احسن البیان

سُوۡرَةُ الفَتْح

۱۔ ٦ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ١٤ سو کے قریب صحاب اکرام رضوان علیہم اجمعین عمرے کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے، لیکن مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو روک لیا عمرہ نہیں کرنے دیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عثمان رضی اللہ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تاکہ قریش کے سرداروں سے گفتگو کر کے انہیں مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ کریں کفار مکہ نے اجازت نہیں دی اور مسلمانوں نے آئندہ سال کے وعدے پر واپسی کا ارادہ کر لیا وہیں اپنے سر بھی منڈوا لئے اور قربانیاں کر لیں۔ نیز کفار سے بھی چند باتوں کا معاہدہ ہوا جنہیں صحابہ کرام کی اکثریت ناپسند کرتی تھی لیکن نگاہ رسالت نے اس کے دور رس اثرات کا اندازہ لگاتے ہوئے، کفار کی شرائط پر ہی صلح کو بہتر سمجھا۔ حدیبیہ سے مدینے کی طرف آتے ہوئے راستے میں یہ سورت اتری، جس میں صلح کو فتح مبین سے تعبیر فرمایا گیا کیوں کہ یہ صلہ فتح مکہ کا ہی پیش خیمہ ثابت ہوئی اور اس کے دو سال بعد ہی مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے۔ اسی لئے بعض صحابہ اکرام کہتے تھے کہ تم فتح مکہ کو شمار کرتے ہو لیکن ہم حدیبیہ کی صلح کو فتح شمار کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سورت کی بابت فرمایا کہ آج کی رات مجھ پر وہ سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے (صحیح بخاری)

۲۔ (۱)  اس سے مراد ترک اولی والے معاملات یا وہ امور ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فہم و اجتہاد سے کیے لیکن اللہ نے انہیں ناپسند فرمایا جیسے عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ وغیرہ کا واقعہ ہے جس پر سورہ عبس کا نزول ہوا یہ معاملات و امور اگرچہ گناہ اور منافی عصمت نہیں لیکن آپ کی شان ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کوتاہیاں شمار کر لیا گیا جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے لیغفر میں لام تعلیل کے لیے ہے یعنی یہ فتح مبین ان تین چیزوں کا سبب ہے جو آیت میں مذکور ہیں اور یہ مغفرت ذنوب کا سبب اس اعتبار سے ہے کہ اس صلح کے بعد قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہوا جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اجر عظیم میں بھی خوب اضافہ ہوا اور حسنات و بلندی درجات میں بھی۔

۲۔ (۲)  اس دین کو غالب کر کے جس کی تم دعوت دیتے ہو، یا فتح و غلبہ عطا کر کے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ مغفرت اور ہدایت پر یہی تمام نعمت ہے (فتح القدیر)

 ٢۔ (۳)  یعنی اس پر استقلال نصیب فرمائے۔ ہدایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات سے نوازے۔

٤۔ (۱)  یعنی اس اضطراب کے بعد جو مسلمانوں کو شرائط صلح کی وجہ سے لاحق ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی جس سے ان کے دلوں کو اطمینان سکون اور ایمان مزید حاصل ہوا یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔

٤۔ (۲)  یعنی اگر اللہ چاہے تو اپنے کسی لشکر (مثلاً فرشتوں ) سے کفار کو ہلاک کروا دے، لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت ایسا نہیں کیا اور اس کے بجائے مومنوں کو قتال و جہاد کا حکم دیا ہے۔

۵۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب مسلمانوں نے سورہ فتح کا ابتدائی حصہ سنا لیغفرلک اللہ تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبارک ہو ہمارے لیے کیا ہے جس پر اللہ نے آیت لیدخل المومنین نازل فرما دی (صحیح بخاری باب غزوہ الحدیبیۃ)

 ٦۔ (۱)  یعنی اللہ کو اس کے حکموں پر مہتم کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ یہ مغلوب یا مقتول ہو جائیں گے اور دین اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔(ابن کثیر)

