احسن البیان

سُوۡرَةُ التّکاثُر

١۔ الھیٰ یلھی کے معنی ہیں،غافل کر دینا۔ تکاثر، زیادتی کی خواہش۔ یہ یہ عام ہے، مال، اولاد، اعوان و انصار اور خاندان و قبیلہ وغیرہ سب کو شامل ہے۔ ہر وہ چیز، جس کی کثرت انسان کو محبوب ہو اور کثرت کے حصول کی کوشش و خواش اسے اللہ کے احکام اور آخرت سے غافل کر دے۔ یہاں اللہ تعالیٰ انسان کی اس کمزوری کو بیان کر رہا ہے۔ جس میں انسانوں کی اکثریت ہر دور میں مبتلا رہی ہے۔

٢۔ اس کا مطلب ہے کہ حصول کی خاطر محنت کرتے کرتے تمہیں موت آ گئی اور تم قبروں میں جا پہنچے۔

٣۔ یعنی تم جن تکاثر و تفاخر میں ہو، یہ صحیح نہیں۔

٤۔ اس کا انجام عنقریب تم جان لو گے، یہ بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا۔

۵۔مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس غفلت کا انجام اسطرح یقینی طور پر جان لو جس طرح دنیا کی کسی دیکھی بھالی چیز کا تم یقین کرتے ہو تو تم یقیناً تکاثر و تفاخر میں مبتلا نہ ہو۔

٦۔یہ قسم مخذوف کا جواب ہے یعنی اللہ کی قسم تم جہنم ضرور دیکھو گے یعنی اس کی سزا بھگتو گے

۷۔پہلا دیکھنا دور سے ہو گا یہ دیکھنا قریب سے ہو گا، اسی لیے اسے عین الیقین (جس کا یقین مشاہدہ عین سے حاصل ہو) کہا گیا۔

٨۔ یہ سوال ان نعمتوں کے بارے میں ہو گا، جو اللہ نے دنیا میں عطا کی ہوں گی جیسے آنکھ، کان، دل، دماغ، امن اور صحت، مال و دولت اور اولاد وغیرہ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سوال صرف کافروں سے ہو گا بعض کہتے ہیں کہ ہر ایک سے ہو گا۔ بعض سوال مستلزم عذاب نہیں۔ جنہوں نے ان نعمتوں کا استعمال اللہ کے حکم کے مطابق کیا ہو گا وہ عذاب سے محفوظ ہوں گے اور جنہوں نے کفران نعمت کا ارتکاب کیا ہو گا وہ دھر لیے جائیں گے۔