تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الرّعد

۱ ۔۔۔  یعنی جو کچھ اس سورت میں پڑھا جانے والا ہے وہ عظیم الشان کتاب کی آیتیں ہیں۔ یہ کتاب جو آپ پر پروردگار کی طرف سے اتاری گئی۔ یقیناً حق و صواب ہے لیکن جائے تعجب ہے کہ ایسی صاف اور واضح حقیقت کے ماننے سے بھی بہت لوگ انکار کرتے ہیں۔

۲ ۔۔۔   ۱: یعنی اس دنیا کی ایسی عظیم الشان، بلند اور مضبوط چھت خدا نے بنائی جسے تم دیکھتے ہو۔ اور لطف یہ ہے کہ کوئی ستون یا کھمبہ یا گرڈر دکھائی نہیں دیتا۔ جس پر اتنی بڑی ڈاٹ کھڑی کی گئی بجز اس کے کیا کہا جائے کہ محض قدرت کے غیر مرئی ستون کے سہارے اس کا قیام ہے۔ "وُیُمْسِکُ السَّمَآءَ اَنُ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِہٖ۔"(حج، رکوع ۹،آیت ۶۵) کشش اجسام کا نظریہ اگر صحیح ہو تو وہ اس آیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ کشش کو عرفاً عمد نہیں کہتے اور اگر عمد کہا جائے تو مرئی نہیں ہے۔ "رُوِیَ عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ وَمُجَاہِدٍ وَالْحَسَنِ وَقَتَادَۃَ وَغَیْرِ وَاحِدٍ اَنَّہُمْ قَالُوْا لَہَا عُمُدٌ وَلٰکِنْ لَا نَریٰ۔" (ابن کثیر) یعنی ان بزرگوں نے فرمایا کہ آسمانوں کے ستون ہیں جو ہم کو نظر نہیں آتے۔ واللہ اعلم۔

۲:  استویٰ علی العرش، کے متعلق "سورہ اعراف" آٹھویں پارہ کے آخر میں کلام کیا گیا ہے۔ وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔

۳:  یعنی سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں پورا کرتا ہے۔ یا "لِاَجَلٍ مُّسَمًّی" کے معنی وقت مقرر تک کے لیے جائیں تو یہ مطلب ہو گا کہ چاند سورج اسی طرح چلتے رہیں گے قیامت تک۔

          ۴:  یعنی جس نے ایسی عظیم مخلوقات کو پیدا کیا اسے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ نیز ایک باخبر، مدبر، بیدار مغز اور طاقتور گورنمنٹ باغیوں اور مجرموں کو ہمیشہ کے لیے یوں ہی آزاد نہیں چھوڑے رکھتی۔ نہ وفادار امن پسند رعایا کی راحت رسانی سے اغماض کر سکتی ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ خداوندِ قدوس جو زمین و آسمان کے تخت کا تنہا مالک اور اپنی تدبیر و حکمت سے تمام مخلوقات علوی و سفلی کا انتظام باحسن اسلوب قائم رکھنے والا ہے مطیع و عاصی کو یوں ہی مہمل چھوڑے رکھے۔ ضرور ہے کہ ایک دن وفاداروں کو وفاداری کا صلہ ملے اور مجرم اپنی سزا کو پہنچیں۔ پھر جب اس زندگی میں مطیع و عاصی کے درمیان ہم ایسی صاف تفریق نہیں دیکھتے تو یقیناً ماننا پڑے گا کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے جس میں سب کو آسمانی عدالت کے سامنے حاضر ہو کر عمر بھر کے اعمال کا پھل چکھنا ہو گا ۔

۳ ۔۔۔ ۱: یعنی پہاڑ جو ایک جگہ کھڑے ہیں اور دریا جو ہر وقت چلتے رہتے ہیں۔

۲:  یعنی چھوٹا، بڑا، کھٹا، میٹھا، سیاہ و سفید، گرم سرد اور جدید تحقیق کے موافق ہر ایک میں نرو مادہ بھی پائے جاتے ہیں۔

۳:  اس کے معنی سورہ اعراف میں آٹھویں پارے کے خاتمہ پر بیان ہو چکے وہاں دیکھ لیا جائے۔

۴ ۔۔۔  بلند آسمانوں کے مقابل پست زمین کا ذکر کیا۔ آسمان کے ساتھ چاند سورج کا بیان ہوا تھا کہ ہر ایک کی رفتار الگ ہے اور ہر ایک کا کام جداگانہ ہے۔ ایک کی گرم و تیز شعاعیں جو کام کرتی ہیں دوسرے کی ٹھنڈی اور دھیمی چاندنی سے وہ بن نہیں پڑتا۔ اسی طرح یہاں زمین کے مختلف احوال اور اس سے تعلق رکھنے والی مختلف چیزوں کا ذکر فرمایا۔ کہیں پہاڑ کھڑے ہیں کہیں دریا رواں ہیں، جو میوے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ان میں بھی شکل، صورت، رنگ، مزہ، چھوٹے بڑے بلکہ نر و مادہ کا اختلاف ہے۔ کبھی زمین دن کے اجالے سے روشن ہو جاتی ہے کبھی رات کی سیاہ نقاب منہ پر ڈال لیتی ہے پھر طرفہ تماشا یہ ہے کہ چند قطعات زمین جو ایک دوسرے سے متصل ہیں، ایک پانی سے سیراب ہوتے ہیں، ایک سورج کی شعاعیں سب کو پہنچتی ہیں ایک ہی ہوا سب پر چلتی ہے اس کے باوجود اس قدر مختلف پھول پھل لاتے ہیں اور باہم پیداوار کی کمی زیادتی کا اتنا فرق ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے ان نشانوں کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ ایک ہی ابر رحمت کی آبیاری یا ایک ہی آفتاب ہدایت کی موجودگی میں انسانوں کے مادی و روحانی احوال کا اختلاف بھی کچھ مستبعد و مستنکر نہیں ہے۔ اور یہ کہ لا محدود قدرت کا کوئی زبردست ہاتھ آسمان سے زمین تک تمام مخلوق کے نظام ترکیبی کو اپنے قبضہ میں لیے ہوئے ہے۔ جس نے ہر چیز کی استعداد کے موافق اس کے دائرہ عمل و اثر کی بہت مضبوط حد بندی کر رکھی ہے۔ پھر ایسے لا متناہی قدرت و اختیار رکھنے والے خدا کو کیا مشکل ہے کہ ہم کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے اور اس عالم کے مخلوط عناصر کی کیمیاوی تحلیل کر کے ہر خیرو شر کو اس کے مستقر میں پہنچا دے۔

۵ ۔۔۔ ۱: یعنی اس سے زیادہ عجیب بات کیا ہو گی کہ جس نے اول ایک چیز بنائی وہ دوبارہ بنانے پر قادر نہ ہو؟ (العیاذ باللہ)

۲:  گویا یہ لوگ "بعث بعد الموت" کا انکار کر کے خداوند قدوس کی شہنشاہی سے منکر ہیں۔ تو ایسے باغیوں کا انجام یہ ہی ہونا ہے کہ گلے میں طوق اور ہاتھ پاؤں میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر ابدی جیل خانہ میں ڈال دیے جائیں جو حقیقت میں ایسے مجرموں کے لیے بنایا گیا ہے۔

۶ ۔۔۔  ۱: یعنی حق کو قبول نہیں کرتے جس سے دنیا و آخرت کی بھلائی ملے کفر اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں عذاب لے آؤ۔

۲:  یعنی پہلے بہتیری قوموں پر عذاب آ چکے ہیں۔ تم پر لے آنا کیا مشکل تھا، بات صرف اتنی ہے کہ تیرا پروردگار اپنی شانِ حلم و عفو سے ہر چھوٹے بڑے جرم پر فورًا گرفت نہیں کرتا۔ وہ لوگوں کے ظلم و ستم دیکھتا اور درگزر کرتا رہتا ہے حتی کہ جب مظالم اور شرارتوں کا سلسلہ حد سے گزر جاتا ہے اس وقت اس کے تباہ کن عذاب سے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہتی۔

۷ ۔۔۔ ۱: یعنی جو نشانی ہم مانگتے ہیں وہ کیوں نہیں اتری جسے دیکھ کر ہم ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے۔