٦۔ (۲)  یعنی یہ جس گردش، عذاب یا ہلاکت کے مسلمانوں کے لئے منتظر ہیں، وہ تو انہی کا مقدر بننے والی ہے

٧۔ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو ہر طرح ہلاک کرنے پر قادر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی حکمت ومشیت کے تحت ان کو جتنی چاہے مہلت دے دے۔

۱۰۔ (۱)   یعنی یہ بیعت دراصل اللہ ہی کی ہے کیونکہ اسی نے جہاد کا حکم دیا ہے اور اس پر اجر بھی وہی عطا فرمائے گا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا کہ یہ اپنے نفسوں اور مالوں کا جنت کے بدلے اللہ کے ساتھ سودا ہے التوبہ۔۱۱ یہ اسی طرح ہے جیسے من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔ النساء

١٠۔ (۲)  آیت سے وہی بیعت رضوان مراد ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عثمان شہادت کی خبر سن کر ان کا انتقام لینے کے لئے حدیبیہ میں موجود ١٤ یا ١٥ سو مسلمانوں نے لی تھی۔

١٠۔ (۳)  نَکْث، (عہد شکنی) سے مراد یہاں بیعت کا توڑ دینا یعنی عہد کے مطابق لڑائی میں حصہ نہ لینا ہے۔ یعنی جو شخص ایسا کرے گا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔

١٠۔(۴) کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد کرے گا، ان کے ساتھ ہو کر لڑے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی فتح و غلبہ عطا فرما دے۔

۱۱۔ (۱)  اس سے مدینے کے اطراف میں آباد قبیلے غفار مزینہ جہینہ اسلم اور وئل مراد ہیں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب دیکھنے کے بعد جس کی تفصیل آگے آئے گی عمرے کے لیے مکہ جانے کی عام منادی کرا دی مذکورہ قبیلوں نے سوچا کہ موجودہ حالات تو مکہ جانے کے لیے ساز گار نہیں ہیں وہاں ابھی کافروں کا غلبہ ہے اور مسلمان کمزور ہیں نیز مسلمان عمرے کے لیے پورے طور پر ہتھیار بند ہو کر بھی نہیں جا سکتے اگر ایسے میں کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کر لیا تو مسلمان خالی ہاتھ ان کا مقابلہ کس طرح کریں گے اس وقت مکے جانے کا مطلب اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے چنانچہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عمرے کے لیے نہیں گئے اللہ تعالیٰ ان کی بابت فرما رہا ہے کہ یہ تجھ سے مشغو لیتوں کا عذر پیش کر کے طلب مغفرت کی التجائیں کریں گے۔

۱۱۔ (۲)  یعنی زبانوں پر تو یہ ہے کہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں کی اور بیوی بچوں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں تھا اس لیے ہمیں خود ہی رکنا پڑا لیکن حقیقت میں ان کا پیچھے رہنا نفاق اور اندیشہ موت کی وجہ سے تھا

١١۔ (۳)  یعنی اگر اللہ تمہارے مال ضائع کرنے اور تمہارے اہل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لے تو کیا تم سے کوئی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اللہ کو ایسا نہ کرنے دے۔

۱۱۔(۴) یعنی تمہیں مدد پہنچانا اور تمہیں غنیمت سے نوازنا چاہے تو کوئی روک سکتا ہے یہ دراصل مذکورہ متخلفین پیچھے رہ جانے والوں کا رد ہے جنہوں نے یہ گمان کر لیا تھا کہ وہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہیں گئے تو نقصان سے محفوظ اور منافع سے بہرہ ور ہوں گے حالانکہ نفع و ضرر کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

١١۔(۵) یعنی تمہیں تمہارے عملوں کی پوری جزا دے گا۔

١٢۔ (۱)  اور وہ یہی تھا کہ اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد نہیں کرے گا۔ یہ وہی پہلا گمان ہے، تکرار تاکید کے لئے ہے۔

۱۲۔ (۲)  بور، بائر کی جمع ہے ہلاک ہونے والا یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقدر ہلاکت ہے اگر دنیا میں یہ اللہ کے عذاب سے بچ گئے تو آخرت میں تو بچ کر نہیں جا سکتے وہاں تو عذاب ہے ہر صورت میں بھگتنا ہو گا۔

