احسن البیان

سورة إبراهیم

١۔ (۱) جس طرح دوسرے مقام پر بھی اللہ نے فرمایا '(ھو الذی ینزل علی عبدہ ایت بینت لیخرجکم من الظلمت الی النور) سورہ الحدید۔ وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے '(اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمت الی النور) البقرۃ۔ اللہ ایمان داروں کا دوست ہے، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔

١۔ (۲)  یعنی پیغمبر کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کر لیتا ہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے کیونکہ اصل ہادی وہی ہے۔ اس کی مشیت اگر نہ ہو، تو پیغمبر کتنا بھی واعظ و نصیحت کر لے، لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جس کی متعدد مثالیں انبیائے سابقین میں موجود ہیں اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابو طالب کو مسلمان نہ کر سکے۔

 ٣۔ (۱) اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بد ظن کرنے کے لئے مین میکھ نکالتے اور انہیں مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔

٣۔ (۲)  اس لئے کہ ان میں مذکورہ متعدد خرابیاں جمع ہو گئی ہیں۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا اور اسلام میں کجی تلاش کرنا۔

٤۔ (۱) پھر جب اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے، تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔

٤۔ (۲)  لیکن اس بیان و تشریح کے باوجود ہدایت اسے ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔

٥۔ (۱) یعنی جس طرح اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہم نے آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں۔ اسی طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تاکہ وہ انہیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کریں۔ آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کو عطا کئے گئے تھے، یا وہ نو معجزات ہیں جن کا ذکر سورہ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔

٥۔ (۲)  اَ یَّامَ اللّٰہِ سے مراد اللہ کے وہ احسانات ہیں جو بنی اسرائیل پر کئے گئے جن کی تفصیل پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ یا ایام وقائع کے معنی میں ہے، یعنی وہ واقعات ان کو یاد دلا جن سے وہ گزر چکے ہیں جن میں ان پر اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعامات ہوئے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں بھی آ رہا ہے۔

٥۔ (۳) صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اور ایمان کا مدار ان پر ہے، اس لئے یہاں صرف ان دو کا تذکرہ کیا گیا ہے دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔صبار، بہت صبر کرنے والا، شکور، بہت شکر کرنے والا اور صبر کو شکر پر مقدم کیا ہے اس لئے کہ شکر، صبر کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جس امر کا بھی فیصلہ کرے، وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے '(صحیح مسلم)

 ٦۔ یعنی جس طرح یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی اسی طرح اس سے نجات اللہ کا بہت بڑا احسان تھا، اسی لئے بعض مترجمین نے بَلَاَء کا ترجمہ آزمائش اور بعض نے احسان کیا ہے۔

 ٧۔ (۱) اس نے تمہیں اپنے وعدے سے تمہیں آگاہ اور خبردار کر دیا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ قسم کے معنی میں ہو یعنی جب تمہارے رب نے اپنی عزت و جلال اور کبریائی کی قسم کھا کر کہا (ابن کثیر)

٧۔ (۲)  نعمت پر شکر کرنے پر مزید انعامات سے نوازوں گا،

٧۔ (۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ کفران نعمت (ناشکری) اللہ کو ناپسند ہے، جس پر اس نے سخت عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی فرمایا کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوندوں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی (صحیح مسلم)

 ٨۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی شکر گزاری کرے گا تو اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ ناشکری کرے گا تو اللہ کا اس میں کیا نقصان ہے ؟ وہ تو بے نیاز ہے سارا جہان ناشکر گزار ہو جائے تو اس کا کیا بگڑے گا جس طرح حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یا عبادی !لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب رجل واحد منکم مازاد ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی! لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی افجر قلب رجل واحد منکم ما نقصٓ ذلک فی ملکی شیئا یا عبادی لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم قاموا فی صٓعید واحد فسالونی فاعطیت کل انسان مسالتہ مانقصٓ ذلک من ملکی شیئا الا کما ینقض المخیط اذا ادخل فی البحر۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور اسی طرح تمام انسان اور جن، اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو، (یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے ) تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہو گا اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں، جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور انسان و جن، سب ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہو گی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے ' فَسُبْحَانَہُ وَ تَعَالَی الْغَنِیُّ الْحمِیْدُ '۔

