احسن البیان

سُوۡرَةُ الرّعد

٢۔ (۱) استوا علی العرش کا مفہوم اس سے قبل بیان ہو چکا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا عرش پر قرار پکڑنا ہے۔ محدثین کا یہی مسلک ہے وہ اس کی تاویل نہیں کرتے، جیسے بعض دوسرے گروہ اس میں اور دیگر صفات الٰہی میں تاویل کرتے ہیں۔ تاہم محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کیفیت نہ بیان کی جا سکتی ہے اور نہ اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ (لیس کمثلہ شیء وہو السمیع البصیر) الشوری

 ۲۔ (۲)  اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک وقت مقرر تک یعنی قیامت تک اللہ کے حکم سے چلتے رہیں گے جیسا کہ فرمایا (والشمس تجری لمستقرلھا ذلک تقدیر العزیز العلیم) یسین۔ اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے دوسرے معنی یہ ہیں کہ چاند اور سورج دونوں اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں مکمل کر لیتا ہے جس طرح فرمایا (والقمر قدرنہ منازل) یسین۔ ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کر دی ہیں سات بڑے بڑے سیارے ہیں جن میں سے دو چاند اور سورج ہیں یہاں صرف ان دو کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہی دو سب سے زیادہ بڑے اور اہم ہیں جب یہ دونوں بھی اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو دوسرے سیارے تو بطریق اولی اس کے تابع ہوں گے اور جب یہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو یہ معبود نہیں ہو سکتے معبود تو وہی ہے جس نے ان کو مسخر کیا ہوا ہے اس لیے فرمایا (لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا للہ الذی خلقھن ان کنتم ایاہ تعبدون) حم السجدہ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو۔ (والشمس والقمر والنجوم مسخرت بامرہ) الاعراف سورج چاند اور تارے سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔

 ٣۔ (۱) زمین میں طول و عرض کا اندازہ بھی عام لوگوں کے لئے مشکل ہے اور بلند و بالا پہاڑوں کے ذریعے سے زمین میں گویا میخیں گاڑی ہیں، نہروں دریاؤں اور چشموں کا ایسا سلسلہ قائم کیا کہ جس سے انسان خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں جن سے انواع و اقسام کے غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں، جن کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف اور ذائقے بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔

٣۔ (۲)  اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ نر مادہ دونوں بنائے، جیسا کہ موجودہ تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔ دوسرا مطلب (جوڑے جوڑے کا) یہ ہے میٹھا اور کھٹا، سرد اور گرم، سیاہ اور سفید اور ذائقہ، اس طرح ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد قسمیں پیدا کیں۔

٤۔ (۱) متجورات۔ ایک دوسرے کے قریب اور متصل یعنی زمین کا ایک حصہ شاداب اور زرخیز ہے۔ خوب پیداوار دیتا ہے اس کے ساتھ ہی زمین شور ہے، جس میں کسی قسم کی بھی پیدا نہیں ہوتی۔

٤۔ (۲)  صنوان۔ کے ایک معنی ملے ہوئے اور غیر صنوان۔ کے جدا جدا کیے گئے ہیں دوسرا معنی صنوان، ایک درخت، جس کی کئی شاخیں اور تنے ہوں، جیسے انار، انجیر اور بعض کھجوریں۔

٤۔ (۳) یعنی زمین بھی ایک، پانی، ہوا بھی ایک۔ لیکن پھل اور غلہ مختلف قسم اور ان کے ذائقے اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف۔

٥۔ یعنی جس ذات نے پہلی مرتبہ پیدا کیا، اس کے لئے دوبارہ اس چیز کا بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن کفار یہ عجیب بات کہتے ہیں کہ دوبارہ ہم کیسے پیدا کئے جائیں گے۔

 ٦۔(۱)  یعنی عذاب الٰہی سے قوموں اور بستیوں کی تباہی کی کئی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں، اس کے باوجود یہ عذاب جلدی مانگتے ہیں ؟ یہ کفار کے جواب میں کہا گیا جو کہتے تھے کہ اے پیغمبر! اگر تو سچا ہے تو عذاب ہم پر لے آ۔ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔

٦۔ (۲) یعنی لوگوں کے ظلم و معصیت کے باوجود وہ عذاب میں جلدی نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور بعض دفعہ تو اتنی تاخیر کرتا ہے کہ معاملہ قیامت پر چھوڑ دیتا ہے، یہ اس کے حلم و کرم اور عفو و درگزر کا نتیجہ ہے ورنہ وہ فوراً مواخذہ کرنے اور عذاب دینے پر آ جائے تو روئے زمین پر کوئی انسان ہی باقی نہ رہے (وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلیٰ ظَھْرِھَا مِنْ دَآبَّۃٍ) (سورۃ فاطر ٤٥) ' اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب پکڑ دھکڑ فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک تنفس کو نہ چھوڑتا '

