زادہ یا کوئی اور قوم شعیب علیہ السلام کا شخص مراد ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچیوں کے ساتھ ہمدردی اور احسان کیا، وہ بچیوں نے جا کر بوڑھے باپ کو بتلایا، جس سے باپ کے دل میں بھی ہمدردی پیدا ہوئی کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دیا جائے یا اس کی محنت کی اجرت ہی ادا کر دی جائے۔

٢٥۔ (۳)  یعنی اپنے مصر کی سرگزشت اور فرعون کے ظلم و ستم کی تفصیل سنائی جس پر انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ فرعون کی حدود حکمرانی سے باہر ہے اس لئے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے ظالموں سے نجات عطا فرما دی ہے۔

 ٢٦۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ باپ نے بچیوں سے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ یہ طاقتور بھی ہے اور ایمان دار بھی، جس پر بچیوں نے بتلایا کہ جس کنویں سے پانی پلایا، اس پر اتنا بھاری پتھر رکھا ہوتا ہے کہ اسے اٹھانے کے لئے دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس شخص نے وہ پتھر اکیلے ہی اٹھا لیا اور پھر بعد میں رکھ دیا اسی طرح جب میں اس کو بلا کر ساتھ لا رہی تھی، تو چونکہ راستے کا علم مجھے ہی تھا، میں آگے آگے چل رہی تھی اور یہ پیچھے پیچھے لیکن ہوا سے میری چادر اڑ جاتی تھی تو اس شخص نے کہا تو پیچھے چل، میں آگے آگے چلتا ہوں تاکہ میری نگاہ تیرے جسم کے کسی حصے پر نہ پڑے۔ راستے کی نشان دہی کے لئے پیچھے سے پتھر کی کنکری مار دیا کر، واللہ اعلم (ابن کثیر)

 ٢٧۔ (۱) ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن شریعت اللہ میں یہ برا نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اسے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لئے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے۔ بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے، عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔

٢٧۔ (۲)  اس سے علماء نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے

٢٧۔ (۳) یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایذاء محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہو گی۔

٢٧۔(۴) نہ جھگڑا کرونگا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لوں گا۔

 ٢٨۔ (۱) یعنی آٹھ سال بعد یا دس سال کے بعد جانا چاہوں تو مجھ سے مزید رہنے کا مطالبہ نہ کیا جائے۔

٢٨۔ (۲)  یہ بعض کے نزدیک شعیب علیہ السلام یا برادر زادہ شعیب علیہ السلام کا قول ہے اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ممکن ہے دونوں ہی کی طرف سے ہو کیونکہ جمع کا صیغہ ہے گویا دونوں نے اس معاملے پر اللہ کو گواہ ٹھہرایا اور اس کے ساتھ ہی ان کی لڑکی اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان رشتہ ازدواجی قائم ہو گیا۔ باقی تفصیلات کا اللہ نے ذکر نہیں کیا۔ ویسے تو اسلام میں طرفین کی رضامندی کے ساتھ نکاح کے لئے دو عادل گواہ بھی ضروری ہیں۔

 ٢٩۔ (۱) حضرت ابن عباس نے اس مدت سے دس سالہ مدت مراد لی ہے، کیونکہ یہی اکمل اور اطیب (یعنی خسر موسیٰ علیہ السلام کے لئے خوشگوار اور مرغوب) تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کریمانہ اخلاق نے اپنے بوڑھے خسر کی دلی خواہش کے خلاف کرنا پسند نہیں کیا۔

٢٩۔ (۲)  اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جا سکتا ہے۔

 ٣٠۔ (۱) یعنی آواز وادی کے کنارے سے آ رہی تھی، جو مغربی جانب سے پہاڑ کے دائیں طرف تھی، یہاں درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے جو دراصل رب کی تجلی کا نور تھا۔

٣٠۔ (۲)  یعنی اے موسیٰ! تجھ سے جو اس وقت مخاطب اور ہم کلام ہے، وہ میں اللہ ہوں رب العالمین۔

 ٣١۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کا وہ معجزہ ہے جو کوہ طور پر، نبوت سے سرفراز کئے جانے کے بعد ان کو ملا۔ چونکہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ظاہر ہوتا ہے کسی بھی انسان کے اختیار سے نہیں۔ چاہے وہ جلیل القدر پیغمبر اور نبی مقرب ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے جب موسیٰ علیہ السلام کے اپنے ہاتھ کی لاٹھی، زمین پر پھینکنے سے حرکت کرتی اور دوڑتی پھنکارتی سانپ بن گئی، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ڈر گئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور تسلی دی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خوف دور ہوا اور یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کے لئے بطور دلیل یہ معجزہ انہیں عطا فرمایا ہے۔