٩۔ (۱) مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں مثلاً انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں، ٢۔ انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو،٣۔ انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر استہزاءً اور تعجب کے طور پر رکھ لیے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ ٤۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے رسولوں کے مونہوں پر رکھ کر کہا خاموش رہو،۔٥۔ بطور غیظ و غضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لے لیے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے عضوا علیکم الانامل من الغیظ۔ ال عمران۔ وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ و غضب سے کاٹتے ہیں۔ امام شوکانی اور امام طبری نے اسی آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔

٩۔ (۲)  مریب یعنی ایسا شک، کہ جس سے نفس سخت قلق اور اضطراب میں مبتلا ہے۔

 ١٠۔ (۱) یعنی تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمان و زمین کا خالق ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایمان و توحید کی دعوت بھی صرف اس لئے دے رہا ہے کہ تمہیں گناہوں سے پاک کر دے۔ اس کے باوجود تم اس خالق ارض و سماء کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس کی دعوت سے تمہیں انکار ہے ؟

١٠۔ (٢) یہ وہی اشکال ہے جو کافروں کو پیش آتا رہا کہ انسان ہو کر کس طرح کوئی وحی الٰہی اور نبوت و رسالت کا مستحق ہو سکتا ہے ؟

١٠۔ (۳) یہ دوسری رکاوٹ ہے کہ ہم ان معبودوں کی عبادت کس طرح چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے ہیں ؟ جب کہ تمہارا مقصد ہمیں ان کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت پر لگانا ہے۔

١٠۔(٤) دلائل و معجزات تو ہر نبی کے ساتھ ہوتے تھے، اس سے مراد ایسی دلیل یا معجزہ ہے جس سے دیکھنے کے وہ آرزومند ہوتے تھے جیسے مشرکین مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے مختلف قسم کے معجزات طلب کئے تھے، جس کا تذکرہ بنی اسرائیل میں آئے گا۔

 ١١۔ (۱) رسولوں نے پہلے اشکال کا جواب دیا کہ یقیناً ہم تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن تمہارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں میں سے ہی بعض انسانوں کو وحی و رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور تم سب میں سے یہ احسان اللہ نے ہم پر فرمایا ہے۔

١١۔ (۲)  ان کے حسب منشاء معجزے کے سلسلے میں رسولوں نے جواب دیا کہ معجزے کا صدور ہمارے اختیار میں نہیں، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔

۱۱۔ (۳)  یہاں مومنین سے مراد اولا خود انبیاء ہیں یعنی ہمیں سارا بھروسہ اللہ پر ہی رکھنا چاہیے جیسا کہ آگے فرمایا آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں۔

 ١٢۔ کہ وہی کفار کی شرارتوں اور سفاہتوں سے بچانے والا ہے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سے معجزات طلب نہ کریں، اللہ پر توکل کریں، اس کی مشیت ہو گی تو معجزہ ظاہر فرما دے گا ورنہ نہیں۔

١٣۔ جیسے اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا '(ولقدسبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین)۔ (انھم لھم المنصٓورون)۔ (وان جندنا لھم الغلبون)۔ سورۃ الصٓافات۔ پہلے ہو چکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ فتح مند اور کامیاب ہوں گے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہو گا '(کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی)۔ المجادلہ۔ اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے۔

 ١٤۔ (۱) یہ مضمون بھی اللہ نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے مثلاً، (ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصٓلحون)۔ الانبیا۔ ہم نے لکھ دیا زبور میں، نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے ' چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد فرمائی، آپ کو با دل نخواستہ مکے سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں بعد ہی آپ فاتحانہ مکے میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سر جھکائے، کھڑے آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے لیکن آپ نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے (لَا تَثْرِیبَ عَلیْکُمْ) کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔صلوات اللہ وسلامہ علیہ

۱٤۔ (۲)  جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔(واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۔ فان الجنۃ ہی الماوی)۔ النازعات۔ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے رکھا یقیناً جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔۔(ولمن خاف مقام ربہ جنتن)۔ الرحمن۔ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔

 ١٥۔ اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا (اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِر عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنْ السَّمَآءِ اَوِائُتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ) سورۃ انفال۔ ٣٢) ' اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے '۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال۔ ١٩) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح و نصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔

 ١٦۔ صَدِیْد، پیپ اور خون جو جہنمیوں کے گوشت اور ان کی کھالوں سے بہا ہو گا۔ بعض احادیث میں اسے (جہنمیوں کے جسم سے نچوڑا ہوا) اور بعض احادیث میں ہے یہ صدید اتنا گرم اور کھولتا ہوا ہو گا کہ ان کے منہ کے قریب پہنچتے ہی ان کے چہرے کی کھال جھلس کر گر پڑے گی اور اس کا ایک گھونٹ پیتے ہی ان کے پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی۔

 ١٧۔ یعنی انواع و اقسام کے عذاب چکھ چکھ کر وہ موت کی آرزو کرے گا۔ لیکن، موت وہاں کہاں ؟ وہاں تو اسی طرح دائمی عذاب ہو گا۔

 ١٨۔ قیامت والے دن کافروں کے عملوں کا بھی یہی حال ہو گا کہ اس کا کوئی اجر و ثواب انہیں نہیں ملے گا۔

 ٢٠۔ یعنی اگر تم نافرمانیوں سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر کے، تمہاری جگہ نئی مخلوق پیدا کر دے۔

 ٢١۔ (۱) یعنی سب میدان محشر میں اللہ کے روبرو ہوں گے، کوئی کہیں چھپ نہ سکے گا۔

٢١۔ (۲)  بعض کہتے ہیں کہ جہنمی آپس میں کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت اس لئے ملی کہ وہ اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے، آؤ ہم بھی اللہ کی بارگاہ میں آہو زاری کریں چنانچہ وہ روئیں گے اور خوب آہو زاری کریں گے۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، پھر کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت ان کے صبر کرنے کی وجہ سے ملی، چلو ہم بھی صبر کرتے ہیں، وہ صبر کا بھرپور مظاہرہ کریں گے، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، پس اس وقت کہیں گے ہم صبر کریں یا بے صبری، اب چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔ یہ ان کی باہمی گفتگو جہنم کے اندر ہو گی۔ قرآن کریم میں اس کو اور بھی کئی جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ مومن ٤٧۔٤٨ سورہ اعراف ٣٨۔٣٩ سورہ الاحزاب ٦٦۔٦٨۔ اس کے علاوہ آپس میں جھگڑیں گے بھی اور ایک دوسرے پر گمراہ کرنے کا الزام دھریں گے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ جھگڑا میدان محشر میں ہو گا۔ اس کی مزید تفصیل اللہ تعالیٰ نے سورہ سبا ٣١۔٣٣ میں بیان فرمائی ہے۔

 ٢٢۔ (۱) یعنی اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے تو شیطان جہنمیوں سے کہے گا

٢٢۔ (۲)  اللہ نے جو وعدے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے کئے تھے کہ نجات میرے پیغمبروں پر ایمان لانے میں ہے۔ وہ حق پر تھے ان کے مقابلے میں میرے وعدے تو سراسر دھوکا اور فریب تھے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا ' شیطان ان سے وعدے کرتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے لیکن شیطان کے یہ وعدے محض دھوکا ہیں ' (النساء۔١٢٠)

٢٢۔ (۳) دوسرا یہ کہ میری باتوں میں کوئی دلیل و حجت نہیں ہوتی تھی، نہ میرا کوئی دباؤ ہی تم پر تھا۔

٢٢۔(٤) ہاں میری دعوت اور پکار تھی، تم نے میری بے دلیل پکار کو مان لیا اور پیغمبروں کی دلیل و حجت سے بھرپور باتوں کو رد کر دیا۔

٢٢۔(٥) اس لئے قصور سارا تمہارا اپنا ہی ہے تم نے عقل و شعور سے ذرا کام نہ لیا، دلائل واضحہ کو تم نے نظر انداز کر دیا، اور مجرد دعوے کے پیچھے لگ رہے، جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں۔

٢٢۔(٦) یعنی نہ میں تمہیں عذاب سے نکلوا سکتا ہوں جس میں تم مبتلا ہو اور نہ تم اس قہر و غضب سے مجھے بچا سکتے ہو جو اللہ کی طرف سے مجھ پر ہے۔

