تفسیر عثمانی

سورة سَبَإ

۱ ۔۔۔     یعنی سب خوبیاں اور تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جو اکیلا بلا شریک غیرے تمام آسمانی و زمینی چیزوں کا مالک و خالق اور نہایت حکمت و خبرداری سے ان کی تدبیر کرتا ہے اس نے یہ سلسلہ بے کار پیدا نہیں کیا۔ ایسے حکیم و دانا کی نسبت یہ گمان نہیں ہو سکتا۔ ضرور ہے کہ یہ نظام آخر میں کسی اعلیٰ نتیجہ پر منتہی ہو، اسی کو آخرت کہتے ہیں۔ اور جس طرح دنیا میں وہ اکیلا تمام تعریفوں کا مستحق ہے، آخرت میں بھی صرف اسی کی تعریف ہو گی۔ بلکہ یہاں تو بظاہر اور کسی کی بھی تعریف ہو جاتی تھی کیونکہ مخلوق کا فعل خالق کے فعل کا پردہ اور اس کا کمال اس کے کمال حقیقی کا پردہ تو ہے لیکن وہاں سب وسائط اور پردے اٹھ جائیں گے جو کچھ ہو گا سب دیکھیں گے کہ اس کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اس لیے صورۃً و حقیقۃً ہر حیثیت سے تنہا اسی محمود مطلق کی تعریف رہ جائے گی۔

۲ ۔۔۔      ۱: یعنی آسمان و زمین کی کوئی چھوٹی بڑی چیز اس کے علم سے باہر نہیں۔ جو چیز زمین کے اندر چلی جاتی ہے۔ مثلاً جانور کیڑے مکوڑے نباتات کا بیج، بارش کا پانی، مردہ کی لاش، اور جو اس کے اندر سے نکلتی ہے مثلاً کھیتی، سبزہ، معدنیات وغیرہ اور جو اوپر چڑھتی ہے مثلاً روح، دعاء، عمل اور ملائکہ وغیرہ ان سب انواع و جزئیات پر اللہ کا علم محیط ہے۔

۲:  یعنی یہ سب بستی اور چہل پہل اس کی رحمت اور بخشش سے ہے ورنہ بندوں کی ناشکری اور حق نا شناسی پر اگر ہاتھوں ہاتھ گرفت ہونے لگے تو ساری رونق ایک لمحہ میں ختم کر دی جائے۔ "ولویواخذ اللہ الناس بما کسبوا ماترک علی ظہرہا من دآبۃٍ"(فاطر، رکوع۵)

۳ ۔۔۔     ۱: کیوں نہیں آئے گی۔ اس کا منشاء آگے آتا ہے۔ "اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید۔"

۲: یعنی وہ معصوم و مقدس انسان جس کے صدق و امانت کا اقرار سب کو پہلے سے تھا اور اب براہین ساطعہ سے اس کی صداقت پوری طرح روشن ہو چکی، مؤکد قسم کھا کر اللہ کی طرف سے خبر دیتا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی، پھر تسلیم نہ کرنے کی کیا وجہ، ہاں اگر کوئی محال یا خلاف حکمت بات کہتا تو انکار کی گنجائش ہو سکتی تھی لیکن نہ یہ محال ہے نہ خلاف حکمت۔ پھر انکار کرنا ہٹ دھرمی نہیں تو کیا ہے۔

۳:  یعنی اس عالم الغیب کی قسم جس کے علم محیط سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ یا ذرہ سے چھوٹی بڑی کوئی چیز بھی غائب نہیں۔ شاید یہ اس لیے فرمایا کہ قیامت کے وقت کی تعیین ہم نہیں کر سکتے۔ اس کا علم اسی کو ہے جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ ہم کو جتنی خبر دی گئی بلا کم و کاست پہنچا دی۔ اور اس کا جواب بھی ہو گیا جو کہتے تھے "ءَ اذا ضللنا فی الارض" الخ یعنی جب ہمارے ذرات منتشر ہو کر مٹی میں مل گئے پھر کیسے دوبارہ اکٹھے کیے جائیں گے، تو بتلا دیا کہ کوئی ذرہ اس کے علم سے غائب نہیں۔ اور پہلے بتلایا جا چکا کہ آسمان و زمین کی ہر چیز پر قبضہ اسی کا ہے، لہٰذا اس کو کیا مشکل ہے کہ تمام منتشر ذرات کو ایک دم میں اکٹھا کر دے۔ (تنبیہ) کھلی کتاب سے "لوح محفوظ" مراد ہے جس میں ہر چیز اللہ کے علم کے مطابق ثبت ہے۔

۵ ۔۔۔     یعنی قیامت کا آنا اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو ان کی نیکی اور بدی کا پھل دیا جائے اور حق تعالیٰ کی جملہ صفات کا کامل ظہور ہو (تنبیہ) "جو لوگ دوڑے ہماری آیتوں کے ہرانے کو۔" یعنی ہماری آیتوں کے ابطال اور لوگوں کو قولاً و فعلاً ان سے روکنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ گویا وہ (العیاذ باللہ) اللہ کو عاجز کرنا اور ہرانا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے ہاتھ نہیں آئیں گے۔

۶ ۔۔۔     یعنی اس واسطے قیامت آنی ہے کہ جن لوگوں کو یقین تھا کہ انہیں عین الیقین حاصل ہو جائے اور آنکھوں سے دیکھ لیں کہ قرآن کی خبریں مو بہ مو صحیح و درست ہیں اور بیشک قرآن ہی وہ کتاب ہے جو اس زبردست خوبیوں والے خدا تک پہنچنے کا ٹھیک راستہ بتاتی ہے۔ بعض مفسرین نے "ویری الذین"الخ کا مطلب یہ لیا ہے کہ "وَالَّذِيْنَ سَعَوْ فِيْٓ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ" کے برخلاف جو اہل علم ہیں (خواہ مسلمان یا اہل کتاب) وہ جانتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ قیامت وغیرہ کے متعلق قرآن کریم کا بیان بالکل صحیح ہے اور وہ آدمی کو وصولی الیٰ اللہ کے ٹھیک راستہ پر لے جاتا ہے۔

۸ ۔۔۔     ۱: کفار قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں یہ گستاخی کرتے تھے۔ یعنی آؤ تمہیں ایک شخص دکھلائیں جو کہتا ہے کہ تم گل سڑ کر اور ریزہ ریزہ ہو کر جب خاک میں مل جاؤ گے، پھر تم کو ازسر نو بھلا چنگا بنا کر کھڑا کر دیا جائے گا۔ بھلا ایسی مہمل بات کون قبول کر سکتا ہے۔ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو یہ شخص جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ لگاتا ہے کہ اس نے ایسی خبر دی۔ نہیں تو سودائی ہے۔ دماغ ٹھکانے نہیں دیوانوں کی سی بے تکی باتیں کرتا ہے۔ (العیاذ باللہ)

۲: یعنی نہ جھوٹ ہے نہ جنون۔ البتہ یہ لوگ عقل و دانش اور صدق و صواب کے راستہ سے بھٹک کر بہت دور جا پڑے ہیں۔ اور بیہودہ بکواس کر کے اپنے کو آفت میں پھنسا رہے ہیں۔ فی الحقیقت یہ بڑا عذاب ہے کہ آدمی کا دماغ اس قدر مختل ہو جائے کہ وہ خدا کے پیغمبروں کو مفتری یا مجنون کہنے لگے۔ (العیاذ باللہ)

