نبی صلی اللہ علیہ و سلم عید کی نماز میں سورہ ق اور اقتربت الساعۃ پڑھا کرتے تھے (صحیح مسلم) ہر جمعے کے خطبے میں بھی پڑھتے تھے (صحیح مسلم) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ عیدین اور جمعے میں پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ بڑے مجمعوں میں یہ سورۃ پڑھا کرتے تھے کیونکہ اس میں ابتدائے خلق، بعث و نشور، معاد وقیام، حساب، جنت دوزخ، ثواب وعتاب اور ترغیب وترہیب دلانے کا بیان ہے۔
١۔ اس کا جواب قسم محذوف ہے لَتُبْعَثنَّ (تم ضرور قیامت والے دن اٹھائے جاؤ گے ) بعض کہتے ہیں اس کا جواب ما بعد کا مضمون کلام ہے جس میں نبوت اور معاد کا اثبات ہے (فتح القدیر و ابن کثیر)
٢۔ حالانکہ اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں ہے، ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا تھا جس میں اسے مبعوث کیا جاتا تھا۔ اسی حساب سے قریش مکہ کو ڈرانے کے لئے قریش ہی میں سے ایک شخص کو نبوت کے لئے چن لیا گیا۔
٣۔ حالانکہ عقلی طور پر اس میں بھی کوئی استحالہ نہیں ہے۔ آگے اس کی کچھ وضاحت ہے
٤۔ یعنی زمین انسان کے گوشت، ہڈی اور بال وغیرہ بوسیدہ کر کے کھا جاتی ہے یعنی اسے ریزہ ریزہ کر دیتی ہے وہ نہ صرف ہمارے علم میں ہے بلکہ لوح محفوظ میں بھی درج ہے اس لئے ان تمام اجزا کو جمع کر کے انہیں دوبارہ زندہ کر دینا ہمارے لئے قطعاً مشکل امر نہیں ہے۔
٥۔ یعنی ایسا معاملہ جو ان پر مشتبہ ہو گیا ہے، جس سے وہ ایک الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں، کبھی اسے جادوگر کہتے ہیں، کبھی شاعر اور کبھی غیب کی خبریں بتانے والا۔
٦۔ (۱) یعنی بغیر ستون کے، جن کا اسے کوئی سہارا ہو۔
٦۔ (۲) یعنی ستاروں سے مزین کیا۔
٦۔ (۳) اسی طرح کوئی فرق و تفاوت بھی نہیں ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا "الذی خلق سبع سموٰت طباقا، ماتری فی خلق الرحمٰن من تفاوت، فارجع البصر ھل تری من فتور۔ ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خاسئا وھو حصیر"
٧۔ اور بعض نے زوج کے معنی جوڑا کیا ہے یعنی ہر قسم کی نباتات اور اشیا کو جوڑا جوڑا (نر مادہ) بنایا ہے بھیج کے معنی خوش منظر شاداب اور حسین
٨۔ یعنی آسمان و زمین کی تخلیق اور دیگر اشیا کا مشاہدہ اور ان کی معرفت ہر اس شخص کے لئے بصیرت و دانائی اور عبرت و نصیحت کا باعث ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔
۹۔ کٹنے والے غلے سے مراد وہ کھیتیاں مراد ہیں جن سے گندم مکڑی جوار باجرہ دالیں اور چاول وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کا ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔
۱۰۔ باسقات کے معنی طوالاً شاھقات، بلند و بالا طلع کھجور کا وہ گدرا گدرا پھل، جو پہلے پہل نکلتا ہے۔ نضید کے معنی تہ بہ تہ۔ باغات میں کھجور کا پھل بھی آ جاتا ہے۔ لیکن اسے الگ سے بطور خاص ذکر کیا، جس سے کھجور کی وہ اہمیت واضح ہے جو اسے عرب میں حاصل ہے۔
١١۔ یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین کو شاداب کر دیتے ہیں، اسی طرح قیامت والے دن ہم قبروں سے انسانوں کو زندہ کر کے نکال لیں گے۔
١٢۔ اصحاب الرس کی تعیین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ امام ابن جریر طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے جس میں انہیں اصحاب اخدود قرار دیا گیا ہے، جس کا ذکر سورہ بروج میں ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر و فتح القدیر، سورہ الفرقان آیت۔٣٨)
١٤۔ (۱) اَصْحَابُ الاءَیْکَۃِ کے لئے دیکھئے سورۃ الشعراء آیت ١٧٦ کا حاشیہ۔
١٤۔ (۲) قَوْمُ تُبَعِ کے لئے دیکھئے سورۃ الدخان، آیت ٣٧ کا حاشیہ۔
١٤۔ (۳) یعنی ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تسلی ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم کی طرف سے تکذیب پر غمگین نہ، اس لیے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے یہی معاملہ کیا دوسرے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ پچھلی قوموں نے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی تو دیکھ لو ان کا انجام کیا ہوا؟ کیا تم بھی اپنے لیے یہی انجام چاہتے ہو اگر یہ انجام پسند نہیں کرتے تو تکذیب کا راستہ چھوڑو اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آؤ۔
