دعوۃ القرآن

سورة سَبَإ

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آیت۔۱۵ میں قوم سبا کا ذکر ہوا ہے اور اس مناسبت سے اس سورہ کا نام سبا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

کائنات میں اللہ ہی کی ذات ہے جو خوبیوں اور کمالات سے متصف ہے اس لیے شکر اور تعریف کا مستحق وہی ہے اور اللہ کے شکر کی واحد صورت یہ ہے کہ توحید اور آخرت پر ایمان لایا جائے۔

 

ربطِ کلام

 

آیت ۱، تا ۹ تمہیدی آیات ہیں جن میں شبہات کو دور کرتے ہوئے اللہ کی ایسی معرفت بخشی گئی ہے جس سے توحید اور آخرت کا یقین پیدا ہو جاتا ہے۔

 

آیت ۱۰، تا ۱۳ میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان پر اللہ کی نوازشوں اور ان کی شکر گزاری کو ایک تاریخی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آیت ۱۴ تا ۲۱ میں عبرت کے لیے قوم سبا کی ناشکری اور اس کے انجام کو پیش کیا گیا ہے۔

 

آیت ۲۲ تا ۲۷ میں شرک کی تردید ہے۔

 

آیت ۲۸ تا ۴۵ میں مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے آخرت کے بعض حقائق ان کے سامنے پیش کئے گئے ہیں۔

 

آیت ۴۶ تا ۵۴ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں غور کر کے فیصلہ کرنے کی دعوت بھی دی گئی ہے اور اس بات سے خبر دار بھی کر دیا گیا ہے کہ اگر وقت نکل گیا تو پھر ہمیشہ کے لیے پچھتاتے رہیں گے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔حمد ۱ * اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کا مالک ہے اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے ۲ * وہ حکمت والا اور باخبر ہے ۳ *۔

 

۲۔۔۔۔۔۔ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے ۴ * اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے ۵ * وہ رحم فرمانے والا بخشنے والا ہے ۶ *۔

 

۳۔۔۔۔۔۔ انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی ۷ * کہو کیسے نہیں آئے گی ؟ میرے رب عالم الغیب کی قسم۔ وہ تم پر آ کر رہے گی ۸ * اس سے ذرہ برار کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے اور نہ زمین میں۔ نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ وہ ایک واضح کتاب میں درج ہے ۹ *

 

۴۔۔۔۔۔۔ قیامت اس لیے آئے گی  تاکہ وہ صلہ دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ ان کے لیے مغفرت اور با عزت رزق ہے۔۱۰ *

 

۵۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ ہماری آیات کو بے اثر کرنے کے لیے سرگرم ہیں ۱۱ * ان کے لیے بدترین قسم کا درد ناک عذاب ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔اور جن کو علم عطا ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ بالکل حق ہے ۱۲ * اور اس (ذات)  کا راستہ دکھاتا ہے جو غالب اور خوبیوں والا ہے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔جن لوگوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہیں ایسا شخص بتائیں جو تم کو یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم بالکل ریزہ ریزہ ہو چکے ہو گے اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کئے جاؤ گے ۱۳ *

 

۸۔۔۔۔۔۔"اس نے اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑا ہے یا اس کو جنون ہو گیا ہے ؟" ۱۴ * نہیں بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہی عذاب اور ور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۵ *

 

۹۔۔۔۔۔۔کیسا انہوں نے اپنے آگے اور پیچھے آسمان و زمین کو نہیں دیکھا۔ ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا آسمان کے کچھ ٹکڑے ان پر گرا دیں ۱۶ *۔ بلاشبہ اس میں بہت بڑی نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو رجوع ہونے والا ہو۔۱۷ *

 

۱۰۔۔۔۔۔۔ ہم نے داؤد کو اپنے پاس سے فضل عطا کیا تھا ۱۸ *۔ اے پہاڑو، تم بھی اس کے ساتھ تسبیح میں ہم نوا ہو جاؤ اور یہی حکم ہم نے پرندوں کو دیا تھا ۱۹ * اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کر دیا تھا۔۲۰ *

 

۱۱۔۔۔۔۔۔ کہ مکمل ر ہیں بناؤ اور ان کے حلقے ٹھیک اندازے سے رکھو ۲۱ * اور تم سب نیک عمل کرو ۲۲ * جو کچھ تم لوگ کرتے ہو اس کو میں دیکھ رہا ہوں۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے سلیمان کے لیے ہوا کومسخر کر دیا۔ اس کا صبح کے وقت چلنا بھی مہینہ بھر (کی مسافت)  کا ہوتا اور اس کا شام کے وقت چلنا بھی مہینہ بھر (کی مسافت)  کا ہوتا ۲۳ * اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا ۲۴ * اور ایسے جن اس کے لیے مسخر کر دیئے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے ۲۵ * ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا ہم اس کو بھڑتی آگ کا مزا چکھاتے ۲۶ *۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، عمارتیں ۲۷ * تصویریں ۲۸ * لگن ایسے جیسے بڑے بڑے حوض اور اپنی جگہ جمی رہنے والی بھاری دیگیں ۲۹ * اے آلِ داؤد عمل کرو شکر کے ساتھ ۳۰ * اور میرے بندوں میں شکر گزار کم ہی ہیں ۳۱ *

 

۱۴۔۔۔۔۔۔ پھر جب ہم نے اس کی موت کا حکم نافذ کیا تو ان کو اس کی موت سے آگاہ کرنے والی چیز صرف زمین کا کیڑا تھا جواس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ جب سلیمان گر پڑا تو جنوں پر یہ بات واضح ہوئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت کی مصیبت میں پڑے نہ رہتے۔۳۲ *

 

۱۵۔۔۔۔۔۔ سبا۳۳ * کے لیے ان کے مسکن ہی میں ایک بڑی نشانی موجود تھی ۳۴ *۔ دو باغ دائیں اور بائیں جانب ۳۵ * کھاؤ اپنے رب کا بخشا ہوا رزق اور شکر کرو اس کا۔ اچھی سرزمین اور بخشنے والا رب ۳۶ *۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے منہ موڑا ۳۷ * تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیج دیا ۳۸ *اور ان کے باغوں کو دو ایسے باغوں میں بدل دیا جن میں بد مزہ پھل، جھاؤ اور قدرے قلیل بیریاں تھیں ۳۹ *

 

۱۷۔۔۔۔۔۔ یہ تھا ان کی ناشکری کا بدلہ جو ہم نے ان کو دیا ۴۰ * اور ایسا بدلہ ہم ناشکرے لوگوں ہی کو دیا کرتے ہیں۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں کھلی بستیاں بھی آباد کی تھیں اور انکے درمیان سفر کی منزلیں بھی مقرر کر دی تھیں ۴۱ * سفر کرو ان میں رات دن امن کے ساتھ ۴۲ *

 

۱۹۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے کہا اے ہمارے رب ۴۳ * ہمارے سفر کی مسافتوں میں دوری پیدا کر دے ۴۴ * اور انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ۴۵ * کیا تو ہم نے ان کو افسانہ بنا کر رکھ دیا ۴۶ * اور ان کو بالکل تتر بتر کر د ڈالا ۴۷ * یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر کرنے والا شکر کرنے والا ہو ۴۸ *

 

۲۰۔۔۔۔۔۔ اور ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایا ۴۹ *۔ چنانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی بجز ایک گروہ کے جو مومن تھا ۵۰ *

 

۲۱۔۔۔۔۔۔ س کا ان پر کوئی  زور نہ تھا ۵۱ * مگر ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس کے بارے میں شک میں پڑا ہوا ہے ۵۲ *۔ اور تمہارا رب ہر چیز پر نگراں ہے۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔ کہو ۵۳ * پکار ان کو جن کو تم نے اللہ کے سوا معبود گمان کر رکھا ہے۔ وہ نہ آسمانوں میں ذرا برابر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں ۵۴*  اور نہ ان دونوں میں ان کا کوئی ساجھا ہے ۵۵ * اور نہ ہی ان میں سے کوئی اس کا مدد گار ہے۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔ اس کے حضور کوئی شفاعت کام نہیں آسکتی مگر جن کے لیے وہ اجازت دے ۵۶ * یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو گی تو وہ پوچھیں گے تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ ۵۷ * وہ کہیں گے بالکل حق فرمایا ہے ۵۸ *اور وہ بلند و برتر ہے ۵۹ *۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔ ان سے پوچھو کون تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کہو اللہ اور ہم اور تم دونوں میں سے ایک ہدایت پر ے اور دوسرا کھلی گمراہی میں ۶۰ *

 

۲۵۔۔۔۔۔۔ کہو تم سے ہمارے جرم کی باز پرس نہ ہو گی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا۔۶۱ *

 

۲۶۔۔۔۔۔۔کہو ہمارا رب ہم سب کو جمع کرے گا۶۲ * پھر ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا ۶۳ * اور وہی فیصلہ کرنے والا علم والا ہے

 

۲۷۔۔۔۔۔۔ کہو ذرا مجھے دکھاؤ تو وہ کون ہیں جن کو تم نے اس کے ساتھ شریک جوڑ رکھا ہے ۶۴ * ہر گز نہیں۔ غلبہ والا اور حکمت والا تو اللہ ہی ۶۵ * ہے۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔ اور (اے نبی!)  ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبر دار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۶۶ *

 

۲۹۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ تم سے کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہو گا اگر تم سچے ہو؟۶۷ *

 

۳۰۔۔۔۔۔۔ کہو تمہارے لیے ایک ایسے دن کی میعاد مقرر ہے جس سے تم ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکت ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو ۶۸ *

 

۳۱۔۔۔۔۔۔کافر کہتے ہیں ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اس سے پہلے کی کسی کتاب پر ۶۹ * اور اگر تم (ان کی اس حالت کو)  دیکھ لیتے جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے کر دیئے جائیں گے ! ۷۰ * وہ ایک دوسرے کو ملامت کریں گے۔ جو لوگ کمزور تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بن کر رہے تھے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوتے ۷۱ *

 

۳۲۔۔۔۔۔۔ بڑے بن کر رہنے والے ان کمزور لوگوں کو جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تم کو ہدایت سے روکا تھا جب کہ وہ تمہارے پاس آ چکی تھی؟ نہیں بلکہ تم خود مجرم تھے۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔ کمزور لوگ بڑے بن کر  رہنے والوں سے کہیں گے نہیں بلکہ تمہاری رات دن کی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ اللہ سے کفر کریں اور اس کے ہمسر ٹھہرائیں اور جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل میں پشیمان ہوں گے اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے۔ وہ بدلہ میں وہی پائیں گے جو وہ کرتے رہے ہیں ۷۲ *