۹ ۔۔۔      ۱: یعنی کیا یہ لوگ اندھے ہو گئے ہیں کہ آسمان و زمین بھی نظر نہیں آتے جو آگے پیچھے ہر طرف نظر ڈالنے سے نظر آ سکتے ہیں۔ ان کو تو وہ بھی مانتے ہیں کہ اللہ نے بنایا ہے پھر جس نے بنایا اسے توڑنا کیا مشکل ہے اور جو ایسے عظیم الشان اجسام کو بنا سکتا اور توڑ پھوڑ سکتا ہے اسے انسانی جسم کا بگاڑ دینا اور بنانا کیا مشکل ہو گا۔ یہ لوگ ڈرتے نہیں کہ اسی کے آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر رہ کر ایسے گستاخانہ کلمات زبان سے نکالیں۔ حالانکہ خدا چاہے تو ابھی ان کو زمین میں دھنسا کر یا آسمان سے ایک ٹکڑا گرا کر نیست و نابود کر دے اور قیامت کا چھوٹا سا نمونہ دکھلا دے۔

۲: یعنی جو بندے عقل و انصاف سے کام لے کر اللہ کی طرف رجوع ہوتے ہیں، اسی آسمان و زمین میں ان کے لیے بڑی بھاری نشانی موجود ہے وہ اس منظم اور پر حکمت نظام کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ضرور یہ ایک دن کسی اعلیٰ و اکمل نتیجہ پر پہنچنے والا ہے جس کا نام "دارالآخرت" ہے۔ یہ تصور کر کے وہ بیش از بیش اپنے مالک و خالق کی طرف جھکتے ہیں اور جو آسمانی و زمینی نعمتیں ان کو پہنچتی ہیں، تہ دل سے اس کے شکر گزار ہوتے ہیں، ان میں سے بعض بندوں کا ذکر آگے آتا ہے۔

۱۰ ۔۔۔  ۱: یعنی نبوت کے ساتھ غیر معمولی سلطنت عنایت فرمائی۔

۲:  حضرت داؤد علیہ السلام کبھی کبھی جنگل میں نکلتے، خدا کو یاد کرتے، خوف الٰہی سے روتے، تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتے اور اپنی ضرب المثل خوش آوازی سے زبور پڑھتے، اس کی عجیب و غریب تاثیر سے پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح پڑھنے لگتے تھے اور پرندے ان کے گرد جمع ہو کر اسی طرح آواز کرتے۔ حق تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو یہ خاص بزرگی عطا فرمائی تھی۔ ورنہ پہاڑوں کی تسبیح سے مراد محض ان کی آواز بازگشت ہو، یا وہ عام تسبیح جو ہر چیز زبان حال یا قال سے کرتی رہتی ہے تو حضرت داؤد کے مخصوص فضل و شرف کے ذیل میں اس چیز کا ذکر کرنا محض بے معنی ہو گا۔ (العیاذ باللہ) "یاجبال اوبی معہ" کا حکم تکوینی ہے۔

۱۱ ۔۔۔     ۱: یعنی حضرت داؤد علیہ السلام کے حق میں ہم نے لوہے کو موم کی طرح نرم کر دیا۔ بدون آگ اور آلات صناعیہ کے لوہے کو جس طرح چاہتے ہاتھ سے توڑ موڑ لیتے تھے اور اس کی زرہیں تیار کر کے فروخت کرتے تاکہ قوت بازو سے کما کر کھائیں۔ بیت المال پر اپنا بار نہ ڈالیں۔ کہتے ہیں کہ کڑیوں کی زرہ پہلے ان ہی سے نکلی کہ کشادہ رہے۔ حق تعالیٰ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ فراخ و کشادہ زرہیں تیار کرو اور اس کے حلقے اور کڑیاں ٹھیک اندازہ سے جوڑو جو بڑی چھوٹی اور پتلی موٹی ہونے کے اعتبار سے متناسب ہوں۔

۲: یعنی ان صنائع میں پڑ کر منعم حقیقی کی طرف سے غفلت نہ ہونے پائے۔ ہمیشہ عمل صالح کرتے رہو اور یاد رکھو کہ اللہ سب کام دیکھتا ہے۔

۱۲ ۔۔۔    ۱: حضرت سلیمان کا تخت تھا جو فضا میں اڑتا۔ ہوا اس کو شام سے یمن اور یمن سے شام لے چلتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ان کے لیے مسخر کر دیا تھا، ایک مہینہ کی مسافت ہوا کے ذریعہ سے آدھے دن میں طے ہوتی تھی۔ سورہ "انبیاء" اور سورہ "نمل" میں اس کا کچھ بیان گزر چکا ہے اور آگے سورہ "ص " میں آئے گا اور پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یمن کی طرف نکال دیا تھا۔ اس کو سانچوں میں ڈال کر جنات بڑے بڑے برتن (دیگیں اور لگن وغیرہ) تیار کرتے تھے جن میں ایک لشکر کا کھانا پکتا اور کھلایا جاتا۔

۲: یعنی بہت سے جن جنہیں دوسری جگہ شیاطین سے تعبیر فرمایا ہے معمولی قلیوں اور خدمت گاروں کی طرح ان کے کام میں لگے رہتے تھے۔ اللہ کا حکم تھا کہ سلیمان کی اطاعت کریں ذرا سرکشی کی تو آگ میں پھونک دیا جائے گا۔

۱۳ ۔۔۔      ۱: یعنی بڑے بڑے محل، مسجدیں اور قلعے جنات تعمیر کرتے اور مجسم تصویریں بناتے (جو ان کی شریعت میں ممنوع نہیں ہوں گی، شریعت محمدیہ نے منع کر دیا) اور تانبے کے بڑے بڑے لگن بناتے جیسے حوض یا تالاب اور دے گیں تیار کرتے جو اپنی جگہ سے ہل نہ سکتی تھیں۔ ایک ہی جگہ رکھی رہتیں۔

۲: یعنی ان عظیم الشان انعامات و احسانات کا شکر ادا کرتے رہو، محض زبان سے نہیں بلکہ عمل سے وہ کام کرو جن سے حق تعالیٰ کی شکر گزاری ٹپکتی ہو۔ بات یہ ہے کہ احسان تو خدا کم و بیش سب پر کرتا ہے لیکن پورے شکر گزار بندے بہت تھوڑے ہیں، جب تھوڑے ہیں تو قدر زیادہ ہو گی۔ لہٰذا کامل شکر گزار بن کر اپنی قدر و منزلت بڑھاؤ۔ یہ خطاب داؤد کے کنبے اور گھرانے کو ہے، کیونکہ علاوہ مستقل احسانات کے داؤد پر احسان من وجہ سب پر احسان۔ کہتے ہیں کہ داؤد علیہ السلام نے تمام گھر والوں پر اوقات تقسیم کر دیئے تھے۔ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت ایسا نہ تھا جب ان کے گھر میں کوئی نہ کوئی شخص عبادت الٰہی میں مشغول نہ رہتا ہو۔

