احسن البیان

سُوۡرَةُ الزُّمَر

٢۔ (۱)   یعنی اس میں توحید و رسالت، معاد اور احکام و فرائض کا جو اثبات کیا گیا ہے، وہ سب حق ہے اور انہی کے ماننے اور اختیار کرنے میں انسان کی نجات ہے۔

٢۔ (۲)  دین کے معنی یہاں عبادت اور اطاعت کے ہیں اور اخلاص کا مطلب ہے صرف اللہ کی رضا کی نیت سے نیک عمل کرنا۔ آیت، نیت کے وجوب اور اس کے اخلاص پر دلیل ہے۔ حدیث میں بھی اخلاص نیت کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کر دی گئی ہے کہ اِنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ' عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے ' یعنی جو عمل خیر اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے گا، (بشرطیکہ وہ سنت کے مطابق ہو) وہ مقبول اور جس عمل میں کسی اور جذبے کی آمیزش ہو گی، وہ نا مقبول ہو گا۔

٣۔ یہ جھوٹ ہی ہے کہ ان معبودان باطلہ کے ذریعے سے ان کی رسائی اللہ تک ہو جائے گی یا یہ ان کی سفارش کریں گے اور اللہ کو چھوڑ کر بے اختیار لوگوں کو معبود سمجھنا بھی بہت بڑی ناشکری ہے ایسے جھوٹوں اور ناشکروں کو ہدایت کس طرح نصیب ہو سکتی ہے۔

٤۔ یعنی پھر اس کی اولاد لڑکیاں ہی کیوں ہوتیں ؟ جس طرح مشرکین کا عقیدہ تھا۔ بلکہ وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو پسند کرتا، وہ اس کی اولاد ہوتی، نہ کہ وہ جن کو وہ باور کراتے ہیں، لیکن وہ تو اس نقص سے ہی پاک ہے۔ (ابن کثیر

٦۔ (۱)   یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے، جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی تھی۔

٦۔ (۲)  یعنی حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا فرمایا اور یہ بھی اس کا کمال قدرت ہے کیونکہ حضرت حوا کے علاوہ کسی بھی عورت کی تخلیق، کسی آدمی کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ یوں یہ تخلیق امر عادی کے خلاف اور اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔

٦۔ (۳) یہ وہی چار قسم کے جانوروں کا بیان ہے بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے، جو نر اور مادہ مل کر آٹھ ہو جاتے ہیں جن کا ذکر سورہ انعام میں گزر چکا ہے۔

٦۔(۴) یعنی رحم مادر میں مختلف اطوار گزارتا ہے، پہلے، نطفہ، پھر عَلَقَۃَ پھر مُضْغَۃَ پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ، جس کے اوپر گوشت کا لباس۔ ان کے تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان کامل تیار ہوتا ہے۔

٦۔(٥) ایک ماں کے پیٹ کا اندھیرا اور دوسرا رحم مادر کا اندھیرا اور تیسرا اس جھلی یا پردہ جس کے اندر بچہ لپٹا ہوتا ہے۔

٦۔(٦) یا کیوں تم حق سے باطل کی طرف اور ہدایت سے گمراہی کی طرف پھر رہے ہو؟

٧۔ اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورہ ابراہیم آیت ٨ کا حاشیہ۔

٨۔ یا اس تکلیف کو بھول جاتا ہے جس کو دور کرنے کے لئے وہ دوسروں کو چھوڑ کر، اللہ سے دعا کرتا تھا یا اس رب کو بھول جاتا ہے، جسے وہ پکارتا تھا اور پھر شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

٩۔ اور یہ اہل ایمان ہی ہیں، نہ کہ کفار۔ گو وہ اپنے آپ کو صاحب دانش و بصیرت ہی سمجھتے ہوں۔ لیکن جب وہ اپنی عقل و دانش کو استعمال کر کے غور و تدبر ہی نہیں کرتے اور عبرت و نصیحت ہی حاصل نہیں کرتے تو ایسے ہی ہے گویا وہ چوپایوں کی طرح عقل و دانش سے محروم ہیں۔

١٠۔ (۱)   اس کی اطاعت کر کے، معاصی سے اجتناب کر کے اور عبادت و اطاعت کو اس کے لئے خالص کر کے۔

 ١٠۔ (۲)  یہ تقویٰ کے فوائد ہیں۔ نیک بدلے سے مراد جنت اور اس کی ابدی نعمتیں ہیں۔ بعض اس کا مفہوم یہ کرتے ہیں، کہ جو نیکی کرتے ہیں ان کے لئے دنیا میں نیک بدلہ ہے ' یعنی اللہ انہیں دنیا میں صحت و عافیت، کامیابی اور غنیمت وغیرہ عطا فرماتا ہے۔ لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔

١٢۔ پہلا اس معنی میں کہ آبائی دین کی مخالفت کر کے توحید کی دعوت سب سے پہلے آپ ہی نے پیش کی۔

١٦۔ (۱)   یعنی ان کے اوپر نیچے آگ کے طبق ہوں گے، جو ان پر بھڑک رہے ہوں گے (فتح القدیر)

 ١٦۔ (٢) یعنی مذکور خسران مبین اور عذاب ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے تاکہ وہ اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کر کے اس انجام بد سے بچ جائیں۔

١٨۔ (۱)   اَحسَنُ سے مراد محکم اور پختہ بات، یا سب سے اچھی بات، یا عقوبیت کے مقابلے میں درگزر اختیار کرتے ہیں۔

١٨۔ (۲)  کیونکہ انہوں نے اپنی عقل سے فائدہ اٹھایا ہے، جب کہ دوسروں نے اپنی عقلوں سے فائدہ نہیں اٹھایا۔

١٩۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ اس بات کی شدید خواہش رکھتے تھے کہ آپ کی قوم کے سب لوگ ایمان لے آئیں اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی اور آپ کو بتلایا کہ آپ کی اپنی جگہ بالکل صحیح اور بجا ہے لیکن جس پر اس کی تقدیر غالب آ گئی اور اللہ کا کلمہ اس کے حق میں ثابت ہو گیا، اسے آپ جہنم کی آگ سے بچانے پر قادر نہیں ہیں۔

٢٠۔ جو اس نے مومن بندوں کے لئے کیا ہے اور جو یقیناً پورا ہو گا، کہ اللہ سے وعدہ خلافی ممکن نہیں۔

٢١۔ (۱)   یعنی بارش کے ذریعے سے پانی آسمان سے اترتا ہے، پھر وہ زمین میں جذب ہو جاتا ہے پھر چشموں کی صورت میں نکلتا ہے یا تالابوں اور نہروں میں جمع ہو جاتا ہے۔

٢١۔ (۲)  یعنی شادابی اور ترو تازگی کے بعد وہ کھیتیاں سوکھ جاتی اور زرد ہو جاتی ہیں اور پھر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ جس طرح لکڑی کی ٹہنیاں خشک ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

٢٢۔ یعنی جس کو قبول حق اور خیر کا راستہ اپنانے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جائے پس وہ اس شرح صدر کی وجہ سے رب کی روشنی پر ہو، کیا یہ اس جیسا ہو سکتا ہے جس کا دل اسلام کے لئے سخت اور اس کا سینہ تنگ ہو اور وہ گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہو۔

٢٣۔ (۱)   اَحْسَنُ الْحَدِیْثِ سے مراد قرآن مجید ہے، ملتی جلتی کا مطلب، اس کے سارے حصے حسن کلام، اعجاز و بلاغت صحت معانی وغیرہ خوبیوں میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ یا یہ بھی سابقہ کتب آسمانی سے ملتا ہے یعنی ان کے مشابہ ہے مثانی، جس میں قصص و واقعات اور مواعظ و احکام کو بار بار دہرایا گیا ہے۔

٢٣۔ (۲)  کیونکہ وہ ان وعیدوں کو اور تخویف و تہدید کو سمجھتے ہیں جو نافرمانوں کے لئے اس میں ہے۔

٢٤۔ یعنی کیا یہ شخص، اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو قیامت والے دن بالکل بے خوف اور امن میں ہو گا؟ یعنی محذوف عبارت ملا کر اس کا مفہوم ہو گا۔

٢٥۔ اور انہیں ان عذابوں سے کوئی نہیں بچا سکا۔

٢٧۔ یعنی لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں باتیں بیٹھ جائیں اور وہ نصیحت حاصل کریں۔

٢٩۔ (۱)   اس میں مشرک (اللہ کا شریک ٹھہرانے والے ) اور مخلص(صرف ایک اللہ کے لئے عبادت کرنے والے ) کی مثال بیان کی گئی ہے یعنی ایک غلام ہے جو کئی شخصوں کے درمیان مشترکہ ہے، چنانچہ وہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں اور ایک غلام ہے جس کا مالک صرف ایک ہی شخص ہے، اس کی ملکیت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ کیا یہ دونوں غلام برابر ہو سکتے ہیں ؟ نہیں یقیناً نہیں۔ اسی طرح وہ مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کرتا ہے اور وہ مخلص مومن، جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا برابر نہیں ہو سکتے۔