 

۳۴۔۔۔۔۔۔ ہم نے جس بستی میں بھی کوئی خبردار کرنے والا بھیجا تو اس کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ جو پیغام دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اس کے منکر (انکار کرنے والے)  ہیں ۷۳ *

 

۳۵۔۔۔۔۔۔ اور انہوں نے کہا ہم تم سے زیادہ مال اور اولاد رکھتے ہیں اور ہم کو ہر گز عذاب نہیں دیا جائے گا۔ ۷۴ *

 

۳۶۔۔۔۔۔۔ کہو میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ۷۵ *

 

۳۷۔۔۔۔۔۔ تمہارے مال اور تمہاری اولاد وہ چیز نہیں ہے جو تمہیں ہمارا مقرب بناتی ہو ۷۶ * البتہ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیا ۷۷ * تو ان کے لیے ان کے اعمال کی دوہری جزا ہے اور وہ (جنت کے)  بالا خانوں میں چین سے رہیں گے۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ ہماری آیتوں کو بے اثر کرنے کے لیے دوڑ دوپ کرتے ہیں وہ عذاب میں گرفتار کر لئے جائیں گے ۷۸ *

 

۳۹۔۔۔۔۔۔ کہو میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ۷۹ * اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہ تم کو اور دیتا ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ ۸۰ *

 

۴۰۔۔۔۔۔۔اور وہ دن کہ ان سب کو وہ جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے ؟ ۸۱ *

 

۴۱۔۔۔۔۔۔ وہ عرض کریں گے۔ پاک ہے تو۔ ہمارا دوست تو ہے نہ کہ یہ لوگ ۸۲ * دراصل یہ جنوں کی عبادت کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر ان ہی پر اعتقاد رکھتے تھے۔ ۸۳  *

 

۴۲۔۔۔۔۔۔ تو آج کے دن تم میں سے کوئی ایک دوسرے کو نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان  ۸۴ * اور ظالموں ۸۵ * سے ہم کہیں گے چکھو اب آگ کے عذاب کا مزہ جس کو تم جھٹلاتے تھے۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کو جب ہماری روشن آیتیں سنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ تو بس ایک آدمی ہے ۸۶ * جو چاہتا ہے کہ تم کو ان چیزوں سے روک دے جن کی پرستش تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ (قرآن)  محض من گھڑت جھوٹ ہے اور ان کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہ۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو کتابیں نہیں دی تھیں جن کو وہ پڑھتے ہوں اور نہ تم سے پہلے ان کی طرف کوئی خبردار کرنے والا بھیجا تھا۔ ۸۷*

 

۴۵۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا اس کے عشر عشیر کو بھی یہ نہیں پہنے ۸۸ * انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو دیکھو کیسی رہی میری سزا! ۸۹ *

 

۴۶۔۔۔۔۔۔ کہو میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ اللہ کے لیے تم دو دو مل کر اٹھو اور اکیلے اکیلے بھی اور سوچو ۹۰ * تمہارے ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے ۹۱ * وہ تو ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں خبر دار کرنے والا ہے۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔ کہو اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تمہارے ہی لیے ہے ۹۲ * میرا اجر تو اللہ ہی کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔ کہو میرا رب حق کا القا کرتا ہے وہ غیب کی تمام باتوں کا جاننے والا ہے ۹۳ *

 

۴۹۔۔۔۔۔۔کہو حق آگیا اور باطل نہ پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے اور نہ دوسری مرتبہ پیدا کرے گا؟ ۹۴ *

 

۵۰۔۔۔۔۔۔ کہو اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہے ۹۵ * اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو یہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرا رب میری طرف نازل کرتا ہے ۹۶ * وہ سب کچھ سننے ولا اور نہایت قریب ہے ۹۷ *

 

۵۱۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم انہیں دیکھ لیتے جب یہ گھبرائے  ہوئے ہوں گے اور بھاگ نہ سکیں گے اور قریب ہی سے پکڑ لئے جائیں گے ۹۸ *

 

۵۲۔۔۔۔۔۔ (اس وقت)  یہ کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لائے ۹۹ * اور اتنی دور سے یہ اس کو کہاں پا سکتے ہیں ! ۱۰۰ *

 

۵۳۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے انہوں نے اس کا انکار کیا تھا اور دور سے اٹکل کے تیر چلاتے رہے ۱۰۱ *

 

۵۴۔۔۔۔۔۔ (اس روز)  ان کے اور ان کی (اس)  خواہش کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی جائے گی جس طرح ان کے پیشرو ہم مشربوں کے ساتھ معاملہ کیا جا چکا ہو گا۔ ۱۰۲ * وہ بھی ایسے شک میں پڑے ہوئے تھے جس نے ان کو الجھن میں ڈال دیا تھا ۱۰۳ *

تفسیر

 ا۔۔۔۔۔۔ حمد کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فاتحہ نوٹ ۲۔

 

۲۔۔۔۔۔۔ آخرت میں اللہ کی کرشمہ سازیوں اور اس کے کمالات کا اس سے کہیں زیادہ ظہور ہو گا جو دنیا میں ہو رہا ہے اس لیے وہاں بھی وہی مستحق تعریف ہو گا، اس کے گن گائے جائیں گے ، اہل ایمان انعام سے نوازے جانے پر اسی کا شکر ادا کریں گے اور جنت میں اسی کی حمد کی صدائیں سنائیں دیں گی۔

 

۳۔۔۔۔۔۔ یعنی اس نے دنیا اور آخرت کے لیے جو منصوبہ بھی بنایا ہے وہ کمالِ حکمت اور کمال علم پر مبنی ہے۔ اس کا کوئی کام بھی علم و حکمت سے خالی نہیں اس لیے وہ اپنے تمام کاموں پر ستائش کا مستحق ہے۔ اگر اس کے کسی کام کی حکمت انسان کی سمجھ میں نہیں آتی تو یہ اس کے فلم کا قصور ہے یا اس بنا پر ہے کہ اس کے عقل کی رسائی اپنی محدودیت کی بنا پر اس کی حکمت تک نہیں ہو سکتی۔

 

۴۔۔۔۔۔۔ زمین میں جو چیز بھی داخل ہوتی ہے وہ بظاہر غائب ہو جاتی ہے لیکن اللہ کے علم میں وہ موجود ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پانی کے زمین میں جذب ہونے کے بعد زمین سے کونپلیں نکلنا شروع ہوتی ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو پانی زمین کے اندر چلا گیا تھا وہ اللہ کے علم میں تھا اور اس نے اس پانی کے ذریعہ زمین سے نباتات نکالیں۔ اسی طرح انسان بھی مرنے کے بعد زمین کے اندر چلا جاتا ہے لیکن اس کے تمام اجزاء اللہ کے علم میں ہوتے ہیں اس لیے قیامت کے دن اس کا مردوں کو ان کے جسموں کے ساتھ زمین سے نکال لینا اور انہیں دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔

 

۵۔۔۔۔۔۔ آسمان سے پانی بھی برستا ہے ، شعاعیں بھی زمین پر گرتی ہیں اور بجلی وغیرہ بھی۔ اسی طرح بخارات سمندر سے اٹھتے ہیں اور فضا میں پہنچ کر قطروں کی شکل میں برتے ہیں۔یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ بخارات اللہ کے علم میں تھے اور اس نے ان کو بارش کی شکل میں برسایا۔ فرشتے بھی آسمان سے اترتے ہیں اور اس میں چڑھتے ہیں۔ اسی طرح نیک لوگوں کی روحیں آسمان کی طرف پرواز کرتی ہیں۔

 

۶۔۔۔۔۔۔ ان آیتوں میں اللہ کی معرفت عطا کرتے ہوئے اس کے رحیم اور غفور ہونے کی صفتیں بیان کی گئی ہیں یہ گویا دعوت ہے بندوں کو اس بات کی کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی طرف لپکیں۔

 

۷۔۔۔۔۔۔ آج بھی قیامت کا انکار کرنے والوں کی کمی نہیں مگر ان کے پاس ا سکی کوئی دلیل نہیں ہے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔ جو لوگ قیامت کا انکار کر رہے تھے ان کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی کہ ان کے دعوے کی تردید اپنے رب عالم الغیب کی قسم کھا کر پورے یقین اور پورے زور کے ساتھ کریں کیونکہ قیامت ایک اٹل حقیقت ہے اور اس کا علم وحی الٰہی نے یقین کی حد تک بخشا ہے۔

 

قرآن کے اس بیان کے پیش نظر موجودہ دور کے منکرین کے سامنے بھی قیامت کی خبر کو پورے وثوق کے ساتھ زور دار طریقہ پر پیش کرنا اسلام کی طرف دعوت دینے والوں کی ذمہ داری ہے۔

 

عالم الغیب کی صفت کے ساتھ قسم کھانے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ قیامت کا تعلق غیب سے ہے اور میرا رب ہی غیب کو جانتا ہے اس لیے اس کی دی ہوئی خبر یقیناً صحیح ہے منکرین نے تو غیب میں جھانک کر دیکھا نہیں پھر وہ کس بنا پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قیامت کبھی آئے گی ہی نہیں ؟

 

۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر چیز کا ریکارڈ واضح طور سے اللہ کے پاس موجود ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کا مثبت پہلو ہے کہ مومنین صالحین کو اچھا صلہ دیا جائے ان کے قصور معاف کر دیئے جائیں اور انہیں ایسا نفیس رزق دیا جائے جو ان کے لیے باعثِ عزت ہو۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔ اللہ کی آیات کو بے اثر کرنے کے لیے سرگرم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کے ارشادات کی مخالفت کے لیے کھڑا ہو جائے مثلاً اللہ کے وجود یا اس کی وحدانیت اور آخرت اور رسالت کو غلط قرار دینے کے لیے پورا زور لگائے تاکہ ان عقائد کو لوگ قبول نہ کریں۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔ علم سے مراد وہ علم ہے جو اللہ کی صحیح معرفت عطا کرتا اور اس کی راہ روشن کرتا ہے۔ یہ علم آدمی کو ایک حد تک اپنی فطرت اور عقل سلیم سے حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ نزول قرآن سے پہلے مشرکین مکہ کے درمیان ایسے لوگ موجود تھے جو خدائے واحد ہی کی عبادت کرتے تھے اور ان کا مذہب حنیفیت (اللہ ہی کا ہو کر رہنا)  تھا۔ لیکن علم کی پوری پوری روشنی وحی الٰہی کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے۔

 

