تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ البُرُوج

۱ ۔۔۔      برجوں سے مراد تو وہ بارہ برج ہیں جن کو آفتاب ایک سال کی مدت میں تمام کرتا ہے یا آسمانی قلعہ کے وہ حصے جن میں فرشتے پہرہ دیتے ہیں یا بڑے بڑے ستارے جو دیکھنے میں آسمان پر معلوم ہوتے ہیں ۔ واللہ اعلم۔

۲ ۔۔۔  یعنی قیامت کا دن۔

۳ ۔۔۔      سب شہروں میں حاضر ہوتے ہے جمعہ کا دن۔ اور سب ایک جگہ حاضر ہوتے ہیں عرفہ کے دن حج کے لیے اسی لئے روایات میں آیا کہ "شاہد" جمعہ کا دن ہے اور "مشہود" عرفہ کا دن۔ اس کے علاوہ "شاہد" و "مشہود" کی تفسیر میں اقوال بہت ہیں لیکن اوفق بالروایات یہ ہی قول ہے۔ واللہ اعلم۔ (تنبیہ) قرآنی قسموں کے متعلق ہم سورہ "قیامہ" کے شروع میں جو لکھ چکے ہیں ، اس کو ہر جگہ یاد رکھنا چاہئے۔ اور ان قسموں کو جواب قسم سے مناسبت یہ ہے کہ ان سب سے اللہ تعالیٰ کا مالک امکنہ وازمنہ ہونا ظاہر ہوتا ہے اور ایسے مالک الکل کی مخالفت کرنے والے کا مستحق لعن و عقوبت ہونا ظاہر ہے۔

