خزائن العرفان

سورة قٓ

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ ق ۤمکّیہ ہے، اس میں تین ۳رکوع، پینتالیس۴۵ آیتیں، تین سو ستّاون ۳۵۷کلمے اور ایک ہزار چار سو چورانوے۱۴۹۴ حرف ہیں۔

(۱) عزت والے  قرآن کی قسم (ف ۲)

۲                 ہم جانتے ہیں کہ کفّارِ مکّہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان نہیں لائے۔

(۲) بلکہ  انھیں اس کا اچنبھا ہوا کہ ان کے  پاس انہی میں کا ایک ڈر سنانے  والا تشریف لایا  (ف ۳) تو  کافر بولے  یہ تو عجیب  بات ہے۔

۳                 جس کی عدالت و امانت اور صدق و راست بازی کو وہ خوب جانتے ہیں اور یہ بھی ان کے دل نشین ہے کہ ایسے صفات کا شخص سچّا، ناصح ہوتا ہے باوجود اس کے ان کا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نبوّت اور حضور کے انذار سے تعجّب و انکار کرنا قابلِ حیرت ہے۔

(۳) کیا جب ہم مر جائیں اور مٹی ہو جائیں گے  پھر جئیں گے  یہ پلٹنا دور ہے  (ف ۴)

۴                 ان کی اس بات کے ردّ و جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

(۴) ہم جانتے  ہیں جو کچھ زمین ان میں سے  گھٹاتی ہے  (ف ۵) اور ہمارے  پاس ایک یاد رکھنے  وا لی کتاب ہے  (ف ۶)

۵                 یعنی ان کے جسم کے جو حصّے گوشت، خون، ہڈیاں وغیرہ زمین کھا جاتی ہے ان میں سے کوئی چیز ہم سے چھُپی نہیں تو ہم ان کو ویسے ہی زندہ کرنے پر قادر ہیں جیسے کہ وہ پہلے تھے۔

۶                 جس میں ان کے اسمائے اعداد اور جو کچھ ان میں سے زمین نے کھایا سب ثابت و مکتوب و محفوظ ہے۔

(۵) بلکہ انہوں نے  حق کو جھٹلایا (ف ۷) جب وہ ان کے  پاس آیا تو وہ ایک مضطرب بے  ثبات بات میں ہیں (ف ۸)

۷                 بغیر سوچے سمجھے۔ اور حق سے مراد یا نبوّت ہے جس کے ساتھ معجزاتِ باہرات ہیں یا قرآنِ مجید۔

۸                 تو کبھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو شاعر، کبھی ساحر، کبھی کاہن اور اسی طرح قرآنِ پاک کو شِعر و سِحر و کہانت کہتے ہیں،کسی ایک بات پر قرار نہیں۔

(۶) تو کیا انہوں نے  اپنے  اوپر آسمان کو نہ دیکھا (ف ۹) ہم نے  اسے  کیسے  بنایا (ف ۱۰) اور سنوارا (ف ۱۱) اور اس میں کہیں رخنہ نہیں (ف ۱۲)

۹                 چشمِ بینا و نظرِ اعتبار سے کہ اس کی آفرینش میں ہماری قدرت کے آثار نمایاں ہیں۔

۱۰               بغیر ستون کے بلند کیا۔

۱۱               کواکب کے روشن اجرام سے۔

۱۲               کوئی عیب و قصور نہیں۔

(۷) اور زمین کو ہم نے  پھیلایا (ف ۱۳) اور اس میں لنگر ڈالے  (بھاری وزن رکھے ) (ف ۱۴) اور اس میں ہر با رونق جوڑا  اُگایا۔

۱۳               پانی تک۔

۱۴               پہاڑوں کے کہ قائم رہے۔

(۸) سوجھ اور سمجھ (ف ۱۵) ہر رجوع والے  بندے  کے  لیے  (ف ۱۶)

