احسن البیان

سُوۡرَةُ العَنکبوت

٢۔ یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لئے، انہیں دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انہیں جان و مال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعہ سے جانچا پرکھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا اور مومن و منافق کا پتہ چل جائے۔

٣۔ یعنی یہ سنت الٰہیہ ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے۔ اس لئے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس ظلم و ستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' یہ تشدد و ایذاء تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انہیں ایک گھڑا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہو گئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ' (صحیح بخاری) حضرت عمار، انکی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال و مقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔

٤۔ (۱) یعنی ہم سے بھاگ جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہ آ سکیں گے۔

٤۔ (۲)  یعنی اللہ کے بارے میں کس ظن فاسد میں یہ مبتلا ہیں، جب کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر بات سے باخبر بھی۔ پھر اس کی نافرمانی کر کے اس کے مؤاخذہ و عذاب سے بچنا کیونکر ممکن ہے ؟

۵۔(۱) یعنی جسے آخرت پر یقین ہے اور وہ اجر و ثواب کی امید پر اعمال صالحہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی امیدیں بر لائے گا اور اسے اس کے عملوں کی مکمل جزاء عطا فرمائے گا، کیونکہ قیامت یقیناً برپا ہو کر رہے گی اور اللہ کی عدالت ضرور قائم ہو گی۔

 ۵۔ (۲)  وہ بندوں کی باتوں اور دعاؤں کا سننے والا اور ان کے پیچھے اور ظاہر سب عملوں کو جاننے والا ہے اسکے مطابق وہ جزا اور سزا بھی یقیناً دے گا۔

 ٦۔ یعنی جو نیک عمل کرے گا، اس کا فائدہ اسی کو ہو گا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کے افعال سے بے نیاز ہے۔ اگر سارے کے سارے متقی بن جائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں قوت و اضافہ نہیں ہو گا اور سب نافرمان ہو جائیں تو اس سے اس کی بادشاہی میں کمی نہیں ہو گی۔ الفاظ کی مناسبت سے اس میں جہاد مع الکفار بھی شامل ہے کہ وہ بھی من جملہ اعمال صالحہ ہی ہے۔

٧۔ یعنی باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ محض اپنے فضل و کرم سے اہل ایمان کو ان کے عملوں کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ اور ایک ایک نیکی پر کئی کئی گنا اجر ثواب دے گا۔

٨۔ (۱) قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و عبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ جس سلوک کی تاکید کی ہے۔ جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (اللہ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقہ سے وہی سمجھ سکتا ہے اور انہیں ادا کر سکتا ہے جو والدین کی اطاعت و خدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔ جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور ان کی تربیت و پرداخت، ان کی نہایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لئے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے اور یقیناً خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید و عبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لئے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی کو رب کی نارضگی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔

٨۔ (۲)  یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم شامل ہے ) اور اس کے لئے خاص کوشش بھی کریں تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے 'کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں '۔ اس آیت کے شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر انکی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا پھر تو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی

۹۔ یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مومن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہو گا، والدین کے ساتھ نہیں۔ اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے ہوں گے لیکن اس کی محبت دینی اہل ایمان ہی کے ساتھ تھی بنابریں المرء مع من أحب کے تحت وہ زمرہ صالحین میں ہو گا۔

۱۰۔(۱)  اس میں اہل نفاق یا کمزور ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ ایمان کی وجہ سے انہیں ایذاء پہنچتی ہے تو عذاب الہی کی طرح وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ نتیجتا وہ ایمان سے پھر جاتے اور دین عوام کو اختیار کر لیتے ہیں۔

 ۱۰۔ (۲)  یعنی مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب ہو جائے۔

۱۰۔ (۳)  یعنی تمہارے دینی بھائی ہیں، یہ وہی مضمون ہے جو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہی، تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ اور اگر حالات کافروں کے لیے کچھ سازگار ہوتے ہیں تو کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہیں لیا تھا۔ اور مسلمانوں سے تم کو نہیں پجایا تھا۔ (النساء ۱٤۱)

١٠۔(۴) یعنی کیا اللہ ان باتوں کو نہیں جانتا جو تمہارے دلوں میں ہے اور تمہارے ضمیروں میں پوشیدہ ہے۔ گو تم زبان سے مسلمانوں کا ساتھی ہونا ظاہر کرتے ہو۔

۱۱۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشی اور تکلیف دے کر آزمائے گا تاکہ منافق اور مومن کی تمیز ہو جائے جو دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت کرے گا، وہ مومن ہے اور جو صرف خوشی اور راحت میں اطاعت کرے گا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف اپنے حظ نفس کا مطیع ہے، اللہ کا نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (ولنبلونکم حتی نعلم المجاھدین منکم والصابرین و نبلوأ اخبارکم) (سورہ محمد۳۱( ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے، تاکہ ہم جان لیں تم میں مجاہد اور صابر کون ہیں اور تمہارے دیگر حالات بھی جانچیں گے ‏،۔ جنگ احد کے بعد، جس میں مسلمان اختیار و امتحان کی بھٹی سے گزارے گئے تھے، فرمایا (ماکان اللہ لیذر المومنین علی مآ أنتم علیہ حتی یمیز الخبیث من الطیب) (سورہ آل عمران۱۷۹) نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ چھوڑ دے مومنوں کو، اس حالت پر جس پر کہ تم ہو، یہاں تک کہ وہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے۔