۱٤۔ اس میں متخلفین کے لیے توبہ و انابت الی اللہ کی ترغیب ہے کہ اگر وہ نفاق سے توبہ کر لیں تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

۱۵۔ (۱)  اس میں غزوہ خیبر کا ذکر ہے جس کی فتح کی نوید اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں دی تھی نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہاں سے جتنا بھی مال غنیمت حاصل ہو گا وہ صرف حدیبیہ میں شریک ہونے والوں کا حصہ ہے چنانچہ حدیبیہ سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کی مسلسل عہد شکنی کی وجہ سے خیبر پر چڑھائی کا پروگرام بنایا تو مذکورہ متخلفین نے بھی محض مال غنیمت کے حصول کے لیے ساتھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا جسے منظور نہیں کیا گیا آیت میں مغانم سے مراد مغانم خیبر ہی ہیں۔

١٥۔ (۲)  اللہ کے کلام سے مراد، اللہ کا خیبر کی غنیمت کو اہل حدیبیہ کے لئے خاص کرنے کا وعدہ ہے، منافقین اس میں شریک ہو کر اللہ کے کلام یعنی اس کے وعدے کو بدلنا چاہتے تھے۔

١٥۔ (۳) یہ نفی بمعنی نہی ہے یعنی تمہیں ہمارے ساتھ چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے۔

١٥۔(۴) یعنی یہ متخلفین کہیں گے کہ تم ہمیں حسد کی بنا پر ساتھ لے جانے سے گریز کر رہے ہو تاکہ مال غنیمت میں ہم تمہارے ساتھ شریک نہ ہوں۔

١٥۔(۵) یعنی بات یہ نہیں ہے جو وہ سمجھ رہے ہیں، بلکہ یہ پابندی ان کے پیچھے رہنے کی پا داش میں ہے۔ لیکن اصل بات ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔

۱۶۔ (۱)  اس جنگجو قوم کی تعیین میں اختلاف ہے بعض مفسرین اس سے عرب کے ہی بعض قبائل مراد لیتے ہیں مثلاً ہوازن یا ثقیف جن سے حنین کے مقام پر مسلمانوں کی جنگ ہوئی یا مسیلمۃ الکذاب کی قوم بنو حنیفہ اور بعض نے فارس اور روم کے مجوسی و عیسائی مراد لیے ہیں ان پیچھے رہ جانے والے بدویوں سے کہا جا رہا ہے کہ عنقریب ایک جنگجو قوم سے مقابلے کے لیے تمہیں بلایا جائے گا اگر وہ مسلمان نہ ہوئے تو تمہاری اور ان کی جنگ ہو گی۔

١٦۔ (۲)  یعنی خلوص دل سے مسلمانوں کے ساتھ ملکر لڑو گے

 ١٦۔ (۳)  دنیا میں غنیمت اور آخرت میں پچھلے گناہوں کی مغفرت اور جنت۔

١٦۔(۴) یعنی جس طرح حدیبیہ کے موقع پر تم نے مسلمانوں کے ساتھ مکہ جانے سے گریز کیا تھا، اسی طرح اب بھی تم جہاد سے بھاگو گے، تو پھر اللہ کا دردناک عذاب تمہارے لئے تیار ہے۔

١٧۔ بصارت سے محرومی اور لنگڑے پن کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذوری۔ یہ دونوں عذر لازمی ہیں۔ ان اصحاب عذر یا ان جیسے دیگر معذورین کو جہاد سے مستثنیٰ کر دیا گیا ان کے علاوہ جو بیماریاں ہیں وہ عارضی عذر ہیں۔

۱۸۔ (۱)  یہ ان اصحاب بیعت رضوان کے لیے رضائے الہی اور ان کے پکے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے جنہوں نے حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے اس بات پر بیعت کی کہ وہ قریش مکہ سے لڑیں گے اور راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔

١٨۔ (۲)  یعنی ان کے دلوں میں جو صدق و صفا کے جذبات تھے، اللہ ان سے بھی واقف ہے۔ اس سے ان دشمنان صحابہ اکرام کا رد ہو گیا جو کہتے ہیں کہ ان کا ایمان ظاہری تھا، دل سے وہ منافق تھے۔

۱۸۔ (۳)  یعنی وہ نہتے تھے جنگ کی نیت سے نہیں گئے تھے اس لیے جنگی ہتھیار مطلوبہ تعداد میں نہیں تھے اس کے باوجود جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عثمان رضی اللہ کا بدلہ لینے کے لیے ان سے جہاد کی بیعت لی تو بلا ادنی تامل سب لڑنے کے لیے تیار ہو گئے یعنی ہم نے موت کا خوف ان کے دلوں سے نکال دیا اور اس کی جگہ صبر و سکینت ان پر نازل فرما دی جس کی بنا پر انہیں لڑنے کا حوصلہ ہوا۔

۱۸۔(۴) اس سے مراد وہی فتح خیبر ہے جو یہودیوں کا گڑھ تھا اور حدیبیہ سے واپسی پر مسلمانوں نے اسے فتح کیا۔

۱۹۔ یہ وہ غنیمتیں ہیں جو خیبر سے حاصل ہوئیں یہ نہایت زرخیز اور شاداب علاقہ تھا اسی حساب سے یہاں سے مسلمانوں کو بہت بڑی تعداد میں غنیمت کا مال حاصل ہوا جسے صرف اہل حدیبیہ میں تقسیم کیا گیا۔

٢٠۔ (۱)  یہ دیگر فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمتوں کی خوشخبری ہے جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہونے والی ہیں۔

۲۰۔ (۲)  یعنی فتح خیبر یا صلح حدیبیہ کیونکہ یہ دونوں تو فوری طور پر مسلمانوں کو حاصل ہو گئیں۔

۲۰۔ (۳)  حدیبیہ میں کافروں کے ہاتھ اور خیبر میں یہودیوں کے ہاتھ اللہ نے روک دیئے یعنی ان کے حوصلے پست کر دیئے اور وہ مسلمانوں سے مصروف پیکار نہیں ہوئے۔

۲۰۔(۴) یعنی لوگ اس واقعے کا تذکرہ پڑھ کر اندازہ لگا لیں گے کہ اللہ تعالیٰ قلت تعداد کے باوجود مسلمانوں کا محافظ اور دشمنوں پر ان کو غالب کرنے والا ہے یا یہ روک لینا تمام موعودہ باتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کی نشانی ہے۔

٢٠۔(۵) یعنی ہدایت پر استقامت عطا فرمائے یا اس نشانی سے تمہیں ہدایت میں اور زیادہ کرے۔

٢١۔ یہ بعد میں ہونے والی فتوحات اور ان سے حاصل ہونے والی غنیمت کی طرف اشارہ ہے۔

٢٢۔ یہ حدیبیہ میں متوقع جنگ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ قریش مکہ صلح نہ کرتے بلکہ جنگ کا راستہ اختیار کرتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے، کوئی ان کا مددگار نہ ہوتا۔

٢٣۔ یعنی اللہ کی یہ سنت اور عادت پہلے سے چلی آ رہی ہے کہ جب کفر و ایمان کے درمیان فیصلہ کن معرکہ آرائی کا مرحلہ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی مدد فرما کر حق کو سر بلندی عطا کرتا ہے، جیسے اس سنت اللہ کے مطابق بدر میں تمہاری مدد کی گئی۔

