۱۔(۱) یعنی اسی کی ملکیت اور تصرف میں ہے اسی کا ارادہ اور فیصلہ اس میں نافذ ہوتا ہے انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کا احسان ہے اسی لیے آسمان و زمین کی ہر چیز کی تعریف دراصل ان نعمتوں پر اللہ ہی کی حمد و تعریف ہے جن سے اس نے اپنی مخلوق کو نوازا ہے۔
۱۔ (۲) یہ تعریف قیامت والے دن اہل ایمان کریں گے مثلاً (الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ) (الحمدللہ الذی ھدٰنا لھذا) (الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن) تاہم دنیا میں اللہ کی حمد و تعریف عبادت ہے جس کا مکلف انسان کو بنایا گیا ہے اور آخرت میں یہ اہل ایمان کی روحانی خوراک ہو گی جس سے انہیں لذت و فرحت محسوس ہوا کرے گی۔
٢۔ (۱) مثلاً بارش خزانہ اور دفینہ وغیرہ۔
٢۔ (۲) بارش اولے گرج، بجلی اور برکات الٰہی وغیرہ، نیز فرشتوں اور آسمانی کتابوں کا نزول۔
٢۔ (۳) یعنی فرشتے اور بندوں کے اعمال۔
٣۔ (۱) قسم بھی کھائی اور صیغہ بھی تاکید کا اور اس پر مزید لام تاکید یعنی قیامت کیوں نہیں آئے گی؟ وہ تو بہر صورت یقیناً آئے گی۔
٣۔ (۲) یعنی جب آسمان و زمین کا کوئی ذرہ اس سے غائب اور پوشیدہ نہیں، تو پھر تمہارے اجزائے منتشرہ کو، جو مٹی میں مل گئے ہوں گے، جمع کر کے دوبارہ تمہیں زندہ کر دینا کیوں ناممکن ہو گا
٣۔ (۳) یعنی وہ لوح محفوظ میں موجود اور درج ہے۔
٤۔ یہ وقوع قیامت کی علت ہے یعنی اس لیے برپا ہو گی اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ اس لیے دوبارہ زندہ فرمائے گا کہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا عطا فرمائے کیونکہ جزا کے لیے ہی اس نے یہ دن رکھا ہے اگر یہ یوم جزا نہ ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نیک و بد دونوں یکساں ہیں اور یہ بات عدل و انصاف کے قطعاً منافی اور بندوں بالخصوص نیکوں پر ظلم ہو گا وما ربک بظلام للعبید۔
٥۔ یعنی ہماری ان آیتوں کے بطلان اور تکذیب کی جو ہم نے پیغمبروں پر نازل کیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم ان کی گرفت سے عاجز ہوں گے، کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد ہم مٹی میں مل جائیں گے تو ہم کس طرح دوبارہ زندہ ہو کر کسی کے سامنے اپنے کیے دھرے کی جواب دہی کریں گے ؟ ان کا یہ سمجھنا گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا مواخذہ کرنے پر قادر ہی نہیں ہو گا، اس لئے قیامت کا خوف ہمیں کیوں ہو؟
٦۔ (۱) یہاں رؤیت سے مراد رؤیت قلبی یعنی علم یقینی ہے، محض رؤیت بصری (آنکھ کا دیکھنا) نہیں اہل علم سے مراد صحابہ کرام یا مومنین ہیں۔ یعنی اہل ایمان اس بات کو جانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔
٦۔ (۲) یہ عطف ہے حق پر، یعنی وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس اللہ کا راستہ ہے جو کائنات میں سب پر غالب ہے اور اپنی مخلوق میں محمود (قابل تعریف) ہے اور وہ راستہ کیا ہے ؟ توحید کا راستہ جس کی طرف تمام انبیا علیھم السلام اپنی اپنی قوموں کو دعوت دیتے رہے۔
٧۔ (۱) یہ اہل ایمان کے مقابلے میں منکرین آخرت کا قول ہے جو آپس میں انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔
٧۔ (۲) اس سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جو ان کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے تھے
٧۔ (۳) یعنی عجیب و غریب خبر، ناقابل فہم خبر۔
۷۔(۴)یعنی مرنے کے بعد جب تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تمہارا ظاہری وجود ناپید ہو جائے گا تمہیں قبروں سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور دوبارہ وہی شکل وصورت تمہیں عطاکر دی جائے گی جس میں تم پہلے تھے یہ گفتگو انہوں نے آپس میں استہزا اور مذاق کے طور پر کی
٨۔ (۱) یعنی دو باتوں میں سے ایک بات تو ضرور ہے، کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اللہ کی طرف سے وحی و رسالت کا دعویٰ، یہ اس کا اللہ پر افترا ہے۔ یا پھر اس کا دماغ چل گیا ہے اور دیوانگی میں ایسی باتیں کر رہا ہے جو غیر معقول ہیں۔
