١۔ (۱) حضرت نوح علیہ السلام جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں، صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث شفاعت میں ہے کہ یہ پہلے رسول ہیں، نیز کہا جاتا ہے کہ انہی کی قوم سے شرک کا آغاز ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔
١۔ (۲) قیامت کے دن عذاب یا دنیا میں عذاب آنے سے قبل، جیسے اس قوم پر طوفان آیا۔
۲۔اللہ کے عذاب سے اگر تم ایمان نہ لائے اسی لیے عذاب سے نجات کا نسخہ تمہیں بتلانے آیا ہوں جو آگے بیان ہو رہا ہے۔
٢۔ (۱) اور شرک چھوڑ دو، صرف اسی کی عبادت کرو۔
٢۔ (۲) اللہ کی نافرمانیوں سے اجتناب کرو، جن سے تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا سکتے ہو،
٢۔ (۳) یعنی میں تمہیں جن باتوں کا حکم دوں اس میں میری اطاعت کرو، اس لئے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول اور اس کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔
٤۔اس کے معنی یہ کیے گیے ہیں کہ ایمان لانے کی صورت میں تمہاری موت کی جو مدت مقرر ہے اس کو مؤخر کر کے تمہیں مزید مہلت عمر عطا فرمائے گا اور وہ عذاب تم سے دور کر دے گا جو عدم ایمان کی صورت میں تمہارے لیے مقدر تھا۔ بلکہ لامحالہ واقع ہو کر رہنا ہے اسی لیے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ ایمان واطاعت کا راستہ فورا اپنا لو تاخیر خطرہ ہے کہ وعدہ عذاب الہی کی لپیٹ میں نہ آ جاؤ۔
٥۔ یعنی تیرے حکم کی تعمیل میں، بغیر کسی کوتاہی کے رات دن میں نے تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچایا ہے۔
٦۔ یعنی میری پکار سے یہ ایمان سے اور زیادہ دور ہو گئے ہیں۔ جب کوئی قوم گمراہی کے آخری کنارے پر پہنچ جائے تو پھر اس کا یہی حال ہوتا ہے، اسے جتنا اللہ کی طرف بلاؤ، وہ اتنا ہی دور بھاگتی ہے۔
٧۔ (۱) یعنی ایمان اور اطاعت کی طرف، جو سبب مغفرت ہے۔
٧۔ (۲) تاکہ میری آواز سن سکیں۔ تاکہ میرا چہرہ نہ دیکھ سکیں یا اپنے سروں پر کپڑے ڈال دیے تاکہ میرا کلام نہ سن سکیں
٧۔ (۳) یعنی کفر پر مصر رہے، اس سے باز نہ آئے اور توبہ نہیں کی۔
٧۔(۴) قبول حق اور امتثال امر سے انہوں نے سخت تکبر کیا۔
٩۔ یعنی مختلف انداز اور طریقوں سے انہیں دعوت دی۔ بعض کہتے ہیں، کہ اجتماعات اور مجلسوں میں بھی انہیں دعوت دی اور گھروں میں فرداً فرداً بھی تیرا پیغام پہنچایا۔
١٠۔ (۱) یعنی ایمان اور اطاعت کا راستہ اپنا لو، اور اپنے رب سے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگ لو۔
١٠۔ (۲) وہ توبہ کرنے والوں کے لئے بڑا رحیم و غفار ہے۔
١١۔ بعض علماء اسی آیت کی وجہ سے نماز استسقاء میں سورہ نوح کے پڑھنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ مروی ہے کہ حضرت عمر بھی ایک مرتبہ نماز استسقاء کے لئے منبر پر چڑھے تو صرف آیات استغفار (جن میں یہ آیت بھی تھی) پڑھ کر منبر سے اتر آئے۔ اور فرمایا کہ میں نے بارش کو، بارش کے ان راستوں سے طلب کیا ہے جو آسمانوں میں ہیں جن سے بارش زمین پر اترتی ہے (ابن کثیر)
۱۲۔یعنی ایمان و اطاعت سے تمہیں اخروی نعمتیں ملیں گی بلکہ دنیاوی مال و دولت اور بیٹوں کی کثرت سے بھی نوازے جاؤ گے۔
۱۳۔یعنی جس طرح اس کی عظمت کا حق ہے تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں ؟ اور اس کو ایک کیوں نہیں مانتے اور اس کی اطاعت کیوں نہیں کرتے۔
١٤۔ پہلے نطفہ، پھر علقہ، پھر مضغہ، پھر عظام اور لحم اور پھر خلق تام، جیسا کہ سورہ انبیا۔ ٥، المو منین۔ ١٤،٦٧ وغیرھا میں تفصیل گزری۔
