تفسیر عثمانی

سورة قٓ

۱۔۔۔   یعنی قرآن کی بزرگی اور عظمت شان کا کیا کہنا جس نے آخر سب کتابوں کو منسوخ کر دیا اور اپنی اعجازی قوت اور لامحدود اسرار و معارف سے دنیا کو محو حیرت بنا دیا۔ یہ ہی بزرگی والا قرآن بذاتِ خود شاہد ہے کہ اس کے اندر کوئی نقص و عیب نہیں نہ کہیں انگلی رکھنے کی جگہ ہے، لیکن منکرین پھر بھی اس کو قبول نہیں کرتے اس لیے نہیں کہ ان کے پاس اس کے خلاف کوئی حجت و برہان ہے بلکہ محض اپنے جہل اور حماقت سے اس پر تعجب کرتے ہیں کہ ان ہی کے خاندان اور نسل کا ایک آدمی ان کی طرف رسول ہو کر آیا اور بڑا بن کر سب کو نصیحتیں کرنے لگا۔ اور بات بھی ایسی عجیب کہی جسے کوئی باور نہ کر سکے۔ بھلا جب ہم مر کر مٹی ہو گئے۔ کیا پھر زندگی کی طرف واپس کیے جائیں گے؟ یہ واپسی تو عقل سے بہت دور اور امکان و عادت سے بالکل بعید ہے۔

۳۔۔۔   یعنی ساری مٹی نہیں ہو جاتی، جان سلامت رہتی ہے اور بدن کے اجزاء تحلیل ہو کر جہاں کہیں منتشر ہو گئے ہیں وہ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ اس کو قدرت ہے کہ ہر جگہ سے اجزائے اصلیہ کو جمع کر کے ڈھانچہ کھڑا کر دے اور دوبارہ اس میں جان ڈال دے۔

۴۔۔۔ یعنی یہ نہیں کہ آج سے معلوم ہے بلکہ ہمارا علم قدیم ہے حتی کہ ان میں قبل و قوع ہی سب اشیاء کے سب حالات ایک کتاب میں جو "لوح محفوظ" کہلاتی ہے لکھ دیے تھے اور اب تک ہمارے پاس وہ کتاب موجود چلی آتی ہے۔ پس اگر علم قدیم کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو یوں ہی سمجھ لے وہ دفتر جس میں سب کچھ لکھا ہے حق تعالیٰ کے سامنے حاضر ہے۔ یا اس کو پہلے جملہ کی تاکید سمجھو۔ کیونکہ جو چیز کسی کے علم میں ہو اور قلمبند بھی کر لی جائے وہ لوگوں کے نزدیک بہت زیادہ مؤکد سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح یہاں مخاطبین کے محسوسات کے اعتبار سے متنبہ کر دیا کہ ہر چیز خدا کے علم میں ہے اور اس کے ہاں لکھی ہوئی ہے جس میں ذرا کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔

۵۔۔۔   یعنی صرف تعجب نہیں بلکہ کھلی ہوئی تکذیب ہے۔ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت قرآن اور بعث بعد الموت، ہر چیز کو جھٹلاتے ہیں۔ اور عجب الجھی ہوئی باتیں کرتے ہیں۔ بیشک جو شخص سچی باتوں کو جھٹلاتا ہے۔ اسی طرح شک و اضطراب اور تردد و تحیر کی الجھنوں میں پڑ جایا کرتا ہے۔

۶۔۔۔     یعنی آسمان کو دیکھ لو، نہ بظاہر کوئی کھمبا نظر آتا ہے نہ ستون، اتنا بڑا عظیم الشان جسم کیسا مضبوط و مستحکم کھڑا ہے اور رات کو جب اس پر ستاروں کی قندیل اور جھاڑ فانوس روشن ہوتے ہیں تو کس قدر پر رونق اور خوبصورت نظر آتا ہے۔ پھر لطف یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں برس گزر گئے نہ اس چھت میں کہیں سوراخ ہوا، نہ کوئی کنکرہ گرا، نہ پلاسٹر ٹوٹا، نہ رنگ خراب ہوا، آخر کون سا ہاتھ ہے جس نے یہ مخلوق بنائی اور بنا کر اس کی ایسی حفاظت کی۔