٨۔ (۲) اللہ تعالیٰ نے فرمایا، بات اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ گمان کر رہے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عقل و فہم اور ادراک حقائق سے یہی لوگ قاصر ہیں، جس کی وجہ سے یہ آخرت پر ایمان لانے کی بجائے اس کا انکار کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہے اور یہ آج ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو حق سے غایت درجہ دور ہے۔
٩۔ (۱) یعنی اس پر غور نہیں کرتے ؟ اللہ تعالیٰ ان کی زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ آخرت کا یہ انکار، آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ جو ذات آسمان جیسی چیز، جس کی بلندی اور وسعت ناقابل بیان ہے اور زمین جیسی چیز، جس کا طول و عرض بھی ناقابل فہم ہے، پیدا کر سکتا ہے، اس کے لئے اپنی ہی پیدا کردہ چیز کا دوبارہ پیدا کر دینا اور اسے دوبارہ اسی حالت میں لے آنا، جس میں وہ پہلے تھی، کیوں کر ناممکن ہے۔
۹۔(۲)یعنی یہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے ایک اللہ کے کمال قدرت کا بیان جو ابھی مذکور ہوا دوسری کفار کے لیے تنبیہ و تہدید کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تخلیق پر اس طرح قادر ہے کہ ان پر اور ان کے مابین ہر چیز پر اس کا تصرف اور غلبہ ہے وہ جب چاہے ان پر اپنا عذاب بھیج کر ان کو تباہ کر سکتا ہے زمین میں دھنسا کر بھی، جس طرح قارون کو دھنسایا یا آسمان کے ٹکڑے گرا کر جس طرح اصحاب الایکہ کو ہلاک کیا گیا۔
١٠۔ (۱) یعنی نبوت کے ساتھ بادشاہت اور کئی امتیازی خوبیوں سے نوازا۔
١٠۔ (۲) ان میں سے ایک حسن صوت کی نعمت تھی، جب وہ اللہ کی تسبیح پڑھتے تو پتھر کے ٹھوس پہاڑ بھی تسبیح خوانی میں مصروف ہو جاتے، اڑتے پرندے ٹھہر جاتے اور زمزمہ خواں ہو جاتے، یعنی پہاڑوں اور پرندوں کو ہم نے کہا، چنانچہ یہ بھی داؤد علیہ السلام کے ساتھ مصروف تسبیح ہو جاتے۔ والطیر کا عطف یا جبال کے محل پر ہے اس لیے کہ جبال تقدیرا منصوب ہے اصل عبارت اس طرح ہے نادینا الجبال والطیر (ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو پکارا) یا پھر اس کا عطف فضلا پر ہے اور معنی ہوں گے وسخرنا لہ الطیر (اور ہم نے پرندے ان کے تابع کر دیئے (فتح القدیر)
١٠۔ (۳) یعنی لوہے کو آگ میں تپائے اور ہتھوڑی سے کوٹے بغیر، اسے موم، گوندھے ہوئے آٹے اور گیلی مٹی کی طرح جس طرح چاہتے موڑ لیتے، بٹ لیتے اور جو چاہے بنا لیتے۔
١١۔ (۱) سابغات محزوف موصوف کی صفت ہے دروعا سابغات یعنی پوری لمبی زرہیں، جو لڑنے والے کے پورے جسم کو صحیح طریقے سے ڈھانک لیں اور اسے دشمن کے وار سے محفوظ رکھیں۔
۱۱۔ (۲) تاکہ چھوٹی بڑی نہ ہوں یا سخت یا نرم نہ ہوں یعنی کڑیوں کے جوڑنے میں کیل اتنے باریک نہ ہوں کہ جوڑ حرکت کرتے رہیں اور ان میں قرار و ثبات نہ آئے اور نہ اتنے موٹے ہوں کہ اسے توڑ ہی ڈالیں یا جس سے حلقہ تنگ ہو جائے اور اسے پہنا نہ جا سکے یہ زرہ بافی کی صنعت کے بارے میں حضرت داؤد علیہ السلام کو ہدایات دی گئیں۔
١١۔ (۳) یعنی ان نعمتوں کے بدلے میں عمل صالح کا اہتمام کرو تاکہ میرا عملی شکر بھی ہوتا رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نعمتوں سے سرفراز فرمائے، اسے اسی حساب سے اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے اور شکر میں بنیادی چیز یہی ہے نعمت دینے والے کو راضی رکھنے کی بھرپور سعی کی جائے یعنی اس کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی سے بچا جائے۔
۱۲۔(۱) یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام مع اعیان سلطنت اور لشکر تخت پر بیٹھ جاتے اور جدھر آپ کا حکم ہوتا کہ ہوائیں اسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہو جاتی اور پھر اسی طرح دوپہر سے رات تک ایک مہینے جتنی مسافت طے ہو جاتی اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت طے ہو جاتی۔