٢٢۔(٧) مجھے اس بات سے بھی انکار ہے کہ میں اللہ کا شریک ہوں، اگر تم مجھے یا کسی اور کو اللہ کا شریک گردانتے رہے تو تمہاری اپنی غلطی اور نادانی تھی، جس اللہ نے ساری کائنات بنائی تھی اور اس کی تدبیر بھی وہی کرتا رہا، بھلا اس کا کوئی شریک کیونکر ہو سکتا تھا۔

٢٢۔(٨) بعض کہتے ہیں کہ یہ جملہ بھی شیطان ہی کا ہے اور یہ اس کے مذکورہ خطبے کا تتمہ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان کا کلام مِنْ قَبْلُ پر ختم ہو گیا، یہ اللہ کا کلام ہے۔

 ٢٣۔ (۱) یہ اہل شقاوت و اہل کفر کے مقابلے میں اہل سعادت اور اہل ایمان کا تذکرہ ہے۔ ان کا ذکر ان کے ساتھ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اہل ایمان والا کردار اپنانے کا شوق و رغبت پیدا ہو۔

٢٣۔ (۲)  یعنی آپس میں ان کا تحفہ ایک دوسرے کو سلام کرنا ہو گا۔ علاوہ ازیں فرشتے بھی ہر ہر دروازے سے داخل ہو ہو کر انہیں سلام عرض کریں گے۔

 ٢٥۔ اس کا مطلب ہے کہ مومن کی مثال اس درخت کی طرح ہے، جو گرمی ہو یا سردی ہر وقت پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن کے اعمال صالحہ شب و روز کے لمحات میں ہر آن اور ہر گھڑی آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں، کَلِمَۃ طَیِّبَۃ سے اسلام، یا لا اِلٰہ الا اللہ اور شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے (صحیح بخاری)

 ٢٦۔ کلمۂ خبیثہ سے مراد کفر اور شجرہ خبیثہ سے حنظل (اندرائن) کا درخت مراد ہے۔ جس کی جڑ زمین کے اوپر ہی ہوتی ہے اور ذرا سے اشارے سے اکھڑ جاتی ہے۔ یعنی کافر کے اعمال بالکل بے حیثیت۔ نہ وہ آسمان پر چڑھتے ہیں، نہ اللہ کی بارگاہ میں وہ قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔

 ٢٧۔ اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ ' موت کے بعد قبر میں جب مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے، تو وہ جواب میں اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں پس یہی مطلب ہے اللہ کے فرمان، (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) کا (صحیح بخاری) ایک اور حدیث میں ہے کہ ' جب بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے اٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تیری کیا رائے ہے، وہ مومن ہوتا ہے تو جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ فرشتے اسے جہنم کا ٹھکانا دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کی جگہ تیرے لئے جنت میں ٹھکانا بنا دیا ہے۔ پس وہ دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور اس کی قبر ستر ہاتھ کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس کی قبر کو قیامت تک نعمتوں سے بھر دیا جاتا ہے ' (صحیح مسلم، باب مذکور) ایک اثر میں ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے مَنْ رَبُّکَ؟ دِیْنُکَ؟ مَنْ نَّبِّکَ؟ تیرا رب کون ہے، تیرا دین کیا ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے ؟ پس اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے رَبِّی اللّٰہُ (میرا رب اللہ ہے )، وَ دِیْنِیَ الاِ سْلَامُ (میرا دین اسلام ہے ) وَ نَبِیِّی مُحَمَّد (اور میرے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں ) (تفسیر ابن کثیر)

٢٨۔ اس کی تفسیر صحیح بخاری میں ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ ہیں، جنہوں نت رسالت محمدیہ کا انکار کر کے اور جنگ بدر میں مسلمانوں سے لڑ کر اپنے لوگوں کو ہلاک کروایا، تاہم اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ عام ہے اور مطلب یہ ہو گا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین اور لوگوں کے لئے نعمت الٰہیہ بنا کر بھیجا، پس جس نے اس نعمت کی قدر کی، اسے قبول کیا، اس نے شکر ادا کیا، وہ جنتی ہو گیا اور جس نے اس نعمت کو رد کر دیا اور کفر اختیار کیے رکھا، وہ جہنمی قرار پایا۔

 ٣٠۔ یہ تہدید و توبیخ ہے کہ دنیا میں تم جو کچھ چاہو کر لو، مگر کب تک؟ بالآخر تمہارا ٹھکانا جہنم ہے۔

