احسن البیان

سُوۡرَةُ النَّمل

نَمْل،چیونٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں چیونٹیوں کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سورہ نمل کہا جاتا ہے۔

٣۔ یہ مضمون متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ قرآن کریم ویسے تو پوری نسل انسانی کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے لیکن اس سے حقیقتاً راہ یاب وہی ہوں گے جو ہدایت کے طالب ہوں گے، جو لوگ اپنے دل اور دماغ کی کھڑکیوں کو حق کے دیکھنے اور سننے سے بند یا اپنے دلوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے مسخ کر لیں گے، قرآن انہیں کس طرح سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے، ان کی مثال اندھوں کی طرح ہے جو سورج کی روشنی سے فیض یاب نہیں ہو سکتے، در آں حالیکہ سورج کی روشنی پورے عالم کی درخشانی کا سبب ہے۔

٤۔ (۱) یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکوں کے لئے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لئے بدی کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔

٤۔ (۲)  یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔

٧۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آ رہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کے لئے آگ کی ضرورت تھی۔

٨۔ دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ سر سبز درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی مَنْ فَی النَّارِ میں مَنْ سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ اور نار سے مراد اس کا نور ہے اور وَمَنْ حَوْلَھَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے، حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب (پردے ) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا ہے، کہ ' اگر اپنی ذات کو بے نقاب کر دے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے ' (صحیح مسلم)

٩۔ درخت سے ندا کا آنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے باعث تعجب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ! تعجب نہ کر میں ہی اللہ ہوں۔

١٠۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، ورنہ موسیٰ علیہ السلام اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے دوسرا، طبعی خوف پیغمبر کو بھی لا حق ہو سکتا ہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں۔

١١۔ (۱) یعنی ظالم کو تو خوف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہ فرما لے

١١۔ (۲)  یعنی ظالم کی توبہ بھی قبول کر لیتا ہوں۔

١٢۔ (۱) یعنی بغیر برص وغیرہ کی بیماری کے۔ یہ لاٹھی کے ساتھ دوسرا معجزہ انہیں دیا گیا۔

١٢۔ (۲)  فِیْ تسْعِ آیَاتِ یعنی یہ دو معجزے ان ٩ نشانیوں میں سے ہیں، جن کے ذریعے سے میں نے تیری مدد کی ہے۔ انہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جا، ان ٩ نشانیوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورہ بنی اسرائیل، آیت۔١٠١ کا حاشیہ۔

١٣۔ مُبْصِرَۃً، واضح اور روشن یا اسم فاعل مفعول کے معنی میں ہے

١٤۔ یعنی علم کے باوجود جو انہوں نے انکار کیا تو اس کی وجہ ان کا ظلم اور استکبار تھا۔

۱۵۔۱ سورت کے شروع میں فرمایا گیا تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے سکھلایا جاتا ہے اس کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختصرا قصہ بیان فرمایا اور اب دوسری دلیل حضرت داؤد علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کا یہ قصہ ہے انبیا علیہم السلام کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے سچے رسول ہیں علم سے مراد نبوت کے علم کے علاوہ وہ علم ہے جن سے حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کو بطور خاص نوازا گیا تھا جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کو لوہے کی صنعت کا علم اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا کیا گیا تھا ان دونوں باپ بیٹوں کو اور بھی بہت کچھ عطا کیا گیا تھا لیکن یہاں صرف علم کا ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ علم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔

١٦۔ (۱) اس سے مراد نبوت اور بادشاہت کی وراثت ہے، جس کے وارث صرف سلیمان علیہ السلام قرار پائے۔ ورنہ حضرت داؤد علیہ السلام کے اور بھی بیٹے تھے جو اس کی وراثت سے محروم رہے۔ ویسے بھی انبیاء کی وراثت علم میں ہی ہوتی ہے، جو مال اسباب وہ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے (البخاری کتاب الفرائض و مسلم، کتاب الجہاد)

١٦۔ (۲)  بولیاں تو تمام جانور کی سکھلائی گئی تھیں لیکن پرندوں کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ پرندے سائے کے لئے ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ صرف پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی تھیں اور چونٹیاں بھی منجملہ پرندوں کے ہیں۔ (فتح القدیر)

١٦۔ (۳) جس کی ان کو ضرورت تھی، جیسے علم، نبوت، حکمت، مال، جن و انس اور طیور و حیوانات کی تسخیر وغیرہ۔