۱۴ ۔۔۔   حضرت سلیمان علیہ السلام جنوں کے ہاتھوں مسجد بیت المقدس کی تجدید کرا رہے تھے جب معلوم کیا کہ میری موت آ پہنچی جنوں کو نقشہ بتا کر آپ ایک شیشہ کے مکان میں دربند کر کے عبادت الٰہی میں مشغول ہو گئے جیسا کہ آپ کی عادت تھی کہ مہینوں خلوت میں رہ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ اسی حالت میں فرشتہ نے روح قبض کر لی اور آپ کی نعش مبارک لکڑی کے سہارے کھڑی رہی۔ کسی کو آپ کی وفات کا احساس نہ ہو سکا۔ وفات کے بعد مدت تک جن بدستور تعمیر کرتے رہے۔ جب تعمیر پوری ہو گئی جس عصا پر ٹیک لگا رہے تھے گھن کے کھانے سے گرا، تب سب کو وفات کا حال معلوم ہوا۔ اس سے جنات کو خود اپنی غیب دانی کی حقیقت کھلی گئی اور ان کے معتقد انسانوں کو بھی پتہ لگ گیا کہ اگر انہیں غیب کی خبر رہتی تو کیا اس ذلت آمیز تکلیف میں پڑے رہتے۔ حضرت سلیمان کی وفات کو محسوس کرتے ہی کام چھوڑ دیتے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ شیاطین وغیرہ کی تسخیر کچھ حضرت سلیمان کا کسبی کمال نہ تھا محض فضل ایزدی تھا۔ جو اللہ چاہے تو موت کے بعد ایک لاش کے حق میں بھی قائم رکھ سکتا ہے۔ نیز سلیمان علیہ السلام پر زندگی میں جو انعامات ہوئے تھے یہ اس کی تکمیل ہوئی کہ موت کے بعد بھی ایک ضروری حد تک انہیں جاری رکھا گیا۔ اور بتلا دیا کہ پیغمبروں کے اٹھائے ہوئے کاموں کو اللہ تعالیٰ کس کس تدبیر سے پورا کراتا ہے۔ (ربط) یہاں تک بعض منیب اور شکر گزار بندوں کا ذکر تھا۔ آگے ایک معرض و نا سپاس قوم (سبا) کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جو بڑے عیش و رفاہیت اور خوشحالی و فارغ البالی کے بعد کفر و نا سپاسی کی سزا میں تباہ کی گئی۔ یہ قوم یمن کی بڑی دولت مند اور ذی اقتدار قوم تھی جو صدیوں تک بڑے جاہ و جلال سے ملک پر حکومت کرتی رہی۔ ان ہی میں ایک وہ ملکہ تھی (بلقیس) جس کا حضرت سلیمان کی بارگاہ میں حاضر ہونا سورہ "نمل" میں گزر چکا ہے۔ شاید یہاں سلیمان کے بعد "سبا" کا ذکر اس مناسبت سے بھی ہوا ہو۔

۱۵ ۔۔۔      ۱: یعنی باغوں کے دو طویل سلسلے داہنے اور بائیں میلوں تک چلے گئے تھے۔ اگر سمجھتے تو خدا کی رحمت و قدرت کی یہ ہی نشانی ایمانی لانے اور شکر گزار بننے کے لئے کافی تھی۔

۲: گویا وہ نشانی زبان حال سے کہہ رہی تھی کہ اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوا اور اس منعم حقیقی کا شکر ادا کرو۔ کفر و عصیان اختیار کر کے ناشکرے منت بنو۔ یا جیسا کہ بعض سلف کا قول ہے انبیاء کی زبانی اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی ہو گی۔ کہتے ہیں تیرہ نبی اس قوم کی طرف بھیجے گئے۔ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت مسیح سے پہلے آئے ہوں گے اور ان کے وارث بعد کو بھی اس قوم کی بربادی کے وقت تک سمجھاتے رہے ہوں گے۔ واللہ علم۔

۳:   مصنف "ارض القرآن"،"سبا" کی عمارتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے "اسی سلسلہ عمارات میں ایک چیز بند آب ہے جس کو عرب حجاز "سد" اور عرب یمن "عرم" کہتے ہیں۔ عرب کے ملک میں کوئی دائمی دریا نہیں۔ پانی پہاڑوں سے بہہ کر ریگستانوں میں خشک اور ضائع ہو جاتا ہے۔ زراعت کے مصرف میں نہیں آتا۔ "سبا" مختلف مناسب موقعوں پر پہاڑوں اور وادیوں کے بیچ میں بڑے بڑے بند باندھ دیتے تھے کہ پانی رک جائے اور بقدر ضرورت زراعت کے کام میں آئے۔ مملکت "سبا" میں اس طرح کے سینکڑوں بند تھے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور "سد مارب" ہے جو ان کے دارالحکومت " مارب" میں واقع تھا۔ شہر مارب کے جنوب میں داہنے بائیں دو پہاڑ ہیں جن کا نام کوہ ابلق ہے۔ سبا نے ان دو پہاڑوں کے بیچ میں تقریبا ۸۰۰ ق م میں "سد باب" کی تعمیر کی تھی۔ یہ بند تقریبا ایک سو پچاس فٹ لمبی اور پچاس فٹ چوڑی ایک دیوار ہے۔ اس کا اکثر حصہ تو اب افتادہ ہے تاہم ایک ثلث دیوار اب بھی باقی ہے۔ "ارناڈ" ایک یورپین سیاح نے اس کے موجودہ حالات پر ایک مضمون فرنچ ایشاٹک سوسائٹی کے جرنل میں لکھا ہے اس کا موجودہ نقشہ نہایت عمدگی سے تیار کیا ہے۔ اس دیوار پر جابجا کتبات ہیں وہ بھی پڑھے گئے۔ اس سد میں اوپر نیچے بہت سی کھڑکیاں تھیں جو حسب ضرورت کھولی اور بند کی جا سکتی تھیں۔ "سد" کے دائیں بائیں مشرق و مغرب میں دو بڑے بڑے دروازے تھے جن سے پانی تقسیم ہو کر چپ و راست کی زمینوں کو سیراب کرتا تھا۔ اس نظام آب رسانی سے چپ و راست دونوں جانب اس ریگستانی اور شور ملک کے اندر تین سو میل مربع میں سینکڑوں کوس تک بہشت زار تیار ہو گئی تھی جس میں انواع و اقسام کے میوے اور خوشبودار درخت تھے۔ قرآن کریم "جتنن عن یمین وشمال" کہہ کر ان ہی باغوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یونانی مورخ "اگاتھر شیڈس" جو ۱۴۵ ق م میں "سبا" کا معاصر تھا بیان کرتا ہے۔ "سبا عرب کے سر سبز و آباد حصہ میں رہتے ہیں جہاں بہت اچھے اچھے بیشمار میوے ہوتے ہیں۔ دریا کے کنارے جو زمین ہے اس میں نہایت خوبصورت درخت ہوتے ہیں۔ اندرون ملک میں بخورات، دارچینی اور چھوارے کے نہایت بلند درختوں کے گنجان جنگل ہیں اور ان درختوں سے نہایت شیریں خوشبو پھیلا کرتی ہے۔ درختوں کے اقسام کی کثرت و تنوع کے سبب سے ہر قسم کا نام و وصف مشکل ہے جو خوشبو اس میں سے اڑتی ہے وہ جنت کی خوشبو سے کم نہیں اور جس کی تعریف لفظوں میں ادا نہیں ہو سکتی۔ جو اشخاص زمین سے دور ساحل سے گزرتے ہیں، وہ بھی جب ساحل کی طرف سے ہوا چلتی ہے تو اس خوشبو سے محظوظ ہوتے ہیں۔ وہ گویا آب حیات کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اور یہ تشبیہ بھی اس کی قوت و لطافت کے مقابل میں ناقص ہے۔" آرٹی میڈروس جو "سبا" کے عہد آخر میں تھا لکھتا ہے۔ "سبا" کا بادشاہ اور اس کا ایوان " مارب" میں ہے جو ایک پر اشجار پہاڑ پر عیش و مسرت (زنانہ خوشحالی) میں واقع ہے۔" غرض باعتبار سر سبزی، خوشحالی، سامان عیش اور اعتدال آب و ہوا کے "مارب" اسی کا مصداق تھا۔ "بلدۃ طیبۃ و رب غفور"، "رب غفور" سے ادھر اشارہ کر دیا کہ اپنی طرف سے شکر گزار بنو۔ اگر بمقتضائے بشریت کچھ تقصیر رہ جائے گی تو اللہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایسا سخت نہیں پکڑتا۔ اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا۔ اس کی نعمتوں کا شکر کما حقہ کس سے ادا ہو سکتا ہے۔

