احسن البیان

سُوۡرَةُ التّکویر

١۔ یعنی جس طرح سر پر پگڑی کو لپیٹا جاتا ہے، اسی طرح سورج کے وجود کو لپیٹ کر پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی روشنی از خود ختم ہو جائے گی۔

٢۔ دوسرا ترجمہ کہ جھڑ کر گر جائیں گے یعنی آسمان پر ان کا وجود ہی نہیں رہے گا

٣۔ یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ہواؤں میں چلا دیا جائے گا اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑیں گے۔

٤۔ جب قیامت برپا ہو گی تو ایسا ہولناک منظر ہو گا کہ اگر کسی کے پاس اس قسم کی حاملہ اور قیمتی اونٹنی بھی ہو گی تو وہ ان کی پرواہ نہیں کرے گا اور چھوڑ دے گا۔

٥۔ یعنی انہیں بھی قیامت والے دن جمع کیا جائے گا

٧۔ اس کے کئے مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ زیادہ قرین قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اس کے ہم مذہب وہم مشرب کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ مومنوں کو مومنوں کے ساتھ اور بد کو بدوں کے ساتھ یہودی کو یہودیوں کے ساتھ اور عیسائی کو عیسائیوں کے ساتھ۔

١٠۔ موت کے وقت یہ صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں، پھر قیامت والے دن حساب کے لئے کھول دیئے جائیں گے، جنہیں ہر شخص دیکھ لے گا بلکہ ہاتھوں میں پکڑا دیئے جائیں گے۔

١١۔ یعنی اس طرح ادھیڑ دیئے جائیں گے جس طرح چھت ادھڑی جاتی ہے۔

١٤۔ یہ جواب ہے یعنی مذکورہ امور ظہور پذیر ہوں گے، جن میں سے پہلے چھ کا تعلق دنیا سے ہے اور دوسرے چھ امور کا آخرت سے۔ اس وقت ہر ایک کے سامنے اس کی حقیقٹ آ جائے گی۔

١٦۔ یہ ستارے دن کے وقت اپنے منظر سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور نظر نہیں آتے اور یہ زحل، مستری، مریخ، زہرہ، عطارد ہیں، یہ خاص طور پر سورج کے رخ پر ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ سارے ہی ستارے مراد ہیں، کیونکہ سب ہی اپنے غائب ہونے کی جگہ پر غائب ہو جاتے ہیں یا دن کو چھپے رہتے ہیں۔

١٩۔ اس لئے کہ وہ اسے اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہے۔ مراد حضرت جبرائیل علیہ الاسلام ہیں۔

٢٢۔ یہ خطاب اہل مکہ سے ہے اور صاحب سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ یعنی تم جو گمان رکھتے ہو کہ تمہارا ہم نسب اور ہم وطن ساتھی، (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) دیوانہ ہے۔ نعوذ باللہ ایسا نہیں ہے، ذرا قرآن پڑھ کر تو دیکھو کہ کیا کوئی دیوانہ ایسے حقائق بیان کر سکتا ہے اور گزشتہ قوموں کے صحیح صحیح حالات بتلا سکتا ہے جو اس قرآن میں بیان کئے گئے ہیں۔

٢٣۔ یہ پہلے گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصل حالت میں دیکھا ہے، جن میں سے ایک یہاں ذکر ہے۔ یہ ابتدائے نبوت کا واقع ہے، اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام کے چھ سو پر تھے، جنہوں نے آسمان کے کناروں کو بھر دیا تھا، دوسری مرتبہ معراج کے موقعہ پر دیکھا جیسا کہ سورہ نجم میں تفصیل گزر چکی ہے۔

٢٦۔ یعنی کیوں اس سے روگردانی کرتے ہو؟ اور اس کی اطاعت نہیں کرتے۔

٢٩۔ یعنی تمہاری چاہت، اللہ کی توفیق پر منحصر ہے، جب تک تمہاری چاہت کے ساتھ اللہ کی مشیت اور اس کی توفیق بھی شامل نہیں ہو گی اس وقت تک تم سیدھا راستہ اختیار نہیں کر سکتے۔