١٧۔ (۱) اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس انفرادی خصوصیت و فضیلت کا ذکر ہے، جس میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں ممتاز ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں پر ہی نہ تھی بلکہ جنات، حیوانات اور چرند پرند حتیٰ کہ ہوا تک ان کے ماتحت تھی، اس میں کہا گیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے تمام لشکر یعنی جنوں، انسانوں اور پرندوں سب کو جمع کیا گیا۔ یعنی کہیں جانے کے لئے یہ لاؤ لشکر جمع کیا گیا۔

١٧۔ (۲)  یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم (قسم وار) کر دیا جاتا تھا، مثلاً انسانوں، جنوں کا گروہ، پرندوں اور حیوانات کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔

١٨۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور موجود ہوتا ہے۔گو وہ انسانوں سے بہت کم اور مختلف ہے۔ دوسرا، یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اتنی عظمت و فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے۔ اس لئے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بے خبری میں ہم روند نہ دی جائیں۔ تیسرا یہ کہ حیوانات بھی اس عقیدہ صحیحہ سے بہرہ ور تھے اور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ جیسا کہ آگے آنے والے ہدہد کے واقعے سے بھی اس کی مزید تائید ہوتی ہے۔ چوتھا یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے۔ یہ علم بطور اعجاز اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا، جس طرح تسخیر جنات وغیرہ اعجازی شان تھی۔

١٩۔ (۱) چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا ہے۔

۱۹۔ (۲)  اس سے معلوم ہوا کہ جنت مومنوں ہی کا گھر ہے اس میں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہو سکے گا اسی لیے حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سیدھے سیدھے اور حق کے قریب رہو اور یہ بات جان لو کہ کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا صحابہ رضی اللہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک اللہ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی۔صحیح بخاری۔

٢٠۔ یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آ رہا  یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔

۲۲۔(۱)  احاطہ کے معنی ہیں کسی چیز کی بابت مکمل علم اور معرفت حاصل کرنا

٢٢۔ (۲)  سَبَا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا نام بھی تھا اور ایک شہر کا بھی۔ یہاں شہر مراد ہے۔ یہ صنعا (یمن) سے تین دن کے فاصلے پر ہے اور مارب یمن کے نام سے معروف ہے (فتح القدیر)

٢٣۔ (۱) یعنی ہدہد کے لئے بھی یہ امر باعث تعجب تھا کہ سبا میں ایک عورت حکمران ہے۔ لیکن آجکل کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں۔ اگر مرد حکمران ہو سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں ہو سکتی، حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔

٢٣۔ (۲)  کہا جاتا ہے کہ اس کا طول ٨٠ ہاتھ اور عرض ٤٠ ہاتھ اور انچائی ٣٠ ہاتھ تھی اور اس میں موتی، سرخ یا قوت اور سبز زمرد جڑے ہوئے تھے، واللہ اعلم۔ (فتح القدیر) ویسے یہ قول مبالغے سے خالی نہیں معلوم ہوتا۔ یمن میں بلقیس کا جو محل ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود ہے اس میں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہیں۔

٢٤۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پرندوں کو یہ شعور ہے کہ غیب کا علم انبیاء بھی نہیں جانتے، جیسا کہ ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو کہا کہ میں ایک ایسی اہم خبر لایا ہوں جس سے آپ بھی بے خبر ہیں، اسی طرح وہ اللہ کی وحدانیت کا احساس و شعور بھی رکھتے ہیں۔ اسی لئے یہاں ہدہد نے حیرت و استعجاب کے انداز میں کہا کہ یہ ملکہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے، سورج کی پجاری ہے اور شیطان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جس نے ان کے لئے سورج کی عبادت کو بھلا کر کے دکھلایا ہوا ہے۔

٢٥۔ یعنی آسمان سے بارش برساتا اور زمین سے اس کی مخفی چیزیں نباتات، معدنیات اور دیگر زمینی خزانے ظاہر فرماتا اور نکالتا ہے۔

٢٧۔ مالک تو اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز کا ہے لیکن یہاں صرف عرش عظیم کا ذکر کیا، ایک تو اس لئے کہ عرش الٰہی کائنات کی سب سے بڑی چیز اور سب سے برتر ہے۔ دوسرا، یہ واضح کرنے کے لئے کہ ملکہ سبا کا تخت شاہی بھی، گو بہت بڑا ہے لیکن اسے عرش عظیم سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق مستوی ہے۔ ہدہد نے چونکہ توحید کا وعظ اور شرک کا رد کیا ہے اور اللہ کی عظمت و شان کو بیان کیا ہے، اس لئے حدیث میں آتا ہے ' چار جانوروں کو قتل مت کرو۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد یعنی لٹورا ' (مسند احمد)

٢٨۔ یعنی ایک جانب ہٹ کر چھپ جا اور دیکھ کہ وہ آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔

٣١۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام نے بھی اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خط دی۔ آج کل مکتوب الیہ کا نام خط میں پہلے لکھا جاتا ہے لیکن سلف کا طریقہ یہی تھا جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اختیار کیا کہ پہلے اپنا نام تحریر کیا۔

٣٣۔ (۱) یعنی ہمارے پاس قوت اور اسلحہ بھی ہے اور لڑائی کے وقت نہایت پا مردی سے لڑنے والے بھی ہیں، اس لئے جھکنے اور دبنے کی ضرورت نہیں ہے۔

٣٣۔ (۲)  اس لئے کہ ہم تو آپ کے تابع ہیں، جو حکم ہو گا، بجا لائیں گے۔

٣٤۔ (۱) یعنی طاقت کے ذریعے سے فتح کرتے ہوئے۔

٣٤۔ (۲)  یعنی قتل و غارت گری کر کے اور قیدی بنا کر۔

٣٤۔ (۳) بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ کا قول ہے جو ملکہ سبا کی تائید میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ بلقیس ہی کا کلام اور اس کا تتمہ ہے اور یہی سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

٣٥۔ اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ سلیمان علیہ السلام کوئی دنیا دار بادشاہ ہے یا نبی مرسل، جس کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے۔ اگر ہدیہ قبول نہیں کیا تو یقیناً اس کا مقصد دین کی اشاعت و سر بلندی ہے، پھر ہمیں بھی اطاعت بغیر چارہ نہیں ہو گا۔

٣٦۔ (۱) یعنی تم دیکھ نہیں رہے، کہ اللہ نے مجھے ہر چیز سے نوازا ہوا ہے۔ پھر تم اس ہدئیے سے میرے مال و دولت میں کیا اضافہ کر سکتے ہو؟ یہ دریافت کرنا انکاری ہے۔ یعنی کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔

٣٦۔ (۲)  یہ بطور توبیخ کے کہا کہ تم اس ہدیئے پر فخر کرو اور خوش ہو، میں تو اس سے خوش ہونے سے رہا، اس لئے کہ ایک تو دنیا میرا مقصود ہی نہیں۔ دوسرے اللہ نے مجھے وہ کچھ دیا ہے جو پورے جہان میں کسی کو نہیں دیا۔ تیسرے، مجھے نبوت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔

۳۷۔(۱)  یہاں صیغہ واحد سے مخاطب کیا جب کہ اس سے قبل صیغہ جمع سے خطاب کیا تھا کیونکہ خطاب میں کبھی پوری جماعت کو ملحوظ رکھا گیا ہے کبھی امیر کو۔

 ٣٧۔ (۲)  حضرت سلیمان علیہ السلام نرے بادشاہ ہی نہیں تھے، اللہ کے پیغمبر بھی تھے۔ اس لئے ان کی طرف سے لوگوں کو ذلیل خوار کیا جانا ممکن نہیں تھا، لیکن جنگ و قتال کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کیونکہ جنگ نام ہی کشت و خون اور اسیری کا ہے اور ذلت و خواری سے یہی مراد ہے، ورنہ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو خواہ مخواہ ذلیل خوار نہیں کرتے۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا طرز عمل اور اسوہ، حسنہ جنگوں کے موقع پر رہا۔

٣٨۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس جواب سے ملکہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ سلیمان علیہ السلام کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے چنانچہ انہوں نے مطیع و منقاد ہو کر آنے کی تیاری شروع کر دی۔ سلیمان علیہ السلام کو بھی ان کی آمد کی اطلاع مل گئی تو آپ نے انہیں مزید اپنی اعجازی شان دکھانے کا پروگرام بنایا اور انکے پہنچنے سے قبل ہی اس کا تخت شاہی اپنے پاس منگوانے کا بندوبست کیا۔

٣٩۔ (۱) اس سے وہ مجلس مراد ہے، جو مقدمات کی سماعت کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام صبح سے نصف النہار تک منعقد فرماتے تھے۔

۳۹۔ (۲)  اس سے معلوم ہوا کہ وہ یقیناً ایک جن ہی تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے کیونکہ کسی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا ہی زور آور ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن جائے اور پھر وہاں سے تخت شاہی اٹھا لائے اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے تین یا چار گھنٹے میں طَے کر لے ایک طاقتور سے طاقتور انسان بھی اول تو اتنے بڑے تخت کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور اگر وہ مختلف لوگوں یا چیزوں کا سہارا لے کر اٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں اتنا سفر کیوں کر ممکن ہے۔

٣٩۔ (۳)  یعنی میں اسے اٹھا کر لا بھی سکتا ہوں اور اس کی کسی چیز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کروں گا۔