٦۔ (۳)  یہ اللہ کی دوسری صفت کا بیان ہے تاکہ انسان صرف ایک ہی پہلو پر نظر نہ رکھے اس کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھتا رہے کیونکہ ایک ہی رخ اور ایک ہی پہلو کو مسلسل دیکھنے رہنے سے بہت سی چیزیں اوجھل رہ جاتی ہیں اسی لیے قرآن کریم میں جہاں اللہ کی صفت رحیمی و غفوری کا بیان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی دوسری صفت قہاری و جباری کا بیان بھی ملتا ہے جیسا کہ یہاں بھی ہے تاکہ رجاء امید اور خوف دونوں پہلو سامنے رہیں کیونکہ اگر امید ہی امید سامنے رہے تو انسان معصیت الہی پر دلیر ہو جاتا ہے اور اگر خوف ہی خوف ہر وقت دل و دماغ پر مسلط رہے تو اللہ کی رحمت سے مایوسی ہو جاتی ہے اور دونوں ہی باتیں غلط اور انسان کے لیے تباہ کن ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے الایمان بین الخوف والرجاء ایمان خوف اور مبید کے درمیان ہے یعنی دونوں باتوں کے درمیان اعتدال و توازن کا نام ایمان ہے انسان اللہ کے عذاب کے خوف سے بے پروا ہو اور نہ اس کی رحمت سے مایوس۔ اس مضمون کے ملاحظہ کے لیے دیکھئے سورۃ الانعام۔ سورۃ الاعراف۔ سورۃ الحجر

 ٧۔ (۱) ہر نبی کو اللہ نے حالات و ضروریات اور اپنی مشیت و مصلحت کے مطابق کچھ نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے لیکن کافر اپنے حسب منشا معجزات کے طالب ہوتے رہے ہیں۔ جیسے کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے کہ کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا پہاڑوں کی جگہ نہریں اور چشمے جاری ہو جائیں، وغیرہ وغیرہ جب ان کی خواہش کے مطابق معجزہ صادر کر کے نہ دکھایا جاتا تو کہتے کہ اس پر کوئی نشان (معجزہ) نازل کیوں نہیں کیا گیا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے پیغمبر! تیرا کام صرف تبلیغ ہے۔ وہ تو کرتا رہ کوئی مانے نہ مانے، اس سے تجھے کوئی غرض نہیں، اس لئے کہ ہدایت دینا یہ ہمارا کام ہے۔ تیرا کام راستہ دکھانا ہے، اس راستے پر چلا دینا، یہ تیرا کام نہیں، ہمارا کام ہے۔

 ٧۔ (۲)  یعنی ہر قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ لیکن سیدھے راستے کی نشان دہی کرنے کے لئے پیغمبر ہر قوم کے اندر ضرور آیا۔ (وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر) فاطر۔ ہر امت میں ایک نذیر ضرور آیا ہے۔

٨۔ (۱) رحم مادر میں کیا ہے، نر یا مادہ، خوبصورت یا بد صورت، نیک ہے یا بد، طویل العمر ہے یا قصیر العمر؟ یہ سب باتیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

٨۔ (۲)  اس سے مراد حمل مدت ہے جو عام طور پر ٩ مہینے ہوتی ہے لیکن گھٹتی بڑھتی بھی ہے، کسی وقت یہ مدت ١٠ مہینے اور کسی وقت ٧،٨ مہینے ہو جاتی ہے، اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔

٨۔ (۳) یعنی کسی کی زندگی کتنی ہے ؟ اسے رزق سے کتنا حصہ ملے گا؟ اس کا پورا اندازہ اللہ کو ہے۔

 ١١۔ (۱) معقبات،، معقبۃ۔ کی جمع ہے ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے، مراد فرشتے ہیں جو باری باری ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ دن کے فرشتے جاتے ہیں تو شام کے آ جاتے ہیں شام کے جاتے ہیں تو دن کے آ جاتے ہیں۔

١١۔ (۲)  اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورہ انفال آیت ٥٣ کا حاشیہ۔

 ١٢۔ (۱) جس سے راہ گیر مسافر ڈرتے ہیں اور گھروں میں مقیم کسان اور کاشت کار اس کی برکت و منفعت کی امید رکھتے ہیں۔

١٢۔ (۲)  بھاری بادلوں سے مراد، وہ بادل ہیں جس میں بارش کا پانی ہوتا ہے۔

 ١٣۔ (۱) جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّاُ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ) (بنی اسرائیل۔٤٤) ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔

١٣۔ (۲)  یعنی اس کے ذریعے جس کو چاہتا ہے، ہلاک کر ڈالتا ہے۔

١٣۔ (۳) محال۔ کے معنی قوت مواخذہ اور تدبیر وغیرہ کے کیے گئے ہیں یعنی وہ بڑی قوت والا، نہایت مواخذہ کرنے والا اور تدبیر کرنے والا ہے۔

 ١٤۔ (۱) یعنی خوف اور امید کے وقت اسی ایک اللہ کو پکارنا صحیح ہے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے یا دعوت۔ عبادت کے معنی میں ہے یعنی، اسی کی عبادت حق اور صحیح ہے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کیونکہ کائنات کا خالق، مالک اور مدبر صرف وہی ہے اس لئے عبادت صرف اسی کا حق ہے۔

١٤۔ (۲)  یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو مدد کے لئے پکارتا ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دور سے پانی کی طرف اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلا کر پانی سے کہے کہ میرے منہ تک آ جا، ظاہر بات ہے کہ پانی جامد چیز ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ ہتھیلیاں پھیلانے والے کی حاجت کیا ہے، اور نہ اسے پتہ ہے کہ وہ مجھ سے اپنے منہ تک پہنچنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کر کے اس کے ہاتھ یا منہ تک پہنچ جائے اسی طرح یہ مشرک اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں نہ یہ پتہ ہے کہ کوئی انہیں پکار رہا ہے اور اس کی فلاں حاجت ہے اور نہ اس حاجت روائی کی ان میں قدرت ہی ہے۔

 ١٤۔ (۳) اور بے فائدہ بھی ہے، کیونکہ اس سے ان کو کئی نفع نہیں ہو گا۔

 ١٥۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا بیان ہے کہ ہر چیز پر اس کا غلبہ ہے اور ہر چیز اس کے ما تحت اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے، چاہے مومنوں کی طرح خوشی سے کریں یا مشرکوں کی طرح ناخوشی سے۔ اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ (اولم یروا الی ما خلق اللہ من شی ء یتفیئوا ظللہ عن الیمین والشمائل سجدا للہ وھم دخرون) سورۃ النحل کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے ان کے سائے داہنے اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں اور وہ عاجزی کرتے ہیں اس سجدے کی کیفیت کیا ہے ؟ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے یا دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ کافر سمیت تمام مخلوق اللہ کے حکم کے تابع ہے کسی میں اسی سے سرتابی کی مجال نہیں اللہ تعالیٰ کسی کو صحت دے بیمار کرے غنی کر دے یا فقیر بنا دے زندگی دے یا موت سے ہمکنار کرے ان تکوینی احکام میں کسی کافر کو بھی مجال انکار نہیں۔

 ١٦۔ (۱) یہاں تو پیغمبر کی زبان سے اقرار ہے۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ مشرکین کا جواب بھی یہی ہوتا تھا۔

 ١٦۔ (۲)  یعنی جب تمہیں اقرار و اعتراف ہے کہ آسمان و زمین کا رب اللہ ہے جو تمام اختیارات کا بلا شرکت غیر مالک ہے پھر تم اسے چھوڑ کر ایسوں کو کیوں دوست اور حمایتی سمجھتے ہو جو اپنی بابت بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔

١٦۔ (۳) یعنی جس طرح اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح موحد اور مشرک برابر نہیں ہو سکتے اس لئے کہ موحد توحید کی بصیرت سے معمور ہے جب کہ مشرک اس سے محروم ہے۔ موحد کی آنکھیں ہیں، وہ توحید کا نور دیکھتا ہے اور مشرک کو یہ نور توحید نظر نہیں آتا، اس لئے وہ اندھا ہے۔ اسی طرح، جس طرح اندھیریاں اور روشنی برابر نہیں ہو سکتی۔ ایک اللہ کا پجاری، جس کا دل نورانیت سے بھرا ہوا ہے، اور ایک مشرک، جو جہالت و توہمات کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، برابر نہیں ہو سکتے۔

١٦۔(٤) یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ یہ کسی شبے کا شکار ہو گئے ہوں بلکہ یہ مانتے ہیں کہ ہر چیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہی ہے۔

١٧۔ (۱) بقدرھا وسعت کے مطابق کا مطلب ہے نالے یعنی وادی دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ تنگ ہو تو کم پانی کشادہ ہو تو زیادہ پانی اٹھاتی ہے یعنی نزول قرآن کو جو ہدایت اور بیان کا جاع ہے بارش کے نزول سے تشبیہ دی ہے اس لیے کہ قرآن کا نفع بھی بارش کے نفع کی طرح عام ہے اور وادیوں کو تشبیہ دی ہے دلوں کے ساتھ اس لیے کہ وادیوں نالوں میں پانی جا کر ٹھرتا ہے جس طرح قرآن کا اور ایمان مومنوں کے دلوں میں قرار پکڑتا ہے۔