٢٩۔ (۲)  اس بات پر کہ اس نے حجت قائم کر دی۔

٢٩۔ (۳) اسی لئے اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔

٣١۔ یعنی اے پیغمبر! آپ بھی اور آپ کے مخالف بھی، سب موت سے ہمکنار ہو کر اس دنیا سے ہمارے پاس آخرت میں آئیں گے۔ دنیا میں تو توحید اور شرک کا فیصلہ تمہارے درمیان نہیں ہو سکا اور تم اس بارے میں جھگڑتے ہی رہے لیکن یہاں میں اس کا فیصلہ کروں گا اور مخلص موحدین کو جنت میں اور مشرکین و جاحدین اور مکذبین کو جہنم میں داخل کروں گا۔

٣٢۔ (۱)   یعنی دعویٰ کرے کہ اللہ کے اولاد ہے یا اس کا شریک ہے یا اس کی بیوی ہے در آں حالیکہ وہ ان سب چیزوں سے پاک ہے۔

٢٣۔ (۲)  جس میں توحید، احکام و فرائض ہیں، عقیدہ بعث و نشور ہے، محرمات سے اجتناب ہے، مومنین کے لئے خوشخبری اور کافروں کے لئے سزائیں ہیں۔ یہ دین و شریعت جو حضرت محمد رسول اللہ لے کر آئے، اسے جھوٹا بتلائے۔

٣٣۔ (۱)   اس سے پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ مراد ہیں جو سچا دین لے کر آئے۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے اور اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جو توحید کی دعوت دیتا اور اللہ کی شریعت کی طرف کی رہنمائی کرتا ہے۔

٣٣۔ (۲) بعض اس سے حضرت ابوبکر صدیق مراد لیتے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لائے۔ بعض نے اسے بھی عام رکھا ہے، جس میں سب مومن شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں اور آپ کو سچا مانتے ہیں۔

٣٤۔ (۱)   یعنی اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بھی معاف فرما دے گا، ان کے درجے بھی بلند فرمائے گا، کیونکہ ہر مسلمان کی اللہ سے یہی خواہش ہوتی ہے علاوہ ازیں جنت میں جانے کے بعد ہر مطلوب چیز بھی ملے گی۔

٣٤۔‎(۲)   محسنین کا ایک مفہوم تو یہ ہے جو نیکیاں کرنے والے ہیں دوسرا وہ جو اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے ہیں جیسے حدیث میں احسان کی تعریف کی گئی ہے ان تعبد اللہ کانک تراہ فانہ لم تکن تراہ فانہ یراک تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ تصور ممکن نہ ہو تو یہ ضرور ذہن میں رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے تیسرا جو لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرتے ہیں چوتھا ہر نیک عمل کو اچھے طریقے سے خشوع و خضوع سے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق کرتے ہیں کثرت کے بجائے اس میں حسن کا خیال رکھتے ہیں۔

٣٦۔ (۱)   اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے، تمام انبیاء علیہم السلام اور مومنین اس میں شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کو غیر اللہ سے ڈراتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب آپ کا حامی و ناصر ہو تو آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ ان سب کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے

 ٣٦۔ (۲)  جو اس گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر لگا دے۔

٣٧۔ (۱)   جو اس کو ہدایت سے نکال کر گمراہی کے گڑھے میں ڈال دے یعنی ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے، جس کو چاہے گمراہ کر دے اور جس چاہے ہدایت سے نوازے۔

٣٧۔ (۲)  کیوں نہیں، یقیناً ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ لوگ کفر و عناد سے باز نہ آئے، تو یقیناً وہ اپنے دوستوں کی حمایت میں ان سے انتقام لے گا اور انہیں عبرت ناک انجام سے دو چار کرے گا۔

٣٨۔(۱)    بعض کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ سوال ان کے سامنے پیش کیا، تو انہوں نے کہا کہ واقعی وہ اللہ کی تقدیر کو نہیں ٹال سکتے، البتہ وہ سفارش کریں گے، جس پر یہ ٹکڑا نازل ہوا کہ مجھے تو میرے معاملات میں اللہ ہی کافی ہے۔

٣٨۔ (۲)  جب سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے تو پھر دوسروں پر بھروسہ کرنے کا کیا فائدہ؟ اس لئے اہل ایمان صرف اس پر توکل کرتے ہیں، اس کے سوا کسی پر اعتماد نہیں۔