٤٠۔ یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا؟ یہ کتاب کون سی تھی؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا، اللہ تعالیٰ نے کرامات اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک جھپکتے میں وہ تخت لے آیا۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر پاتے ہیں۔ اس لئے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کا سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے سے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الٰہی ہی کی کار فرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کر سکتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئے انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا۔

٤١۔ (۱) یعنی اس کے رنگ روپ یا واضح و شکل شباہت میں تبدیلی کر دو۔

٤١۔ (۲)  یعنی وہ اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ یہ تخت اسی کا ہے یا اس کو سمجھ نہیں پاتی؟ دوسرا مطلب ہے کہ وہ راہ ہدایت پاتی ہے یا نہیں ؟ یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی اس پر راہ ہدایت واضح ہوتی ہے یا نہیں ؟

٤٢۔ (۱) رد و بدل سے چونکہ اس کی وضع شکل میں کچھ تبدیلی آ گئی تھی، اس لئے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اور رد و بدل کے باوجود انسان پھر بھی اپنی چیز کو پہچان لیتا ہے، اس لئے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی۔ اور یہ کہا ' گویا یہ وہی ہے ' اس میں اقرار ہے نہ نفی۔ بلکہ نہایت محتاط جواب ہے۔

٤٢۔ (۲)  یعنی یہاں آنے سے قبل ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع و منقاد ہو گئے تھے۔ لیکن امام ابن کثیر و شوکانی وغیرہ نے اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول قرار دیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ ملکہ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہو گی۔

٤٣۔ یعنی اسے اللہ کی عبادت سے جس چیز نے روک رکھا تھا وہ غیر اللہ کی عبادت تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق ایک کافر قوم سے تھا، اس لئے توحید کی حقیقت سے بے خبر رہی، یعنی اللہ نے یا اللہ کے حکم سے سلیمان علیہ السلام نے اسے غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا ؛ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے (فتح القدیر)

٤٤۔ (۱) یہ محل شیشے کا بنا ہوا تھا، جس کا صحن اور فرش بھی شیشے کا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی نبوت کے اعجازی مظاہرے دکھانے کے بعد مناسب سمجھا کہ اسے اپنی دنیاوی شان و شوکت کی بھی ایک جھلک دکھلا دی جائے جس میں اللہ نے انہیں تاریخ انسانیت میں ممتاز کیا تھا۔ چنانچہ اس محل میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا، جب وہ داخل ہونے لگی تو اس نے اپنے پائنچے چڑھا لئے۔ شیشے کا فرش اسے پانی معلوم ہوا جس سے اپنے کپڑوں کو بچانے کے لئے اس نے کپڑے سمیٹ لئے۔

٤٤۔ (۲)  یعنی جب اس پر فرش کی حقیقت واضح ہوئی تو اپنی کوتاہی اور غلطی کا بھی احساس ہو گیا اور اعتراف قصور کرتے ہوئے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا صاف چکنے گھڑے ہوئے پتھروں کو ممرد کہا جاتا ہے اسی سے مراد ہے جو اس خوش شکل بچے کو کہا جاتا ہے جس کے چہرے پر ابھی ڈاڑھی مونچھ نہ ہو جس درخت پر پتے نہ ہوں اسے شجرۃ مرداء کہا جاتا ہے۔فتح القدیر۔ لیکن یہاں یہ تعبیر یا جڑاؤ کے معنی میں ہے یعنی شیشوں کا بنا ہوا یا جڑا ہوا محل۔ ملحوظہ:ملکہ سبا بلقیس کے مسلمان ہونے کے بعد کیا ہوا؟قرآن میں یا کسی صحیح حدیث میں اس کی تفصیل نہیں ملتی تفسیری روایات میں یہ ضرور ملتا ہے کہ ان کا باہم نکاح ہو گیا تھا لیکن جب قرآن و حدیث اس صراحت سے خاموش ہیں تو اس کی بابت خاموشی ہی بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

٤٥۔ ان سے مراد کافر اور مومن ہیں، جھگڑنے کا مطلب ہر فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے۔

٤٦۔ یعنی ایمان قبول کرنے کی بجائے، تم کفر ہی پر کیوں اصرار کر رہے ہو، جو عذاب کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں اپنے عناد و سرکشی کی وجہ سے کہتے بھی تھے کہ ہم پر عذاب لے آ۔ جس کے جواب میں حضرت صالح علیہ السلام نے یہ کہا۔

