احسن البیان

سُوۡرَةُ لهب / المَسَد

اسے سورۃ المسد بھی کہتے ہیں۔ اس کی شان نزول میں آتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم ہوا کہ اپنے رشتہ داروں کو انذار و تبلیغ کریں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر یا صباحاہ! کی آواز لگائی۔ اس طرح کی آواز خطرے کی علامت سمجھی جاتی ہے،چنانچہ اس آواز پر لوگ اکٹھے ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ذرا بتلاؤ، اگر میں تمہیں خبردوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر ایک گھڑ سوار لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو تم میری تصدیق کرو گے ؟ انہوں نے کہا، کیوں نہیں۔ہم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جھوٹا نہیں پایا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں ایک بڑے عذاب سے ڈرانے آیا ہوں۔(اگر تم کفرو شرک میں مبتلا رہے ) یہ سن کر ابولہب نے کہا تباً لنا تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا تھا؟جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرما دی۔(صحیح بخاری، تفسیر سورۃ تبت ) ابولہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا، اپنے حسن جمال اور چہرے کی سرخی کی وجہ سے اسے ابولہب (شعلہ فروزاں ) کہا جاتا تھا۔علاوہ ازیں اپنے انجام کے اعتبار سے بھی اسے جہنم کی آگ کا ایندھن بننا تھا۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا حقیقی چچا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا شدید دشمن تھا اور اس کی بیوی ام جمیل بنت حرب بھی دشمنی میں اپنے خاوند سے کم نہ تھی۔

١۔ یدا، ید (ہاتھ) کا تثنیہ ہے، مراد اس سے اس کا نفس ہے، جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے یعنی ہلاک اور برباد ہو جائے یہ بد دعا ان الفاظ کے جواب میں ہے جو اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق غصے اور عداوت میں بولے تھے۔ وَ تَبَّ (اور وہ ہلاک ہو گیا) یہ خبر ہے یعنی بد دعا کے ساتھ ہی اللہ نے اس کی ہلاکت اور بربادی کی خبر دے دی،چنانچہ جنگ بدر کے چند روز بعد یہ عدسیہ بیماری میں مبتلا ہو گیا، جس میں طاعون کی طرح گلٹی سی نکلتی ہے، اسی میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ تین دن تک اسکی لاش یوں ہی پڑی رہی، حتیٰ کہ سخت بدبو دار ہو گئی۔ بالآخر اس کے لڑکوں نے بیماری کے پھیلنے اور عار کے خوف سے، اس کے جسم پر دور سے ہی پتھر اور مٹی ڈال کر اسے دفنا دیا۔(ایسر التفاسیر)

۲۔کمائی میں اس کی رئیسانہ حیثیت اور جاہ و منصب اور اس کی اولاد بھی شامل ہے یعنی جب اللہ کی گرفت آئی تو کوئی چیز اس کے کام نہ آئی۔

٤۔ یعنی جہنم میں یہ اپنے خاوند کی آگ پر لکڑیاں لا لا کر ڈالے گی، تاکہ مزید آگ بھڑکے۔ یہ اللہ کی طرف سے ہو گا۔ یعنی جس طرح یہ دنیا میں اپنے خاوند کی، اس کے کفر و عناد میں مددگار تھی آخرت میں بھی عذاب میں اس کی مددگار ہو گی۔ (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ وہ کانٹے دار جھاڑیاں ڈھو ڈھو کر لاتی اور نبی کریم کے راستے میں لا کر بچھا دیتی تھی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اس کی چغل خوری کی عادت کی طرف اشارہ ہے۔چغل خوری کے لیے یہ عربی محاورہ ہے۔ یہ کفار قریش کے پاس جا کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی غیبت کرتی اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عداوت پر اکساتی تھی۔(فتح الباری)

جید گردن۔ مسد، مضبوط بٹی ہوئی رسی۔ وہ مونج کی یا کھجور کی پوست کی ہو یا آہنی تاروں کی۔ جیسا کہ مختلف لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ وہ دنیا میں ڈالے رکھتی تھی جسے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جہنم میں اس کے گلے میں جو طوق ہو گا، وہ آہنی تاروں سے بٹا ہوا ہو گا۔ مسد سے تشبیہ اس کی شدت اور مضبوطی کو واضح کرنے کے لیے دی گئی ہے۔