۲:  یعنی آیات کا اتارنا آپ کے قبضہ میں نہیں، یہ تو خدا کا کام ہے جو آیت پیغمبر کی تصدیق کے لیے مناسب ہو دکھلائے۔ آپ کا فرض اسی قدر ہے کہ خیر خواہی کی بات سنا دیں اور برائی کے مہلک انجام سے لوگوں کو آگاہ کر دیں۔ پہلے بھی ہر قوم کی طرف ہادی "راہ بتانے والا" اور نذیر ڈرانے والے آتے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کا یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ جو نشان معاندین طلب کریں گے ضرور دکھلا کر رہیں گے ہاں خدا کی راہ دکھانا ان کا کام تھا وہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے۔ البتہ وہ خاص خاص قوم کے لیے ہادی تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم دنیا کی ہر قوم کے لیے ہیں۔

۸ ۔۔۔  ۱: کہ مذکر ہے یا مونث، پورا ہے یا ادھورا، اچھا ہے یا برا، وغیر ذلک من الاحوال۔

۲:  یعنی حاملہ کے پیٹ میں ایک بچہ ہے یا زیادہ، پورا بن چکا ہے یا ناتمام ہے تھوڑی مدت میں پیدا ہو گا یا زیادہ میں۔ غرض پیٹ کے گھٹنے بڑھنے کے تمام اسرار و اسباب اور اوقات و احوال کو پوری طرح جانتا ہے۔ اور اپنے علم محیط کے موافق ہر چیز کو ہر حالت میں اس کے اندازہ اور استعداد کے موافق رکھتا ہے۔ اسی طرح اس نے جو آیات انبیاء علیہم السلام کی تصدیق کے لیے اتاری ہیں ان میں خاص اندازہ اور مصالح و حکم ملحوظ رہی ہیں۔ جس وقت جس قدر بنی آدم کی استعداد و صلاحیت کے مطابق نشانات کا ظاہر کرنا مصلحت تھا اس میں کمی نہیں ہوئی۔ باقی قبول کرنے اور منتفع ہونے کے لحاظ سے لوگوں کا اختلاف ایسا ہی ہے جیسے حوامل کے پیٹ سے پیدا ہونے والوں کے احوال تفاوتِ استعداد و تربیت کی بناء پر مختلف ہوتے ہیں۔

۹ ۔۔۔   یہ علم الٰہی کی لا محدود وسعت و احاطہ کا بیان ہوا۔ یعنی دنیا کی کوئی کھلی چھپی چیز اس سے پوشیدہ نہیں اور تمام عالم اس کے زیر تصرف ہے۔

۱۰ ۔۔۔  علم الٰہی کا عموم بیان کر کے بلحاظ مناسبت مقام خاص احوال مکلفین کی نسبت بتلاتے ہیں کہ تمہارے ہر قول و فعل کو ہمارا علم محیط ہے۔ جو بات تم دل میں چھپاؤ یا آہستہ کہو اور جو اعلانیہ پکار کر کہو، نیز جو کام رات کی اندھیری میں پوشیدہ ہو کر کرو اور جو دن دہاڑے برسر بازار کرو، دونوں کی حیثیت علمِ الٰہی کے اعتبار سے یکساں ہے۔ بعض مفسرین نے آیت کو تین قسم کے آدمیوں پر مشتمل بتلایا ہے۔ "مَنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ"(جو بات کو چھپائے) "مَنْ جَہَرَبِہٖ" (جو ظاہر کرے) "مَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍم بِّاللَّیْلِ وَسَارِبٌّم بِّالنَّہَارِ" (جو اپنا کام رات کو چھپائے مثلاً شب کو چوری کرنا اور دن کو ظاہر کرے مثلاً دن میں نمازیں پڑھنا) اللہ تعالیٰ کو سب یکساں طور پر معلوم ہیں۔

۱۱ ۔۔۔  ۱: یعنی ہر بندہ کے ساتھ خدا کے فرشتے مامور ہیں جن میں بعض اس کے سب اگلے پچھلے اعمال لکھتے ہیں اور بعضے خدا کے حکم کے موافق ان بلاؤں کے دفع کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جن سے حق تعالیٰ بندہ کو بچانا چاہتا ہے جس طرح اس عالم میں خدا کی عام عادت ہے کہ جو چیز پیدا کرنا چاہے اس کے ظاہری اسباب مہیا کر دیتا ہے ایسے ہی اس نے کچھ باطنی اسباب و ذرائع پیدا کیے ہیں جن کو ہماری آنکھیں نہیں دیکھتیں لیکن مشیت الٰہی کی تنفیذ ان کے واسطہ سے ہوتی ہے۔

۲:  یعنی اللہ تعالیٰ اپنی نگہبانی اور مہربانی سے جو ہمیشہ اس کی طرف سے ہوتی رہتی ہے کسی قوم کو محروم نہیں کرتا۔ جب تک وہ اپنی روش اللہ کے ساتھ نہ بدلے۔ جب بدلتی ہے تو آفت آتی ہے پھر کسی کے ٹالے نہیں ٹلتی۔ نہ کسی کی مدد اس وقت کام دیتی ہے (تنبیہ) یہاں قوموں کے عروج و زوال کا قانون بنایا ہے، اشخاص و افراد کا نہیں۔ قوم کی اچھی بری حالت متعین کرنے میں اکثریت اور غلبہ کا لحاظ ہوتا ہے۔

۱۲ ۔۔۔  پہلے بندوں کی حفاظت کا ذکر تھا، پھر بد اعمالیوں سے جو آفت و مصیبت آتی ہے اس کا ذکر ہوا، معلوم ہوا کہ خدا کی ذات شان انعام و انتقام دونوں کی جامع ہے۔ اسی مناسبت سے یہاں بعض ایسے نشانہائے قدرت کی طرف توجہ دلائی جن میں بیک وقت امید و خوف کی دو متضاد کیفیتیں پیدا کرنے کی صلاحیت ہے یعنی جب بجلی چمکتی ہے تو امید بندھتی ہے کہ بارش آئے گی۔ اور ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں گر کر ہلاکت کا سبب نہ بن جائے۔ بھاری بادل پانی کے بھرے ہوئے آتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے کہ باران رحمت کا نزول ہو گا، ساتھ ہی فکر رہتی ہے کہ پانی کا طوفان نہ آ جائے، ٹھیک اسی طرح انسان کو چاہیے کہ رحمت الٰہی کا امیدوار رہے مگر اللہ سے مامون اور بے فکر نہ ہو۔