٤٧۔ عرب جب کسی کام کا یا سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھتے اور وہ کام کر گزرتے یا سفر پر روانہ ہو جاتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو بد شگونی سمجھتے اور اس کام یا سفر سے رک جاتے (فتح القدیر) اسلام میں یہ بد شگونی اور نیک شگونی جائز نہیں ہے البتہ فال نکالنا جائز ہے

٤۷۔ (۲)  یعنی اہل ایمان نحوست کا باعث نہیں ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا اصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے کیونکہ قضا و تقدیر اسی کے اختیار میں ہے مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو نحوست پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب تمہارا کفر ہے۔فتح القدیر

٤٧۔ (۳)  یا گمراہی میں ڈھیل دے کر تمہیں آزمایا جا رہا ہے۔

٤٩۔ (۱) یعنی صالح علیہ السلام کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کر دیں گے، یہ قسمیں انہوں نے اس وقت کھائیں، جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عذاب کے آنے سے قبل ہی ہم صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کا صفایا کر دیں۔

٤٩۔ (۲)  یعنی ہم قتل کے وقت وہاں موجود نہ تھے ہمیں اس بات کا علم ہے کہ کون انہیں قتل کر گیا ہے۔

٥٠۔ (۱) ان کا مکر یہی تھا کہ انہوں نے باہم حلف اٹھایا کہ رات کی تاریکی میں اس منصوبہ قتل کو بروئے کار لائیں اور تین دن پورے ہونے سے پہلے ہی ہم صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو ٹھکانے لگا دیں۔

٥٠۔ (۲)  یعنی ہم نے ان کی اس سازش کا بدلہ دیا اور انہیں ہلاک کر دیا۔ اسے بھی مَکَرْنَا مَکْراً کے طور پر تعبیر کیا گیا۔

٥٠۔ (۳) اللہ کی اس تدبیر (مکر) کو سمجھتے ہی نہ تھے۔

٥١۔ یعنی ہم نے مذکورہ ٩ سرداروں کو ہی نہیں، بلکہ ان کی قوم کو بھی مکمل طور پر ہلاک کر دیا۔ کیونکہ وہ قوم ہلاکت کے اصل سبب کفر میں مکمل طور پر ان کے ساتھ شریک تھی اور گو عملی طور ان کے منصوبہ قتل میں شریک نہ ہو سکی تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ خفیہ تھا۔ لیکن ان کی منشاء اور دلی آرزو کے عین مطابق تھا اس لئے وہ بھی گویا اس مکر میں شریک تھی جو ٩ افراد نے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے اہل کے خلاف تیار کیا تھا۔ اس لئے پوری قوم ہی ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔

٥٤۔ (۱) یعنی لوط علیہ السلام کا قصہ یاد کرو، جب لوط علیہ السلام نے کہا یہ قوم عموریہ اور سدوم بستیوں میں رہائش پذیر تھی۔

٥٤۔ (۲)  یعنی یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بے حیائی کا کام ہے۔ یہ بصارت قلب ہے۔ اور اگر بصارت ظاہری یعنی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہو تو معنی ہوں گے کہ نظروں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، یعنی تمہاری سرکشی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ چھپنے کا تکلف بھی نہیں کرتے ہو۔

٥٥۔ (۱) یہ تکرار توبیخ کے لئے ہے کہ یہ بے حیائی وہی لواطت ہے جو تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے غیر فطری شہوت رانی کے طور پر کرتے ہو۔

٥٥۔ (۲)  یا اس کی حرمت سے یا اس معصیت کی سزا سے تم بے خبر ہو۔ ورنہ شاید یہ کام نہ کرتے۔

٥٦۔ بطور طنز اور استہزاء کے کہا۔

٥٧۔ یعنی پہلے ہی اس کی بابت یہ اندازہ یعنی تقدیر الٰہی میں تھا وہ انہی پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی جو عذاب سے دو چار ہوں گے۔

٥٨۔ (۱) ان پر عذاب آیا، اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے کہ ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور کھنگرو کی بارش ہوئی۔

۵۸۔ (۲)  یعنی جنہیں پیغمبروں کے ذریعے سے ڈرایا گیا اور ان پر حجت قائم کر دی گئی لیکن وہ تکذیب وانکار سے باز نہیں آئے۔

٥٩۔(۱) جن کو اللہ نے رسالت اور بندوں کی رہنمائی کے لئے چنا تاکہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔

۵۹۔ (۲)  یہ استفہام تقریری ہے یعنی اللہ ہی کی عبادت بہتر ہے کیونکہ جب خالق رازق اور مالک یہی ہے تو عبادت کا مستحق کوئی دوسرا کیوں کر ہو سکتا ہے جو نہ کسی چیز کا خالق ہے نہ رازق اور مالک خیر اگرچہ تفضیل کا صیغہ ہے لیکن یہاں تفضیل کے معنی میں نہیں ہے مطلق بہتر کے معنی میں ہے اس لیے کہ معبودان باطلہ میں تو سرے سے کوئی خیر ہے ہی نہیں۔