١٢۔ (۲) یعنی جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہا نرم کر دیا تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تانبے کا چشمہ ہم نے جاری کر دیا تاکہ تانبے کی دھات سے وہ جو چاہیں بنائیں۔
١٢۔ (۳) اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سزا قیامت والے دن دی جائے گی۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ دنیاوی سزا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ مقرر فرما دیا تھا جس کے ہاتھ میں آگ کی لاٹھی تھی۔ جو جن حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے سرتابی کرتا، فرشتہ وہ لاٹھی اسے مارتا، جس سے وہ جل کر بھسم ہو جاتا (فتح القدیر)
١٣۔محاریب محراب کی جمع ہے مطلب ہے بلند محلات، عالی شان عمارتیں یا مساجد و تصویریں۔ یہ تصویریں غیر حیوان چیزوں کی ہوتی تھیں، بعض کہتے ہیں کہ انبیاء علیہ السلام کی تصاویر مسجدوں میں بنائی جاتی تھیں تاکہ انہیں دیکھ کر لوگ بھی عبادت کریں۔ یہ معنی اس صورت میں صحیح ہے جب تسلیم کیا جائے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی شریعت میں تصویر سازی کی اجازت تھی جو صحیح نہیں۔ تاہم اسلام میں تو نہایت سختی کے ساتھ اس کی ممانعت ہے۔ جفان، جفنۃ کی جمع ہے لگن جواب، جابیۃ کی جمع ہے حوض جس میں پانی جمع کیا جاتا ہے یعنی حوض جتنے بڑے بڑے لگن قدور دیگیں، راسیات جمی ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دیگیں پہاڑوں کو تراش کر بنائی جاتی تھیں جنہیں ظاہر ہے اٹھا کر ادھر ادھر نہیں لے جایا جا سکتا تھا اس میں بیک وقت ہزاروں افراد کا کھانا پک جاتا تھا یہ سارے کام جنات کرتے تھے۔
١٤۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جنات کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ یہ غائب کی باتیں جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کے ذریعے سے اس عقیدے کے فساد کو واضح کر دیا۔
۱۵۔(۱) سبا وہی قوم تھی جس کی ملکہ سبا مشہور ہے جو حضرت سلیمان علیہ والسلام کے زمانے میں مسلمان ہو گئی تھی قوم ہی کے نام پر ملک کا نام بھی سبا تھا آج کل یمن کے نام سے یہ علاقہ معروف ہے یہ بڑا خوش حال ملک تھا یہ ملک بری و بحری تجارت میں بھی ممتاز تھا اور زراعت و باغبانی میں بھی نمایاں اور یہ دونوں ہی چیزیں کسی ملک اور قوم کی خوش حالی کا باعث ہوتی ہیں اسی مال و دولت کی فراوانی کو یہاں قدرت الٰہی کی نشانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
۱۵۔ (۲) کہتے ہیں کہ شہر کے دونوں طرف پہاڑ تھے جن سے چشموں اور نالوں کا پانی بہہ بہہ کر شہر میں آتا تھا ان کے حکمرانوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے تعمیر کرا دیئے اور ان کے ساتھ باغات لگائے گئے جس سے پانی کا رخ بھی متعین ہو گیا اور باغوں کو بھی سیرابی کا ایک قدرتی ذریعہ میسر آگیا انہی باغات کو دائیں بائیں دو باغوں سے تعبیر کیا گیا ہے بعض کہتے ہیں جنتین سے دو باغ نہیں بلکہ دائیں بائیں کی دو جہتیں مراد ہیں اور مطلب باغوں کی کثرت ہے کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھیں باغات ہریالی اور شادابی ہی نظر آتی تھی۔(فتح القدیر)
١٥۔ (۳) یہ ان کے پیغمبروں کے ذریعے سے کہلوایا گیا یا مطلب ان نعمتوں کا بیان ہے، جن سے انکو نوازا گیا تھا۔
١٥۔(۴) یعنی منعم و محسن کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے اجتناب۔
١٥۔(۵) یعنی باغوں کی کثرت اور پھلوں کی فراوانی کی وجہ سے یہ شہر عمدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی عمدگی کی وجہ سے یہ شہر مکھی، مچھر اور اس قسم کے دیگر موذی جانوروں سے بھی پاک تھا واللہ عالم۔
١٥۔ (٦) یعنی اگر تم رب کا شکر کرتے رہو گے تو وہ تمہارے گناہ کا سبب نہیں بنتے، بلکہ اللہ تعالیٰ عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔
۱۶۔ یعنی انہوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے اور بند تعمیر کر کے پانی کی جو رکاوٹ کی تھی اور اسے زراعت و باغبانی کے کام میں لاتے تھے ہم نے تندو تیز سیلاب کے ذریعے سے ان بندوں اور پشتوں کو توڑ ڈالا اور شاداب اور پھل دار باغوں کو ایسے باغوں سے بدل دیا جن میں صرف قدرتی جھاڑ جھنکاڑ ہوتے ہیں جن میں اول تو کوئی پھل لگتا ہی نہیں اور کسی میں لگتا بھی ہے تو سخت کڑوا کسیلا اور بدمزہ جنہیں کوئی کھا ہی نہیں سکتا البتہ کچھ بیری کے درخت تھے جن میں بھی کانٹے زیادہ اور بیر کم تھے۔ عرم، عرمۃ کی جمع ہے پشتہ یا بند یعنی ایسا زور کا پانی بھیجا جس نے اس بند میں شگاف ڈال دیا اور پانی شہر میں بھی آ گیا جس سے ان کے مکانات ڈوب گئے اور باغوں کو بھی اجاڑ کر ویران کر دیا یہ بند سد مارب کے نام سے مشہور ہے۔
۱۸۔(۱) برکت والی بستیوں سے مراد شام کی بستیاں ہیں یعنی ہم نے ملک سبا (یمن) اور شام کے درمیاں لب سڑک بستیاں آباد کی ہوئی تھیں بعض نے ظاھرۃ کے معنی متواصلۃ ایک دوسرے سے پیوست اور مسلسل کے لیے ہیں مفسریں نے ان بستیوں کی تعداد ٤ہزار سات سو بتلائی ہے یہ ان کی تجارتی شاہراہ تھی جو مسلسل آباد تھی جس کی وجہ سے ایک تو ان کے کھانے پینے اور آرام کرنے کے لیے زاد راہ ساتھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی دوسرے ویرانی کی وجہ سے لوٹ مار اور قتل وغارت کا جو اندیشہ ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا تھا
١٨۔ (۲) یعنی ایک آبادی سے دوسری آبادی کا فاصلہ متعین اور معلوم تھا، اور اس کے حساب سے وہ بہ آسانی اپنا سفر طے کر لیتے تھے۔ مثلاً صبح سفر کا آغاز کرتے تو دوپہر تک کسی آبادی اور قریے تک پہنچ جاتے۔ وہاں کھا پی کر قیلولہ کرتے اور پھر سر گرم سفر ہو جاتے تو رات کو کسی آبادی میں جا پہنچتے۔
۱۸۔ (۳) یہ ہر قسم کے خطرے سے محفوظ اور زاد راہ کی مشقت سے بے نیاز ہونے کا بیان ہے کہ رات اور دن کی جس گھڑی میں تم سفر کرنا چاہو کرو نہ جان مال کا کوئی اندیشہ نہ راستے کے لیے سامان سفر ساتھ لینے کی ضرورت۔
۱۹۔(۱) یعنی جس طرح لوگ سفر کی صعوبتوں، خطرات اور موسم کی شدتوں کا تذکرہ کرتے ہیں ہمارے سفر بھی اسی طرح دور دور کر دے مسلسل آبادیوں کے بجائے درمیان میں سنسان و ویران جنگلات اور صحراؤں سے ہمیں گزرنا پڑے گرمیوں میں دھوب کی شدت اور سردیوں میں بیخ بستہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں اور راستے میں بھوک اور پیاس اور موسم کی سختیوں سے بچنے کے لیے زاد راہ کا بھی انتظام کرنا پڑے ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے جیسے بنی اسرائیل نے من و سلویٰ اور دیگر سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعا تھی۔
١٩۔ (۲) یعنی انہیں اس طرح ناپید کیا کہ ان کی ہلاکت کا قصہ زبان زد خلائق ہو گیا۔ اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا۔
١٩۔ (۳) یعنی انہیں متفرق اور منتشر کر دیا، چنانچہ سبا میں آباد مشہور قبیلے مختلف جگہوں پر جا آباد ہوئے، کوئی یثرب و مکہ آگیا، کوئی شام کے علاقے میں چلا گیا کوئی کہیں اور کوئی کہی
۲۲۔(۱) یعنی معبود ہونے کا۔ یہاں زعمتم کے دو مفعول محذوف ہیں زعمتموہم الھۃ یعنی جن جن کو تم معبود گمان کرتے ہو۔
٢٢۔ (۲) یعنی انہیں نہ خیر پر کوئی اختیار ہے نہ شر پر، کسی کو فائدہ پہنچانے کی قدرت ہے، نہ نقصان سے بچانے کی، آسمان و زمین کا ذکر نہ عموم کے لئے ہے، کیونکہ تمام خارجی موجودات کے لئے یہی ظرف ہیں۔
٢٢۔ (۳) نہ پیدائش میں نہ ملکیت میں اور نہ تصرف میں۔
٢٢۔(۴) جو کسی معاملے میں بھی اللہ کی مدد کرتا ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی بلا شرکت غیرے تمام اختیارات کا مالک ہے اور کسی کے تعاون کے بغیر ہی سارے کام کرتا ہے۔
٢٣۔ 'جن کے لئے اجازت ہو جائے ' کا مطلب ہے انبیاء اور ملائکہ وغیرہ یعنی یہی سفارش کر سکیں گے، کوئی اور نہیں۔ اس لئے کہ کسی اور کی سفارش فائدے مند ہو گی، نہ انہیں اجازت ہی ہو گی۔ دوسرا مطلب ہے۔ مستحقین شفاعت۔ یعنی انبیاء علیہم السلام و ملائکہ اور صالحین صرف انہیں کے حق میں سفارش کر سکیں گے جو مستحقین شفاعت ہوں گے کیوں کہ اللہ کی طرف سے انہیں کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہو گی، کسی اور کے لئے نہیں (فتح القدیر) مطلب یہ ہوا کہ انبیاء علیہم السلام ملائکہ اور صالحین کے علاوہ وہاں کوئی سفارش نہیں کر سکے گا اور یہ حضرات بھی سفارش اہل ایمان گناہ گاروں کے لیے ہی کر سکیں گے کافر و مشرک اور اللہ کے باغیوں کے لیے نہیں قرآن کریم نے دوسرے مقام پر ان دونوں نکتوں کی وضاحت فرما دی ہے۔(من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ) (البقرہ) (اور ولایشفعون الالمن ارتضی) (الانبیاء)