جو لوگ جہالت میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ علم کی روشنی میں خدا، مذہب اور آخرت کے مسئلہ پر غور کرتے ہیں ان کو قرآن کی صداقت و حقانیت کا یقین ہو جاتا ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔ یہ جہالت کی تاریکی میں بھٹکنے والوں کی احمقانہ حرکتیں ہیں کہ وہ پیغمبر کا اور اس کی اس بات کا کہ وہ دوبارہ زندہ کئے جانے کی خبر دے رہا ہے مذاق اڑاتے ہیں۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔ پیغمبر کے بارے میں منکرین کا یہ کہنا کہ اس شخص نے جھوٹ گھڑا ہے یا اسے جنون ہو گیا ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ محض شک اور وہم کی بناء پر یہ باتیں کہتے تھے۔ اگر ان کو یقین ہوتا تو کوئی ایک بات کہتے۔ دو مختلف باتیں نہ کہتے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔ منکرین کی یہ باتیں سورج سے آنکھیں بند کر کے اس کا انکار کرنے کے مترادف تھیں اس لیے ان کا جواب دینے کے بجائے ان کے اصل جرم کی نشاندہی کی گئی کہ وہ آخرت کو ماننا ہی نہیں چاہتے اس لیے پیغمبر کے بارے میں ایسی بے تکی باتیں کہتے ہیں مگر انکار آخرت کا رویہ اختیار کر کے وہ عذاب کی گرفت میں آ گئے ہیں اور گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان و زمین کو رات دن اپنے آگے پیچھے دیکھتے رہتے ہیں لیکن کبھی اس بات پر غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے کہ ان کا خالق اگر چاہے تو اس زمین میں ان کو دھنسا بھی سکتا ہے اور اگر چاہے تو آسمان کے ٹکڑے بھی ان پر گراسکتا ہے گر وہ اس طرح سوچتے تو ان کے اندر خدا خوفی پیدا ہوتی ہے۔ پھر نہ وہ آخرت کا انکار کرتے اور نہ مجرم بن کر رہتے۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔ یعنی زمینو آسمان کی عظمت میں الہ کی قہاریت کی بہت بڑی نشانی موجود ہے ، وہ چاہے تو بہت بڑا قہر نازل کر سکتا ہے مگر اس نشانی کی طرف اللہ کے وہی بندے متوجہ ہوتے ہیں جو اس کی طرف رجوع ہونے والے ہوں

 

"منیب" وہ جو دل سے اللہ کی طرف رجوع ہو۔ انابت کی یہ کیفیت ہدایت کی راہ کھول دیتی ہے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔ یعنی داؤد کو اللہ نے اپنے خاص فضل سے نوازا تھا۔ اس فضل کی کھ تفصیل آگے بیان ہوئی ہے جس سے واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ تعریف اور شکر کے لائق اللہ ہی کی ذات ہے جو اپنے خاص بندوں (انبیاء کو غیر معمولی فضل سے نوازتا رہا ہے۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ انبیاء نوٹ ۱۰۶۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔ حضرت داؤد کے ہاتھ میں لوہے کا نرم ہو جانا جیسا کہ آیت کے الفاظ اور انداز کلام سے واضح ہے ایک معجزہ کے طور پر تھا۔ اس کو لوہے کے استعمال کے عام طریقہ پر محمول کرنا بالکل غلط ہے جس میں لوہے کو گرم کیا جاتا ہے اور جب وہ گرم ہو کر نرم پڑتا ہے تو اس ے مختلف چیزیں ڈھالی جاتی ہیں۔ اگر معمول کے مطابق ظہور میں آنے والی کوئی ٹیکنالوجی یا تمدنی ترقی ہوتی تو قرآن اسے اس شان سے بیان نہ کرتا اور نہ معجزات کے درمیان اس کا ذکر کرتا۔ 

 

۲۱۔۔۔۔۔۔ زرہ ایک جنگی ضرورت کی چیز ہے اور قدیم زمانے میں اس کی بڑی اہمیت تھی۔ حضرت داؤد سے پہلے اگر زرہیں بنتی بھی تھیں تو سپاٹ قسم کی جو بہت وزنی ہوتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد پر یہ انام فرمایا کہ لوہا ان کے ہاتھ میں موم کی طرح نرم ہو جاتا تھا تاکہ وہ اس سے حلقے بنا کر ان کو زرہ کی شکل دیں۔ یہ زرہ ہلکی ہونی کی وجہ سے بآسانی استعمال کی جاسکتی تھی۔ یہ حضرت داؤد کے دفاعی اسلحہ جات میں ایک اہم اور قابل قدر اضافہ تھا اور چونکہ اس فن سے دوری قومیں ناآشنا تھیں اس لیے دشمن طاقتیں حضرت داؤد کے لشکر کے مقابلہ میں ٹک نہیں سکتی تھیں۔ یہ زبردست جنگی فائدہ تھا جو بنی اسرائیل کو حضرت داؤد کے اس معجزہ کے ذریعہ حاصل ہوا۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ۸ ۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔ خطاب داؤد والوں یعنی بنی اسرائیل سے ہے کہ اس فضل سے نوازے جانے پر تمہیں نیک بننا چاہئے کہ یہ حقیقی شکر گزاری ہے۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان کے لیے ہوا کو اس طرح مسخر کر دیا گیا تھا کہ وہ ان کے اشارے پر اس طویل سفر صبح یا شام کے وقت میں طے کرتے ہوں

 

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۱۰۹۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔تانبے کی کانیں ہوتی ہیں مگر حضرت سلیمان کے لیے اللہ تعالیٰ نے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا تھا یہ غیر معمولی بات تھی جو اس کے فضل خاص کا نتیجہ تھی تاکہ کان کنی کے مرحلوں سے گزرنے بغیر سلیمان ایک پر شکوہ اور بے مثال اسلامی حکومت قائم کرسکیں۔ چنانچہ انہوں نے اس سے جیسا کہ آگے آ رہا ہے بڑے بڑے ظروف بنائے۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۱۱۰ ، نیز سورۂ نمل نوٹ ۲۵۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔ یہ خیال صحیح نہیں کہ حضرت سلیمان نے جنوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا تھا بلکہ جیسا کہ آیت صراحت کرتی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے جنوں کو حضرت سلیمان کے تابع کر دیا تھا وہ ان سے جو چاہیں خدمت لیں۔ اور اگر ان میں سے کوئی جن اس حکم سے سرتابی کرتا تو اللہ تعالیٰ اس پر آگ کے عذاب کا سارا برسا دیتا۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان نے ان جنوں سے بڑی بڑی اور مضبوط عمارتوں کی تعمیر کا کام لیا۔ بڑے بڑے پتھروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا اس زمانہ میں جب کہ کرین ایجاد نہیں ہوئے تھے آسان نہیں تھا لیکن جنوں کی وجہ سے یہ کام آسان ہو گیا۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔ آیت میں لفظ "تماثیل" استعمال ہوا ہے جو تمثال کی جمع ہے اور تمثال عربی میں مجسمہ کو بھی کہتے ہیں اور تصویر کو بھی۔ عربی کی مبسوط اور مستند لغت لسان العرب میں ہے :

 

والتمثال : الصورۃ۔۔۔ متثال یعنی صورۃ (تصویر)  و ظل کل شی تمثالہ۔۔۔ ہر چیز کا سایہ اس کی تمثال (تصویر)  ہے "

 

والتمثال اسم للشئ للمصنوع متشبھا بخلق من خلق اللہ (لسان العرب ج ۱۱ ص ۶۱۳)

 

"اور تمثال اس مصنوعی چیز کا نام ہے جو اللہ کی کسی مخلوق کے مشابہ بنائی گئی ہو۔"

 

والتمثال الشی ء المصور ، تمثال یعنی مصور چیز (مفردات راغب ص ۴۷۸)  

 

حضرت سلیمان پیغمبر تھے اور حضرت موسیٰ کی شریعت کے پیرو تھے لہذا ان کے بارے میں یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے جاندار (ذی روح)  کے مجسمے یا تصویریں بنائی ہوں گی تورات میں جاندار کی تصویر بنانے کی حرمت بیان ہوئی ہے :

 

"تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین میں یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ (استثناء ۵:۸)

 

جن مفسرین نے یہ کہا ہے کہ پچھلی شریعت میں جاندار کی تصویریں بنانا جائز تھا، انہوں نے غلط کہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث بھی اس کی تردید کرتی ہے :

 

عن عائشۃ ان ام حبیبۃ و امسلمۃ ذکرنا کنیۃ راینھا باحبشۃ فیھا تصاویر لرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان اولیک اذکان فیھم الرجل الصالح فمات بنواعلی قبرہ مسجدا وصوروا فیہ تلک الصور اولیک شرارالخلق عنداللہ عز وجل یوم القیامۃ (مسلم کتاب المساجد)  

 

 (ام المومنین)  عائشہ سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک گرجے کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور جس میں تصویریں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ان لوگوں میں جب کوئی صالح شخص ہوتا اور وہ جاتا تو یہ لوگ اس کی قبر پر عبادت گاہ بنا دیتے اور اس میں اس قسم کی تصویریں بنا لیتے۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ عزوجل کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔"

 

یہ حدیث اس باب میں صریح ہے کہ پچھلی شریعت میں بھی تصویر بنانا جائز نہ تھا۔

 

اس لیے حضرت سلیمان نے غیر جاندار (غیر ذی روح)  کی ہی تصویریں بنوائی ہوں گی جو شریعت میں ممنوع نہیں ہیں۔ یہ تصویریں پھول، پتے ، درخت اور قدرتی مناظر کی ہو سکتی ہیں۔ رہا بائیبل کی کتاب "سلاطین" اور "تواریخ" کا یہ بیان کہ حضرت سلیمان نے جانداروں کی تصویریں بنائی تھیں تو یہ لائق اعتبار نہیں کیونکہ یہ کتابیں جیسا کہ بائیبل کے شارح کا بیان ہے ، حضرت سلیمان کے صدیوں بعد لکھی گئیں جن میں سنی سنائی باتوں اور قصوں کو بڑا دخل رہا ہے۔

 

اور بائیبل میں تو حضرت سلیمان کی طرف شرک اور بت پرستی کو بھی منسوب کیا گیا ہے اس لیے اس مسئلہ میں اس سے استدلال صحیح نہیں اس آیت کا صحیح اور بہترین مفہوم وہی ہو سکتا ہے جو شرعی احکام سے مطابقت رکھتا ہو اور جس سے مطابقت رکھتا ہو اور جس سے ایک پیغمبر کے کردار پر حرف نہ آتا ہو۔ اس سلسلہ میں چند باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے :

 