۱۶ ۔۔۔     یعنی نصیحتوں کو خاطر میں نہ لائے اور منعم حقیقی کی شکر گزاری سے منہ موڑے رہے تب ہم نے پانی کا عذاب بھیج دیا۔ وہ بند ٹوٹا تمام باغات اور زمینیں غرقاب ہو گئیں۔ اور ان اعلیٰ درجہ کے نفیس میووں اور پھلوں کی جگہ نکمے درخت اور جھاڑ جھنکاڑ رہ گئے جہاں انگور چھوارے اور قسم قسم کی نعمتیں پیدا ہوتی تھیں اب وہاں پیلو، جھاؤ، کسیلے اور بدمزہ پھل والے درختوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ جن میں بہترین چیز تھوڑی سی جھڑ بیریوں کو سمجھ لو۔ یہ واقعہ حضرت مسیح اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیانی عہد کا ہے محققین آثار قدیمہ کو ابرہتہ الاشرم کے زمانہ کا ایک بہت بڑا کتبہ سد عرم کی بقیہ دیوار پر ملا ہے اس میں بھی اس بند کے ٹوٹنے کا ذکر ہے۔ مگر یہ غالباً اس واقعہ کے بعد ہوا جس کا ذکر قرآن میں ہے واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "جب اللہ نے چاہا عذاب بھیجے، گھونس پیدا ہوئی اس پانی کے بند میں اس کی جڑ کرید ڈالی، ایک بار پانی نے زور کیا۔ بند کو توڑ ڈالا، وہ پانی عذاب کا تھا جس زمین پر پھر گیا کام سے جاتی رہی کہتے ہیں کہ بند ٹوٹنے کی پیشین گوئی ایک کاہن نے کی تھی اس پر بہت لوگ وطن چھوڑ کر ادھر ادھر چلے گئے، جو باقی رہے انہیں ان باغوں کے بدلے یہ نکمی اور کڑوی کسیلی چیزیں ملیں۔ واللہ اعلم۔

۱۷ ۔۔۔   ایسی سخت سزا بڑے ناشکروں کو دی جاتی ہے۔ کفر سے بڑھ کر کیا ناشکری ہو گی۔ سورہ "نمل" میں گزر چکا "وجدتہا وقومہا یسجدون للشمس من دون اللہ" الخ (نمل، رکوع۲) بظاہر اس قسم کا شرک اس قوم میں بلقیس کے بعد بھی باقی رہا ہو گا۔

۱۸ ۔۔۔   برکت والی بستیاں ملک شام کی ہیں یعنی ان کے ملک سے شام تک راستے مامون تھے۔ سڑک کے کنارے کنارے دیہات کا سلسلہ ایسے اندازے اور تناسب سے چلا گیا تھا کہ مسافر کو ہر منزل پر کھانا، پانی اور آرام کرنے کا موقع ملتا تھا۔ آبادیوں کے قریب ہونے اور جلد جلد نظر آنے سے مسافر کا جی نہیں گھبراتا تھا، نہ چوروں ڈاکوؤں کا خوف تھا۔ سفر کیا تھا ایک طرح کی سیر تھی۔ مصنف ارض القرآن لکھتا ہے۔ "سبا" کی دولت و ثروت کی اساس صرف تجارت تھی۔ یمن ایک طرف سواحل ہندوستان کے مقابل واقع ہے۔ اور دوسری طرف سواحل افریقہ کے۔ سونا، بیش قیمت پتھر، مسالہ، خوشبوئیں، ہاتھی دانت، یہ چیزیں حبش اور ہندوستان سے ٹھیک یمن آ کر اترتی تھیں، وہاں سے سبا اونٹوں پر لاد کر بحر احمر کے کنارے خشکی حجاز سے گزر کر شام و مصر لاتے تھے۔ قرآن مجید نے اس راستہ کو "امام مبین" (کھلا راستہ) اور اسی سفر کا نام "رحلۃ الشتاء والصیف" رکھا ہے جس کو قریش نے جاری کیا تھا۔ ان تجارتی کاروانوں کی آمد و رفت کے سبب یمن سے شام تک آبادیوں کی ایک قطار قائم تھی۔ جہاں بے خوف و خطر سفر ہو سکتا تھا۔ "یونانی مورخ اراؤ ستہنس ۱۹۴ ق م بیان کرتا ہے، کہ "حضر موت" سے سبا کے ملک تک چالیس روز کا راستہ ہے اور معین سے سوداگر ستر دن میں ایلہ (عقبہ) پہنچتے ہیں۔

۱۹ ۔۔۔       ۱: زبان حال سے کہا ہو گا اور ممکن ہے زبان قال سے کہنے لگے ہوں کہ اے اللہ! اس طرح سفر کا لطف نہیں آتا۔ منزلیں دور ہوں، آس پاس آبادیاں نہ ملیں، بھوک پیاس ستائے، تب سفر کا مزہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "آرام میں مستی آئی لگے تکلیف مانگنے کہ جیسے اور ملکوں کی خبر سنتے ہیں سفروں میں پانی نہیں ملتا، آبادی نہیں ملتی۔ ویسا ہم کو بھی ہو۔ یہ بڑی ناشکری ہوئی۔ جیسے بنی اسرائیل نے من و سلویٰ سے اکتا کر لہسن و پیاز کی طلب کی تھی۔

۲:  یعنی ہم نے شیرازہ بکھیر دیا اور ان کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ اکثر خاندان ادھر ادھر منتشر ہو گئے کوئی ایک طرف کوئی دوسری طرف نکل گیا۔ آبادیوں کے نام و نشان حرف غلط کی طرف مٹ گئے۔ اب ان کی صرف کہانیاں باقی رہ گئیں کہ لوگ سنیں اور عبرت پکڑیں۔ ان کا وہ عظیم الشان تمدن اور شان و شکوہ سب خاک میں مل گیا۔ صاحب "ارض القرآن" ان کے زوال و سقوط کی توجیہ اس طرح کرتا ہے کہ یونانیوں اور رومیوں نے مصر و شام پر قبضہ پا کر ہندوستان و افریقہ کی تجارت کو بری راست سے بحری راستہ کی طرف منتقل کر دیا اور تمام مال کشتیوں کے ذریعہ سے بحر احمر کی راہ مصر و شام کے سواحل پر اترنے لگا۔ اس طریق سفر نے یمن سے شام تک خاک اڑا دی اور سبا کی نو آبادیاں تباہ ہو کر رہ گئیں۔ "مصنف موصوف نے یہ توجیہ مولر کی تحریر سے اخذ کی ہے ممکن ہے تباہی اور انتشار کا ایک ظاہری سبب یہ بھی ہو۔ مگر اس پر حصر کر دینا صحیح نہیں۔