۱۳ ۔۔۔  ۱: یعنی گرجنے والا بادل یا فرشتہ زبان "حال" یا "قال" سے حق تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتا ہے "وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّایُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلٰکِنَّ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ" (بنی اسرائیل رکوع ۵، آیت ۴۴) اور تمام فرشتے ہیبت و خوف کے ساتھ اس کی حمد و ثنا اور تسبیح و تمجید میں مشغول رہتے ہیں۔ (تنبیہ) "رعد" و برق" وغیرہ کے متعلق آجکل کی تحقیق یہ ہے کہ بادلوں میں "قوت کہربائیہ موجبہ" پائی جاتی ہے اور زمین میں کہربائیہ سالب۔" جو بادل زمین سے زیادہ نزدیک ہو اس میں گاہ بگاہ زمین کی سالب کہربائیہ سرایت کر جاتی ہے۔ پھر اس بادل کے اوپر بسا اوقات وہ بادل گزرتے ہیں جن میں" کہربائیہ موجبہ " موجود ہے۔ اور یہ قاعدہ تجربہ سے معلوم ہو چکا ہے کہ مختلف قسم کے "کہربائیہ"رکھنے والے دو جسم جب محاذی ہوں تو ہر ایک اپنے اندر دوسرے کی "کہربائیہ" کو جذب کرتا ہے تاکہ دونوں کی کہربائیہ متحد ہو جائے۔ اسی قاعدہ سے اوپر نیچے والے بادل جب ایک دوسرے کی قوت کہربائیہ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں تو دونوں کے مل جانے سے شدید حرارت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس حرارت شدیدہ سے دونوں بادلوں کے حجم کے مناسب ایک آتشیں شعلہ اٹھتا ہے جو "صاعقہ" کہلاتا ہے اسی صاعقہ کی چمک اور روشنی "برق" کہلاتی ہے اور ہوا میں اس کے سرایت کرنے سے جو آواز نکلتی ہے وہ "رعد" ہے۔ " کہربا" کا یہ ہی آتشیں شرارہ کبھی بادلوں اور ہواؤں کو پھاڑ کر نیچے گرتا ہے جس کے نہایت عجیب و غریب افعال و آثار مشاہدہ کیے گئے ہیں، علاوہ اس کے کہ وہ مکانوں کو گراتا پہاڑوں کو شق کرتا اور جانداروں کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اس نے نہایت احتیاط سے ایک آدمی کے بدن سے کپڑے اتار کر کسی درخت کی شاخ پر رکھ دیے ہیں مگر پہننے والے جسم کو کچھ صدمہ نہیں پہنچا۔ (دائرۃ المعارف فرید و جدی) جسے دیکھ کر خیال گزرتا ہے کہ بجلی کی اس آتشیں شعلہ میں کوئی ذی شعور اور ذی اختیار قوت غیر مرئی طریقہ سے کام کر رہی ہے۔ ہم کو ضرورت نہیں کہ اوپر بیان کیے ہوئے نظریہ کا انکار کریں۔ لیکن یہ بیان کرنے والے خود اقرار کرتے ہیں کہ "روح" کی طرح "قوتِ کہربائیہ" کی اصل حقیقت پر بھی اس وقت تک پردہ پڑا ہوا ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور دوسرے ارباب کشف و شہود کا بیان یہ ہی ہے کہ تمام نظام عالم میں ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب کا ایک عظیم الشان سلسلہ کار فرما ہے جو کچھ ہم یہاں دیکھتے ہیں وہ صرف صورت ہے لیکن اس صورت میں جو غیر مرئی حقیقت پوشیدہ ہے اس کے ادراک تک عام لوگوں کی رسائی نہیں۔ صرف باطنی آنکھ رکھنے والے اسے دیکھتے ہیں۔ آخر تم جو نظریات بیان کرتے ہو (مثلاً یہ ہی قوت کہربائیہ کا موجبہ سالبہ ہونا وغیرہ) اس کا علم بھی حکمائے طبیعیین کے سوا بلا واسطہ کس کو ہوتا ہے۔ کم ازکم اتنا وثوق انبیاء کے مشاہدات و تجربات پر کر لیا جائے تو بہت سے اختلافات مٹ سکتے ہیں۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ دوسرے نوامیس طبیعیہ کی طرح بادلوں اور بارشوں کے انتظامات پر بھی فرشتوں کی جماعتیں تعینات ہیں جو بادلوں کو مناسب مواقع پر پہنچانے اور ان سے حسب ضرورت و مصلحت کام لینے کی تدبیر کرتی ہیں۔ اگر تمہارے بیان کے موافق بادل اور زمین وغیرہ کی "کہربائیہ" کا مدبر کوئی غیر مرئی فرشتہ ہو تو انکار کی کون سی وجہ ہے؟ جس کو تم "شرارہ کہربائیہ" کہتے ہو چونکہ وہ فرشتہ کے خاص تصرف سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا اسے وحی کی زبان میں" مخاریق من نار" (فرشتہ کا آتشیں کوڑا) کہہ دیا گیا تو کیا قیامت ہو گئی۔ اس کی شدت اور سخت اشتعال سے جو گرج اور کڑک پیدا ہوئی اگر حقیقت کا لحاظ کرتے ہوئے اسے فرشتہ کی ڈانٹ سے تعبیر فرمایا تو یہ نہایت ہی موزوں تعبیر ہے۔ بہرحال "سائنس" نے جس چیز کی محض صورت کو سمجھا۔ "وحی" نے اس کی روح اور حقیقت پر مطلع کر دیا۔ کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ دونوں کو ایک دوسرے کا حریف مقابل قرار دے لیا جائے۔ علامہ محمود آلوسی نے "بقرہ" کے شروع میں اس پر معقول بحث کی ہے۔ فلیراجع۔

۲:  ان جھگڑنے والوں پر عذاب کی بجلی نہ گرا دے۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے عرب کے ایک متکبر رئیس کے پاس آدمی بھیجا کہ اسے بلا لاؤ۔ قاصد نے اس کو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تجھے بلاتے ہیں کہنے لگا رسول اللہ کون ہے؟ اور اللہ کیا چیز ہے؟ سونے کا ہے یا چاندی کا یا تانبے کا؟ (العیاذ باللہ) تین مرتبہ یہ ہی گفتگو کی۔ تیسری مرتبہ جب وہ یہ گستاخانہ کلمات بک رہا تھا، ایک بادل اٹھا فوراً بجلی گری اور اس کی کھوپڑی سر سے جدا کر دی۔ بعض روایات میں ہے کہ عامر بن طفیل اور اربد بن ربیعہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ ہم اسلام لاتے ہیں بشرطیکہ آپ کے بعد خلافت ہم کو ملے آپ نے انکار فرما دیا۔ دونوں یہ کہہ کر اٹھے کہ ہم "مدینہ" کی وادی کو آپ کے مقابلہ میں پیدل اور سواروں سے بھر دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ اس کو روک دے گا اور" انصار مدینہ" روکیں گے۔ وہ دونوں چلے، راستہ میں اربد پر بجلی گری اور عامر طاعون کی گلٹی سے ہلاک ہوا۔ (فائدہ) رعد کی آواز سن کر کہنا چاہیے "سُبْحَانَ مَنْ یُّسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلَائِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہِ اَللّٰہُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِک وَلَا تُہْلِکْنَا بِعَذَابِک وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِک

۱۴ ۔۔۔ یعنی پکارنا اسی کو چاہیے جو ہر قسم کے نفع و ضرر کا مالک ہے عاجز کو پکارنے سے کیا حاصل؟ اللہ کے سوا کون ہے جس کے قبضہ میں اپنا یا دوسروں کا نفع و ضرر ہے؟ غیر اللہ کو اپنی مدد کے لیے بلانا ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا کنوئیں کی من پر کھڑا ہو کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے اور خوشامد کرے کہ میرے منہ میں پہنچ جا۔ ظاہر ہے قیامت تک پانی اس کی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ بلکہ اگر پانی اس کی مٹھی میں ہو تب بھی خود چل کر منہ تک نہیں جا سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ کافر جن کو پکارتے ہیں بعضے محض خیالات و اوہام ہیں، بعضے جن اور شیاطین ہیں، اور بعضی چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں۔ لیکن اپنے خواص کی مالک نہیں۔ پھر ان کے پکارنے سے کیا حاصل؟ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں۔

۱۵ ۔۔۔  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جو اللہ پر یقین لایا خوشی سے سر رکھتا ہے اس کے حکم پر اور جو نہ یقین لایا آخر اس پر بھی بے اختیار اسی کا حکم جاری ہے اور پرچھائیاں صبح اور شام زمین پر پسر جاتی ہیں یہی ہے ان کا سجدہ۔" مطلب یہ ہے کہ جواہر ہوں یا اعراض کوئی چیز اللہ کے حکم تکوینی سے باہر نہیں ہو سکتی۔ اس کے نفوذ و اقتدار کے سامنے سب منقاد اور سر بسجود ہیں۔ سایہ کا گھٹنا بڑھنا دائیں بائیں مائل ہونا سب اسی کے ارادہ اور مشیت سے ہے۔ صبح شام کا ذکر شاید اس لیے کیا کہ ان وقتوں میں زمین پر سایہ کا پھیلاؤ زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔

۱۶ ۔۔۔  ۱: یعنی جب ربوبیت کا اقرار صرف خدا کے لیے کرتے ہو پھر مدد کے لیے دوسرے حمایتی کہاں سے تجویز کر لیے۔ حالانکہ وہ ذرہ برابر نفع نقصان کا مستقل اختیار نہیں رکھتے۔

۲:  یعنی موحد و مشرک میں ایسا فرق ہے جیسے بینا اور نابینا میں اور توحید و شرک کا مقابلہ ایسا سمجھو جیسے نور کا ظلمت سے۔ تو کیا ایک اندھا مشرک جو شرک کی اندھیریوں میں پڑا ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہو اس مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں ایک موحد کو پہنچنا ہے جو فہم و بصیرت اور ایمان و عرفان کی روشنی میں فطرت انسانی کے صاف راستہ پر چل رہا ہے؟ ہرگز دونوں ایک نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔

۳:  یعنی جیسی مخلوقات خدا تعالیٰ نے پیدا کی، کیا تمہارے دیوتاؤں نے ایسی کوئی چیز پیدا کی ہے جسے دیکھ کر ان پر خدائی کا شبہ ہونے لگا۔ وہ تو ایک مکھی کا پر اور ایک مچھر کی ٹانگ بھی نہیں بنا سکتے بلکہ تمام چیزوں کی طرح خود بھی اس اکیلے زبردست خدا کی مخلوق ہیں۔ پھر ایسی عاجز و مجبور چیزوں کو خدائی کے تخت پر بٹھا دینا کس قدر گستاخی اور شوخ چشمی ہے۔