بات ایک یہ کہ تصاویر سے مزین شاندار عمارتوں کی تعمیر کا کام جیسا کہ آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے حضرت سلیمان نے جنوں سے لیا تھا وہ بڑے بڑے اور قیمتی پتھر اٹھا کر بھی لاتے تھے اور ان پر نقش و نگار کا کام بھی کرتے تھے۔ اس کام کی نہ ان کو مزدوری دینا پڑتی تھی اور نہ حکومت کے خزانہ پر اس کا کوئی بار پڑتا تھا اس لیے اس کو اسراف نہیں قرار دیا جا سکتا۔

 

دوسری بات یہ کہ حضرت سلیمان کے کارناموں میں اچھا خاصا دخل خدائی معجزات کا تھا۔ تانبے کے چشمے کا جاری ہو جانا اور جنوں سے خدمت لینا یہ سب اسی نوعیت کی چیزیں ہیں۔ انہوں نے اس تعمیری کام اور تصویر سازی کو بطورِ فن یا ثقافت اپنی قوم میں رائج نہیں کیا تھا۔

 

بات تیسری یہ کہ تصویروں سے مزین شاندار تعمیرات فخر و نمائش کے لیے نہیں بنائی گئی تھی بلکہ اللہ کے خصوصی فضل کے اظہار کے لیے بنائی گئی تھیں بلکہ اللہ کے خصوصی فضل کے اظہار کے لیے بنائی گئیں تھیں جو اس نے اپنے پیغمبر سلیمان پر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے غیر معمولی وسائل فراہم کئے تھے کہ ان کا کام انسانی صناعوں کے بغیر اور حکومت کے خزانہ پر بار ڈالے بغیر انجام پاتا ہے۔ اس سے ایک تو اسلامی حکومت کا رعب غیر اقوام پر قائم ہو گیا تھا اور دوسرے حضرت سلیمان کی صداقت ظاہر ہو رہی تھی کہ وہ واقعی اللہ کے نبی ہیں۔ چنانچہ ان کے شیش محل کو دیکھ کر ملکۂ سبا کے حضرت سلیمان سے متاثر ہونے کے واقعہ سورۂ نمل میں گزر چکا۔

 

چوتھی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت یہ تھی کہ ایک خاص شان کی اسلامی حکومت ایک نبی کے ہاتھوں بنی اسرائیل میں قائم ہو جائے تاکہ یہ بنی اسرائیل پر غیر معمولی انعام بھی ہو اور دنیا والوں پر ظاہر ہو جائے کہ ایک ایسی اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے اپنی ظاہری شان میں بالکل منفرد تھی اور اس کی شان و شوکت کو دیکھ کر خدا یاد آ جاتا تھا اور اس حکومت کو نہایت کامیابی اور پورے عدل و انصاف کے ساتھ ایک نبی نے چلا کر  دکھایا ہے۔

 

ان باتوں کو سمجھ لینے کے بعد حضرت سلیمان کے کار نامہ کو مسلمان بادشاہوں کی مسرفانہ اور نمائشی تعمیرات اور شاہی محلات کے جواز کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ دہلی کے لال قلعہ کا دیوان خاص جس کی دیواریں نہ صرف پھولوں کی تصاویر اور نقش و نگار سے مزین نمونہ ہے اور مغل بادشاہوں نے شاندار محل محض عیش پرستی کے لیے بائے تھے اور تاج محل جیسی شان و شوکت والی جو یادگاریں انہوں نے قائم کیں وہ محض فخر و نمائش کے لیے تھیں۔

 

تصویر کا مسئلہ سامنے آنے سے ذہن میں فوٹو کے جواز و عدم جواز کا سوال بھی ابھرنے لگتا ہے مگر یہاں یہ بحث طوالت کا موجب ہو گی کیونکہ فوٹو موجودہ زمانہ کی ایجاد ہے اور اس لحاظ سے یہ اجتہادی مسئلہ ہے نیز ہم یہاں اس بحث میں پڑنا مناسب بھی نہیں سمجھتے اس لیے ان سطور ہی پر اکتفاء کرتے ہیں۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔ بڑی بڑی دیگوں میں کھانا پکتا تھا اور بڑے بڑے لگن میں اس کو نکالا جاتا تھا تاکہ بیک وقت بہت سے لوگ کھانا کھائیں۔ حضرت سلیمان کے پاس جو بھاری لشکر تھا معلوم ہوتا ہے ان کے کھانے کے لیے یہ اہتمام کیا گیا تھا یعنی ایک فوجی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے۔

 

پتھر کے بڑے بڑے لگن اور بڑی بڑی دیگیں بنانے کا کام جو اپنی جگہ سے ہٹائی نہیں جاسکتی تھیں جنوں سے لیا گیا تھا۔ یہ ساری کاریگری جیسا کہ آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے جنوں ہی کی کاریگری تھی۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔آلِ داؤد سے مراد حضرت داؤد کی اولاد بھی ہے اور ان کے پیرو بھی اور شکر کے ساتھ عمل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ان احسانات کا شکر اس طرح ادا کرو کہ عملی زندگی سے اس کا اظہار ہو یعنی ایسا طرز عمل جو شکر سے مطابقت رکھنے والا ہو۔ معلوم ہوا کہ شکر گزاری کے لیے زبان سے شکر کے کلمات ادا کرنا کافی نہیں بلکہ عمل سے اس کا ثبوت دینا ضروری ہے۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔ قیمتی چیزیں دنیا میں کم ہی پائی جاتی ہیں ، سونا لوہے کے مقابلہ میں ، ہیرے اور جواہرات کوئلے اور پتھر کے مقابلہ میں ، خوبصورت اور خوشبو دار پھول جھاڑ جھنکاڑ کے مقابلہ میں اور زعفران گھاس پھوس کے مقابلہ میں۔ اسی طرح اللہ کے شکر گزار بندے ناشکروں کے مقابلہ میں بہت کم پائے جاتے ہیں مگر وہی سوسائٹی کا مکھن اور انسانیت کا بیش بہا جو ہر ہوتے ہیں۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان کی موت بھی معجزانہ طور پر ہوئی تھی۔ صورت کچھ اس طرح پیش آئی کہ وہ اپنے عصا سے ٹیک لگائے کھڑے تھے اور جنوں کے کام کی نگرانی کر رہے تھے کہ موت نے انہیں آ لیا۔ مگر ان کی لاش کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر گرنے نہیں دیا بلکہ اسے عصا کے سہارے کھڑا ہی رکھتا تاکہ جن یہ سمجھتے رہیں کہ سلیمان زندہ ہیں اور اس خدمت میں لگے رہیں جو ان کے سپرد کر دی گئی تھی تاکہ تعمیر وغیرہ کا کام مکمل ہو۔ وہ اس خدمت کو انجام دیتے رہے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کو ان پر ظاہر کرنا چاہا تو زمین کے کیڑے یعنی دیمک کو اشارہ کیا کہ وہ ان کے عصا کو کھا لے۔ دیمک نے جب عصا کو چاٹ ڈالا تو عصا ٹھہر نہ سکا اور حضرت سلیمان زمین پر گر پڑے۔ اس وقت جنوں پر یہ بات کھل گئی کہ سلیمان کی موت اس سے پہلے ہی واقع ہو گئی تھی اور ان کی لاش عصا کے سہارے کھڑی تھی۔ اس وقت انہیں احساس ہوا کہ اگر وہ غیب کی باتیں جانتے ہوتے تو سلیمان کی موت کی خبر انہیں پہلے ہی ہو گئی ہوتی اور انہیں اس کام سے جو ذلت کے ساتھ مصیبت میں پڑ کر انہیں انجام دینا پڑ رہا تھا کبھی کا چھٹکارا مل گیا ہوتا کیونکہ جن سلیمان کے حضور سلیمان ان ہی کی ہدایت پر خدمت انجام دینے کے لیے مامور کئے  گئے تھے۔

 

اس واقعہ کا خاص پہلو جس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا مقصود ہے یہ ہے کہ جنوں کے بارے میں یہ خیال غلط ہے کہ وہ غیب کی باتیں جانتے ہیں جنوں کو غیب داں سمجھ کر ہی لوگ ان سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اور سفلی اعمال میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ محض وہم پرستی ہے مگر آج بھی کتنے ہی لوگ اعتقاد کی اس خرابی کی بناء پر جنوں کی دہائی دیتے ہیں اور جب کوئی شخص دماغی عارضہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اسے آسیب پر محمول کر کے بے رحمی کے ساتھ اس کی پٹائی کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دراصل وہ اس جن کو پیٹ رہے ہیں جو اس شخص پر سوار ہو گیا ہے اور پھر جن کو حاضر کر کے اس سے کچھ اگلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس موقع پر شیطان انہیں دھوکہ پر دھوکہ دیئے چلا جاتا ہے اور ان کی بد اعتقادی ان کو پستی اور ذلتیں مبتلا کر دیتی ہے۔

 