۳: یعنی ان حالات کو سن کر چاہیے عقلمند عبرت حاصل کریں جب اللہ فراخی اور عیش دے خوب شکر ادا کرتے رہیں اور تکلیف و مصیبت آئے تو صبر و تحمل اختیار کر کے اللہ سے مدد مانگیں۔

۲۰ ۔۔۔     پہلے دن ابلیس نے تخمینہ کر کے کہا تھا "لاحتنکن ذریتہ الا قیلا" (اسرائ، رکوع۲) اور "تم لا تینہم من بین ایدیہم ومن خلفہم وعن ایمانہم وعن شمآئلہم ولاتجد اکثر ہم شاکرین۔" (اعراف، رکوع۲) ویسے ہی نکلے۔

۲۱ ۔۔۔     یعنی شیطان کو یہ قدرت نہ تھی کہ لاٹھی لے کر ان کو زبردستی راہ حق سے روک دیتا۔ ہاں بہکاتا پھسلاتا ہے اور اتنی قدرت بھی اس لیے دی گئی کہ بندوں کا امتحان و ابتلاء منظور تھا۔ دیکھیں کون آخرت پر یقین کر کے خدا کو یاد رکھتا ہے اور کون دنیا میں پھنس کر انجام سے غافل ہو جاتا ہے اور بیوقوف بن کر شک یا دھوکہ میں پڑ جاتا ہے۔ اللہ کی حکمت کا مقتضاء یہی یہ تھا کہ دنیا میں انسان کے لیے دونوں طرف جانے کے راستے کشادہ رکھیں۔ جیسا کہ پہلے کئی جگہ اس کی تقریر ہو چکی ہے ایسا نہیں کہ (معاذ اللہ) خدا کو خبر نہ ہو۔ بے خبری میں شیطان کسی بندے کو اچک لے جائے۔ خوب سمجھ لو کہ ہر چیز اللہ کی نگاہ میں ہے اور تمام احوال و شؤن کی دیکھ بھال وہ ہی ہمہ وقت کرتا ہے جس کو جتنی آزادی دے رکھی ہے وہ عجز و سفہ سے نہیں، حکمت و مصلحت کی بناء پر ہے۔

۲۲ ۔۔۔     یہاں سے مشرکین مکہ کو خطاب ہے جن کی تنبیہ کے لیے "سبا" کا قصہ سنایا تھا۔ یعنی اللہ کے سوا جن چیزوں پر تم کو خدائی کا گمان ہے ذرا کسی آڑے وقت میں ان کو پکارو تو سہی دیکھیں وہ کیا کام کرتے ہیں۔

۲۳ ۔۔۔      ۱: یعنی یہ مسکین کیا کام آتے جنہیں آسمان و زمین میں نہ ایک ذرہ کا مستقل اختیار ہے (بلکہ بتوں کو تو غیر مستقل بھی نہیں) نہ آسمان و زمین میں ان کی کچھ شرکت نہ خدا کو کسی کام میں مدد کی ضرورت، جو یہ اس کے معین و مددگار بن کر ہی کچھ حقوق جتلاتے۔ اس کی بارگاہ تو وہ ہے جہاں بڑے بڑے مقربین کی یہ بھی طاقت نہیں کہ بدون اذن و رضا کے کسی کی نسبت ایک حرف سفارش ہی زبان سے نکال سکھیں۔ انبیاء و اولیاء اور ملائکۃ اللہ کی شفاعت بھی صرف انہی کے حق میں نافع ہو گی جن کے لیے ادھر سے سفارش کا حکم مل جائے۔

۲: یہ فرشتوں کا حال فرمایا جو ہمہ وقت اس بارگاہ کے حاضر باش ہیں۔ جب اوپر سے اللہ کا حکم اترتا ہے ایسی آواز آتی ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر کھینچی جائے۔ (شاید اتصال و بساطت کو قریب الی الفہم کرنے کے لیے یہ تشبیہ دی گئی) فرشتے دہشت اور خوف و رعب سے تھرا جاتے ہیں اور تسبیح کرتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ جب یہ حالت رفع ہو کر دل کو تسکین ہوئی اور کلام اتر چکا۔ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا حکم ہوا۔ اوپر والے فرشتے نیچے والوں کو درجہ بدرجہ بتاتے ہیں جو اللہ کی حکمت کے موافق ہے اور آگے سے قائدہ معلوم ہے وہ ہی حکم ہوا۔ ظاہر ہے وہاں معقول اور واجبی بات کے سوا کیا چیز ہو سکتی ہے۔ پس جس کے علو و عظمت کی یہ کیفیت ہو کہ حکم دے تو مقربین کا مارے ہیبت وجلال کے یہ حال ہو جائے وہاں کس کی ہمت ہے کہ از خود سعی و سفارش کے لیے کھڑا ہو جائے (تنبیہ) آیت کی اور تفسیریں بھی کی گئی ہیں جن کی نسبت حافظ ابن حجر لکھتے ہیں "وجمیع ذلک مخالف لہذا الحدیث الصحیح (الذی فی البخاری) ولا حادیث کثیرۃ تویدہ (فتحالباری صفحہ ۱۳/۳۸۱)

۲۴ ۔۔۔      ۱: یعنی آسمان و زمین سے روزی کے سامان بہم پہنچانا صرف اللہ کے قبضہ میں ہے اس کا اقرار مشرکین بھی کرتے تھے لہٰذا آپ بتلا دیں کہ یہ تم کو بھی مسلم ہے پھر الوہیت میں دوسرے شریک کہاں سے ہو گئے۔

۲: یعنی دونوں فرقے تو سچ نہیں کہتے (ورنہ اجتماع نقیضین لازم آ جائے) یقیناً دونوں میں ایک سچا اور ایک جھوٹا ہے تو لازم ہے کہ سوچو اور غور کر کے سچی بات قبول کرو۔ اس میں ان کا جواب ہے جو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ میاں! دونوں فرقے ہمیشہ سے چلے آئے ہیں کیا ضروری ہے جھگڑنا۔ تو بتلا دیا کہ ایک یقیناً خطا کار اور گمراہ ہے۔ باقی تعیین نہ کرنے میں حکیمانہ حسن خطاب ہے یعنی لوہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ بہرحال ایک تو یقیناً غلطی پر ہو گا۔ اب اوپر کے دلائل سن کر تم ہی خود فیصلہ کر لو کہ کون غلطی پر ہے۔گویا مخالف کو نرمی سے بات کر کے اپنے نفس میں غور کرنے کا موقع دیا جاتا ہے

۲۶ ۔۔۔    یعنی ہر ایک کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے۔ کوئی شخص دوسرے کے قصور اور غلطی کا جواب دہ نہ ہو گا اگر اتنی صاف باتیں سننے کے بعد بھی تم اپنی حالت میں غور کرنے کے لیے تیار نہیں تو یاد رکھو ہم حجت تمام کر چکے۔ اور کلمہ حق پہنچا چکے۔ اب تم اپنے اعمال کے خود جواب دہ ہو گے ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ نہ ایسی حالت میں ہمارا تمہارا کوئی واسطہ۔ خدا کے یہاں حاضر ہونے کے لیے ہر ایک اپنی اپنی فکر کر رکھے۔ وہ سب کو اکٹھا کر کے ٹھیک ٹھیک انصاف کا فیصلہ کر دے گا۔