 ٣١۔ نماز کو قائم کرنے کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر اور نماز کو ٹھیک طریقہ کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے۔ انفاق کا مطلب ہے زکوٰۃ ادا کی جائے، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور دیگر ضرورت مندوں پر احسان کیا جائے یہ نہیں کہ صرف اپنی ذات اور اپنی ضروریات پر تو بلا دریغ خوب خرچ کیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی جگہوں پر خرچ کرنے سے گریز کیا جائے۔ قیامت کا دن ایسا ہو گا کہ جہاں نہ خرید و فروخت ممکن ہو گی نہ کوئی دوستی ہی کسی کام آئے گی۔

 ٣٢۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات پر جو انعامات کئے ہیں، ان میں بعض کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے۔ فرمایا آسمان کو چھت اور زمین کو بچھونا بنایا۔ آسمان سے بارش نازل فرما کر مختلف قسم کے درخت اور فصلیں اگائیں جن میں ذائقہ اور قوت کے لئے میوے اور فروٹ بھی ہیں اور انواع و اقسام کے غلے بھی جن کے رنگ اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ذائقے اور خوشبو اور فوائد بھی مختلف ہیں۔ کشتیوں اور جہازوں کو خدمت میں لگا دیا کہ وہ تلاطم خیز موجوں پر چلتے ہیں انسانوں کو بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچاتے ہیں اور سامان تجارت بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں زمینوں اور پہاڑوں سے چشمے اور نہریں جاری کر دیں تاکہ تم بھی سیراب ہو اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرو۔

 ٣٣۔ (۱) یعنی مسلسل چلتے رہتے ہیں، کبھی ٹھرتے نہیں رات کو، نہ دن کو۔ علاوہ ازیں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں لیکن کبھی ان کا باہمی تصادم اور ٹکراؤ نہیں ہوتا۔

٣٣۔ (۲)  رات اور دن، ان کا باہمی تفاوت جاری رہتا ہے، کبھی رات، دن کا کچھ حصہ لے کر لمبی ہو جاتی ہے اور کبھی دن، رات کا کچھ حصہ لے کر لمبا ہو جاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ابتدائے کائنات سے چل رہا ہے، اس میں ایک رائی فرق نہیں آیا۔

 ٣٤۔ (۱) یعنی اس نے تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں مہیا کیں جو تم اس سے طلب کرتے ہو، وہ بھی دیتا ہے اور جسے نہیں مانگتے، لیکن اسے پتہ ہے کہ وہ تمہاری ضرورت ہے، وہ بھی دے دیتا ہے۔ غرض تمہیں زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں فراہم کرتا ہے۔

٣٤۔ (۲)  یعنی اللہ کی نعمتیں ان گنت ہیں انہیں کوئی شمار میں نہیں لا سکتا۔ چہ جائیکہ کوئی ان نعمتوں کے شکر کا حق ادا کر سکے۔ ایک اثر میں حضرت داؤد علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ' اے رب! میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں ؟ جب کہ شکر بجائے خود تیری طرف سے مجھ پر ایک نعمت ہے ' اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' اے داؤد اب تو نے میرا شکر ادا کر دیا جب کہ تو نے اعتراف کر لیا کہ یا اللہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں ' (تفسیر ابن کثیر)

٣٤۔ (۳) اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے غفلت کی وجہ سے انسان اپنے نفس کے ساتھ ظلم اور بے انصافی کرتا ہے۔ بالخصوص کافر، جو بالکل ہی اللہ سے غافل ہے۔

٣٥۔ ' اس شہر 'سے مراد مکہ ہے۔ دیگر دعاؤں سے قبل یہ دعا کی کہ اسے امن والا بنا دے، اس لئے کہ امن ہو گا تو لوگ دوسری نعمتوں سے بھی صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکیں گے، ورنہ امن و سکون کے بغیر تمام آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود، خوف اور دہشت کے سائے انسان کو مضطرب اور پریشان رکھتے ہیں۔ جیسے آجکل کے عام معاشروں کا حال ہے۔ سوائے سعودی عرب کے۔ وہاں اس دعا کی برکت سے اور اسلامی حدود کے نفاذ سے آج بھی ایک مثالی امن قائم ہے۔صانھا اللہ عن الشرور والفتن۔ یہاں انعامات الہیہ کے ضمن میں اسے بیان فرما کر اشارہ کر دیا کہ قریش جہاں اللہ کے دیگر انعامات سے غافل ہیں اس خصوصی انعام سے بھی غافل ہیں کہ اس نے انہیں مکہ جیسے امن والے شہر کا باشندہ بنایا۔