۱۵               کہ اس سے بینائی و نصیحت حاصل ہو۔

۱۶               جو اللہ تعالیٰ کے بدائعِ صنعت و عجائبِ خلقت میں نظر کر کے اس کی طرف رجوع ہو۔

(۹) اور ہم نے  آسمان سے  برکت والا پانی اتارا (ف ۱۷) تو اس سے   باغ  اُگائے  اور اناج کہ کاٹا جاتا ہے  (ف ۱۸)

۱۷               یعنی بارش جس سے ہر چیز کی زندگی اور بہت خیرو برکت ہے۔

۱۸               طرح طرح کا گیہوں، جَو، چنا وغیرہ۔

(۱۰) اور کھجور کے  لمبے  درخت جن کا پکا گابھا۔

(۱۱) بندوں کی  روزی کے  لیے  اور ہم نے  اس (ف ۱۹) سے  مردہ شہر جِلایا (ف ۲۰) یونہی قبروں سے  تمہارا نکلنا ہے  (ف ۲۱)

۱۹               بارش کے پانی۔

۲۰               جس کے نباتات خشک ہو چکے تھے، پھر اس کو سبزہ زار کر دیا۔

۲۱               تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے آثار دیکھ کر مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے کا کیوں انکار کرتے ہو۔

(۱۲) ان سے  پہلے  جھٹلایا (ف ۲۲) نوح کی قوم اور رس  والوں (ف ۲۳) اور ثمود 

۲۲               رسولوں کو۔

۲۳               رَسْ ایک کنواں ہے جہاں یہ لوگ مع اپنے مویشی کے مقیم تھے اور بتوں کو پوجتے تھے، یہ کنواں زمین میں دھنس گیا اور اس کے قریب کی زمین بھی، یہ لوگ اور ان کے اموال اس کے ساتھ دھنس گئے۔

(۱۳) اور عاد اور فرعون اور لوط کے  ہم قوموں

(۱۴) اور بَن والوں اور تبع کی قوم نے  (ف ۲۴) ان میں ہر ایک نے  رسولوں کو جھٹلایا تو میرے  عذاب کا وعدہ ثابت ہو گیا (ف ۲۵)

۲۴               ان سب کے تذکرے سورۂ فرقان و حجر و دخان میں گزر چکے۔

۲۵               اس میں قریش کو تہدید اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّی ہے کہ آپ قریش کے کفر سے تنگ دل نہ ہوں، ہم ہمیشہ رسولوں کی مدد فرماتے اور ان کے دشمنوں پر عذاب کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد منکِرینِ بعث کے انکار کا جواب ارشاد ہوتا ہے۔

(۱۵)  تو کیا ہم پہلی بار  بنا کر تھک گئے  (ف ۲۶) بلکہ وہ نئے  بننے  سے  (ف ۲۷) شبہ میں ہیں۔

۲۶               جو دوبارہ پیدا کرنا ہمیں دشوار ہو۔ اس میں منکِرینِ بعث کے کمالِ جہل کا اظہار ہے کہ باوجود اس اقرار کے کہ خَلق اللہ تعالیٰ نے پیدا کی اس کے دوبارہ پیدا کرنے کو محال اور مستبعد سمجھتے ہیں۔

۲۷               یعنی موت کے بعد پیدا کئے جانے سے۔

(۱۶) اور بیشک ہم نے  آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے  ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے  (ف ۲۸) اور ہم دل کی رگ سے  بھی اس سے  زیادہ نزدیک ہیں (ف ۲۹)

۲۸               ہم سے اس کے سرائر و ضمائر چھُپے نہیں۔

۲۹               یہ کمالِ علم کا بیان ہے کہ ہم بندے کے حال کو خود اس سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ وَرِیْد وہ رگ ہے جس میں خون جاری ہو کر بدن کے ہر ہر جزو میں پہنچتا ہے، یہ رگ گردن میں ہے۔ معنیٰ یہ ہیں کہ انسان کے اجزاء ایک دوسرے سے پردے میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پردے میں نہیں۔