۵ ۔۔۔      یعنی ملعون و مغضوب ہوئے وہ لوگ جنہوں نے بڑی بڑی خندقیں کھود کر آگ سے بھریں اور بہت سا ایندھن ڈال کر ان کو دھونکایا۔ ان "اصحاب الاخدود" سے کون مراد ہیں ؟ مفسرین نے کئی واقعات نقل کئے ہیں ۔ لیکن صحیح مسلم، جامع ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں جو قصہ مذکور ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں کوئی کافر بادشاہ تھا۔ اس کے ہاں ایک ساحر (جادوگر) رہتا تھا۔ جب ساحر کی موت کا وقت قریب ہوا۔ اس نے بادشاہ سے درخواست کی کہ ایک ہوشیار اور ہونہار لڑکا مجھے دیا جائے تو میں اس کو اپنا علم سکھا دوں تاکہ میرے بعد یہ علم مٹ نہ جائے۔ چنانچہ ایک لڑکا تجویز کیا گیا جو روزانہ ساحر کے پاس جا کر اس کا علم سیکھتا تھا۔ راستہ میں ایک عیسائی راہب رہتا تھا جو اس وقت کے اعتبار سے دینِ حق پر تھا۔ لڑکا اس کے پاس بھی آنے جانے لگا۔ اور خفیہ طور سے راہب کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا، اور اس کے فیض صحبت سے ولایت و کرامت کے درجہ کو پہنچا۔ ایک روز لڑکے نے دیکھا کہ کسی بڑے جانور (شیر وغیرہ) نے راستہ روک رکھا ہے جس کی وجہ سے مخلوق پریشان ہے۔ اس نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر دعا کی کہ اے اللہ! اگر راہب کا دین سچا ہے تو یہ جانور میرے پتھر سے مارا جائے۔ یہ کہہ کر پتھر پھینکا جس سے اس جانور کا کام تمام ہو گیا۔ لوگوں میں شور ہوا کہ اس لڑکے کو عجیب علم آتا ہے اندھے نے سن کر درخواست کی کہ میری آنکھیں اچھی کردو۔ لڑکے نے کہا کہ اچھی کرنے والا میں نہیں ۔ وہ اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ ہے۔ اگر تو اس پر ایمان لائے تو میں دعا کروں ۔ امید ہے وہ تجھ کو بینا کر دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ شدہ شدہ یہ خبریں بادشاہ کو پہنچیں ۔ اس نے برہم ہو لڑکے کو مع راہب اور اندھے کے طلب کر لیا اور کچھ بحث و گفتگو کے بعد راہب اور اندھے کو قتل کر دیا اور لڑکے کی نسبت حکم دیا کہ اونچے پہاڑ پر سے گرا کر ہلاک کر دیا جائے۔ مگر خدا کی قدرت جو لوگ اس کو لے گئے تھے، سب پہاڑ سے گر کر ہلاک ہو گئے اور لڑکا صحیح و سالم چلا آیا۔ پھر بادشاہ نے دریا میں غرق کرنے کا حکم دیا۔ وہاں بھی یہ ہی صورت پیش آئی کہ لڑکا صاف بچ کر نکل آیا اور جو لے گئے تھے وہ سب دریا میں ڈوب گئے۔ آخر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ میں خود اپنے مرنے کی ترکیب بتلاتا ہوں ۔ آپ سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کریں ۔ ان کے سامنے مجھ کو سولی پر لٹکائیں اور یہ لفظ کہہ کر میرے تیر ماریں ۔ "بسم اللّٰہ رب الغلام " (اس اللہ کے نام پر جو رب ہے اس لڑکے کا) چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ اور لڑکا اپنے رب کے نام پر قربان ہو گیا۔ یہ عجیب واقعہ دیکھ کر یکلخت لوگوں کی زبان سے ایک نعرہ بلند ہوا کہ "آمنا برب الغلام" (ہم سب لڑکے کے رب پر ایمان لائے) لوگوں نے بادشاہ سے کہا کہ لیجئے۔ جس چیز کی روک تھام کر رہے تھے۔ وہ ہی پیش آئی پہلے تو کوئی اِکا دکا مسلمان ہوتا تھا اب خلق کثیر نے اسلام قبول کر لیا۔ بادشاہ نے غصہ میں آ کر بڑی بڑی خندقیں کھدوائیں اور ان کو خوب آگ سے بھروا کر اعلان کیا کہ جو شخص اسلام سے نہ پھریگا اس کو ان خندقوں میں جھونک دیا جائے گا۔ آخر لوگ آگ میں ڈالے جا رہے تھے۔ لیکن اسلام سے نہیں ہٹتے تھے۔ ایک مسلمان عورت لائی گئی جس کے پاس دودھ پیتا بچہ تھا۔ شاید بچہ کی وجہ سے آگ میں گرنے سے گھبرائی۔ مگر بچہ نے خدا کے حکم سے آواز دی۔ "اماہ اصبری فانک علی الحق" (اماں جان صبر کر کہ تو حق پر ہے)۔

۷ ۔۔۔       یعنی بادشاہ اور اس کے وزیرو مشیر خندقوں کے آس پاس بیٹھے ہوئے نہایت سنگدلی سے مسلمانوں کے جلنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ بدبختوں کو ذرا رحم نہ آتا تھا۔

۹ ۔۔۔    یعنی ان مسلمانوں کا قصور اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کفر کی ظلمت سے نکل کر ایک زبردست اور ہر طرح کی تعریف کے لائق خدا پر ایمان لائے۔ جس کی بادشاہت سے زمین و آسمان کا کوئی گوشہ باہر نہیں ۔ اور جو ہر چیز کے ذرہ ذرہ احوال سے باخبر ہے۔ جب ایسے خدا کے پرستاروں کو محض اس جرم پر کہ وہ کیوں اسی اکیلے کو پوجتے ہیں ، آگ میں جلا دیا جائے تو کیا گمان ہو سکتا ہے کہ ایسا ظلم و ستم یوں ہی خالی چلا جائے گا اور وہ خداوندِ قہار ظالموں کو سخت ترین سزا نہ دے گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " جب اللہ کا غضب آیا وہی آگ پھیل پڑی۔ بادشاہ اور امیروں کے گھر سارے پھونک دیے"۔ مگر روایات صحیحہ میں اس کا ذکر نہیں ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