١٧۔ (۲) اس جھاگ سے جب پانی اوپر آ جاتا ہے اور جو ناکارہ ہو ختم ہو جاتا ہے اور ہوائیں جسے اڑا لے جاتی ہیں کفر مراد ہے، جو جھاگ ہی کی طرح اڑ جانے والا اور ختم ہو جانے والا ہے۔

١٧۔ (۳)  یہ دوسری شکل ہے کہ تانبے پیتل، سیسے یا سونے چاندی کو زیور یا سامان وغیرہ بنانے کے لئے آگ میں تپایا جاتا ہے تو اس پر بھی جھاگ کی شکل میں اوپر آ جاتا ہے۔ پھر یہ جھاگ دیکھتے دیکھتے ختم ہو جاتا ہے اور دھات اصلی شکل میں باقی رہ جاتا ہے۔

١٧۔ (۴) یعنی جب حق اور باطل کا آپس میں اجتماع اور ٹکراؤ ہوتا ہے تو باطل کو اسی طرح اثبات اور دوام نہیں ہوتا، جس طرح سیلابی ریلے کا جھاگ پانی کے ساتھ، دھاتوں کا جھاگ، جن کو آگ میں تپایا جاتا ہے دھاتوں کے ساتھ باقی نہیں رہتا بلکہ ناکارہ اور ختم ہو جاتا ہے۔

١٧۔(۵) یعنی اس سے کوئی نفع نہیں ہوتا، کیونکہ جھاگ پانی یا دھات کے باقی رہتا ہی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ بیٹھ جاتا ہے یا ہوائیں اسے اڑا لے جاتی ہیں۔ باطل کی مثال بھی جھاگ ہی کی طرح ہے۔

١٧۔(۶) یعنی پانی اور سونا، چاندی، تانبا، پیتل وغیرہ یہ چیزیں باقی رہتی ہیں جن سے لوگ فائدہ اٹھاتے اور فیض یاب ہوتے ہیں، اسی طرح حق باقی رہتا ہے جس کے وجود کو بھی زوال نہیں اور جس کا نفع بھی دائمی ہے۔

۱۷۔(۷)  یعنی بات کو سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، جیسے یہیں دو مثالیں بیان فرمائیں اور اسی طرح سورہ بقرہ کے آغاز میں منافقین کے لئے مثالیں بیان فرمائیں۔ اسی طرح سورہ نور، آیات ٣٩،٤٠ میں کافروں کے لئے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ اور احادیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مثالوں کے ذریعے سے لوگوں کو بہت سی باتیں سمجھائیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیر

 ١٨۔ (۱) یہ مضمون اس سے قبل بھی دو تین جگہ گزر چکا ہے۔

١٨۔ (۲)  کیونکہ ان سے ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب لیا جائے گا اور ان کا معاملہ (جس سے حساب میں جرح کی گئی اس کا بچنا مشکل ہو گا، وہ عذاب سے دو چار ہو کر ہی رہے گا) آئینہ دار ہو گا۔ اسی لئے آگے فرمایا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔

١٩۔ (۱) یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہو گیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی یہ دونوں اسی طرح برابر نہیں ہو سکتے جس طرح جھاگ اور پانی یا سونا تانبا اور اس کی میل کچیل برابر نہیں ہو سکتے

۱۹۔ (۲)  یعنی جن کے پاس قلب سلیم اور عقل صحیح نہ ہو اور جنہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کے زنگ سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کر لیا ہو، وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کر سکتے۔

 ٢٠۔ (۱) یہ اہل دانش کی صفات بیان کی جا رہی ہیں، اللہ کے عہد سے مراد، اس کے احکام(اوامر و نواہی) ہیں جنہیں بجا لاتے ہیں۔ یا وہ عہد ہے، جو عَھْدِ الَسْت کہلاتا ہے، جس کی تفصیل سورہ اعراف میں گزر چکی ہے۔

 ٢٠۔ (۲)  اس سے مراد وہ باہمی معاہدے اور وعدے ہیں جو وہ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں یا وہ جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہیں۔

 ٢١۔ یعنی رشتوں اور قرابتوں کو توڑتے نہیں ہیں، بلکہ ان کو جوڑتے اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔

 ٢٢۔ (۱) اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچتے ہیں۔ یہ صبر کی ایک قسم ہے۔ تکلیفوں اور آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، یہ دوسری قسم ہے۔ اہل دانش دونوں قسم کا صبر کرتے ہیں۔

٢٢۔ (۲)  ان کی حدود و مواقیت، خشوع و خضوع اور اعتدال ارکان کے ساتھ۔ نہ کہ اپنے من مانے طریقے سے۔