٢٤۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام حدیبیہ میں تھے تو کافروں نے ٨٠ آدمی، جو ہتھیاروں سے لیس تھے، اس نیت سے بھیجے کہ اگر ان کو موقع مل جائے تو دھوکے سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ اکرام کے خلاف کاروائی کریں چنانچہ یہ مسلح جتھا جبل تغیم کی طرف سے حدیبیہ میں آیا جس کا علم مسلمانوں کو بھی ہو گیا اور انہوں نے ہمت کر کے تمام آدمیوں کو گرفتار کر لیا اور بارگاہ رسالت میں پیش کر دیا۔ ان کا جرم شدید تھا اور ان کو جو بھی سزا دی جاتی، صحیح ہوتی۔ لیکن اس میں خطرہ یہی تھا پھر جنگ ناگزیر ہو جاتی۔ جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس موقعے پر جنگ کے بجائے صلح چاہتے تھے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا مفاد تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سب کو معاف کر کے چھوڑ دیا (صحیح مسلم

۲۵۔ (۱)  ۱ ھدی اس جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی یا معتمر عمرہ کرنے والا اپنے ساتھ مکے لے جاتا تھا یا وہیں سے خرید کر ذبح کرتا تھا محل سے مراد وہ قربان گاہ ہے جہاں ان کو لے جا کر ذبح کیا جاتا ہے جاہلیت کے زمانے میں یہ مقام معتمر کے لیے مروہ پہاڑی کے پاس اور حاجیوں کے لیے منی تھا اور اسلام میں ذبح کرنے کی چگہ مکہ منی اور پورے حدود حرم ہیں۔ معکوفا حال ہے یعنی یہ جانور اس انتظار میں رکے ہوئے تھے کہ مکے میں داخل ہوں تاکہ انہیں قربان کیا جائے مطلب یہ ہے کہ ان کافروں نے ہی تمہیں بھی مسجد حرام سے روکا اور تمہارے ساتھ جو جانور تھے انہیں بھی اپنی قربان گاہ تک نہیں پہنچنے دیا۔

٢٥۔ (۲) یعنی مکہ میں اپنا ایمان چھپائے رہ رہے تھے۔

۲۵۔ (۳)  کفار کے ساتھ لڑائی کی صورت میں ممکن تھا کہ یہ بھی مارے جاتے اور تمہیں ضرر پہنچتا معرۃ کے اصل معنی عیب کے ہیں یہاں مراد کفارہ اور وہ برائی اور شرمندگی ہے جو کافروں کی طرف سے تمہیں اٹھانی پڑتی یعنی ایک تو قتل خطا کی دیت دینی پڑتی اور دوسرے کفار کا یہ طعنہ سہنا پڑتا کہ یہ اپنے مسلمان ساتھیوں کو بھی مار ڈالتے ہیں۔

۲۵۔(۴) یہ لولا کا محذوف جواب ہے یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی تو تمہیں مکے میں داخل ہونے کی اور قریش مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دی جاتی۔

٢٥۔(۵) بلکہ اہل مکہ کو مہلت دے دی گئی تاکہ جس کو اللہ چاہے قبول اسلام کی توفیق دے دے۔

۲۵۔ (٦)  تزیلوا بمعنی تمیزوا ہے مطلب یہ ہے کہ مکے میں آباد مسلمان اگر کافروں سے الگ رہائش پذیر ہوتے تو ہم تمہیں اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دیتے اور تمہارے ہاتھوں ان کو قتل کرواتے اور اس طرح انہیں دردناک سزا دیتے عذاب الیم سے مراد یہاں قتل قیدی بنانا اور قہر اور غلبہ ہے۔

۲۶۔ (۱)  اذ کا ظرف یا تو لعذبتا ہے یا واذکرو محذوف ہے یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کہ ان کافروں نے۔

