اس کی فضیلت گزشتہ سورت کے ساتھ بیان ہو چکی ہے۔ ایک اور حدیث جس میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز میں بچھو ڈس کیا۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی اور نمک منگوا کر اس کے اوپر ملا اور ساتھ ساتھ (قل یٰٓایھا الکفرون قل ھو اللہ احد اور قل اعوذ برب الناس) پڑھتے رہے
۱۔ رب (پروردگار) کا مطلب ہے جو ابتدا سے ہی جب کہ انسان ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے اس کی تدبیرو اصلاح کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ بالغ عاقل ہو جاتا ہے پھر وہ یہ تدبیر چند مخصوص افراد کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے کرتا ہے اور تمام انسانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ اپنی تمام مخلوقات کے لیے کرتا ہے، یہاں صرف انسانوں کا ذکر انسان کے اس شرف افضل کے اظہار کے لیے ہے جو تمام مخلوقات پر اس کو حاصل ہے۔
٢۔ جو ذات، تمام انسانوں کی پرورش اور نگہداشت کرنے والی ہے، وہی اس لائق ہے کہ کائنات کی حکمرانی اور بادشاہی بھی اسی کے پاس ہو۔
٣۔ اور جو تمام کائنات کا پروردگار ہو، پوری کائنات پر اسی کی بادشاہی ہو، وہی ذات اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور وہی تمام لوگوں کا معبود ہو۔ چنانچہ میں اسی عظیم و برتر ہستی کی پناہ حاصل کرتا ہوں۔
٤۔ الوسواس، بعض کے نزدیک اسم فاعل الموسوس کے معنی میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ ذی الوسواس ہے۔ وسوسہ، مخفی آواز کو کہتے ہیں، شیطان بھی نہایت غیر محسوس طریقوں سے انسان کے دل میں بری باتیں ڈال دیتا ہے اسی کو وسوسہ کہتے ہیں۔ الخناس (کھسک جانے والا یہ شیطان کی صفت ہے۔ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو یہ کھسک جاتا ہے اور اللہ کی یاد سے غفلت برتی جائے تو دل پر چھا جاتا ہے )
٦۔ یہ وسوسہ ڈالنے والوں کی دو قسمیں ہیں، شیاطین الجن کو تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قدرت دی ہے علاوہ ازیں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی ہوتا ہے جو اس کو گمراہ کرتا رہتا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات فرمائی تو صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا وہ آپ کے ساتھ بھی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! میرے ساتھ بھی ہے، لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے، اور میرا مطیع ہو گیا ہے مجھے خیر کے علاوہ کسی بات کا حکم نہیں دیتا (صحیح مسلم) اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اعتکاف فرما تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملنے کے لیے آئیں رات کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں چھوڑنے کے لیے ان کے ساتھ گئے۔راستے میں دو انصاری صحابی وہاں سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بلا کر فرمایا کہ یہ میری اہلیہ، صفیہ بنت حیی، ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بابت ہمیں کیا بدگمانی ہو سکتی تھی؟آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن شیطان انسان کی رگوں میں خوف کی طرح دوڑتا ہے۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کچھ شبہ نہ ڈال دے۔(صحیح بخاری)
دوسرے شیطان، انسانوں میں سے ہوتے ہیں جو ناصح، مشفق کے روپ میں انسانوں کو گمراہی کی تر غیب دیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان جن کو گمراہ کرتا ہے یہ ان کی دو قسمیں ہیں، یعنی شیطان انسانوں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور جنات کو بھی۔صرف انسانوں کا ذکر تغلیب کے طور پر ہے، ورنہ جنات بھی شیطان کے وسوسوں سے گمراہ ہونے والوں میں شامل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جنوں پر بھی قرآن میں "رجال "کا لفظ بولا گیا ہے (سورۃ الجن،٦) اس لیے وہ بھی ناس کا مصداق ہیں۔