٢٢۔ (۳) یعنی جہاں جہاں اور جب بھی، خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، اپنوں اور بیگانوں میں اور خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔

٢٢۔(٤) یعنی ان کے ساتھ کوئی برائی سے پیش آتا ہے تو وہ اس کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں، یا عفو و درگزر اور صبر جمیل سے کام لیتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' (ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم) حم السجدۃ۔ برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو اچھا ہو (اگر تم ایسا کرو گے ) تو وہ شخص جو تمہارا دشمن ہے، ایسا ہو جائے گا گویا وہ تمہارا گہرا دوست ہے '۔

٢٢۔(٥) یعنی جو اعلیٰ اخلاق کے حامل اور مذکورہ خوبیوں سے متصف ہوں گے، ان کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔

٢٣۔ (۱) عدن کے معنی ہیں اقامت۔ یعنی ہمیشہ رہنے والے باغات۔

٢٣۔ (۲)  یعنی اس طرح نیک قرابت داروں کو آپس میں جمع کر دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں حتیٰ کہ ادنیٰ درجے کے جنتی کو اعلیٰ درجہ عطا فرما دے گا تاکہ وہ اپنے قرابت دار کے ساتھ جمع ہو جائے۔ فرمایا (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَّبَعَتُہُمْ ذُرِّیِّتُھُمْ بِاِیمَانٍ اَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَمَا اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلَھِمْ مِّنْ شَیْئ) الطور،٢١) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی تو ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ان کے عملوں سے ہم کچھ گھٹائیں گے نہیں، اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ نیک رشتے داروں کو اللہ تعالیٰ جنت میں جمع فرما دے گا، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس ایمان اور عمل صالح کی پونجی نہیں ہو گی، تو وہ جنت میں نہیں جائے گا، چاہے اس کے دوسرے نہایت قریبی رشتے دار جنت میں چلے گئے ہوں۔ کیونکہ جنت میں داخلہ حسب نسب کی بنیاد پر نہیں، ایمان و عمل کی بنیاد پر ہو گا۔ (من بطاء بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ) صحیح مسلم۔ جسے اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔

 ٢٥۔ یہ نیکوں کے ساتھ بروں کا حشر بیان فرما دیا تاکہ انسان اس حشر سے بچنے کی کوشش کرے۔

 ٢٦۔ (۱) جب کافروں اور مشرکوں کے لئے یہ کہا کہ ان کے لئے برا گھر ہے، تو ذہن میں یہ اشکال آ سکتا ہے کہ دنیا میں تو انہیں ہر طرح کی آسائشیں اور سہولتیں مہیا ہیں۔ اس کے ازالے کے لئے فرمایا کہ دنیاوی اسباب اور رزق کی کمی بیشی یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت، جس کو صرف وہی جانتا ہے، کے مطابق کسی کو زیادہ دیتا ہے کسی کو کم رزق کی فراوانی، اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے اور کمی کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہے۔

٢٦۔ (۲)  کسی کو اگر دنیا کا مال زیادہ مل رہا ہے، باوجودیکہ وہ اللہ کا نافرمان ہے تو یہ مقام فرحت و مسرت نہیں، کیونکہ یہ استدراج ہے، مہلت ہے پتہ نہیں کب یہ مہلت ختم ہو جائے اور اللہ کی پکڑ کے شکنجے میں آ جائے۔

٢٦۔ (۳) حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی حیثیت، آخرت کے مقابلے میں اس طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے، تو دیکھے سمندر کے پانی کے مقابلے میں اس کی انگلی میں کتنا پانی آیا ہے ؟ (صحیح بخاری) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے ہوا، تو اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا، اللہ کی قسم دنیا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ مردہ، اپنے مالکوں کے نزدیک اس وقت حقیر تھا جب انہوں نے اسے پھینکا (صحیح مسلم)

 ٢٨۔ اللہ کا ذکر سے مراد، اس کی توحید کا بیان ہے، جس سے مشرکوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے، یا اس کی عبادت، تلاوت قرآن، نوافل اور دعا و مناجات ہے جو اہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام و فرامین کی اطاعت و بجا آوری ہے، جس کے بغیر اہل ایمان و تقویٰ بے قرار رہتے ہیں۔

 ٢٩۔ طُوْبیٰ کے مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں مثلاً خیر، حسنیٰ، کرامت، رشک، جنت میں مخصوص درخت یا مخصوص مقام وغیرہ مفہوم سب کا ایک ہی ہے یعنی جنت میں اچھا مقام اور اس کی نعمتیں اور لذتیں۔