(۱۷) اور جب اس سے  لیتے  ہیں  دو لینے  والے  (ف ۳۰) ایک داہنے  بیٹھا اور ایک بائیں (ف ۳۱)

۳۰               فرشتے۔ اور وہ انسان کا ہر عمل اور اس کی ہر بات لکھنے پر مامور ہیں۔

۳۱               داہنی طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور بائیں طرف والا بدیاں۔ اس میں اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے لکھنے سے بھی غنی ہے، وہ اخفی الخفیات کا جاننے والا ہے، خطراتِ نفس تک اس سے چھُپے نہیں، فرشتوں کی کتابت حسبِ اقتضائے حکمت ہے کہ روزِ قیامت نامۂ اعمال ہر شخص کے اس کے ہاتھ میں دے دیئے جائیں۔

(۱۸) کوئی بات وہ زبان سے  نہیں نکالتا کہ اس کے  پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو (ف ۳۲)

۳۲               خواہ وہ کہیں ہو سوائے وقتِ قضائے حاجت اور وقتِ جماع کے اس وقت یہ فرشتے آدمی کے پاس سے ہٹ جاتے ہیں۔ مسئلہ : ان دونوں حالتوں میں آدمی کو بات کرنا جائز نہیں تاکہ اس کے لکھنے کے لئے فرشتوں کو اس حالت میں اس سے قریب ہونے کی تکلیف نہ ہو، یہ فرشتے آدمی کی ہر بات لکھتے ہیں بیماری کا کراہنا تک۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف وہی چیزیں لکھتے ہیں جن میں اجرو ثواب یا گرفت و عذاب ہو۔ امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ جب آدمی ایک نیکی کرتا ہے تو دہنی طرف والا فرشتہ دس لکھتا ہے اور جب بدی کرتا ہے تو دہنی طرف والا فرشتہ بائیں جانب والے فرشتے سے کہتا ہے کہ ابھی توقّف کر شاید یہ شخص استغفار کر لے۔ منکِرینِ بعث کا رد فرمانے اور اپنے قدرت و علم سے ان پر حجّتیں قائم کرنے کے بعد انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ جس چیز کا انکار کرتے ہیں وہ عنقریب ان کی موت اور قیامت کے وقت پیش آنے والی ہے۔ اور صیغۂ ماضی سے ان کی آمد کی تعبیر فرما کر اس کے قرب کا اظہار کیا جاتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

(۱۹) اور آئی موت کی سختی (ف ۳۳) حق کے  ساتھ (ف ۳۴) یہ ہے  جس سے  تو بھاگتا تھا۔

۳۳               جو عقل و حوّاس کو مختل و مکدر کر دیتی ہے۔

۳۴               حق سے مراد یا حقیقتِ موت یا امرِ آخرت جس کو انسان خود معائنہ کرتا ہے یا انجام کار سعادت و شقاوت اور سکرات کی حالت میں مرنے والے سے کہا جاتا ہے کہ موت۔

(۲۰) اور  صُور پھونکا گیا (ف ۳۵) یہ ہے  وعدۂ عذاب کا دن (ف ۳۶)

۳۵               بعث کے لئے۔

۳۶               جس کا اللہ تعالیٰ نے کفّار سے وعدہ فرمایا تھا۔

(۲۱) اور ہر جان یوں حاضر ہوئی کہ اس کے  ساتھ ایک ہانکنے  والا (ف ۳۷) اور ایک گواہ (ف ۳۸)

۳۷               فرشتہ جو اسے محشر کی طرف ہانکے۔

۳۸               جو اس کے عملوں کی گواہی دے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے فرمایا کہ ہانکنے والا فرشتہ ہو گا اور گواہ خود اس کا اپنا نفس۔ ضحاک کا قول ہے کہ ہانکنے والا فرشتہ ہے اور گواہ اپنے اعضائے بدن ہاتھ، پاؤں وغیرہ۔ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بَرسرِ منبر فرمایا کہ ہانکنے والا بھی فرشتہ ہے اور گواہ بھی فرشتہ۔ (جمل) پھر کافر سے کہا جائے گا۔