۱۷ ۔۔۔  آسمان کی طرف سے بارش اتری جس سے ندی نالے بہہ پڑے۔ ہر نالے میں اس کے ظرف اور گنجائش کے موافق جتنا خدا نے چاہا پانی جاری کر دیا چھوٹے میں کم بڑے میں زیادہ۔ پانی جب زمین پر رواں ہوا تو مٹی اور کوڑا کرکٹ ملنے سے گدلا ہو گیا۔ پھر میل کچیل اور جھاگ پھول کر اوپر آیا۔ جیسے تیز آگ میں چاندی تانبا، لوہا، اور دوسری معدنیات پگھلاتے ہیں تاکہ زیور، برتن اور ہتھیار وغیرہ تیار کریں اس میں بھی اسی طرح جھاگ اٹھتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد خشک یا منتشر ہو کر جھاگ جاتا رہتا ہے اور جو اصلی کارآمد چیز تھی (یعنی پانی یا پگھلی ہوئی معدنیات) وہ ہی زمین میں یا زمین والوں کے ہاتھ میں باقی رہ جاتی ہے۔ جس سے مختلف طور پر لوگ منتفع ہوتے ہیں۔ یہ ہی مثال حق و باطل کی سمجھ لو۔ جب وحی آسمانی دین حق کو لے کر اترتی ہے تو قلوب بنی آدم اپنے اپنے ظرف اور استعداد کے موافق فیض حاصل کرتے ہیں۔ پھر حق اور باطل باہم بھڑ جاتے ہیں تو میل ابھر آتا ہے۔ بظاہر باطل جھاگ کی طرح حق کو دبا لیتا ہے لیکن اس کا یہ ابال عارضی اور بے بنیاد ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس کے جوش و خروش کا پتہ نہیں رہتا۔ خدا جانے کدھر گیا۔ جو اصلی اور کارآمد چیز جھاگ کے نیچے دبی ہوئی تھی (یعنی حق و صداقت) بس وہ ہی رہ گئی دیکھو! خدا کی بیان کردہ مثالیں کیسی عجیب ہوتی ہیں۔ کیسے موثر طرز میں سمجھایا کہ دنیا میں جب حق و باطل بھڑتے ہیں یعنی دونوں کا جنگی مقابلہ ہوتا ہے تو گو برائے چندے باطل اونچا اور پھولا ہوا نظر آئے، لیکن آخرکار باطل کو منتشر کر کے حق ہی ظاہر و غالب ہو کر رہے گا۔ کسی مومن کو باطل کی عارضی نمائش سے دھوکا نہ کھانا چاہیے۔ اسی طرح کسی انسان کے دل میں جب حق اتر جائے کچھ دیر کے لیے اوہام و وساوس زور شور دکھلائیں تو گھبرانے کی بات نہیں تھوڑی دیر میں یہ ابال بیٹھ جائے گا اور خالص حق ثابت و مستقر رہے گا۔ گزشتہ آیات میں چونکہ توحید و شرک کا مقابلہ کیا گیا تھا اس مثال میں حق و باطل کے مقابلہ کی کیفیت بتلا دی آگے دونوں کا انجام بالکل کھول کر بیان کرتے ہیں۔

۱۸ ۔۔۔ ۱: یعنی ایمان و عمل صالح اختیار کیا ان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے، حقیقی خوشی اور قلبی طمانیت و سکون ان کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔

۲:  یعنی یہاں تو خیر جس طرح گزرے لیکن آخرت میں ان کی حالت ایسی پریشانی اور گھبراہٹ کی ہو گی کہ اگر تمام دنیا کے خزانے ان کے ہاتھ میں ہوں بلکہ اسی قدر اور بھی تو تمنا کریں گے کہ ہم یہ سب فدیہ میں دے کر اس پریشانی سے چھوٹ جائیں۔ وَاَنَّی لَہُمْ ذٰلِکَ۔

۳:  یعنی حساب میں کسی قسم کی رعایت اور درگزر نہ ہو گی ایک ایک بات پر پوری طرح پکڑے جائیں گے۔

۱۹ ۔۔۔ مومن و کافر دونوں کا الگ الگ انجام ذکر فرمانے کے بعد متنبہ کرتے ہیں کہ ایسا ہونا عین عقل و حکمت کے موافق ہے۔ کوئی عقل مند یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک نپٹ اندھا جسے کچھ نظر نہ آئے یوں ہی اناپ شناپ اندھیرے میں پڑا ٹھوکریں کھا رہا ہو، اس شخص کی برابری کر سکتا ہے جس کے دل کی آنکھیں کھلی ہیں اور پوری بصیرت کے ساتھ حق کی روشنی سے مستفید ہو رہا ہے۔

۲۰ ۔۔۔ یعنی اللہ سے جو عہد ازل میں ہو چکا ہے (عہد الست) جس پر انسان کی فطرت خود گواہ ہے اور جو انبیاء کی زبانی عہد لیے گئے ان سب کو پورا کرتے ہیں۔ کسی کو توڑتے نہیں۔ نیز بذات خود کسی معاملہ میں خدا سے یا بندوں سے جو عہد و پیمان باندھتے ہیں (بشرطیکہ معصیت نہ ہو) اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔

۲۱ ۔۔۔  ۱: یعنی صلہ رحم کرتے ہیں۔ یا ایمان کو عمل کے ساتھ یا حقوق العباد کو حقوق اللہ کے ساتھ ملاتے ہیں، یا اسلامی اخوت کو قائم رکھتے ہیں۔ یا انبیاء علیہم السلام میں تفریق نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں کسی کو نہ مانیں۔

۲: یعنی حق تعالیٰ کی عظمت و جلال کا تصور کر کے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ دیکھئے وہاں جب ذرہ ذرہ کا حساب ہو گا، کیا صورت پیش آئے گی۔

۲۲ ۔۔۔  ۱: یعنی مصائب و شدائد اور دنیا کی مکروہات پر صبر کیا۔ کسی سختی سے گھبرا کر طاعت کے راستہ سے قدم نہیں ہٹایا نہ معصیت کی طرف جھکے اور صبر و استقلال محض حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دکھلایا، اس لیے نہیں کہ دنیا انہیں بہت صابر اور مستقل مزاج کہے۔ نہ اس لیے کہ بجز صبر کے چارہ نہ رہا تھا مجبور ہو گئے تو صبر کر کے بیٹھ رہے۔

۲:  پوشیدہ کو شاید اس لیے مقدم رکھا کہ پوشیدہ خیرات کرنا افضل ہے۔ اِلاّ یہ کہ کہیں مصلحت شرعی اعلانیہ دینے میں ہو۔

۳:  یعنی برائی کا جواب بھلائی سے دیتے تھے۔ سختی کے مقابلہ میں نرمی برتتے ہیں۔ کوئی ظلم کرتا ہے یہ معاف کرتے ہیں (بشرطیکہ معافی سے برائی کے ترقی کرنے کا اندیشہ نہ ہو)، بدی سے بچ کر نیکی اختیار کرتے ہیں۔ اگر کبھی کوئی برا کام ہو جاتا ہے تو اس کے مقابلہ میں بھلا کام (یعنی توبہ اور اس گناہ کی تلافی) کرتے ہیں۔

۲۳ ۔۔۔ ۱: یعنی جن میں ہمیشہ رہیں گے۔

۲:  "آباء" کا لفظ تغلیباً کہا ہے جس میں امہات (مائیں) بھی شامل ہیں۔ یہ جنت کی بشارت کے ساتھ مزید خوشخبری سنائی کہ ایسے کاملین کو جن کی خصال اوپر بیان ہوئیں جنت میں ایک نعمت و مسرت یہ حاصل ہو گی کہ وہ اور ان کے ماں باپ، اولاد، بیویاں، جو اپنی نیکی کی بدولت دخول جنت کے لائق ہوں سب اکٹھے رہیں گے۔ حتیٰ کہ ان متعلقین میں سے اگر کوئی کم رتبہ ہو گا تو حق تعالیٰ اپنی نوازش و مہربانی سے درجہ بڑھا کر اس مرد کامل سے نزدیک کر دے گا۔ "وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتَہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتُہُمْ۔" (طور، رکوع ۱، آیت ٢۱) اس سے معلوم ہوا کہ بدون ایمان و عمل صالح کے محض کاملین کی قرابت کافی نہیں ہاں ایمان و عمل صالح موجود ہو تو تعلق قرابت سے کچھ ترقی درجات ممکن ہے۔ واللہ اعلم۔