٢٤۔ ظاہر بات ہے گمراہی پر وہی ہو گا جو ایسی چیزوں کو معبود سمجھتا ہے جن کا آسمان و زمین سے روزی پہنچانے میں کوئی حصہ نہیں ہے، نہ وہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ کچھ اگاہ سکتے ہیں۔ اس لئے حق پر یقین اہل توحید ہی ہیں، نہ کہ دونوں۔
٢٦۔ یعنی اس کے مطابق جزا دے گا، نیکوں کو جنت میں اور بدوں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔
٢٧۔ یعنی اس کا کوئی نظیر ہے نہ ہم سر، بلکہ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے ہر کام اور قول میں حکمت ہے۔
٢٨۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت عامہ کا بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پوری نسل انسانیت کا ہادی اور رہنما بنا کر بھیجا گیا ہے۔ دوسرا، یہ بیان فرمایا کہ اکثر لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خواہش اور کوشش کے باوجود ایمان سے محروم رہیں گے۔ ان دونوں باتوں کی وضاحت اور بھی دوسرے مقامات پر فرمائی ہے۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کے ضمن میں فرمایا، (قُلْ یَاَ یُّھَا النَّا سُ اِ نِّیْ رَسُوْ لُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ) (الْاَعراف ۔١٥٨) (تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَذَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰ عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا) (سورۃ الفرقان۔١) ایک حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ١۔ مہینے کی مسافت پر دشمن کے دل میں میری دھاک بٹھانے میں میری مدد فرمائی گئی ہے۔ ٢۔ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد اور پاک ہے، جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے، میری امت وہاں نماز ادا کر دے۔ ٣۔ مال غنیمت میرے لئے حلال کر دیا گیا، جو مجھ سے قبل کسی کے لئے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔ ٥۔ پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا ہے (صحیح بخاری صحیح مسلم، کتاب المساجد) احمر اسود سے مراد بعض نے جن و انس اور بعض نے عرب و عجم لیے ہیں امام ابن کثیر فرماتے ہیں دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ اسی طرح اکثر کی بے علمی اور گمراہی کی وضاحت فرمائی (وما اکثر الناس ولو حرصت بمؤمنین) (سورۃ یوسف) آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے (وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ) سورۃ الانعام) اگر آپ اہل زمین کی اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو گمراہ کر دیں گے جس کا مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے
٢٩۔ یہ بطور مذاق پوچھتے تھے، کیوں کہ اس کا وقوع ان کے نزدیک بعید اور ناممکن تھا۔
٣٠۔ یعنی اللہ نے قیامت کا دن مقرر کر رکھا ہے جس کا علم صرف اسی کو ہے، تاہم جب وہ وقت مقرر آ جائے گا تو ایک ساعت بھی آگے، پیچھے نہیں ہو گا (اِ نَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِ ذَا جَآءَ لَا یُئَوخَّرُ) (نوح۔(۴)
٣١۔ (۱) جیسے تورات، زبور اور انجیل وغیرہ۔
٣١۔ (۲) یعنی دنیا میں یہ کفر و شرک ایک دوسرے کے ساتھی اور اس ناطے سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تھے، لیکن آخرت میں یہ ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کو مورد الزام بنائیں گے۔
٣١۔ (۳) یعنی دنیا میں یہ لوگ، جو سوچے سمجھے بغیر، روش عام پر چلنے والے ہوتے ہیں اپنے ان لیڈروں سے کہیں گے جن کے وہ دنیا میں پیروکار بنے رہے تھے۔
٣١۔(۴) یعنی تم ہی نے ہمیں پیغمبروں کے پیچھے چلنے سے روکا تھا، اگر تم اس طرح نہ کرتے تو ہم یقیناً ایمان والے ہوتے۔