۲۶۔ (۲)  کفار کی اس حمیت جاہلیہ عار اور غرور سے مراد اہل مکہ کا مسلمانوں کو مکے میں داخل ہونے سے روکتا ہے انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمارے بیٹوں اور باپوں کو قتل کیا ہے لات و عزیٰ کی قسم ہم انہیں کبھی یہاں داخل نہیں ہونے دیں گے یعنی انہوں نے اسے اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ بنا لیا اسی کو حمیت جاہلیہ کہا گیا ہے کیونکہ خانہ کعبہ میں عبادت کے لیے آنے سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں تھا قریش مکہ کے اس معاندانہ رویے کے جواب میں خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے جذبات میں بھی شدت آ جاتی اور وہ بھی اسے اپنے وقار کا مسئلہ بنا کر مکے جانے پر اصرار کرتے جس سے دونوں کے درمیان لڑائی چھڑ جاتی اور یہ لڑائی مسلمانوں کے لیے سخت خطرناک رہتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی یعنی انہیں صبر و تحمل کی توفیق دے دی اور وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق حدیبیہ میں ہی ٹھہرے رہے جوش اور جذبے میں آ کر مکے جانے کی کوشش نہیں کی لعض کہتے ہیں کہ اس حمیت جاہلیہ سے مراد قریش مکہ کا وہ رویہ ہے جو صلح کے لیے اور معاہدے کے وقت انہوں نے اختیار کیا یہ رویہ اور معاہدہ دونوں مسلمانوں کے لیے بظاہر ناقابل برداشت تھا لیکن انجام کے اعتبار سے چونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کا بہترین مفاد تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نہایت ناگواری اور گرانی کے باوجود اسے قبول کرنے کا حوصلہ عطا فرما دیا اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش مکہ کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی یہ بات تسلیم کر لی کہ اس سال مسلمان عمرے کے لیے مکہ نہیں جائیں گے اور یہیں سے واپس ہو جائیں گے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا انہوں نے آپ کے حکم سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی انہوں نے اس پر اعتراض کر دیا کہ رحمن رحیم کو ہم نہیں جانتے ہمارے ہاں جو لفظ استعمال ہوتا ہے اس کے ساتھ یعنی باسمک اللھم اے اللہ تیرے نام سے لکھیں چنانچہ آپ نے اسی طرح لکھوایا پھر آپ نے لکھوایا یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل مکہ سے مصالحت کی ہے قریش کے نمائندوں نے کہا اختلاف کی بنیاد تو آپ کی رسالت ہی ہے اگر ہم آپ کو رسول اللہ مان لیں تو اس کے بعد جھگڑا ہی کیا رہ جاتا ہے پھر ہمیں آپ سے لڑنے کی اور بیت اللہ میں جانے سے روکنے کی ضرورت ہی کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہاں محمد رسول اللہ کی جگہ محمد بن عبد اللہ لکھیں چنانچہ آپ نے حضرت علی رضی الیہ کو ایسا ہی لکھنے کا حکم دیا یہ مسلمانوں کے لیے نہایت اشتعال انگیز صورت حال تھی اگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر سکینت نازل نہ فرماتا تو وہ کبھی اسے برداشت نہ کرتے حضرت علی رضی اللہ نے اپنے ہاتھ سے محمد رسول اللہ کے الفاظ مٹانے اور کاٹنے سے انکار کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا کہ یہ لفظ کہاں ہے بتانے کے بعد خود آپ نے اسے اپنے دست مبارک سے مٹا دیا اور اس کی جگہ محمد بن عبد اللہ تحریر کرنے کو فرمایا اس کے بعد اس معاہدے یا صلح نامے میں تین باتیں لکھیں گئیں ۱۔ اہل مکہ میں سے جو مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے گا اسے واپس کر دیا جائے گا۔ (۲) ۔ جو مسلمان اہل مکہ سے جا ملے گا وہ اس کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔ (۳) ۔ مسلمان آئندہ سال مکے میں آئیں گے اور یہاں تین دن قیام کر سکیں گے تاہم انہیں ہتھیار ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہو گی (صحیح مسلم کتاب الجہاد) اور اس کے ساتھ دو باتیں اور لکھی گئیں۔ اس سال لڑائی موقوف رہے گی۔ (۲) ۔ قبائل میں سے جو چاہے مسلمانوں کے ساتھ اور جو چاہے قریش کے ساتھ ہو جائے۔

٢٦۔ (۳)  اس سے مراد کلمہ توحید و رسالت لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ ر رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے، جس سے حدیبیہ والے دن مشرکین نے طواف و عمرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ نبی کا خواب بھی بمنزلہ وحی ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس خواب میں یہ تعین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہو گا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمان، اس بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے، عمرے کے لئے فوراً ہی آمادہ ہو گئے اور اس کے لئے عام منادی کرا دی گئی اور چل پڑے۔ بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی، جس کی تفصیل ابھی گزری، در آں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی، جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا۔