۶۰۔ (۱) یہاں سے پچھلے جملے کی تشریح اور اس کے دلائل دئیے جا رہے ہیں کہ وہی اللہ پیدائش، رزق اور تدبیر وغیرہ میں منفرد ہے۔ کوئی اسکا شریک نہیں ہے۔ فرمایا آسمانوں کو اتنی بلندی اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا، ان میں درخشاں کواکب، روشن ستارے اور گردش کرنے والے افلاک بنانے والا اسی طرح زمین اور آسمان سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے با رونق باغات اگانے والا کون ہے ؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو زمین سے درخت ہی اگا کر دکھا دے ؟ ان سب کے جواب میں مشرکین بھی کہتے اور اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر ہے۔ (مثلاً سورہ العنکبوت ٦۳)

۶۰۔ (۲)  یعنی ان سب حقیقتوں کے باوجود کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہستی ایسی ہے، جو عبادت کے لائق ہو؟ یا جس نے ان میں سے کسی چیز کو پیدا کیا ہو؟ یعنی کوئی ایسا نہیں جس نے کچھ بنایا ہو یا عبادت کے لائق ہو۔ امن کا ان آیات میں مفہوم یہ ہے کہ کیا وہ ذات جو ان تمام چیزوں کو بنانے والی ہے۔ اس شخص کی طرح ہے جو ان میں سے کسی چیز پر قادر نہیں ؟ (ابن کثیر)

۶۰۔ (۳)  اس کا دوسرا ترجمہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کا ہمسر اور نظیر ٹھہراتے ہیں۔

٦١۔ (۱) یعنی ساکن اور ثابت، نہ ہلتی ہے، نہ ڈولتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین پر رہنا ممکن ہی نہ ہوتا زمین پر بڑے بڑے پہاڑ بنانے کا مقصد بھی زمین کو حرکت کرنے سے اور ڈولنے سے روکنا ہی ہے۔

٦١۔ (۲)  اس کی تشریح کے لئے دیکھیں سورہ الفرقان۔٥٣ کا حاشیہ۔

٦٢۔ (۱) یعنی وہی اللہ ہے جسے سختی کے وقت پکارا جاتا اور مصیبتوں کے وقت جس سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں اس کی طرف رجوع کرتا اور برائی کو وہی دور کرتا ہے۔ مزید ملاحظہ ہو سورۃ الا سراء۔ ٦٧ سورہ النمل۔٥٣

٦٢۔ (۲)  یعنی ایک امت کے بعد دوسری، ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا کرنا ہے۔ ورنہ اگر وہ سب کو ایک ہی وقت میں وجود بخش دیتا تو زمین تنگ ہونے کا شکوہ کرتی معیشت میں بھی دشواریاں پیدا ہوتیں اور سب کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے میں ہی مصروف و سرگرداں رہتے۔ یعنی یکے بعد دیگرے انسانوں کو پیدا کرنا اور ایک کو دوسرے کا جانشین بنانا، یہ بھی اس کی کمال مہربانی ہے۔

٦٣۔ (۱) یعنی آسمانوں پر ستاروں کو درخشانی عطا کرنے والا کون ہے ؟ جن سے تم تاریکیوں میں راہ پاتے ہو، پہاڑوں اور وادیوں کا پیدا کرنے والا کون ہے جو ایک دوسرے کے لئے سرحدوں کا کام بھی دیتے ہیں اور راستوں کی نشان دہی کا بھی۔

٦٣۔ (۲)  یعنی بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں، جو بارش کی خوشخبری ہی نہیں ہوتیں، بلکہ ان سے خشک سالی کے مارے ہوئے لوگوں میں خوشی کی لہر بھی دوڑ جاتی ہے۔

٦٤۔ (۱) یعنی قیامت والے دن تمہیں دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا۔

٦٤۔ (۲)  یعنی آسمان سے بارش نازل فرما کر، زمین سے اس کے چھپے خزانے (غلہ جات اور میوے ) پیدا فرماتا ہے اور یوں آسمان و زمین کی برکتوں کو کھول دیتا ہے۔

