احسن البیان

سُوۡرَةُ الصَّف

اس کی شان نزول میں آتا ہے کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں بیٹھے کہہ رہے تھے کہ اللہ کو جو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھنے چاہییں تاکہ ان پر عمل کیا جا سکے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جا کر پوچھنے کی جرات کوئی نہیں کر رہا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرما دی (مسند احمد)

٢۔ یہاں ندا اگرچہ عام ہے لیکن اصل خطاب ان مومنوں سے ہے جو کہہ رہے تھے کہ اللہ کو جو سب سے زیادہ پسند عمل ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھنے چاہئیں تاکہ ان پر عمل کیا جا سکے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جا کر پوچھنے کی جرت کوئی نہیں کر رہا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (مسند احمد)

۳۔ یہ اسی کی مزید تاکید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر سخت ناراض ہوتا ہے۔

٤۔ یہ جہاد کا ایک انتہائی نیک عمل بتلایا گیا جو اللہ کو بہت محبوب ہے۔

٥۔ (۱)   یہ جانتے ہوئے بھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے سچے رسول ہیں، بنی اسرائیل انہیں اپنی زبان سے ایذا پہنچاتے تھے، حتیٰ کہ بعض جسمانی عیوب ان کی طرف منسوب کرتے تھے، حالانکہ وہ بیماری ان کے اندر نہیں تھی۔

٥۔ (۲)  یعنی علم کے باوجود حق سے اعراض کیا اور حق کے مقابلے میں باطل کو خیر کے مقابلے میں شر کو اور ایمان کے مقابلے میں کفر کو اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا کے طور پر ان کے دلوں کو مستقل طور پر ہدایت سے پھیر دیا۔ کیونکہ یہی سنت اللہ چلی آ رہی ہے۔ کفر و ضلالات پر دوام و استمرار ہی دلوں پر مہر لگنے کا باعث ہوتا ہے پھر فسق کفر اور ظلم اس کی طبیعت اور عادت بن جاتی ہے جس کو کوئی بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ اس لیے آگے فرمایا اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو اپنی سنت کے مطابق گمراہ کیا ہوتا ہے اب کون اسے ہدایت دے سکتا ہے جسے اس طریقے سے اللہ نے گمراہ کیا ہو۔

٦۔ (۱)   حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ اس لیے بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کی، اسی طرح انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی انکار کیا، اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ یہود آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے ساتھ اس طرح نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کی تو ساری تاریخ ہی انبیاء علیہم السلام کی تکذیب سے بھری پڑی ہے۔ تورات کی تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ میں جو دعوت دے رہا ہوں، وہ وہی ہے جو تورات کی بھی دعوت ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو پیغمبر مجھ سے پہلے تورات لے کر آئے اور اب میں انجیل لے کر آیا ہوں، ہم دونوں کا اصل ماخذ ایک ہی ہے۔ اس لیے جس طرح تم موسیٰ و ہارون اور داوٗد و سلیمان علیہم السلام پر ایمان لائے مجھ پر بھی ایمان لاؤ، اس لیے کہ میں تورات کی تصدیق کر رہا ہوں نہ کہ اس کی تردید و تکذیب۔

٦۔ (۲)  یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد آنے والے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشخبری سنائی چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' "انا دعوۃ ابی ابراہیم وبشسارۃ عیسٰی" میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا مصداق ہوں۔ احمد یہ فاعل سے اگر مبالغے کا صیغہ  ہو تو معنی ہوں گے دوسرے تمام لوگوں سے اللہ کی زیادہ حمد کرنے والا۔ اور اگر یہ مفعول سے ہوں تو معنی ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے جتنی تعریف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کی گئی اتنی کسی کی بھی نہیں کی گئی۔ (فتح القدیر)

 ٦۔ (۳)  یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے پیش کردہ معجزات کو جادو سے تعبیر کیا گیا، جس طرح گذشتہ قومیں بھی اپنے پیغمبروں کو اسی طرح کہتی رہیں۔ بعض نے اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم لئے ہیں جیسا کہ کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے تھے۔

٧۔ (۱)   یعنی اللہ کی اولاد قرار دے، یا جو جانور اس نے حرام قرار نہیں دیئے ان کو حرام باور کرائے۔

٧۔ (۲)  جو تمام دینوں میں اشرف اور اعلیٰ ہے، اس لئے جو شخص ایسا ہو، اس کو کب یہ زیب دیتا ہے یہ وہ کسی پر بھی جھوٹ گھڑے، چہ جائیکہ اللہ پر جھوٹ باندھے ؟