۲۷ ۔۔۔      ۱: یعنی ذرا سامنے تو کرو کون سی ہستی ہے جو اس کی خدائی میں ساجھا رکھتی ہے؟ ہم بھی تو دیکھیں کہ اس کے کیا کچھ اختیارات ہیں۔ کیا ان پتھر کی بیجان اور خود تراشیدہ مورتوں کو پیش کرو گے۔

۲:   یعنی ہرگز تم ایسی کوئی ہستی پیش نہیں کر سکتے۔ وہ تو اکیلا ایک ہی خدا ہے جو زبردست، غالب و قاہر اور اعلیٰ درجہ کی حکمت و دانائی رکھنے والا ہے۔ سب اس کے سامنے مغلوب و مقہور ہیں۔

۲۸ ۔۔۔    یہ توحید کے ساتھ رسالت کا ذکر کر دیا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرض اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کی غرض یہ ہی ہے کہ نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا کے لوگوں کو ان کے نیک و بد سے آگاہ کر دیں سو کر دیا۔ جو نہیں سمجھتے وہ جانیں۔ سمجھدار آدمی تو اپنے نفع نقصان کو سوچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کو ضرور مانیں گے۔ ہاں دنیا میں کثرت جاہلوں اور نا سمجھوں کی ہے۔ ان کے دماغوں میں کہاں گنجائش ہے کہ کار آمد باتوں کی قدر کریں۔

۲۹ ۔۔۔    یعنی جس گھڑی سے ڈراتے ہو وہ کب آئے گی۔ اگر سچے ہو تو جلدی لا کر دکھلا دو۔

۳۰ ۔۔۔      یعنی گھبراؤ نہیں۔ جس دن کا وعدہ ہے ضرور آ کر رہے گا۔ جب آئے گا تو ایک منٹ کی مہلت نہ ملے گی۔ جلدی مچانے کے بجائے اس کی ضرورت ہے کہ اس وقت کے آنے سے پہلے کچھ تیاری کر رکھو۔

۳۱ ۔۔۔     ۱: یعنی ہم نہ قرآن کو مانیں نہ اگلی کتابوں کو جنہیں تم آسمانی کتابیں بتلاتے ہو۔ مثلاً تورات و انجیل وغیرہ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں جہاں دیکھو وہ ہی حساب کتاب اور قیامت کا مضمون ہے۔ سو ان چیزوں کو ہم ہرگز تسلیم کرنے والے نہیں۔

۲: یعنی جیسے نا کامیابی کے وقت ہوتا ہے کہ ہر ایک دوسرے کو ناکامیابی کا سبب گردانتا ہے۔ محشر میں بھی کفار ایک دوسرے کو مورد الزام بنائیں گے جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔

۳:   دنیا میں جو لوگ نیچے کے طبقہ میں شمار ہوتے تھے اور دوسروں کے پیچھے چلتے تھے وہ اپنے بڑے سرداروں کو الزام دیں گے کہ تم نے ہمیں اس مصیبت میں پھنسوایا۔ تمہاری روک نہ ہوتی تو ہم ضرور پیغمبروں کی بات مان لیتے اور یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔

۳۲ ۔۔۔    یعنی جب تمہارے پاس حق بات پہنچ گئی اور سمجھ میں آ گئی تھی کیوں قبول نہ کی کیا ہم نے زبردستی تمہارے دلوں کو ایمان و یقین سے روک دیا تھا چاہیے تھا کہ کسی کی پروا نہ کر کے حق کو قبول کر لیتے۔ اب اپنا جرم دوسروں کے سر کیوں رکھتے ہو؟

۳۳ ۔۔۔      ۱: یعنی بیشک تم نے زبردستی مجبور تو نہ کیا تھا۔ مگر رات دن مکر و فریب اور مغویانہ تدبیر سے ہم کو بہکاتے پھسلاتے رہتے تھے۔ جب ملے یہ تلقین کی کہ ہم پیغمبروں کے ارشاد کے موافق خدا کو ایک نہ مانیں۔ بلکہ بعض مخلوقات کو بھی اس کا مماثل اور برابر کا شریک سمجھیں۔ آخر تمہاری شب و روز کی ترغیب و ترہیب کا کہاں تک اثر نہ ہوتا۔

۲:  یعنی جس وقت ہولناک عذاب سامنے آئے گا تابعین اور متبوعین دونوں اپنے اپنے دل میں پچھتائیں گے۔ ہر ایک محسوس کرے گا کہ واقعی میں مجرم اور قصور وار ہوں۔ لیکن شرم کے مارے ایک دوسرے پر ظاہر نہ کریں گے اور شدید اضطراب و خوف سے شاید بولنے کی قدرت بھی نہ ہو۔

۳:   گردنوں میں طوق اور ہاتھ پاؤں میں زنجیریں پڑی ہوں گی۔

۴:  یعنی جو عمل کیے تھے آج وہ اس سزا کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں جیسا کرنا ویسا بھرنا۔

۳۴ ۔۔۔     یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی کہ آپ رؤسائے مکہ کے انحراف و سرکشی سے مغموم نہ ہوں۔ ہر زمانہ میں پیغمبروں کا مقابلہ ایسے ہی بدبخت رئیسوں نے کیا ہے۔ دولت و ثروت کا نشہ اور اقتدار طلبی کا جذبہ آدمی کو اندھا کر دیتا ہے۔ وہ کسی کے سامنے گردن جھکانا اور چھوٹے آدمیوں کے برابر بیٹھنا گوارا نہیں کرتا۔ اسی لیے انبیاء کے اول متبعین عموماً ضعیف و مسکین لوگ ہوتے ہیں کما ورد فی حدیث ہرقل۔

۳۵ ۔۔۔      یعنی معلوم ہوا خدا ہم سے خوش اور راضی ہے ورنہ اتنا مال و اولاد کیوں دیتا۔ جب وہ خوش ہے تو ہم کو کسی آفت کا اندیشہ نہیں۔ تم فضول عذاب کی دھمکیاں دیتے ہو۔

۳۶ ۔۔۔     یعنی روزی کی فراخی یا تنگی اللہ کے خوش یا ناخوش ہونے کی دلیل نہیں۔ دیکھتے نہیں۔ دنیا میں کتنے بدمعاش، شریر، دہریے ملحد (ناستک) مزے اڑاتے ہیں حالانکہ ان کو کوئی مذہب بھی اچھا نہیں کہتا۔ اور بہت سے خدا پرست پرہیزگار اور نیک بندے بظاہر فاقے کھینچتے ہیں، تو معلوم ہوا کہ دولت و افلاس یا تنگی و فراخی کسی کے محبوب و مقبول عند اللہ ہونے کی دلیل نہیں۔ یہ معاملات تو دوسری مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہیں جن کو اللہ ہی جانتا ہے مگر بہت لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے ومن الدلیل علی القضاء وحکمہ بؤس اللبیب وطیب عیش الاحمق