٦٥۔ یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں اللہ تعالیٰ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح غیب کے علم میں بھی وہ متفرد ہے۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ نبیوں اور رسولوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ وحی اور الہام کے ذریعے سے انہیں بتلا دیتا ہے اور جو علم کسی کے بتلانے سے حاصل ہو، اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آئندہ کل پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اس لئے کہ وہ تو فرما رہا ہے کہ آسمان و زمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے ' (صحیح بخاری) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقاصد کے لیے بنائے ہیں۔ آسمان کی زینت، رہنمائی کا ذریعہ اور شیطان کو سنگسار کرنا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام سے بے خبر لوگوں نے ان سے غیب کا علم حاصل کرنے (کہانت) کا ڈھونگ رچا لیا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں جو فلاں فلاں ستارے کے وقت نکاح کرے گا تو یہ یہ ہو گا فلاں فلاں ستارے کے وقت سفر کرے گا تو ایسا ایسا ہو گا۔فلاں فلاں ستارے کے وقت پیدا ہو گا تو ایسا ایسا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔ ستاروں، پرندوں اور جانورں سے غیب کا علم کس طرح حاصل ہو سکتا ہے ؟ جبکہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (ابن کثیر)

(۱) یعنی ان کا علم آخرت کے وقوع کا وقت جاننے سے عاجز ہے۔

٦٨۔ یعنی اس میں حقیقت کوئی نہیں، بس ایک دوسرے سے سن کر یہ کہتے چلے آ رہے ہیں۔

۷۱۔یہ ان کافروں کے قول کا جواب ہے کہ پچھلی قوموں کو دیکھو کہ کیا ان پر اللہ کا عذاب نہیں آیا؟ جو پیغمبروں کی صداقت کی دلیل ہے۔ اسی طرح قیامت اور اس زندگی کے بارے میں بھی ہمارے رسول جو کہتے ہیں، یقیناً سچ ہے۔

 ٧٢۔ اس سے مراد جنگ بدر کا وہ عذاب ہے جو قتل اور اسیری کی شکل میں کافروں کو پہنچایا یا عذاب قبر ہے رَدِفَ، قرب کے معنی میں ہے، جیسے سواری کی عقبی نشست پر بیٹھنے والے کو ردیف کہا جاتا ہے۔

٧٣۔ یعنی عذاب میں تاخیر، یہ بھی اللہ کے فضل و کرم کا ایک حصہ ہے، لیکن لوگ پھر بھی اس سے انکار کر کے ناشکری کرتے ہیں۔

 ٧٥۔ اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ ان ہی غائب چیزوں میں اس عذاب کا علم بھی ہے جس کے لئے یہ کفار جلدی مچاتے ہیں لیکن اس کا وقت بھی اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے جسے صرف وہی جانتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے جو اس نے کسی قوم کی تباہی کے لئے لکھ رکھا ہے، تو پھر اسے تباہ کر دیتا ہے۔ یہ مقررہ وقت آنے سے پہلے جلدی کیوں کرتے ہیں ؟

٧٦۔ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ان کے عقائد بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرتے تھے اور عیسائی ان کی شان میں غلو۔ حتیٰ کہ انہیں، اللہ یا اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ قرآن کریم نے ان کے حوالے سے ایسی باتیں بیان فرمائیں، جن سے حق واضح ہو جاتا ہے اور اگر وہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کو مان لیں تو ان کے عقائدی اختلاف اور تفریق و انتشار کم ہو سکتا ہے۔

 ٧٧۔ ١ مومنوں کا اختصاص اس لئے کہ وہی قرآن سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ انہیں میں وہ بنی اسرائیل بھی ہیں جو ایمان لے آئے تھے۔

 ٧٨۔ یعنی قیامت میں ان کے اختلافات کا فیصلہ کر کے حق کو باطل سے ممتاز کر دے گا اور اس کے مطابق جزا و سزا کا اہتمام فرمائے گا یا انہوں نے اپنی کتابوں میں جو تعریفیں کی ہیں، دنیا میں ہی ان کا پردہ چاک کر کے ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔

 ٧٩۔ یعنی اپنا معاملہ اسی کے سپرد کر دیں اور اسی پر اعتماد کریں، وہی آپ کا مددگار ہے۔

 ٨٠۔ یہ ان کافروں کی پروا نہ کرنے اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھنے کی دوسری وجہ ہے کہ یہ لوگ مردہ ہیں جو کسی کی بات سن کر فائدہ نہیں اٹھا سکتے یا بہرے ہیں جو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں اور نہ راہ یاب ہونے والے ہیں۔ گویا کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی جن میں حس ہوتی ہے نہ عقل اور بہروں سے، جو وعظ و نصیحت سنتے ہیں نہ دعوت الی اللہ قبول کرتے ہیں۔

 ٨١۔ یعنی جن کو اللہ تعالیٰ حق سے اندھا کر دے، آپ ان کی اس طرح رہنمائی نہیں فرما سکتے جو انہیں مطلوب یعنی ایمان تک پہنچا دے۔