٣٩۔ یعنی اگر تم میری اس دعوت توحید کو قبول نہیں کرتے جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے، تو ٹھیک ہے، تمہاری مرضی، تم اپنی اس حالت پر قائم رہو جس پر تم ہو، میں اس حالت میں رہتا ہوں جس میں مجھے اللہ نے رکھا ہے۔

٤٠۔(۱)   جس سے واضح ہو جائے گا کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ اس سے مراد دنیا کا عذاب ہے جیسا کہ جنگ بدر میں ہوا کافروں کے ستر آدمی قتل اور ستر ہی آدمی قید ہوۓ حتی کہ فتح مکہ کے بعد غلبہ و تمکن بھی مسلمانوں کو حاصل ہو گیا جس کے بعد کافروں کے لیے سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ باقی نہ رہا

٤۰۔ (۲)  اس سے مراد عذاب جہنم ہے جس میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔

٤١۔ نبی کو اہل مکہ کا کفر پر اصرار بڑا گراں گزرتا تھا، اس میں آپ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا کام صرف اس کتاب کو بیان کر دینا ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے، ان کی ہدایت کے آپ مکلف نہیں ہیں۔ اگر وہ ہدایت کا راستہ اپنا لیں گے تو اس میں انہیں کا فائدہ ہے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو خود ہی نقصان اٹھائیں گے۔ وکیل کے معنی مکلف اور ذمے دار کے ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی ہدایت کے ذمے دار نہیں ہیں اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی ایک قدرت بالغہ اور صنعت عجیبہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جس کا مشاہدہ ہر روز انسان کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ سو جاتا ہے تو اس کی روح اللہ کے حکم سے گویا نکل جاتی ہے کیوں کہ اس کے احساس و ادراک کی قوت ختم ہو جاتی ہے اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تو روح اس میں گویا دوبارہ بھیج دی جاتی ہے جس سے اس کے حواس بحال ہو جاتے ہیں البتہ جس کی زندگی کے دن پورے ہو چکے ہوتے ہیں اس کی روح واپس نہیں آتی اور وہ موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے اس کو بعض مفسرین نے وفات کبری اور وفات صغری سے بھی تعبیر کیا ہے۔

٤٢۔ (۱)   یہ وفات کبریٰ ہے کہ روح قبض کر لی جاتی ہے، واپس نہیں آتی۔

٤٢۔ (۲)  یعنی جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا، تو سونے کے وقت ان کی روح بھی قبض کر کے انہیں وفات صغریٰ سے دو چار کر دیا جاتا ہے۔

٤٢۔ (۳) یہ وہی وفات کبریٰ ہے، جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں روح روک لی جاتی ہے۔

٤٢۔(۴) یعنی جب تک ان کا وقت نہیں آتا، اس وقت تک کے لئے روحیں واپس ہوتی رہتی ہیں، یہ وفات صغریٰ ہے، یہی مضمون سورہ الانعام میں بیان کیا گیا ہے تاہم وہاں وفات صغریٰ کا ذکر پہلے اور وفات کبری کا بعد میں ہے جب کہ یہاں اس کے برعکس ہے۔

٤٢۔(٥) یعنی روح کا قبض اور اس کا ارسال، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور قیامت والے دن وہ مردوں کو بھی یقیناً زندہ فرمائے گا۔

٤٣۔ یعنی شفاعت کا اختیار تو کجا، انہیں تو شفاعت کے معنی و مفہوم کا بھی پتہ نہیں، کیونکہ وہ پتھر ہیں۔ یا بے خبر ہیں

٤٤۔ یعنی شفاعت کی تمام اقسام کا مالک صرف اللہ ہی ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش ہی نہیں کر سکے گا، پھر صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کیوں نہ کی جائے تاکہ وہ راضی ہو جائے اور شفاعت کے لئے کوئی سہارا ڈھونڈھنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔

٤٥۔ (۱)   یا کفر اور استکبار، مطلب یہ ہے کہ مشرکین سے جب یہ کہا جائے کہ معبود صرف ایک ہی ہے تو ان کے دل یہ بات ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔

٤٥۔(۲)   ہاں جب یہ کہا جائے کہ فلاں فلاں بھی معبود ہیں یا وہ بھی آخر اللہ کے نیک بندے ہیں وہ بھی کچھ اختیار رکھتے ہیں وہ بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کر سکتے یہں تو پھر مشرکین بڑے خوش ہوتے ہیں منحرفین کا یہی حال آج بھی ہے جب ان سے کہا جاۓ کہ صرف یا اللہ مدد کہو کیونکہ اس کے سوا کوئی مدد کرنے پر قادر نہیں ہے تو سیخ پا ہو جاتے ہیں یہ جملہ ان کے لیے سخت ناگوار ہوتا ہے لیکن جب یا علی مدد یا یا رسول اللہ مدد کہا جاۓ اسی طرح دیگر مردوں سے استمداد و استغاثہ کیا جاۓ مثلاً یا شیخ عبد القادر شیئ اللہ وغیرہ تو پھر ان کے دل کی کلیاں کھل اٹھتی ہیں۔ فتشابھت قلوبھم۔

٤٦۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم رات کو تہجد کی نماز کے آغاز میں یہ پڑھا کرتے تھے اللھم رب جبریل ومیکائیل واسرفیل فاطر السموات والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم۔

٤٧۔ (۱)   لیکن پھر بھی وہ قبول نہیں ہو گا جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے (فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِ ھِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَھَماً وَّ لَوِا فْتَدْی بِہٖ) (آل عمران۔٩) ' وہ زمین بھر سونا بھی بدلے میں دے دیں، تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ ولا یوخذ منہا عدل وہاں معاوضہ قبول نہیں کیا جاۓ گا۔

٤٧۔(۲)   یعنی عذاب کی شدت اور اس کی ہولناکیاں اور اس کی انواع واقسام ایسی ہوں گی کہ کبھی ان کے گمان میں نہ آئی ہوں گی۔

٤٨۔ (۱)   یعنی دنیا میں جن محارم و ما ثم کا وہ ارتکاب کرتے رہے تھے، اس کی سزا ان کے سامنے آ جائے گی۔

 ٤٨۔ (۲)  وہ عذاب انہیں گھیر لے گا جسے وہ دنیا میں ناممکن سمجھتے تھے، اس لئے کہ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

٤٩۔(۱)   یہ انسان کا بہ اعتبار جنس ذکر ہے یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب ان کو بیماری فقر و فاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تو اس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا اور اس کے سامنے گڑگڑاتا ہے۔

٤٩۔ (۲)  یعنی نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے۔ یا جو علم و ہنر میرے پاس ہے، اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیونکہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔

 ٤٩۔ (۳)  یعنی بات وہ نہیں ہے جو تو سمجھ رہا یا بیان کر رہا ہے بلکہ یہ نعمتیں تیرے لیے امتحان اور آزمائش ہیں کہ تو شکر کرتا ہے یا کفر؟

٤٩۔(۴) اس بات سے کہ یہ اللہ کی طرف سے استدراج اور امتحان ہے۔

٥٠۔ جس طرح قارون نے بھی کہا تھا، لیکن بالآخر وہ اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ فما اغنی میں ما استفہامیہ بھی ہو سکتا ہے اور نافیہ بھی دونوں طرح معنی صحیح ہے۔

۵۱۔(۱)   برائیوں سے مراد ان کی برائیوں کی جزا ہے ان کو مشاکلت کے اعتبار سے سیئات کہا گیا ہے ورنہ برائی کی جزا برائی نہیں ہے جیسے وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا میں ہے فتح القدیر

۵۱۔ (۲) یہ کفار مکہ کو تنبیہ ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ بھی گزشتہ قوموں کی طرح قحط قتل واسارت وغیرہ سے دو چار ہوۓ اللہ کی طرف سے آۓ ہوۓ ان عذابوں کو یہ روک نہیں سکے۔

۵۲۔یعنی رزق کی کشادگی اور تنگی میں بھی اللہ کی توحید کے دلائل ہیں یعنی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں صرف اسی کا حکم و تصرف چلتا ہے اسی کی تدبیر موثر اور کارگر ہے اسی لیے وہ جس کو چاہتا ہے رزق فراواں سے نواز دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فقر و تنگ دستی میں مبتلا کر دیتا ہے اس کے ان فیصلوں میں جو اس کی حکمت ومشیت پر مبنی ہوتے ہیں کوئی دخل انداز ہو سکتا ہے نہ ان میں رد و بدل کر سکتا ہے تاہم یہ نشانیاں صرف اہل ایمان ہی کے لیے ہیں کیوں کہ وہی ان پر غور وفکر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے اور اللہ کی مغفرت حاصل کرتے ہیں۔