 ٣٢۔ (۱) یہ ید بیضاء دوسرا معجزہ تھا جو انہیں عطا کیا گیا۔

٣٢۔ (۲)  لاٹھی کا اژدھا بن جانے کی صورت میں جو خوف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاحق ہوتا تھا، اس کا حل بتلا دیا گیا کہ اپنا بازو اپنی طرف ملا لیا کرو یعنی بغل میں دبا لیا کرو جس سے خوف جاتا رہا کرے گا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ عام ہے کہ جب بھی کسی سے کوئی خوف محسوس ہو تو اس طرح کرنے سے خوف دور ہو جائے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اقتداء میں جو شخص بھی گھبراہٹ کے موقع پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے گا، تو اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا یا کم از کم ہلکا ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔

 ۳۲۔ (۳)  یعنی فرعون اور اسکی جماعت کے سامنے یہ دونوں معجزے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرو۔ یہ لوگ اللہ کی اطاعت سے نکل چکے ہیں اور اللہ کے دین کے مخالف ہیں۔

 ٣٣۔ یہ خطرہ تھا جو واقع حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان کو لاحق تھا، کیونکہ ان کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہو چکا تھا۔

۳٤۔ اسرائیلی روایات کی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت تھی، جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے آگ کا انگارہ اور کھجور یا موتی رکھے گئے تو آپ نے انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا جس سے آپ کی زبان جل گئی۔ یہ وجہ صحیح ہے یا نہیں ؟ تاہم قرآن کریم کی اس نص سے یہ تو ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں حضرت ہارون علیہ السلام فصیح اللسان تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں گرہ تھی۔ جس کے کھولنے کی دعا انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد کی۔ ردءا کے معنی ہیں معین، مددگار تقویت پہنچانے والا۔ یعنی ہارون علیہ السلام اپنی فصاحت لسانی سے مجھے مدد اور تقویت پہنچائیں گے۔

 ۳۵۔(۱)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول کر لی گئی اور ان کی سفارش پر حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت سے سرفراز فرما کر ان کا ساتھی اور مددگار بنا دیا گیا۔

۳۵۔ (۲)  یعنی ہم تمہاری حفاظت فرمائیں گے، فرعون اور اس کے حوالی موالی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔

٣٥۔ (۳)  یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا مثلاً، المائدہ۔ ٦٧، الا حزاب۔٣٩ المجادلہ۔ ٢١ المو من۔٥١،٥٢۔

 ٣٦۔ یعنی یہ دعوت کہ کائنات میں صرف ایک ہی اللہ اس کے لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ہمارے لئے بالکل نئی بات ہے۔ یہ ہم نے سنی ہے نہ ہمارے باپ دادا اس توحید سے واقف تھے مشرکین مکہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بابت کہا تھا ' اس نے تو تمام معبودوں کو (ختم کر کے ) ایک ہی معبود بنا دیا ہے ؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے '۔

 ٣٧۔(۱)  یعنی مجھ سے اور تم سے زیادہ ہدایت کا جاننے والا اللہ ہے، اس لئے جو بات اللہ کی طرف سے آئے گی، وہ صحیح ہو گی یا تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کی۔

٣٧۔ (۲)  اچھے انجام سے مراد آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جانا ہے اور یہ استحقاق صرف اہل توحید کے حصے میں آئے گا

۳۷۔ (۳)  ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں، کیونکہ ظلم کے معنی ہیں۔ وضع الشئ فی غیر محلہ کسی چیز کو اسکے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوشحالی اور مال و اسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوشحالی و فراوانی۔

 ٣٨۔ (۱) یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر، ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔

٣٨۔ (۲)  یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے۔

۳۸۔ (۳)  یعنی موسیٰ (علیہ السلام) جو یہ دعوی کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالن ہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

 ٣٩۔ زمین سے مراد ارض مصر ہے جہاں فرعون حکمران تھا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا، یعنی ان کے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے دلائل معجزات کا رد کر سکتے لیکن استکبار بلکہ ان کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہٹ دھرمی اور انکار کا راستہ اختیار کیا۔

 ٤٠۔ یعنی جب ان کا کفر و طغیان حد سے بڑھ گیا اور کسی طرح بھی وہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو بالآخر ایک صبح ہم نے انہیں دریا میں غرق کر دیا۔

 ٤١۔ یعنی جو بھی ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو اللہ کی توحید یا اس کے وجود کے منکر ہوں گے، تو ان کا امام و پیشوا یہی فرعونی سمجھے جائیں گے جو جہنم کے داعی ہیں۔

٤۲۔ یعنی دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنی اور آخرت میں بھی وہ بد حال ہوں گے۔ یعنی چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں جیسا کہ جہنمیوں کے تذکرے میں آتا ہے۔

 ٤٣۔(۱)  یعنی فرعون اور اس کی قوم یا نوح و عاد و ثمود وغیرہ قوم کی ہلاکت کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو کتاب (تورات) دی۔

٤٣۔ (۲)  جس سے وہ حق کو پہچان لیں اور اسے اختیار کریں اور اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔

٤٣۔ (۳) یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کریں جو انہیں خیر و رشد اور فلاح حقیقی کی طرف بلاتے ہیں۔

 ٤٤۔ یعنی کوہ طور پر جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور اسے وحی و رسالت سے نوازا، اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) تو نہ وہاں موجود تھا اور نہ یہ منظر دیکھنے والوں میں سے تھا۔ بلکہ یہ غیب کی وہ باتیں ہیں جو ہم نے وحی کے ذریعے سے تجھے بتلا رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ تو اللہ کا سچا پیغمبر ہے۔ کیونکہ نہ تو نے یہ باتیں کسی سے سیکھی ہیں نہ خود ہی مشاہدہ کیا ہے۔ یہ مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ آل عمران۔(۴)٤، سورہ ہود۔ ٤٩۔١٠٠، سورہ یوسف۔١٠٢، سورہ طٰہٰ۔ ٩٩ وغیرہ میں۔

٤٥۔(۱)  قرون، قرن کی جمع ہے، زمانہ لیکن یہاں امتوں کے معنی میں ہے یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم آپ کے اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان جو زمانہ ہے اس میں ہم نے کئی امتیں پیدا کیں۔

٤٥۔ (۲)  یعنی مراد ایام سے شرائع و احکام بھی متغیر ہو گئے اور لوگ بھی دین کو بھول گئے، جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے حکموں کو پس پشت ڈال دیا اور ان کے عہد کو فراموش کر دیا اور یوں اس کی ضرورت پیدا ہو گئی کہ ایک نئے بنی کو معبوث کیا جائے یا یہ مطلب ہے کہ طول زماں کی وجہ سے عرب کے لوگ نبوت و رسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے، اس لئے آپ کی نبوت پر انہیں تعجب ہو رہا ہے اور اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

٤٥۔ (۳) جس سے آپ خود اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہو جاتے۔

٤٥۔(۴) اور اسی اصول پر ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور پچھلے حالات و واقعات سے آپ کو باخبر کر رہے ہیں۔

٤٦۔ (۱) یعنی اگر آپ رسول برحق نہ ہوتے تو موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا علم بھی آپ کو نہ ہوتا۔

٤٦۔ (۲)  یعنی آپ کا علم، مشاہدہ روئیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبی بنایا اور وحی سے نوازا۔

٤٦۔ (۳) اس سے مراد اہل مکہ اور عرب ہیں جن کی طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت کا سلسلہ خاندان ابراہیمی ہی میں رہا اور ان کی بعث بنی اسرائیل کی طرف سے ہی ہوتی رہی بنی اسماعیل یعنی عربوں میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہلے نبی تھے اور سلسلہ نبوت کے خاتم تھے۔ ان کی طرف نبی بھیجنے کی ضرورت اس لئے نہیں سمجھی گئی ہو گی کہ دوسرے انبیاء کی دعوت اور ان کا پیغام ان کو پہنچتا رہا ہو گا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے لئے کفر و شرک پر جمے رہنے کا عذر موجود رہے گا اور یہ عذر اللہ نے کسی کے لئے باقی نہیں چھوڑا ہے۔

 ٤٧۔ یعنی ان کے اسی عذر کو ختم کرنے کے لئے ہم نے آپ کو ان کی طرف بھیجا ہے کیونکہ طول زمانی کی وجہ سے گزشتہ انبیاء کی تعلیمات مسخ اور ان کی دعوت فراموش ہو چکی ہے اور ایسے ہی حالات کسی نئے نبی کی ضرورت کے متقاضی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات (قرآن و حدیث) کو مسخ ہونے اور تغیر و تحریف سے محفوظ رکھا اور ایسا تکوینی انتظام فرما دیا ہے جس سے آپ کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی ہے اور مسلسل پہنچ رہی ہے تاکہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ اور جو شخص اس ' ضرورت ' کا  دعویٰ کر کے نبوت کا ڈھونگ رچاتا ہے، وہ جھوٹا اور دجال ہے۔

 ٤٨۔(۱)  یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سے معجزات، جیسے لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا وغیرہ

٤٨۔ (۲)  یعنی مطلوبہ معجزات، اگر دکھا بھی دیئے جائیں تو کیا فائدہ، جنہیں ایمان نہیں لانا، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ کیا موسیٰ علیہ السلام کے مذکورہ معجزات دیکھ کر فرعونی مسلمان ہو گئے تھے، انہوں نے کفر نہیں کیا؟ یا یکفُروا کی ضمیر قریش مکہ کی طرف ہے یعنی کیا انہوں نے نبوت محمدیہ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر نہیں کیا۔

٤٨۔ (۳) پہلے مفہوم کے اعتبار سے دونوں سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام ہوں گے اور دوسرے مفہوم اس سے قرآن اور تورات مراد ہوں گے یعنی دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم سب کے یعنی موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے منکر ہیں۔ (فتح القدیر)