 ٨٢۔ (۱) یعنی جب نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا نہیں رہ جائے گا۔

٨٢۔ (۲)  یہ وہی ہے جو قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو، ان میں ایک جانور نکلنا ہے۔ (صحیح بخاری) دوسری روایت میں ہے ' سب سے پہلی نشانی جو ظاہر ہو گی، وہ ہے سورج کا مشرق کی بجائے، مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت جانور کا نکلنا۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ظاہر ہو گی، دوسری اس کے فوراً بعد ظاہر ہو جائے گی (صحیح بخاری)

 ٨٣۔ یا قسم قسم کر دیئے جائیں گے۔ یعنی زانیوں کا ٹولہ، شرابیوں کا ٹولہ وغیرہ۔ یا یہ معنی ہیں کہ ان کو روکا جائے گا۔ یعنی ان کو اِدھر اُدھر اور آگے پیچھے ہونے سے روکا جائے گا اور سب کو ترتیب وار لا کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

 ٨٤۔ (۱) یعنی تم نے میری توحید اور دعوت کے دلائل سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کہ اور اس کے بغیر ہی میری آیتوں کو جھٹلاتے رہے۔

٨٤۔ (۲)  جس کی وجہ سے تمہیں میری باتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

 ٨٥۔ یعنی ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا کہ جسے وہ پیش کر سکیں۔ یا قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے بولنے کی قدرت سے ہی محروم ہوں گے اور بعض کے نزدیک یہ اس وقت کی کیفیت کا بیان ہے جب ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔

٨٦۔ تاکہ وہ اس میں کسب معاش کے لئے دوڑ دھوپ کر سکیں۔

 ٨٧۔ (۱) صور سے مراد وہی قرن ہے جس میں اسرائیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے پہلی پھونک میں ساری دنیا گھبرا کر بے ہوش اور دوسری پھونک میں موت سے ہم کنار ہو جائے گی اور تیسری پھونک میں سب لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے جس سے سب لوگ میدان محشر میں اکھٹے ہو جائیں گے۔ یہاں کون سا نفحہ مراد ہے ؟ امام ابن کثیر کے نزدیک یہ پہلا نفخہ اور امام شوکانی کے نزدیک تیسرا نفخہ ہے جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے۔

٨٧۔ (۲)  یہ مشتثنیٰ لوگ کون ہوں گے۔ بعض کے نزدیک انبیاء و شہدا، بعض کے نزدیک فرشتے اور بعض کے نزدیک سب اہل ایمان ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تمام مذکورین ہی اس میں شامل ہوں کیونکہ اہل ایمان حقیقی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔

 ٨٨۔ (۱) یہ قیامت والے دن ہو گا کہ پہاڑ اپنی جگہوں پر نہیں رہیں گے بلکہ بادلوں کی طرح چلیں گے اور اڑیں گے۔

٨٨۔ (۲)  یعنی یہ اللہ کی عظیم قدرت سے ہو گا جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے۔ لیکن وہ ان مضبوط چیزوں کو بھی روئی کے گالوں کی طرح کر دینے پر قادر ہے۔

 ٨٩۔ یعنی حقیقی اور بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ ہوں گے۔

 ٩١۔ اس سے مراد مکہ شہر ہے اس کا بطور خاص اس لئے ذکر کیا ہے کہ اسی میں خانہ کعبہ ہے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھا ' حرمت والا ' کا مطلب ہے اس میں خون ریزی کرنا، ظلم کرنا، شکار کرنا درخت کاٹنا حتّیٰ کہ کانٹا توڑنا بھی منع ہے (بخاری کتاب الجنائز)

 ٩٢۔ یعنی میرا کام صرف تبلیغ ہے۔ میری دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہو جائے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا، اور جو میری دعوت کو نہیں مانے گا، تو میرا کیا؟ اللہ تعالیٰ خود ہی اس سے حساب لے لے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا مزہ چکھائے گا۔

٩٣۔ (۱) کہ جو کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک دلیل قائم نہیں کر دیتا۔

۹۳۔ (۲)  ہم انہیں آفاق و انفس میں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے تاکہ ان پر حق واضح ہو جائے اگر زندگی میں یہ نشانیاں دیکھ کر ایمان نہیں لاتے تو موت کے وقت تو ان نشانیوں کو دیکھ کر ضرور پہچان لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت کی معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی، اس لئے کہ اس وقت ایمان مقبول نہیں۔

٩٣۔ (۳)  بلکہ ہر چیز کو وہ دیکھ رہا ہے۔ اس میں کافروں کے لئے ترہیب شدید اور تہدید عظیم ہے۔