۳۷ ۔۔۔   ۱:یعنی مال و اولاد کی کثرت نہ قرب الٰہی کی علامت ہے جیسا کہ اوپر کی آیت میں گزرا ہے۔ اور نہ قرب حاصل کرنے کا سبب ہے۔ بلکہ اس کے برعکس کافر کے حق میں زیادت بعد کا سبب بن جاتا ہے۔ ہاں مومن اگر مال و دولت اور شائستہ بنائے، ایسا مال و اولاد ایک درجہ میں قرب الٰہی کا سبب بنتا ہے۔ بہرحال وہاں مال و اولاد کی پوچھ نہیں۔ محض ایمان و عمل صالح کی پرستش ہے۔

۲:  یعنی کام پر جتنے اجر کا استحقاق ہے اس سے زائد بدلہ ملے گا۔ کم از کم دس گنا اور زیادہ سے ہو تو سات سو گنا بلکہ اللہ چاہے تو اس سے بھی زیادہ جس کی کوئی حد نہیں۔ واللہ یضاعف لمن یشاءُ (بقرہ، رکوع۳۶) یہاں ضعف سے مطلقا زیادت مراد ہے۔

۳۸ ۔۔۔     یعنی جو بدبخت اللہ کی آیات کو رد کرتے اور ان پر طعن کر کے لوگوں کو ادھر سے روکتے ہیں گویا سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ و رسول کو ہرا دیں گے۔ وہ سب عذاب میں گرفتار ہو کر حاضر کیے جائیں گے ایک بھی چھوٹ کر نہ بھاگ سکے گا۔

۳۹ ۔۔۔     یہ مسلمانوں کو سنایا کہ تم وجودہ خیر میں خرچ کرتے وقت تنگی اور افلاس سے نہ ڈرنا۔ خرچ کرنے سے رزق کم نہیں ہو جاتا جو مقدر ہے پہنچ کر رہے گا۔ اللہ اپنی حکمت سے جس کو جتنا دینا چاہے اس میں تمہارے خرچ کرنے نہ کرنے سے فرق نہیں پڑتا بلکہ وجوہ خیر میں خرچ کرنے سے برکت ہوتی ہے اور حق تعالیٰ اس کا عوض دیتا ہے خواہ مال کی صورت میں یا قناعت و غنائے قلبی کی شکل میں اور آخرت میں بدلہ ملنا تو یقینی ہے۔ غرض اس کے ہاں کچھ کمی نہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھے اور اس کی مرضی کے سامنے فقر و فاقہ کا اندیشہ دل میں نہ لائے۔ "ولا تخش من ذی العرش اقلالا" (تنبیہ) آیت میں گویا اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ جس طرح دنیا میں تنگی اور فراخی کے اعتبار سے لوگوں کا حال متفاوت ہے، آخرت میں بھی باعتبار مراتب ثواب و عذاب کے ایسا ہی تفاوت ہو گا۔

۴۰ ۔۔۔      بہت مشرکین فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ بہت ان کے ہیاکل بنا کر پرستش کرتے تھے بلکہ بعض نے لکھا ہے کہ اصنام پرستی کی ابتداء ملائکہ پرستی ہی سے ہوئی۔ اور عمرو بن لحی یہ رسم قبیح شام سے حجاز میں لایا۔ بہرحال قیامت کے دن کفار کو سنا کر فرشتوں سے سوال کریں گے کہ کیا یہ لوگ تم کو پوجتے تھے؟ شاید یہ مطلب ہو کہ تم نے تو ان سے ایسا نہیں کہا۔ یا تم ان کے فعل سے خوش تو نہیں ہوئے۔ جیسے حضرت مسیح علیہ السلام سے سوال ہو گا۔ "ءَ انت قلت للناس اتجذونی وامی الہین من دون اللہ" (مائدہ، رکوع۱۶) اور سورہ فرقان میں ہے "ءَ انتم اضللتم عبادی ہولائِ" (فرقان، رکوع۲)

۴۱ ۔۔۔     یعنی آپ کی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی کسی درجہ میں اس کا شریک ہو۔ (العیاذ باللہ) ہم کیوں ان کو ایسی بات کہنے لگے تھے یا ایسی واہیات حرکت سے خوش ہوتے۔ ہماری رضا تو آپ کی رضا کے تابع ہے۔ ہم کو ان مجرموں سے کیا واسطہ ہم تو آپ کے فرمانبردار غلام ہیں پھر یہ بدبخت تو حقیقت میں ہماری پرستش بھی نہیں کرتے تھے۔ نام ہمارا لے کر شیطانوں کی پرستش تھی، فی الحقیقت ان کی عقیدت مندی ان ہی کے ساتھ ہے شیاطین ان کو جس طرف ہانکتے ہیں ادھر ہی مڑ جاتے ہیں خواہ فرشتوں کا نام لے کر یا کسی نبی اور ولی کا۔ بلکہ بعض تو اعلانیہ شیطان ہی کو پوجتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے کسی جگہ غالباً سورہ "انعام" میں ہم مفصل لکھ چکے ہیں۔

۴۲ ۔۔۔     یعنی آج عابد اور معبود دونوں کا عجز واضح ہو گیا کہ کوئی کسی کو ذرہ بھر نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جن معبودین کا بڑا سہارا سمجھتے تھے انہوں نے اس طرح وقت پر بیزاری ظاہر کر دی۔

۴۳ ۔۔۔       یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت آپس میں کہتے تھے کہ یہ شخص نبی رسول کچھ نہیں۔ بس اتنی غرض ہے کہ ہمارے باپ داداوں کا طریقہ چھڑا کر (جس کو ہم قدیم سے حق جانتے چلے آئے ہیں) اپنے ڈھب پے لے آئے اور خود حاکم و متبوع بن کر بیٹھ جائے۔ گویا صرف حکومت و ریاست مطلوب ہے۔ (العیاذ باللہ)

     یعنی قرآن کیا ہے (العیاذ باللہ) چند جھوٹی باتیں جو خدا کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں۔ ف۷    یعنی یہ نبوت کا دعویٰ جس کے ساتھ چند معجزات و خوارق کی نمائش کی گئی ہے یا مذہب اسلام جس نے آخر میاں کو بیوی سے اور باپ کو بیٹے سے جدا کر دیا ہے۔ یا قرآن جس کی تاثیر لوگوں کے دلوں پر غیر معمولی ہوتی ہے، صریح جادو کے سوا اور کچھ نہیں (العیاذ باللہ)

۴۴ ۔۔۔       یعنی محض امی تھے نہ کوئی کتاب سماوی ان کے ہاتھ میں تھی نہ اتنی مدت دراز سے کوئی نبی ان میں آیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ایسا عظیم الشان پیغمبر اور ایسی جلیل القدر کتاب مرحمت فرمائی۔ چاہیے کہ اسے غنیمت جانیں اور انعام الٰہی کی قدر کریں۔ خصوصاً  جبکہ پہلے سے خود کہا بھی کرتے تھے کہ اگر ہم میں کوئی پیغمبر آیا یا کوئی کتاب ہم پر اتاری جاتی تو اوروں سے بڑھ کر ہم فرمانبردار ہوتے۔ اب وہ چیز آئی تو لگے انکار و استکبار کرنے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ہم نے ان کے پاس کوئی کتاب یا ہادی ایسا نہیں بھیجا جو آپ کی تعلیم کے خلاف تعلیم دیتا ہو۔ پھر کس دلیل نقلی یا عقلی کی بناء پر یہ لوگ آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔

۴۵ ۔۔۔     یعنی جیسی لمبی عمریں، جسمانی قوتیں، مال و دولت اور عیش و ترفہ ان کو دیا گیا تمہیں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملا۔ جب انہوں نے پیغمبروں کی تکذیب و مخالفت کی، دیکھ لو! کیا انجام ہوا، سب سازو سامان دھرا رہ گیا۔ ایک منٹ بھی عذاب الٰہی کو روک نہ سکے۔ پھر تم اتنا کا ہے پر اتراتے ہو؟ "اس برتے پر یہ تتا پانی"

۴۶ ۔۔۔      یعنی تعصب و عناد چھوڑ کر انصاف و اخلاص کے ساتھ اللہ کے نام پر اٹھ کھڑے ہو۔ اور کئی کئی مل کر بحث و مشورہ کر لو اور الگ الگ تنہائی میں غور کر کے سوچو کہ یہ تمہارا رفیق (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ) جو چالیس برس سے زیادہ تمہاری آنکھوں کے سامنے رہا جس کے بچپن سے لے کر کہولت تک کے ذرہ ذرہ حالات تم نے دیکھے جس کی امانت و دیانت، صدق و عفاف اور فہم و دانش کے تم برابر قائم رہے۔ کبھی کسی معاملہ میں نفسانیت یا غرض پرستی کا الزام تم نے اس پر نہیں رکھا۔ کیا تم واقعی گمان کر سکتے ہو کہ العیاذ باللہ اسے بیٹھے بٹھائے جنون ہو گیا ہے جو خواہ مخواہ اس نے ایک طرف سے سب کو دشمن بنا لیا۔ کیا کہیں دیوانے ایسی حکمت کی باتیں کیا کرتے ہیں یا کوئی مجنون اپنی قوم کی اس قدر خیر خواہی اور ان کی اخروی فلاں اور دنیاوی ترقی کا اتنا زبردست لائحہ عمل پیش کر سکتا ہے۔ وہ تم کو سخت مہلک خطرناک اور تباہی انگیز مستقبل سے آگاہ کر رہا ہے، قوموں کی تاریخیں سناتا ہے، دلائل و شواہد سے تمہارا بھلا برا سمجھتا ہے یہ کام دیوانوں کے نہیں، ان اولوالعزم پیغمبروں کے ہوتے ہیں جنہیں احمقوں اور شریروں نے ہمیشہ دیوانہ کہا ہے۔

۴۷ ۔۔۔     ۱: یعنی میں تم سے اپنی محنت کا کچھ صلہ نہیں چاہتا اگر تمہارے خیال میں کچھ معاوضہ طلب کیا ہو وہ سب تم اپنے پاس رکھو مجھے ضرورت نہیں میرا صلہ تو خدا کے یہاں ہے۔ تم سے جو چیز طلب کرتا ہوں یعنی ایمان و اسلام وہ صرف تمہارے نفع کی خاطر۔ اس سے زائد میری کوئی غرض نہیں۔

۲:  یعنی میری سچائی اور نیت اللہ کے سامنے ہے۔

۴۸ ۔۔۔       یعنی اوپر سے وحی اتر رہی اور دین کی بارش ہو رہی ہے۔ موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دو اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ جس زور سے اللہ تعالیٰ حق کو باطل کے سر پر پھینک کر مار رہا ہے اس سے اندازہ کرو کہ باطل کہاں ٹھہر سکے گا، ضرور علام الغیوب نے خوب دیکھ بھال کر عین موقع پر حق کو باطل کا سر کچلنے کے لیے بھیجا ہے۔ "بل نقذف بالحق علی الباطل فید مغہ فاذا ہو زاہق۔"

۴۹ ۔۔۔       یعنی دین حق آ پہنچا اب اس کا زور رکنے والا نہیں۔ سب پر غالب ہو کر اور باطل کو زیر کر کے رہے گا جھوٹ کے پاؤں کہاں جو حق کے سامنے چل سکے۔ وہ تو اب کرنے کا نہ دھرنے کا سمجھ لو آیا گیا ہوا۔ فتح مکہ کے دن یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان پر تھی۔

۵۰ ۔۔۔     یعنی اگر میں نے یہ ڈھونگ خود کھڑا کیا ہے تو کون سے دن چلے گا اس میں آخر میرا ہی نقصان ہے۔ دنیا کی عداوت مول لینا، ذلت اٹھانا اور آخرت کی رسوائی قبول کرنا۔ (العیاذ باللہ) لیکن اگر میں سیدھے راستہ پر ہوں جیسا کہ واقعی ہوں تو سمجھ لو کہ یہ سب اللہ کی تائید و امداد اور وحی الٰہی کی برکت و ہدایت سے ہے جو کسی وقت میرا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی۔ میرا خدا سب کچھ سنتا ہے اور بالکل نزدیک ہے وہ ہمیشہ میری مدد فرمائے گا۔ اور اپنے پیغام کو دنیا میں روشن کرے گا۔ تم مانو یا نہ مانو۔

۵۱ ۔۔۔       یعنی یہ کفار یہاں ڈینگیں مارتے ہیں مگر وہ وقت عجیب قابل دید ہو گا جب یہ لوگ محشر کا ہولناک منظر دیکھ کر گھبرائیں گے اور کہیں بھاگ نہ سکیں گے۔ اس وقت گرفتاری کے لیے کہیں دور سے ان کو تلاش کرنا نہ پڑے گا۔ بلکہ نہایت آسانی سے فورا جہاں کے تہاں گرفتار کر لیے جائیں گے۔

۵۲ ۔۔۔     یعنی اس وقت کہیں گے کہ ہمیں پیغمبر کی باتوں پر یقین آگیا اب ہم ایمان لاتے ہیں۔ حالانکہ اب ایمان کیسا؟ وہ موقع دور گیا جب ایمان لا کر اپنے کو بچا سکتے تھے۔ اب ان کا ہاتھ اتنی دور کہاں پہنچ سکتا ہے جو وہاں سے ایمان کو اٹھا لائیں۔ مطلب یہ کہ ایمان مقوبل و منجی وہ ہے جو موت سے پہلے اس دنیا میں حاصل ہو۔ آخرت میں تو آنکھوں سے دیکھ کر سب ہی کو یقین آ جائے گا اس میں کیا کمال ہوا۔

۵۳ ۔۔۔      یعنی پہلے جب ایمان لانے کا وقت تھا انکار پر تلے رہے اور یوں ہی اٹکل کے تیر چلاتے رہے۔ دنیا میں رہ کر ہمیشہ بے تحقیق باتیں کیں۔ سچی اور تحقیقی باتوں کو قبول نہ کیا۔ اب پچھتانے سے کیا حاصل؟

۵۴ ۔۔۔     ۱: یعنی جس چیز کی آرزو رکھتے ہیں مثلاً ایمان مقبول یا نجات، یا دنیا کی طرف واپس جانا، یا دنیاوی لذتیں اور عیش و آرام۔ ان چیزوں کے اور ان کفار کے درمیان سخت روک قائم کر دی گئی۔ کبھی ان تک نہیں پہنچ سکتے۔

۲: یعنی پہلے جو اسی قماش کے لوگ گزرے ہیں جیسا معاملہ ان سے کیا گیا تھا ان سے بھی ہوا۔ کیونکہ وہ لوگ بھی ایسے ہی مہمل شبہات اور بیجا شک و تردد میں گھرے ہوئے تھے جو کسی طرح ان کو چین نہ لینے دیتا تھا۔ تم سورۃ سبا