۱۰ ۔۔۔       یعنی کچھ اصحاب الاخدود پر منحصر نہیں ۔ جو لوگ ایمانداروں کو دین حق سے برگشتہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ (جیسے کفارِ مکہ کر رہے تھے) پھر اپنی ان نالائق حرکات سے تائب نہ ہوں گے اس سب کے لئے دوزخ کا عذاب تیار ہے جس میں بے شمار قسم کی تکلیفیں ہوں گی اور بڑی تکلیف آگ لگے کی ہو گی جس میں دوزخی کا تن من سب گرفتار ہو گا۔

۱۱ ۔۔۔     یعنی یہاں کی تکلیفوں اور ایذاؤں سے نہ گھبرائیں ۔ بڑی اور آخری کامیابی ان ہی کے لئے ہے۔ جس کے مقابلہ میں یہاں کا عیش یا تکلیف سب ہیچ ہے۔

۱۲ ۔۔۔    اسی لئے ظالموں اور مجرموں کو پکڑ کر سخت ترین سزا دیتا ہے۔

۱۳ ۔۔۔      یعنی پہلی مرتبہ دنیا کا عذاب اور دوسری مرتبہ آخرت کا (کذافی الموضح) یا یہ مطلب ہے کہ اول مرتبہ آدمی کو وہ ہی پیدا کرتا ہے اور دوسری مرتبہ موت کے بعد بھی وہ ہی پیدا کرے گا۔ پس مجرم اس دھوکا میں نہ رہے کہ موت جب ہمارا نام و نشان مٹادے گی، پھر ہم کس طرح ہاتھ آئیں گے۔

۱ ۴ ۔۔۔    یعنی باوجود اس صفت قہاری و سخت گیری کے اس کی بخشش اور محبت کی بھی کوئی حد نہیں وہ اپنے فرمانبردار بندوں کی خطائیں معاف کرتا، ان کے عیب چھپاتا اور طرح طرح کے لطف و کرم اور عنایت و شفقت سے نوازتا ہے۔

۱۶ ۔۔۔  یعنی اپنے علم و حکمت کے موافق جو کرنا چاہے کچھ دیر نہیں لگتی نہ کوئی روکنے ٹوکنے کا حق رکھتا ہے۔ بہرحال نہ اس کے انعام پر بندہ کو مغرور ہونا چاہیے نہ انتقام سے بے خوف بلکہ ہمیشہ اس کی صفاتِ جلال و جمال دونوں پر نظر رکھے۔ اور خوف کے ساتھ رجاء اور رجاء کے ساتھ خوف کو دل سے زائل نہ ہونے دے۔

۱۸ ۔۔۔ کہ ایک مدت تک انعام کا دروازہ ان پر کھلا رکھا تھا۔ اور ہر طرف سے طرح طرح کی نعمتیں ان کو پہنچتی تھیں پھر ان کے کفر و طغیان کی بدولت کیسا سخت انتقام لیا گیا۔

۱۹ ۔۔۔     یعنی کفار ان قصوں سے عبرت نہیں پکڑتے اور عذابِ الٰہی سے ذرا نہیں ڈرتے۔ بلکہ ان قصوں کے اور قرآن کے جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں ۔

۲۰ ۔۔۔  یعنی جھٹلانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ ہاں اس تکذیب کی سزا بھگتنا ضروری ہے اللہ کے قبضہ قدرت سے وہ نکل نہیں سکتے نہ سزا سے بچ سکتے ہیں ۔

۲۱ ۔۔۔      یعنی ان کا قرآن کو جھٹلانا محض حماقت ہے۔ قرآن ایسی چیز نہیں جو جھٹلانے کے قابل ہو، یا چند احمقوں کے جھٹلانے سے اس کی شان اور بزرگی کم ہو جائے۔

۲۲ ۔۔۔ ۰     جہاں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔ پھر وہاں سے نہایت حفاظت و اہتمام کے ساتھ صاحبِ وحی کے پاس پہنچایا جاتا ہے۔ "فانہ یسلک من بین یدیہ و من خلفہ ر صدًا" (الجن۔ رکوع ۲) اور یہاں بھی قدرت کی طرف سے اس کی حفاظت کا ایسا سامان ہے جس میں کوئی طاقت رخنہ نہیں ڈال سکتی۔