١٢۔ (۱)  یعنی تم اسی آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ، جس پر ہم ابھی تک قائم ہیں، اس لئے کہ وہی دین صحیح ہے، اگر اس روایتی مذہب پر عمل کرنے سے تم گناہ گار ہو گے تو اس کے ذمے دار ہم ہیں، وہ بوجھ ہم اپنی گردنوں پر اٹھائیں گے۔

 ۱۲۔ (۲)  اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جھوٹے ہیں۔قیامت کا دن تو ایسا ہو گا کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وہاں تو ایک دوست، دوسرے دوست کو نہیں پوچھے گا چاہے ان کے درمیان نہایت گہری دوستی ہو۔ حتی کہ رشتے دار ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔ اور یہاں بھی اس بوجھ کے اٹھانے کی نفی فرمائی۔

١٣۔ یعنی یہ ائمہ کفر اور داعیان ضلال اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھائیں گے، بلکہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر ہو گا جو انکی سعی و کاوش سے گمراہ ہوئے تھے۔ یہ مضمون سورۃ النحل میں بھی گزر چکا ہے۔ حدیث میں ہے، جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، اس کے لئے اپنی نیکیوں کے اجر کے ساتھ ان لوگوں کی نیکیوں کا اجر بھی ہو گا جو اس کی وجہ سے قیامت تک ہدایت کی پیروی کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ اور جو گمراہی کا داعی ہو گا اس کے لئے اپنے گناہوں کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہو گا جو قیامت تک اس کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والے ہوں گے۔، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کمی ہو۔ اسی اصول سے قیامت تک ظلم سے قتل کیے جانے والوں کے خون کا گناہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر ہو گا۔ اس لیے کہ سب سے پہلے اسی نے ناحق قتل کیا تھا۔

١٤۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی دعوت و تبلیغ کی عمر ان کی پوری عمر کتنی تھی؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ بعض کہتے ہیں چالیس سال نبوت سے قبل اور ساٹھ سال طوفان کے بعد، اس میں شامل کر لئے جائیں۔ اور بھی کئی اقوال ہیں۔ و اللہ اعلم۔

١٧۔ (۱)  اوثان وثن کی جمع ہے۔ جس طرح اصنام، صنم کی جمع ہے۔ دونوں کے معنی بت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں صنم، سونے، چاندی، پیتل اور پتھر کی مورت کو اور وثن مورت کو بھی اور چونے کے پتھر وغیرہ کے بنے ہوئے آستانوں کو بھی کہتے ہیں۔ تحلقون افکا کے معنی ہیں تکذبون کذبا، جیسا کہ متن کے ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرے معنی ہیں تعملونہا وتنحتونہا للافک، جھوٹے مقصد کے لیے انہیں بناتے اور گھڑتے ہو۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، وہ تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع۔ اپنے دل سے ہی تم نے انہیں گھڑ لیا ہے کوئی دلیل تو ان کی صداقت کی تمہارے پاس نہیں ہے یہ بت تم نے خود اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیں جب کہ ان کی ایک خاص شکل و صورت بن جاتی ہے تو تم سمجھتے ہو کہ ان میں خدائی اختیارات آ گئے ہیں اور ان سے تم امیدیں وابستہ کر کے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا باور کر لیتے ہو۔

 ۱۷۔ (۲)  یعنی جب بت تمہاری روزی کے اسباب و وسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ زمین میں درخت اگا سکتے ہیں اور نہ سورج کی حرارت پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں وہ صلاحیتیں دے سکتے ہیں، جنہیں بروئے کار لا کر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو، تو پھر تم روزی اللہ ہی سے طلب کرو، اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو۔

۱۷۔ (۳)  یعنی مر کر اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر جب اسی کی طرف لوٹنا ہے، اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے تو پھر اس کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پر اپنی جبین نیاز کیوں جھکاتے ہو؟ اس کے بجائے دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ اور دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں سمجھتے ہو؟

 ١٨۔ (۱)  یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول بھی ہو سکتا ہے، جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ یا اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس میں اہل مکہ سے خطاب ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں، تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، پیغمبروں کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے پہلی امتیں بھی رسولوں کو جھٹلاتی اور اس کا نتیجہ بھی ہلاکت و تباہی کی صورت میں بھگتتی رہی ہیں۔

۱۸۔ (۲)  اس لیے آپ بھی تبلیغ کا کام کرتے رہیے۔ اس سے کوئی راہ یاب ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کے ذمے دار آپ نہیں ہیں، نہ آپ سے اسکی بابت پوچھا ہی جائے گا، کیونکہ ہدایت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو اپنی سنت کے مطابق جس میں ہدایت کی طلب صادق دیکھتا ہے، اس کو ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ دوسروں کو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔

١٩۔ (۱)  توحید اور رسالت کے اثبات کے بعد یہاں معاد (آخرت) کا اثبات کیا جا رہا ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ فرمایا پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے جب تمہارا سرے سے وجود ہی نہ تھا، پھر تم دیکھنے سننے اور سمجھنے والے بن گئے اور پھر جب مر کر تم مٹی میں مل جاؤ گے، بظاہر تمہارا نام و نشان تک نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا۔

١٩۔ (۲)  یعنی یہ بات چاہے تمہیں کتنی ہی مشکل لگے، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔

٢٠۔ یعنی آفاق میں پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیاں دیکھو زمین پر غور کرو، کس طرح اسے بچھایا، اس میں پہاڑ، وادیاں، نہریں اور سمندر بنائے، اسی انواع و اقسام کی روزیاں اور پھل پیدا کئے۔ کیا یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ انہیں بنایا گیا ہے اور ان کا کوئی بنانے والا ہے ؟

 ٢١۔ یعنی وہی اصل حاکم اور متصرف ہے، اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا تاہم اس کا عذاب یا رحمت، یوں ہی نہیں ہو گی بلکہ اصولوں کے مطابق ہو گی جو اس نے اس کے لئے طے کر رکھے ہیں۔

 ٢٣۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت، دنیا میں عام ہے جس سے کافر اور مومن، منافق اور مخلص اور نیک اور بد سب یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آسائش اور مال و دولت عطا کر رہا ہے یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ' میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے ' لیکن آخر میں چونکہ دار الجزاء ہے، انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہو گا اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنی ہو گی، جیسے عمل کئے ہوں گے اس کی جزاء اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بے لاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک و بد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن و کافر دونوں ہی رحمت الہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے، دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو انکی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہو گی۔ جسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے ہی منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے نا امید ہوں گے یعنی ان کے حصے میں رحمت الہی نہیں آئے گی۔ سورہ اعراف میں اس کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ (فسأکتبہا للذین یتقون ویوتون الزکوٰۃ والذین ہم بآیاتنا یومنون) (الأعراف(۱)٥٦) میں یہ رحمت (آخرت میں ) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکوٰۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے۔

٢٤۔ (۱)  ان آیات سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا تھا، اب پھر اس کا بقیہ بیان کیا جا رہا ہے، درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و طاقت کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعظ کا حصہ ہے۔ جس میں انہوں نے توحید و معاد کے اثبات میں دلائل دیئے ہیں، جن کا کوئی جواب جب ان کی قوم سے نہیں بنا تو انہوں نے اس کا جواب ظلم و تشدد کی اس کاروائی سے دیا، جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو۔ چنانچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجیق کے ذریعے سے اس میں پھینک دیا۔

٢٤۔ (۲)  یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو گلزار کی صورت میں بدل کر اپنے بندے کو بچا لیا۔ جیسا کہ سورہ انبیاء میں گزرا۔

٢٥۔ (۱)  یعنی یہ تمہارے قوی بت ہیں جو تمہاری اجتماعیت اور آپس کی دوستی کی بنیاد ہیں۔ اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو تمہاری قومیت اور دوستی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

٢٥۔ (۲)  یعنی قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار اور دوستی کی بجائے ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور تابع، متبوع کو ملامت اور متبوع، تابع سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔

٢٦۔ (۱)  حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے برادر زاد تھے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے، بعد میں ان کو بھی ' سدوم ' کے علاقے میں نبی بنا کر بھیجا گیا۔

٢٦۔ (۲)  یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اور بعض کے نزدیک حضرت لوط علیہ السلام نے، اور بعض کہتے ہیں دونوں نے ہجرت کی۔ یعنی جب ابراہیم علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے لوط علیہ السلام کے لئے اپنے علاقے ' کوٹی ' میں، جو حران کی طرف جاتے ہوئے کوفے کی ایک بستی تھی، اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو گئی تو وہاں سے ہجرت کر کے شام کے علاقے میں چلے گئے، تیسری، ان کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ سارہ تھیں۔

٢٧۔ (۱)  یعنی حضرت اسحاق علیہ السلام سے یعقوب علیہ السلام ہوئے، جن سے بنی اسرئیل کی نسل چلی اور انہی میں سارے انبیاء ہوئے، اور کتابیں آئیں۔ آخر میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن نازل ہوا۔

۲۷۔ (۲)  اس اجر سے مراد رزق دنیا بھی ہے اور ذکر خیر بھی۔ یعنی دنیا میں ہر مذہب کے لوگ (عیسائی، یہودی وغیرہ حتی کہ مشرکین بھی) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور مسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی کے پیرو، ان کے ہاں وہ محترم کیوں نہ ہوں گے ؟

٢٧۔ (۳)  یعنی آخرت میں بھی وہ بلند درجات کے حامل اور زمرہ صالحین میں ہوں گے۔ اس مضمون کو دوسرے مقام پر بھی بیان کیا گیا ہے

٢٨۔ اس بدکاری سے مراد وہی لواطت ہے جس کا ارتکاب قوم لوط علیہ السلام نے سب سے پہلے کیا جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔

٢٩۔ (۱)  یعنی تمہاری شہوت پرستی اس انتہاء تک پہنچ گئی ہے کہ اس کے لئے طبعی طریقے تمہارے لئے ناکافی ہیں اور غیر طبعی طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ جنسی شہوت کی تسکین کے لئے طبعی طریقہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں سے مباشرت کی صورت میں رکھا ہے۔ اسے چھوڑ کر اس کام کے لئے مردوں کی دبر استعمال کرنا غیر طبعی طریقہ ہے۔

٢٩۔ (۲)  اس کے ایک معنی تو یہ کیے گے ہیں کہ آنے جانے والے مسافروں، نو واردوں اور گزرنے والوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر تم ان سے بے حیائی کا کام کرتے ہو، جس سے لوگوں کے لئے راستوں سے گزرنا مشکل ہو گیا ہے، قطع طریق کے ایک معنی قطع نسل کے بھی کئے گئے ہیں، یعنی عورتوں کی شرم گاہوں کو استعمال کرنے کی بجائے مردوں کی دبر استعمال کر کے تم اپنی نسل بھی منقطع کرنے میں لگے ہوئے ہو (فتح القدیر)

۲۹۔ (۳)  یہ بے حیائی کیا تھی؟ اس میں بھی مختلف اقوال ہیں، مثلاً لوگوں کو کنکریاں مارنا، اجنبی مسافر کا استہزاء و استخفاف، مجلسوں میں پاد مارنا، ایک دوسرے کے سامنے اغلام بازی، شطرنج وغیرہ قسم کی قماربازی، رنگے ہوئے کپڑے پہننا، وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں، کوئی بعید نہیں کہ وہ یہ تمام ہی منکرات کرتے رہے ہوں،

۲۹۔ (۴) حضرت لوط علیہ السلام نے جب انہیں ان منکرات سے منع کیا تو اس کے جواب میں کہا۔

 ٣٠۔ یعنی حضرت لوط علیہ السلام قوم کی اصلاح سے نا امید ہو گئے تو اللہ سے مدد کی دعا فرمائی۔

٣١۔ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ہلاک کرنے کے لئے بھیج دیا۔ وہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس گئے اور انہیں اسحاق علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی بتلایا کہ ہم لوط علیہ السلام کی بستی ہلاک کرنے آئے ہیں۔

٣٢۔ (۱)  یعنی ہمیں علم ہے کہ ظالم اور مومن کون ہیں اور اشرار کون؟

٣٢۔ (۲)  یعنی ان پیچھے رہ جانے والوں میں سے، جن کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا جانا ہے وہ چونکہ مومنہ نہیں تھی بلکہ اپنی قوم کی طرف دار تھی۔ اس لئے اسے بھی ہلاک کر دیا گیا۔

٣٣۔ (۱)  لوط علیہ السلام نے ان فرشتوں کو، جو انسانی شکل میں آئے تھے، انسان ہی سمجھا۔ ڈرے اپنی قوم کی عادت بد اور سرکشی کی وجہ سے کہ ان خوبصورت مہمانوں کی آمد کا علم اگر انہیں ہو گیا تو وہ زبردستی بے حیائی کا ارتکاب کریں گے جس سے میری رسوائی ہو گی، جس کی وجہ سے وہ غمگین اور دل ہی دل میں پریشان تھے۔

٣٣۔ (۲)  فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی پریشانی اور غم و رنج کی کیفیت کو دیکھا تو انہیں تسلی دی اور کہا کہ آپ کوئی خوف اور رنج نہ کریں، ہم اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ ہمارا مقصد آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو سوائے آپ کی بیوی کے نجات دلانا ہے۔

٣٤۔ اس آسمانی عذاب سے وہی عذاب مراد ہے جس کے ذریعے سے قوم لوط کو ہلاک کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام ان کی بستیوں کو زمین سے اکھیڑا آسمان کی بلندیوں تک لے گئے پھر ان ہی پر الٹا دیا گیا، اس کے بعد کھنگر پتھروں کی بارش ان پر ہوئی اور اس جگہ کو سخت بدبو دار بیحرہ (جھیل) میں تبدیل کر دیا گیا (ابن کثیر)

 ٣٥۔ (۱)  یعنی پتھروں کے وہ آثار، جن کی بارش ان پر ہوئی سیاہ بدبو دار پانی اور الٹی ہوئی بستیاں، یہ سب عبرت کی نشانیاں ہیں مگر کن کے لئے ؟ دانش مندوں کے لئے۔

۳۵۔ (۲)  اس لیے کہ وہی معاملات پر غور کرتے، اسباب و عوامل کا تجزیہ کرتے اور نتائج و آثار کو دیکھتے ہیں کہ لیکن جو لوگ عقل و شعور سے بے بہرہ ہوتے ہیں، انہیں ان چیزوں سے کیا تعلق؟ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں جنہیں ذبح کے لیے بوچڑ خانے لے جایا جاتا ہے لیکن انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اس میں مشرکین مکہ کے لیے بھی تعریض ہے کہ وہ بھی تکذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو عقل و دانش سے بے بہرہ لوگوں کا وطیرہ ہے۔