 ٣٠۔ (۱) جس طرح ہم نے آپ کو تبلیغ رسالت کے لئے بھیجا ہے، اسی طرح آپ سے پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے تھے، ان کی بھی اسی طرح تکذیب کی گئی جس طرح آپ کی کی گئی اور جس طرح تکذیب کے نتیجے میں وہ قومیں عذاب الٰہی سے دو چار ہوئیں، انہیں بھی اس انجام سے بے فکر نہیں رہنا چاہیے۔

٣٠۔ (۲)  مشرکین مکہ رحمٰن کے لفظ سے بڑا بدکتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی جب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے الفاظ لکھے گئے تو انہوں نے کہا یہ رحمٰن رحیم کیا ہے ؟ ہم نہیں جانتے۔ (ابن کثیر)

٣٠۔ (۳) یعنی رحمٰن، میرا وہ رب ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

 ٣١۔ (۱) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ہر آسمانی کتاب کو قرآن کہا جاتا ہے، جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام، جانور کو تیار کرنے کا حکم دیتے اور اتنی دیر میں ایک مرتبہ قرآن کا ورد کر لیتے ' (صحیح بخاری) یہاں ظاہر بات ہے قرآن سے مراد زبور ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر پہلے کوئی آسمانی کتاب ایسی نازل ہوئی ہوتی کہ جسے سن کر پہاڑ رواں دواں ہو جاتے یا زمین کی مسافت طے ہو جاتی یا مردے بول اٹھتے تو قرآن کریم کے اندر یہ خصوصیت بدرجہ اولیٰ موجود ہوتی، کیونکہ یہ اعجاز و بلاغت میں پچھلی کتابوں سے فائق ہے۔ اور بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر اس قرآن کے ذریعے سے معجزات ظاہر ہوتے، تب بھی کفار ایمان نہ لاتے، کیونکہ ایمان لانا نہ لانا یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، معجزوں پر نہیں۔ اسی لئے فرمایا، سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔

٣١۔ (۲)  جو ان کے مشاہدے یا علم میں ضرور آئے گا تاکہ وہ عبرت پکڑ سکیں۔

٣١۔ (۳) یعنی قیامت واقعہ ہو جائے، یا اہل اسلام کو قطعی فتح و غلبہ حاصل ہو جائے۔

٣٢۔ حدیث میں آتا ہے '(ان اللہ لیملی للظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ) اللہ ظالم کو مہلت دیئے جاتا ہے حتیٰ کہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں ' اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَ کَذٰلِکَ اَخُذُ رَبِّکَ اِ ذَااَخَذَالْقُریٰ وَھِیَ ظٰلِمَۃ اِنَّ اَخْذَہ اَلِیْم شَدِیْد ) (سورت ہود۔١٠٢) اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے۔ یقیناً اس کی پکڑ بہت ہی الم ناک اور سخت ہے۔ (صحیح بخاری)۔

 ٣٣۔ (۱) یہاں اس کا جواب محذوف ہے یعنی کیا رب العزت اور وہ معبودان باطل برابر ہو سکتے ہیں جن کی عبادت کرتے ہیں، جو کسی کو نفع پہنچانے پر، نہ دیکھتے ہیں اور نہ عقل و شعور سے بہرہ ور ہیں۔

٣٣۔ (۲)  یعنی ہمیں بھی تو بتاؤ تاکہ انہیں پہچان سکیں اس لئے کہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ اس لئے آگے فرمایا، کیا تم اللہ کو وہ باتیں بتاتے ہو جو وہ زمین میں جانتا ہی نہیں، یعنی ان کا وجود ہی نہیں۔ اس لئے کہ اگر زمین میں ان کا وجود ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ضرور ہوتا، اس پر تو کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔

٣٣۔ (۳) یہاں ظاہر ظن کے معنی میں ہے یعنی یا یہ صرف ان کی ظنی باتیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ تم ان بتوں کی عبادت اس گمان پر کرتے ہو کہ یہ نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں اور تم ان کے نام بھی معبود رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ، یہ تمہارے اور تمہارے باپوں کے رکھے ہوئے نام ہیں، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری۔ یہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں (النجم۔ (۲، ٣)

٣٣۔(٤) مکر سے مراد، ان کے وہ غلط عقائد و اعمال ہیں جن میں شیطان نے ان کو پھنسا رکھا ہے، شیطان نے گمراہیوں پر بھی حسین غلاف چڑھا رکھے ہیں۔

٣٣۔(٥) جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، (ومن یرد اللہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیئا) سورہ المائدہ۔ جس کو اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کر لے تو اللہ اس کے لئے کچھ اختیار نہیں رکھتا، اور فرمایا۔ (ان تحرص علی ھدھم فان اللہ لا یھدی من یضل وما لھم من نصرین)۔ سورہ النحل۔ اگر تم ان کی ہدایت کی خواہش رکھتے ہو تو (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کرتا ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہو گا۔