۱۵۔جو اس کی قدرت اور کمال صناعت پر دلالت کرتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت کے لائق صرف وہی ایک اللہ ہے۔
١٦۔ جو روئے زمین کو منور کرنے والا اور اس کے ماتھے کا جھومر ہے۔ تاکہ اس کی روشنی میں انسان معاش کے لیے جو انسانوں کی انتہائی ناگزیر ضرورت ہے کسب و محنت کر سکے۔
١٧۔ یعنی تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو، جنہیں مٹی سے بنایا گیا اور پھر اس میں اللہ نے روح پھونکی۔ یا اگر تمام انسانوں کو مخاطب سمجھا جائے، تو مطلب ہو گا کہ تم جس نطفے سے پیدا ہوتے ہو وہ اسی خوراک سے بنتا ہے جو زمین سے حاصل ہوتی ہے، اس اعتبار سے سب کی پیدائش کی اصل زمین ہی قرار پائی ہے۔
١٨۔ یعنی، مر کر پھر اسی مٹی میں دفن ہونا ہے اور پھر قیامت والے دن اسی زمین سے تمہیں زندہ کر کے نکالا جائے گا۔
۱۹۔یعنی اسے فرش کی طرح بچھا دیا ہے تم اس پر اسی طرح چلتے پھرتے ہو جیسے اپنے گھر میں بچھے ہوئے فرش پر چلتے اور اٹھتے بیٹھتے ہو۔
۲۰۔یعنی اس زمین پر اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے کشادہ راستے بنا دیے ہیں تاکہ انسان آسانی کے ساتھ ایک دوسری جگہ، ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں جا سکے اس لیے یہ راستے بھی انسان کی کاروباری اور تمدنی ضرورت ہے جس کا انتظام کر کے اللہ نے انسانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔
٢١۔ لوگ میری نافرمانی پر اڑے ہوئے ہیں اور میری دعوت پر لبیک نہیں کہہ رہے۔ یعنی ان کے اپنے بڑوں اور صاحب ثروت ہی کی پیروی کی جن کے مال و اولاد نے انہیں دنیا اور آخرت کے خسارے میں ہی بڑھایا ہے۔
۲۲۔یہ مکر یا فریب کیا تھا بعض کہتے ہیں ان کا بعض لوگوں کو حضرت نوح علیہ السلام کے قتل پر ابھارنا تھا بعض کہتے ہیں کہ مال و اولاد کی وجہ سے جس فریب نفس کا وہ شکار ہوئے حتی کہ بعض نے کہا کہ اگر یہ حق پر نہ ہوتے تو ان کو یہ نعمتیں میسر کیوں آتیں ؟ بعض کے نزدیک ان کا کفر ہی بڑا مکر تھا۔
٢٣۔ یہ قوم نوح علیہ السلام کے وہ لوگ تھے جن کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اتنی شہرت ہوئی کہ عرب میں بھی ان کی پوجا ہوتی رہی، یہ پانچوں قوم نوح علیہ السلام کے نیک آدمیوں کے نام تھے، جب یہ مر گئے تو شیطان نے ان کے عقیدت مندوں کو کہا کہ ان کی تصویریں بنا کر تم اپنے گھروں اور دکانوں میں رکھ لو تاکہ ان کی یاد تازہ رہے اور ان کے تصور سے تم بھی ان کی طرح نیکیاں کرتے رہو، جب یہ تصویریں رکھنے والے فوت ہو گئے تو شیطان نے ان کی نسلوں کو یہ کہہ کر کہ شرک میں ملوث کر دیا کہ تمہارے آباء تو ان کی عبادت کرتے تھے جن کی تصویریں تمہارے گھروں میں لٹک رہی ہیں چنانچہ انہوں نے ان کی پوجا شروع کر دی (صحیح بخاری)
٢٤۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا اور اس کا مرجع یہی مذکورہ پانچ بت ہیں، اس کا مطلب ہو گا کہ ان کے سبب بہت سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام نے بھی کہا تھا۔
٢٦۔ یہ بددعا اس وقت کی جب حضرت نوح علیہ السلام ان کے ایمان لانے سے بالکل نا امید ہو گئے اور اللہ نے بھی اطلاع کر دی کہ اب ان میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا (ہود۔٣٦) مطلب ہے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔
۲۸۔(۱) کافروں کے لیے بد دعا کی تو مومنین کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔
٢٨۔ (۲) یہ بددعا قیامت تک آنے والے ظالموں کے لئے ہے جس طرح مذکورہ دعا تمام مومن مردوں اور تمام مومن عورتوں کے لئے ہے۔