(۲۲) بیشک تو اس سے  غفلت میں تھا (ف ۳۹) تو ہم نے  تجھ پر سے  پردہ اٹھایا (ف ۴۰) تو آج تیری نگاہ تیز ہے  (ف ۴۱)

۳۹               دنیا میں۔

۴۰               جو تیرے دل اور کانوں اور آنکھوں پر پڑا تھا۔

۴۱               کہ تو ان چیزوں کو دیکھ رہا ہے جن کا دنیا میں انکار کرتا تھا۔

(۲۳) اور اس کا ہمنشین فرشتہ (ف ۴۲)  بولا یہ ہے  (ف ۴۳) جو میرے  پاس حاضر ہے۔

۴۲               جو اس کے اعمال لکھنے والا اور اس پر گواہی دینے والا ہے۔ (مدارک و خازن)

۴۳               اس کا نامۂ اعمال۔ ( مدارک)

(۲۴) حکم ہو گا تم دونوں جہنم میں ڈال دو ہر بڑے  ناشکرے  ہٹ دھرم کو۔

(۲۵) جو بھلائی سے  بہت روکنے  والا حد سے  بڑھنے  والا شک کرنے  والا (ف ۴۴)

۴۴               دِین میں۔

(۲۶) جس نے  اللہ کے  ساتھ کوئی اور معبود ٹھہرایا تم دونوں اسے  سخت عذاب میں ڈالو۔

(۲۷)  اس کے  ساتھی شیطان نے  کہا (ف ۴۵) ہمارے  رب میں نے  اسے  سرکش نہ کیا (ف ۴۶) ہاں یہ آپ ہی دور کی گمراہی میں تھا (ف ۴۷)

۴۵               جو دنیا میں اس پر مسلّط تھا۔

۴۶               یہ شیطان کی طرف سے کافر کا جواب ہے جو جہنّم میں ڈالے جاتے وقت کہے گا کہ اے ہمارے رب مجھے شیطان نے ورغلایا، اس پر شیطان کہے گا کہ میں نے اسے گمراہ نہ کیا۔

۴۷               میں نے اسے گمراہی کی طرف بلایا اس نے قبول کر لیا۔ اس پر ارشادِ الٰہی ہو گا اللہ تعالیٰ۔

(۲۸) فرمائے  گا میرے  پاس نہ جھگڑو (ف ۴۸) میں تمہیں پہلے  ہی عذاب کا ڈر سنا چکا تھا (ف ۴۹)

۴۸               کہ دارالجزا اور موقفِ حساب میں جھگڑا کچھ نافع نہیں۔

۴۹               اپنی کتابوں میں اور اپنے رسولوں کی زبانوں پر میں نے تمہارے لئے کوئی حجّت باقی نہ چھوڑی۔

(۲۹) میرے  یہاں بات بدلتی نہیں اور نہ میں بندوں پر ظلم کروں۔

(۳۰) جس دن ہم جہنم سے  فرمائیں گے  کیا تو بھر گئی (ف ۵۰) وہ عرض کرے  گی کچھ اور زیادہ ہے  (ف ۵۱)

۵۰               اللہ تعالیٰ نے جہنّم سے وعدہ فرمایا ہے کہ اسے جنّوں اور انسانوں سے بھرے گا، اس وعدہ کی تحقیق کے لئے جہنّم سے یہ سوال فرمایا جائے گا۔

۵۱               اس کے معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اب مجھ میں گنجائش باقی نہیں، میں بھر چکی۔ اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ابھی اور بھی گنجائش ہے۔

(۳۱) اور پاس لائی جائے  گی جنت پرہیزگاروں کے  کہ ان سے  دور نہ ہو گی (ف ۵۲)