۸۔۔۔     یعنی جو آدمی خدا کی طرف رجوع کرتا ہو محض ان ہی محسوسات کے دائرہ میں الجھ کر نہ رہ جائے اس کے لیے آسمان و زمین کی تخلیق و تنظیم میں دانائی و بینائی کے کتنے سامان ہیں جن میں ادنیٰ غور کرنے سے صحیح حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔ اور بھولے ہوئے سبق اس کو یاد آ سکتے ہیں۔ پھر خدا جانے ایسی روشن نشانیوں کی موجودگی میں بھی یہ لوگ کیونکر حق کو جھٹلانے کی جرأت کرتے ہیں۔

۹۔۔۔   اناج وہ ہے جس کے ساتھ اس کا کھیت بھی کٹ جائے اور باغ پھل ٹوٹ کر قائم رہتا ہے۔

۱۰۔۔۔  یعنی بڑی کثرت و افراط سے جن کا خوشہ دیکھنے میں بھی بھلا معلوم ہوتا ہے۔

۱۱۔۔۔  یعنی بارش برسا کر مردہ زمین کو زندہ کر دیا۔ اسی طرح قیامت کے دن مردے زندہ کر دیے جائیں گے۔

۱۴۔۔۔    ۱: ان اقوام کے قصے سورہ حجر، فرقان، دخان وغیرہ میں گزر چکے ہیں۔

۲: یعنی تکذیب انبیاء پر جس انجام سے ڈرایا گیا تھا وہ ہی سامنے آ کر رہا۔

۱۵۔۔۔  یعنی دوبارہ نئے سرے سے پیدا کرنے میں انہیں فضول دھوکا لگ رہا ہے۔ جس نے پہلی بار پیدا کیا دوسری مرتبہ پیدا کر دینا کیا مشکل ہے؟ کیا یہ گمان کرتے ہو کہ (معاذ اللہ) وہ پہلی دفعہ دنیا کو بنا کر تھک گیا ہو گا؟ اس قادر مطلق کی نسبت ایسے توہمات قائم کرنا سخت جہالت اور گستاخی ہے۔

۱۶۔۔۔   ۱: یعنی اس کے ہر قول و فعل سے ہم خبردار ہیں حتی کہ جو وساوس و خطرات اس کے دل میں گزرتے ہیں ان کا بھی ہم کو علم ہے۔ "اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ الَّلطِیْفُ الْخَبِیْرُ۔"

۲:   گردن کی رگ مراد ہے جسے "شہ رگ" کہتے ہیں اور جس کے کٹنے سے انسان مر جاتا ہے۔ شاید یہ کنایہ ہو جان اور روح سے۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم (باعتبار علم کے) اس کی روح اور نفس سے بھی نزدیک تر ہیں۔ یعنی جیسا علم انسان کو اپنے احوال کا ہے ہم کو اس کا علم خود اس سے بھی زیادہ ہے۔ نیز علت اور منشاء کو معلول اور ناشئی کے ساتھ وہ قرب حاصل ہوتا ہے جو معلول اور ناشئی کو خود اپنے نفس سے بھی نہیں ہوتا۔ اس کا کچھ مختصر بیان "اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ" کے حواشی میں ہو چکا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ اللہ اندر سے نزدیک ہے اور رگ آخر باہر ہے جان سے۔" وَلَنِعْمَ مَاقِیْلَ۔

 جاں نہاں در جسم واو درجاں نہاں

اے نہاں اندر نہاں اے جانِ جاں

۱۷۔۔۔   یعنی دو فرشتے خدا کے حکم سے ہر وقت اس کی تاک میں لگے رہتے ہیں جو لفظ اس کے منہ سے نکلے وہ لکھ لیتے ہیں۔ نیکی داہنے والا، اور بدی بائیں والا۔

۱۸۔۔۔   یعنی لکھنے کو تیار ہے (تنبیہ) دونوں فرشتے کہاں رہتے ہیں؟ اور علاوہ اقوال کے کیا کیا کچھ لکھتے ہیں؟ اس کی تفصیل احادیث و آثار سے ملے گی۔