واضح رہے کہ قرآن نے اس بات کی صراحت نہیں کی کہ حضرت سلیمان انتقال کے بعد کتنے عرصہ تک ٹیک لگائے کھڑے رہے۔ جن روایتوں میں ایک سال کا ذکر ہوا ہے اور جن کو مفسرین نے نقل کیا ہے وہ سب ناقابل اعتبار ہیں صحیح درجہ کی کوئی روایت بھی اس سلسلہ میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے کسی لمبی مدت کو فرض کرنا ضروری نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ اس حالت میں چند روز رہے ہوں گے اور اتنا وقت بھی جنوں کو یہ محسوس کرا دینے کے لیے کافی ہوا کہ انہیں ان کے موت کے بروقت خبر نہ ہو سکی۔ رہا یہ سوال کہ اگر جنوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کی خبر نہ ہو سکی تو کیا انسانوں کو بھی نہیں ہو سکی تھی اور اگر انسانوں کو ہوئی تھی تو پھر بغیر تجہیز و تکفین کے لاش کو کس طرح ایک عرصہ تک اسی حالت پر رہنے دیا گیا؟ تو اس سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ قرآن نے صرف جنوں کے بے خبر رہنے کی صراحت کی ہے۔ انسانوں کے بے خبر رہنے کی صراحت نہیں کی ہے۔ مادلھم علی موتہ الادابۃ الارض، اس کی موت پر ان کو مطلع کرنے والی چیز زمین کا کیڑا تھا۔ میں ھم (ان کو)  کی ضمیر جنوں کی طرف پھرتی ہے کیونکہ اس آیت میں بھی جنوں ہی کا ذکر ہوا ہے اور اس سے پہلے والی آیت میں بھی جنوں کی کاریگری بیان ہوئی ہے۔ اس سیاق و (Context)  کوئی ایسی بات نہیں جو انسانوں پر دلالت کرتی ہو۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے اللہ سے اشارہ پاکر اپنے انتقال کے موقع پر ہی اپنے اہل و عیال اور اپنی حکومت کے نائبین کو ہدایت کی ہو گی کہ وہ ان کی لاش کو اپنے حال پر رہنے دیں جب تک کہ وہ گر نہ پڑے اور انہوں نے اس کی تعمیل کی ہو گی یا پھر انہوں نے یہ دیکھ کر حضرت سلیمان انتقال کے باوجود عصا کے سہارے کھڑے ہیں اور زمین پر ان کی لاش گر نہیں رہی ہے یہ سمجھا ہو گا کہ یہ اللہ کا سراسر معجزہ ہے اس لیے آئندہ کوئی بات ظاہر ہونے تک لاش کو اسی حالت میں رہنے دنیا چاہئے۔ اور چونکہ ان کی لاش خدائی معجزہ کی بنا پر کھڑی تھی اس لیے اس کے محفوظ رہنے کی طرف سے بھی اطمینان رہا ہو گا اور تدفین اسی وقت عمل میں آئی ہو گی جب کہ وہ زمین پر گر پڑے۔ جوجن خدمت پر مامور تھے ان کو اور انسانوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہوں گی کہ جنوں کو کسی طرح بھی حضرت سلیمان کی موت کا پتہ نہ چل کا۔ ہمارے خیال میں اس توجیہ کے بعد کوئی اشکال باقی نہیں رہتا اور حقیقتِ حال کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔سبا ایک قوم کا نام ہے جو یمن کے علاقہ میں آباد تھی اور اس کا دارالحکومت مآرب تھا جو صناء کے مشرق جانب ۱۹۳ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ سورۂ نمل میں ملکۂ سبا کے حضرت سلیمان کے پاس حاضر ہونے اور اسلام قبول کرنے کا واقعہ گزر چکا۔ اس زمانہ میں عام طور سے رعایا کا دین وہی ہوتا تھا جو بادشاہ کا ہوتا اس لیے ملکہ سبا اسلام قبول کر کے جب اپنے ملک کو لوٹی ہو گی تو اس کی رعایا نے بھی اسلام قبول کیا ہو گا۔ اس طرح سبا کے ملک یمن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ ہی میں اسلام پہونچ گیا تھا۔ قوم سبا سینکڑوں سال تک حکومت بھی کرتی رہی اور خوش حال بھی رہی۔ وہ عرب کی عظیم الشان متمدن حکومت تھی۔ لیکن بعد میں جب انہوں نے اللہ کی ناشکری کا رویہ اختیار کیا تو وہ ساری نعمتیں ان سے چھین لی گئیں جو اللہ نے انہیں عطا کی تھیں۔ ناشکری کرنے والی قوم کے اس انجام کو یہاں عبرت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔ یعنی جس علاقہ میں وہ آباد تھے اس کے زرخیز ہونے اور قوم کے لیے خوشحال کا باعث ہونے میں اس بات کی واضح علامت موجود تھی کہ یہ نعمتیں ان کے رب اللہ ہی کی عطا کردہ ہیں اور اس کے اس احسان پر شکر واجب ہے اور یہ کہ اگر وہ چاہے تو یہ نعمتیں چھین بھی سکتا ہے اس لیے اس سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنی چاہئے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔ یعنی باغوں کا ایک سلسلہ داہنی جانب تھا اور دوسرا بائیں جانب جن میں نفیس اور لذیذ پھلوں سے لدے ہوئے درخت ، لہلہاتے کھیت اور خوشبو دار درخت اس کثرت سے تھے کہ پورا علاقہ چمنستان بنا ہوا تھا۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔ یعنی رزق کی یہ فراوانی ان کے رب ہی کی بخشش تھی اور یہ خوان نعمت زبان حال سے گویا تھی کہ اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو اور قدرت بھی اپنی خاموش زبان میں اعلان کر رہی تھی کہ کیسی زرخیز اور عمدہ ہے یہ زمین اور خوب ہے وہ رب جو اپنے شکر گزار بندوں کے قصور معاف کرتا ہے۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔ یعنی انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس سے بے تعلقی اور بے رخی اختیار کی۔ اور جب انہوں نے اللہ سے روگردانی کی تو پھر ان کا شرک اور دنیا پرستی میں مبتلا ہونا لازمی بات ہے۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔ سیل العرم (بند کا سیلاب)  سے مراد وہ سیلاب ہے جو بند (Dam)  توڑ کر سبا کے باغوں اور کھیتوں میں گھس پڑا اور سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ یہ بند سد مآرب کے نام سے مشہور ہے جو قوم سبا نے اپنے دارالحکومت مآرب میں دو پہاڑوں کے درمیان جن کا نام ابلق ہے بنایا تھا تاکہ بارش اور چشموں کا پانی اس میں جمع رہے۔ انہوں نے اس سے نہریں نکال کر آب پاشی کا سامان کیا تھا۔ ڈیم (Dam)  بنانے کا فن موجودہ زمانہ کی ایجاد نہیں ہے بلکہ یہ فن دو ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ قوم سبا نے ا میں بڑی مہارت کا ثبوت دیا تھا۔ (بند کی تفصیلات کے لیے دیکھئے ارض القرآن از سید سلیمان ندوی، عنوان سد مآرب ج ۱ ص ۲۵۴)  بند ٹوٹنے کا یہ واقعہ اندازہ ہے کہ دوسری صدی قبل مسیح میں پیش آیا ہو گا۔

 

اس بند (Dam)  کے آثار اب بھی مآرب میں موجود ہیں اور زبان حال سے داستان عبرت سنا رہے ہیں۔ ہم اس کی تصویریں آگے کے صفحات پر پیش کر رہے ہیں۔ (ان آثار کی تفصیلات کے لیے دیکھئے ڈاکٹر عبد العلیم عبدالرحمن خضر کی کتاب مفاہیم جغرافیہ فی القصص القرآنی مطبوعہ دارالشروق جدہ ص ۱۹۵ تا ۲۰۶)۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی سیلاب کی تباہ کاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ ثمر آور باغ ختم ہو گئے اور ان کی جگہ کڑوے کسیلے پھل والے درختوں اور جھاڑ جھنکاڑ نے لے لی۔ اگر کھانے کا کوئی درخت رہا تو وہ بیریاں اور وہ بھی بہت کم۔

 

معلوم ہوتا ہے سیلاب نے اپنے ساتھ ریت اور کچھ ایسے مادے بکھیر دیے کہ زمین پر ان کی تہ جم جانے سے اس کی ساری زرخیزی ختم ہو گئی۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔ سبا کو ناشکری کی ایسی سزا ملی کہ اس کا سارا عیش کا فور ہو گیا اور خوشحالی کی زندگی بدحالی میں تبدیل ہو گئی۔

 

واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نا سپاس اور نا شکر گزار قوم کو سزا دیا چاہتا ہے تو اس سے اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے اور ا کی معیشت کو تباہ کر دیتا ہے۔ یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب قوم اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے لگتی ہے اور اپنے رب سے منہ پھیر لیتی ہے۔

 

قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ کی یہ نت (قاعدہ)  بیان ہوئی ہے کہ:

 

اِنّ اللہ لا یغیرمابقوم حتی یغیر وامابانفسھم۔ (رعد۔۱۱)  

 

"اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے رویہ کو نہیں بدلتی۔"

 

سبا کے اس واقعہ سے یہ بھی واضح ہوا کہ خوشحالی ہو یا بد حالی سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے نہ دیو دیوتاؤں کا کوئی وجود ہے اور نہ رزق دینے پر کوئی قادر ہے۔ حق صرف توحید ہے اور شرک سراسر باطل۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔ یہ ایک دوسری نعمت کا ذکر ہے جو سباکو عطا ہوئی تھی۔ ان کے لیے سفر ک نہایت آسان اور آرام دہ بنا دیا گیا تھا وہ شام اور فلسطین کی طرف تجارتی سفر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شاہراہ کو جو یمن سے بیت المقدس اور دمشق تک جاتی تھی اس قابل بنا دیا تھا کہ قریب قریب بستیاں آباد ہو گئیں۔ مسافروں کے لیے منزل طے کرنا آسان ہو گیا۔ یہ بستیاں شاہراہ کے کنارے پر آباد ہونے کی وجہ سے کھلی دکھائی دینے والی بستیاں تھیں اس لیے امن کے ساتھ سفر کرنا ممکن ہو گیا تھا۔

 

"ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں۔" اس مراد بیت المقدس اور فلسطین و شام کا علاقہ ہے اس سرزمین کے لیے قرآن کی یہ معروف تعبیر ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔ یہ بھی قدرت کا اپنی خاموش زبان میں اعلان تھا۔

۴۳۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ قومِ سبا اللہ کو اپنا رب مانتی تھی پھر بھی اس کی نا شکر گزار تھی۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔  سبا نے اللہ کی اس نعمت کی بھی ناقدری کی۔ کہنے لگے جس سفر میں صعوبتیں نہ ہوں وہ سفر ہی کیا۔ ان کی یہ دعا ہمارے سفر کی منزلوں میں دوری پیدا کر دے انسان کی اس ذہنیت کی غمازی کرتی ہے جو قرآن میں دوسری جگہ بیان ہوئی ہے :

 

ویدعوالانسان بالشر دعاء ہ بالخیر۔ (بنی اسرائیل۔ ۱۱)  

 

"اور انسان شر کے لیے اسی طرح دعا کرنے لگتا ہے جس طرح اسے خیر کے لیے دعا کرنا چاہئے۔"

 

اور مشرکین مکہ نے بھی اپنے لیے بد دعا کی تھی:

 

اللھم ان کان ھذا ھوالحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوئتنابعذاب الیم (انفال۔ ۳۲)  

 

"اے اللہ! اگر یہ واقعی حق ہے تیری جانب سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی اور دردناک عذاب نازل کر"۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسا کر کے انہوں نے اپنے ہی اوپر زیادتی کی۔ اللہ کی ناشکری کرنے سے اللہ کا کچھ نہیں بگڑتا بلکہ آدمی اپنے ہی کو اللہ کے غضب کا مستحق بنا دیتا ہے۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔ یعنی کہاں سبا کا وہ عروج اور کہاں اس کا یہ زوال کہ وہ تاریخ کے اوراق میں داستانِ پارینہ بن کر رہ گئے۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔ بند کے ٹوٹ جانے اور باغوں اجڑ جانے سے سبا کی تجارت بھی متاثر ہوئی۔ جو تجارتی قافلہ خوشبودار مسالے اور دیگر قیمتی اشیاء لے کر شام کی طرف جایا کرتے تھے ان کا کاروبار بھی ٹھپ ہو گیا نتیجہ یہ ہوا کہ سبا کے مختلف قبیلے وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور تہامہ، شام وغیرہ مختلف علاقوں میں انہوں نے سکونت اختیار کی۔ اس طرح سباکی جمعیت پارہ پارہ ہو گئی اور وہ منتشر ہو کر رہ گئے۔