۲۴ ۔۔۔  صحیح حدیث میں جنت کے آٹھ دروازے بیان ہوئے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کاملین کی تعظیم و تکریم کے لیے خدا کے پاک فرشتے ہر طرف سے تحائف و ہدایا لے کر حاضر ہوں گے۔ احادیث میں ہے کہ خلق اللہ میں سے اول وہ فقراء مہاجرین جنت میں داخل ہوں گے جو سختیوں اور لڑائیوں میں سینہ سپر ہوتے اور رخنہ بندی کے وقت کام آتے تھے۔ جو حکم ان کو ملتا ان کی تعمیل کے لیے ہمیشہ مستعد رہتے۔ دنیا کی حاجتیں اور دل کے ارمان دل ہی میں لے کر یہاں سے رخصت ہو گئے۔ قیامت کے دن حق تعالیٰ فرمائے گا میرے وہ بندے کہاں ہیں (حاضر ہوں) جو میرے راستہ میں لڑے، میرے لیے تکلیفیں اٹھائیں اور جہاد کیا۔ جاؤ جنت میں بے کھٹکے داخل ہو جاؤ۔ پھر ملائکہ کو حکم ہو گا کہ میرے ان بندوں کے پاس حاضر ہو کر سلام کرو۔ وہ عرض کریں گے خداوندا! ہم تیری بہترین مخلوق ہیں کیا ہم بارگاہ قرب کے رہنے والوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان زمینی باشندوں کے پاس حاضر ہو کر سلام کریں۔ ارشاد ہو گا، ہاں یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے توحید پر جان دی، دنیا کے سب ارمان اپنے سینوں میں لے کر چلے آئے، میرے راستہ میں جہاد کیا اور ہر تکلیف کو خوشی سے برداشت کرتے رہے۔ یہ سن کر فرشتے ہر طرف سے ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور کہیں گے "سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ" حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہر سال آغاز میں قبور شہداء پر تشریف لے جاتے اور فرماتے سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ یہ ہی طرز عمل ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم کا رہا۔

۲۵ ۔۔۔ سعداء کے مقابل یہاں اشقیاء کی عادت و خصال اور آخری انجام بتلایا ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ حق تعالیٰ سے بد عہدی کریں، جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم تھا، انہیں توڑیں، ملک میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائیں دوسروں پر اور اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے نہ رکیں۔ یہ ہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمت سے دور پھینک دیے گئے اور سب سے زیادہ برے مقام پر پہنچے والے ہیں۔

۲۶ ۔۔۔  ۱: یعنی دنیا کے عیش و فراخی کو دیکھ کر سعادت و شقاوت کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ نہ یہ ضروری ہے کہ جس کو دنیا میں خدا نے رزق اور پیسہ زیادہ دیا ہے وہ اس کی بارگاہ میں مقبول ہو۔ بہت سے مقبول بندے بطور آزمائش و امتحان یہاں عسرت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور مردود مجرموں کو ڈھیل دی جاتی ہے وہ مزے اڑاتے ہیں۔ یہ ہی دلیل اس کی ہے کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے جہاں ہر شخص کو اس کے نیک و بداعمال کا پورا پھل مل کر رہے گا۔ بہرحال دنیا کی تنگی و فراخی مقبول و مردود ہونے کا معیار نہیں بن سکتا۔

۲:  یعنی اسی کو مقصود سمجھ کر اتراتے اور اکڑتے ہیں۔ حالانکہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی محض ہیچ ہے جیسے ایک شخص اپنی انگلی سے سمندر کو چھوئے تو وہ تری جو انگلی کو پہنچی ہے سمندر کے سامنے کیا حقیقت رکھتی ہے۔ دنیا کی آخرت کے مقابل اتنی بھی حقیقت نہیں۔ لہٰذا

۳:  عقل مند کو چاہیے کہ فانی پر باقی کو مقدم رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے بذات خود مقصود نہیں۔ یہاں کے سامانوں سے اس طرح تمتع کرو جو آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا۔

۲۷ ۔۔۔  سینکڑوں نشان دیکھتے تھے مگر وہ ہی مرغے کی ایک ٹانگ پکڑی ہوئی تھی کہ جو ہم کہتے جائیں وہ نشان دکھاؤ۔ مثلاً مکہ کے پہاڑوں کو ذرا اپنی جگہ سے سرکا کر کھیتی باڑی کے لیے زمین وسیع کر دو۔ یا زمین کو پھاڑ کر چشمے اور نہریں نکال دو یا ہمارے پرانے بزرگوں کو دوبارہ زندہ کر کے ہم سے بات چیت کرا دو۔ غرض کوئی نشان ایسا دکھلاؤ جو ہم کو ایمان لانے پر مجبور کر دے۔ اس کا جواب دیا کہ بیشک خدا ایسے نشان دکھلانے پر قدرت رکھتا ہے لیکن اس کی حکمت و عادت مقتضی نہیں کہ تمہاری فرمائشیں پوری کیا کرے، پیغمبروں کی تصدیق کے لیے جس قدر ضرورت ہے اس سے زائد نشانات دکھلا چکا اور دکھارہا ہے۔ دوسرے سینکڑوں معجزات سے قطع نظر کر کے اکیلا قرآن ہی کیسا عظیم الشان نشان پیغمبر کی صداقت کا ہے۔ جب تم ان نشانوں کو دیکھ کر راہ راست پر نہ آئے اور حق کی طرف رجوع نہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ قدیم قانون کے موافق خدا کی مشیت یہ ہی ہے کہ تم کو تمہاری پسند کردہ گمراہی میں چھوڑے رکھے۔ بلاشبہ اگر تم اتنے بڑے نشان دیکھ کر اس کی طرف رجوع ہوتے تو وہ اپنی عادت کے موافق تم کو آگے بڑھاتا اور حقیقی کامیابی تک پہنچنے کی راہیں دکھاتا۔ جب تم نے خود یہ نہ چاہا تو اس کی حکمت بھی اسی کو مقتضی ہے کہ تمہیں مجبور نہ کرے۔ پھر فرمائشی نشان دکھلانے کی کیا ضرورت رہی بلکہ نہ دکھلانے میں تمہارا فائدہ ہے کیونکہ سنت اللہ یہ ہے کہ فرمائشی نشان اسی وقت دکھلائے جاتے ہیں جب کسی قوم کا تباہ کرنا مقصود ہو۔ حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ نے فرمایا، اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم! اگر تم چاہو تو ہم ان کو فرمائشی نشان دکھلا دیں، اس پر بھی نہ مانیں تو ایسا عذاب بھیجا جائے گا جو دنیا میں کسی پر نہ آیا ہو۔ اور اگر تم چاہو تو رحمت و توبہ کا دروازہ کھلا رکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری شق کو اختیار فرمایا چنانچہ یہ ہی معاندانہ فرمائشیں کرنے والے بہت سے بعد کو مسلمان ہو گئے۔

۲۸ ۔۔۔  ۱: یہ خدا کی طرف رجوع کرنے والوں کا بیان ہوا۔ یعنی ان کو دولت ایمان نصیب ہوتی ہے اور ذکر اللہ (خدا کی یاد) سے چین اور اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ سب سے بڑا ذکر تو قرآن ہے۔ "اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ۔" جسے پڑھ کر ان کے دلوں میں یقین کی کیفیت پیدا ہوتی ہے شبہات اور وساوس شیطانیہ دور ہو کر سکون و اطمینان میسر آتا ہے۔ ایک طرف اگر حق تعالیٰ کی عظمت و مہابت دلوں میں خوف و خشیت پیدا کرتی ہے تو دوسری طرف لا محدود رحمت و مغفرت کا ذکر قلبی سکون و راحت کے سامان بہم پہنچاتا ہے۔ غرض ان کا دل ہر طرف سے لوٹ کر ایک خدا کی طرف جم جاتا ہے اور ذکر اللہ کا نور ان کے قلوب سے ہر طرح کی دنیاوی وحشت اور گھبراہٹ کو دور کر دیتا ہے۔

۲:  یعنی دولت، حکومت، منصب، جاگیر یا فرمائشی نشانات کا دیکھ لینا، کوئی چیز انسان کو حقیقی سکون و اطمینان سے ہم آغوش نہیں کر سکتی۔ صرف یادِ الٰہی سے جو تعلق مع اللہ حاصل ہوتا ہے وہ ہی ہے جو دلوں کے اضطراب و وحشت کو دور کر سکتا ہے۔