۱۹۔۔۔   ۱: یعنی لو! ادھر مسل تیار ہوئی، ادھر موت کی گھڑی آ پہنچی۔ اور مرنے والا نزع کی بیہوشیوں اور جاں کنی کی سختیوں میں ڈبکیاں کھانے لگا۔ اس وقت وہ سب سچی باتیں نظر آنا شروع ہو گئیں جن کی خبر اللہ کے رسولوں نے دی تھی۔ اور میت کی سعادت و شقاوت سے پردہ اٹھنے لگا اور ایسا پیش آنا قطعی اور یقینی تھا۔ کیونکہ حکیم مطلق کی بہت سی حکمتیں اس سے متعلق تھیں۔

۲: یعنی آدمی نے موت کو بہت کچھ ٹلانا چاہا۔ اور اس ناخوشگوار وقت سے بہت کچھ بھاگتا اور کتراتا رہا پر یہ گھڑی ٹلنے والی کہاں تھی۔ آخر سر پر آ کھڑی ہوئی کوئی تدبیر اور حیلہ دفع الوقتی کا نہ چل سکا۔

۲۰۔۔۔   چھوٹی قیامت تو موت کے وقت ہی آ چکی تھی۔ اس کے بعد بڑی قیامت حاضر ہے۔ بس صور پھونکا گیا اور وہ ہولناک دن آ موجود ہوا۔ جس سے انبیاء و رسل برابر ڈراتے چلے آتے تھے۔

۲۱۔۔۔   یعنی محشر میں اس طرح حاضر کیے جائیں گے کہ ایک فرشتہ پیشی کے میدان کی طرف دھکیلتا ہو گا اور دوسرا اعمالنامہ لیے ہو گا۔ جس میں اس کی زندگی کے سب احوال درج ہوں گے۔ شاید یہ وہ ہی دو فرشتے ہوں جو "کراماً کاتبین" کہلاتے ہیں۔ اور جن کی نسبت فرمایا تھا۔ "اِذْیَتَلَقَی الْمُتَلَقِیَّان" الخ اور ممکن ہے کوئی اور ہوں۔

۲۲۔۔۔    یعنی اس وقت کہا جائے گا کہ دنیا کے مزوں میں پڑ کر تو آج کے دن سے بے خبر تھا اور تیری آنکھوں کے سامنے شہوات و خواہشات کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پیغمبر جو سمجھاتے تھے۔ تجھے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ آج ہم نے تیری آنکھ سے وہ پردے ہٹا دیے اور نگاہ خوب تیز کر دی۔ اب دیکھ لے جو باتیں کہی گئی تھیں، صحیح ہیں یا غلط۔

۲۳۔۔۔   یعنی فرشتہ اعمالنامہ حاضر کرے گا۔ اور بعض نے "قرین" سے مراد شیطان لیا ہے۔ یعنی شیطان کہے گا کہ یہ مجرم حاضر ہے جس کو میں نے اغواء کیا اور دوزخ کے لیے تیار کر کے لایا ہوں۔ مطلب یہ کہ اغواء تو میں نے کیا۔ مگر میرا ایسا زور تسلط نہ تھا کہ زبرستی اس کو شرارت میں ڈال دیتا۔ یہ اپنے ارادہ اختیار سے گمراہ ہوا۔

۲۵۔۔۔    بارگاہِ ایزدی سے یہ حکم دو فرشتوں کو ہو گا کہ ایسے لوگوں کو جہنم میں جھونک دو (اعاذنا اللہ منہا)

۲۶۔۔۔   یعنی ایسے لوگ جہنم میں سخت ترین عذاب کے مستحق ہیں۔

۲۷۔۔۔    یعنی میری کچھ زبردستی اس پر نہ چلتی تھی۔ ذرا شہ دی تھی کہ یہ کم بخت خود گمراہ ہو کر نجات و فلاح کے راستہ سے دور جا پڑا۔ شیطان یہ کہہ کر اپنا جرم ہلکا کرنا چاہتا ہے۔

۲۸۔۔۔   یعنی بک بک مت کرو۔ دنیا میں سب کو نیک و بد سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اب ہر ایک کو اس کے جرم کے موافق سزا ملے گی۔ جو گمراہ ہوا اور جس نے اغواء کیا سب اپنی حرکتوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔

۲۹۔۔۔  یعنی ہمارے یہاں ظلم نہیں۔ جو کچھ فیصلہ ہو گا عین حکمت اور انصاف سے ہو گا۔ "اور بات نہیں بدلتی۔" یعنی کافر بخشا نہیں جاتا۔ بھلا شیطان اکفر کی بخشش تو کہاں۔

۳۰۔۔۔   یعنی دوزخ کا پھیلاؤ اس قدر لوگوں سے نہ بھرے گا اور شدتِ غیظ سے اور زیادہ کافروں اور نا فرمانوں کو طلب کرے گی۔

۳۱۔۔۔    یعنی جنت اس سے دور نہ ہو گی۔ بہت قریب سے اس کی تر و تازگی اور بناؤ سنگار دیکھیں گے۔

۳۴۔۔۔  ۱: یعنی جنہوں نے دنیا میں خدا کو یاد رکھا اور گناہوں سے محفوظ ہو کر اس کی طرف رجوع ہوئے، اور بے دیکھے اس کے قہرو جلال سے ڈرے اور ایک پاک و صاف رجوع ہونے والا دل لے کر حاضر ہوئے، اس جنت کا وعدہ ایسے لوگوں سے کیا گیا تھا وقت آگیا ہے کہ سلامتی و عافیت کے ساتھ اس میں داخل ہوں۔ فرشتے ان کو سلام کریں اور ان کے پروردگار کا سلام پہنچائیں۔

۲:  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "اس دن جس کو جو کچھ ملا سو، ہمیشہ کے لیے ہے۔ اس سے پہلے ایک بات پر ٹھہراؤ نہ تھا۔

۳۵۔۔۔  یعنی جو چاہیں گے وہ ملے گا اس کے علاوہ وہ نعمتیں ملیں گی جو ان کے خیال میں بھی نہیں۔ مثلاً دیدارِ الٰہی کی لذت بے قیاس اور ممکن ہے "وَلَدَیْنَا مَزِیْد" سے یہ غرض ہو کہ ہمارے پاس بہت ہے، جنتی کتنا ہی مانگیں سب دیا جائے گا۔ اللہ کے ہاں اتنا دینے پر بھی کوئی کمی نہیں آتی، نہ اس کے لیے کوئی رکاوٹ ہے۔ پس اتنی بے حساب و بے شمار عطایا کو مستبعد نہ سمجھو۔ واللّٰہ سبحانہٗ و تعالیٰ اعلم۔

۳۶۔۔۔  پہلے کفار کی تعذیب اخروی کا بیان تھا۔ درمیان میں ان کے مقابلہ پر اہل جنت کے تنعم کا ذکر آگیا۔ اب پھر کفار کی سزا دہی کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی آخرت سے پہلے دنیا ہی میں ہم کتنی شریر و سرکش قوموں کو تباہ کر چکے ہیں جو زور و قوت میں موجود اقوام کفار سے بڑھ چڑھ کر تھیں۔ اور جنہوں نے بڑے بڑے شہر چھان مارے تھے۔ پھر جب عذاب الٰہی آیا تو بھاگ جانے کو روئے زمین پر کہیں ٹھکانہ نہ ملا۔ یا یہ مطلب ہے کہ عذاب کے وقت اپنی بستیوں میں کھوج لگانے لگے کہ کہیں پناہ ملے۔ مگر کوئی ٹھکانہ نہ پایا۔ وہذا ہوالظاہر من الترجمۃ والا ول ما اختارہ جمہور المفسرین۔ واللّٰہ اعلم۔

۳۷۔۔۔   یعنی ان عبرتناک واقعات میں غور و فکر کر کے وہ ہی لوگ نصیحت حاصل کر سکتے ہیں جن کے سینہ میں سمجھنے والا دل ہو کہ از خود ایک بات کو سمجھ لیں، یا کم از کم کسی سمجھانے والے کے کہنے پر دل کو حاضر کر کے کان دھریں۔ کیونکہ یہ بھی ایک درجہ ہے کہ آدمی خود متنبہ نہ ہو، تو دوسرے کے متنبہ کرنے پر ہوشیار ہو جائے۔ جو شخص نہ خود سمجھے نہ کسی کے کہنے پر توجہ کے ساتھ کان لگائے اس کا درجہ اینٹ پتھر سے زیادہ نہیں۔

