صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم طواف کی دو رکعتوں اور فجر اور مغرب کی سنتوں میں (قل یٰٓایھا الکٰفرون) اور سورۂ اخلاص پڑھتے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ رات کو سوتے وقت، یہ سورت پڑھ کر سوؤ گے تو شرک سے بری قرار پاؤ گے۔ بعض روایت میں خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل بھی یہ بتلایا گیا ہے۔(ابن کثیر)
١۔ الکفرون میں الف لام جنس کے لیے ہے لیکن بطور خاص صرف ان کافروں سے خطاب ہے جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ ان کا خاتمہ کفر و شرک پر ہو گا۔ کیونکہ اس سورت کے نزول کے بعد کئی مشرک مسلمان ہوئے اور انہوں نے اللہ کی عبادت کی (فتح القدیر)
۲۔ بعض نے پہلی آیت کو حال کے اور دوسری کو استقبال کے مفہوم میں لیا ہے، لیکن امام شوکانی نے کہا ہے کہ ان تکلفات کی ضرورت نہیں ہے۔ تاکید کے لیے تکرار، عربی زبان کا عام اسلوب ہے، جسے قرآن کریم میں کئی جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ جیسے سورۂ رحمٰن، سورۂ مرسلات میں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی تاکید کے لیے یہ جملہ دہرایا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کر لوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔ اور اگر اللہ نے تمہاری قسمت میں ہدایت نہیں لکھی ہے، تو تم بھی اس توحید اور عبادت الہی سے محروم ہی رہو گے۔ یہ بات اس وقت فرمائی گئی جب کفار نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک سال ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے معبود کی اور ایک سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے معبودوں کی عبادت کریں۔
٦۔یعنی اگر تم اپنے دین پر راضی ہو اور اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو، تو میں اپنے دین پر راضی ہوں میں اسے کیوں چھوڑوں۔؟(لنا اعمالنا ولکم اعمالکم)