١٥۔ (۱) کہ قیامت والے دن دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لیے مشکل ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ جب پہلی مرتبہ پیدا کرنا ہمارے لیے مشکل نہیں تھا تو دوبارہ زندہ کرنا تو پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وھو الذی یبدأو الخلق ثم یعیدہ وہو اھون علیہ۔ الروم۲۷، سورہ یٰسین آیت ۷۸، ۷۹ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اور حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "ابن آدم مجھے یہ کہہ کر ایذا پہنچاتا ہے کہ اللہ مجھے ہرگز دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے جس طرح اس نے پہلی مرتبہ مجھے پیدا کیا۔ حالانکہ پہلی مرتبہ پیدا کرنا دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے " یعنی اگر مشکل ہے پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری (صحیح البخاری)
١٥۔ (۲) یعنی یہ اللہ کی قدرت ہے کہ منکر نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں قیامت کے وقوع اور اس میں دوبارہ زندگی کے بارے میں ہی شک ہے۔
۱۶۔ (۱) یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے وہ سب ہم جانتے ہیں وسوسہ دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے اسی لیے حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پر گرفت نہیں فرمائے گا جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے۔ البخاری کتاب الایمان۔
١٦۔ (۲) ورید شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ (فتح القدیر)
١٨۔ رَقِیْب محافظ، نگران اور انسان کے قول اور عمل کا انتظار کرنے والا عَتِیْد حاضر اور تیار۔
١٩۔ تَحِیْدُ، تَمِیْلُ عَنْہُ وَتَفِرُّتو اس موت سے بدکتا اور بھاگتا تھا۔
٢١۔ سَائِق(ہانکنے والا) اور شَھید (گواہ) کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام طبری کے نزدیک دو فرشتے ہیں۔ ایک انسان کو محشر تک ہانک کر لانے والا اور دوسرا گواہی دینے والا۔
٢٣۔ یعنی فرشتہ انسان کا سارا ریکارڈ سامنے رکھ دے گا اور کہے گا کہ یہ تیری فرد عمل ہے کو جو میرے پاس تھی۔
۲۶۔ اللہ تعالیٰ اس فرد عمل کی روشنی میں انصاف اور فیصلہ فرمائے گا القیا سے الشدید تک اللہ کا قول ہے۔
٢٧۔ اس لئے اس نے فوراً میری بات مان لی، اگر یہ تیرا مخلص بندہ ہوتا تو میرے بہکاوے میں ہی نہ آتا۔ یہاں قرین سے مراد شیطان ہے۔
٢٨۔ یعنی اللہ تعالیٰ کافروں اور ان کے ہم نشین شیطانوں کو کہے گا کہ یہاں موقف حساب یا عدالت انصاف میں لڑنے جھگڑنے کی ضرورت نہیں نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے، میں نے پہلے ہی رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے وعیدوں سے تم کو آگاہ کر دیا تھا۔
٢٩۔ یعنی جو وعدے میں نے کئے تھے، ان کے خلاف نہیں ہو گا بلکہ ہر صورت میں پورے ہو نگے اور اسی اصول کے مطابق تمہارے لئے عذاب کا فیصلہ میری طرف سے ہوا ہے جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
٣٠۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ لاملئن جھنم من الجنتہ والناس اجمعین۔ الم السجدہ۔ میں جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دوں گا اس وعدے کا جب ایفا ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کافر جن و انس کو جہنم میں ڈال دے گا، تو جہنم سے پوچھے گا کہ تو بھر گئی ہے یا نہیں ؟ وہ جواب دے گی، کیا کچھ اور بھی ہے ؟ یعنی اگرچہ بھر گئی ہوں لیکن یا اللہ تیرے دشمنوں کے لئے میرے دامن اب بھی گنجائش ہے۔
۳۱۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قیامت جس روز جنت قریب کر دی جائے گے دور نہیں ہے کیونکہ وہ لامحالہ واقع ہو کر رہے گی اور کل ما ہوات فھو قریب اور جو بھی آنے والی چیز ہے وہ قریب ہی ہے دور نہیں (ابن کثیر)