۳۸۔۔۔  ۱: اس کا بیان پہلے کئی جگہ گزر چکا ہے۔

۲: جب پہلی مرتبہ بنانے سے نہ تھکے تو دوسری مرتبہ کیوں تھکیں گے۔ اور تباہ و برباد کر دینا تو بنانے سے کہیں آسان ہے۔

۳۹۔۔۔     یعنی ایسی موٹی باتوں کو یہ لوگ نہ سمجھیں تو آپ غمگین نہ ہوں۔ بلکہ ان کی بیہودہ بکواس پر صبر کرتے رہیں۔ اور اپنے پروردگار کی یاد میں دل لگائے رکھیں جو تمام زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کے بنانے اور بگاڑنے پر قدرت رکھتا ہے۔

۴۰۔۔۔    ۱: یہ وقت اللہ کی یاد کے ہیں۔ ان میں دعاء اور عبادت بہت قبول ہوتی ہے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر تین ہی نمازیں فرض تھیں۔ فجر اور عصر اور تہجد، بہرحال اب بھی ان تینوں وقتوں کو خصوصی فضل و شرف حاصل ہے نماز یا ذکر و دعاء وغیرہ سے ان اوقات کو معمور رکھنا چاہیے۔ حدیث میں ہے۔ "عَلَیْکُمْ بِالْغُدْوَۃِ وَالرُّوْحَۃٍ وَ شَیْ ءٍ مِّنَ الدُّلْجَتہِ۔ " بعض نے کہا کہ "قَبْلَ الطُّلُوعِ" سے نماز فجر "قَبَلَ الْغُرُوْبِ" سے ظہر و عصر اور "مِنَ الَّیْلِ" سے مغرب و عشاء مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔

۲:یعنی نماز کے بعد کچھ تسبیح و تہلیل کرنا چاہیے۔ یا نوافل مراد ہوں جو فرائض کے بعد پڑھے جاتے ہیں۔

۴۱۔۔۔    کہتے ہیں صور پھونکا جائے گا بیت المقدس کے پتھر پر۔ اس لیے نزدیک کہا۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس کی آواز ہر جگہ نزدیک لگے گی اور سب کو یکساں سنائی دے گی۔ باقی صور پھونکنے کے سوا اور بھی ندائیں حق تعالیٰ کی طرف سے اس روز ہوں گی۔ بعض نے آیت سے وہ مراد لی ہے۔ مگر ظاہر نفخ صور ہے۔ واللہ اعلم۔

۴۲۔۔۔   یعنی دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب زمین سے نکل کھڑے ہوں گے۔

۴۳۔۔۔  یعنی بہرحال موت و حیات سب خدا کے ہاتھ میں ہے اور پھر کر آخرکار اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔ بچ کر کوئی نہیں نکل سکتا۔

۴۴۔۔۔    یعنی زمین پھٹے گی اور مردے اس سے نکل کر میدان حشر کی طرف جھپٹیں گے۔ خدا تعالیٰ سب اگلوں پچھلوں کو ایک میدان میں اکٹھا کر دے گا اور ایسا کرنا اس کو کچھ مشکل نہیں۔

۴۵۔۔۔   یعنی جو لوگ حشر کا انکار کرتے اور واہی تباہی کلمات بکتے ہیں بکنے دو۔ اور ان کا معاملہ ہمارے سپرد کرو۔ ہم کو سب معلوم ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں۔ آپ کا یہ منصب نہیں کہ زور زبردستی سے ہر ایک کو یہ باتیں منوا کر چھوڑیں۔ ہاں قرآن سنا سنا کر بالخصوص ان کو نصیحت اور فہمائش کرتے رہیے جو اللہ کے ڈرانے سے ڈرتے ہیں۔ ان معاندین کے پیچھے زیادہ نہ پڑیے۔ تم سورۃ ق والحمد للّٰہ۔