۲۹ ۔۔۔ مترجم محقق نے "طوبیٰ" کے لغوی معنی لیے ہیں اسی کے اندر جنت کا وہ درخت بھی آگیا جسے حدیث صحیح میں "طوبیٰ" کے نام سے موسوم فرمایا ہے۔

۳۰ ۔۔۔  ۱: یعنی جس طرح ہم اپنی طرف رجوع ہونے والوں کو کامیابی کی راہ دکھاتے ہیں۔ اسی طرح اس امت کی راہنمائی کے لیے ہم نے تجھے مبعوث کیا۔ تاکہ جو کتاب اپنی رحمت کاملہ سے تجھ پر اتاری ہے آپ ان کو پڑھ کر سنا دیں۔ آپ کا پیغمبر بنا کر بھیجا جانا کوئی انوکھی بات نہیں پہلی امتوں کی طرف بھی پیغمبر بھیجے جا چکے ہیں جو اس وقت تکذیب کرنے والوں کا حشر ہوا ان لوگوں کو بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔

۲:  یعنی رحمان نے اپنی رحمت کاملہ سے قرآن اتارا "اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرآنَ" اور آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا۔ مگر انہوں نے سخت ناشکری اور کفران نعمت پر کمر باندھ لی۔ رحمان کا حق ماننے سے منکر ہو گئے بلکہ اس نام سے ہی وحشت کھانے لگے۔ اسی لیے "حدیبیہ" کے صلح نامہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے پر جھگڑا کیا "وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا لِلَّرحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ۔" (فرقان، رکوع ۵، آیت ۶۰)

۳:   یعنی جس رحمان سے تم انکار کرتے ہو وہ ہی میرا رب ہے اور وہ ہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ "قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُوْا الرَّحْمٰنَ اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنیٰ۔" (بنی اسرائیل، رکوع ۱٢، آیت ۱۱۰) میرا آغاز و انجام سب اسی کے ہاتھ میں ہے اسی پر توکل کرتا ہوں۔ نہ تمہارے انکار و تکذیب سے مجھے ضرر کا اندیشہ ہے نہ اس کی امداد و اعانت سے مایوس ہوں۔

۳۱ ۔۔۔ ۱: یہاں قرآن سے مراد عام کتاب ہے جیسا کہ ایک حدیث صحیح میں "زبور" پر لفظ قرآن کا اطلاق ہوا ہے یعنی اگر کوئی کتاب ایسی اتاری جاتی جس سے تمہارے یہ فرمائشی نشان پورے ہو جاتے تو وہ بجز اس قرآن کے اور کون سی ہو سکتی تھی۔ یہ ہی قرآن ہے جس نے روحانی طور پر پہاڑوں کی طرح جمے ہوئے لوگوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا۔ قلوب بنی آدم کی زمینوں کو پھاڑ کر معرفت الٰہی کے چشمے جاری کر دیے۔ وصول الی اللہ کے راستے برسوں کی جگہ منٹوں میں طے کرائے۔ مردہ قوموں اور دلوں میں ابدی زندگی کی روح پھونک دی۔ جب ایسے قرآن سے تم کو شفا و ہدایت نصیب نہ ہوئی تو فرض کرو تمہاری طلب کے موافق اگر یہ قرآن مادی اور حسی طور پر بھی وہ سب چیزیں دکھلا دیتا جن کی فرمائش کرتے ہو۔ تب ہی کیا امید تھی کہ تم ایمان لے آتے اور نئی حجتیں اور کج بحثیاں شروع نہ کرتے تم ایسے ضدی اور سرکش واقعہ ہوئے ہو کہ کسی نشان کو دیکھ کر ایمان لانے والے نہیں۔ اصل یہ ہے کہ سب کام (ہدایت و اضلال) اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ جسے وہ نہ چاہے قیامت تک ہدایت نہیں ہو سکتی لیکن وہ اسی کو چاہتا ہے جو اپنی طرف سے قبولِ حق کی خواہش اور تڑپ رکھتا ہو۔

۲:  شاید بعض مسلمانوں کو خیال گزرا ہو گا کہ ایک مرتبہ ان کی فرمائش ہی پوری کر دی جائے شاید ایمان لے آئیں ان کو سمجھایا کہ خاطر جمع رکھو اگر خدا چاہے تو بدون ایک نشان دکھلائے ہی سب کو راہ راست پر لے آئے۔ لیکن یہ اس کی عادت و حکمت کے خلاف ہے اس نے انسان کو ایک حد تک کسب و اختیار کی آزادی دے کر ہدایت کے کافی اسباب فراہم کر دیے، جو چاہے ان سے منتفع ہو۔ کیا ضرورت ہے کہ ان کی فرمائشیں پوری کی جائیں باوجود کافی سامانِ ہدایت موجود ہونے کے اگر معاندین نہیں مانتے اور اپنے ایمان کو بیہودہ فرمائشوں پر معلق کرتے ہیں۔ تو ہم نے یہ ارادہ بھی نہیں کیا ساری دنیا کو ضرور منوا ہی دیا جائے آخر "لَاَمْلَاَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنُ" والی بات بھی تو پوری ہو کر رہے گی۔

۳:  یعنی یہ کفار مکہ فرمائشی نشانوں سے ماننے والے نہیں۔ یہ تو اس طرح مانیں گے کہ برابر کوئی آفت و مصیبت خود ان پر یا ان کے آس پاس والوں پر پڑتی رہے گی۔ جسے دیکھ کر یہ عبرت حاصل کر لیں۔ مثلاً جہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ قتل ہوں گے کچھ قید کیے جائیں گے کچھ دوسری طرح کے مصائب کا شکار ہوں گے، یہ ہی سلسلہ رہے گا۔ جب تک خدا کا وعدہ پورا ہو یعنی مکہ فتح ہو اور جزیرۃ العرب" شرک کی گندگی سے پاک و صاف ہو جائے بیشک خدا کا وعدہ اٹل ہے، پورا ہو کر رہے گا۔ بعض مفسرین نے اَوْتَحُلُّ قَرِیْباً مِنْ دَارِہِمْ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف خطاب مانا ہے یعنی آپ ان کی بستی کے قریب اتریں گے جیسا کہ حدیبیہ میں ہوا۔ اس وقت "قارعہ" سے وہ سرایا مراد ہوں گے جن میں آپ بہ نفس نفیس شریک نہ ہوتے تھے۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ آیت تمام کفار کے حق میں عام ہے مکہ والوں کی تخصیص نہیں۔ واللہ اعلم۔

۳۲ ۔۔۔  یعنی سزا ملنے میں دیر ہو تو مت سمجھو کہ چھوٹ گئے، گزشتہ مجرموں کو بھی پہلے ڈھیل دی گئی، پھر جب پکڑا تو دیکھ لو کیا حشر ہوا۔ آج تک ان کی تباہی کی داستانیں زبانوں پر ہیں۔

۳۳ ۔۔۔ ۱: یعنی جو خدا ہر شخص کے ہر عمل کے ہر وقت نگرانی رکھتا ہے، ایک لمحہ کسی سے غافل نہیں۔ ذرا کوئی شرارت کرے اسی وقت تنبیہ کر سکتا اور سزا دے سکتا ہے کیا مجرم اس سے چھوٹ کر کہیں بھاگ سکتے ہیں؟ یا اس کی مثل پتھر کی وہ مورتیاں ہو سکتی ہیں جو نہ دیکھتی ہیں نہ سنتی ہیں نہ اپنے یا دوسرے کے نفع و ضرر کا کچھ اختیار رکھتی ہیں۔ تعجب ہے کہ ایسے خدا کی موجودگی میں انسان ایسی عاجز و حقیر مخلوق کے آگے سر جھکائے اور اس کو خدائی کے اختیارات تفویض کر دے۔ اس ظلم کی بھی کوئی انتہا ہے کہ علیم الکل اور بہمہ صفت موصوف خدا کے شریک وہ ہوں جنہیں خود اپنے وجود کی خبر نہیں۔ خوب سمجھ لو کہ جو کچھ ہم خفیہ یا اعلانیہ کرتے ہیں سب خدا کی آنکھ کے سامنے ہے۔ لوگوں کی ان مشرکانہ گستاخیوں سے وہ بے خبر نہیں۔ جلد یا بدیر سزا مل کر رہے گی۔