٥٣۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ ' اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو ' کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا توبہ و استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کئے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں بہت زیادہ گنہگار ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا؟ بلکہ سچے دل سے اگر ایمان قبول کر لے گا یا توبہ کر لے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ شان نزول کی روایت سے بھی یہی مفہوم ثابت ہوتا ہے کچھ کافر و مشرک تھے جنہوں نے کثرت سے قتل اور زنا کاری کا ارتکاب کیا تھا یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت صحیح ہے لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطا کار ہیں اگر ہم ایمان لے آئیں تو کیا وہ سب معاف ہو جائیں گے جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ صحیح بخاری، تفسیر سورہ زمر۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید پر خوب گناہ کیے جاؤ اس کے احکام و فرائض کی مطلق پروا نہ کرو اور اس کے حدود اور ضابطوں کو بے دردی سے پامال کرو اس طرح اس کے غضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت و مغفرت کی امید رکھنا نہایت نا دانش مندی اور خام خیالی ہے یہ تخم حنظل بو کر ثمرات و فواکہ کی امید رکھنے کے مترادف ہے ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں اپنے بندوں کے لیے غفور رحیم ہے وہاں وہ نافرمانوں کے لیے عزیز ذو انتقام بھی ہے چنانچہ قرآن کریم میں متعدد جگہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا مثلاً نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم (الحجر) غالباً یہی توبہ کر کے صحیح معنوں میں اس کا بندہ بن جاۓ گا اس کے گناہ اگر سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں گے تو معاف فرما دے گا وہ اپنے بندوں کے لیے یقیناً غفور رحیم ہے جیسے حدیث میں سو آدمیوں کے قاتل کی توبہ کا واقعہ ہے۔

٥٥۔ یعنی عذاب آنے سے قبل توبہ اور عمل صالح کا اہتمام کر لو، کیونکہ جب عذاب آئے گا تو اس کا علم و شعور بھی نہیں ہو گا، اس سے مراد دنیاوی عذاب ہے۔

٥٦۔ فِی جَنْب اللّٰہِ کا مطلب، اللہ کی اطاعت یعنی قرآن اور اس پر عمل کرنے میں کوتاہی ہے۔ جَنْب کے معنی قرب اور جوار کے ہیں۔ یعنی اللہ کا قرب اور اس کا جوار (یعنی جنت) طلب کرنے میں کوتاہی کی۔

٥٧۔ یعنی اگر اللہ مجھے ہدایت دے دیتا تو میں شرک اور معاصی سے بچ جاتا۔ یہ اس طرح ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر مشرکین کا قول نقل کیا گیا، (لَوْ شَآء۔ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا) (انعام۔ ١٤٨) اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے، ان کا قول کَلِمَۃُ حَقٍّ بِھَا الْبَاطِلُ کا مصداق ہے (فتح القدیر)

٥٩۔ یہ اللہ تعالیٰ ان کی خواہش کے جواب میں فرمائے گا۔

٦٠۔ (۱)   جس کی وجہ عذاب کی ہولناکیاں اور اللہ کے غضب کا مشاہدہ ہو گا۔

٦٠۔(۲)   حدیث میں ہے الکبر بطر الحق وغمط الناس حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنا کبر ہے یہ استفہام تقریری ہے یعنی اللہ کی اطاعت سے تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

٦١۔(۱)   مفازۃ مصدر میمی ہے یعنی فوز کامیابی شر سے بچ جانا اور خیر سے سعادت سے ہم کنار ہو جانا، مطلب ہے، اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو اس فوز و سعادت کی وجہ سے نجات عطا فرما دے گا جو اللہ کے ہاں ان کے لئے پہلے سے ثبت ہے۔

٦١۔ (۲)  وہ دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے ہیں، اس پر انہیں کوئی غم نہ ہو گا، وہ چونکہ قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ ہوں گے، اس لئے انہیں کسی بات کا غم نہ ہو گا۔یعنی ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے اور مالک بھی وہی وہ جس طرح چاہے تصرف اور تدبیر کرے ہر چیز اس کے ماتحت اور زیر تصرف ہے کسی کو سرتابی یا انکار کی مجال نہیں وکیل بمعنی محافظ اور مدبر ہر چیز اس کے سپرد ہے اور وہ بغیر کسی کی مشارکت کے ان کی حفاظت اور تدبیر کر رہا ہے۔

٦٣۔ (۱)   مقالید، مقلید اور مقلاد کی جمع ہے فتح القدیر بعض نے اس کا ترجمہ چابیاں اور بعض نے خزانے کیا ہے مطلب دونوں میں ایک ہی ہے تمام معاملات کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے۔

٦٣۔ (۲)  یعنی کامل خسارہ کیونکہ اس کفر کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلے گئے۔