٣٦۔ (۱)  مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کا نام تھا، بعض کے نزدیک یہ ان کے پوتے کا نام ہے، بیٹے کا نام مدیان تھا ان ہی کے نام پر اس قبیلے کا نام پڑ گیا، جو ان ہی کی نسل پر مشتمل تھا۔ اسی قبیلے مدین کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ مدین شہر کا نام تھا، یہ قبیلہ یا شہر لوط علیہ السلام کی بستی کے قریب تھا۔

٣٦۔ (۲)  اللہ کی عبادت کے بعد، انہیں آخرت کی یاد دہانی کرائی گئی یا تو اس لئے کہ وہ آخرت کے منکر تھے یا اس لئے کہ وہ اسے فراموش کئے ہوئے تھے اور مستیوں میں مبتلا تھے اور جو قوم آخرت کو فرا موش کر دے، وہ گناہوں میں دلیر ہوتی ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے۔

۳۶۔ (۳)  ناپ تول میں کمی اور لوگوں کو کم دینا یہ بیماری ان میں عام تھی اور ارتکاب معاصی میں انہیں باک نہیں تھا، جس سے زمین فساد سے بھر گئی تھی۔

٣٧۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے وعظ و نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا بالآخر بادلوں کے سائے والے دن، جبرائیل علیہ السلام کی ایک سخت چیخ سے زمین زلزلے سے لرز اٹھی، جس سے ان کے دل ان کی آنکھوں میں آ گئے اور ان کی موت واقع ہو گئی اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔

٣٨۔ (۱)  قوم عاد کی بستی احقاف، حضرموت (یمن) کے قریب اور ثمود کی بستی، حجر، جسے آجکل مدائن صالح کہتے ہیں، حجاز کے شمال میں ہے۔ ان علاقوں سے عربوں کے تجارتی قافلے آتے جاتے تھے، اس لئے یہ بستیاں ان کے لئے انجان نہیں، بلکہ ظاہر تھیں۔

٣٨۔ (۲)  یعنی تھے وہ عقلمند اور ہوشیار۔ لیکن دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی عقل و بصیرت سے کچھ کام نہیں لیا، اس لئے یہ عقل اور سمجھ ان کے کام نہ آئی۔

 ٣٩۔ (۱)  یعنی دلائل و معجزات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا اور بدستور متکبر بنے رہے، یعنی ایمان و تقویٰ اختیار کرنے سے گریز کیا۔

٣٩۔ (۲)  یعنی ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جا سکے اور ہمارے عذاب کے شکنجے میں آ کر رہے۔ ایک دوسرا ترجمہ ہے کہ ' یہ کفر میں سبقت کرنے والے نہیں تھے ' بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اس طرح کفر و عناد کا راستہ اختیار کئے رکھا۔

٤٠۔ (۱)  یعنی ان مذکورین میں سے ہر ایک کی ان کے گناہوں کی پاداش میں ہم نے گرفت کی۔

٤۰۔ (۲)  یہ قوم عاد تھی، جس پر نہایت تتند و تیز ہوا کا عذاب آیا۔ یہ ہوا زمین سے کنکریاں اڑا اڑا کر ان پر برساتی، بالآخر اس کی شدت اتنی بڑھی کہ انہیں اچک کر آسمان تک لے جاتی اور انہیں سر کے بل زمین پر دے مارتی، جس سے ان کا سر الگ اور دھڑ الگ ہو جاتا گویا کہ وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (ابن کثیر) بعض مفسرین نے حصبا کا مصداق قوم لوط علیہ السلام کو ٹھہرایا ہے۔ لیکن امام ابن کثیر نے اسے غیر صحیح اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول کو منقطع قرار دیا ہے۔

٤۰۔ (۳) حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود ہے۔ جنہیں ان کے کہنے پر ایک چٹان سے اونٹنی نکال کر دکھائی گئی۔ لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کے بجائے اس اونٹنی کو ہی مار ڈالا۔ جس کے تین دن بعد ان پر سخت چنگھاڑ کا عذاب آیا، جس نے انکی آوازوں اور حرکتوں کو خاموش کر دیا۔

٤٠۔(۴) یہ قارون ہے، جسے مال و دولت کے خزانے عطا کئے گئے، لیکن یہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہو گیا کہ یہ مال و دولت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کے ہاں معزز و محترم ہوں۔ مجھے موسیٰ علیہ السلام کی بات ماننے کی کیا ضرورت ہے، چنانچہ اسے اس کے خزانوں اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔

٤۰۔(۵) یہ فرعون ہے، جو ملک مصر کا حکمران تھا، لیکن حد سے تجاوز کر کے اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعوی بھی کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے سے اور انکی قوم بنی اسرائیل کو، جس کو اس نے غلام بنا رکھا تھا، آزاد کرنے سے انکار کر دیا، بالآخر ایک صبح اس کو اس کے پورے لشکر سمیت دریائے قلزم میں غرق کر دیا گیا۔

٤٠۔ (٦)  یعنی اللہ کی شان نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ اس لئے پچھلی قومیں، جن پر عذاب آیا، محض اس لئے ہلاک ہوئیں کہ کفر و شرک اور تکذیب و معاصی کا ارتکاب کر کے انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔

٤١۔ یعنی جس طرح مکڑی کا جالا (گھر) نہایت، کمزور اور نا پائیدار ہوتا ہے، ہاتھ کے معمولی اشارے سے وہ نابود ہو جاتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بھی بالکل ایسا ہی ہے، یعنی بے فائدہ ہے کیونکہ وہ بھی کسی کے کام نہیں آ سکتے۔ اس لئے غیر اللہ کے سہارے بھی مکڑی کے جالے کی طرح یکسر نا پائیدار ہیں۔ اگر یہ پائیدار یا نفع بخش ہوتے تو یہ معبود گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انہیں نہیں بچا سکے۔

٤٣۔ (۱)  یعنی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے، شرک کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کا راستہ سجھانے کے لئے۔

٤٣۔ (۲)  اس علم سے مراد اللہ کا، اس کی شریعت کا اور ان آیات و دلائل کا علم ہے جن پر غور و فکر کرنے سے انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی اور ہدایت کا راستہ ملتا ہے۔

 ٤٤۔(۱)   یعنی بے فائدہ اور بے مقصد نہیں۔

٤٤۔ (۲)  یعنی اللہ کے وجود کی، اس کی قدرت اور علم و حکمت کی۔ اور پھر اسی دلیل سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات میں اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔

٤٥۔ (۱)  قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے۔ محض اجر و ثواب کے لئے، اس کے معنی و مطلب پر تدبر و تفکر کے لئے، تعلیم و تدریس کے لئے، اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری صورتیں شامل ہیں۔

٤٥۔ (۲)  کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز اور صبر کوئی مرئی چیز نہیں ہے نہیں کہ انسان انکا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کر لے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کا اہتمام فرماتے۔

٤٥۔ (۳) یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتاً ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقیناً اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ان آداب و شرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلاً اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیاً طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔ ثالثاً با جماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعاً ارکان صلاۃ قرأت رکوع قومہ سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان خامساً خشوع و خضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادساً مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام سابعاً رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب و شرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ بے حیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔

٤٥۔(۴) یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلوٰۃ سے زیادہ مؤثر۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔

٤٦۔ (۱)  اس لئے کہ وہ اہل علم و فہم ہیں، بات کو سمجھنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں۔ بنابریں ان سے بحث و گفتگو میں تلخی اور تندی مناسب نہیں۔

٤٦۔ (۲) یعنی جو بحث و مجادلہ میں افراط سے کام لیں تو تمہیں بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہل کتاب لیے ہیں جو مسلمان ہو گئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت و نصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے ظلموا منھم کا مصداق ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال قتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے ان سے تم بھی قتال کرو تاآنکہ مسلمان ہو جائیں یا جزیہ دیں۔

٤٦۔ (۳)  تورات و انجیل پر۔ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور یہ شریعت اسلامیہ کے قیام اور بعثت محمدیہ تک شریعت الٰہی ہیں۔

٤٧۔ (۱)  اس سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں۔ ایتائے کتاب سے مراد اس پر عمل ہے، گویا اس پر جو عمل نہیں کرتے، انہیں یہ کتاب دی ہی نہیں گئی۔

٤٧۔ (۲)  ان سے مراد اہل مکہ ہیں۔ جن میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے تھے۔

٤٨۔(۱)   اس لیے کہ ان پڑھ تھے

٤٨۔ (۲) اس لئے کہ لکھنے کے لئے بھی علم ضروری ہے، جو آپ نے کسی سے حاصل ہی نہیں کیا تھا۔

٤٨۔ (۳) یعنی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے یا کسی استاد سے کچھ سیکھا ہوتا تو لوگ کہتے کہ یہ قرآن مجید فلاں کی مدد سے یا اس سے تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔

٤٩۔ یعنی قرآن مجید کے حافظوں کے سینوں میں ہے۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ قرآن مجید لفظ بہ لفظ سینے میں محفوظ ہو جاتا ہے۔

٥٠۔ یعنی یہ نشانیاں اس کی حکمت و مشیت، جن بندوں پر اتارنے کی ہوتی ہے، وہاں وہ اتارتا ہے، اس میں اللہ کے سوا کسی کا اختیار نہیں ہے۔

٥۱۔ (۱)  یعنی وہ نشانیاں طلب کرتے ہیں۔ کیا ان کے لیے بطور نشانی قرآن کافی نہیں ہے جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جس کی بابت انہیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسا قرآن لا کر دکھائیں یا کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کر دیں۔ جب قرآن کی اس معجزہ نمائی کے باوجود یہ قرآن پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کی طرح انہیں معجزے دکھا بھی دیے جائیں تو اس پر یہ کون سا ایمان لے آئیں گے۔

٥۱۔ (۲) یعنی ان لوگوں کے لیے جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے، کیوں کہ وہی اس سے متمتع اور فیض یاب ہوتے ہیں۔

٥٢۔ (۱)  اس بات پر کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور جو کتاب مجھ پر نازل ہوئی ہے یقیناً منجانب اللہ ہے۔

٥٢۔ (۲) یعنی غیر اللہ کی عبادت کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور جو فی الواقع مستحق عبادت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ، اس کا انکار کرتے ہیں۔