۵۲               عرش کے دہنی طرف جہاں سے اہلِ موقف اس کو دیکھیں گے اور ان سے کہا جائے گا۔

(۳۲) یہ ہے  وہ جس کا تم وعدہ دیے  جاتے  ہو (ف ۵۳) ہر رجوع لانے  والے  نگہداشت والے  کے  لیے  (ف ۵۴)

۵۳               رسولوں کی معرفت دنیا میں۔

۵۴               رجوع لانے والے سے وہ مراد ہے جو معصیّت کو چھوڑ کر طاعت اختیار کرے۔ سعید بن مسیّب نے فرمایا اَوَّاب وہ ہے جو گناہ کرے، پھر توبہ کرے، پھر اس سے گناہ صادر ہو، پھر توبہ کرے اور نگہداشت والا جو اللہ کے حکم کا لحاظ رکھے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا جو اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھے اور ان سے استغفار کرے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی امانتوں اور اس کے حقوق کی حفاظت کرے۔ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو طاعات کا پابند ہو خدا اور رسول کے حکم بجا لائے اور اپنے نفس کی نگہبانی کرے یعنی ایک دم بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہو۔ پاس انفاس کرے، اگر تو پاسداری پاس انفاس: بسلطانی رسا نندت ازیں پاس : تر ایک پند بس در ہر دو عالَم : زجانت بر نیاید بے خدا دم۔

(۳۳) جو رحمن سے  بے  دیکھے  ڈرتا ہے  اور رجوع کرتا ہوا دل لایا (ف ۵۵)

۵۵               یعنی اخلاص مند، طاعت پذیر، صحیح العقیدہ دل۔

(۳۴) ان سے  فرمایا جائے  گا جنت میں جاؤ سلامتی کے  ساتھ (ف ۵۶) یہ ہمیشگی کا دن ہے  (ف ۵۷)

۵۶               بے خوف و خطر، امن و اطمینان کے ساتھ نہ تمہیں عذاب ہو، نہ تمہاری نعمتیں زائل ہوں۔

۵۷               اب نہ فنا ہے، نہ موت۔

(۳۵) ان کے  لیے  ہے  اس میں جو چاہیں اور ہمارے  پاس اس سے  بھی زیادہ  ہے  (ف ۵۸)

۵۸               جو وہ طلب کریں اور وہ دیدارِ الٰہی و تجلّیِ ربّانی ہے جس سے ہر جمعہ کو دارِ کرامت میں نوازے جائیں گے۔

(۳۶) اور ان سے  پہلے  (ف ۵۹) ہم نے  کتنی سنگتیں (قومیں ) ہلاک فرما دیں کہ گرفت میں ان سے  سخت تھیں (ف ۶۰) تو شہروں میں کاوشیں کیں (ف ۶۱) ہے  کہیں بھاگنے  کی جگہ (ف ۶۲)

۵۹               یعنی آپ کے زمانہ کے کفّار سے قبل۔

۶۰               یعنی وہ امّتیں ان سے قوی اور زبردست تھیں۔

۶۱               اور جستجو میں جا بجا پھرا کئے۔

۶۲               موت اور حکمِ الٰہی سے، مگر کوئی ایسی جگہ نہ پائی۔

(۳۷) بیشک اس میں نصیحت ہے  اس کے  لیے  جو دِل رکھتا ہو (ف ۶۳) یا کان لگائے  (ف ۶۴) اور متوجہ ہو۔

۶۳               دلِ دانا شبلی قدّس سرّہ نے فرمایا کہ قرآنی نصائح سے فیض حاصل کرنے کے لئے قلبِ حاضر چاہئے جس میں طرفۃ العین کے لئے بھی غفلت نہ آئے۔

۶۴               قرآن اور نصیحت پر۔

(۳۸)  اور بیشک ہم نے  آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے  چھ دن میں بنایا،  اور  تکان ہمارے  پاس نہ آئی (ف ۶۵)