٣٢۔ یعنی اہل ایمان جب جنت کا اور اس کی نعمتوں کا قریب سے مشاہدہ کریں گے تو کہا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کا وعدہ ہر اواب اور حفیظ سے کیا گیا تھا اواب، بہت رجوع کرنے والا یعنی اللہ کی (طرف کثرت سے توبہ استغفار اور تسبیح و ذکر الٰہی کرنے والا خلوت میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے ان سے توبہ کرنے والا، یا اللہ کے حقوق اور اس کی نعمتوں کو یاد رکھنے والا یا اللہ کے اوامر نواہی کو یاد رکھنے والا گیا تھا۔ فتح القدیر
٣٣۔ مُنِیْبِ، اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اور اس کا اطاعت گزار دل۔ یا بمعی سَلیمِ، شرک و معصیت کی نجاستوں سے پاک دل۔
٣٥۔ اس سے مراد رب تعالیٰ کا دیدار ہے جو اہل جنت کو نصیب ہو گا۔ للذین احسنو الحسنی وزیادۃ۔ یونس۔
٣٦۔ (فَنقبُوْفِی الْبِلَادِ) (شہروں میں چلے پھرے ) کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اہل مکہ سے زیادہ تجارت و کاروبار کے لئے مختلف شہروں میں پھرتے تھے۔ لیکن ہمارا عذاب آیا تو انہیں کہیں پناہ اور راہ فرار نہ ملی۔
٣٧۔ (۱) یعنی دل بیدار، جو غور و فکر کر کے حقائق کا ادراک کر لے۔
٣٧۔ (۲) یعنی توجہ سے وہ وحی الٰہی سنے جس میں گزشتہ امتوں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔
٣٧۔ (۳) یعنی قلب اور دماغ کے لحاظ سے حاضر ہو۔ اس لئے کہ جو بات ہی کو نہ سمجھے، وہ موجود ہوتے ہوئے بھی ایسے ہے جیسے نہیں۔
٣٩۔ یعنی صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرو یا عصر اور فجر کی نماز پڑھنے کی تاکید ہے۔
٤٠۔ یعنی رات کے کچھ حصے میں بھی اللہ کی تسبیح کریں یا رات کی نماز (تہجد) پڑھیں جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ' رات کو اٹھ کر نماز پڑھیں جو آپ کے لئے مزید ثواب کا باعث ہے۔ ٤٠۔ (۲) یعنی اللہ کی تسبیح کریں بعض نے اس سے تسبیحات مراد لی ہے، جن کے پڑھنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرض نمازوں کے بعد فرمائی ہے مثلاً ٣٣ مرتبہ سُبْحَان اللّٰہ ٣٣ مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰلہِ اور٣٤ مرتبہ اَللّٰہ اَکْبَرْ وغیرہ
٤١۔ (۱) یعنی قیامت کے جو احوال وحی کے ذریعے سے بیان کئے جا رہے ہیں، انہیں توجہ سے سنیں۔
٤۱۔ (۲) یہ پکارنے والا اسرافیل فرشتہ ہو گا یا جبرائیل اور یہ ندا وہ ہو گی جس سے لوگ میدان محشر میں جمع ہو جائیں گے۔ یعنی نفخہ ثانیہ۔
٤١۔ (۳) اس سے بعض نے صخرہ بیت المقدس مراد لیا ہے، کہتے ہیں یہ آسمان کے قریب ترین جگہ ہے اور بعض کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص یہ آوازیں اس طرح سنے گا جیسے اس کے قریب سے ہی آواز آ رہی ہے (فتح القدیر)
٤٢۔ یعنی یہ چیخ یعنی نفخہ قیامت یقیناً ہو گا جس میں یہ دنیا میں شک کرتے تھے۔ اور یہی دن قبروں سے زندہ ہو کر نکلنے کا ہو گا۔
٤٣۔ (۱) یعنی دنیا میں موت سے ہمکنار کرنا اور آخرت میں زندہ کر دینا، یہ ہمارا ہی کام ہے، اس میں کوئی ہمارا شریک نہیں ہے۔
٤۳۔ (۲) وہاں ہم ہر شخص کو اس کے عملوں کے مطابق جزا دیں گے۔
٤٤۔ یعنی اس آواز دینے والے کی طرف دوڑیں گے، جس نے آواز دی ہو گی، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب زمین پھٹے گی تو سب سے پہلے زندہ ہو کر نکلنے والا میں ہوں گا۔ انا اول من تشق عنہ الارض۔
٤٥۔ (۱) یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ایمان لانے پر مجبور کریں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کام صرف تبلیغ و دعوت ہے، وہ کرتے رہیں۔
٤٥۔ (۲) یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت ذکر سے وہی نصیحت حاصل کرے گا جو اللہ سے اور اس کی سزا کی دھمکیوں سے ڈرتا اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتا ہو گا اسی لئے حضرت قتادہ یہ دعا فرماتے ' اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے کر جو تیری وعیدوں سے ڈرتے اور تیرے وعدوں کی امید رکھتے ہیں۔ اے احسان کرنے والے رحم فرما نے والے۔