 ٣٤۔ (۱) اس سے مراد قتل اور اسیری ہے جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں ان کافروں کے حصے آتی ہے۔

٣٤۔ (۲)  جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی لعنت ملامت کرنے والے جوڑے سے فرمایا تھا '(ان عذاب الدنیا اھون من عذاب الاخرۃ) صحیح مسلم دنیا کا عذاب، آخرت سے بہت ہلکا ہے ' علاوہ ازیں دنیا کا عذاب (جیسا کچھ اور جتنا کچھ بھی ہو) عارضی اور فانی ہے اور آخرت کا عذاب دائمی ہے، اسے زوال و فنا نہیں، مزید برآں جہنم کی آگ، دنیا کی آگ کی نسبت ٦٩ گنا تیز ہے، اور اس طرح دوسری چیزیں ہیں۔ اس لئے عذاب کے سخت ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔

 ٣٥۔ اہل کفار کے انجام بد کے ساتھ اہل ایمان کا حسن انجام بیان فرما دیا تاکہ جنت کے حصول میں رغبت اور شوق پیدا ہو، اس مقام پر امام ابن کثیر نے جنت کی نعمتوں، لذتوں اور ان کی خصوصی کیفیات پر مشتمل احادیث بیان فرمائی ہیں۔ جنہیں وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔

 ٣٦۔ (۱) اس سے مراد مسلمان ہیں اور مطلب ہے جو قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔

٣٦۔ (۲)  یعنی قرآن کے صدق کے دلائل و شواہد دیکھ کر مزید خوش ہوتے ہیں۔

٣٦۔ (۳) اس سے مراد یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین ہیں۔ بعض کے نزدیک کتاب سے مراد تورات و انجیل ہے، ان میں سے جو مسلمان ہوئے، وہ خوش ہوتے ہیں اور انکار کرنے والے وہ یہود و نصاریٰ ہیں جو مسلمان نہیں ہوئے۔

 ٣٧۔ (۱) یعنی جس طرح آپ سے پہلے رسولوں پر کتابیں مقامی زبانوں میں نازل کیں، اسی طرح آپ پر قرآن ہم نے عربی زبان میں اتارا، اس لئے کہ آپ کے مخاطب اولین اہل عرب ہیں، جو صرف عربی زبان ہی جانتے ہیں۔ اگر قرآن کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو ان کی سمجھ سے بالا ہوتا اور قبول ہدایت میں ان کے لئے عذر بن جاتا۔ ہم نے قرآن کو عربی میں اتار کر یہ عذر بھی دور کر دیا۔

٣٧۔ (۲)  اس سے مراد اہل کتاب کی بعض وہ خواہشیں ہیں جو وہ چاہتے تھے کہ پیغمبر آخر الزماں انہیں اختیار کریں۔ مثلاً بیت المقدس کو ہمیشہ کے لئے قبلہ بنائے رکھنا اور ان کے معتقدات کی مخالفت نہ کرنا وغیرہ۔

٣٧۔ (۳) اس سے مراد علم ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ کو عطا کیا گیا، جس میں اہل کتاب کے معتقدات کی حقیقت بھی آپ پر واضح کر دی گئی۔

٣٧۔(٤) یہ دراصل امت کے اہل علم کو تنبیہ ہے کہ وہ دنیا کے عارضی مفادات کی خاطر قرآن و حدیث کے واضح احکام کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔

٣٨۔ (۱) یعنی آپ سمیت جتنے بھی رسول اور نبی آئے، سب بشر ہی تھے، جن کا اپنا خاندان اور قبیلہ تھا اور بیوی بچے تھے وہ فرشتے تھے نہ انسانی شکل میں کوئی نوری مخلوق بلکہ جنس بشر ہی میں سے تھے کیونکہ اگر وہ فرشتے ہوتے تو انسانوں کے لیے ان سے مانوس ہونا اور ان کے قریب ہونا ناممکن تھا جس سے ان کو بھیجنے کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا اور اگر وہ فرشتے بشری جامے میں آتے تو دنیا میں نہ ان کا خاندان اور قبیلہ ہوتا اور نہ ان کے بیوی بچے ہوتے جس سے یہ معلوم ہوا کہ تمام انبیاء بحیثیتِ جنس کے بشر ہی تھے بشری شکل میں فرشتے یا کوئی نوری مخلوق نہیں تھے مذکورہ آیت میں ازواجا سے رہبانیت کی تردید اور ذریۃ سے خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ہوتی ہے کیونکہ ذریۃ جمع ہے کم از کم تین ہوں گے