٨۔ (۱)   نور سے مراد قرآن، یا اسلام یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے، یا دلائل و براہین ہیں ' منہ سے بجھا دیں ' کا مطلب ہے، وہ طعن کی وہ باتیں ہیں جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہیں۔

٨۔ (۲)  یعنی اس کو آفاق میں پھیلانے والا اور دوسرے تمام دینوں پر غالب کرنے والا ہے۔ دلائل کے لحاظ سے، یا مادی غلبے کے لحاظ سے یا دونوں لحاظ سے۔

٩۔ (۱)   یہ گذشتہ بات ہی کی تاکید ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے پھر دہرایا گیا ہے۔

٩۔(۲)   تاہم یہ لامحالہ ہو کر رہے گا۔

١٠۔ اس عمل (یعنی ایمان اور جہاد) کو تجارت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ اس میں بھی انہیں تجارت کی طرح ہی نفع ہو گا وہ نفع کیا ہے ؟ جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات۔ اس سے بڑا نفع اور کیا ہو گا۔ اور وہ نفع کیا ہے اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا "ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسہم واموالھم بان الھم الجنۃ" اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا جنت کے بدلے میں کر لیا ہے۔

١٣۔ (۱)   یعنی جب تم اس کی راہ میں لڑو گے اور اس کے دین کی مدد کرو گے، تو وہ بھی تمہیں فتح و نصرت سے نوازے گا۔ "ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم"(سورہ محمد) "ولینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز"(الحج) آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں اسے فتح قریب قرار دیا اور اس سے مراد فتح مکہ ہے اور بعض نے فارس و روم کی عظیم الشان سلطنتوں پر مسلمانوں کے غلبے کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ جو خلافت راشدہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوا۔

١٣۔ (۲)  جنت کی بھی، مرنے کے بعد اور فتح و نصرت کی بھی، دنیا میں، بشرطیکہ اہل ایمان ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہیں۔ "وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین"(ال عمران) آگے اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو اپنے دین کی نصرت کی مزید ترغیب دے رہا ہے۔

١٤۔ (۱)   تمام حالتوں میں، اپنے اقوال و افعال کے ذریعے سے بھی اور جان و مال کے ذریعے سے بھی۔ جب بھی جس وقت بھی اور جس حالت میں بھی تمہیں اللہ اور اس کا رسول اپنے دین کے لیے پکارے تم فورا ان کی پکار پر لبیک کہو، جس طرح حواریین نے عیسیٰ علیہ السلام کی پکار پر لبیک کہا۔

١٤۔ (۲)  یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس دین کی دعوت و تبلیغ میں مددگار ہیں جس کی نشر و اشاعت کا حکم اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایام حج میں فرماتے ' کون ہے جو مجھے پناہ دے تاکہ میں لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا سکوں، اس لئے کہ قریش مجھے فریضہ رسالت ادا نہیں کرنے دیتے ' حتیٰ کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پکار پر مدینے کے اوس اور خزرج نے لبیک کہا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد کا وعدہ کیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ پیشکش کی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو وعدے کے مطابق انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اور آپ کے تمام ساتھیوں کی مدد کی حتی کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کا نام ہی انصار رکھ دیا اور اب یہ ان کا علم بن گیا۔ رضی اللہ عنہم وارضاھم۔

١٤۔ (۳)  یہ یہود تھے جنہوں نے نبوت عیسیٰ علیہ السلام ہی کا انکار بلکہ ان پر اور ان کی ماں پر بہتان تراشی کی بعض کہتے ہیں کہ یہ اختلاف و تفرق اس وقت ہوا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ ایک نے کہا عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہی زمین پر ظہور فرمایا تھا، اب وہ پھر آسمان پر چلا گیا، یہ فرقہ یعقوبیہ کہلاتا ہے نسطوریہ فرقے نے کہا وہ اب اللہ کے بیٹے تھے، باپ نے بیٹے کو آسمان پر بلا لیا ہے، تیسرے فرقے نے کہا وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، یہی فرقہ صحیح تھا۔

١٤۔(۴)یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرما کر ہم نے اسی آخری جماعت کی دوسرے باطل گروہوں کے مقابلے میں مدد کی چنانچہ یہ صحیح عقیدے کی حامل جماعت نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آئی اور یوں ہم نے ان کو دلائل کے لحاظ سے بھی سب کافروں پر غلبہ عطا فرمایا اور قوت و سلطنت کے اعتبار سے بھی۔ اس غلبے کا آخری ظہور اس وقت پھر ہو گا۔ جب قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول ہو گا جیسا کہ اس نزول اور غلبے کی صراحت احادیث صحیحہ میں تواتر کے ساتھ منقول ہے۔