٤٩۔ یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ قرآن مجید اور تورات دونوں جادو ہیں، تو تم کوئی اور کتاب الٰہی پیش کر دو، جو ان سے زیادہ ہدایت والی ہو، میں اس کی پیروی کرونگا، کیونکہ میں ہدایت کا طالب اور پیرو ہوں۔

 ٥٠۔ (۱) یعنی قرآن و تورات سے زیادہ ہدایت والی کتاب پیش نہ کر سکیں اور یقیناً نہیں کر سکیں گے۔

٥٠۔ (۲)  یعنی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا یہ سب سے بڑی گمراہی ہے اور اس لحاظ سے یہ قریش مکہ سب سے بڑے گمراہ ہیں جو ایسی حرکت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

۵۱۔(۱) یعنی ایک رسول کے بعد دوسرا رسول، ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب ہم بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل لگاتار ہم اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے۔

۵۱۔ (۲)  مقصد اس سے یہ تھا کہ لوگ پچھلے لوگوں کے انجام سے ڈر کر اور ہماری باتوں سے نصیحت حاصل کر کے ایمان لے آئیں۔

 ٥٢۔ اس سے مراد یہودی ہیں جو مسلمان ہو گئے تھے، جیسے عبد اللہ بن سلام وغیرہ یا وہ عیسائی ہیں جو حبشہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے تھے اور آپ کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر مسلمان ہو گئے تھے (ابن کثیر)

۵۳۔ یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جسے قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر دور میں اللہ کے پیغمبروں نے جس دین کی دعوت دی، وہ اسلام ہی تھا اور ان نبیوں کی دعوت پر ایمان لانے والے مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ یہود یا نصاریٰ وغیرہ کی اصطلاحیں لوگوں کی اپنی خود ساختہ ہیں جو بعد میں ایجاد ہوئیں۔ اسی اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والے اہل کتاب (یہود یا عیسائیوں ) نے کہا کہ ہم تو پہلے سے ہی مسلمان چلے آ رہے ہیں۔ یعنی سابقہ انبیاء کے پیروکار اور ان پر ایمان رکھنے والے ہیں۔

۵٤۔(۱)  صبر سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔ پہلی کتاب آئی تو اس پر، اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا۔ پہلے نبی پر ایمان لائے، اس کے بعد دوسرا نبی آ گیا تو اس پر ایمان لائے۔ ان کے لئے دوہرا اجر ہے، حدیث میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تین آدمیوں کے لئے دوہرا اجر ہے، ان میں ایک وہ اہل کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لے آیا۔

۵٤۔ (۲)  یعنی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کر دیتے ہیں اور درگزر سے کام لیتے ہیں۔

 ۵۵۔(۱)  یہاں لغو سے مراد وہ سب و شتم اور دین کے ساتھ استہزاء ہے جو مشرکین کرتے تھے۔

٥٥۔ (۲)  یہ سلام، سلام تحیہ نہیں بلکہ سلام متارکہ ہے یعنی ہم تم جیسے جاہلوں سے بحث اور گفتگو کے روادار ہی نہیں، جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں جاہلوں کو دور ہی سے سلام، ظاہر ہے سلام سے مراد ترک بول چال اور آمنا سامنا ہی ہے۔

 ٥٦۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی، جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمدرد اور غمسار چچا ابو طالب کا انتقال ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوشش فرمائی کہ چچا اپنی زبان سے ایک مرتبہ لاَ اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دیں تاکہ قیامت والے دن میں اللہ سے ان کی مغفرت کی سفارش کر سکوں۔ لیکن وہاں پر دوسرے رؤسائے قریش کی موجودگی کی وجہ سے ابو طالب قبول ایمان کی سعادت سے محروم رہے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہو گیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کا بڑا صدمہ تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر واضح کیا کہ آپ کا کام صرف تبلیغ و دعوت اور راہنمائی ہے۔ لیکن ہدایت کے اوپر چلا دینا یہ ہمارا کام ہے۔ ہدایت اسے ہی ملے گی جسے ہم ہدایت سے نوازنا چاہیں نہ کہ اسے جسے آپ ہدایت پر دیکھنا پسند کریں (صحیح بخاری)

۵۷۔ (۱) یعنی ہم جہاں ہیں، وہاں ہمیں رہنے دیا جائے گا اور ہمیں اذیتوں سے یا مخالفین سے جنگ و پیکار سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ بعض کفار نے ایمان نہ لانے کا عذر پیش کیا۔ اللہ نے جواب دیا۔

٥٧۔ (۲)  یعنی ان کا یہ عذر غیر معقول ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو، جس میں یہ رہتے ہیں، امن والا بنایا ہے جب یہ شہر ان کے کفر و شرک کی حالت میں ان کے لئے امن کی جگہ ہے تو کیا اسلام قبول کر لینے کے بعد وہ ان کے لئے امن کی جگہ نہیں رہے گا؟