 

بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ سباکی طرف انبیاء بھیجے گئے تھے مگر یہ بات نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں۔ اور جو سزا جو قوم سبا کو ملی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی رسل براہِ راست ان کی طرف نہیں بھیجا گیا تھا ورنہ رسول کو جھٹلانے کا انجام تو یہ ہوتا کہ وہ قوم صفحۂ ہستی سے مٹا دی جاتی ہے مگر سبا کی معیشت تباہ کر دی گئی اور اس کا شیرازہ بکھر دیا گیا۔ یہ سزا اس سزا سے مختلف تھی جو رول کو جھٹلانے والی قوموں کو دی جاتی رہی۔ رہا اسلام کی دعوت کا قوم سباکو پہنچنا اور ان پر اللہ کی حجت کا قائم ہو جانا تو یہ کام حضرت سلیمان کے ذریعہ بھی انجام پایا تھا اور دیگر انبیائے بنی اسرائیل کے ذریعہ بھی انجام پاتا رہا ہو گا کیونکہ اس زمانہ میں ارض مقدس کو دعوتِ اسلامی کا مرکز بنایا گیا تھا تاکہ بنی اسرائیل کے ذریعہ دوسری اقوام تک دعوت پہنچے۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔ سبا کے اس تاریخی واقعہ میں رہنمائی کا کافی سامان موجود ہے۔ مثلاً یہ کہ کسی قوم کی خوشحالی اللہ تعالیٰ کے احسان کا نتیجہ ہوتی ہے اور جب وہ قوم اس کی ناقدری کرتی اور اپنے رب سے منہ پھیر لیتی ہے تو اس کی خوشحالی کو اللہ تعالیٰ بدحالی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ قوموں کا عروج و زوال محض ظاہری اسباب کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے اللہ کی حکمت اور اس کا قانون عدل کارفرما ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ اس نے سبا کو ناشکری کی سزا دے کر عبرت کے لیے ایک مثال پیش کر دی ہے جو تاریخ کے اوراق پر ثبت ہو گئی ہے۔ چوتھے یہ کہ دنیا مزے اڑانے کے لیے نہیں ہے بلکہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے ہے اور انسان کی فلاح کا دار و مدار ذمہ داریوں کو ادا کرنے ہی پر موقف ہے۔ مگر اللہ اور آخرت کی طرف رہنمائی کرنے والی ان نشانیوں سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو صبر اور شکر کی خصوصیات اپنے اندر رکھتے ہیں۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف جو ابلیس نے کہی تھی کہ :

 

ولاغوینھم اجمعین الا عبادک منھم المخلصین (حجر۔۳۹،۴۰)  

 

"اور میں ان سب کو بہکاؤں گا سوائے تیرے ان بندوں کے جن کو تو نے ان میں سے خاص کر لیا ہو۔"

 

ولاتجداکثرھم شاکرین (اعراف۔ ۱۷)  

 

"اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ "

 

اور با نے ابلیس کو اپنا یہ خیال صحیح ثابت کر دکھانے کا موقع دیا۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ قوم سبا میں ایک مومن گروہ بھی تھا جس نے شیطان کی پیروی نہیں کی اور اللہ کی ناشکری کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔ یعنی شیطان نے اپنی پیروی کے لیے لوگوں کو مجبور نہیں کیا تھا۔ بلکہ صرف ترغیب دی تھی اس لیے جن لوگوں نے اس کی پیروی کی وہ اپنے کئے کے خود ذمہ دار ہیں۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سبا کو پہلے خوشحال اور پھر بدحال بنا کر اس آزمائش میں ڈالا کہ وہ آخرت کو مانتے ہیں یا نہیں۔ جو آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے ممیز ہو جائیں جن کو آخرت کا یقین نہیں ہے اور تذبذب میں مبتلا ہیں۔

 

واضح ہوا کہ حقیقۃً اللہ کی شکر گزاری وہی ہے جو ایمان بالآخرت کے ساتھ ہو۔

 

۵۳۔۔۔۔۔۔ یہاں سے خطاب کا رخ مشرکین کی طرف ہو گیا اور شرک کی تردید میں دل و دماغ کو اپیل کرنے والی باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔

 

۵۴۔۔۔۔۔۔ یہ مشرکین کے اس عقیدے کی تردید ہے کہ ان کے معبود کچھ خدائی اختیارات رکھتے ہیں۔ فرمایا وہ ذرہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ سارا اختیار اللہ ہی کا ہے۔ پھر جو بے اختیار ہیں وہ کس رح پرستش کے مستحق ہوئے اور ان کی پرستش کر کے کیا چیز حاصل کی جاسکتی ہے ؟

 

اس آیت میں غیر اللہ کے اختیارات کی جو نفی کی گئی ہے اس سے صرف بت پرستوں کے عقیدہ ہی کی تردید نہیں ہوتی بلکہ قبر پرستوں کے عقیدہ کی بھی ترید ہوتی ہے۔ وہ بھی قطب، ابدال وغیرہ کو متصرف (اختیارات رکھنے والا استعمال کرنے والا)  مانتے ہیں اور تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ اختیار ان کو اللہ کے عطا کرنے سے حاصل ہوئے ہیں مگر اول تو یہ اللہ پر افتراء (جھوٹ)  ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہیں نہیں فرمایا کہ اس نے فلاں اور فلاں کو تصرف کے اختیارات دیئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ خدائی اختیارات سرے سے قابل انتقال ہیں ہی نہیں بالکل اسی طرح جس رح خدا کا کوئی جز ء قابل انتقال نہیں ہے ورنہ اللہ کی صفات میں شرک لازم آئے گا۔ مخلوق کو اللہ تعالیٰ جو اختیارات عطا کرتا ہے وہ تخلیقی نوعیت کے ہوتے ہیں یعنی خدا کے پیدا کردہ ہوتے ہیں نہ کہ خدا کے اپنے اختیارات کا جزء۔ اور حاجت روائی،  فریاد رسی اور مشکل کشائی کا تعلق خدائی اختیارات سے ہے کیونکہ اس کے لیے حاضر ناظر ہونا، ہر شخص کے حالات کو جاننا، جس زبان میں وہ پکارے اس کو سمجھنا اس کے دل کی باتوں کو بھی جان لینا اور اس کی حاجتوں کو پورا کرنے پر قادر ہونا ضروری ہے اس لیے بندوں کو جو اختیارات حاصل ہوتے ہیں وہ تخلیقی نوعیت کے اور نہایت محدود ہوتے ہیں۔ فریاد رسی اس فرق کو نظر انداز کر کے کتنے ہی مسلمان شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں اور اب ایسی تفسیریں بھی لکھی جا رہی ہیں جو شرک کے بارے میں لوگوں کو مغالطہ میں ڈال دیتی ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:

 

"معلوم ہوا کہ کسی چیز پر مالک ہونا بتوں کے لیے ، انبیاء اولیاء رب کی عطا سے رب کی ہر چیز کے مالک ہیں۔ "

 

 (مختصر تفسیر نعیمی ص ۶۸۷)۔

 

آیت کی یہ تفسیر کس قدر گمراہ کن ہے۔ جو آیت غیر اللہ کے اختیارات کی نفی کرتی ہے اسی کو انبیاء اور اولیاء کے با اختیار ہونے کے ثبوت میں پیش کیا جا رہا ہے یعنی جو آیت ہدایت کے لیے تھی اس سے گمراہی اخذ کی گئی۔ اللہ تعالیٰ ان گمراہیوں سے بچائے۔

 

۵۵۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں غیر اللہ کا کوئی حصہ نہیں پھر انہیں اس کائنات میں وہ اختیارات کہاں سے حاصل ہو گئے جو اس کے خالق ہی کی صفت ہیں ؟

 

۵۶۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے فرشتوں کی طرف جن کو مشرکین اللہ کی بیٹیاں سمجھ کر پرستش کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کے حضور ہماری شفاعت کرنے والے ہیں۔ یعنی اگر قیامت قائم ہو ہی گئی تو یہ اللہ کے حضور ہماری سفارش کر کے ہمیں عذاب سے نجات دلائیں گے۔ شفاعت کے اس تور کو باطل قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ فرشتوں کی یہ مجال نہیں کہ وہ اللہ کے حضور کسی کے لیے سفارش کریں کجا یہ کہ وہ اپنی سفارش منوا کر رہیں۔ شفاعت اللہ کی مغفرت کی ایک شکل ہے اور وہ ان ہی لوگوں کے حق میں ہو سکے گی جن کے لیے اللہ اجازت دے اور یہ اجازت مشرکوں اور کافروں کے حق میں ہرگز نہیں ہو گی کیونکہ ان کے لیے مغفرت کے دروازے بند ہوں گے۔

 

شفاعت کی مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۱۱۱، سورہ بقرہ نوٹ ۴۱۲، اور سورہ انبیاء نوٹ ۳۱۔

 

۵۷۔۔۔۔۔۔ اس فقرہ کا تعلق "مگر جن کے لیے وہ اجازت دے " سے ہے یعنی جن لوگوں کے حق میں شفاعت کی اجازت دی جائے گی تو اس کا موقع بھی قیامت کے دن ایک خاص مرحلہ میں ہی آئے گا۔ اس مرحلہ کے آنے تک تو البینِ شفاعت پر سخت خوف طاری رہے گا اور وہ گھبراہٹ کی حالت میں رہیں گے۔ انکی یہ گھبراہٹ اسی وقت دور ہو گی جب اللہ تعالیٰ ان کے حق میں شفاعت کرنے کی اجازت فرشتوں اور انبیاء وغیرہ کودے گا۔ س وقت وہ شفاعت کرنے والوں سے پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا۔ وہ جواب دیں گے کہ حق فرمایا یعنی اس شفاعت کی اجازت دے ہے اور یہ حق عدل پر مبنی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس نے تمہارے حق میں شفاعت کی اجازت اس لیے دی ہے کہ تم مشرک اور کافر نہیں تھے۔

 

اس سے شفاعت کے سلسلہ میں یہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ:

 

اولاً فرشتوں کی شفاعت کا وہ تصور جو مشرکین نے قائم کر رکھا ہے سراسر غلط اور باطل ہے۔