٣٢۔ یعنی ہمارے پاس کون سی طاقت تھی کہ ہم تمہیں ہدایت کے راستے سے روکتے، تم نے خود ہی اس پر غور نہیں کیا اور اپنی خواہشات کی وجہ سے ہی اسے قبول کرنے سے گریزاں رہے، اور آج مجرم ہمیں بنا رہے ہو؟ حالانکہ سب کچھ تم نے خود ہی اپنی مرضی سے کیا، اس لئے مجرم بھی تم خود ہی ہو نہ کہ ہم۔
۳۳۔(۱) یعنی ہم مجرم تو تب ہوتے جب ہم اپنی مرضی سے پیغمبروں کی تکذیب کرتے، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ تم دن رات ہمیں گمراہ کرنے پر اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کا شریک ٹھہرانے پر آمادہ کرتے رہے جس سے بالآخر ہم تمہارے پیچھے لگ کر ایمان سے محروم رہے۔
۳۳۔ (۲) یعنی ایک دوسرے پر الزام تراشی تو کریں گے لیکن دل میں دونوں ہی فریق اپنے اپنے کفر پر شرمندہ ہوں گے لیکن شماتت اعدا کی وجہ سے ظاہر کرنے سے گریز کریں گے۔
٣٣۔ (۳) یعنی ایسی زنجیریں جو ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھیں گے۔
۳۳۔(۴)یعنی دونوں کو ان کے عملوں کی سزا ملے گی، لیڈروں کو ان کے مطابق اور ان کے پیچھے چلنے والوں کو ان کے مطابق جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (لکل ضعف ولکن۔ الخ) یعنی ہر ایک کو دگنا عذاب ہو گا۔
۳٤۔یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مکے کے رؤسا اور چودھری آپ پر ایمان نہیں لا رہے اور آپ کو ایذائیں پہنچا رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہر دور کے اکثر خوش حال لوگوں نے پیغمبروں کی تکذیب ہی کی ہے اور ہر پیغمبر پر ایمان لانے والے پہلے پہل معاشرے کے غریب اور نادار قسم کے لوگ ہی ہوتے تھے جیسے نوح کی قوم نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں گے جب کہ تیرے پیروکار کمینے لوگ ہیں۔ دوسرے پیغمبروں کو بھی ان کی قوموں نے یہی کہا۔
٣٥۔ یعنی جب اللہ نے ہمیں دنیا میں مال و اولاد کی کثرت سے نوازا ہے، تو قیامت بھی اگر برپا ہوئی تو ہمیں عذاب نہیں ہو گا۔ گویا انہوں نے دار الآخرت کو بھی دنیا پر قیاس کیا کہ جس طرح دنیا میں کافر و مومن سب کو اللہ کی نعمتیں مل رہی ہیں، آخرت میں بھی اسی طرح ہو گا، حالانکہ آخرت تو دار الجزا ہے، وہاں تو دنیا میں کئے گئے عملوں کی جزا ملنی ہے اچھے عملوں کی جزا اچھی اور برے عملوں کی بری۔ جب کہ دنیا دار الامتحان ہے، یہاں اللہ تعالیٰ بطور آزمائش سب کو دنیاوی نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے انہوں نے دنیاوی مال و اسباب کی فراوانی کو رضائے الٰہی کا مظہر سمجھا، حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار بندوں کو سب سے زیادہ مال و اولاد سے نوازتا۔
٣٦۔ اس میں کفار کے مذکورہ مغالطے کا ازالہ کیا جا رہا ہے کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ کی رضا یا عدم کی مظہر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اللہ کی حکمت و مشیت سے ہے۔ اس لئے وہ مال اس کو بھی دیتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے اور اس کو بھی جس کو ناپسند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے غنی کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے فقیر رکھتا ہے۔
٣٧۔ (۱) یعنی یہ مال اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہمیں تم سے محبت ہے اور ہماری بارگاہ میں تمہیں خاص مقام حاصل ہے۔
٣٧۔ (۲) یعنی ہماری محبت اور قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تو صرف ایمان اور عمل صالح ہے جس طرح حدیث میں فرمایا ' اللہ تعالیٰ تمہاری شکلیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا، وہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے (صحیح مسلم)
٣٧۔ (۳) بلکہ کئی کئی گنا، ایک نیکی کا اجر کم از کم دس گنا مزید سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک۔