٥٧۔ (۳) یہ مکے کی وہ خصوصیت ہے جس کا مشاہدہ لاکھوں حاجی اور عمرہ کرنے والے ہر سال کرتے ہیں کہ مکے میں پیداوار نہ ہونے کے باوجود نہایت فراوانی سے ہر قسم کا پھل بلکہ دنیا بھر کا سامان ملتا ہے۔

٥٨۔(۱)  یہ اہل مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے کہ تم دیکھتے نہیں کہ اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اللہ کی ناشکری کرنے اور سرکشی کرنے والوں کا انجام کیا ہوا، آج ان کی بیشتر آبادیاں کھنڈر بنی ہوئی یا صرف صفحات تاریخ پر ان کا نام رہ گیا ہے۔ اور اب آتے جاتے مسافر ہی ان میں کچھ دیر کے لئے سستا لیں تو سستا لیں، ان کی نحوست کی وجہ سے کوئی بھی ان میں مستقل رہنا پسند نہیں کرتا۔

٥٨۔ (۲)  یعنی ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا جو ان مکانوں اور مال و دولت کا وارث ہوتا۔

 ٥٩۔(۱)  یعنی تمام حجت کے بغیر کسی کو ہلاک نہیں کرتا، ہر چھوٹے بڑے علاقے میں نبی نہیں آیا، بلکہ مرکزی مقامات پر نبی آتے رہے اور چھوٹے علاقے اس کے زیر اثر میں آ جماتے رہے ہیں۔

٥٩۔ (۲)  یعنی نبی بھیجنے کے بعد وہ بستی والے ایمان نہ لاتے اور کفر و شرک پر اپنا اصرار جاری رکھتے تو پھر انہیں ہلاک کر دیا جاتا، یہی مضمون سورہ ہود۔١١٧ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

٦٠۔ کیا اس حقیقت سے بھی تم بے خبر ہو کہ یہ دنیا اور اس کی رونقیں عارضی بھی ہیں اور حقیر بھی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے اپنے پاس جو نعمتیں، آسائشیں اور سہولتیں تیار کر رکھی ہیں وہ دائمی بھی ہیں اور عظیم بھی، حدیث میں ہے ' اللہ کی قسم دنیا، آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو کر نکال لے، دیکھے کہ سمندر کے مقابلے میں انگلی میں کتنا پانی ہو گا۔ (صحیح بخاری)

٦١۔ یعنی سزا اور عذاب کا مستحق ہو گا مطلب ہے اہل ایمان، وعدہ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نافرمان عذاب سے دو چار، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔

 ٦٢۔ یعنی وہ بُت یا اشخاص ہیں، جن کو تم دنیا میں میری الوہیت میں شریک گردانتے تھے، انہیں مدد کے لئے پکارتے تھے اور ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے، آج کہاں ہیں ؟ کیا وہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور تمہیں میرے عذاب سے چھڑا سکتے ہیں ؟ یہ تقریع وتوبیخ کے طور پر اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا، ورنہ وہاں اللہ کے سامنے کس کو مجال دم زدنی ہو گی؟ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورہ الانعام، آیت ۹٤ اور دیگر بہت سے مقامات پر بیان فرمایا ہے۔

 ٦٣۔ یعنی جو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے، مثلاً سرکش شیاطین اور دعویٰ کفر و شرک وغیرہ وہ کہیں گے۔

۶۳۔ (۲)  یہ جاہل عوام کی طرف اشارہ ہے جن کو دعویٰ کفر نے اور شیاطین نے گمراہ کیا تھا۔

۶۳۔(۳)  یعنی ہم تو تھے ہی گمراہ لیکن ان کو بھی اپنے ساتھ گمراہ کئے رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا تھا، بس ہمارے ادنی سے اشارے پر ہماری طرح ہی انہوں نے بھی گمراہی احتیار کر لی۔

 ۶۳۔(۴) یعنی ہم ان سے بیزار اور الگ ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ وہاں یہ تابع اور متبوع، چیلے اور گرو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔

 ۶۳۔۵ بلکہ درحقیقت اپنی خواہشات کی پیروی کرتے تھے۔ یعنی وہ معبودین، جن کی لوگ دنیا میں عبادت کرتے تھے، اس بات سے ہی انکار کر دیں گے کہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔

٦٤۔ (۱) یعنی ان سے مدد طلب کرو، جس طرح دنیا میں کرتے تھے کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں ؟ پس وہ پکاریں گے، لیکن وہاں کس کو یہ جرت ہو گی کہ جو یہ کہے کہ ہاں ہم تمہاری مدد کرتے ہیں ؟

۶۴۔ (۲)  یعنی یقین کر لیں گے کہ ہم سب جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔

 ۶۴۔ (۳)  یعنی عذاب دیکھ لینے کے بعد آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں ہدایت کا راستہ اپنا لیتے تو آج وہ اس حشر سے بچ جاتے۔ سورہ کہف ٥۲،٥۳ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

 ٦٥۔ اس سے پہلے کی آیات میں توحید سے متعلق سوال تھا، یہ ندائے ثانی رسالت کے بارے میں ہے، یعنی تمہاری طرف ہم نے رسول بھیجے تھے، تم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، ان کی دعوت قبول کی تھی؟ جس طرح قبر میں سوال ہوتا ہے، تیرا پیغمبر کون ہے ؟ تیرا دین کونسا ہے ؟ مومن تو صحیح جواب دے دیتا ہے لیکن کافر کہتا ہے مجھے تو کچھ معلوم نہیں، اسی طرح قیامت والے دن انہیں اس سوال کا جواب نہیں سوجھے گا۔ اسی لئے آگے فرمایا‏‏، ان پر تمام حبریں اندھی ہو جائیں گی، یعنی کوئی دلیل ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی جسے وہ پیش کر سکیں۔ یہاں دلائل کو احبار سے تعبیر کر کے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ان کے باطل عقائد کے لئے حقیقت میں ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں، صرف قصص و حکایات ہیں، جیسے آج بھی قبر پرستوں کے پاس من گھڑت کراماتی قصوں کے سوا کچھ نہیں۔

۶۶۔ کیونکہ انہیں یقین ہو چکا ہو گا کہ سب جہنم میں داخل ہونے والے ہیں۔

 ٦٨۔ یعنی اللہ تعالیٰ مختار کل ہے اس کے مقابلے میں کسی کو سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں، چہ جائکہ کوئی مختار کل ہو۔

۷۳۔(۱) دن اور رات، یہ دونوں اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ رات کو تاریک بنایا تاکہ سب لوگ آرام کر سکیں۔ اس اندھیرے کی وجہ سے ہر مخلوق سونے اور آرام کرنے پر مجبور ہے۔ ورنہ اگر آرام کرنے اور سونے کے اپنے اپنے اوقات ہوتے تو کوئی بھی مکمل طریقے سے سونے نہ پاتا، جب کہ معاشی تگ و دو اور کاروبار جہاں کے لئے نیند کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر توانائی بحال نہیں ہوتی۔ اگر کچھ لوگ سو رہے ہوتے اور کچھ لوگ جاگ کر مصروف تگ و تاز ہوتے، تو سونے والوں کے آرام و راحت میں خلل پڑتا، نیز لوگ ایک دوسرے کے تعاون سے بھی محروم رہتے، جب کہ دنیا کا نظام ایک دوسرے کے تعاون و تناصر کا محتاج ہے اس لئے اللہ نے رات کو تاریک کر دیا تاکہ ساری مخلوق بیک وقت آرام کرے اور کوئی کسی کی نیند اور آرام میں مخل نہ ہو سکے۔ اسی طرح دن کو روشن بنایا تاکہ روشنی میں انسان اپنا کاروبار بہتر طریقے سے کر سکے۔ دن کی یہ روشنی نہ ہوتی تو انسان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، اسے ہر شخص باآسانی سمجھتا اور اس کا ادارک رکھتا ہے۔ اللہ نے اپنی ان نعمتوں کے حوالے سے اپنی توحید کا اثبات فرمایا ہے کہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ دن اور رات کا یہ نظام ختم کر کے ہمیشہ کے لئے تم پر رات ہی مسلط کر دے۔ تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ایسا ہے جو تمہیں دن کی روشنی عطا کر دے ؟ یا اگر وہ ہمیشہ کے لئے دن ہی دن رکھے تو کیا کوئی تمہیں رات کی تاریکی سے بہرہ ور کر سکتا ہے، جس میں تم آرام کر سکو؟نہیں یقیناً نہیں۔ یہ صرف اللہ کی کمال مہربانی ہے کہ اس نے دن اور رات کا ایسا نظام قائم کر دیا ہے کہ رات آتی ہے تو دن کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور انسان کسب و محنت کے ذریعے سے اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرتا ہے۔

 ٧٣۔ (۲)  یعنی اللہ کی حمد و ثنا بھی بیان کرو (یہ زبانی شکر ہے ) اور اللہ کی دی ہوئی دولت، صلاحیتوں اور توانائیں کو اس کے احکام و ہدایات کے مطابق استعمال کرو۔ (یہ عملی شکر ہے )

٧٥۔ (۱) اس گواہ سے مراد پیغمبر ہے۔ یعنی ہر امت کے پیغمبر کو اس امت سے الگ کھڑا کر دیں گے۔

٧٥۔ (۲)  یعنی دنیا میں میرے پیغمبروں کی دعوت توحید کے باوجود میرے شریک ٹھہراتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بھی عبادت کرتے تھے، اس کی دلیل پیش کرو۔

٧٥۔ (۳) یعنی وہ حیران اور ساکت کھڑے ہوں گے، کوئی جواب اور دلیل انہیں نہیں سوجھے گی۔