 ٣٦۔ گمراہ کرنے کی نسبت ان پتھروں کی مورتیوں کی طرف جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے، باوجود اس بات کے کہ وہ غیر عاقل ہیں، کیونکہ گمراہی کا باعث تھیں اور ہیں۔

 ٣٧۔ (۱) مِنْ ذُرِّیَّتِیْ میں مِن اولاد کے لئے ہے۔ یعنی بعض کہتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آٹھ صلبی بیٹے تھے، جن میں سے صرف حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہاں بسایا (فتح القدیر)

٣٧۔ (۲)  عبادت میں صرف نماز کا ذکر کیا، جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے۔

٣٧۔ (۳) یہاں بھی اولاد کے لئے ہے۔ کہ کچھ لوگ، مراد اس سے مسلمان ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ  کس طرح دنیا بھر کے مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور حج کے علاوہ بھی سارا سال یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اَفْئِدَۃَ النَّاسِ (لوگوں کے دلوں ) کہتے تو عیسائی، یہودی، مجوسی اور دیگر تمام لوگ مکہ پہنچتے۔ مِنَ النَّاسِ کے مِنْ نے اس دعا کو مسلمانوں تک محدود کر دیا (ابن کثیر)

٣٧۔(٤) اس دعا کی تاثیر بھی دکھ لی جائے کہ مکہ جیسی بے آب و گیاہ سرزمین میں جہاں کوئی پھلدار درخت نہیں، دنیا بھر کے پھل اور میوے نہایت فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں حج کے موقع پر بھی، جب لاکھوں افراد مزید وہاں پہنچ جاتے ہیں، پھلوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں آتی، کہا جاتا ہے کہ یہ دعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد مانگی۔ جب کہ پہلی دعا اس وقت مانگی، جب اپنی اہلیہ اور شیر خوار بچے اسماعیل کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر وہاں چھوڑ کر چلے گئے (ابن کثیر)

 ٣٨۔ مطلب یہ ہے کہ میری دعا کے مقصد کو تو بخوبی جانتا ہے، اس شہر کے لئے دعا سے اصل مقصد تیری رضا ہے تو تو ہر چیز کی حقیقت کو خوب جانتا ہے، آسمان و زمین کی کوئی چیز تجھ سے پوشیدہ نہیں۔

 ٤٠۔ اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی، جیسے اس سے قبل بھی اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی کہ انہیں پتھر کی مورتیوں کو پوجنے سے بچا رکھنا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین کے داعیوں کو اپنے گھر والوں کی ہدایت اور ان کی دینی تعلیم و تربیت سے غافل نہیں رہنا چاہیے تبلیغ و دعوت میں انہیں اولیت دینی چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی حکم دیا (وَ اَنْذِرُ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ) ' اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائے '

 ٤١۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت کی جب کہ ابھی ان پر اپنے ماں باپ کا عَدُوُّاللّٰہِ ہونا واضح نہیں ہوا تھا، جب یہ واضح ہو گیا کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اظہار سبکدوشی کر دیا۔ اس لئے کہ مشرکین کے لئے دعا کرنا جائز نہیں چاہے وہ قرابت قریبہ ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔

 ٤٢۔ یعنی قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے۔ اگر دنیا میں اگر اللہ نے کسی کو زیادہ مہلت دے دی اور اس کے مرنے تک اس کا مواخذہ نہیں کیا تو قیامت کے دن تو وہ مواخذہ الٰہی سے نہیں بچ سکے گا، جو کافروں کے لئے اتنا ہولناک دن ہو گا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

 ٤٣۔ (۱) مھطعین۔ تیزی سے دوڑ رہے ہوں گے۔ دوسرے مقام پر فرمایا، مھطعین الی الداع۔ القمر بلانے والے کی طرف دوڑیں گے اور حیرت سے ان کے سر اٹھے ہوئے ہوں گے۔