٣٨۔ (٢) یعنی معجزات کا صدور، رسولوں کے اختیار میں نہیں کہ جب ان سے مطالبہ کیا جائے تو وہ صادر کر کے دکھا دیں بلکہ یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے کہ معجزے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کس طرح اور کب دکھایا جائے۔

٣٨۔ (۳) یعنی اللہ نے جس چیز کا وعدہ کیا، اس کا ایک وقت مقرر ہے، اس وقت پر یہ واقع ہو کر رہے گا اس لئے اللہ کا وعدہ خلاف نہیں ہوتا۔ ہر وہ امر، جسے اللہ نے لکھ رکھا ہے، اس کا ایک وقت مقرر ہے، یعنی معاملہ، کفار کے ارادے اور منشاء پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔

 ٣٩۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں وہ جس حکم کو چاہے منسوخ کر دے اور جسے چاہے باقی رکھے۔ دوسرے معنی یہ ہیں اس نے جو تقدیر لکھ رکھی ہے، اس میں محو و اثبات کرتا رہتا ہے، اس کے پاس لوح محفوظ ہے۔ اس کی تائید بعض احادیث و آثار سے ہوتی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں آتا ہے کہ ' آدمی گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے، دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے اور صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے (مسند احمد جلد۔٥ ص۔ (۲) ٧٧) بعض صحابہ سے یہ دعا منقول ہے (اللَّھُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَّنَا اٰشْقِیَاءَ فَامْحُنَا وَاَکْتُبْنَا سُعَدَاءَ وَاِنَّ کُنْتَ کَتَبْتَنَا سُعَدَاءَ فَائُبِسْتُنَا فَاِنَّکَ تَمْحُوْ مَا تَشَآءُ وَ تُثْبْتُ وَ عِنْدَکَ اُ مُّ الْکِتَابِ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ دوران طواف روتے ہوئے یہ دعا پڑھتے ـ'اللھم ان کنت کتبت علی شقوۃ او ذنبا فامحہ فانک تمحو ما تشاء وتثبت وعندک ام الکتاب فاجعلہ سعادۃ ومغفرۃ۔ ابن کثیر۔ اے اللہ اگر تو نے مجھ پر بدبختی اور گناہ لکھا ہے تو اسے مٹا دے، اس لئے کہ تو جو چاہے مٹائے اور جو چاہے باقی رکھے، تیرے پاس ہی لوح محفوظ ہے، پس تو بدبختی کو سعادت اور مغفرت سے بدل دے (ابن کثیر) اس مفہوم پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ حدیث میں تو آتا ہے جف القلم بما ہو کائن۔ صحیح بخاری۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ محو و اثبات بھی منجملہ قضاء و تقدیر ہی کے ہے۔ فتح القدیر۔

٤١۔ (۱) یعنی عرب کی سرزمین مشرکین پر بتدریج تنگ ہو رہی ہے اور اسلام کو غلبہ عروج حاصل ہو رہا ہے۔

٤١۔ (۲)  یعنی کوئی اللہ کے حکموں کو رد نہیں کر سکتا۔

 ٤٢۔ (۱) یعنی مشرکین مکہ سے قبل بھی لوگ رسولوں کے مقابلے میں مکر کرتے رہے ہیں، لیکن اللہ کی تدبیر کے مقابلے میں ان کی کوئی تدبیر اور حیلہ کارگر نہیں ہوا، اسی طرح آئندہ بھی ان کا کوئی مکر اللہ کی مشیت کے سامنے نہیں ٹھر سکے گا۔

٤٢۔ (۲)  وہ اس کے مطابق جزا اور سزا دے گا، نیک کو اس کی نیکی کی جزا دیتا ہے اور بد کو اس کی بد کی سزا دیتا ہے۔

٤٣۔ (۱) پس وہ جانتا ہے کہ میں اس کا سچا رسول اور اس کے پیغام کا داعی ہوں اور تم جھوٹے ہو۔

٤٣۔ (۲)  کتاب سے مراد جنس کتاب ہے اور مراد تورات اور انجیل کا علم ہے۔ یعنی اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو مسلمان ہو گئے ہیں، جیسے عبد اللہ بن اسلام، سلمان فارسی اور تمیم داری وغیرہم رضی اللہ عنہم یعنی یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ عرب کے مشرکین اہم معاملات میں اہل کتاب کی طرف رجوع کرتے اور ان سے پوچھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی فرمائی کہ اہل کتاب جانتے ہیں، ان سے تم پوچھ لو۔ بعض کہتے ہیں کہ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حاملین علم کتاب، مسلمان ہیں۔ اور بعض نے کتاب سے مراد لوح محفوظ لی ہے۔ یعنی جس کے پاس لوح محفوظ کا علم ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ، مگر پہلا مفہوم زیادہ درست ہے۔