٦٤۔ یہ کفار کی اس دعوت کے جواب میں ہے جو وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا کرتے تھے کہ اپنے آبائی دین کو اختیار کر لیں، جس میں بتوں کی عبادت تھی۔

٦٥۔ اگر تو نے شرک کیا ' مطلب ہے، اگر موت شرک پر آئی اور اس سے توبہ نہ کی۔ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے جو شرک سے پاک بھی تھے اور آئندہ کے لئے محفوظ بھی۔ کیونکہ پیغمبر اللہ کی حفاظت و عصمت میں ہوتا ہے ان سے ارتکاب شرک کا کوئی امکان نہیں تھا، لیکن دراصل امت کے لئے تعریض اور اس کو سمجھانا مقصود ہے۔

٦٦۔ اِ یَّاکَ نَعْبُدُ کی طرح یہاں بھی مفعول (اللہ) کو مقدم کر کے حصر کا مفہوم پیدا کر دیا گیا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔کیونکہ اس کی بات بھی نہیں مانی جو اس نے پیغمبروں کے ذریعے سے ان تک پہنچائی تھی اور عبادت بھی اس کے لیے خالص نہیں کی بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شریک کر لیا حدیث میں آتا ہے کہ ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اللہ کی بابت کتابوں میں یہ بات پاتے ہیں کہ وہ قیامت والے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور فرماۓ گا میں بادشاہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسکرا کر اس کی تصدیق فرمائی اور آیت وما قدروا اللہ کی تلاوت فرمائی صحیح بخاری تفسیر سورہ زمر محدثین اور سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی جن صفات کا ذکر قرآن اور احادیث صحیحہ میں ہے جس طرح اس آیت میں ہاتھ کا اور حدیث میں انگلیوں کا اثبات ہے ان پر بلا کیف و تشبیہ اور بغیر تاویل و تحریف کے ایمان رکھنا ضروری ہے اس لیے یہاں بیان کردہ حقیقت کو مجرد غلبہ و قوت کے مفہوم میں لینا صحیح نہیں ہے۔

٦٧۔ اس کی بابت بھی حدیث میں آتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اَنَا المُلْکُ، اَیْنَ مُلُوکُ الاٰرْضِ ' میں بادشاہ ہوں زمین کے بادشاہ (آج کہاں ہیں ؟ '

 ۶۸۔(۱)   بعض کے نزدیک نفخہ فزع کے بعد یہ نفخہ ثانیہ یعنی نفخہ صعق ہے جس سے سب کی موت واقع ہو جاۓ گی بعض نے ان نفخات کی ترتیب اس طرح بیان کی ہے پہلا نفخۃ الفناء دوسرا نفخۃ البعث تیسرا نفخۃ الصعق چوتھا نفخۃ القیام لرب العالمین۔ (ایسر التفاسیر) بعض کے نزدیک صرف دو ہی نفخے ہیں نفخہ الموت اور نفخہ نفخۃ البعث اور بعض کے نزدیک تین واللہ اعلم۔

٦٨۔ (۲) یعنی جن کو اللہ چاہے گا ان کو موت نہیں آۓ گی جیسے جبرائیل میکائیل اور اسرافیل بعض کہتے ہیں رضوان فرشتہ حملۃ العرش عرش اٹھانے والے فرشتے اور جنت و جہنم پر مقرر داروغے۔فتح القدیر

٦٨۔ (۳)  چار نفخوں کے قائلین کے نزدیک یہ چوتھا، تین کے قائلین کے نزدیک تیسرا اور دو کے قائلین کے نزدیک یہ دوسرا نفخہ ہے۔ بہرحال اس نفخے سے سب زندہ ہو کر میدان محشر میں رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہو جائیں گے، جہاں حساب کتاب ہو گا۔

٦٩۔ (۱)   اس نور سے بعض نے عدل اور بعض نے حکم مراد لیا ہے لیکن اس حقیقیٰ معنوں پر اٹھانے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، کیونکہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔

۶۹۔ (۲) ۔ نبیوں سے پوچھا جاۓ گا کہ تم نے میرا پیغام اپنی اپنی قوم یا امت کو پہنچا دیا تھا؟ یا یہ پوچھا جاۓ گا کہ تمہاری امتوں نے تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا اسے قبول کیا یا اس کا انکار کیا؟ امت محمدیہ کو بطور گواہ لایا جاۓ گا جو اس بات کی گواہی ان امور پر مطلع فرمایا تھا۔ ١٩۔ (۳) یعنی کسی کے اجر و ثواب میں کمی نہیں ہو گی اور کسی کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی۔