٥٢۔ (۳)  کیوں کہ یہی لوگ فساد عقلی اور سوء فہم میں مبتلا ہیں، اسی لئے انہوں نے سودا کیا ہے کہ ایمان والوں کے بدل کفر اور ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے، اس میں یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

٥٣۔ (۱)  یعنی پیغمبر کی بات ماننے کی بجائے، کہتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا دے۔

٥٣۔ (۲)  یعنی ان کے اعمال و اقوال تو یقیناً اس لائق ہیں کہ انہیں فوراً صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے لیکن ہماری سنت ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت خاص تک مہلت دیتے ہیں جب وہ مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے تو ہمارا عذاب آ جاتا ہے۔

٥٣۔ (۳) یعنی جب عذاب کا وقت مقرر آ جائے گا تو اس طرح اچانک آئے گا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ یہ وقت مقرر وہ ہے جو اس نے اہل مکہ کے لیے لکھ رکھا تھا یعنی جنگ بدر میں اسارت و قتل یا پھر قیامت کا وقوع ہے جس کے بعد کافروں کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔

٥٤۔پہلا  یستعجلونک بطور خبر کے تھا اور یہ دوسرا بطور تعجب کے ہے یعنی یہ امر تعجب انگیز ہے کہ عذاب کی جگہ ان کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی یہ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ؟ حالاں کہ ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے اسے دور کیوں سمجھتے ہیں ؟ یا پھر یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔

٥٥۔ یقول کا فاعل اللہ ہے یا فرشتے یعنی جب چاروں طرف سے ان پر عذاب ہو رہا ہو گا تو کہا جائے گا۔

٥٦۔ اس میں ایسی جگہ سے، جہاں اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو اور دین پر قائم رہنا دوبھر ہو رہا ہو ہجرت کرنے کا حکم ہے، جس طرح مسلمانوں نے پہلے مکہ سے حبشہ کی طرف اور بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

٥۷۔یعنی موت کا جرعہ تلخ تو لامحالہ ہر ایک کو پینا ہے ہجرت کرو گے تب بھی اور نہ کرو گے تب بھی اس لیے تمہارے لیے وطن کا رشتے داروں کا اور دوست احباب کا چھوڑنا مشکل نہیں ہونا چاہیے موت تو تم جہاں بھی ہو گے آ جائے گی۔ البتہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے مرو گے تو تم اخروی نعمتوں سے شاد کام ہو گے۔ اس لیے کہ مر کر تو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔

٥٨۔ (۱)  یعنی اہل جنت کے مکانات بلند ہوں گے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ نہریں پانی، شراب، شہد اور دودھ کی ہوں گی، علاوہ ازیں انہیں جس طرف پھیرنا چاہیں گے، ان کا رخ اسی طرف ہو جائے گا۔

٥٨۔ (۲)  ان کے زوال کا خطرہ ہو گا نہ انہیں موت کا اندیشہ نہ کسی اور جگہ پھر جانے کا خوف۔

٥٩۔ (۱)  یعنی دین پر مضبوطی سے قائم رہے، ہجرت کی تکلیفیں برداشت کیں، اہل و عیال اور عزیز و اقربا سے دوری کو محض اللہ کی رضا کے لئے گوارا کیا۔

٥٩۔ (۲)  دین اور دنیا کے ہر معاملے اور حالات میں۔

٦٠۔ (۱)  کَاَیِّنْ میں کاف تشبیہ کا ہے اور معنی ہیں کتنے ہی یا بہت سے۔

٦٠۔ (۲)  کیونکہ اٹھا کر لے جانے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی، اسی طرح وہ ذخیرہ بھی نہیں کر سکتے، مطلب یہ ہے کہ رزق کسی خاص جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اللہ کا رزق اپنی مخلوق کے لئے عام ہے وہ جو بھی ہو جہاں بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کو جانے والے صحابہ کرام کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور پاکیزہ رزق عطا فرمایا، نیز تھوڑے ہی عرصے بعد انہیں عرب کے متعدد علاقوں کا حکمران بنا دیا۔

٦٠۔ (۳) یعنی کوئی کمزور ہے یا طاقتور، اسباب وسائل سے بہرہ ور ہے یا بے بہرہ اپنے وطن میں ہے یا مہاجر اور بے وطن، سب کا روزی رساں وہی اللہ ہے جو چیونٹی کو زمین کے کونوں کھدروں میں پرندوں کو ہواؤں میں اور مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کو سمندر کی گہرائیوں میں روزی پہنچاتا ہے اس موقع پر مطلب یہ ہے کہ فقر فاقہ کا ڈر ہجرت میں رکاوٹ نہ بنے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمام مخلوقات کی روزی کا ذمے دار ہے۔

٦٠۔(۴) وہ جاننے والا ہے تمہارے اعمال و افعال کو اور تمہارے ظاہر و باطن کو، اس لئے صرف اسی سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے مت ڈرو! اسی کی اطاعت میں سعادت و کمال ہے اور اسی کی معصیت میں بد بختی و نقصان۔

٦١۔ (۱)  یعنی یہ مشرکین، جو مسلمان کو محض توحید کی وجہ سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان و زمین کو عدم وجود میں لانے والا اور سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے ؟ تو وہاں یہ اعتراف کئے بغیر انہیں چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے

٦١۔ (۲) ۔ یعنی دلائل اور و اعتراف کے باوجود حق سے انکار اور گریز باعث تعجب ہے۔

٦٢۔ (۱)  یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے جو وہ مسلمانوں پر کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو پھر غریب اور کمزور کیوں ہو؟ اللہ نے فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور کمی اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق جس کو چاہتا کم یا زیادہ دیتا ہے، اس کا تعلق اس کی رضامندی یا غضب سے نہیں ہے۔

 ٦٢۔ (۲)  اس کو بھی وہی جانتا ہے کہ زیادہ رزق کس کے لئے بہتر ہے اور کس کے لئے نہیں ؟

٦٣۔ کیونکہ عقل ہوتی تو اپنے رب کے ساتھ پتھروں کو اور مردوں کو رب نہ بناتے۔ نہ ان کے اندر یہ تمیز ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت و ربوبیت کے اعتراف کے باوجود، بتوں کو حاجت روا اور لائق عبادت سمجھ رہے ہیں۔

٦٤۔ (۱)  یعنی جس دنیا نے انہیں آخرت سے اندھا اور اس کے لیے توشہ جمع کرنے سے غافل رکھا ہے وہ ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کافر دنیا کے کاروبار میں مشغول رہتا ہے، اس کے لیے شب و روز محنت کرتا ہے لیکن جب مرتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح بچے سارا دن مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے ہیں پھر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ سوائے تھکاوٹ کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا

٦٤۔ (۲) اس لئے ایسے عمل صالح کرنے چاہئیں جن سے آخرت کا یہ گھر سنور جائے۔

٦٤۔ (۳)  کیونکہ اگر وہ یہ بات جان لیتے تو آخرت سے بے پرواہ ہو کر دنیا میں مگن نہ ہوتے۔ اس لئے ان کا علاج علم ہے، علم شریعت۔

٦٥۔ مشرکین کے اس تناقض کو بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ اس منافقت کو حضرت عکرمہ سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں قبول اسلام کی توفیق حاصل ہو گئی۔ ان کے متعلق آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہو گئے تاکہ نبی کی گرفت سے بچ جائیں۔ یہ حبشہ جانے کے لئے ایک کشتی میں بیٹھے، کشتی گرداب میں پھنس گئی، تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص کے ساتھ رب سے دعائیں کرو، اس لئے کہ یہاں اس کے علاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں۔ حضرت عکرمہ نے یہ سن کر کہا کہ اگر سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اسی وقت اللہ سے عہد کر لیا کہ اگر میں یہاں سے بخیریت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمد کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ یعنی مسلمان ہو جاؤ گا چنانچہ یہاں سے نجات پا کر انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

٦٦۔ یہ لام کئی ہے جو علت کے لیے ہے۔ یعنی نجات کے بعد ان کا شرک کرنا اس لئے ہے کہ وہ کفران نعمت کریں اور دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ کیونکہ اگر وہ ناشکری نہ کرتے تو اخلاص پر قائم رہتے اور صرف اللہ واحد کو ہی ہمیشہ پکارتے۔ گو ان کا مقصد کفر کرنا نہیں ہے لیکن دوبارہ شرک کے ارتکاب کا نتیجہ بہرحال کفر ہی ہے۔

٦٧۔ (۱)  اللہ تعالیٰ اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے جو اہل مکہ پر اس نے کیا کہ ہم نے ان کے حرم کو امن والا بنایا جس میں اس کے باشندے قتل و غارت اسیری لوٹ مار وغیرہ سے محفوظ ہیں۔ جب کہ عرب کے دوسرے علاقے اس امن و سکون سے محروم ہیں قتل و غارت گری ان کے ہاں معمول اور آئے دن کا مشغلہ ہے۔

٦٧۔ (۲) یعنی کیا اس نعمت کا شکر یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی پرستش کرتے رہیں۔ اس احسان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے اور اس کے پیغمبر کی تصدیق کرتے۔

٦٨۔ (۱)  یعنی دعویٰ کرے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے در آں حالیکہ ایسا نہ ہو یا کوئی یہ کہے میں بھی وہ چیز اتار سکتا ہوں جو اللہ نے اتاری ہے۔ یہ تو سراسر جھوٹ ہے۔

٦٨۔ (۲)  یہ تکذیب ہے اور اس کا مرتکب مکذب ہے یہ دونوں کفر ہیں جس کی سزا جہنم ہے۔

٦٩۔ (۱)   یعنی دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں، آزمائشیں پیش آتی ہیں ٦٩۔ (۲) اس سے مراد دنیا اور آخرت کے وہ راستے ہیں جن پر چل کر انسان کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

٦٩۔ (۲)  احسان کا مطلب ہے اللہ کو حاضر ناظر جان کر ہر نیکی کے کام کو اخلاص کے ساتھ کرنا، سنت نبوی کے مطابق کرنا، برائی کے بدلے حسن سلوک کرنا، اپنا حق چھوڑ دینا اور دوسروں کو حق سے زیادہ دینا۔ یہ سب احسان کے مفہوم میں شامل ہیں۔