 

ثانیاً قیامت کے دن نجات کا اصل دار و مدار ایمان اور عمل صالح پر ہو گا۔ شفاعت ایک استثنائی صورت ہو گی اور وہ ان ہی لوگوں کے حق میں ہو گی جو مشرک اور کافر نہیں ہوں گے اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے کی اجازت دے۔

 

ثالثاً یہ اجازت بھی ایک خاص مرحلہ میں دی جائے گی۔ اس وقت تک طالبین شفاعت پر گھبراہٹ کا عالم طاری رہے گا۔ یعنی جب تک یہ مرحلہ آ نہیں جاتا قیامت کا طویل دن ان کے لیے کرب و مصیبت ہی کا دن رہے گا۔ انسان جب دنیا میں تھوڑی دیر کے لیے مصیبت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو پھر شفاعت پر تکیہ کر کے قیامت کے دن کی طویل مصیبت کو برداشت کرنے کے لیے کس طرح آمادہ ہو جاتا ہے۔ صحیح صورت یہی ہے کہ آدمی شفاعت پر تکیہ کرنے کے بجائے ایمان و عمل صالح کی زندگی گزارے۔

 

موجودہ مسلمانوں میں بھی شفاعت کا غلط تصور قائم ہو گیا ہے اور اس بنا پر ان کی بڑی تعداد بے عمل ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر وہ قرآن کی ان آیات پر غور کرتے تو اس انحطاط کو نہ پہنچتے۔

 

۵۸؟؟۔۔۔۔۔۔بعض مفسرین نے "ان کے دلوں کی گھبراہٹ دور ہو گی" سے فرشتوں کی گھبراہٹ مراد لی ہے لیکن عن قلوبھم "ان کے دلوں سے " کے الفاظ فرشتوں کے لیے موزوں ہونے میں کلام ہے۔ اگر فرشتوں کی گھبراہٹ مراد ہوتی  تو ان کے لیے عن انفسھم "ان کے نفس سے " کے الفاظ استعمال ہوئے اس لیے ہم نے البین شفاعت کی گھبراہٹ مراد لی ہے اور آیت کا جو مفہوم ہم نے بیان کیا ہے اس کے بعد ہمارے خیال میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ واللہ اعلم۔

 

۵۹۔۔۔۔۔۔ اللہ بلند و برتر ہے اس لیے کسی کی مجال نہیں کہ وہ بزور اس سے سفارش منوائیں۔

 

۶۰۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اس حقیقت سے تمہیں بھی انکار نہیں کہ رزق اللہ ہی دیتا ہے تو پھر  غیر اللہ کو جو رزق نہیں دیتے معبود بنانے کا کیا جواز ہے ؟ اور جب ہم نے حقیقی رازق ہی کو معبود مان لیا اور تم نے ان کو معبود بنا لیا جو رازق نہیں ہیں تو ہماری اور تمہاری راہیں الگ ہو گئیں۔ اب لازماً ہم دونوں میں سے ایک ہدایت پر ہے اور دوسرا گمراہی میں۔ اب تم سوچ لو کہ ہدایت پر کون ہے اور گمراہ کون؟

 

آیت میں جس اسلوب میں بات کہی گئی ہے وہ منکرین کو  دعوتِ فکر دینے کے لیے ہے۔

 

۶۱۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں انکار کرنے والوں کو دعوتِ فکر دی گئی ہے کہ تم الٹا ہم کو مجرم گردانتے ہو لیکن اگر ہم نے واقعی جرمن کیا ہے تو اس کی جواب دہی ہمیں کرنا ہو گی نہ کہ تمہیں اور تمہارے اعمال کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا نہ کہ ہم سے لہذا عقلمندی کا تقاضا ہے کہ تم ہمیں مجرم قرار دینے سے پہلے خود اپنے عقائد و اعمال کا جائزہ لو کہ کیا یہ درست ہیں اور قیامت کے دن جب تم سے باز پرس ہو گی تو تم اس کا کیا جواب دے سکو گے ؟

 

۶۲ ۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن۔

 

۶۳۔۔۔۔۔۔قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اہل ایمان اور کاروں کے درمیان حق و عدل کی بنیاد پر فیصلہ فرمائے گا اور اس فیصلہ کو نافذ بھی کرے گا کہ کون گروہ حق پر تھا اور کون باطل مذاہب کی پیروی کرتے رہے۔

 

۶۴۔۔۔۔۔۔ یہ سوال بھی مشرکین کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ جن کو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں وہ کونسی خدائی صفات ہیں جن کی بنا پر تم نے ان کو اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور جن کی بنا پر تم ان کی پرستش کرتے ہو جب کہ پرستش صرف اللہ کا حق ہے۔

 

۶۵۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جو غلبہ اور اقتدار اور علم و حکمت کی صفات سے متصف ہو اس لیے تم نے جن کو خدا اور معبود بنا کر رکھا ہے وہ ہرگز نہ خدا ہیں اور نہ لائق پرستش۔

 

۶۶۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی عالمگیر رسالت کا اعلان ہے کہ آپ کی بعثت صرف عربوں کی طرف نہیں بلکہ بلا قید قوم و ملک تمام انسان کی طرف ہوئی ہے اور قیامت تک پیدا ہونے والی تمام قومیں آپ کی امتِ دعوت ہیں۔یہاں منکرین پر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جس شخصیت کی مخالفت پر تم تلے ہوئے ہو اس کی ناقدری کر رہے ہو اسے اللہ تعالیٰ نے اس شان کا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ وہ پوری انسانیت کے لیے رہنما ہے۔ ایسی قدر و منزلت رکھنے و الی شخصیت کی اگر تم ناقدری کرتے ہو تو یہ تمہارے لیے بڑی محرومی کی بات ہے۔

 

۶۷۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کا وعدہ کب پورا ہو گا۔

 

۶۸۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کا وقت مقرر ہے۔ تمہارے لب کرنے سے نہ ایک گھڑی پہلے آسکتا ہے اور نہ ایک گھڑی بعد اور جب قیامت کا ظہور  ہو گا تو ٹھیک وقت پر تم حاضر کر دیئے جاؤ گے نہ ایک گھڑی پہلے اور نہ ایک گھڑی بعد۔

 

۶۹۔۔۔۔۔۔ یعنی تورات، انجیل وغیرہ پر۔

 

۷۰۔۔۔۔۔۔یعنی آج تو یہ لوگ بڑے تکبر سے کہتے ہیں ہ ہم قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں کو نہیں مانتے لیکن قیامت کے دن جب یہ جواب دہی کے لیے اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے تو انہیں اپنی اس مجرمانہ غلطی کا احساس ہو گا۔ اس وقت ان کی سراندامت سے جھکے ہوں گے۔

 

قیامت کا یہ منظر الفاظ کی شکل میں پیش کر دیا گیا ہے تاکہ لوگ ہوش میں آئیں۔

 

۷۱۔۔۔۔۔۔ "جو لوگ کمزور تے "سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو برے بن کر رہنے والوں یعنی لیڈروں اور مذہبی پیشواؤں نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور وہ ان کے پیروکار بن  گئے تھے۔ قیامت کے دن وہ جس طرح ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور ایکدوسرے کی تردید کریں گے اس کی ایک جھلک یہاں پیش کر دی گئی ہے۔

 

۷۲۔۔۔۔۔۔ یعنی وام ہوں یا لیڈر، پیرو ہوں یا پیشوا کفر کرنے کی بنا پر سب ہی سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔ عوام اپنے لیڈروں اور پیشواؤں پر گمراہ کرنے کا الزام عائد کر کے اپنی ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے اللہ کی دی ہوئی عقل کا استعمال کیوں نہیں کیا اور کیوں آنکھیں بند کر کے بڑے بنے والوں کے پیچھے چلتے رہے اور کیوں انہوں نے قرآن اور پیغمبر کی باتوں پر دھیان نہیں دیا؟

 

۷۳۔۔۔۔۔۔ خوشحال لوگ دنیا پرستی میں مگن ہوتے ہیں اس لیے وہ رسول کی دعوت پر کان نہیں دھرتے اور جب وہ انہیں اللہ کے عذاب سے خبردار کرتا ہے تو وہ اپنی خرمستیوں کی وجہ سے اس کا انکار کرنے لگتے ہیں اور اللہ کے پیغام کو روا کر دیتے ہیں۔

 

۷۴۔۔۔۔۔۔ یعنی خوشحال لوگ اس خام خیالی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ مال و اولاد کی جو فراوانی حاصل ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ اللہ کے منظورِ نظر ہیں۔ ان کے عذاب بھگتنے کا کیا سوال ؟

 

۷۵۔۔۔۔۔۔ یہ ان خوشحال لوگوں کے دعوے کی تردید ہے کہ مال و  اولاد کی فراوانی اللہ کے منظور نظر ہونے کی علامت نہیں ہے۔ رزق میں کشادگی اور تنگی اس کی مشیت پر موقوف ہے نہ کہ اس کی رضامندی کی علامت۔ وہ بندوں کے مصالح کے پیش نظر جس کو چاہتا ہے وافر رزق دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے اور دونوں صورتوں میں بندوں کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ شکر اور صبر کرتے ہیں یا نہیں۔ مگر اس حقیقت کو بہت سے لوگ نہیں جانتے اس لیے غلط توجیہ کرنے لگتے ہیں۔

 

۷۶۔۔۔۔۔۔ یہ منکرین کے اس خیال کی تردید ہے کہ جس کے پاس مال اور اولاد کی کثرت ہے وہ خدا کا پسندیدہ اور مقرب بندہ ہے۔ یہ چیزیں تو ان لوگوں کو بھی حاصل ہوتی ہیں جو فاسق اور فاجر اور مفسد ہوتے ہیں پھر اس کو تقریبِ الٰہی کی علامت کس طرح قرار دیاجاسکتا ہے ؟

 

۷۷ ۔۔۔۔۔۔ یعنی ایمان اور عملِ صالح ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے انسان اللہ کا تقرّب حاصل کرتا ہے اور اس صفت کے لوگ ہی اللہ کو محبوب ہوتے ہیں۔

 

۷۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ اللہ کے ارشادات کی مخالفت میں سرگرمی رکھا رہے ہیں ان کولازماًسزا بھگتنی ہو گی خواہ وہ دنیا میں کتنے ہی مالدار رہے ہوں اور اولاد کا کتنا ہی بڑا جتھا ان کے ساتھ رہا ہو۔ ان کی یہ ساری شان و شوکت دنیا ہی میں رہ جائے گی اور آخرت میں وہ عذاب کے حوالہ کر دیے جائیں گے۔