۶۵               شانِ نزول : مفسّرین نے کہا کہ یہ آیت یہود کے رد میں نازل ہوئی جو یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین اور ان کے درمیانی کائنات کو چھ روز میں بنایا جس میں سے پہلا یک شنبہ ہے اور پچھلا جمعہ، پھر وہ معاذ اللہ تھک گیا اور سنیچر کو اس نے عرش پر لیٹ کر آرام کیا، اس آیت میں ان کا رد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ تھکے، وہ قادر ہے کہ ایک آن میں سارا عالَم بنا دے، ہر چیز کو حسبِ اقتضائے حکمت ہستی عطا فرماتا ہے۔ شانِ الٰہی میں یہود کا یہ کلمہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو بہت ناگوار ہوا اور شدّتِ غضب سے چہرۂ مبارک پر سرخی نمودار ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسکین فرمائی اور خطاب ہوا۔

(۳۹) تو ان کی باتوں پر صبر کرو اور اپنے  رب کی تعریف کرتے  ہوئے  اس کی پاکی بولو سورج چمکنے  سے  پہلے  اور ڈوبنے  سے  پہلے  (ف ۶۶)

۶۶               یعنی فجر و ظہر و عصر کے وقت۔

(۴۰) اور کچھ رات گئے  اس کی تسبیح کرو (ف ۶۷) اور نمازوں کے  بعد (ف ۶۸)

۶۷               یعنی وقتِ مغرب و عشاء و تہجّد۔

۶۸               حدیث : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے تمام نمازوں کے بعد تسبیح کرنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری )

حدیث : سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا جو شخص ہر نماز کے بعد تینتیس۳۳ مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس۳۳ مرتبہ، الحمد للہ تینتیس۳۳ مرتبہ اللہ اکبر اور ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھوعلی کل شیءٍ قدیر پڑھے اس کے گناہ بخشے جائیں چاہے سمندر کے جھاگوں کے برابر ہوں یعنی بہت ہی کثیر ہوں۔ (مسلم شریف)

(۴۱) اور کان لگا کر سنو جس دن پکارنے  والا پکارے  گا (ف ۶۹) ایک پاس جگہ سے  (ف ۷۰)

۶۹               یعنی حضرت اسرافیل علیہ السلام۔

۷۰               یعنی صخرۂ بیت المقدِس سے، جو آسمان کی طرف زمین کا سب سے قریب مقام ہے۔ حضرت اسرافیل کی ندا یہ ہو گی اے گلی ہوئی ہڈیو، بکھرے ہوئے جوڑو، ریزہ ریزہ شدہ گوشتو، پراگندہ بالو، اللہ تعالیٰ تمہیں فیصلہ کے لئے جمع ہونے کا حکم دیتا ہے۔

(۴۲) جس دن چنگھاڑ سنیں گے  (ف ۷۱) حق کے  ساتھ، یہ دن ہے  قبروں سے  باہر آنے  کا۔

۷۱               سب لوگ۔ مراد اس سے نفخۂ ثانیہ ہے۔

(۴۳) بیشک ہم جِلائیں اور ہم ماریں اور ہماری طرف پھرنا ہے  (ف ۷۲)

۷۲               آخرت میں۔

(۴۴) جس دن زمین ان سے  پھٹے  گی تو جلدی کرتے  ہوئے  نکلیں گے  (ف ۷۳) یہ حشر ہے  ہم کو آسان۔

۷۳               مردے محشر کی طرف۔

(۴۵) ہم خوب جان رہے  ہیں جو وہ کہہ رہے  ہیں (ف ۷۴) اور کچھ تم ان پر جبر کرنے  والے  نہیں (ف ۷۵) تو قرآن سے  نصیحت کرو اسے  جو میری دھمکی سے  ڈرے۔

۷۴               یعنی کفّارِ قریش۔

۷۵               کہ انہیں بزور اسلام میں داخل کرو، آپ کا کام دعوت دینا اور سمجھا دینا ہے  وکان ھذاقبل الامربالقتال۔