۲:  یعنی ذرا آگے بڑھ کر ان شرکاء کے نام تو لو اور پتے تو بتاؤ، کیا خداوند قدوس کی یہ صفات سن کر جو اوپر بیان ہوئیں کوئی حیا دار ان پتھروں کا نام بھی لے سکتا ہے؟ اور بے حیائی سے لات و عزیٰ کے نام لینے لگو تو کیا کوئی عاقل ادھر التفات کر سکتا ہے؟

۳:  یعنی خدا کو تمام روئے زمین پر اپنی خدائی کا کوئی شریک (حصہ دار) معلوم نہیں (کیونکہ ہے ہی نہیں جو معلوم ہو) کیا تم اسے وہ چیز بتلاؤ گے جسے وہ نہیں جانتا؟ (العیاذ باللہ) (تنبیہ) زمین کی قید اس لیے لگائی کہ بت پرستوں کے نزدیک شرکاء (اصنام) کی قیام گاہ یہ ہی زمین تھی۔ ابو حیان نے لَایَعْلَمُ کی ضمیر" مَا"کی طرف لوٹائی ہے یعنی کیا خدا کو بتلاتے ہو کہ آپ کی خدائی کے حصہ دار وہ بت ہیں جو ادنیٰ سا علم بھی نہیں رکھتے۔

۴:  پہلے فرمایا تھا ان شرکاء کا ذرا نام لو، پھر متنبہ فرمایا کہ جس چیز کا واقعہ میں ثبوت ہی نہیں اس کا نام کیا لیا جا سکتا ہے؟ اب بتلاتے ہیں کہ کسی چیز کو خدا کا شریک ٹھرانا خالی الفاظ اور صورتِ محض ہے جس کے نیچے کوئی حقیقت نہیں۔ مجرد ظن و تخمین اور باطل اوہام سے چند بے معنی الفاظ بامعنی نہیں بن جاتے۔ شاید بِظَاہِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ میں ادھر بھی اشارہ ہو کہ جو مشرکانہ باتیں وہ کر رہے ہیں اگر کورانہ تقلید و تعصب سے خالی ہو کر اپنے ضمیر کی طرف رجوع کریں تو خود ان کا ضمیر بھی ان لغویات سے انکار کرے گا۔ اس لیے کہنا چاہیے کہ یہ سب اوپر اوپر کی باتیں ہیں۔ جن کو انسانی ضمیر اور انسانی فطرت دونوں مردود ٹھہرا چکے ہیں۔

۵:  یعنی کچھ بھی نہیں۔ شرک کی حمایت میں ان کی یہ مستعدی اور توحید کے مقابلہ میں اس قدر جدوجہد خالی نفس کا دھوکہ اور شیطان کا فریب ہے۔ اسی نے ان کو راہ حق سے روک دیا ہے۔

۶:  یعنی جسے خدا ہدایت کی توفیق نہ دے اسے کون راہ پر لا سکتا ہے اور وہ اسی کو توفیق دیتا ہے جو باختیارِ خود ہدایت کے دروازے اپنے اوپر بند نہ کر لے۔

۳۴ ۔۔۔  ۱: مجاہدین کے ہاتھوں سے یا بلاواسطہ قدرت کی طرف سے۔

۲:  یعنی بے سزا دیئے چھوڑے گا نہیں۔ پھر وہاں کی سزا کا کیا پوچھنا۔

۳۵ ۔۔۔  ۱: جس کی کوئی نوع کبھی ختم نہ ہو گی اور ہمیشہ وہ ہی ملے گا جسکی خواہش کریں گے۔ لَامَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ (واقعہ، رکوع ۱، آیت ۳۳)

۲:  یعنی سایہ بھی ہمیشہ آرام دہ رہے گا۔ نہ کبھی دھوپ کی تپش ہو گی نہ سردی کی تکلیف "لَایَرَوْنَ فِیْہَا شَمْسًا وَلَا زَمْہَرِیْراً (دہر، رکوع ۱، آیت ۱۳)

۲:  یعنی خدا سے ڈر کر شرک و کفر کو چھوڑے رکھا۔

۴:  اہل حق اور اہل باطل کا انجام ایک دوسرے کے بالمقابل بیان فرمایا۔ وَبِضِدِّہَا تَتَبَیَّنُ الْاَشْیَآء

۳۶ ۔۔۔  ۱: جن کو اب قرآن دیا ہے (یعنی مسلمان) اور جن کو پہلے "تورات” و "انجیل" وغیرہ دی گئی یعنی (یہود و نصاریٰ) اس چیز کو سن کر خوش ہوتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کی گئی مسلمانوں کا خوش ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ اس کتاب کو فلاح دارین کی کلید جانتے تھے، باقی یہود و نصاریٰ میں جو لوگ اہل علم و انصاف اور فی الجملہ حق پرست تھے ان کے لیے بھی ایک طرح مسرت کا موقع تھا کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ قرآن کریم کیسی فراخ دلی سے ان کی اصل کتابوں کی تصدیق اور ان کے انبیاء کی تعریف و تعظیم میں رطب اللسان ہے بلکہ سچے احبار و رہبان کے وجود کو بھی معرض مدح میں پیش کرتا ہے۔ "ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَاناً" چنانچہ اسی قسم کے منصف و حق پرست یہود و نصاریٰ آخرکار مشرف با اسلام ہوئے۔

۲:  یعنی یہود و نصاریٰ یا عرب کے جاہلوں میں وہ جماعتیں بھی ہیں جو قرآن سے اس لیے ناخوش ہیں کہ انہیں اس کی بعض چیزوں سے انکار ہے اور یہ وہی چیزیں ہیں جو ان کی تحریف و تبدیل یا آراء وا ہواء کے خلاف قرآن نے بیان کی ہیں۔

۳:  یعنی کوئی خوش ہو یا ناخوش، میں تو اسی خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کی بندگی کرتا ہوں جس کو سب انبیاء اور ملل بالاتفاق مانتے چلے آئے۔ اسی کے احکام و مرضیات کی طرف ساری دنیا کو دعوت دیتا ہوں اور خوب جانتا ہوں کہ میرا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں، وہیں میرا ٹھکانہ ہے وہ ہی مجھ کو آخرکار غالب و منصور اور مخالفین کو مغلوب و رسوا کرے گا۔ لہٰذا کسی کے خلاف و انکار کی مجھے قطعاً پروا نہیں۔

۳۷ ۔۔۔  ۱: یعنی جیسے پیشتر دوسری کتابیں اتاری گئیں۔ اس وقت یہ قرآن اتارا جو عظیم الشان معارف و حکم پر مشتمل اور حق و باطل کا آخری فیصلہ کرنے والا ہے۔ پھر جس طرح ہر پیغمبر کو اسی زبان میں کتاب دی گئی جو اس کی قومی زبان تھی۔ ایسے ہی محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کو عربی قرآن دیا گیا۔ بلاشبہ قرآن جیسی معجز و جامع کتاب ایسی ہی زبان میں نازل ہونی چاہیے تھی، جو نہایت بلیغ، وسیع، جامع، منضبط، واضح، پر مغز اور پر شوکت ہونے کی وجہ سے" ام الالسنہ" اور "ملکۃ اللغات "کہلانے کی مستحق ہے۔

۲:  یعنی کسی کے انکار و  نا خوشی کی ذرہ بھر پروا نہ کرو۔ حق تعالیٰ نے جو علمِ عظیم تم کو دیا ہے اس کی پیروی کرتے رہو اگر بالفرض تم ان لوگوں کی خواہشات کی طرف جھک گئے تو اس کے وبال سے کون بچا سکتا ہے۔ یہ خطاب ہر طالب حق کو ہے اور اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم مخاطب ہیں تو آپ کو سامنے رکھ کر دوسروں کو سنانا مقصود ہے جیسا کہ پہلے متعدد مواضع میں اس کی نظائر گزر چکیں۔