۷۵۔(۴) یعنی ان کے کام نہیں آئے گا۔

 ٧٦۔ (۱) اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس کا ظلم یہ تھا کہ اپنے مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کا استخفاف کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کی طرف سے یہ اپنی قوم بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔

٧٦۔ (۲)  تنوء کے معنی تمیل (جھکنا) جس طرح کوئی شخص بھاری چیز اٹھاتا ہے تو بوجھ کی وجہ سے ادھر ادھر لڑکھڑاتا ہے اس کی چابیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک طاقتور جماعت بھی اسے اٹھاتے ہوئے گرانی محسوس کرتی تھی۔

۷۶۔ (۳) یعنی تکبر اور غرور مت کرو، بعض نے بخل، معنی کئے ہیں، بخل مت کر۔

۷۶۔(۴) یعنی تکبر اور غرور کرنے والوں کو یا بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

٧٧۔ (۱) یعنی اپنے مال کو ایسی جگہوں اور راہوں پر خرچ کر، جہاں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، اس سے تیری آخرت سنورے گی اور وہاں اس کا تجھے اجر ثواب ملے گا۔

۷۷۔ (۲)  یعنی دنیا کے مباحات پر بھی اعتدال کے ساتھ خرچ کر مباحات دنیا کیا ہیں ؟ کھانا پینا، لباس، گھر اور نکاح وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تجھ پر تیرے رب کا حق ہے، اسی طرح تیرے اپنے نفس کا، بیوی بچوں کا اور مہمانوں وغیرہ کا بھی حق ہے، ہر حق والے کو اس کا حق دے۔

۷۷۔ (۳)  اللہ نے تجھے مال دے کر تجھ پر احسان کیا ہے تو مخلوق پر حرچ کر کے ان پر احسان کر۔

۷۷۔(۴) یعنی تیرا مقصد زمین میں فساد پھیلانا نہ ہو۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے بجائے بدسلوکی مت کر، نہ معصیتوں کا ارتکاب کر کہ ان تمام باتوں سے فساد پھیلتا ہے۔

۷۸۔(۱)  ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب وتجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اسکا اور ثمر ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اسکا کیا تعلق ہے ؟ جو سرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے ‏، جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے (انما أوتیتہ علی علم) (القصص ۷۸) أی۔ علی علم من اللہ یعنی مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا، ایک مقام پر ہے،، جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے۔ (ھذا لی) (حم سجدہ ٥۰) أی۔ ہذا أستحقہ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کمائی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کر لیتا۔

 ٧٨۔ (۲)  یعنی قوت اور مال کی فراوانی۔ یہ فضیلت کا باعث نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ و برباد نہ ہوتیں۔ اس لئے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔

٧٨۔ (۳)  یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے مستحق عذاب قرار دئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کر لیا جاتا ہے۔

 ٧٩۔ (۱) یعنی زینت و آرائش کے ساتھ۔

٧٩۔ (۲)  یہ کہنے والے کون تھے ؟ بعض کے نزدیک ایماندار ہی تھے جو اس کی امارت و شوکت کے مظاہرے سے متاثر ہو گئے تھے اور بعض کے نزدیک کافر تھے۔

 ٨٠۔ (۱) یعنی جن کے پاس دین کا علم تھا اور دنیا اور اس کے مظاہر کی اصل حقیقت سے باخبر تھے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے اہل ایمان اور اعمال صالح بجا لانے والوں کے لئے جو اجر و ثواب رکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جیسے حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ فرماتا ہے ' میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی کے وہم و گمان میں ان کا ذکر ہوا ' (البخاری کتاب التوحید)

۸۰۔ (۲)  یعنی یلقاھا میں ھا کا مرجع، کلمہ ہے اور یہ قول اللہ کا ہے۔ اور اگر اسے اہل علم ہی کے قول کا تتمہ قرار دیا جائے تو ھا کا مرجع جنت ہو گی یعنی جنت کے مستحق وہ صابر ہی ہوں گے جو دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش اور آخرت کی زندگی میں رغبت رکھنے والے ہوں گے۔

۸۱۔یعنی قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے محل اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ایک آدمی اپنی ازار زمین پر لٹکائے جا رہا تھا (اللہ کو اس کا یہ تکبر پسند نہیں آیا) اور اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا،۔

٨٢۔ (۱) مکان سے مراد دنیاوی مرتبہ و منزلت ہے جو دنیا میں عارضی طور پر ملتا ہے۔ جیسے قارون کو ملا تھا، مطلب یہ ہے کہ قارون کی سی دولت و حشمت کی آرزو کرنے والوں نے جب قارون کا عبرت ناک حشر دیکھا تو کہا کہ مال و دولت، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو مال زیادہ دیتا ہے اور کسی کو کم اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، مال کی فراوانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی ناراضگی کی دلیل نہیں ہے نہ یہ معیار فضیلت ہے۔