 

۷۹۔۔۔۔۔۔ اوپر یہ مضمون گزر چکا۔ اس آیت میں من عِبادہ "اپنے بندوں میں سے " کا اضافہ ہے اور مقصود اللہ کی رزاقیت کو واضح کرنا ہے۔

 

۸۰۔۔۔۔۔۔ یعنی اللی کی رزاقیت پر غور کرو۔ وہ تمہیں مسلسل رزق دئے جا رہا ہے۔ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کے بعد ایسا نہیں ہوتا کہ تمہارے پاس کچھ نہ رہ گیا ہو بلکہ تم خرچ کرتے رہتے ہو اور وہ عطا کرتا رہتا ہے۔ کتنا بہترین رازق ہے وہ۔ پھر بھی تم اس کے شکر گزار نہیں بنتے۔؟

 

۸۱۔۔۔۔۔۔ یہاں قیامت کا ایک اور منظر پیش کیا گیا ہے۔ مشرکین جب میدان حشر میں جمع ہوں گے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے سوال کرے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے ؟

 

۸۲۔۔۔۔۔۔ فرشتے جواب میں سب سے پہلے اللہ کی پاکی بیان کریں گے کہ تو اس بات سے منزہ ہے کہ  کوئی تیرا شریک ہو۔ اور ہم نے ان گمراہوں کو دوست نہیں بنایا تھا کہ ان کی پرستش ے خوش ہوتے اور ان سے اپنا تعلق جوڑتے بلکہ ہمارا دوست تو ہی تھا اور ہے۔

 

۸۳۔۔۔۔۔۔ فرشتے مزید کہیں گے کہ یہ در حقیقت جنوں کی عبادت کرتے تھے اور ان ہی کے معتقد تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر انہوں نے ہماری پرستش کی بھی تھی تو ہمارے کہنے سے نہیں بلیہ شیاطین جن کے اشارے پر کی تھی۔ وہ ان کے ایسے معتقد تھے کہ ان کے پیچھے برابر چلتے رہے اور گمراہ ہوتے رہے ہمیں ان سے کوئی سروکار نہ تھا۔

 

فرشتوں کا یہ بیان ان کے پرستاروں پر یہ حقیقت کھول دے گا کہ فرشتوں کو معبود بنانا اور اللہ کا شریک ٹھہرانا صحیح نہ تھا۔

 

۸۴۔۔۔۔۔۔ فرشتوں کے اس بیان کے بعد مشرکین جو ان سے شفاعت کی امید رکھتے تھے مایوس ہو جائیں گے کہ وہ ان کے کچھ کام نہ آسکے۔ یہ ہے اللہ کو چھوڑ کر اور سہاروں پر جینے کا انجام !

 

۸۵۔۔۔۔۔۔ ظالم یعنی غلط کار، جس کا عقیدہ و عمل حق و عدل کے خلاف ہو اور اس بنا پر وہ اپنے نفس پر زیادتی کر رہا ہو۔ اس آیت میں جیسا کہ سیاق و سباق سے (Context)  واضح ہے۔ ظالم سے مراد مشرک اور آخرت کے منکر ہیں۔

 

۸۶۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول نہیں ہے۔

 

۸۷۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی اسمٰعیل میں، ان عربوں میں ،  کتابوں کا نزول نہیں ہوا جس طرح بنی اسرائیل میں تورات ، انجیل وغیرہ کا ہوا تھا۔ یہ ایک امی قوم تھی اور کوئی پیغمبر بھی حضرت اسمٰعیل کے بعد ان میں نہیں بھیجا گیا اس لیے ایک طویل عرصہ کے بعد جو پیغمبر ان میں مبعوث ہوا ہے اور جو کتاب انہیں دی جا رہی ہے اس کا انہیں قدر داں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کا کیسا سامان کیا ہے اور وہ انہیں کتنا اونچا مقام عطا کرنا چاہتا ہے مگر یہ لوگ پیغمبر اور کتاب کی قدر کرنے کے بجائے ان کو جھوٹ اور جادو قرار دے رہے ہیں۔

 

۸۸۔۔۔۔۔۔ مراد ماضی کی وہ قومیں ہیں جن کو زبردست قوت و اقتدار اور معیشت کے وافر ذرائع حاصل تھے مثلاً قوم عاد، قوم فرعون وغیرہ۔ ان کے مقابلہ میں قریش کو نہ وہ قوت و اقتدار حاصل تھا اور نہ وہ خوش حالی۔ ان کے پاس نہ لاؤ لشکر تھا، اور نہ تمدنی ترقی کا سامان اور نہ ہی وسائل معیشت کی فراوانی۔

 

۸۹۔۔۔۔۔۔ یعنی جب وہ طاقتور قومیں رسول کو جھٹلانے کی بنا پر اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکیں تو تم رسول کو جھٹلا کر کس طرح عذاب سے بچ سکتے ہو ؟ جو قوت و دولت اور سامان معیشت تمہیں حاصل ہے اس کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر رسول کی مخالفت پر آمادہ ہو جانا اپنے لیے برے انجام کو دعوت دینا ہے۔

 

۹۰۔۔۔۔۔۔ آدمی اکثر اپنے ماحول اور اپنی سوسائٹی کی رائے سے متاثر ہوتا ہے اور یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ اس لیے اس آیت میں فہمائش کی گئی ہے کہ دو دو آدمی مل کر غور کریں کہ پیغمبر کی باتیں واقعی دیوانہ کی بڑ ہیں یا دانائی و بینائی کا سامان۔ وہ آپس میں سنجیدگی کے ساتھ اس پر گفتگو کر کے صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کریں نیز فرداً فرداً ہر شخص اپنے طور پر بھی غور کرے کہ معاملہ کی نوعیت کیا ہے۔ اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا تو صحیح نتیجہ پر پہنچنا مشکل نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں ضرور اس کی توفیق دے گا کیونکہ جن کو حق کی تلاش ہوتی ہے ان پر اللہ تعالیٰ ضرور حق واضح فرماتا ہے۔

 

۹۱۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک سیرت اور یہ حکمت بھرا قرآن اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ کسی دماغی عارضہ میں ہر گز مبتلا نہیں تھے بلکہ آپ کی دانش مندی کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔

 

۹۲۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے تم سے اجر مانگا ہی نہیں ہے۔ جو کچھ میں نے تم سے طلب کیا ہے وہ یہ ہے کہ تم اس ہدایت کو قبول کرو جو تمہارے رب نے اتاری ہے اور جس کے قبول کرنے میں تمہاری اپنی بھلائی ہے۔ میں بالکل بے لوث ہو کر تمہاری خیر خواہی کر رہا ہوں۔

 

۹۳۔۔۔۔۔۔ یعنی میرا رب جو باتیں بذریعہ وحی مجھ پر نازل کر رہا ہے وہ بالکل حق ہیں اور حق کیوں نہ ہوں جب کہ اسے غیب کے تمام اسرار کا علم ہے اس سے زیادہ اس بات کا جانے والا اور کون ہو سکتا ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا اور حق کیا ہے اور باطل کیا؟

 

۹۴۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ بات واضح طور پر تمہارے سامنے آئی ہے کہ توحید ہی حق ہے۔ رہا باطل یعنی تمہارے خود ساختہ معبود تو وہ نہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور نہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہیں پھر وہ خدا کیسے بن گئے اور عبادت کے مستحق کیسے قرار پائے !

 

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ یونس نوٹ ۶۱۔

 

۹۵۔۔۔۔۔۔ جب فہمائش کے لئے بحث (جدال)  کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے تو کچھ باتیں فرض کر کے بھی کہنا پڑتی ہیں تاکہ مخاطب تعصّب سے بلند ہو کر سوچنے کے لئے آمادہ ہو جاۓ۔ یہاں "اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں" کی بات اسی مناسبت سے کہی گئی ہے۔

 

۹۶۔۔۔۔۔۔ یعنی میرا ہدایت پر ہونا میرے رب ہی کے فضل سے  ہے اور اس کا فضل یہ کہ اس نے مجھ پر وحی نازل کر کے ہدایت کی راہ مجھ پر کھول دی۔

 

۹۷۔۔۔۔۔۔ انسان کی گمراہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کو بہت دور خیال کرتا ہے اور پھر اِدھر ادھر سہارے تلاش کرتا ہے۔ اگر وہ یقین کر لے کہ اللہ بہت قریب ہے اور سب کچھ سنتا ہے تو اسی سے اپنا تعلق استوار کرے اور اسی کو اپنا کارساز سمجھے۔

 

۹۸۔۔۔۔۔۔ یہاں قیامت کا ایک اور منظر پیش کیا جا رہا ہے۔ منکرین آج تو بڑے اطمینان سے حق کی مخالفت کرتے ہیں لیکن قیامت کے دن گھبراہٹ کے عالم میں ہوں گے اور بھاگنا چاہیں گے مگر بھاگ نہ سکیں گے کیونکہ فرشتے قریب ہی میں موجود ہوں گے اور وہ انہیں پکڑ لیں گے۔ کیسا عجیب منظر ہو گا وہ ان کی بے بسی کا!

 

۹۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اس حق پر ایمان لاۓ جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا تھا۔

 

۱۰۰۔۔۔۔۔۔ یعنی ایمان لانے کا وقت گزر چکا۔ جو کام دنیا میں کرنے کا تھا وہ آخرت میں کیوں کر کیا جا سکتا ہے ؟ دنیا امتحان گاہ تھی اور آخرت بدلہ پانے کی جگہ۔ جب آخرت میں پہنچ گئے تو دنیا سے دوری ہو گئی۔ اور امتحان گاہ سے اتنی دور پہنچنے کے بعد ایمان کے حصول کی کوئی صورت ممکن نہیں رہی۔

 

۱۰۱۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں انہیں ایمان لانے کا موقع حاصل تھا مگر اٹکل پچو باتیں کر کے انہوں نے یہ موقع کھو دیا۔

 

۱۰۲۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے اور ان کی اس خواہش کے درمیان کہ وہ دنیا میں پھر لوٹائے جائیں تا کہ وہ ایمان لا سکیں رکاوٹ کھڑی کر دی جائے گی۔ مطلب یہ کہ ان کی یہ خواہش کبھی پوری ہونے والی نہیں۔ اور یہی حشر ان سے پیش رو قوموں کا بھی ہو چکا ہو گا۔

 

۱۰۳۔۔۔۔۔۔ خدا، آخرت اور رسالت کے بارے میں شک میں پڑنے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اطمینان نصیب نہ ہو اور ذہن الجھ کر رہ جائے۔

***