٣٩۔ (۱) پس وہ کبھی کافر کو بھی خوب مال دیتا ہے، لیکن کس لئے ؟ خلاف معمول کے طور پر، اور کبھی مومن کو تنگ دست رکھتا ہے، کس لئے ؟ اس کے اجر و ثواب میں اضافے کے لئے۔ اس لئے مال کی فراوانی اس کی رضا کی اور اس کی کمی، اس کی ناراضگی کی دلیل نہیں ہے۔ یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔
۳۹۔ (۲) اخلاف کے معنی ہیں، عوض اور بدلہ دینا، یہ بدلہ دنیا میں بھی ممکن ہے اور آخرت میں تو یقینی ہے حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انفق انفق علیک۔ تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔
۳۹۔ (۳) کیونکہ ایک بندہ اگر کسی کو دیتا ہے تو اس کا یہ دینا اللہ کی توفیق و تیسر اور اس کی تقدیر سے ہی ہے حقیقت میں دینے والا اس کا رازق نہیں ہے جس طرح بچوں کا باپ بچوں کا یا بادشاہ اپنے لشکر کا کفیل کہلاتا ہے حالانکہ امیر اور مامور بچے اور بڑے سب کا رازق حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب کا خالق ہے اس لیے جو شخص اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے کسی کو کچھ دیتا ہے تو وہ ایسے مال میں تصرف کرتا ہے جو اللہ ہی نے اسے دیا ہے۔
٤٠۔ یہ مشرکوں کو ذلیل و خوار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بھی پوچھے گا ' کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں (مریم) کو، اللہ کے سوا، معبود بنا لینا؟ ' (المائدہ۔١١٦) حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے ' یا اللہ تو پاک ہے، جس کا مجھے حق نہیں تھا، وہ بات میں کیوں کر کہہ سکتا تھا؟ ' اسی طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں سے بھی پوچھے گا جیسا کہ سورۃ الفرقان (آیت۔١٧) میں بھی گزرا۔ کہ کیا یہ تمہارے کہنے پر تمہاری عبادت کرتے تھے ؟
٤١۔ یعنی فرشتے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کر کے اظہار صفائی کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تو تیرے بندے ہیں اور تو ہمارا ولی ہے۔ ہمارا ان سے کیا تعلق؟
٤۲۔(۱) یعنی دنیا میں تم یہ سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے کہ یہ تمہیں فائدہ پہنچائیں گے، تمہاری سفارش کریں گے اور اللہ کے عذاب سے تمہیں نجات دلوائیں گے جیسے آج بھی پیر پرستوں اور قبر پرستوں کا حال ہے لیکن آج دیکھ لو کہ یہ لوگ کسی بات پر قادر نہیں۔
٤٢۔ (۲) ظالموں سے مراد، غیر اللہ کے پجاری ہیں،۔ کیوں کہ شرک ظلم عظیم ہے اور مشرکین سب سے بڑے ظالم۔
٤٣۔ (۱) شخص سے مراد، حضرت نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، باپ دادا کا دین، ان کے نزدیک صحیح تھا، اس لئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ' جرم ' یہ بیان کیا کہ یہ تمہیں ان معبودوں سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے آبا عبادت کرتے رہے۔
٤٣۔ (۲) اس دوسرے ھٰذَا سے مراد قرآن کریم ہے، اسے انہوں نے تراشا ہوا بہتان یا گھڑا ہوا جھوٹ قرار دیا۔
٣٤۔ (۳) قرآن کو پہلے گھڑا ہوا جھوٹ کہا اور یہاں کھلا جادو۔ پہلے کا تعلق قرآن کے مفہوم و مطالب سے ہے اور دوسرے کا تعلق قرآن کے معجزانہ نظم و اسلوب اور اعجاز و بلاغت سے۔
٤٤۔اس لیے وہ آرزو کرتے تھے کہ ان کے پاس بھی کوئی پیغمبر آئے اور کوئی صحیفہ آسمانی نازل ہو لیکن جب یہ چیزیں آئیں تو انکار کر دیا۔
٤٥۔ یہ کفار مکہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم نے جھٹلایا اور انکار کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ نہایت خطرناک ہے تم سے پچھلی امتیں بھی اسی راستے پر چل کر تباہ ہو چکی ہیں۔ یہ امتیں مال و دولت، قوت و طاقت اور عمروں کے لحاظ سے تم سے بڑھ کر تھیں، تم ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچتے لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں، اسی مضمون کو سورہ احقاف کی آیت میں بیان فرمایا۔
٤٦۔ (۱) یعنی میں تمہیں تمہارے موجودہ طرز عمل سے ڈراتا اور ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم ضد، اور انانیت چھوڑ کر صرف اللہ کے لئے ایک ایک دو دو ہو کر میری بابت سوچو کہ میری زندگی تمہارے اندر گزری ہے اور اب بھی جو دعوت میں تمہیں دے رہا ہوں کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ جس سے اس بات کی نشان دہی ہو کہ میرے اندر دیوانگی ہے ؟ تم اگر عصبیت اور خواہش نفس سے بالا ہو کر سوچو گے تو یقیناً سمجھ جاؤ گے کہ تمہارے رفیق کے اندر کوئی دیوانگی نہیں ہے۔