۲۷۔ (۱)  واقعہ حدیبیہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں مسلمانوں کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف و عمرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا نبی کا خواب بھی بمنزلہ وحی ہی ہوتا ہے تاہم اس خواب میں یہ تعیین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہو گا لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمان اسے بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے عمرے کے لیے فورا ہی آمادہ ہو گئے اور اس کے لیے عام مندی کرا دی گئی اور چل پڑے بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی جس کی تفصل ابھی گزری در آں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نے نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا۔

٢٧۔ (۲) یعنی اگر حدیبیہ کے مقام پر صلح نہ ہوتی تو جنگ سے مکے میں مقیم کمزور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا صلح کے ان فوائد کو اللہ ہی جانتا تھا۔

٢٧۔ (۳)  اس سے فتح خیبر و فتح مکہ کے علاوہ، صلح کے نتیجے میں جو بہ کثرت مسلمان ہوئے وہ بھی مراد ہے، کیونکہ وہ بھی فتح کی ایک عظیم قسم ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ڈیڑھ ہزار تھے، اس کے دوسال بعد جب مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو ان کی تعداد دس ہزار تھی۔

۲۸۔ اسلام کا یہ غلبہ دیگر ادیان پر دلائل کے لحاظ سے تو ہر وقت مسلم ہے تاہم دنیاوی اور عسکری لحاظ سے بھی قرون اولی اور اس کے مابعد عرصہ دراز تک جب تک مسلمان اپنے دین پر عامل رہے انہیں غلبہ حاصل رہا اور آج بھی یہ مادی غلبہ ممکن ہے بشرطیکہ مسلمان مسلمان بن جائیں وانتم الاعلون ان کنتم مومنین ال عمران۔ یہ دین غالب ہونے کے لیے ہی آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔

۲۹۔ (۱)  انجیل پر وقف کی صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ان کی یہ خوبیاں جو قران میں بیان ہوئی ہیں ان کی یہی خوبیاں تورات وانجیل میں مذکور ہیں اور آگے کزرع میں اس سے پہلے ھم محذوف ہو گا اور بعض فی التوراۃ پر وقف کرتے ہیں یعنی ان کی مذکرورہ صفت تورات میں ہے اور مثلھم فی الانجیل کو کزرع کے ساتھ ملاتے ہیں یعنی انجیل میں ان کی مثال مانند اس کھیتی کے ہے۔فتح القدیر۔

٢٩۔ (۲)  شَطْاَءُ سے پودے کا پہلا ظہور ہے جو دانہ پھاڑ کر اللہ کی قدرت سے باہر نکلتا ہے۔

٢٩۔ (۳)  یہ صحابہ کرام کی مثال بیان فرمائی گئی ہے۔ ابتدا میں وہ قلیل تھے، پھر زیادہ اور مضبوط ہو گئے، جیسے کھیتی ابتدا میں کمزور ہوتی ہے، پھر دن بدن قوی ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ مضبوط تنے پر وہ قائم ہو جاتی ہے۔

۲۹۔(۴) یا کافر غیظ و غضب کا باعث تھی اس لیے کہ اس سے اسلام کا دائرہ پھیل رہا اور کفر کا دائرہ سمٹ رہا تھا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و عناد رکھنے والوں کو کافر قرار دیا ہے علاوہ ازیں اس فرقہ ضالہ کے دیگر عقائد بھی ان کے کفر پر ہی دال ہیں۔ (۲) ٩۔۵ اس پوری آیت کا ایک ایک جز صحابہ کرام کی عظمت و فضیلت، اخروی مغفرت اور اجر عظیم کو واضح کر رہا ہے، اس کے بعد بھی صحابہ کرام کے ایمان میں شک کرنے والا مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے کیوں کر دعوائے مسلمانی میں سچا سمجھا جا سکتا ہے