۷۰۔یعنی اس کو کسی کاتب، حاسب اور گواہ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اعمال نامے اور گواہ صرف بطور حجت اور قطع معذورت کے ہوں گے۔

٧١۔ (۱)   زمر زَمَرَ سے مشتق ہے بمعنی آواز ہر گروہ یا جماعت میں شور اور آوازیں ضرور ہوتی ہیں اس لیے یہ جماعت اور گروہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ کافروں کو جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا ایک گروہ کے پیچھے ایک گروہ۔ علاوہ ازیں انہیں مار دھکیل کر جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہنکایا جائے گا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا یوم یدعون الی نار جہنم دعا الطور یعنی انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جاۓ گا۔

 ٧١۔ (۲) یعنی ان کے پہنچتے ہی فورا جہنم کے ساتوں دروازے کھول دیۓ جائیں گے تاکہ سزا میں تاخیر نہ ہو۔

٧١۔ (۳)  یعنی جس طرح دنیا میں بحث و تکرار اور جدال و مناظرہ کرتے تھے، وہاں سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جانے کے بعد بحث و جدال کی گنجایش ہی باقی نہ رہے گی، اس لئے اعتراف کیے بغیر چارہ نہ ہو گا۔

٧١۔(۴)یعنی ہم نے پیغمبروں کی تکذیب اور مخالفت کی اس شقاوت کی وجہ سے جس کے ہم مستحق تھے جب کہ ہم نے حق سے گریز کر کے باطل کو اختیار کیا اس مضمون کو سورۃ الملک میں زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔

اہل ایمان وتقویٰ بھی گروہوں کی شکل میں جنت کی طرف لے جائے جائیں گے پہلے مقربین پھر ابرار اس طرح درجہ بدرجہ ہر گروہ ہم مرتبہ لوگوں پر مشتمل ہو گا مثلاً انبیاء علیم السلام کے ساتھ صدیقین شہدا اپنے ہم جنسوں کے ساتھ علماء اپنے اقران کے ساتھ یعنی ہر صنف اپنی ہی صنف یا اس کی مثل کے ساتھ ہو گی۔ ابن کثیر۔ حدیث میں آتا ہے جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک ریان ہے جس سے صرف روزے دار داخل ہوں گے (صحیح بخاری) اسی طرح دوسرے دروازوں کے بھی نام ہوں گے جیسے باب الصلوۃ باب الصدقۃ باب الجہاد وغیرہ صحیح بخاری کتاب الصیام مسلم کتاب الزکوٰۃ ہر دروازے کی چوڑائی چالیس سال کی مسافت کے برابر ہو گی اس کے باوجود یہ بھرے ہوئے ہوں گے۔ (صحیح مسلم) سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہوں گے (مسلم) جنت میں سب سے پہلے جانے والے گروہ کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح اور دوسرے گرہ کے چہرے آسمان پر چمکنے والے ستاروں میں سے روشن ترین ستارے کی طرح چمکتے ہوں گے جنت میں وہ بول و براز اور تھوک بلغم سے پاک ہوں گے ان کی کنگھیاں سونے کی اور پسینہ کستوری ہو گا ان کی انگیٹھیوں میں خوشبو دار لکڑی ہو گی ان کی بیویاں الحور العین ہوں گی ان کا قد آدم علیہ السلام کی طرح ساٹھ ہاتھ ہو گا (صحیح بخاری) صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کو دو بیویاں ملیں گی ان کے حسن وجمال کا یہ حال ہو گا کہ ان کی پنڈلی کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا (کتاب بدء الخلق) بعض نے کہا یہ دو بیویاں حوروں کے علاوہ دنیا کی عورتوں میں سے ہوں گی لیکن چونکہ ۷۲ حوروں والی روایت سنداً صحیح نہیں اس لیے بظاہر یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ہر جنتی کی کم از کم حور سمیت دو بیویاں ہوں گی تاہم و لھم فیھا ما یشتھون کے تحت زیادہ بھی ممکن ہیں واللہ اعلم

٧٥۔ (۱)   قضائے الٰہی کے بعد جب اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے، آیت میں اس کے بعد کا نقشۃ بیان کیا گیا ہے کہ فرشتے عرش الٰہی کو گھیرے ہوئے تسبیح و تحمید میں مصروف ہوں گے۔

٧٥۔ (۲) ۔ یہاں حمد کی نسبت کسی ایک مخلوق کی طرف نہیں کی گئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز (ناطق و غیر ناطق) کی زبان پر حمد الٰہی کے ترانے ہوں گے۔