٤٦۔ (۲) یعنی وہ تو صرف تمہاری ہدایت کے لئے آیا ہے تاکہ تم اس عذاب شدید سے بچ جاؤ جو ہدایت کا راستہ نہ اپنانے کی وجہ سے تمہیں بھگتنا پڑے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ کر فرمایا ' یا صباحاہ ' جسے سن کر قریش جمع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' بتاؤ، اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن صبح یا شام کو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے، تو کیا میری تصدیق کرو گے، انہوں نے کہا، کیوں نہیں ' آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' تو پھر سن لو کہ میں تمہیں سخت عذاب آنے سے پہلے ڈراتا ہوں۔ ' یہ سن کہ ابو لہب نے کہا ' تَبَّالکَ! اَلِھٰذا جَمَعْتَنَا ' تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا اس لئے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ْ جس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ نازل فرمائی (صحیح بخاری)
٤٧۔ اس میں اپنی بے غرضی اور دنیا کے مال و متاع بے رغبتی کا مزید اظہار فرما دیا تاکہ ان کے دلوں میں اگر یہ شک و شبہ پیدا ہو کہ اس دعوی نبوت سے اس کا مقصد کہیں دنیا کمانا تو نہیں، تو وہ دور ہو جائے۔
٤۸۔۱قذف کے معنی تیر اندازی اور خشت باری کے بھی ہیں اور کلام کرنے کے بھی، یہاں اس کے دوسرے معنی ہیں یعنی وہ حق کے ساتھ گفتگو فرماتا، اور اپنے رسولوں پر وحی نازل فرماتا اور ان کے ذریعے سے لوگوں کے لیے حق واضح فرماتا ہے۔
٤٩۔ حق سے مراد قرآن اور باطل سے مراد کفر و شرک ہے۔ مطلب ہے اللہ کی طرف سے اللہ کا دین اور اس کا قرآن آگیا ہے۔ جس سے باطل ختم ہو گیا ہے، اب وہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔
٥٠۔ (۱) یعنی بھلائی سب اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جو وحی اور حق مبین نازل فرمایا، اس میں رشدو ہدایت ہے، صحیح راستہ لوگوں کو اس سے ملتا ہے۔ پس جو گمراہ ہوتا ہے، تو اس میں انسان کی اپنی ہی کوتاہی اور ہوائے نفس کا دخل ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا وبال بھی اسی پر ہو گا
٥٠۔ (۲) جس طرح حدیث میں فرمایا ' تم بہری اور غائب ذات کو نہیں پکار رہے ہو ' بلکہ اس کو پکار رہے ہو جو سننے والا، قریب اور قبول کرنے والا ہے۔
٥١۔ فَلَافَوْتَ کہیں بھاگ نہیں سکیں گے ؟ کیونکہ وہ اللہ کی گرفت میں ہوں گے، یہ میدان محشر کا بیان ہے۔
٥٢۔ تَنَاوُش،ُ کے معنی تناول یعنی پکڑنے کے ہیں یعنی اب آخرت میں انہیں ایمان کس طرح حاصل ہو سکتا ہے جب کہ دنیا میں اس سے گریز کرتے رہے گویا آخرت میں انہیں ایمان کے لئے، دنیا کے مقابلے میں دور کی جگہ ہے، جس طرح دور سے کسی چیز کو پکڑنا ممکن نہیں، آخرت میں ایمان لانے کی گنجائش نہیں۔
٥٣۔ یعنی اپنے گمان سے کہتے رہے کہ قیامت اور حساب کتاب نہیں۔ یا قرآن کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادو، گھڑا ہوا جھوٹ اور پہلوں کی کہانیاں ہیں یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادوگر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے مجنون ہے۔ جب کہ کسی بات کی بھی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔
٥٤۔ (۱) یعنی آخرت میں وہ چاہیں گے کہ ان کا ایمان قبول کر لیا جائے، عذاب سے ان کی نجات ہو جائے، لیکن ان کے درمیان اور ان کی اس خواہش کے درمیاں پردہ حائل کر دیا گیا یعنی اس خواہش کو رد کر دیا گیا۔
٥٤۔ (۲) یعنی پچھلی امتوں کا ایمان بھی اس وقت قبول نہیں کیا گیا جب وہ عذاب کے آنے کے بعد ایمان لائیں۔
۵٤۔اس لیے اب معائنہ عذاب کے بعد ان کا ایمان بھی کسی طرح قبول ہو سکتا ہے ؟حضرت قتادہ فرماتے ہیں ریب و شک سے بچو، جو شک کی حالت میں فوت ہو گا اسی حالت میں اٹھے گا اور جو یقین پر مرے گا، قیامت والے دن یقین پر ہی اٹھے گا۔