۳۸ ۔۔۔ یعنی پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ و سلم کو نئی کتاب اور نئے احکام دے کر بھیجنا کیا اچنبھے کی بات ہو گئی جو اتنی حجتیں نکالی جاتی ہیں۔ آخر ان سے پہلے بھی ہم نے جو پیغمبر بھیجے وہ آسمان کے فرشتے نہ تھے اسی دنیا کے رہنے والے آدمی تھے۔ جو کھانا کھاتے، اپنی ضروریات اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے اور بیوی بچے رکھتے تھے۔ ان میں کسی کو یہ قدرت نہ تھی کہ لوگ جو نشانی مانگتے ضرور دکھلا دیتا۔ بلکہ موجودہ پیغمبر کی طرح ہر چیز میں خدائی اذن کے منتظر رہتے تھے۔ وہ ہی نشان دکھاتے اور وہ ہی احکام سناتے تھے جس کا اذن خدا کے یہاں سے ہوتا۔ خدائی اذن کا حال یہ ہے کہ اس کے یہاں ہر زمانہ اور ہر قرن کے مناسب جداگانہ حکم لکھا ہوا ہے۔ اور ایک وعدہ ٹھہرا ہوا ہے جس کو نہ کوئی نبی بدل سکتا ہے نہ فرشتہ۔ پھر جب ہر ایک پیغمبر اپنے زمانہ کے مناسب احکام لائے۔ اور اپنی صداقت کے نشان دکھانے میں پبلک کی خواہشات کے پابند نہیں رہے۔ نہ اپنے کو حوائج بشریہ اور تعلقاتِ معاشرت سے پاک اور برتر ظاہر کیا تو ان ہی چیزوں کا محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں پایا جانا انکارِ نبوت کی دلیل کیسے بن سکتی ہے؟

۳۹ ۔۔۔  یعنی اپنی حکمت کے موافق جس حکم کو چاہے منسوخ کرے، جسے چاہے باقی رکھے۔ جس قوم کو چاہے مٹائے جسے چاہے اس کی جگہ جما دے۔ جن اسباب کی تاثیر چاہے بدل ڈالے جن کی چاہے نہ بدلے۔ جو وعدہ چاہے شرائط کی موجودگی میں ظاہر کرے جو چاہے شرائط کے نہ پائے جانے کی بنا پر موقوف کر دے۔ غرض ہر قسم کی تبدیل و تغییر، محو واثبات، نسخ و احکام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ قضا و قدر کے تمام دفاتر اسی کے قبضہ میں ہیں اور سب تفصیلات و دفاتر کی جڑ جسے" اُم الکتاب" کہنا چاہیے اسی کے پاس ہے یعنی" علم ازلی محیط "جو ہر قسم کے تبدل و تغیر سے قطعاً منزّہ و مبرّیٰ اور لوح محفوظ کا ماخذ ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں" کہ دنیا میں ہر چیز اسباب سے ہے بعضے اسباب ظاہر ہیں بعضے چھپے ہیں۔ اسباب کی تاثیر کا ایک طبعی اندازہ ہے، جب اللہ چاہے اس کی تاثیر اندازہ سے کم یا زیادہ کر دے جب چاہے ویسی ہی رکھے۔ آدمی کبھی کنکر سے مرتا ہے اور کبھی گولی سے بچتا ہے اور ایک اندازہ ہر چیز کا اللہ کے علم میں ہے جو ہرگز نہیں بدلتا۔ اندازے کو تقدیر کہتے ہیں۔ یہ دو تقدیریں ہوئیں ایک بدلتی ہے اور ایک نہیں بدلتی۔ جو تقدیر بدلتی ہے اس کو معلق اور جو نہیں بدلتی اس کو مبرم کہتے ہیں"۔ جن احادیث و آثار سے بعض افاضل کو قضائے مبرم کے بدلنے کا شبہ ہوا ہے ان کے متعلق یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔ انشاء اللہ مستقل تفسیر میں لکھا جائے گا۔ اگر خدا نے توفیق دی۔ و ہوالموفق والمستعان۔

۴۰ ۔۔۔  یعنی جو وعدے ان سے کیے گئے ہیں، ہم کو اختیار ہے کہ ان میں سے بعض آپ کے سامنے پورے کر دیں۔ یا آپ کی وفات کے بعد ظاہر کریں، نہ آپ کو ان کے ظہور کی فکر میں پڑنا چاہیے اور نہ تاخیر و امہال دیکھ کر ان لوگوں کو بے فکر ہونا چاہیے۔ خدا کے علم میں ہر چیز کا ایک وقت مناسب ہے جس کے پہنچنے پر وہ ضرور ظاہر ہو کر رہے گی۔ آپ اپنا فرض (تبلیغ) ادا کیے جائیں۔ تکذیب کرنے والوں کا حساب ہم خود بیباق کر دیں گے۔

۴۱ ۔۔۔  ۱:  یعنی سرزمین مکہ کے آس پاس اسلام کا اثر پھیلتا جاتا اور کفر کی عملداری گھٹتی جاتی ہے۔ بڑے بڑے قبائل اور اشخاص کے قلوب پر اسلام کا سکہ بیٹھ رہا ہے۔ اوس و خزرج کے دل حق و صداقت کے سامنے مفتوح ہو رہے ہیں۔ اس طرح ہم آہستہ آہستہ کفر کی حکومت کو دباتے چلے آ رہے ہیں۔ کیا یہ روشن آثار ان مکذبین کو نہیں بتلاتے کہ خدا کا فیصلہ ان کے مستقبل کے متعلق کیا ہو چکا ہے۔ ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اسلام آج جس رفتار سے بڑھ رہا ہے وہ کسی طاقت سے رکنے والا نہیں۔ لہٰذا انجام بینی اسی میں ہے کہ آنے والی چیز کو آئی ہوئی سمجھیں۔

۲:  یعنی اس کا تکوینی حکم اور فیصلہ اٹل ہے۔ جب وقت آ جائے تو کس کی طاقت ہے کہ ایک منٹ کے لیے ملتوی کر کے پیچھے ڈال دے۔

۳: یعنی جہاں حساب کا وقت آن پہنچا پھر دیر نہ لگے گی۔ یا جو چیز یقیناً آنے والی ہے اسے جلد ہی سمجھو۔

۴۲ ۔۔۔ ۱: وہ نہ چاہے تو سب فریب رکھے رہ جائیں، یا یہ کہ خدا ان کے فریب کا توڑ کرتا ہے مکر اصل میں خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں اگر برائی کے لیے کی جائے بری ہے اور برائی کو دور کرنے کے لیے ہو تو اچھی ہے۔ یعنی انہوں نے چھپ چھپ کر ناپاک تدبیریں کیں لیکن خدا کی تدبیر سب پر غالب رہی، اس نے وہ تدبیریں ان ہی پر الٹ دیں "وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیءُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ" (فاطر، رکوع ۵، آیت ۴۳)

۲:  یعنی جس سے کوئی حرکت و سکون اور کھلا چھپا کام پوشیدہ نہیں اس کے آگے کسی کا مکر کیا چل سکتا ہے وہ ان مکاروں کو خوب مزا چکھائے گا۔

۳:  یعنی جسے اگلوں نے اپنے مکر کا انجام دیکھ لیا، موجودہ کفار کو بھی قدر عافیت معلوم ہوا چاہتی ہے۔

۴۳ ۔۔۔  ۱: یعنی تمہارے جھٹلانے سے کچھ نہیں ہوتا جبکہ خداوند قدوس میری صداقت کے بڑے بڑے نشان دکھلا رہا ہے قرآن جو اس کا کلام ہے جیسے اپنے کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتا ہے، اسی طرح میرے پیغمبر برحق ہونے کا گواہ ہے۔ اگر آنکھیں کھول کر دیکھو تو سخت ناموافق حالات میں سچ کا اس شان سے پھیلتے جانا اور دشمنوں تک کے دلوں میں گھر کرنا اور جھوٹ کا مغلوب ومقہور ہو کر سمٹتے رہنا خدا کی طرف سے کھلی ہوئی گواہی میری حقانیت کی ہے۔

۲:  یعنی جن کو قرآن کا علم اور اس کے حقائق کی خبر ہو گئی ہے وہ بھی دل سے گواہ ہیں کہ میں نے کچھ جھوٹ نہیں بنایا۔ نیز جنہیں پہلی کتب سماویہ اور ان کی پیشین گوئیوں کی اطلاع ہے ان کے دل گواہی دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ٹھیک ان پیشین گوئیوں کے مطابق تشریف لائے ہیں جو سینکڑوں برس پیشتر موسیٰ اور مسیح کر چکے تھے۔ "عَلَیْہِمَا وَعَلَیٰ نَبِیِّنَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ۔" اے خدا! تو گواہ رہ کہ جس چیز کی گواہی تو نے اور تیری کتاب والوں نے دی، یہ عاجز خاطی بھی صدق دل سے اس کی گواہی دیتا ہے۔ تَمَّ سُوْرَۃُ الرَّعْدِ بِعَوْنِ اللّٰہِ وَحُسْنِ تَوْفِیْقِہٖ۔