٨٢۔ (۲)  یعنی ہم بھی اسی حشر سے دوچار ہوتے جس سے قارون دو چار ہوا۔

٨٢۔ (۳) یعنی قارون نے دولت پا کر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اور معصیت کا راست اختیار کیا تو دیکھ لو اس کا انجام بھی کیسا ہوا؟ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔

۸۳۔۱ علو کا مطلب ہے ظلم و زیادتی، لوگوں سے اپنے کو بڑا اور برتر سمجھنا اور باور کرانا، تکبر اور فخر غرور کرنا اور فساد کے معنی ہیں ناحق لوگوں کا مال ہتھیانا یا نافرمانیوں کا ارتکاب کرنا کہ ان دونوں باتوں سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ فرمایا کہ متقین کا عمل و اخلاق ان برائیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوتا ہے اور تکبر کے بجائے ان کے اندر تواضع، فروتنی اور معصیت کیثی کی بجائے اطاعت کیسی ہوتی ہے اور آخرت کا گھر یعنی جنت اور حسن انجام انہی کے حصے میں آئے گا۔

 ٨٤۔ (۱) یعنی کم از کم ہر نیکی کا بدلہ دس گنا تو ضرور ہی ملے گا، اور جس کے لئے اللہ چاہے گا، اس سے بھی زیادہ، کہیں زیادہ، عطا فرمائے گا۔

۸٤۔ (۲)  یعنی نیکی کا بدلہ تو بڑھا چڑھا کر دیا جائے گا لیکن برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہی ملے گا۔ یعنی نیکی کی جزا میں اللہ کے فضل و کرم کا اور بدی کی جزا میں اس کے عدل کا مظاہرہ ہو گا۔

٨٥۔ (۱) یا اس کی تلاوت اور اس کی تبلیغ و دعوت آپ پر فرض کی ہے۔

۸۵۔ (۲)  یعنی آپ کے مولد مکہ، جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر نقل ہوئی ہے۔ چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ کا یہ وعدہ پورا ہو گیا اور آپ ۸ ہجری میں فاتحانہ طور پر مکے میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کو اپنی طرف لوٹائے گا اور تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھے گا۔

۸۵۔ (۳)  یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے آبائی اور روایتی مذہب سی انحراف کی بنا پر گمراہ سمجھتے تھے۔ فرمایا، میرا رب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں ہوں، جو اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں یا تم ہو، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے ہو؟

 ٨٦۔ (۱) یعنی نبوت سے قبل آپ کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ کو رسالت کے لئے چنا جائے گا اور آپ پر کتاب الٰہی کا نزول ہو گا۔

٨٦۔ (۲)  یعنی نبوت و کتاب سے سرفرازی، اللہ کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے جو آپ پر ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جسے محنت اور سعی و کاوش سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا رہا، نبوت و رسالت سے مشرف فرماتا رہا، جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سلسلہ الزہب کی آخری کڑی قرار دے کر اسے موقوف فرما دیا

٨٦۔ (۳) اب اس نعمت اور فضل الٰہی کا شکر آپ اس طرح ادا کریں کہ کافروں کی مدد اور ہمنوائی نہ کریں۔

۸۷۔ یعنی ان کافروں کی باتیں، انکی ایذاء رسانی اور انکی طرف سے تبلیغ و دعوت کی راہ میں رکاوٹیں، آپ کو قرآن کی تلاوت اور اس کی تبلیغ سے نہ روک دیں۔ بلکہ آپ پوری تن دہی اور یکسوئی سے رب کی طرف بلانے کا کام کرتے رہیں۔

 ٨٨۔ (۱) یعنی کسی اور کی عبادت نہ کرنا، نہ دعا کے ذریعے سے، نہ نذر نیاز کے ذریعے، نہ ہی قربانی کے ذریعے سے کہ یہ سب عبادات ہیں جو صرف ایک اللہ کے لئے خاص ہیں۔ قرآن میں ہر جگہ غیر اللہ کی عبادت کو پکارنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے مقصود اسی نکتے کی وضاحت ہے کہ غیر اللہ کو ما فوق الا سباب طریقے سے پکارنا، ان سے استغاثہ کرنا، ان سے دعائیں اور التجائیں کرنا یہ ان کی عبادت ہی ہے جس سے انسان مشرک بن جاتا ہے۔

۸۸۔ (۲)  وجھہ (اس کا منہ) سے مراد اللہ کی ذات ہے جو وجہ (چہرہ) سے متصف ہے۔ یعنی اللہ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہو جانے والی ہے۔

۸۸۔ (۳)  یعنی اسی کا فیصلہ، جو وہ چاہے، نافذ ہوتا ہے اور اسی کا حکم، جس کا وہ ارادہ کرے، چلتا ہے۔

۸۸۔(۴) تاکہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو انکی بدیوں کی سزا دے۔