٤٣۔ (۲)  جو ہولناکیاں وہ دیکھیں گے اور جو فکر اور خوف اپنے بارے میں انہیں ہو گا، ان کے پیش نظر ان کی آنکھیں ایک لمحہ کے لئے بھی پست نہیں ہوں گی اور کثرت خوف سے ان کے دل گرے ہوئے اور خالی ہوں گے۔

 ٤٤۔ یعنی دنیا میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ کوئی حساب کتاب اور جنت دوزخ نہیں، دوبارہ کسے زندہ ہونا ہے۔

 ٤٥۔ یعنی عبرت کے لئے ہم نے تو ان کی پچھلی قوموں کے واقعات بیان کر دیئے ہیں، جن کے گھروں میں تم آباد ہو اور ان کے کھنڈرات بھی تمہیں دعوت غور و فکر دے رہے ہیں۔ اگر تم نے ان سے عبرت حاصل نہیں کی اور ان کے انجام سے بچنے کی فکر نہ کرو تو تمہاری مرضی۔ پھر تم بھی اسی انجام کے لئے تیار رہو

٤٦۔ (۱) یہ جملہ حالیہ ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ جو کیا وہ کیا، در آں حالیکہ انہوں نے باطل کے اثبات اور حق کے رد کرنے کے لئے مقدور بھر حیلے اور مکر کیے اور اللہ کو ان تمام چالوں کا علم ہے یعنی اس کے پاس درج ہے جس کی وہ ان کو سزا دے گا۔

٤٦۔ (۲)  کیونکہ اگر پہاڑ ٹل گئے ہوتے تو اپنی جگہ برقرار نہ ہوتے، جب کہ سب پہاڑ اپنی اپنی جگہ ثابت اور برقرار ہیں۔ یہ ان نافیہ کی صورت میں ہے دوسرے معین ان مخففۃ من المثقلۃ کے لیے گئے ہیں یعنی یقیناً ان کے مکر تو اتنے بڑے تھے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جاتے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان کے مکروں کو کامیاب نہیں ہوتے دیا جیسے مشرکین کے شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تکاد السموات یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخرالجبال ھدا۔ ان دعوا للرحمن ولدا۔ سورہ مریم۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں اس بات پر کہ انہوں نے کہا اللہ رحمان کی اولاد ہے۔

 ٤٧۔ (۱) یعنی اللہ نے اپنے رسولوں سے دنیا اور آخرت میں مدد کرنے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ یقیناً ایسا ہے، اس سے وعدہ خلافی ممکن نہیں۔

٤٧۔ (۲)  یعنی اپنے دوستوں کے لئے اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے والا ہے۔

 ٤٨۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت میں دونوں احتمال ہیں کہ یہ تبدیلی صفات کے لحاظ سے ہو یا ذات کے لحاظ سے۔ یعنی یہ آسمان و زمین اپنے صفات کے اعتبار سے بدل جائیں گے یا ویسے ہی ذاتی طور پر یہ تبدیلی آئے گی، نہ زمین رہے گی اور نہ یہ آسمان۔ زمین بھی کوئی اور ہو گی اور آسمان بھی کوئی اور حدیث میں آتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا '۔ یحشر الناس یوم القیامۃ علی الارض بیضاء عفراء کقرصہ النقی لیس فیھا علم لا حد۔ صحیح مسلم قیامت والے دن لوگ سفید بھوری زمین پر اکھٹے ہوں گے جو میدہ کی روٹی کی طرح ہو گی۔ اس میں کسی کا کوئی جھنڈا (یا علامتی نشان) نہیں ہو گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ نے پوچھا کہ جب یہ آسمان و زمین بدل دئیے جائیں گے تو پھر لوگ اس دن کہاں ہوں گے ؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' صراط پر ' یعنی پل صراط پر (حوالہ مذکور) ایک یہودی کے پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ ' لوگ اس دن پل کے قریب اندھیرے میں ہوں گے (صحیح مسلم)

٥٠۔ جو آگ سے فوراً بھڑک اٹھتی ہے۔ علاوہ ازیں آگ نے ان کے چہروں کو بھی ڈھانپا ہو گا۔

٥٢۔ یہ اشارہ قرآن کی طرف ہے، یا پچھلی تفصیلات کی طرف جو (وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً) بیان کی گئی ہیں۔